صفت رافع۔ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی نشانیاں

خطبہ جمعہ 7؍ اگست 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوالْعَرْشِ۔ یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِرَ یَوْمَ التَّلَاقِ  (المؤمن: 16)

اللہ تعالیٰ جورَفِیْعُ الدَّرَجٰت ہے، بہت بلند شان والا ہے۔ تمام صفات کا مالک ہے۔ وہ یہ اعلان فرماتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس پر چاہتا ہے روح اتارتا ہے۔ یعنی وہ پیغام د ے کر بھیجتا ہے جو روحانی لحاظ سے زندگی بخش پیغام ہوتا ہے۔ جو روحانی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ ان کو اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور باقی رہنے والی زندگی اِس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس لئے اس دنیا میں جو کہ آزمائشوں اور امتحانوں کا گھر ہے ایسے اعمال بجا لاؤ جو خداتعالیٰ کو پسندیدہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانہ میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں اور اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ سے عشق و محبت کی وجہ سے مسیح موعود و مہدی معہود کو بھیجا۔ اس شخص کو بھیجا جس کے متعلق پہلے سے ہی یہ اعلان آنحضرتﷺ نے کر دیا تھا کہ وہ مہدی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت یافتہ ہو گا اور اسلام کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کے لئے مبعوث ہو گا۔ پس یہ روح جو اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے کرتا ہے۔ یہی روحانی زندگی کاسامان بنتا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف چلنے کی راہنمائی کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام بھی ہوا تھا کہ یُلْقِی الرُّوْحَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ (تذکرہ صفحہ 533 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی روح ڈالتا ہے۔ یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے۔

پھر آپؑ کا ایک اور الہام ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ رُوْحِیْ تُو مجھ سے بمنزلہ میری روح کے ہے۔ (تذکرہ صفحہ 629 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اپنے خاص بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے یہ روح ڈال کر ان کے مقام کا رفع کرتا ہے۔ جس کا قرآن کریم میں ایک جگہ یوں ذکر آیا ہے کہ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ۔ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ(الانعام: 84) کہ ہم جس کو چاہتے ہیں درجات میں بلند کردیتے ہیں یقینا تیرا رب بہت حکمت والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ پس یہ خداتعالیٰ ہے جو درجات کو بلند کرتا ہے۔ اس دنیا میں اپنے روحانی نظام کو چلانے کے لئے اپنے انبیاء، اولیاء اور مقربین کو بھیجتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور علم اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کس وقت میں، اور کن میں سے، اور کس کو اپنے خاص پیغام کے ساتھ دنیا کی اصلاح اور انہیں ہوشیار کرنے کے لئے بھیجنا ہے اور اس زمانے میں اس حکیم اور علیم خدا نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی بنا کر بھیجا ہے۔ آخرین میں آپ کے مبعوث ہونے کا ذکر خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے۔ اور آنحضرتﷺ نے اس مسیح و مہدی کے مقام و مرتبہ اور ایک خاص نشانی بتا کر اُمّت مسلمہ کو اسے قبول کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ مسلمان اگر آنحضرتﷺ کے اس پیغام کو غور سے اور صاف دل ہو کر پڑھیں اور سنیں تو کبھی آنحضرتﷺ کے اس عاشق صادق کی مخالفت نہ کریں بلکہ اسے قبول کرنے کی طرف توجہ کریں۔ آنحضرتﷺ نے مسیح کو نبی اور اپنے خلیفہ کا مقام عطا فرمایا ہے اور فرمایا کہ جو بھی اس کا زمانہ پائے اسے میرا سلام پہنچائے۔ (یہ حدیث مختصر بھی اور تفصیلی بھی مختلف کتابوں میں ہے المُعجم الکبیرللطبرانی میں بھی ہے۔ پھر ابو داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے)۔ (مسند احمد بن حنبل جلد3 مسند ابی ہریرہؓ حدیث نمبر 7957 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پھر آپ نے اپنے مہدی کے متعلق جو مسیح بھی ہے یہ نشانی بتائی جوسنن دارقطنی میں ہے کہ حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے (جو حضرت امام حسین کے پوتے امام علی زین العابدین کے صاحبزادے اور امام حسین کے پوتے تھے) کہتے ہیں کہ ہمارے مہدی کی سچائی کے دو نشان ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں وہ کسی کی سچائی کے لئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے۔ یعنی چاند کو اس کے گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو گرہن ہو گا اور سورج کو گرہن کی تاریخوں میں سے درمیانی تاریخوں کو گرہن ہو گا۔ اور فرمایا کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ان دونوں کو اس سے پہلے بطور نشان کبھی گرہن نہیں ہوا۔ (سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف و الکسوف و ھیئتھما حدیث 1777)

پس یہاں اس مقام کو بتانے کے لئے آنحضرتﷺ نے ایک غیر معمولی آسمانی نشانی کی طرف توجہ دلائی ہے جو اپنی شان کے ساتھ 1894ء میں پورا بھی ہوا۔ وہاں ’’لِمَہْدِیِّنَا‘‘ کہ’’ہمارے مہدی کے لئے‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ فرمایا اِنَّ لِمَہْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور یہ لفظ ہمارے مہدی کا استعمال کرکے اپنے پیار اور قرب کا اظہار فرمایا ہے۔

اس وقت مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو بھی مسیح ومہدی آنے والا تھا اس کا ایک مقام تھا اور آنے کی نشانیاں بتائی گئی تھیں اور یہ نشانیاں ہمیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں نظر آتی ہیں اور ان کو دیکھ کر ایک سعید فطرت جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے۔ آپ کا یہ جو مقام تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کی تائید ات کا وعدہ کیا اور کس طرح آپ کو یہ ارفع مقام دینے کا آپ سے وعدہ فرمایا۔ یہ وعدہ اس زمانہ میں پورا ہوا جب آپ نے دعویٰ فرمایا اور آج تک یہ وعدہ اللہ تعالیٰ پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ انبیاء کی مخالفت ہوتی ہے آپ کی بھی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ لیکن خداتعالیٰ نے آپ کے مقام کو اس وقت بھی بلندیوں سے سرفراز فرمایا جب آپ نے دعویٰ فرمایا اور آج تک بھی فرماتا چلا جا رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ اللہ فرماتا ہے یَا اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِکہ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا و آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا۔ (تذکرہ صفحہ39۔ ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ)

پھر ایک الہام ہوا کہ حَمَاکَ اللّٰہُ۔ نَصَرَکَ اللّٰہُ۔ رَفَعَ اللّٰہُ حُجَّۃَ الْاِسْلَامِ۔ جَمَالٌ۔ ھُوَا لَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَوْلِیَاءِ۔ خدا تیری حمایت کرے گا، خدا تجھ کومدد دے گا، خدا حجت اسلام کو بلند کرے گا۔ جمال الٰہی ہے۔ جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ (تجھے پاک صاف کیا ہے)۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے او ر کوئی کسی راہ سے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 74۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

پس آج خداتعالیٰ تک پہنچنا ہے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ہے اس کا حسن دیکھنا ہے تو آنحضرتﷺ کے اس عاشق اور مسیح و مہدی کے ساتھ جُڑ کر ہی نظر آ سکتا ہے۔ کیا خداتعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرکے کوئی اپنی شان بڑھا سکتا ہے؟ اب تک تو خداتعالیٰ کواس طرح جھوٹ منسوب کرنے والے کو ذلیل و رسوا کر دینا چاہئے تھا۔ لیکن نہیں، وہ خدا جو اپنے بندے پر اپنا کلام اتارتاہے یہ اس خداتعالیٰ کے سچے اور بھیجے ہوئے کا کلام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور اس نے ہمیں بتایا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام ہر روز ایک نئی شان سے اوپر ہی اوپر بڑھ رہا ہے۔

خداتعالیٰ نے آپ سے پھر یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ ’’وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔ ہم نے تیراوہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کر دیا ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 74۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ یَا عَبْدَالرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اِنِّیْ مُعِزُّکَ لَامَانِعَ لِمَا اَُعْطِیْ کہ اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے! مَیں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا۔ مَیں تجھے عزت اور غلبہ دوں گا، جو کچھ مَیں دوں اسے کوئی بندنہیں کر سکتا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 97۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

پس لوگوں کی کوششوں سے وہ فضل جو خداتعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اور آپ کی جماعت پر بھی جاری ہے۔ اس کو کوئی دنیاوی طاقت بندنہیں کر سکتی۔

پھر ایک الہام ہے کہ’’اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِمَامُ رَفِیْعُ الْقَدْرِ۔ اے عالی قدر امام! مَیں تیرے ساتھ ہوں‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 430۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

یہ چند الہامات بیان کرنے کا مقصد میرا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہامات کے ذریعہ تسلی دی تو آپ کے حق میں زمینی و آسمانی تائیدات کے نشانات بھی دکھائے۔ آپ کی جماعت میں شامل ہونے والاہرشخص چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں بستا ہو اس بات کا گواہ بن جاتا ہے کہ خداتعالیٰ نے اس کے دل میں آپؑ کے ارفع مقام کی پہچان کو ڈالا۔ اور جو بھی نیک نیت اور سعید فطرت ہے خداتعالیٰ اس کی ہدایت کے سامان پیدا فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں آپ کے مقام کی پہچان کروانے کے لئے بے شمار نشانات دکھائے جن کا بیان تو ممکن نہیں۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ان چند باتوں کا ذکر کروں گا جو آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں درج فرمائی ہیں اور جنہیں آپ نے اُن خاص حالات کے حوالے سے اپنے مقام و مرتبہ اور عزت کا باعث ٹھہرایا ہے۔ انجام آتھم جو کتاب ہے یہ آپ نے عبداللہ آتھم کی وفات پر لکھی تھی۔ اور عبداللہ آتھم وہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی سے ایک عبرت کا نشان بنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی سچائی او رشان کو دنیا پر ظاہر فرمایا۔ بہرحال عبداللہ آتھم ایک پادری تھا۔ اس کی وفات کو بعض علماء اور سجادہ نشینوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں کوئی نشان تسلیم نہ کیا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سب کو دعوت مباہلہ دی اور عربی زبان میں ایک مکتوب لکھا۔ یہ مکتوب کیا، دو سوصفحے سے اوپر کی ایک پوری کتاب ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اپنے حق میں تائیدات کا ذکر فرمایا اور اس کے آخر میں آپ نے اُردو زبان میں ایک ضمیمہ لکھا اس میں مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ایک بے بنیاد اعتراض پر جو مولوی عبداللہ غزنوی کے حوالے سے انہوں نے کیا تھا، کتاب کے حاشیہ میں اپنی تائید اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو عزت کا مقام دئیے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔ تو اس میں سے مَیں کچھ حصہ پیش کروں گا۔

آپ فرماتے ہیں کہ: ’’سو جاننا چاہئے کہ وہ اموربہ تفصیل ذیل ہیں جو بحکم اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ہماری عزت کے موجب ہوئے۔‘‘ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ’’آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ اپنے واقعی معنوں کے رو سے پوری ہو گئی اور اس دن سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو…براہین احمدیہ …میں لکھی گئی تھی۔ آتھم اصل منشاء الہام کے مطابق مر گیا اور تمام مخالفوں کا منہ کالا ہوا۔ اور ان کی تمام جھوٹی خوشیاں خاک میں مل گئیں۔ اس پیشگوئی کے واقعات پر اطلاع پا کر صدہادلوں کا کفر ٹوٹا اور ہزاروں خط اس کی تصدیق کے لئے پہنچے اور مخالفوں اور مکذّبوں پر وہ لعنت پڑی جو اب دم نہیں مار سکتے‘‘۔

پھر فرمایا کہ’’وہ امر جو مباہلے کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ ان عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کرنے کے لئے لکھا گیا تھا اور انہیں میں سے یہ عربی مکتوب ہے جو اب نکلا۔‘‘ (جوآپ نے انجام آتھم میں لکھا تھا) ’’کیا اس کے دوسرے بھائی ان رسائل کے مقابل پر مرگئے؟ اور کچھ بھی لکھ نہ سکے؟‘‘(یہ عبدالحق کے حوالے سے بات ہو رہی ہے)’’اور دنیا نے یہ فیصلہ کر دیا کہ عربی دانی کی عزت اسی شخص یعنی اس راقم کے لئے مسلم ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے) ’’جس کو کافر ٹھہرایا گیا ہے اور یہ سب مولوی جاہل ہیں۔‘‘

فرماتے ہیں کہ’’اسی وقت میں خدا نے شیخ محمد حسین بٹالوی کا وہ الزام کہ اس شخص کو عربی میں ایک صیغہ نہیں آتا میرے سرپر سے اتارا۔ اور محمد حسین اور دوسرے مخالفین کی جہالت کو ظاہر کیا۔ الحمدللہ علی ذالک۔‘‘

پھر فرماتے ہیں کہ’’تیسرا وہ امر جو… میری عزت کا موجب ہوا وہ قبولیت ہے جو مباہلے کے بعد دنیا میں کھل گئی۔ مباہلے سے پہلے میرے ساتھ شاید تین چارسو آدمی ہوں گے اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جان فشاں ہیں‘‘۔ (یہ 1893ء کی بات ہے)’’اور جس طرح اچھی زمین کی کھیتی جلد جلدنشوونما پکڑتی اور بڑھتی جاتی ہے ایسا ہی فوق العادت طورپر اس جماعت کی ایک ترقی ہو رہی ہے۔ نیک روحیں اس طرف دوڑتی چلی آتی ہیں اور خدا زمین کو ہماری طرف کھینچتا چلا آتا ہے‘‘(اور یہ اللہ تعالیٰ کا جو نشان ہے اس کو ہم آج بھی پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جس کا میں نے کچھ ذکر اپنے جلسے کی رپورٹ میں بھی کیا تھا)۔ فرماتے ہیں کہ’’مباہلہ کے بعد ہی ایک ایسی عجیب قبولیت پھیلی ہے کہ اس کو دیکھ کر ایک رقت پیدا ہوتی ہے۔ ایک دو اینٹ سے اب ایک محل تیار ہو گیا ہے اور ایک دو قطرے سے اب ایک نہر معلوم ہوتی ہے‘‘(اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھیں کہ نہریں بھی بڑے بڑے دریاؤں کی اور تیز اور تنددریاؤں کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہیں اور باوجود تمام تر مخالفتوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں لوگ شامل ہو رہے ہیں )۔ فرمایا کہ’’فرشتے کام کر رہے ہیں اور دلوں میں نور ڈال رہے ہیں سو دیکھو …کیسی عزت ہم کو ملی۔ سچ کہو کیا یہ خدا کا فعل ہے یا انسان کا‘‘۔

پھر فرمایا ’’وہ امر جو مباہلے کے بعد میری عزت کا موجب ہوا، رمضان میں خسوف و کسوف ہے۔ کتب حدیث میں صدہا برسوں سے یہ لکھا ہوا چلا آ تا تھا کہ مہدی کی تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف وکسوف ہو گا اور آج تک کسی نے نہیں لکھا کہ پہلے اس سے کوئی ایسا مہدویت کا مدعی ظاہر ہوا تھا جس کو خدا نے یہ عزت دی ہو کہ اس کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہو گیا ہو۔ سو خدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی۔‘‘

فرماتے ہیں کہ’’اے اندھو! اب سوچو کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت کس کو ملی؟ عبدالحق تو میری ذلت کے لئے دعائیں کرتا تھا۔ یہ کیا واقعہ پیش آیا کہ آسمان بھی مجھے عزت دینے کے لئے جھکا۔ کیا تم میں ایک بھی سوچنے والا نہیں جو اس بات کو سوچے۔ کیا تم میں ایک بھی دل نہیں جو اس بات کو سمجھے۔ زمین نے عزت دی، آسمان نے عزت دی اور قبولیت پھیل گئی۔‘‘

پھر فرمایا’’پانچواں وہ امر جو مباہلے کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا علم قرآن میں اتمام حجت ہے۔ مَیں نے یہ علم پا کر تمام مخالفوں کو کیا عبدالحق کا گروہ اور کیا بطالوی کا گروہ، غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرسکے۔ سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا اور اپنی جہالت پر جو تمام ذلتوں کی جڑ ہے انہوں نے مہر لگا دی‘‘۔ فرماتے ہیں ’’اور اسی زمانے میں کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی۔ اس کرامت کے مقابل پر کوئی شخص ایک حرف بھی نہ لکھ سکا‘‘۔ پھر فرماتے ہیں ’’اور کیا اب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت خدا نے مجھے دی‘‘۔

’’چھٹا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبدالحق کی ذلت کا موجب ہوا یہ ہے کہ عبدالحق نے مباہلے کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہو گا اور مَیں نے بھی خداتعالیٰ سے الہام پا کر یہ اشتہار انوارالاسلام میں شائع کیا تھا کہ خداتعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا۔ سو خداتعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں تو لڑکا پیدا ہو گیا جس کا نام شریف احمدہے‘‘ (حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی پیدائش کا بیان ہے) ’’اور قریباًپونے دوبرس کی عمر رکھتا ہے۔ اب عبدالحق کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’کیا اس کے سوا کسی اور چیز کا نام ذلت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا وہ پورا نہ ہوا اور جو کچھ مَیں نے خدا کے الہام سے کہا خدا نے اس کو پورا کر دیا‘‘۔

پھر فرماتے ہیں ’’ساتواں امر جو مباہلے کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا۔ مجھے کبھی یہ طاقت نہ ہو گی کہ مَیں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کر سکوں جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے وارد حال ہو گئے۔ روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا ہوں یعنی یہ کہ خداتعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبدالحق کیا بلکہ کُل مخالفوں کی ذلت ہوئی۔ ہر ایک خاص و عام کو یقین ہو گیا کہ یہ لوگ صرف نام کے مولوی ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں ’’اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں وہ مالی فتوحات ہیں جو اس درویش خانہ کے لئے خداتعالیٰ نے کھول دیں۔ مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا جو اس سلسلہ کے ربّانی مصارف میں خرچ ہوا‘‘۔ فرماتے ہیں ’’خدا نے ایسے مخلص اور جان فشان ارادتمند ہماری خدمت میں لگا دئیے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت دیکھتے ہیں‘‘۔

پھر آگے آپ نے اپنے چند مخلصین کا نام لے کے ذکر بھی فرمایا ہے جنہوں نے ہزاروں روپیہ اسلام کی خاطر احمدیت کی ترقی کی خاطر دیا اور ماہوار بھی دیتے چلے گئے۔ اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی تائید کا یہ نشان کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ مالی لحاظ سے بھی اور تعداد کے لحاظ سے بھی۔ اور روحانی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے ترقی سب سے اہم چیز ہے جو ہونی چاہئے۔

پھر’’آٹھواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت زیادہ کرنے کے لئے ظہور میں آیا کتاب ست بچن کی تالیف ہے۔ اس کتاب کی تالیف کے لئے خداتعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے تھے‘‘۔ (یہ چولہ بابا نانک کے بارے میں ہے کہ وہ اتنا عرصہ محفوظ رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے یہ ظاہرہوا کہ بابا نانک جو تھے وہ مسلمان ہوئے)۔ آپ فرماتے ہیں ’’مَیں اس کتاب میں باوا نانک صاحب کی نسبت ثابت کر چکا ہوں کہ باوا صاحب درحقیقت مسلمان تھے اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ آپ کا ورد تھا۔ آپ بڑے صالح آدمی تھے۔ آپ نے دو مرتبہ حج بھی کیا‘‘۔ اور اسی چولہ کو ایک زمانے میں غائب کر دیا گیا تھا لیکن اب پھریہ ایک خاندان کے پاس محفوظ ہے۔ ہمارے جلسے پہ ایک سکھ مہمان بیدی صاحب آئے تھے۔ انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ ان کے خاندان کے پاس محفوظ ہے۔

پھر ایک نشانی یہ ہے کہ ’’نواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کے زیادہ ہونے کا موجب ہوا یہ ہے کہ اس عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ میں بیعت کی اور بعض قادیان پہنچ کر اور بعض نے بذریعہ خط توبہ کااقرار کیا۔ پس میں یقینا جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جوخدا کی رضا مندی کے بعد حاصل ہوتی ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے‘‘۔

اور یہی چیز ہے جیسا کہ مَیں نے کہا صلاحیت اور تقویٰ کی ترقی جو ہے جماعت کو اس میں بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ صرف تعداد بڑھنا کافی نہیں ہے اس لئے ہمیں احمدیوں کو اپنی روحانی حالتوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ہر وقت ضرورت ہے۔

فرماتے ہیں ’’……مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں‘‘۔

پس یہ معیار ہیں جو آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سوں میں قائم بھی ہیں اور ہمیں قائم رکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

پھر فرماتے ہیں ’’اب ہمارے مخالفین کو سوچنا چاہئے کہ اس باغ کی ترقی اور سرسبزی عبدالحق کے مباہلہ کے بعد کس قدر ہوئی ہے۔ یہ خدا کی قدرت نے کیا ہے۔ جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے۔ ہماری امرتسر کی مخلص جماعت۔ ہماری لاہور کی مخلص جماعت۔ ہماری سیالکوٹ کی مخلص جماعت ہے۔ ہماری کپور تھلہ کی مخلص جماعت ہے۔ ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نور اخلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک بافراست آدمی، ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقینا سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دئیے۔ ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں۔ و ہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے تیار کر رہا ہے‘‘۔

یہاں اس حوالے سے مَیں اس جگہ سے منسوب ہونے والے، ان شہروں سے منسوب ہونے والے، ہندوستان سے منسوب ہونے والے لوگوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے آباء و اجداد کی ان قربانیوں اور اخلاص کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں کہ یہی چیز جو ہے وہ جماعتی ترقی کا بھی موجب بننے والی ہے اور حقیقی رنگ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جوڑ کر ان تمام فیضوں سے فیضیاب کرنے والی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ہے اور آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان سے باہر نکل کر بھی دنیا کی جماعتوں میں یہ اخلاص پیدا ہو رہا ہے۔ کیا یورپ کیا ایشیا کیا افریقہ۔ پس ہر جماعت کو اپنے روحانی معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ترقی کرتے چلے جانا چاہئے۔

پھر فرمایا ’’دسواں امر جو عبدالحق کے مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا جلسہ مذاہب لاہور ہے۔ اس جلسہ کے بارہ میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جس رنگ اور نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں پیدا ہوئی اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا کچھ ضرورت نہیں کہ مَیں اس کی تفصیل کروں۔ بہت سی گواہیاں اس بات پر سن چکے ہو کہ اس مضمون کا جلسہ مذاہب پر ایسا فوق العادت اثر ہوا تھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کر حاضر ہو گئے تھے۔ ہر ایک دل اس کی طرف ایسا کھینچا گیا تھا کہ گویا ایک دست غیب اس کو کشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جا رہا ہے۔ جب لوگ بے اختیار بول اٹھے تھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج بباعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سبکی اٹھانی پڑتی۔ ہر ایک پکارتا تھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی۔ مگر سوچو کہ کیا یہ فتح ایک دجال کے مضمون سے ہوئی؟ پھرمَیں کہتا ہوں کیا ایک کافر کے بیان میں یہ حلاوت اور یہ برکت اور یہ تاثیر ڈال دی گئی۔ وہ جو مومن کہلاتے تھے اور آٹھ ہزار مسلمانوں کو کافر کہتے تھے جیسے محمد حسین بٹالوی۔ خدا نے اس جلسہ میں کیوں ان کو ذلیل کیا۔ کیا یہ وہی الہام نہیں کہ’’مَیں تیری اہانت کرنے والوں کی اہانت کروں گا‘‘۔ اس جلسہ اعظم میں ایسے شخص کو کیوں عزت دی گئی جو مولویوں کی نظر میں کافر مرتد ہے۔ کیا کوئی مولوی اس کا جواب دے سکتاہے۔ پھر علاوہ اس عزت کے جو مضمون کی خوبی کی وجہ سے عطا ہوئی اسی روز وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو اس مضمون کے بارے میں پہلے سے شائع کی گئی تھی۔ یعنی یہ کہ یہی مضمون سب مضمونوں پر غالب آئے گا اور وہ اشتہارتمام مخالفوں کی طرف جلسے سے پہلے روانہ کئے گئے تھے۔ …… سو اس روز وہ الہام بھی پورا ہوا اور شہر لاہور میں دھوم مچ گئی کہ نہ صرف مضمون اس شان کا نکلا جس سے اسلام کی فتح ہوئی بلکہ ایک الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔‘‘حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا یہ مضمون پڑھا تھا۔

فرماتے ہیں کہ’’… سو یہ عزتیں اور قبولیتیں ہم کو تو مباہلہ کے بعد ملیں۔ اب کوئی مولوی ہمیں سمجھاوے کہ عبدالحق نے مباہلہ کے بعد کون سی عزت دنیا میں پائی۔ کون سی قبولیت اس کی لوگوں میں پھیلی۔ کون سے مالی فتوحات کے دروازے اس پر کھلے۔ کون سی علمی فضیلت کی پگڑی اس کو پہنائی گئی‘‘۔ فرماتے ہیں ’’یہ دس برکتیں مباہلے کی ہیں جو مَیں نے لکھی ہیں۔ پھر کیسے خبیث وہ لوگ ہیں جو اس مباہلے کو بے اثر سمجھتے ہیں۔ فَعَلَیْھِمْ اَنْ یَّتَدَبَّرُوْا وَ یُفَکِّرُوْا فِیْ ھٰذِہِ الْعَشَرَۃِ الْکَامِلَۃِ‘‘۔ (انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 309تا 317حاشیہ)

پس اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپؑ کو نشان دکھائے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے اپنے حق میں نشانات کا ذکر کرتے ہوئے اور اس ارفع شان کا ذکر کرتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ کہ دشمن کس طرح نامراد ہوئے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ’’مَیں بموجب آیت کریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے… وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے۔ میری تائید میں اس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں …… کہ اگر مَیں ان کو فرداً فرداً شمار کروں تو مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ (یہ 1906ء کی بات ہے) اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو میں اس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں خداتعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں ہر محل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اس نے پوری کیں۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جن میں اس نے بموجب اپنے وعدہ اِنِّی مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے، میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کیا‘‘ (اور اس بات کے نمونے ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ الہام کے پورا ہونے کے کئی واقعات ہیں اور مختلف ملکوں میں یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں )۔ پھر فرماتے ہیں کہ’’بعض نشان اس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری مدت بعث سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی یہ مدت دراز کسی کاذب کو نصیب نہیں ہوئی۔ اور بعض نشان اس زمانے کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ (اور یہی حالت آج کل بھی اور امام کی ضرورت کا تقاضا کرتی ہے۔ جب ہر جگہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّوَالْبَحْرِ (الروم: 42) کا نظارہ ہمیں نظر آتا ہے اور خاص طور پر مسلمان کہلانے والے جو ممالک ہیں ان میں سب سے زیادہ بے سکونی بڑھ رہی ہے اور فساد پیدا ہو رہا ہے۔ فرماتے ہیں ’’اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جس میں دوستوں کے حق میں میری دعائیں منظور ہوئیں۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بددعا کا اثر ہوا۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں میری دعا سے بعض خطرناک بیماروں نے شفا پائی اور ان کی شفا سے پہلے مجھے خبر دی گئی۔ … اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں اور آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھا۔ جیسے سجادہ نشین صَاحِبُ الْعَلَمْ سندھ جن کے مرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں ان کو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے‘‘۔ (اور یہ نظارے ہم آج بھی دیکھتے ہیں) ’’اور بعض نے اس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے۔ اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لے کر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی۔ جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمال پور ضلع لدھیانہ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 71-70)

پھر آپ فرماتے ہیں ایک جگہ کہ’’جب مَیں 1904ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمے کی وجہ سے جہلم میں جا رہا تھا تو راہ میں مجھے الہام ہوا اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِنْ کُلِّ طَرَفٍ یعنی ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔ اور یہ الہام اسی وقت تمام جماعت کو سنا دیا گیا بلکہ اخبار الحکم میں درج کرکے شائع کیا گیا اور یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی۔ کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہو گا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے ارد گرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے۔ گیارہ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دو سو کے عورت بیعت کرکے اس سلسلہ میں داخل ہوئی۔ اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دئیے اور تحفے پیش کئے اور اس طرح ہم ہرایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خداتعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی‘‘۔

پھر آپ فرماتے ہیں ’’براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ یَنْقَطِعُ اٰبَاءُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔ (دیکھو براہین احمدیہ صفحہ490) (ترجمہ)خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا۔ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا۔ یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور مَیں ایسے گمنام کی طرح تھا جو گویا دنیا میں نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اس پر اب قریباً 30برس گزر گئے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزار ہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں۔ اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی۔ پس افسوس ان پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے۔ پھر اس پیشگوئی میں جس کثرت نسل کا وعدہ تھا اس کی بنیاد بھی ڈالی گئی۔ کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چارفرزندنرینہ اور ایک پوتا اور دولڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں۔ جو اس وقت موجودنہ تھیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 263تا 265)

آج جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی اولادبھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے او رروحانی اولاد بھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر دن اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم ہر روز ہر قوم اور ہر ملک میں ایک نیا نشان دیکھ رہے ہیں۔ ’’غلام احمد کی جے‘‘کا نعرہ لگ رہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے حضرت مسیح موعودؑ کی شان کو بلند فرماتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بلند شان عطا فرمائی اور ہر موقع پر آپ کی تائید اور نصرت کے لئے نشانات ہمیں دکھائے وہ جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے جیسا کہ اس نے فرمایا وہ جھوٹے وعدوں والا خدا نہیں ہے۔ آج تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے پورے کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا یہ وعدہ بھی یقینا پورا ہو گا کہ وہ قیامت تک آپ کے ماننے والوں کو دوسروں پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ پس ہر احمدی کو اُس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام دعاوی پر کامل یقین رکھتے ہوئے، اس پر مضبوطی سے قائم ہوتے ہوئے یہ کوشش کرنی چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس سے چمٹائے رکھے۔ ان انعامات سے فیض پانے کے لئے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنے کی ضرورت ہے۔

مخالفین احمدیت وقتاً فوقتاً اپنے دل کے بغض اور کینے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں تو عمومی طورپر بھی یہ حالت ہے کہ اسلام کے نام پر اور اللہ اور رسول کے نام پر اسلام کی تعلیم کے خلاف جس کے اوپر کسی بھی مولوی کو اپنے پسند کا نہ ہو کوئی شخص اس کو پکڑادیتے ہیں کینے ظاہر کرتے ہیں اور ظلم کرتے چلے جاتے ہیں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج پورا ملک ساری دنیا میں بدنام ہے جہاں انہوں نے احمدیوں پر ظلم کرتے ہوئے انہیں عبادتوں سے روکا تھا۔ ان کو کلمے سے روکا تھا۔ وہ احمدیوں کے کلمے تو چھین نہیں سکے احمدیوں کو عبادتوں سے تو روک نہیں سکے۔ لیکن اپنی ان کی یہ حالت ہے کہ آپس میں لڑائیاں، فتنہ فساد، مسجدیں بند ہوئی ہیں اور ان کی حکومت کے ذریعہ سے ان کی مسجدیں گرائی جاتی ہیں۔ وہاں سے اسلحہ نکل رہا ہوتا ہے۔ یہ تو ایک عمومی حالت ہے۔ لیکن اسلام کے نام پر اب وہاں ظلم کی انتہا اتنی بڑھ گئی ہے کہ پچھلے دنوں میں عیسائیوں پر جو غیر مسلم اقلیت ہے، بربریّت کا ایک انتہائی بھیانک نمونہ دکھایا گیا ہے۔ مُلّاں جس کو چاہے اسلام کے نام پر، کسی بھی کام کو غیر اسلامی فعل قرار دے کر اس پر ظلم کروا لیتا ہے۔ عمومی حالت ملک میں لاقانونیت ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ نعرہ تو یہ لگاتے ہیں کہ قانون کی بالادستی ہے۔ عدلیہ بحال ہو گئی فلاں یہ ہو گیا لیکن عملاً یہ بالادستی صرف سیاسی مفادات کے لئے ہے اور جہاں کسی غریب شہری کے حقوق دلوانے کا سوال آتا ہے وہاں ان کے یہ سب قانون ختم ہو جاتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے بھی احمدیوں کا فرض بنتا ہے کہ دعا کریں اپنے ملک کے لئے جو پاکستان کے احمدی ہیں خاص طور پر۔ پاکستان میں تو خاص طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا احمدیوں پر ظلموں کی انتہا ہوتی رہتی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جب سے انہوں نے یہ قانون پاس کیا 1974ء میں اور پھر 1984ء میں۔ جو چاہے اپنے خود ساختہ اسلام کے نام پر جس کومرضی ظلم کا نشانہ بنالے اور قانون جو ہے سیاستدان جو ہیں وہ اپنی مصلحتوں کے تحت اپنی سیاسی بقا کے لئے مولویوں کے ہاتھوں میں ہیں اور مولوی کے خوف سے کوئی بھی ایسا نہیں جو انصاف کے تقاضے پورے کر سکے۔ پس احمدی ان دنوں میں خاص طور پر جبکہ پاکستان کی بہت زیادہ بھیانک صورتحال ہوتی چلی جا رہی ہے دعا کریں، خاص طور پر پاکستان کے احمدی اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں، اس کی پناہ طلب کریں، اپنے اعمال کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کریں، صدقات پر زور دیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدے ہیں۔ جماعت احمدیہ نے ترقی کرنی ہے انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے اور جماعت کو پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی اپنی خاص حفاظت میں رکھے۔

UK کا جو جلسہ ہوا ہے۔ اس جلسہ کے بعد سے بعض عرب ممالک میں بھی وہاں کی انتظامیہ نے احمدیوں کو تنگ کر نا شروع کیا ہے۔ وہ حرکت میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے کہ وہ مخالفت کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کو مانیں اور آنحضرتﷺ کے سلام کا پیغام مسیح و مہدی تک پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرے۔

آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے۔ ملتان میں ہمارے ایک نوجوان مکرم رانا عطاء الکریم نون صاحب تھے۔ ان کو کل تین مسلح نوجوانوں نے گھر میں گھس کے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی عمر 36سال تھی۔ موصی تھے اور جماعت سے بڑا اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ کچھ عرصہ سے ان کو شک تھا کیونکہ بعض مشکوک افراد ان کے گھر کے ارد گرد پھر رہے تھے اس وجہ سے دوبھائی جو تھے وہ باری باری رات کو بھی گھر کا پہر ہ دیا کرتے تھے۔ ان کی شہادت اس طرح ہوئی ہے کہ یہ اپنے گھر سے دس پندرہ منٹ کے لئے نکلے ہیں۔ کسی دکان پر گئے ہیں، دھوبی کی۔ وہاں چند منٹ لگے ہیں لیکن غلطی سے کمرے کے باہرکا جو دروازہ تھا، اس کاجو سٹنگ روم تھا، وہ کھلا چھوڑ گئے اور تین مسلح افراد جو تھے وہ گھر کے اندر آ گئے۔ گھر والوں کو انہوں نے کمرے میں بند کر دیا اور وہیں چھپ گئے۔ جب یہ گھر میں داخل ہوئے ہیں تو ان پر فائرکئے اور ان کو تین گولیاں لگیں۔ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ پڑھے لکھے تھے کاروباری آدمی تھے۔ انہوں نے ایگریکلچر میں ماسٹر کی تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔ ان کے پسماندگان میں والدین ہیں، اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں اور تین بہنیں اور چاربھائی ہیں۔ اس وقت مَیں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔

ایک جنازہ اس وقت حاضر بھی ہے جو کہ چوہدری عنایت اللہ صاحب طارق کا ہے جو انسپکٹر رہے ہیں خدام الاحمدیہ میں۔ یہ 4؍ اگست کو فوت ہوئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ بھی واقف زندگی تھے اور پچاس سال سے زائد عرصہ انہوں نے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ نیک انسان تھے، سلسلہ کا درد رکھنے والے، باوفا، خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا، ان کے ایک بیٹے حبیب اللہ طارق جرمنی میں سیکرٹری صنعت و تجارت ہیں اور ایک اور بیٹے ہمارے مبلغ ہیں فضل اللہ طارق صاحب جو آج کل فجی کے امیر اور مشنری انچارج ہیں۔ مرزا عبدالرشید صاحب جو یہاں ہیں نائب صدر انصاراللہ ان کے یہ سُسر تھے۔ ان کا جنازہ حاضر ہے۔ تو ان کے ساتھ یہ جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔

اور اس کے علاوہ بھی پہلے شاید اعلان ہو چکا ہے بعض غائب جنازے ہیں۔ وہ بھی ساتھ ہی ادا ہوں گے۔ ایک مکرم محمد حسین صاحب لاس اینجلس امریکہ کا۔ دوسرا ہے چوہدری خادم حسین صاحب اسد۔ یہ ناصر آباد سندھ کے مینیجر رہے ہیں، سندھ میں تھے کنری میں رہتے تھے۔ ہمارے ڈاکٹر طارق باجوہ صاحب جویہاں ہیں ان کے یہ والد تھے۔ اور مکرم لؤئی نحوی صاحب، یہ سیریا کے ہیں۔ سجاد احمد صاحب مربی ہیں ان کو بھی کسی نے وہاں ربوہ میں ہی شہید کر دیا تھا۔ امۃ البصیر مہرین صاحبہ ہیں لاہو رکی اور حنا حمید صاحبہ ہیں یہ بھی لاہور کی ہیں۔ ان سب کے جنازے ابھی جنازہ حاضر کے ساتھ ہی ادا کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے، ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبرا ور ہمت اور حوصلہ دے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 35 مورخہ 28 اگست تا 3 ستمبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ اگست 2009ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ اور علم کا نبوت کے ساتھ تعلق۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ضرورت زمانہ کی دلیل۔ آنحضرتؐ کا مسیح کو نبی اور خلیفہ کا مقام عطا فرمانا اور اسے قبول کرنے کا حکم فرمانا۔ احادیث میں مذکور مسیح موعودؑ کی چندنشانیوں کا ذکر۔ سورج اور چاند گرہن کی حدیث میں لِمَھْدِیِّنَاکے لفظ میں اپنے پیار اور قرب کا اظہار۔ حضرت مسیح موعودؑ کے غلبہ کے لئے تمام احمدیوں کو کوشش اور دعا کرنی چاہیے۔ پاکستان میں اسلام کے نام پر ظلم کے باعث اس کا ساری دنیا میں بدنام ہونا۔ عیسائیوں پر بربریت کا ذکر۔ پاکستان کے لئے دعا کی نصیحت۔ جلسہ کے بعد بعض عرب ممالک کی انتظامیہ کا بھی احمدیوں کو تنگ کرنا۔

    فرمودہ مورخہ 07؍ اگست 2009ء بمطابق07؍ظہور 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور