مساجدکی اہمیت اور بنیادی مقاصد

خطبہ جمعہ 15؍ اگست 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَاَقِیْمُوا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ (الاعراف: 30)

عموماً جرمنی کے جلسہ سے پہلے مَیں جب بھی جرمنی آیا ہوں، فرینکفرٹ کے علاوہ کہیں دوسری جگہ نہیں جاتا، نہ گیا ہوں۔ بلکہ اس دفعہ جلسہ جرمنی جلدی ہو رہا ہے اس لئے لندن سے بھی جرمنی کے لئے جلد روانہ ہونا پڑا اور UK کے جلسے میں باہر سے جو مہمان آئے ہوئے تھے ان سے ملاقاتیں بھی بڑی تیزی سے کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ خاصی بڑی تعداد UK میں اس دفعہ پاکستان سے بھی اور دوسرے ملکوں سے آئی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ بہت سارے لوگ ملاقاتوں سے رہ بھی گئے کیونکہ جلد جرمنی آنا پڑا۔ ایک تو وجہ ایک ہفتہ پہلے جرمنی کا جلسہ سالانہ اس دفعہ منعقد ہو رہا ہے۔ دوسرے امیر صاحب جرمنی کا بڑا زور تھا کہ ہمبرگ آئے ہوئے بڑا عرصہ ہو گیا اس لئے یہاں کا بھی دورہ ہو جائے اور یہاں قریب ہی مساجد بھی بنی ہیں ان کا افتتاح بھی ہو جائے۔ گویا دو مساجد کا افتتاح ہو گا۔ ایک تو کل ہو چکا ہے جو سٹاڈے میں بیت الکریم ہے اور دوسرے کل انشاء اللہ واپسی پر ہینوور (Hannover) میں بیت السمیع کا افتتاح ہو گا۔

کیونکہ رمضان بھی اس سال جلدی آ رہا ہے اس لئے جلسہ کے بعد جو مساجد کے افتتاح کے پروگرام عموماًہوا کرتے ہیں، ان کو پہلے کرنا پڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے جلسہ کے بعد پھر رکنے کا سوال نہیں تھا۔ تو بہرحال آج مساجد کے موضوع پر ہی میں بات کروں گا۔

مساجد جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور اس لحاظ سے یہ مساجد ایک احمدی مسلمان کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں اور ہونی چاہئیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر مَیں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جہاں بھی ہو سکے خود جا کر ان مساجد کا افتتاح کروں۔ گزشتہ پانچ سال میں جرمنی میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کی توجہ مساجد کی تعمیر کی طرف بہت زیادہ ہوئی ہے اور مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی روشنی میں جماعت کو اس طرف توجہ بھی دلاتا رہتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جہاں بھی جماعت کو متعارف کرانا ہے، اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی حسن و خوبی سے مزین تعلیم کو لوگوں تک پہنچانا ہے، وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔ جس سے اپنی تربیت کے بھی مواقع ملیں گے اور تبلیغ کے بھی مواقع ملیں گے۔ اللہ کرے کہ جب بھی ہم کسی مسجد کی تعمیر کا سوچیں اور اس کی تعمیر کریں یہ اہم مقاصد ہمیشہ ہمارے سامنے رہیں۔ پس اس حوالے سے اگر ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اپنا جائزہ لیتا رہے گا تو مساجد کی تعمیر سے فیض پانے والا ہو گا۔

ایک وقت تھا جب ہمبرگ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ احمدیوں کی تعداد بھی محدود تھی اور وہ مسجد ضرورت کے لحاظ سے کافی تھی۔ علاقے کے لوگوں پر بھی اس مسجد کا بڑا اچھا اثر ہوااور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک ہے لیکن پھر ضرورت کے پیش نظر جماعت کی تعداد بڑھی تو آپ لوگوں نے ایک بڑی جگہ جو ’’بیت الرشید‘‘ کے نام سے موسوم ہے وہ خریدی، جس میں بڑے ہال بھی ہیں اور مسجد کا حصہ ملا کے شاید ہزار بارہ سو تک نمازی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں اور پہلے جب بھی مَیں آیا ہوں تو مَیں نے دیکھا ہے کہ مسجد پوری بھری ہوتی ہے۔ نزدیکی جماعتوں کے لوگ بھی جمعہ پڑھنے کے لئے آ جاتے تھے تو مارکی لگانی پڑتی تھی۔ تو وہ جگہ بھی چھوٹی پڑ جاتی تھی بلکہ اس دفعہ تو کَل مَیں دیکھ رہا تھا کہ مغرب اور عشاء کی نمازوں پر بھی وہ جگہ چھوٹی تھی اور لوگ باہر نمازیں پڑھ رہے تھے اس لئے آج یہاں اس ہال میں جمعہ کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم چھلانگ لگا کر جب بڑی چیز بناتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے ضرورت کو اور بڑھا دیتا ہے اور جب تک ہم خالص اس کے بندے ہوتے ہوئے یہ کوشش کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے گھروں کو آباد کریں اللہ تعالیٰ بھی ضرورتیں بڑھاتا چلا جائے گا اور جماعت انشاء اللہ بڑھتی چلی جائے گی۔ پس ہمیشہ ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں مساجد کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے اور وہ کوشش کس طرح ہو گی؟ وہ کوشش اس طرح ہو گی جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول انے ہمیں بتایا ہے کہ اس طرح کوشش کرو۔ وہ طریق بتائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے جس کی مَیں نے ابھی تلاوت کی ہے، ترجمہ اس کا یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارو۔ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لَوٹو گے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں آنے والوں کو بعض باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر مومن کا پہلا فرض ہے کہ وہ اعلان کرے کہ مجھے خداتعالیٰ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور انصاف کیا ہے؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ سورۃ نساء آیت 59 میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّواالْا َمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ۔ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(النساء آیت 59: ) کہ یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یعنی جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو یقینا بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے۔

یہاں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مومن کا انصاف کا معیار اس وقت قائم ہوتاہے جب ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں اور اللہ تعالیٰ کا حق کس طرح ادا ہو گا اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا وند منعم نے ہمیں دیا ہے، ہم اس کو واپس کر دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ ایک دوسری جگہ آپؑ نے فرمایا کہ اس حق کے ادا کرنے کا حقیقی حق تو آنحضرتﷺ نے ادا فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی اور جسمانی ہیں جو خداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّواالْا َمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا (النساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اَتَم طورپر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی، نبی و امی، صادق و مصدوق محمد مصطفیﷺ میں پائی جاتی تھی‘‘۔ (آئینۂ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ162-161)

پس یہ ہے وہ انصاف کا اعلیٰ ترین معیا ر جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ لیکن یہ اُسوہ قائم فرما کر ہمیں بھی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق یہ حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کا جو اُسوہ ہے وہ ہی قابل تقلید ہے۔ وہ کامل نمونہ ہیں جن کے نقش قدم پر چلنے کی تم نے کوشش کرنی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ ہم اُس وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا نے ہمیں دیا اسے واپس دیں یا واپس دینے کی کوشش کریں۔ یعنی آنحضرتﷺ نے جو اُسوہ قائم فرمایا اس پر چلنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں کیونکہ آپ نے ہی اللہ تعالیٰ کی امانت کو اللہ تعالیٰ کو لوٹانے کا صحیح حق ادا کیا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے اور یہی ایک مومن ہونے کی نشانی ہے۔ اور جب یہ سوچ پیدا ہوتی ہے تو تب ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور ہوں گے۔ سورۃ اعراف میں اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ (اعراف: 30) کہہ کر جس انصاف کا حکم دیا گیا ہے وہ دو طرح قائم ہوتا ہے ایک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرکے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعاموں کو اس کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کرکے، اس کی دی ہوئی امانتوں کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو واپس لوٹاتے ہوئے۔ اور دوسرے بندوں کے درمیان عدل قائم کرکے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ان دونوں باتوں کے لئے جو کوشش ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے۔ جو کامیابی ملنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملنی ہے۔ اس لئے جب مسجد میں آؤ تو اپنی توجہات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سیدھی رکھو۔ نماز کے لئے کھڑے ہو تو خالص ہو کر اس کو پکارو، اس سے فضل مانگو کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے اور آپس کے تعلقات میں بھی عدل قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کسی کے حقوق غصب کرنے سے بچاتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ جوایسی عبادتوں کے ادا کرنے والے ہوں گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ یہی خالص عبادتیں ہیں جن کو خداتعالیٰ سنتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے صرف ظاہری چیز نہیں دیکھتایا دیکھ رہا بلکہ اس کی بڑی گہری نظر ہے دلوں کے اندرو نے کو بھی دیکھ رہا ہے، انسان کی پاتال تک سے وہ واقف ہے۔ اسے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اے اللہ مَیں تیرے لئے خالص ہو کر سب کچھ کر رہاہوں، اس لئے میری دعاؤں کو قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بَصِیْر ہوں، مَیں اسے بھی دیکھ رہا ہوں جو تمہارے دلوں میں ہے۔ مَیں تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہوں جس سے تم نے امانتیں لوٹائیں، جس سے تم نے صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نمازیں ادا کیں۔ اس پر بھی میری گہری نظر ہے جو عدل کے تقاضے تم نے میرے حکموں پر چلتے ہوئے پورے کرنے کی کوشش کی۔

ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ نمازوں میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کا کس طرح کا نقشہ پیش نظر ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’موٹی بات ہے قرآن شریف میں لکھا ہے اُدْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اخلاص سے خداتعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اس کے احسانوں کابہت مطالعہ کرنا چاہئے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو احسان کئے ہیں اُن کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ میں سے بہت سارے یہاں ہیں، اپنے جائزے لیتے رہیں، اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کو گنتے رہیں تو تبھی صحیح عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔

فرماتے ہیں کہ’’اس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے۔ چاہئے کہ اخلاص ہو، احسان ہو اور اس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک ربّ اور حقیقی کارساز ہے۔ عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ و استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تاکہ تزکیہ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے‘‘۔ (الحکم جلد 11نمبر38مورخہ 24؍اکتوبر1907ء صفحہ 11۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ زیر سورۃ الاعراف آیت 30)

تو یہ چیز ہے کہ آپ نے اس طرح کہا کہ نماز میں توجہ پیدا ہونی چاہئے۔

اور اس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرتﷺ کی ذات میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے وہی اُسوہ حسنہ ہے، یعنی کامل اسوہ ہے۔ اور آپ کا اللہ تعالیٰ میں فنا ہونے کا ایسا اعلیٰ مقام تھا کہ خداتعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروایا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الانعام: 163) یعنی تو کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میر امرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے۔ یعنی اس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے۔ اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تامیرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو‘‘۔ اور اس مرنے سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’غرض اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے واقعی ہمدرد ی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دُعا کے ساتھ اور تبلیغ کے ساتھ اور ان کے جو روجفا اٹھانے کے ساتھ اور ہر ایک مناسب اور حکیمانہ طریق کے ساتھ اپنی جان اور اپنے آرام کو اس راہ میں فدا کر دیا تھا‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام زیر سورۃ الانعام آیت 163)

پس جب ایک اللہ کا بندہ، خداتعالیٰ کی محبت میں محو ہو جائے گا یا ہونے کی کوشش کرے گا، ایک مومن جب آنحضرتﷺ کے اُسوہ کو سامنے رکھے گا تو اس کا اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ خداتعالیٰ کا حقیقی عابد بنے اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لئے انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہا ہو۔ اُس حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروائے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعے اتاری ہے تاکہ حقیقی عدل دنیا میں قائم ہو اور جب ایک شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی توجہ دے رہا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کے بھی تمام تقاضے پورے کر رہا ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے نفس کے تزکیہ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے والا نہ ہو اور اس طرف اس کی توجہ نہ ہو اور اس میں ترقی کرتے چلے جانے والا نہ ہو۔

پس اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور آنحضرتﷺ کے اُسوہ پر چلنا ایک انسان کو وہ مقام عطا کرتا ہے کہ جب وہ خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے تو ایک پاک اور معصوم روح کی صورت میں حاضر ہوتا ہے۔

اِس مقام اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سورۃ النحل میں اس طرح حکم فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْـکَرِ وَالْبَغْیِ۔ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل: 91) یقینا اللہ تعالیٰ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم عبرت حاصل کرو۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ طریق مزید کھول کر بتا دئیے جس سے انسان خداتعالیٰ کا حق بھی ادا کر سکتا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بندوں کے حق بھی ادا کر سکتا ہے اور اپنے نفس کا تزکیہ بھی کر سکتا ہے۔ اور یہی مطلب ہے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے کا۔ اس آیت کے پہلے حصہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو‘‘۔ یعنی اس کا لحاظ رکھو۔ ’’ظالم نہ بنو۔ پس جیسا کہ درحقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں، کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیّت اور قیومیّت اور ربوبیّت خاصّہ ہر یک حق اسی کا ہے‘‘۔ وہی خالق ہے ہمارا۔ کل کائنات کا خالق ہے، اس میں رہنے والی ہر چیز کا خالق ہے۔ اس لئے وہی اس لائق ہے کہ اُسی پر توکل کیا جائے۔ فرمایا اور قیومیّت اسی کی ہے وہ قائم ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس چیز کو اس نے پیدا کیا اَجلِ مسمّیٰ تک اس کی زندگی رکھتا ہے۔ ربوبیّت اسی کی ہے۔ وہی ہے جس نے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہمارے لئے انتظامات کر دئیے اور ہماری زندگی کو سہولت سے گزارنے کے بھی انتظامات فرما دئیے، تمام چیز یں اس نے مہیا فرما دیں۔ تو فرمایا کہ توکّل کے لائق اور کوئی چیز نہیں ’’کیونکہ بوجہ خالقیّت اور قیومیّت اور ربوبیّت کے خاصّہ کے ہر یک حق اسی کا ہے۔ اسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اور اس کی محبت میں اور اس کی ربوبیّت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اس قدر کر لیا تو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی‘‘۔ اگر یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ میرا ربّ ہے، اللہ تعالیٰ سے محبت سب سے زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرنی تو یہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں عدل ہے جو تم نے قائم کر لیا۔ ’’پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متأدّب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اور اس کے حسن لازوال کو دیکھ لیا ہے‘‘۔

عدل سے ترقی کرو گے تو پھر احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرو فہم حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اس کو پھر پکڑتے ہوئے، اس کی محبت میں کھو جاؤ۔ اس کے احسانوں کا ذکر ہر وقت تمہاری زبان پر رہے۔

’’بعد اس کے اِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلّف اور تصنّع دور ہو جائے اور تم اس کے لئے ایسے جگری تعلق سے یادکرو جیسے مثلاً تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہو جائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت کرتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ سے محبت پھر بے غرض محبت ہو جائے یہ نہیں کہ مشکل میں گرفتار ہوئے تو مسجدوں میں آ نا شروع کر دیا اور لمبے لمبے سجدے شروع ہو گئے اور عبادتیں شروع ہو گئیں اور جہاں آسانیاں ملیں اور کشائش ملی پیسے کی فراوانی آئی۔ تو اللہ تعالیٰ کو بھول گئے نمازوں کو بھول گئے عبادتوں کو بھول گئے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ ان سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پر قائم رہو اور اگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے‘‘۔ اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو بجائے اس کا بدلہ لینے کے اصلاح اگر نیکی سے ہو سکتی ہے تو نیکی کرے’’اور اس کی آزار کے عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے‘‘۔ جو تکلیف تمہیں دی ہے اس کے عوض میں اس کو خوشی پہنچانے کی کوشش کرو’’اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے‘‘۔ یہ ہے احسان۔

’’پھر بعد اس کے اِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یا جس قدر بنی نوع سے خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طورپر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہو جیسی شدتِ قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ نیکی کرتا ہے‘‘۔ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار سے، ایک قریبی دوسرے قریبی سے جس طرح نیکی کرتا ہے اس طرح نیکی کرو۔ یہ اِیْتَایِٔ ذِی الْقُرْبٰی ہے۔ ’’سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدعا یا غرض درمیان نہ ہو۔ بلکہ اخوت و قرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گزاری یا دعا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو‘‘۔ (ازالہ ٔ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ552-550)

یہ وہ خوبصورت تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے پہلے حصہ کی کی ہے جو اُس انصاف کی وضاحت کرتی ہے جس کی ایسے شخص سے توقع کی جاتی ہے جو خداتعالیٰ کے لئے خالص ہو کر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہم جو احمدی کہلاتے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم اُس اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہیں جو آنحضرتﷺ نے ہمارے سامنے قائم فرمایا اور ہم اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر اتاری اور جس کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عطا فرمایا۔ پس اگر ہم صرف زبانی دعووں تک رہتے ہیں اور اپنی عملی حالتوں کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہمارے یہ دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں جو مَیں نے اس اقتباس میں سے بیان کیا تھا کہ تین نیکیاں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا ہو رہا ہے اور بندوں کا بھی۔ لیکن اس آیت کے دوسرے حصے میں تین برائیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اور ایک انسان جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو اس سے کبھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ یہ برائیاں بھی کر سکے جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ عبادتیں ان چیزوں سے، ان برائیوں سے دور لے جانے والی ہیں۔ اگر انسان خالص ہو کر عبادت کرے اور نمازیں پڑھے تو ان چیزوں سے دور ہٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ (العنکبوت: 46) کہ یقینا نماز سب بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔

پس جہاں اللہ تعالیٰ ایک کے بعد دوسری نیکی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ نیکی کے معیار بڑھتے چلے جائیں اور ایک وقت ایسا آئے جب بندہ خالصتاً خداتعالیٰ کا ہو کر اس کی مرضی کے مطابق کام کرے اس کی رضاکے حصول کے لئے اس کی ہر حرکت ہو۔ وہاں اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ان نیکیوں کے حصول کے لئے برائیوں کے خلاف جہاد بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ برائیاں ان نیکیوں کے بجا لانے میں روک بنتی رہیں گی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فحشاء سے بچو، فحشاء کے لفظ میں ان بدیوں کی طرف اشارہ ہے جن کا صرف بدی کرنے والے کو پتہ ہو۔ دوسروں کو اس کا علم نہ ہو یا کافی حد تک وہ برائی دوسروں سے چھپی ہو۔ پس جب ایک انسان خالص مومن بنتے ہوئے اور سچا عابد بنتے ہوئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سامنے رکھ کر، اپنی برائیوں کو دیکھ کر خداتعالیٰ سے ان کے دُور کرنے کی دعا مانگتا ہے اور جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو پھر وہ انصاف اور عدل ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس کے ساتھ کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک نفس کلیتاً پاک کرنے کی کوشش نہ ہو خداتعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور اسی طرح جب نفس پر نظر نہ ہو ایک ایک بدی کو باہر نکال کر پھینکنے کی کوشش نہ ہو۔ پھر دوسروں سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ پس باہر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے پہلے اپنے نفس کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنا ہو گا اور جب ایک مومن اس کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کی توجہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف پھرتی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منکر سے بچو۔ یعنی ناپسندیدہ باتوں سے بچو۔ وہ باتیں جو براہ راست دوسروں کو نقصان پہنچانے والی تو نہیں ہوتیں لیکن لوگ اس کو دیکھ کر برا محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض دفعہ لوگوں کو جھوٹ بولنے کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ چاہے دوسرے کو نقصان نہیں بھی ہو رہا، یا اپنا کوئی فائدہ نہیں بھی ہو رہا، عادتاً ہر بات کو غلط انداز میں پیش کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یا ایسے گول مول انداز میں پیش کرتے ہیں جس سے بات واضح ہی نہ ہو سکے۔ بعض لوگوں کو گالیاں نکالنے کی عادت ہوتی ہے۔

اسی طرح ایک قصہ ہے کسی شخص کی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں رپورٹ ہوئی کہ وہ گالیاں بڑی دیتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ سنا ہے آپ گالیاں بڑی دیتے ہیں۔ تو انہوں نے ایک گالی دے کر کہا کون کہتا ہے مَیں گالی دیتا ہوں۔ تو بعض لوگ عادتاً گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ تو اس چیز سے بھی پاک کرنا ہے۔ کیونکہ جھوٹ جو ہے، غلط بیانی جو ہے چاہے نقصان نہ پہنچانے کے لئے بھی کی جا رہی ہو تب بھی جب اس کی عادت پڑ جاتی ہے تو انسان پکاّ عادی جھوٹا بن جاتا ہے اور پھر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ اپنے مفاد کے لئے غلط حربے استعمال کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے لوگ پھر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں ہوتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ خالص ہو کر نماز پڑھنے والوں میں یہ برائیاں پیدا ہوہی نہیں سکتیں، جیسا کہ مَیں نے ابھی آیت کا حصہ پڑھا۔

پھر تیسری برائی جو یہاں بیان فرمائی، فرمایا وہ بَغْی یعنی بغاوت ہے، دوسروں کا حق مارنا ہے، معاشرے میں فساد پیدا کرنا ہے۔ اور جب انسان دوسرے کا حق مارنا شروع کر دے اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بن جائے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ اس کی نمازوں سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے وہ مسجد میں آنے کی کوشش کرتا ہے یا آتا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف تو اعلان ہو کہ مَیں نے یہ مسجد اس لئے بنائی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے عدل اور انصاف قائم کروں اور دوسری طرف باغیانہ رویہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس رویّہ سے بچنے کے جو طریق بتائے ہیں ان پر چلنا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے سب سے بنیادی چیز جیسا کہ مَیں نے بتایا یہی ہے کہ اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لیتے ہوئے، اپنے نفس کو پاک کرے۔ پھر ہی معاشرے کو تکلیف دینے والی معمولی برائیاں بھی دُور ہوں گی اور تبھی بغاوت کی بدی سے بھی انسان بچے گا۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو پھر یہ نظام جماعت سے بھی دور لے جانے والی ہوتی ہیں اور پھر خلافت کی اطاعت کا بھی انکار کر وا دیتی ہیں۔ اور پھر ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ پھراللہ تعالیٰ کی خالص ہو کر عبادت کرنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ظاہری عبادت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں پھر ان کی عبادت خالص تو رہتی نہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جو باغی ہو گا وہ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی خالص ہو کرکر ہی نہیں سکتا۔ کسی بھی باغی کو آپ دیکھ لیں وہ اپنی اَنانیت کے جال میں پھنساہوتا ہے اور جو انانیت کے جال میں پھنس جائے وہ کبھی عاجزی نہیں دکھا سکتا اور جو عاجزی نہ دکھائے وہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔ پس ہر احمدی کو چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننا ہے اور ان مسجدوں کی تعمیر سے فائدہ اٹھانا ہے جس کی طرف آج کل آپ کی توجہ ہوئی ہوئی ہے تو ان برائیوں سے بچیں اور اُن نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کریں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے حکم فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ سے تعلق اس طرح نہیں ہو سکتا کہ انسان غفلت کاریوں میں مبتلا بھی رہے اور صرف منہ سے دم بھرتا رہے کہ مَیں نے خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیا ہے۔ اکیلے بیعت کا اقرار اور سلسلہ میں نام لکھ لینا ہی خداتعالیٰ سے تعلق پر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے‘‘۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 33جدید ایڈیشن مطبوعہ ر بوہ)

پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادت الٰہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ۔ اس طرح اپنے تئیں مستعد بناؤ خداتعالیٰ کی عنایات اور توجہات کاجن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت سے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 212 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کا اعلیٰ فرض ہے کہ وہ اپنے اخلاق کا تزکیہ کریں اور حقوق عباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے کی دقیق سے دقیق رعایت کیاکریں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 326جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

تو یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم اور توقعات۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے والے بنیں، انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے بنیں اور اپنے نفس کی پاکیزگی کی طرف ہمیشہ توجہ دینے والے ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اپنی عبادتوں اور اپنی قربانیوں کی قبولیت کی بھیک مانگتے رہنے والے ہوں۔ خداتعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 15 شمارہ 36 مورخہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2008ء صفحہ5 تا صفحہ 7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ اگست 2008ء شہ سرخیاں

    مساجدکی اہمیت اور بنیادی مقاصد: اللہ تعالیٰ اور اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی اور تزکیۂ نفس۔

    فرمودہ مورخہ 15؍اگست 2008ء بمطابق15؍ظہور 1387 ہجری شمسی بمقام ہمبرگ (Hamburg) (جرمنی)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور