اللہ تعالیٰ کی صفت الہادی کی پُر معارف تشریح

خطبہ جمعہ 6؍ فروری 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’’اَلْہَادِی‘‘ ہے۔ عربی کی لغت کی کتاب لِسَانُ الْعَرَب میں یہ معنی بھی لکھے ہیں کہ وہ ذات جو اپنے بندوں کو اپنی معرفت اور پہچان کے طریق دکھائے یہاں تک کہ وہ اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے لگیں۔ یہ طریق اللہ تعالیٰ کس طرح دکھاتا ہے، کیا حالات ہوتے ہیں جب دکھاتا ہے؟ یہ اُس وقت دکھاتا ہے جب بندے خداتعالیٰ کی ربوبیت کے انکاری ہوتے ہیں۔ اِس انکار کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ کبھی بندے کو خدا بنا لیا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسٰیؑ کو بنایا ہوا ہے۔ کبھی انسان طاقت کے زور پر خود خدا بن جاتے ہیں۔ جیسے پرانے انبیاء کے زمانے میں ہوتے رہے۔ فرعون نے بھی یہی کیا۔ یا اس زمانے میں بھی کوئی اپنے آپ کو خدا کہتا ہے یا خداتعالیٰ کا اس دنیا میں جسمانی مظہر قرار دیتا ہے۔ اپنی قبر کو سجدے کرنے کے لئے کہتا ہے۔ یا پھر دنیا داری میں بڑی طاقتیں اپنے آپ کو لازوال قوتوں کا مالک سمجھتی ہیں اور اس لحاظ سے ربّ بنی بیٹھی ہیں۔ غرض اُس وقت دنیا میں ایک ایسے فساد کی حالت ہوتی ہے جس میں فسادات کا بظاہر نہ ختم ہونے والا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ اُس وقت پھر خداتعالیٰ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے اور دنیا کو بتاتا ہے کہ وہ ربّ العالمین ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قول ربّ العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین پر ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے۔ اور اس زمین پر جو ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطاکار گروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں۔ کبھی گمراہی، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم و جور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور نہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں‘‘۔ نہ یہ سمجھتے ہیں کہ بندے کی کیا حیثیت ہے۔ نہ یہ پہچان رہتی ہے کہ ان کے ربّ کا کیا مقام ہے۔ فرماتے ہیں کہ’’زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تاکہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے اور یہ دونوں (رحمانی اور شیطانی) لشکر برسر پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مدد گار رہتا ہے۔ (ترجمہ اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ131تا 133۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول صفحہ93-92)

پس یہ ہے ہادی خدا، جو ہدایت کے راستوں کی طرف لانے کے لئے اپنی صفت ربوبیت کو بھی حرکت میں لاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ غلبے کے اثرات دشمنوں پر اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ گروہ کی مدد فرماتا ہے اور جو فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیں ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روک دیتا ہے بلکہ ان طاقتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام کے زمانے میں دیکھ لیں۔ کہاں عیسائیت کی یلغار تھی کہ عیسائیت دنیا میں ہر جگہ کامیابیوں سے میدان مارتی چلی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے جو مسلمان تھے وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ کر دھڑا دھڑ عیسائیت قبول کر رہے تھے۔ ہندوستان میں عیسائیت کے غلبے کے خواب عیسائی مشنریزدیکھ رہے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام نے نہ صرف وہاں ہندوستان میں ان کے قدم روک دئے بلکہ پسپائی پہ مجبور کر دیا۔ بلکہ افریقہ جو ان دنوں عیسائی مشنریز کے نزدیک ان کی مٹھی میں تھا اس کے متعلق بھی ان کو یہ کہنا پڑا کہ احمدیت نہ صرف یہاں ہماری ترقی کی رفتار روک رہی ہے بلکہ ہمارے قدم اکھاڑ دئیے ہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت کے راستوں پر چلانے کے لئے اپنی ربوبیت کا اظہار فرماتے ہوئے اپنے امام کو بھیجتا ہے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ان کو وہی دیکھتا ہے جن کو دو آنکھیں عطا کی گئیں۔ وہی امام کو قبول کرتا ہے جس کی صرف دنیا کی آنکھ نہ ہو۔ جو صرف دنیاوی چیزوں پر ہی منہ مارنے والا نہ ہو بلکہ دین کا بھی درد رکھنے والا ہو، اس کی دین کی آنکھ ہو۔ بڑے بڑے مسلمان علماء جو دین کا علم رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اندھے ہو کر اس علم کو جو انہوں نے حاصل کیا ہوتا ہے غلط راستے پر لے جاتے ہیں اور پھر اپنے اس علم کی بنا پر مسلم اُمّہ کو بھی گمراہ کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ دوسری طرف اس زمانے کے علماء بھی یہی مانتے ہیں (جس کی تفصیل مَیں پرانے خطبوں میں بیان کر چکا ہوں )کہ اسلام میں، دین میں، مسلمانوں میں بگاڑ کی انتہا ہو چکی ہے۔ مسلمانوں میں دین نام کا رہ گیا ہے اور خلافت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ لیکن خلافت کی جوپہلی کڑی ہے اس کے بارہ میں اب انہوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے اور وہ ہے مسیح و مہدی کا آنا۔ اس کے بعد ہی پھر خلافت قائم ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے ابھی تک اس نظریہ پر ہی قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور وہ آئیں گے۔ پھر مہدی کے ساتھ مل کر دین پھیلے گا۔ حدیثوں کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی سوچ بنائی ہوئی ہے۔ جو بھی ہو، جب تک نبوت کو نہیں مانتے خلافت آ نہیں سکتی اور پھر نتیجۃً وہی حال رہے گا جس کا یہ اکثر شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اخباروں میں بھی آتا رہتا ہے۔ کالم لکھنے والے بھی لکھتے ہیں۔ علماء اپنی تقریروں میں بھی کہتے رہتے ہیں کہ اس اُمّت میں سے اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی بھیجنا ہے اور اس کے لئے دعا بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں سکھائی ہے۔ اگر پھر بھی نہ مانیں اور دعائیں بھی کرتے چلے جائیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایک راستہ سکھا دیا ہے کہ یہ دعا کرو اور سنجیدگی سے کرو تو مَیں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔

اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے۔ اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے اور اس کی پیروی سے خداتعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کرانعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا…… اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کے ساتھ جو کلام ہے اس کا معیار اتنا اعلیٰ ہو جاتا ہے کہ کوئی گندگی اور کوئی کجی اس میں باقی نہ رہے۔ ’’اور کھلے طورپر امور غیبیہ پر مشتمل ہو‘‘ اور بالکل ظاہر طور پر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو غیب کی باتیں بھی بتا رہا ہو۔ فرماتے ہیں کہ’’تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا جوکلام ہے۔ بندے کاجو باتیں کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جوبندے کو مخاطب کرنا ہے۔ غیب کی جو باتیں سنانا ہے، یہ جب انتہاء تک پہنچ جائے تو اسی کا نام نبوت ہے۔ ’’جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔ پس یہ ممکن نہ تھا کہ وہ قوم جس کے لئے فرمایاگیا کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) (کہ تم وہ امت ہو کہ جو لوگوں میں سے بہترین امت قرار دی گئی ہے) اور جن کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ: 7-6) ان کے تمام افراد اس مرتبۂ عالیہ سے محروم رہتے اور کوئی ایک فرد بھی اس مرتبہ کو نہ پاتا اور ایسی صورت میں صرف یہی خرابی نہیں تھی کہ اُمّت محمدیہ ناقص اور ناتمام رہتی اور سب کے سب اندھوں کے طرح رہتے بلکہ یہ بھی نقص تھا کہ آنحضرتﷺ کی قوت فیضان پرداغ لگتا تھا اور آپؐ کی قوت قدسیہ ناقص ٹھہرتی تھی اور ساتھ اس کے وہ دعاجس کا پانچ وقت نماز میں پڑھناتعلیم کیا گیا تھا۔ اس کا سکھلانا بھی عبث ٹھہرتا تھا۔‘‘ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ صفحہ312-311)

ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ دوسری طرف یہ دعا سکھائی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سیدھے راستے پر چلاتا رہے اور ان لوگوں کے راستے پر جن پر انعام کیا۔ اور انعامات کیا ہیں؟ نبوت ہے، صدیقیت ہے، شہید ہونا ہے، صالح ہونا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو یہ دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہا گیا ہے کہ تم بہترین اُمّت ہو۔ اس کے باوجود آنحضرتﷺ کی اُمّت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس کو نبوت کا یہ مقام مل سکے۔ اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں اس کو دے اور اس سے باتیں کرے۔ گویا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی یہ دعاجو ہم پانچ وقت نمازوں میں کئی بار پڑھتے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں جہاں بھی مسلما ن رہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے یہ دعا کر رہا ہے لیکن پھر بھی خداتعالیٰ اسے قبول نہیں کر رہا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے کئی لوگوں کو کہاکہ یہ دعا پڑھو۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ اور جن کو اللہ تعالیٰ نے، یہ کہنے میں تو کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمائے اور پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی صحیح راہنمائی فرمائی۔ پس اپنی ذات سے باہر نکل کر، اپنی سوچوں سے باہر نکل کر اور اپنے اوپر جو خول چڑھایا ہوا ہے اس سے باہر نکل کر اپنے ذہنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عناد سے پاک کرکے دعا مانگی جائے گی تو پھر اللہ تعالیٰ راہنمائی بھی فرمائے گا۔ یہ تو خداتعالیٰ کو الزام دینے والی بات ہے کہ ایک طرف وہ کہے کہ میرے سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المؤمن: 61) اور تمہارا ربّ کہتا ہے کہ مجھے پکارو، مَیں تمہاری دعا سنوں گا۔ اور پھر دعا نہ سنے۔

ہماری دنیاوی معاملات کی دعائیں تو ہم ہر روز کہتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سن لیں، قبول ہو گئیں۔ ہمیں یہ مل گیا۔ ہمیں وہ مل گیا۔ لیکن انسان کی اپنی روحانی بہتری کے لئے کی جانے والی دعائیں جو اللہ تعالیٰ نے خود سکھائی ہیں وہ نہ سنے۔ ایک طرف تو یہ حکم ہے کہ میرے سے اپنی ہدایت کے لئے دعا مانگو۔ اور اس حالت میں جبکہ دین کو ایک ہادی کی ضرورت ہے تو انسان پرخاص طورپر دعا مانگنے کی اضطراری کیفیت طاری ہوتی ہے (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں مَیں نے بتایا)۔ پس اللہ تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلا کر یہ دعا مانگی جائے کہ تُو ایسی حالت میں ہادی بھیجتاہے اور پھر خود ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی کہہ دے کہ باقی دعائیں تو قبول لیکن یہ دعا قبول نہیں ہو گی۔ تو یہ اللہ تعالیٰ پر الزام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پہ الزام ہے۔ اُمّت مسلمہ کی کسمپرسی کی جوحالت ہے وہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس میں تو شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ کہے کہ ٹھیک ہے۔ یہ تو میری وہ اُمّت ہے جو اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، خیر امت ہے لیکن اس کی کسمپرسی کی حالت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ توبے شک بڑھتی رہے، بے شک یہ شور اٹھتا رہے کہ نہ دین باقی رہا اور نہ ایمان باقی رہا۔ لیکن مَیں تمہاری یہ دعا قبول نہیں کروں گا کہ ہادی بھیجوں جو تمہاری، دین کی راہنمائی فرمائے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کہے کہ بے شک تم اپنی ناکیں رگڑتے رہو مَیں تو اب تمہاری ہدایت کا کوئی سامان کرنے والا نہیں ہوں۔ جو مَیں نے کرنا تھا وہ کر دیا۔ اب ہدایت کے راستے سب ختم ہو گئے۔ ہاں یہ ضرور ہے جس کا اعلان بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ چاہے دعا کرتے اور اپنی ناکیں رگڑتے ہوئے تمہاری زندگیاں ختم ہو جائیں۔ تمہاری اولادوں کی زندگیاں ختم ہو جائیں اور اولاد در اولاد کی زندگیاں ختم ہو جائیں کہ اب میرے علاوہ کوئی ہادی اور مسیح آ جائے تب بھی اب کوئی مسیح موعودنہیں آئے گا، کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ جو آنے ولا تھا وہ آ چکا۔ اب اس کو مانے بغیر کوئی چارا نہیں ہے۔

پس مسلمانوں کو اپنی حالتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ احمدیوں پر ظلم کرنے کی بجائے نیک نیتی سے خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ احمدیوں پر ہر روز مختلف جگہوں پر کوئی نہ کوئی نیا ظلم ہوتا رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی طریقے سے تکلیف پہنچا کر یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ذریعہ سے شاید کچھ لوگ احمدیت چھوڑ جائیں۔ احمدیت ختم تو ہو نہیں سکتی یہ تووہ دیکھ چکے ہیں۔ اب انہوں نے ایک نیا حربہ گزشتہ دنوں بچوں کو دہشت زدہ کرنے کا کیا۔ 14سے 16 سال تک کے لڑکے، سکول کے بچے تھے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ نعوذباللہ انہوں نے ٹائیلٹ میں یا بعض گندی جگہوں پر محمد کا نام لکھ کر آنحضرتﷺ کی ہتک کی ہے۔ یہ لوگ خود توروحانی بینائی سے محروم ہیں مگر الزا م احمدیوں پر دیتے ہیں۔ ایسی حرکتیں تو یہ لوگ کر سکتے ہیں جن کی روحانی بینائی نہیں ہے۔ جن کو آنحضرتﷺ کے مقام کا علم نہیں ہے۔ یہ تو 15-14 سال کے بچے ہیں، احمدی چھوٹا بچہ بھی کبھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔

ہمیں تو آنے والے مسیح و مہدی نے عشق رسول عربیﷺ کے وہ راستے دکھائے ہیں، وہ تعلیم دی ہے جس تک ان لوگوں کی سوچیں بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو جو دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے ہیں عقل دے کہ وہ احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنانے سے باز رہیں اور ہدایت کی راہ تلاش کرنے کے لئے عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ یہاں ایک اور وضاحت بھی مَیں کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں لجنہ کا ریفریشر کورس تھا، وہاں کسی نے سوال کیا کہ غیر احمدی کہتے ہیں کہ اگر مرزاصاحب کو نبی نہ کہو تو پھر ہم مان لیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ ایسے بھولے احمدیوں کی جواُن کی باتوں میں آ جاتے ہیں غلط فہمی ہے کہ وہ مان لیں گے، شاید مخالفت تو کم کر دیں لیکن جنہوں نے نہیں ماننا انہیں کبھی بھی جرأت پیدا نہیں ہوگی کہ وہ مانیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ نبی کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک اقتباس میں کی ہے۔ اس کی رو سے آپ نبی ہیں اور آپ نے اور مختلف جگہوں پر بھی اپنے آپ کو نبی کہاہے۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے سے کثرت سے کلام کرتا ہے، اس سے مخاطب ہوتا ہے، غیب کی باتیں بتاتا ہے تو اسی کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نبوت ہے اور یہی باتیں تمام سابقہ انبیاء نے بتائی ہیں۔ اگر یہ ردّ  کرنے لگیں تو پھر اگلا قدم یہ ہو گا کہ یہ بھی نہ کہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوتا ہے۔ توپھر یہ بات بھی ان کی ماننی پڑے گی۔ پھر کسی اور بات کو ردّ کرنے کا ان کا مطالبہ ہو گا۔ کیونکہ جب ایک دفعہ آپ اصل چیز سے ہٹ جائیں گے اور کمزوری دکھانے لگیں گے تو پھر اپنے ایمان کو بھی کمزور کرتے چلے جائیں گے۔ تو کیا ہم تعداد بڑھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے اور اللہ اور رسولﷺ کی پیشگوئیوں کے الٹ کوئی نیا مہدی اور مسیح پیش کرنے کی کوشش کریں گے؟۔ جس طرح کہ مطالبہ کیا جاتا ہے اور یہ مطالبہ مختلف جگہوں پر یہاں بھی، پاکستان میں بھی ہو رہاہے۔ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کام نبوت کا دعویٰ ختم ہو جائے تو مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ خبردار رہو کہ عیسیٰ بن مریم یعنی مسیح موعود اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں۔ (المعجم الصغیرلطبرانی من اسمہ عیسیٰ۔ صفحہ 256 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور مثیل مسیح آنحضرتﷺ کی امت میں سے ہی پیدا ہونا ہے تو ظاہر ہے پھر اس حدیث کی رو سے وہ نبی اللہ ہی ہے۔ یا تو یہ کہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں وہ بعد میں آئیں گے۔ توایک دفعہ جب نبی کا انکار کریں گے تو پھر اگلی بات یہی ہو گی نا کہ پھر عیسیٰ علیہ السلام اپنے وقت پہ آئیں گے اور وہ نبی ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہیں۔ جس طرح مَیں نے کہاکہ ایک بات سے دوسری بات پھر آپ لوگ ردّ کرتے چلے جائیں گے۔ بہرحال جو احمدی پورا علم نہیں رکھتے ان پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ اگر ایک بات کا انکار کریں گے تو دوسرے دعوے کا بھی انکار کرنے پڑے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو ٰۃ والسلام کو مسیح موعود کہنے سے بھی رکنا پڑے گا جیسا کہ مَیں نے کہا۔ پھر غیر احمدیوں کی طرح اس عقیدہ پر بھی قائم ہونا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور وہ زمین پر اتریں گے۔ گوکہ حدیثوں کی رو سے جو وقت ہے وہ بھی اب گزر چکا ہے۔ اس لئے بغیر خوف کے، بغیر کسی قسم کے احساس کمتری کے وہ بتائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہے اور جس کا آنحضرتﷺ نے اعلان فرمایا ہے۔ آنحضرتﷺ نے عیسیٰ بن مریم، آنے والے مسیح کو نبی کہا ہے کیونکہ احمدیوں کو تو یہ خوشخبری ہے کہ سچائی کے نور سے دوسروں کا منہ بند کریں گے تو پھر اس میں پریشانی کی کیابات ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پھر ایک جگہ سورۃ فاتحہ کی آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’چھٹی آیت اس سورۃ کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہے گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو‘‘۔ (تحفۂ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 284 حاشیہ)

اب یہ چھٹا ہزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ ہادی کو وہ طلب بھی کر رہے ہیں لیکن جس کی پوری شان سے زمین اور آسمان نے تائید کی ہے اسے قبول نہیں کرنا چاہتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس کی رو سے کہ’’سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی‘‘ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سوں کی سلیم فطرت یا سعید فطرت نہیں ہے۔ جب یہ لوگ سلیم فطرت نہیں ہیں، ماننا نہیں چاہتے تو کیا ان کو خوش کرنے کے لئے، ان کی خاطر، ہم بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی اس دعویٰ کا انکار کر دیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خطبہ الہامیہ میں ایک جگہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’خدا کی قسم قرآن شریف میں جو تمام اختلافوں کا فیصلہ کرنے والا ہے، کہیں ذکر نہیں ہے کہ خاتم الخلفاء سلسلہ محمدیہ کا موسوی سلسلے سے آئے گا۔ اس کی پیروی مت کرو کہ کوئی دلیل تمہارے پاس نہیں ہے بلکہ بر خلاف اس کے تم کو دلیل دی گئی ہے۔ اور کلمات متفرقہ اپنے منہ سے نہ نکالو کہ وہ کلمات اس تیر کی طرح ہیں جو اندھیرے میں چلایاجائے اور یہ وعدہ جو مذکور ہوا سچا وعدہ ہے اور تم کو کوئی دھوکہ نہ دے۔ اور سورۃ فاتحہ میں دوسری بار اس وعدہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور یہ آیت سورۃ فاتحہ یعنی صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ اپنی نمازوں میں پڑھتے ہو پھر حیلہ و بہانہ اختیار کرتے ہو اور حجت الٰہی کے رفع دفع کے لئے مشورے کرتے ہو۔ تمہیں کیا ہو گیا کہ خداتعالیٰ کے فرمودہ کو اپنے پیروں میں روندتے ہو؟کیا ایک دن تم نہیں مرو گے یا کوئی تم کو نہیں پوچھے گا؟۔‘‘ (خطبہ ٔ الہامیہ صفحہ64-63۔ روحانی خزائن جلد 16صفحہ110-109)

یہ تو بیان غیروں کے لئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کشتی نوح میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی ایک خوبصورت تفسیر کرتے ہوئے یہ ثابت فرماتے ہیں کہ اس آیت میں محمدی سلسلے سے ہی مسیح و مہدی کے آنے کی پیشگوئی ثابت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

’’نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمدﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضۂ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعودؑ کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا۔ کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا۔ جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 14)

پس یہ ہے اسلام کا اور آنحضرتﷺ کا سب دینوں اور نبیوں سے افضل ہونا کہ اب قیامت تک آنحضرتﷺ کا ہی شرعی اور روحانی فیض جاری رہنا ہے اور مسیح موعود بھی آنحضرتﷺ کی اُمّت میں سے ہی آنا ہے اور آیا ہے اور مہدی بھی اسی اُمّت میں سے ہے۔ یہ کوئی الگ الگ دوشخصیتیں نہیں ہیں۔ ایک حدیث کی رو سے یہ دونوں ایک ہی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ پس آپؑ کو نبی مانے اور قبول کئے بغیر اب کوئی چارا نہیں ہے۔

اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تم آنے والے امام کو مان لو۔ گویا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ چنانچہ آپؑ ضرورۃ الامام میں فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہو کر چلیں۔ یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘کہ جس طرح ایک دنیاوی نظام ایک لیڈر کو چاہتا ہے، ایک بادشاہ کو چاہتا ہے، حکومت کو چاہتا ہے، اسی طرح ایک روحانی نظام ہے۔ اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔ اس روحانی نظام کو چلانے کے لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ فرمایا کہ’’پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خداتعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں۔ مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خداتعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمتِ روحانی کی بارش ہوئی ہے، ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تا ہم ان کی پیروی کریں‘‘۔ (ضرورۃ الامام۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ494) (یہ جانوروں کے لئے تو نہیں، نہ کسی اور مخلوق کے لئے یہ دعا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اس نعمت کی بارش ہوئی جو اپنے کمال کو پہنچی، جو اپنی انتہاکو پہنچی، ان کی راہوں پر چلنے کی ہمیں توفیق بخش۔ یہ دعا ہمیں یہ سکھاتی ہے تاکہ ہم اس کی پیروی کریں )۔ ’’سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ۔ یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدث، مجدد سب داخل ہیں مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کے لئے مامور نہیں ہو ئے‘‘(یعنی جن کو اللہ تعالیٰ صحیح راستے پر چلانے کے لئے مخلوق کی ہدایت کے لئے خود مامور نہیں کرتا)۔ ’’اور نہ وہ کمالات ان کو دئیے گئے۔ وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں‘‘ (ولی اللہ ہوں یا بہت نیک ہوں، تب بھی)’’وہ امام الزمان نہیں کہلا سکتے‘‘۔ (ضرورت الامام۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ495-494)

امام الزمان وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امام الزمان کا خطاب دیا ہے۔

اس اقتباس میں یہ بات بھی واضح فرما دی کہ ولی ہونا اور ابدال میں شامل ہونا امامت کا درجہ نہیں رکھتا۔ نیکیوں کی انتہا کرنے اور اللہ تعالیٰ کے بہت قریب پہنچ جانے سے بھی امامت کا درجہ نہیں مل جاتا جب تک اللہ تعالیٰ خودنہ عطا فرمائے۔ امام الزمان وہی ہے جسے خداتعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہو۔ اور اس زمانہ کے امام تو وہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعوداور مہدی موعود کرکے بھیجا ہے۔

اور پھر اس کے ساتھ یہ ہی نہیں کہ کہہ دیا اور دعویٰ کرنے والے نے دعویٰ کر لیا بلکہ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبوں میں بتایا تھا کہ اس کے ساتھ زمینی اور آسمانی تائیدات بھی شامل ہیں۔ پس یہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا نہ صرف مسلمانوں کے لئے ہدایت ہے بلکہ ہر مذہب والا چاہے وہ عیسائی ہے، یہودی ہے، ہندو ہے، اگر نیک نیتی سے دعا کرے جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا ہے کہ مَیں نے کئی غیرمسلموں کو بھی اس دعا پر غور کرنے کے لئے کہا کہ اس دعا پر غور کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ کوئی ایسی دعا تو نہیں ہے کہ جس پر کہا جائے کہ صرف مسلمان کر سکتا ہے۔ ایک ایسی دعا ہے جس سے ہر شخص راضی ہو سکتا ہے چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ مَیں نے یہ کہا اور پھر کئی غیر مسلم نے بھی یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی۔ انہوں نے خوابیں دیکھیں اور احمدیت قبول کی۔ پس اگر غیر مسلموں کی راہنمائی اللہ تعالیٰ اس دعا کے ساتھ فرما سکتا ہے تو مسلمانوں کی راہنمائی کیوں نہیں فرما سکتا۔ ظاہر ہے کہ صرف یہی وجہ ہے کہ نیک نیت نہیں ہیں۔ بڑے بڑے پڑھے لکھے عالم ہیں۔ بظاہر نمازوں کے پابند لیکن ہدایت سے محروم۔ پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے صاف دل ہو کر اس کی طرف قدم بڑھانا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔

گزشتہ دنوں ایم ٹی اے پر امام صاحب اور مومن صاحب، آصف باسط صاحب وغیرہ پرسی کیوشن (Persecution) پر پروگرام کر رہے تھے۔ ایک غیر از جماعت عالم جو امریکہ میں رہتے ہیں وہ بھی ان دنوں میں یہاں آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایم ٹی اے کو فون کیا کہ مَیں نے یہ پروگرام سنا ہے۔ آپ نے بعض احادیث بھی غلط پڑھی ہیں۔ اور بھی کچھ باتیں ہیں جو مَیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں تو ہمارا آدمی یہاں سے گیا۔ ان کی ساری باتیں جو بھی کہنا چاہتے تھے ریکارڈ کرکے لے آیا۔ بہرحال احمدیت کی دشمنی میں یہ بہت ساری باتیں ہیں اس کا جو تفصیلی جواب ہے وہ تو اسی پروگرام میں ان کے سوالوں کے حساب سے دوبارہ پیش ہو گا لیکن ایک بات جو انہوں نے کی ہے وہ بات عموماً غیر از جماعت کہتے رہتے ہیں کہ احمدی رَفَعَ کے جومعنی کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا روحانی طور پر رفع ہوا، اس کے یہ معنی نہیں ہیں بلکہ جسمانی رفع ہے۔ خیر یہ تو عام بات ہے۔ سب غیر احمدی یہی کہتے ہیں۔ لیکن ایک بات جو میرے لئے تو بہرحال نئی تھی۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ حضرت عیسیٰؑ کو اس لئے مارنا چاہتے ہیں کہ احمدیت کی زندگی اس میں ہے۔ انہوں نے اپنی نیت کا کافی اظہار کیا اور جماعت کے لٹریچرکا کچھ حد تک مطالعہ بھی تھا اور ان کا دعویٰ بھی ہے کہ مَیں نے بہت کیا ہوا ہے یا کچھ حد تک کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے غور سے دیکھا ہو تو احمدیت کی زندگی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ عیسیٰ کی موت جو ہے وہ اسلام کی زندگی ہے۔ ’’عیسیٰ کو مرنے دو کہ اسی سے اسلام زندہ ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ322)

کیونکہ عیسائیوں کے پاس یہی حربہ ہے جس سے وہ کمزور مسلمانوں کو حضرت عیسیٰؑ کے افضل ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ گو کہ اب بہت سے مسلمان علماء بھی اس مضمون کو چھیڑنے سے بچتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی ایسے علماء ہیں اور مغرب میں رہنے والے پڑھے لکھے علماء بھی ہیں، جیسا کہ مَیں نے بتایا، جو حضرت عیسیٰؑ کے زندہ آسمان پر موجود ہونے اور کسی وقت میں اترنے کے بھی قائل ہیں۔ پس ہم تو دلیل سے حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت کرکے اسلام کو زندہ مذہب کے طورپر پیش کر رہے ہیں اور مسیح محمدی کو مسیح موسوی کے مثیل کے طور پرپیش کرتے ہیں تاکہ اسلام کا زندہ ہونا ثابت ہو۔ اور یہ کہتے ہیں کہ احمدیت کی زندگی کا دارومدار عیسیٰ کی وفات پر ہے۔ بہرحال یہ تو ثابت ہو گیا کہ جس طرح ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت عیسیٰ کواس لئے مارتے ہیں یا یہ ثابت کرتے ہیں کہ وفات پا چکے ہیں کہ اس سے اسلام زندہ ہوتا ہے۔ تو انہوں نے بھی ثابت کر دیا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی وفات سے احمدیت زندہ ہو رہی ہے اور احمدیت کا زندہ ہونا اس لحاظ سے پھر اسلام کا زندہ ہونا ہی ہے۔ کیونکہ ہمارا تو دعویٰ ہی یہی ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اسلام کے لئے کر رہے ہیں اور احمدیت کیا ہے حقیقی اسلام ہے۔ جو عیسائی احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے اسلام قبول کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت ہو جاتی ہے تو ان کو اس کے مانے بغیر چارا نہیں رہتا اور پھر اسلام کی زندگی ان پہ کھل جاتی ہے اور اپنے مذہب کی کمزوریاں ان پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر یہ صاحب بھی خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں، اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائیں اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پہ چلنے کے لئے ایک درد پیدا کریں تو بعیدنہیں کہ اگر ان کا دل صاف ہو تو اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرمائے کیونکہ اگر اسلام سے محبت رکھنے والوں کو اسلام کے غلبہ سے دلچسپی ہے تو یاد رکھیں کہ مسیح و مہدی کے ساتھ ہی اب یہ ترقیات وابستہ ہیں جو آ چکا ہے۔ اب اس کے علاوہ اور کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرکے اس بات کا اعلان فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ 120سال سے اس کو سچا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’تخمیناً عرصہ بیس سال کا گزرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا۔ اور وہ یہ ہے ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْ لَہٗ بِالْھُدٰ ی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ علَی الدِّینِ کُلِّہٖ (الصف: 10) وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا وہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور مجھ کواس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے تھے کہ مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میر ے ہاتھ سے خداتعالیٰ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور اس جگہ یاد رہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پرپوری ہو گی۔ سو جس قدر اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گزر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا کا مجھ کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے۔ لیکن جب میرا وقت آیا تو مجھ کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلایا گیا کہ اس آیت کا مصداق تُو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانے میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہو گی‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15صفحہ231-232)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اس نے دو امر کے ساتھ اسے بھیجا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایاہے‘‘۔ (یعنی ہدایت دینے کی نعمت سے مشرف فرمایا)۔ ’’یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں‘‘۔ (اس ہدایت کے حاصل کرنے کے لئے تاکہ وہ آگے ہدایت دے سکے اللہ تعالیٰ نے روحانی آنکھ عطا فرمائی ہے۔ ’’اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے۔‘‘(یعنی ایسا علم بھی دیا ہے جو بغیر کوشش سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے دیا ہے)۔ ’’اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے اور اس طرح پر الٰہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اس کی تائیدکی ہے اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے اوپر اطاعت میں جو یہ ساری تعریف کی تو اس لئے اس کا نام مہدی رکھاگیا)۔

’’دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیاہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماروں کو اچھا کرنا ہے۔ یعنی شریعت کے صد ہا مشکلات اور معضلات حل کرکے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے۔ پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسیٰ رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا۔ غرض اس آیت شریف میں جو دو فقرے موجود ہیں ایک بِالْھُدٰی اور دوسر ے دِیْنِ الْحَقّ ان میں سے پہلا فقرہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ مہدی ہے اور خدا کے ہاتھ سے صاف ہوا ہے اور صرف خدا اس کا معلم ہے۔ اور دوسرا فقرہ یعنی دِیْنِ الْحَقّ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ عیسیٰ ہے اور بیماروں کو صاف کرنے کے لئے اور ان کو ان کی بیماریوں پر متنبہ کرنے کے لئے علم دیا گیا ہے اور دین الحق عطا کیا گیا ہے تا وہ ہر ایک مذہب کے بیمار کو قائل کر سکے اور پھر اچھا کر سکے اور اسلامی شفاخانہ کی طرف رغبت دے سکے کیونکہ جبکہ اس کو یہ خدمت سپرد ہے کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ علم محاسن وعیوب مذاہب اس کو دیا جائے‘‘۔ (یعنی ایسا علم دیا جائے جس میں دوسرے مذہب کی خوبیوں اور خامیوں کا پوری طرح علم ہو، ادراک ہو، فہم ہو)۔ ’’اور اقامتِ حجج اور افہام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا کی ہو‘‘۔ (اقامت حجج یعنی ایسی دلیلیں اور نشانات جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہوں وہ اس کو دئیے جائیں اور افہام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا ہو۔ یعنی دلیل سے مخالفین کے جو سوال ہیں، جھگڑے ہیں ان کا جواب دیا جائے۔ یہ ملکہ اس آنے والے کو خاص طور پر ایک نشان کے طور پر۔ عطا کیا گیا ہے، یہ خارق عادت ہے۔ پس بتاؤ) ’’ہر ایک پابند مذہب کو اس کے قبائح پر متنبہ کر سکے‘‘۔ (یعنی ہر ایک مذہب کی برائیوں پر ان کو متنبہ کرے، ان کو اطلاع دے)’’اور ہر ایک پہلو سے اسلام کی خوبی ثابت کر سکے اور ہر ایک طور سے روحانی بیماروں کا علاج کر سکے۔ غرض آنے والے مصلح کے لئے جو خَاتَمُ الْمُصْلِحِیْن ہے دو جو ہر عطا کئے گئے ہیں۔ ایک علم الھدیٰ جو مہدی کے اسم کی طرف اشارہ ہے جو مظہر صفت محمدیت ہے یعنی باوجود امیت کے علم دیاجانا‘‘ (یعنی لاعلم ہونے کے باوجود علم دیا جانا۔ اللہ تعالیٰ خودسکھاتا ہے۔ یہ مہدی ہونے کی نشانی ہے)’’اور دوسرے تعلیم دین الحق جو انفاس شفا بخش مسیح کی طرف اشارہ ہے‘‘۔ (روحانی شفا دینے کی طرف اشارہ ہے)۔ ’’یعنی روحانی بیماریوں کے دور کرنے کے لئے اور اتمام حجت کے لئے ہر ایک پہلو سے طاقت عطا ہونا اور صفت علم الھدیٰ اس فضل پر دلالت کرتی ہے جو بغیر انسانی واسطے کے خداتعالیٰ کی طرف سے ملا ہو اور صفت علم دین الحق افادہ اور تسکین قلوب اور روحانی علاج پر دلالت کرتی ہے‘‘۔ (اربعین نمبر 2۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ357-356)

یعنی پہلے علم دیا۔ پھر اس کی پوری کوشش کی۔ اس کو سیکھا سکھایا اور پھر آگے پھیلایا تاکہ اس کا علاج ہو۔

پس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے مسیح و مہدی کا یہ مقام ہے جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے اور اسلام کی نئی زندگی کے لئے بھیجا ہے۔ تا دنیا پر اسلام کی روشن تعلیم واضح اور عیاں ہو۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اس مسیح و مہدی کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ، جو ہادی ہے، کے بھیجے ہوئے اس مہدی کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جس راستے پر چلے ہیں اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہیں۔ کبھی ٹھوکر نہ لگے۔ اور اس منزل مقصود کی طرف چلتے رہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہے۔

اس وقت مَیں چند جنازے بھی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔ ایک ہے محترمہ خاتم النساء درد صاحبہ ہیں جو مکرم مولانا محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 78سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ لجنہ کے بھی کام کرتی رہیں۔ اپنے خاوند جو مربی تھے، مبلغ تھے ان کے ساتھ میدان عمل میں نہایت سادگی سے اور قناعت سے انہوں نے گزارا کیا۔ خاموش طبع اور ملنسار تھیں۔ دعا گو تھیں۔ آپ کے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی واقف زندگی ہیں۔ محمد احمد اشرف صاحب، فضل عمر ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور محمود احمد اشرف صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ کے استاد ہیں۔ اسی طرح دو بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فر مائے۔

پھر ایک جنازہ سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب مرحوم کا۔ ان کی 88سال کی عمر میں وفات ہو ئی ہے۔ چند مہینے پہلے ان کے جوان بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کو شہید کیا گیا تھا اور بڑے صبر سے انہوں نے ان کا یہ صدمہ برداشت کیا۔ ان کی 2فروری کو وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی بیٹی تھیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے معالج تھے اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی آخری بیماری میں 24گھنٹے آپ کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ دین کا اچھا علم رکھنے والی تھیں۔ بچیوں کو دینی تعلیم دینے والی۔ میرپور خاص میں بڑا لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہی ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے جب ان کے خاوند کو حکم دیا تھا کہ میرپور خاص میں جا کر آباد ہوں تو پورے تعاون کے ساتھ ان کے ساتھ وہاں رہیں اور وہاں جماعت کو آرگنائز کیا۔ ان کے ایک ہی بیٹے تھے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب جو شہید ہو گئے تھے اور کوئی اولادنہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔

تیسرا جنازہ عفیفہ صاحبہ اہلیہ سیوطی عزیز احمد صاحب کا ہے جو انڈونیشیا کے رئیس التبلیغ ہیں 65سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو پھیپھڑوں کی بیماری تھی۔ یہ مولانا عبدالواحد سماٹری صاحب کی بیٹی تھیں اور خدا کے فضل سے موصیہ بھی تھیں۔ ساری زندگی انہوں نے وہیں گزاری۔ بڑی دعا گو تھیں۔ غریب پرور تھیں اور ہمارے جماعت انڈونیشیا کے امیرعبدالباسط صاحب کی یہ بہن ہیں۔ انہوں نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو نیکیوں پر قائم کرے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔

چوتھا جنازہ ہے مرزا محمد اکرم صاحب ابن مکرم مرزا محمد اسلم صاحب۔ یہ نارووال کے ایک گاؤں یا قصبے کے ہیں ان کی وفات ہوئی۔ نوجوان تو نہیں ابھی انصاراللہ میں قدم رکھا ہی تھا۔ ان کی دکان پہ ڈکیتی ہوئی اور ان کے جسم پہ 23گولیاں لگیں جو ڈاکوؤں نے فائر کئے۔ موقع پہ انتقال کر گئے۔ بہرحال اس لحاظ سے یہ بھی شہید ہیں۔ جماعتی کاموں میں بڑے فعال تھے۔ بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے۔ بڑے بااخلاق انسان تھے۔ مالی قربانیوں میں بڑے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ ان کومختلف جماعتی خدمات کی توفیق ملی۔ شہادت کے وقت یہ مقامی سیکرٹری تحریک جدید تھے۔ سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے۔ انصاراللہ میں نگران حلقہ تھے۔ خدام الاحمدیہ کے لمبا عرصہ قائد رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خدمت کی توفیق دی۔ بچے ان کے چھوٹے چھوٹے ہیں۔ 15سال سے لے کر 7سال تک۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ان کے درجات بلند فرمائے جیسا کہ مَیں نے کہا ہے ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ جنازہ غائب ادا کروں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 8 مورخہ 20 فروری تا 26 فروری 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ فروری 2009ء شہ سرخیاں

    نبی کی تعریف۔ امام کو پہچاننے والوں کی صفات کا ذکر۔  علماء کا اقرار کہ مسلمانوں میں دین نام کا رہ گیا ہے اور خلافت پر اُن کا زور دینا۔ اللہ سے دعا کے ذریعہ رہنمائی کے طریق کا بیان۔ اب کوئی مہدی و مسیح نہیں آئے گا خواہ یہ لوگ اور اُن کی نسلیں در نسلیں ناک رگڑتے رہیں، خدا مسلمانوں کو عقل دے کہ احمدیوں کو ظلم کا نشانہ نہ بنائیں۔ امام الزمان کی حقیقت کا بیان۔ مسیح و مہدی کے ساتھ ہی ترقیات وابستہ ہیں جو آ چکا ہے۔ 

    فرمودہ مورخہ 6؍فروری 2009ء بمطابق6؍تبلیغ 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور