جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض و مقاصد اور احمدیوں کی ذمہ داریاں

خطبہ جمعہ 6؍ مارچ 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مواقع پر جماعت کو جو نصائح فرمائیں، جن میں جماعت کے قیام کی غرض کے بارہ میں بھی بتایا اور افراد جماعت کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور پھر ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے اور اس غرض کے حصول کی کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جوفضل ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے وعدہ کیا ہے اور من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کوکہاں تک پہنچانا ہے اس بارہ میں بھی آپ نے بتایا۔ اس حوالہ سے مَیں اس وقت چند باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا تاکہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس رہے اور اس کی جگالی کرتے ہوئے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے والے بھی بن سکیں اور ان فضلوں کے وارث بن سکیں جو جماعت سے وابستہ رہ کر ہمیں ملیں گے۔

سلسلہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 16۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 16 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس سلسلہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہم میں سے بعض کو ان کے بزرگوں کی نیکیوں کی وجہ سے اس سلسلہ کو شناخت کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور ہم احمدی خاندانوں میں پیدا ہوئے اور بعض کو خود اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ بیعت کرکے سلسلے میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا تاکہ ہم اس گروہ خاص میں شامل ہو جائیں جس نے شیطان کے خلاف اسلام کی آخری جنگ لڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بننا ہے۔ اس وجہ سے ہم میں سے بعض کو بعض ممالک میں سختیوں اور ابتلاؤں سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس زمانہ کے امام کو ماناہے۔ لیکن ایک عظیم مقصد اور غرض کے حصول کے لئے ہماری قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو بے شمار تحریرات میں ہمیں ہمیشہ ان امتحانوں اور ابتلاؤں سے آگاہ فرماتے رہے جو آج بھی موجود ہیں کہ ابتلاء آئیں گے، تمہیں آزمایا جائے گا اور پھر اس کے نتیجہ میں خوشخبریاں بھی دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے۔ وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔ لعنتیں سنے گا۔ مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 16۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

آج اس زمانہ میں بھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الفاظ کو جوآپؑ نے فرمائے بعض ملکوں میں بعینہٖ اسی طرح پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اور آج بھی جواحمدی قربانیاں کر رہے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا اجر پانے والے ہیں۔ ان دنوں میں پاکستان میں اور پاکستان کے بعدہندوستان میں بھی خاص طور پرغیر احمدیوں نے نومبائعین کے ساتھ انتہائی ظلم کا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی نئی حکومت کے بعد احمدیوں پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کو کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ مولویوں کو حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور ان لوگوں کے عزائم اور منصوبے انتہائی خوفناک اور خطرناک ہیں۔ ایک تو ملک میں ویسے بھی قانون نہیں ہے۔ آج کل لاقانونیت کا دَور دَورہ ہے اور پھر احمدیوں کے لئے تو رہا سہا قانون بھی کسی قسم کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جب بھی یہ لوگ جماعت کے خلاف کوئی بڑا منصوبہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو خداتعالیٰ ان کے مکر ان پر الٹا دیتا ہے اور ان کو اپنی پڑ جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں اور ان دنوں میں بھی بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ ایک منصو بہ جماعت کے خلاف بنانے کی کوشش کی جا ری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ملک میں ایسی افراتفری پیدا کر دی کہ ان کو اپنی پڑ گئی۔

پس جہاں جہاں بھی احمدی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں داخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی۔ اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں۔ آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔

اس بارہ میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اغراض نفسانی شرک ہوتے ہیں۔ وہ قلب پر حجاب لاتے ہیں۔ اگر انسان نے بیعت بھی کی ہوئی ہو تو پھر بھی اس کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں‘‘۔ یعنی نفسانی غرضیں جو ہیں وہ شرک ہیں اور باوجود اس کے کہ بیعت کی ہوئی ہے دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ انسان سوچ سمجھ کے بیعت کرتا ہے۔ بعض پرانے احمدی ہیں لیکن پھر بھی بعض ایسی باتیں ہو جاتی ہیں جو ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں۔ فرمایا ’’ہمارا سلسلہ تو یہ ہے کہ انسان نفسانیت کوترک کرکے خالص توحید پر قدم مارے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ286حاشیہ۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس ایک احمدی کا فرض ہے کہ تمام قسم کی نفسانی اغراض سے اپنے دلوں کوپاک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام میں لگ جائے۔ آپؑ نے فرمایاکہ بیعت کرنے کے باوجود بعض لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں صرف اس لئے کہ اس غرض کو نہیں سمجھتے جس کے لئے وہ بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور وہ غرض یہی ہے کہ مکمل طور پر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دینا اور اپنے دل کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرنا۔

پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے اس غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ83۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس آج کل جبکہ دنیا کی بے حیائیاں عروج پر ہیں۔ نہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے۔ فتنہ و فساد ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان، مسلمان کی گردن خدا کے نام پر کاٹ رہاہے، مذہب کے نام پر کاٹ رہا ہے۔ ایک طرف سے یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ اسلام کے نام پر جو مملکت ہم نے حاصل کی ہے وہاں خداتعالیٰ کے دین کی حکومت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف مذہب کے نام پر، اپنی ذاتی اغراض کی خاطر، کلمہ گوؤں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے ایک خوفناک نمونہ کے طورپر ابھر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر بھی رحم کرے جس کی خاطر جماعت نے بہت قربانیاں دی ہوئی ہیں۔ اس بات کو ہر پاکستانی احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔ پس آج اگر اس ملک کو کوئی بچا سکتا ہے تو اس فسق و فجور اور فساد اور ظلم کے سمندر میں صرف ایک کشتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تیار کی ہے اور جس پر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سوار ہیں۔ پس ایک خاص کوشش کے ساتھ اپنے آپ کو بھی ہمیں اس کا اہل بنانے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے ہم قوموں کے لئے خاص دعا کی ضرورت ہے کہ وہ عقل سے کام لیں اور اپنے نام نہاد راہنماؤں کے پیچھے چل کر اپنی زندگیوں اور ملک کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں۔ بہرحال یہ دو بڑی اور اہم ذمہ داریاں ہیں جو ایک احمدی پر عائد ہوتی ہیں اور خاص طور پر پاکستانی احمدی پر کیونکہ وہاں کے حالات خراب ہیں۔ اور دنیا میں جہاں جہاں بھی حالات خراب ہیں، عموماً اب تو یہی نظر آتا ہے، احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسودہ حال بنایا ہو اہے بعض اوقات اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ دنیاوی کاموں میں ضرورت سے زیادہ پڑ جاتے ہیں۔ کئی شکایات آتی ہیں۔ جماعتی روایات اور اسلامی تعلیمات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ توحید کے قیام کے لئے جو سب سے اہم کام ہے اور جو انسان کا مقصد پیدائش ہے یعنی عبادت کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا اس کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی۔ پس بڑا خوف کا مقام ہے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کی بھی کمزوری اسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مصداق نہ بنا دے کہ لَیْسَ مِنْْ اَھْلِکَ (ھود: 47) کہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (ھود: 47)کہ یقینا اس کے عمل غیر صالح ہیں۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، کبھی کسی بیعت میں شامل ہونے والے کا مقام خداتعالیٰ کی نظر میں ایسا ہو۔ اس بات سے، خوف سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی نظر میں صالح ہوں۔ ہم اپنے زعم میں اپنے آپ کو، اپنے خو د ساختہ نیکیوں کے معیار پر پرکھنے والے نہ ہوں۔ بلکہ وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں جو اس زمانہ کے امام نے اپنی جماعت سے توقع رکھتے ہوئے ہمیں بتائے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پا سکتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 330۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خداتعالیٰ نے اگرچہ جماعت کو وعدہ دیا ہے کہ وہ اسے اس بلا‘‘ (یہ طاعون کا ذکر ہے) ’’سے محفوظ رکھے گا۔ مگر اس میں بھی شرط لگی ہوئی ہے کہ لَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ (الانعام: 83) کہ جو لوگ اپنے ایمانوں کو ظلم سے نہ ملاویں گے وہ امن میں رہیں گے‘‘۔ اس زمانے میں بھی بہت سی بلائیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔ قدم قدم پر کھڑی ہیں، ان سے بچنے کے لئے بھی یہی اصول ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایاہے۔

فرمایا ’’پھر دار کی نسبت وعدہ دیا تو اس میں بھی شرط رکھ دی کہ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِنْ اِسْتِکَبَارٍ۔ اس میں عَلَوْا کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ جس قسم کی اطاعت انکساری کے ساتھ چاہئے وہ بجا نہ لاوے۔ جب تک انسان حسن نیتی جس کو حقیقی سجدہ کہتے ہیں، بجا نہ لاو ے تب تک وہ دار میں نہیں ہے اور مومن ہونے کا دعویٰ بے فائدہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 453۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس فرمایا کہ حقیقی اطاعت اور انکساری جو ہے جب تک وہ نہیں بجا لاؤ گے، یہ سب دعوے جو ہیں غلط ہیں کہ ہم مومن ہیں، ہم نے بیعت کی ہے۔

پس یہ معیار ہیں جن کی ہم سے توقع رکھی جا رہی ہے۔ پس تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی کوشش اور اطاعت اور انکساری کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جو ایک احمدی کو کرنی چاہئے اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کی اُس راستہ کی طرف راہنمائی کرے گی جو ان منزلوں کی طرف لے جاتا ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے۔

اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ ایک موت اختیار کرے۔ نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب شے پر مقدم رکھے۔ بہت سی ریاکاریوں اور بیہودہ باتوں سے انسان تباہ ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 458۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

جودکھاوے کی باتیں ہیں، فضول باتیں ہیں، بیہودہ باتیں ہیں، وہ انسان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور پھر ہمارے سامنے جو جائزے آئیں، جو اپنی حالت نظر آئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ہر ایک کا اپنا نفس اس کو اصلاح کی طرف مائل کرنے والا ہونا چاہئے۔ خود اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب کسی قسم کی ضدنہ ہو۔ جب یہ احساس ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر میری زندگی کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ اپنی زندگی کا پاک نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرناہے۔ اور یہی بات اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسروں کو احمدیت اور حقیقی اسلام سے متعارف کروانے اور ان کی راہنمائی کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے اور بنتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ہر ایک اجنبی جو تم کو ملتا ہے وہ تمہارے منہ کو تاڑتا ہے اور تمہارے اخلاق، عادات، استقامت، پابندی احکام الٰہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے ہیں۔ اگر عمدہ نہیں تو وہ تمہارے ذریعہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ پس ان باتوں کو یاد رکھو‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 518۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’خداتعالیٰ اس وقت صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے۔‘‘ پس ہمیں صدق کے نمونے دکھانے کی ضرورت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 402۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اور صدق کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’جب عام طور پر انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتا ہے اور صدق کو شعار بنا لیتا ہے تو وہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خداتعالیٰ کو دکھا دیتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلداول صفحہ 243۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اور جب انسان خداتعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے تو اس کو خداتعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی معرفت ملتی ہے تو پھر اس کی کامل اطاعت کی طرف ہمیشہ نظر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا حقیقی عرفان ملتا ہے۔ ہر قسم کے شرک سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ ہونے کا صحیح علم حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر و حوصلے سے ہر قسم کے ابتلاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا ہوتا ہے۔ تمام قسم کے اعلیٰ اخلاق بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ غرض کہ صدق کے اعلیٰ نمونے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہر وقت، ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد سے راہنمائی کرتے ہیں۔ پس یہ خلاصتہً اس جماعت کی غرض اور مقصد ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خداتعالیٰ صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے۔ اگر ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لیں تو ایک خوف کی صورت نظر آ تی ہے۔ پس ایسی صورت میں پھر ہمیں خداتعالیٰ کی طرف لوٹتے ہوئے اس کے حضور جھکنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ ان راستوں پہ چلنا بھی اس کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو تو جتنی بھی ہم کوشش کر لیں کچھ نہیں ہو سکتا۔

اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ان افراد میں شامل ہو جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’خداتعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس فسق وفجور کی آگ سے ایک جماعت کو بچائے اور مخلص اور متقی گروہ میں شامل کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ538۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اور یہ متقی گروہ کون سا ہے؟ اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 320۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

بیعت کے موافق کا مطلب یہ ہے کہ بیعت کی جو شرائط ہیں ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے اُس متقی گروہ میں شامل ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی اس حقیقت کو سمجھنے والا ہو جس کا آپؑ نے اظہار فرمایا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم کبھی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اناؤں کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے صرف نظر کرنے والے نہ ہوں۔ دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہوں تاکہ ہماری نسلیں بھی ان راستوں پر چلتے ہوئے ہمارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں۔ اور جوہمارے ذریعہ سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کریں وہ بھی اپنے ان محسنوں کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں جنہوں نے انہیں احمدیت سے متعارف کروایا اور جن کی وجہ سے وہ احمدیت میں شامل ہوئے۔ جماعت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا ہے اور پھلنا ہے۔ ہم گزشتہ 100 سال سے زائد عرصہ سے یہی دیکھتے آ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت پر اپنی رحمت کا ہاتھ رکھا ہوا ہے اور جماعت میں ہر سال لاکھوں سعید روحوں کو شامل کرتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نئے شامل ہونے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے اور احسان مند اور شکر گزار بنائے۔ جوں جوں جماعت کی تعداد اور مضبوطی بڑھ رہی ہے، حسد کی آگ بھی اسی طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کامَیں پہلے بھی کئی دفعہ، کئی موقعوں پر اظہار کر چکا ہوں۔ مخالفین ہمیشہ جماعت کے بارہ میں یہی سوچ رکھتے ہیں اور ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ جماعت تباہ ہو۔ اور یہی سوچ سکتے تھے اور انتظار میں ہوتے تھے کہ دیکھیں جماعت اب تباہ ہوئی کہ اب تباہ ہوئی۔ اور وہ یہی شورہمیشہ مچاتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ بڑھتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ اب بھی ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے اپنا فضل فرما رہا ہے اور ہمیشہ فرماتا رہے اور دشمن کا ہر وار ناکام و نامراد ہوتا رہے۔ جماعت کی یہ سب کامیابیاں جو ہمیں نظر آتی ہیں اور دشمن کو بھی اب نظر آ رہی ہیں یہ اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے اور اس وعدہ کی وجہ سے آپؑ نے ہمیشہ جماعت کو تسلی دلائی ہے۔

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ہمارے متبعین پر ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ عروج ہی عروج ہو گا لیکن یہ خبر نہیں کہ ہمارے دور میں ہویا ہمارے بعد ہو۔ خداتعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ سو یہ بات ابھی پوری ہونے والی ہے‘‘۔ فرمایا ’’یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے کہ اوّل گروہ غرباء کو اپنے لئے منتخب کیا کرتا ہے اور پھر انہیں کامیابی اور عروج حاصل ہوا کرتا ہے…… ہمیں اس امر سے ہرگز تعجب نہیں کہ ہمارے متبعین امیر نہ ہوں گے۔ امیر تو یہ ضرور ہوں گے لیکن افسوس تو اس بات سے آتا ہے کہ اگر یہ دولت مند ہو گئے تو پھر انہی لوگوں کے ہمرنگ ہو کر دنیا سے غافل ہو جاویں اور دنیا کو مقدم کر لیں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 489۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہیں اصل فقرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے۔ عروج تو جماعت کو حاصل ہونا ہے انشاء اللہ تعالیٰ لیکن اس عروج کی حالت میں پھر دنیا کو کہیں دین پر مقدم نہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت سے متعلق جو خواہشات اور توقعات ہیں ان پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس برائی سے بچا کر رکھے جس کے بارہ میں آپؑ نے فکر کا اظہار کیا ہے اور اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ آپؑ کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل جلدنمبر 16 شمارہ نمبر 13 مورخہ 27 مارچ تا 2، اپریل 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ مارچ 2009ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض ومقاصد اور احمدیوں کی ذمہ داریوں کا تذکرہ۔ پاکستان و ہندوستان میں غیر احمدیوں کا نومبائعین کے ساتھ انتہائی نا روا سلوک۔ پاکستانی حالات کا ذکر۔ کسی بڑے منصوبے پر خدا اُن کا مکر اُن پر الٹا دیتاہے۔ مظلوم احمدیوں کو صبر اور خدا کے آگے مزید جھکنے کی نصیحت۔ آج دنیا میں پاکستان کا تصور ظلم و بربریت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ آج حضرت مسیح موعودؑ کی کشتی اِس ملک کو بچا سکتی ہے۔ اصلاح کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ضدنہ ہو۔ جماعت کی ترقی پر حسد بھی یونہی بڑھے گا۔

    فرمودہ مورخہ 06؍مارچ 2009ء بمطابق06؍امان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور