جلسہ سالانہ کا خیروخوبی کے ساتھ اختتام اور جذبات تشکر

خطبہ جمعہ یکم اگست 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ (البقرۃ: 153)

الحمدللہ کہ جلسہ سالانہ یو کے بھی گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کے نظارے دکھاتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ برطانیہ کے جلسے کو خود ہی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ جہاں دنیا میں رہنے والے ہر احمدی کو اس جلسہ کا انتظار ہوتا ہے، اس کے لئے تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں، کچھ جو طاقت پرواز رکھتے ہیں، جلسہ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں حتیّٰ کہ غریب لوگ بھی جو ان کے پاس جمع پونجی ہوتی ہے خرچ کرکے اس جلسے پر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور صرف جلسے میں شامل ہو کرواپس چلے جاتے ہیں۔ اس سال بھی کئی لوگ مجھے ملے جو صرف جلسے کی غرض سے آئے اور جلسے کے اگلے ر وز واپس چلے گئے۔ یا کچھ لوگ ہیں جو اس جمعہ تک کا انتظار کر رہے ہیں اور اکثریت کی کل پرسوں کی فلائٹ ہے۔ بعض کو مَیں جانتا ہوں اتنی مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ اتنا خرچ کرکے آئیں خاص طور پر پاکستان سے آنے والے۔ لیکن جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں لینے اور خلیفۂ وقت سے ملنے کے لئے آتے ہیں۔ اس دفعہ کافی تعداد میں دنیا میں ہر جگہ مختلف ممالک میں احمدیوں نے ویزے کے لئے درخواستیں دی تھیں لیکن ہر جگہ جتنی تعداد میں درخواستیں دی گئی تھیں اس کے مقابلہ میں بہت کم ویزے ملے۔ جن کی درخواستیں رد ّکی گئیں انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں اپنی محرومیت کا اظہار کیا۔ لیکن اصل جذباتی کیفیت کا اظہار تو ان لوگوں کے خطوں سے ہوتا ہے جو وسائل بھی نہیں رکھتے کہ یہ امید کر سکیں کہ اگر اس دفعہ نہیں تو اگلے سال اللہ تعالیٰ ویزہ ملنے کا کوئی سبب بنا دے گا۔ ایسے جذباتی انداز میں اپنی محرومیت اور خلافت سے دُوری کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا بیان کرنا تو ایک علیحدہ بات ہے ایسے خط پڑھ کر بھی جذباتی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمائے کہ جلد یہ دُوریاں بھی قربتوں میں بدل جائیں۔ جتنی بھی کوشش ہو جائے یہاں آنے یا قادیان کے جلسہ میں شمولیت کے لئے چند ہزار سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکتے۔ لیکن پاکستان میں تو لاکھوں کا جلسہ ہوتا تھا۔ ربوہ کے چھوٹے سے شہر میں جب جلسے کے دنوں میں اتنا رش ہوتا تھا توسڑکوں پر چلنا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ بھی عجیب رونقیں تھیں اور عجیب بہاریں ہوتی تھیں۔ ایک عجیب روحانی ماحول ہوتا تھا۔ یہاں کے جلسے ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن بھی ضرور آئیں گے جب ربوہ کی رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی اور پاکستانی احمدی بھی ایک شان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہ اُسوہ ان کے سامنے ہو گا جو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ نے فتح مکّہ کے موقع پر اونٹ کے کجاوے پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے قائم فرمایا تھا۔

لیکن یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس سجدہ شکر کے حصول کے لئے ہمیں اُسوہ رسولﷺ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کے ہر دن کو سجدوں سے سجانا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام دُوریوں کے باوجود، تمام پابندیوں کے باوجود ہم پر یہ احسان فرمایا ہوا ہے کہ ایم ٹی اے کا ایک ذریعہ ہمیں عطافرمایا ہے، جس سے کچھ حد تک تو پاکستان کے رہنے والے یا ان ملکوں کے رہنے والے جہاں ہم آزادی سے جلسے نہیں کر سکتے یہ دیکھ کر اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں۔ پاکستان کے محروم احمدی ٹی وی کی سکرین پر جلسہ کے نظارے دیکھ لیتے ہیں، دعاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بعض باقاعدہ جلسہ کا ماحول بنا کر گھروں میں وہی لنگر خانے کی طرز کے کھانے، آلو گوشت اور دال وغیرہ پکاتے ہیں اور اپنے دل کی حسرت کسی حد تک پوری کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک طرف کی ان کی حسرت تو پوری ہو جاتی ہے۔ بغیر موجودگی کے کچھ نہ کچھ حد تک ان کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ لیکن میری جو اُن کو دیکھنے کی خواہش ہے وہ سکرین کی آنکھ سے پوری تو نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تصور کی آنکھ سے مَیں بھی وہ نظارے دیکھ لیتا ہوں جب خطوں میں ان نظاروں کا، ان جلسوں کا بڑی تفصیل سے ذکر ہوتا ہے۔

بہرحال اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ وہ دنیا کے ہر ملک کے احمدی کو جلسہ میں ایم ٹی اے کی وساطت سے شامل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ پس خاص طور پر پاکستانی احمدیوں کو اس شکر گزاری کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنے والا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ بہرحال بات تو جلسہ یو۔ کے سے شروع ہوئی تھی اور آج اسی کی ہونی ہے لیکن محرومی کے حوالے سے پاکستان کا ذکر شروع ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے UK کے جلسہ کا اختتام بہت کامیاب ہوا ہے۔ اس کے اختتام کے بعد دنیا کے ہر ملک سے احمدیوں کی جلسے کی کامیابی کی مبارکباد پر مشتمل فیکسوں اور خطوط کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ لیکن اس سال کے جلسہ کو ایک خاص اہمیت بھی حاصل ہے کہ میری روزانہ کی ڈاک میں بے شمار خطوط جلسہ کی مبارکباد کے جو آتے ہیں اس کا سلسلہ اپریل سے شروع ہے جب سے کہ گھانا اور نائیجیریا کے جلسے ہوئے۔ اور ان جلسوں کے حوالے سے اور خاص طور پر خلافت جوبلی کے سال کے حوالے سے جن ملکوں اور خاص طور پر پاکستان جہاں مَیں جا نہیں سکتا، وہاں سے مبارکباد کے خطوط بھی جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا بڑا جذباتی رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہرحال اپنی روایت کے مطابق آج کے خطبہ میں UK کے جلسے کے حوالے سے کچھ باتیں جو جلسہ کے ضمن میں ہیں، لوگوں کے تأثرات ہیں اور اسی طرح ایک احمدی کو بھی اس کا کس طرح شکر گزار ہونا چاہئے، اس بارے میں مختصراً ذکر کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جیسا کہ مَیں نے جلسہ کے آخری دن بتایا تھا اس سال یہاں کے جلسہ کی حاضری 40ہزار سے اوپر تھی۔ گو کہ ابھی تک جو جلسے خلافت جو بلی کے حوالے سے ہو رہے ہیں ان میں گھاناکا جلسہ سب سے بڑا تھا، جس میں حاضری ایک لاکھ سے اوپر تھی۔ لیکن نمائندگی کے لحاظ سے 85 ممالک کی نمائندگی اتنی بڑی تعداد میں صرف یہاں کے جلسہ میں ہی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں اتنے ملکوں کی نمائندگی مخالفین کے لئے یقینا ایک تازیانہ ہے لیکن ہمیں یہ بات اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہونی چاہئے۔

اس دفعہ بھی ہمیشہ کی طرح بہت سے غیر از جماعت، مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی، اس ملک سے بھی اور بیرونی دنیا سے بھی ہمارے جلسہ میں شامل ہوئے جو اچھے اور نیک جذبات اور خیالات جماعت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ کچھ نے اپنے خیالات کا اظہار بھی جلسہ کے دنوں میں کیا جو آپ لوگوں نے سنا۔ ہر ایک نے عمومی طور پر جلسہ کے انتظامات کی تعریف کی اور جماعت کی تعلیم کی تعریف کی، احمدیوں کے سلوک سے بہت متاثر ہوئے۔ تو یہ جلسہ جہاں ہماری روحانی بہتری اور تربیت کا ذریعہ بنتاہے وہاں ان جلسوں سے جو مختلف ممالک میں ہوتے ہیں اور یہ جلسہ بھی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ مجھے جو بھی ملے سب نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ تقریروں کے معیار بھی اور ان تقریروں کے نفس مضمون بھی ایسے تھے کہ جنہوں نے ہمیں نئی روشنی عطا کی ہے۔

نائیجیریا کے ایک پڑھے لکھے اور مسلمان سکالر ہیں، انہوں نے اس بات کا برملا کھل کر اظہار کیا کہ مَیں جماعت احمدیہ کے بارے میں بہت کچھ سنتا تھا، تعلقات تھے، لیکن دل میں شکوک و شبہات تھے کہ یہ لوگ ہیں کیسے؟ ان کے عمل کیا ہیں اور ان کی تعلیم کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ جو کچھ مَیں نے یہاں دیکھا اس کے بعدمَیں اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حقیقی اسلام صرف تمہارے پاس ہے۔

بلغاریہ کا وفد آیا ہوا تھا، اس میں بھی بعض ایسے ممبران تھے جو احمدی نہیں ہیں۔ وہ بھی جماعت کے پرانے تعلق رکھنے والے ہیں، وہ بھی یہ دیکھنے آئے تھے، ان میں سے کچھ جرمنی میں بھی شامل ہوتے رہے ہیں کہ جماعت کی تعلیم کیا ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں۔ بلغاریہ بھی یورپ کا ایک واحد ملک ہے جہاں جماعت کی مخالفت ہے۔ کیونکہ یہ مسلمان ملک ہے ان کی مسلم کونسل کا اثر حکومت پر ہے، جماعت کی وہاں رجسٹریشن میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ تو ان غیر از جماعت نے بھی یہی اظہار کیا کہ ہم نے دیکھا اور سنا اور لوگوں سے ملے، حقیقی اور اصلی اسلام ہمیں یہیں نظر آیا ہے۔

جلسہ کے دنوں میں عموماً باہر سے آئے ہوئے مہمانو ں کو وقت دیا جاتا ہے جس میں چند منٹ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، آپ لوگ سنتے رہے۔ ایک اسلامی ملک کے دو غیر از جماعت بھی یہاں آئے ہوئے تھے جن کا یہ شکوہ تھا کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا۔ تو بہرحال آئندہ انتظامیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر ملک کو اگر وقت نہیں دیا جاسکتا تو کم از کم ہر علاقے جن میں ملکوں کے لحاظ سے تقسیم ہو، ان غیر از جماعت کی نمائندگی ہونی چاہئے جو وہاں کی جماعتوں سے پتہ کرکے آتے ہیں۔ جلسہ کے تمام پروگراموں میں جو مجھے غیروں کی طرف سے اعتراض ملے وہ دو تھے۔ ایک تو یہی کہ ہمیں وقت نہیں دیا گیا، ہمیں بولنے کا وقت دیا جانا چاہئے تھا اور دوسرا یہ اعتراض تھا کہ پروگرام وقت پہ شروع نہیں ہوتے رہے۔ حالانکہ جہاں تک مجھے علم ہے بعض حالات کی وجہ سے اگر کوئی دیر ہوئی ہے تو چند منٹ کے علاوہ عموماً پروگرام وقت پہ شروع ہوتے رہے ہیں۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنا وسیع انتظام ہے اور تمام انتظام عارضی بنیادوں پر ہے۔ اگر کسی بات پر چند منٹ کی دیر ہو جائے تو اس کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ مثلاً بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ کھانا وسیع انتظام کے تحت ہے، وقت پر ختم نہیں ہوا یا ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لوگوں کے آنے میں کوئی دقّت ہو گئی کیونکہ لوگ مختلف جگہوں سے آ رہے ہوتے ہیں۔ پھر مہمان مقررین کو جو وقت دیا جاتا ہے جب وہ بول رہے ہوتے ہیں تو اپنے مقررہ وقت سے بعض دفعہ زائد بول جاتے ہیں اس لئے پھر ہر پروگرام آگے چلتا چلا جاتا ہے اور ہم ان کو مہمان ہونے کی وجہ سے، اس کی مہمان کی ایک حیثیت ہے اس وجہ سے روک نہیں سکتے۔ تو ان وجوہات کی وجہ سے اگر پروگرام لیٹ ہو جاتا ہے تو امید ہے وہ ہماری معذرت قبول کریں گے۔ لیکن وہ صاحب بھی بڑے پکّے تھے کوئی نہ کوئی اعتراض تو انہوں نے ڈھونڈنا تھا لیکن عمومی طور پر اچھا تاثر تھا۔ یہ اعتراض تو اس لئے کہ ہر کوئی وہاں بیٹھا تعریف کر رہا تھا۔ اس بات پہ وہ بضد رہے کہ وقت کی پابندی ہونی چاہئے۔ کہنے لگے کہ مَیں نے بڑی بڑی کانفرنسیں اٹینڈ (Attend) کی ہیں جن میں و قت کی پابندی ہوتی ہے تو مَیں نے ان سے کہا کہ اس سے انکار نہیں کہ وقت کی پابندی ہونی چاہئے۔ لیکن جو کانفرنسیں آپ اٹینڈ (Attend) کرکے آتے ہیں، بیرونی دنیا میں آپ نے دیکھی ہوں گی وہ کانفرنسیں جہاں منعقد ہوتی ہیں وہاں سارے انتظامات وہیں موجود ہوتے ہیں اور اس طرح مختلف طبقوں کی اتنی بڑی تعداد بھی وہاں نہیں ہوتی۔ پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، ایک محدود طبقہ ہوتا ہے۔ تو بہرحال باتیں ہوتی رہیں۔ اس بات کو انہوں نے تسلیم کیا کہ جماعت کا ڈسپلن اور اطاعت اور آپس کی محبت واقعی بہت اعلیٰ اور مثالی ہے۔ اور پھر مجھے کہنے لگے کہ تمہارے پروگرام جہاں تم شامل ہوتے تھے ذاتی طور پر وہ تقریباً وقت پہ شروع ہوتے رہے اور تمہاری باتیں بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق اور بڑی اعلیٰ باتیں تھیں۔ مَیں نے انہیں کہا کہ کم از کم آپ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری باتیں اچھی ہیں، لوگوں میں اطاعت کا مادہ ہے، روحانی ماحول ہے اور یہی باتیں آپ کے لئے اور آپ کے علماء کے لئے کافی ہونی چاہئیں کہ جماعت احمدیہ کی لیڈر شپ اور جماعت کے افراد بہرحال اچھے ہیں اور یہ لیڈر شپ خلافت کی وجہ سے جماعت کو صحیح راستے پر چلا رہی ہے اور جماعت کے افراد میں اطاعت کا مادہ ہے۔ مَیں نے ان کو کہا آپ نے خود ہی کہہ دیا، یہی پیغام اپنے علماء کو دے دیں جو جماعت کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں۔ پس ان لوگوں کے لئے اب یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ جماعت کے پاس خلافت ہے جس سے وہ لوگ محروم ہیں اور اس وجہ سے ان میں وہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی جس کے لئے وہ کوشش کر رہے ہیں۔ پس اگر باقی اعتراضوں کے باوجود مجھے براہ راست انہوں نے اعتراض کا نشانہ نہیں بنایا تو یہ کوئی میری ذات کی بڑائی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے وعدے کے مطابق خلافت کا رعب قائم کرنا ہے۔ گو کہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو منہ پر آپ کے کچھ کہہ بھی جاتے ہیں، کہہ سکتے ہیں، آج تک کسی نے کہا تو نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لیکن جس میں ہلکی سی بھی شرافت ہے وہ اعتراض بھی جب کرتے ہیں تو محتاط رنگ میں کرتے ہیں۔ بہرحال یہ اعتراض کی باتیں بھی مَیں نے اس لئے بتا دیں کہ ہم نے تو بہرحال بہتری کی تلاش میں رہنا ہے اور رہتے ہیں اس لئے آئندہ ہم اپنے اندر مزید بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں اور کر سکیں، وقت کی پابندی کے لحاظ سے بھی اور مہمانوں کا خیال رکھنے کے لحاظ سے بھی۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عمومی طورپر ہر ایک نے جلسہ کے پروگرام کو بہت سراہا ہے۔

یوگنڈا کی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکربھی آئی ہوئی تھیں انہوں نے وہاں شاید تقریر بھی کی ہے۔ مجھے ملیں اور کہنے لگیں کہ جو تم نے عورتوں میں تقریر کی تھی اس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ کہنے لگیں کہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں لوگ تقریریں کرتے ہیں لیکن حقوق ہونے چاہئیں تک رہتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ عورت کا حق کیاکیاہے۔ تم نے جس طرح قرآن کریم کی روشنی میں بتایا ہے یہ مَیں نے اس تفصیل سے پہلی دفعہ سنا ہے۔ اتنے واضح حقوق عورت کے اسلام نے بیان کئے ہیں۔ تو وہ شاید عیسائی ہیں، کہتی ہیں مَیں تو اس تعلیم سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔ یہی اظہار قازقستان سے آئی ہوئی وہاں کی ایک سیاسی لیڈر نے کیا ہے۔ کہنے لگیں مَیں د عا کرتی ہوں، یہ سب ماحول دیکھنے کے بعد اور تم لوگوں کی باتیں سننے کے بعد، تمہاری تقریریں سننے کے بعد کہ تمام دنیا جماعت کے جھنڈے تلے آ جائے۔

ہمارا جھنڈا کیا ہے؟ احمدی تو وہ جھنڈا لہراتا ہے جو آنحضرتﷺ نے لہرایا وہ تعلیم بتاتا ہے جو آنحضرتﷺ نے بتائی۔ پس یہ تو احمدی کا کام ہے ہی کہ تمام دنیاکو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرے اور یہ انشاء اللہ ایک دن ضرور ہو گا۔

ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ بچے جو پانی پلانے کی ڈیوٹی پر تھے وہ آ آ کر پانی پیش کرتے تھے اور جب ان سے پانی لے لو تو ان کے چہروں سے بڑی خوشی ظاہر ہوتی تھی، چہرے چمک اٹھتے تھے۔ یہی بات ہمارے آئیوری کوسٹ سے آئے ہوئے ایک عیسائی مہمان نے مجھ سے کہی جو وہاں سیاسی لیڈر ہیں، حکومت میں ہیں۔ کہتے ہیں جب بچے چائے اور پانی سرو (Serve) کر رہے ہوتے تھے تو عجیب طمانیت ان بچوں کے چہروں پر ہوتی تھی۔ اگر ان سے نہ لو تو ان کے چہروں پر بڑی افسردگی سی طاری ہو جاتی تھی۔ اس لئے مجبوراً ہر دفعہ جب بھی وہ آتے تھے، چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو ان سے جو بھی وہ پیش کر رہے ہوں لینا ہی پڑتا تھا اور جب ان سے چیز لے لو تو ان کے چہرے کھل اٹھتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے خوشی ان کے دلوں سے پھوٹی پڑتی ہے۔

پس یہ ہیں احمدی بچے جن کے دلی جذبات مہمانوں کی خدمت کرکے پھولے پڑتے ہیں۔ دنیا تو’دیدہ و دل فرش راہ‘کا جو اردو کا محاورہ ہے اکثر مبالغہ کے طورپر استعمال کرتی ہے لیکن احمدی خاص طور پر جو جلسہ کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے احمدی ہیں بڑے سے لے کر بچے تک اس کی روح کو سمجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کرکے اس کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ کیوں؟اس لئے کہ ہر ایک کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے اور خواہش بھی ہے کہ مہمان کی خدمت کرے اور اس لئے کرے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا یہ حکم ہے۔ پس مبارکباد کی مستحق ہیں وہ مائیں جن کی گودوں سے ایسے بچے اور بچیاں نکل رہی ہیں جو عشق رسول عربی ااور احمد ہندی کی وفا کی وجہ سے آپؑ کے مہمانوں کی خدمت کرکے دلی سرور حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک مہمان نے اطاعت اور ڈسپلن کی یہ مثال دی کہ ایک موقع پر جب نعرے لگ رہے تھے۔ ہر ایک انتہائی جوش کی حالت میں تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ اس وقت تم نے جب کہا کہ خاموش ہو جاؤ تو ایک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ تو کہنے لگے کہ یہ نظارہ تو نہ کبھی پہلے دیکھا تھا اور نہ سنا تھا اور یہ نظارے یقینا آج کہیں اور دیکھے اور سنے جا بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ آج مسیح محمدی کے علاوہ کسی کے ساتھ تائیدات الٰہی شامل ہونے کا اللہ تعالیٰ کاو عدہ نہیں ہے اور نہ ہی اخلاص و وفا میں بڑھنے والی اور اطاعت گزار جماعت دینے کا وعدہ کسی اور سے خداتعالیٰ کا ہے۔ پس دلوں پر تصرف تو صرف خداتعالیٰ کا ہے اور وہی ہے جو اطاعت کی حالت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر سکتا ہے اور پیدا کرتاہے جنہیں اس نے مسیح محمدی کا غلام بنایا ہے اور نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غلام بنایا ہے بلکہ آپؑ کے بعد خلافت احمدیہ سے بھی ایک اخلاص و وفا کا اور اطاعت کا تعلق پیدا فرما دیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص و محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔ بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوش اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’غور سے دیکھا جاوے توجو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے۔ وہ زمانہ بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں ہے۔ …… ان لوگوں کی تبدیلی تو حیرت میں ڈالتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 536 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’خداتعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا کہ ایسی جماعت تیارکرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے‘‘۔

پس یہ اخلاص اور وفاجو جماعت میں ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کی وجہ سے ہے اور لوگوں سے محبت یا آپؑ کے مہمانوں کی خدمت کا جذبہ ہر بچے بوڑھے میں اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناچاہتے ہیں اور یہی ایک بہت بڑی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صادق اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت چاہا کہ صادق کو بھیج کر اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے والے تیار کرے۔ پس ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ غیر بھی اس بات کا برملا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ جماعت سچوں کی جماعت ہے۔

اس دفعہ جلسہ کی ایک رونق اور میڈیا میں مشہوری کی وجہ جرمنی سے آئے ہوئے سائیکل سوار بھی تھے۔ یہ 100 نوجوان سائیکل سواروں کا گروپ تھا۔ یہ بھی اخلاص و وفا کا ایک اظہار ہے جو اس معاشرے کے رہنے والے نوجوانوں کے دل میں ہے اور خلافت احمدیہ سے ایک تعلق ہے کہ خلافت کے 100سال پورے ہونے پر انہوں نے 100سائیکل سواروں کا گروپ تیار کیا۔ لیکن یہاں ایک وضاحت کر دوں، اس بارہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس میں پہل افریقہ نے کی ہے۔ یورپ میں رہنے والوں کی قربانی بھی بہت ہے لیکن تاریخ تو ٹھیک ہونی چاہئے۔ یہ وضاحت مَیں اس لئے کر رہاہوں کہ جلسہ کے دنوں میں اتفاقاً مَیں نے ایک دن ٹی وی پر ایم ٹی اے آن (On) کیا تو وہاں یہ گفتگو ہو رہی تھی سٹوڈیو میں بیٹھے لوگوں کی کہ پہلی دفعہ اتنی تعداد میں سائیکل سوار جلسے میں شامل ہوئے ہیں۔ اگر تو وہ ساری گفتگو یورپ کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن گفتگو کرنے کے دوران میرا خیال ہے شمس صاحب نے شاید کینیڈا کے سائیکل سواروں کی مثال دے کر یہ تاثر قائم کر دیا کہ گویا دنیا میں یعنی احمدی دنیا میں یہ پہلا واقعہ ہوا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پاکستان میں جب اجتماعات ہوتے تھے کافی بڑی تعداد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تحریک پر سائیکل سوار آیاکرتے تھے۔ خدام نے جو یہ کام شروع کیا ہے اگر اس کو جاری رکھیں تو آج کل دنیا میں جو پیٹرول کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے اور مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے، کم از کم نوجوان تو اس سے بچ سکتے ہیں اور ایکسرسائز (Exercise) کی ایکسرسائز (Exercise) ہے، ورزش ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اس تحریک کا اس زمانے میں بڑا فائدہ ہوا تھا۔ مجھے بھی یاد ہے مَیں اس زمانے میں فیصل آباد میں پڑھتا تھا۔ اس تحریک کی وجہ سے مجھے سائیکل سفر کی عادت پڑ چکی تھی۔ تو جلسہ کے بعد ایک دفعہ فیصل آباد جانے کے لئے مَیں بس کے اڈے پہ آیا تو ان دنوں میں بہت رَش ہوتا ہے۔ جنہوں نے ربوہ کا جلسہ دیکھا ہو ان کو پتہ ہو گا۔ میرے ساتھ میرے ایک عزیز بھی تھے تو آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد مَیں نے کہا چلو بہتر یہ ہے کہ سائیکل پہ چلتے ہیں۔ ہم دونوں گھر آئے وہاں سے سائیکل لیا اور سائیکل پہ بیٹھ کے آرام سے فیصل آباد پہنچے گئے۔ اگلے دن میرا پیپر تھا یا جو بھی ایمرجنسی تھی۔ تو اگر ہمیں پہلے عادت نہ ہوتی تو شاید چھ گھنٹے تک بس کے انتظار میں کھڑے رہنا پڑتا، تو بڑا فائدہ ہو جاتا ہے سائیکل سواری کا۔

بہرحال اس سال گھانا کے جلسہ پر جیسا کہ مَیں نے کہا، افریقہ نے پہل کی ہے۔ برکینا فاسو سے 300 نوجوانوں کا قافلہ آیا تھا اور انہوں نے سولہ، سترہ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ امیر صاحب جرمنی گو کہ اپنے سائیکل سواروں کو بڑا پروٹیکٹ (Protect) کر رہے تھے کہ ہماری سڑکوں پر رَش بڑا ہوتا ہے، اس لحاظ سے ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن برکینا فاسو کے ان افریقن نوجوانوں کا بھی بڑا کارنامہ ہے کہ وہاں ان کی سڑکیں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں اور سائیکل بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ بلکہ وہاں کے اخباروں نے خبر لگائی کہ کیا یہ ٹوٹے ہوئے سائیکل اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے۔ پھر بیچاروں کو خوراک کی آسانیاں بھی پوری طرح میسر نہیں تھیں۔ پھر گرمی بھی بے انتہا تھی۔ تو یہ ساری چیزیں اگر دیکھیں تو ان لڑکوں نے بڑی ہمت کی ہے۔

بہرحال اگر دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو خلافت جوبلی کے جلسوں میں سائیکل سواروں کی شمولیت کے لحاظ سے نمبر ایک بورکینا فاسو کے خدام ہیں۔ لیکن سائیکل سفر کی جو رو چلی ہے اسے اب جاری رہنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا سائیکل سفر بڑا فائدہ مند چیز ہے۔ افریقہ کے تجربہ سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے اور جرمنی کے سائیکل سواروں سے بھی، کہ تبلیغ کے راستے بھی بڑے کھلتے ہیں۔ جماعت کا تعارف بڑھتا ہے۔ جرمنی میں بھی سفر شروع کرنے سے پہلے میڈیا نے وہاں جرمنی کے ایک شہر سے کوریج دی، اور پھر جب یہاں پہنچے ہیں تو یہاں بھی میڈیا نے ان سائیکل سواروں کو کافی کوریج دی تھی۔ جویقینا جماعت کے تعارف کا باعث بنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جرمنی سے آنے والے نوجوانوں کے اخلاص و وفا کو بھی بڑھائے۔ آج ہم جماعت کے نوجوانوں اور بچوں میں جو یہ قربانی دیکھتے ہیں تو یہ ان کا خلافت سے اخلاص و وفا کا اظہار ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ خداتعالیٰ ان کو مزید اخلاص و وفا میں بڑھائے۔

بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مختلف نظارے ہم نے دیکھے اور اس کا اثر جیسا کہ مَیں نے کہا غیر احمدی مہمانوں پر بھی بہت ہوا اور کئی ایک نے اس کا اظہار بھی کیا، چند ایک مَیں نے مثالیں دی ہیں۔ بعض مہمانوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ جماعت کی وفا اور اخلاص ہی ہے اگر قوموں میں پیدا ہو جائے تو دنیا میں یہ چیزیں انقلاب لایا کرتی ہیں۔ بعضوں نے جو اظہار کیا بالکل ٹھیک بات کی ہے لیکن کہنا مَیں یہ چاہتا ہوں کہ جب یہ جذبات دنیا کے سامنے آئیں تو حاسد بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کے لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو بچائے۔ یہ تمام انتظامات جو جلسہ سالانہ کے تھے اور ہوتے ہیں یہ ہم سب جانتے ہیں کہ والنٹیئرز کے ہوتے ہیں ان سے مختلف شعبہ جات میں کام لیا جاتا ہے۔ 40-35 شعبہ جات مردوں میں تھے اور اتنے ہی عورتوں میں جن میں کام کرنے والے افسران صیغہ جات بھی ہوتے ہیں، نائبین بھی ہوتے ہیں، منتظمین بھی ہوتے ہیں معاونین بھی ہوتے ہیں اور کام کابہت بڑا حصہ معاونین نے سنبھالا ہوتا ہے۔ گو افسر پالیسی بنا کر دے دیتے ہیں لیکن معاونین کام کرنے والے ہوتے ہیں جن میں بچے بھی ہیں، بچیاں بھی ہیں۔ نوجوان بھی، چھوٹی عمر کے بھی ہیں۔ ان شعبہ جات میں، کچھ تو ظاہری شعبہ جات ہیں، سب جانتے ہیں۔ ایک شعبہ ترجمانی کا بھی ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمہ کررہے ہوتے ہیں۔ تقریباً اس دفعہ جلسہ پر اڑھائی ہزار لوگوں کے لئے مختلف زبانوں میں ترجمے کا کام ہو رہا تھا۔

اس حوالے سے میں واقفین نو بچوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں، خاص طور پر بچیاں کہ زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ آئندہ یہ ضرورت بڑھتی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں مستقل اپنے واقفین چاہئیں اور وہ واقفین نو میں سے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ پھر جو کارکن مختلف شعبہ جات میں مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے، ان کی تعداد مردوں اور لڑکوں کی تقریباً 3500 تھی جو جلسہ کی خدمت پر مامور تھے۔ اسی طرح لجنہ میں عورتوں اور بچیوں کی تعداد 1800تھی اور تمام بڑی خوشدلی سے یہ کام کر رہے تھے۔ مہمانوں کو بھی جو آئے ہوئے ہیں ان سب کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے جو کام کرنے والے کارکنان ہیں جو جلسہ گاہ میں تھے وہ تقریباً 110 تھے۔ سب تقریباً والنٹیئرز تھے۔ ویسے تو 180 کارکن ہیں جو ہر وقت ایم ٹی اے میں کام کر رہے ہیں جنہوں نے بیرونی دنیا کے احمدیوں کے لئے بھی جلسہ دیکھنے کا انتظام مہیا کیا۔ تو دنیا میں بسنے والے تمام احمدیوں کو بھی اس شکر گزاری کے طور پر ان لوگوں کے لئے بھی بہت دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جنہوں نے آپ کو یہاں آنے والوں کو بھی اور باہر کی دنیا کو بھی جلسے کے انتظامات اور اس کے دیکھنے کو آسان بنایا اور یہی شکر گزاری ہے جس کا حکم ہے۔

اسی طرح تمام کارکنان کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے انہیں توفیق عطافرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر سکیں۔ پس یہ باتیں ہمیں ہمیشہ شکر گزار بناتی ہیں اور بنانی چاہئیں۔ شامل ہونے والوں کو بھی کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جمع ہونے کا موقع ملا اور اللہ تعالیٰ نے تمام کام اپنے فضل سے آسانی سے اپنے انجام تک پہنچائے اور خدمت کرنے والوں کو بھی کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر انہیں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اور شامل ہونے والوں کی شکر گزاری کا ایک یہ بھی اظہار ہے کہ اس جلسہ کے ماحول میں جو کچھ نیک باتیں سننے اور دیکھنے کا موقع ملا اللہ تعالیٰ سے فضل مانگتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں۔ کام کرنے والوں کو بھی یہ د عا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیکیوں میں بڑھنے اور خدمت کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے جس کی تلاوت مَیں نے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرکے ہمیشہ شکر گزار بنتے رہیں۔ اس مادی ماحول میں جہاں ہر طرف شیطان اپنے سازوسامان کے ساتھ راستے سے بھٹکانے کے لئے کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے لئے اپنی روحانی ترقی کی بہتری کے لئے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ پس یہ جلسے روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں اور صرف یہاں بیٹھے ہوئے شامل ہونے والوں کے لئے نہیں بلکہ اب ایم ٹی اے کے ذریعے سے دنیا میں ہر احمدی اس میں شامل ہوتا ہے اور اس ماحول سے اثر لیتا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ غیر تو اثر لے کر اس کا اظہار کردیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والوں پر ان کا اثر نہ ہو۔ یقینا اثر ہوتا ہے اور ہر روز اس بارے میں مجھے خط آ رہے ہیں۔ فیکسز آ رہی ہیں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اور اس جلسہ کے بارہ میں تو ہر ایک کا یہی تاثر ہے کہ ایک خاص ماحول میں یہ جلسہ ہوتا نظر آیا تھا جو گزشتہ جلسوں سے منفرد لگتا تھا۔ یہاں شامل ہونے والوں نے بھی یہی محسوس کیا ہے اور ایم ٹی اے دیکھنے والوں نے بھی یہی محسوس کیا ہے۔

پس یہ تمام چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بنانے والی ہونی چاہئیں تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں گے اور ان جلسوں کے انعقاد کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں گے اور اس کے لئے جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اور اس آیت میں بھی ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرا ذکر کرتے رہو، مجھے ہمیشہ یاد رکھو، میرے حکموں پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر مَیں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یعنی تمہیں نیکیوں میں بڑھاتا رہوں گا اور یہی حقیقی شکر گزاری ہے اور نیکیوں میں اللہ تعالیٰ کا بڑھانا اس شکر گزاری کی جزا ہے۔

پھر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ہمیں مانگتے رہنا چاہئے کہ جو نیکیاں ہم نے سیکھیں اور سنیں ان کو اپنے اندر رائج کرنے کی کوشش کریں اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آ جائیں۔ پس یہ باتیں ہر احمدی کو ہر وقت مدنظر رکھنی چاہئیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعامات ہم پر بڑھتے چلے جائیں۔ ہم ہمیشہ آنحضرتﷺ کے سچے غلاموں میں شامل ہو کر اپنے اعمال میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے۔ آپؐ کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک ہر شہر اور ہر گلی میں لہرانے والے بن سکیں۔ خداتعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک حدیث میں آنحضرتﷺ کی ایک دعا کا ذکر ملتا ہے اسے بھی ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ آپؐ یہ د عا اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ اے میرے ربّ مجھے اپنا شکر گزار، اپنا ذکر کرنے والا، اپنے سے ڈرنے والا اور اپنا کامل اطاعت گزار اور اپنے حضور عاجزی کرنے والا بنا دے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس دعا کو اپنی دعاؤں میں ان کا خاص حصہ بنا کر اپنے حق میں اسے قبول ہوتے ہوئے دیکھیں آمین۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا کہ:

ابھی جمعہ کے بعد مَیں ایک حاضرجنازہ پڑھاؤں گا اور اس کے ساتھ ہی ایک جنازہ غائب ہے مکرم پیر ضیاء الدین صاحب کا۔ جو حضرت پیر اکبر علی صاحب کے بیٹے اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے داماد تھے۔ گزشتہ دنوں وہ فوت ہو گئے جب مَیں دورہ پہ تھا۔ تو ان کی نماز جنازہ غائب بھی ساتھ ہی ہو گی۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ نمبر 34 مورخہ 22 اگست تا 28 اگست 2008ء صفحہ 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • یکم اگست 2008ء شہ سرخیاں

    جلسہ کے مدعووین اور مہمانوں کے تاثرات، ہماراجھنڈاوہ ہے جومحمدﷺ نے لہرایا، ہماری تعلیم وہ ہے جو آنحضرتﷺ نے بتائی، جماعت کے اندرنیک تبدیلی، سائیکل سفر کی تحریک اس کی اہمیت وافادیت، جلسہ سالانہ میں سائیکل سواروں کی شرکت، واقفین نوبچوں خصوصاً بچیوں کو زبانیں سیکھنے کی تحریک، ایم ٹی اے اور دوسرے کارکنان کے لئے دعا۔

    فرمودہ مورخہ یکم ؍اگست 2008ء بمطابق یکم؍ظہور 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور