ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے

خطبہ جمعہ 5؍ مارچ 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ الٰہی جماعتوں کے افراد کی بھی وہی ذمہ داری ہوتی ہے جو ان کے قائم کرنے والے انبیاء کی۔ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف بلانا اور لوگوں کے گمراہ کُن خیالات اور تعلیمات، جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں، کی نشاندہی کر کے انہیں سچائی کا راستہ دکھانا۔ اور مذاہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی انبیاء اور ان کے ماننے والوں نے، جو عموماً شروع میں بہت قلیل تعداد میں ہوتے ہیں، یہ کام کیا تو ان کی بھر پور مخالفت ہوئی۔ اور زمانے کے فرعون اور ہامان اور ان کے ٹولے اپنا پورا زور لگاتے ہیں کہ کس طرح انبیاء اور ان کی جماعت کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ اور یہ سلوک مذاہب کے ساتھ ہوتا رہا ہے جب تک وہ اپنے حقیقی دین پر قائم رہے۔ پس جب کہ سنت اللہ یہی ہے تو ظاہر ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ بھی یہی سلوک دشمنانِ اسلام نے کرنا تھا۔ باوجود اس کے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پیارے اور برگزیدہ تھے، آپ سے کوئی احسان نہیں ہوا۔ بلکہ ابتلاوٴں، آزمائشوں، تکلیفوں اور جنگوں وغیرہ سے جس طرح آپ کو گزرنا پڑا اس کی مثال گزشتہ انبیاء میں نہیں ملتی۔ سب سے بڑھ کر ہے۔ لیکن آپؐ جو استقلال اور عظمت کے انتہائی مقام پر فائز تھے ان سب سے کامیاب گزرتے چلے گئے۔ اور یہی ایمان کی پختگی اور چٹانوں کی طرح مضبوط عزم اور ایمان اور ایقان میں ترقی آپؐ نے اپنے جانثار صحابہ میں پیدا فرما دی۔ اور کوئی تکلیف، کوئی زخم، تعداد میں کمی، ہتھیاروں کی کمی ان صحابہ کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکی۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ان ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذکر فرمایا ہے۔ سورة آلِ عمران میں۔ دو آیتیں ہیں 173,174اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ (آل عمران: 173)کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، ان میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔

پھر فرماتا ہے  اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ  (آل عمران: 174) یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا۔ اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

ایمان کی اس مضبوطی اور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا نظارہ ہمیں جنگِ اُحد میں اس طرح نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں کے ایک دستے کی غلطی کی وجہ سے واضح طور پر جوجیتی ہوئی جنگ تھی اس کا پانسا پلٹا اور کفار نے دوبارہ مڑ کر حملہ کیا تو مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوا یہاں تک کہ آنحضرتﷺ کو بھی زخم آئے۔ آپ کا دانت بھی شہید ہوا۔ لیکن اس وقت آپ کے صحابہ اس طرح مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے کہ کوئی طاقت ان کو وہاں سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آنحضرتﷺ پر دشمن کے ہر وار اور حملے کو ناکام و نامراد کر رہے تھے۔ جس کا ایک عجیب نظارہ مذاہب کی تاریخ میں نظر آتا ہے۔ بہر حال کفارِ مکہ گو دوسری دفعہ کے حملے میں بظاہر برتری حاصل کئے ہوئے لگتے تھے لیکن جنگی نقطۂ نظر سے یہ کوئی برتری نہیں تھی۔ جب کفار کا یہ لشکر جنگ سے واپس لوٹ رہا تھا تو بعض عرب قبائل نے ان پر طنز کیا کہ تم بڑے نعرے لگاتے ہو اور اپنے زُعم میں بدر کا بدلہ لے کر جا رہے ہوکہ جنگ جیت لی ہے۔ یہ کون سی جیت ہے؟ جس میں نہ کوئی مالِ غنیمت ہے اور نہ کوئی جنگی قیدی ہے اور دعویٰ کر رہے ہو کہ ہم نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ اس پر راستے میں ہی کفارِ مکہ نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہیں راستے سے ہی واپس لوٹا جائے۔ اور مسلمان جو اس وقت زخموں سے چُور ہیں اور تھکے ہوئے ہوں گے، ان پر حملہ کر کے فتح کو مکمل کیا جائے۔ لیکن اس سوچ میں بھی دو گروہ بن گئے۔ ایک کا خیال تھا کہ جتنی فتح ہو گئی وہ ٹھیک ہے کیونکہ اب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں وہ مسلمان بھی شریک ہو جائیں گے جو اُحد میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اور پھر مدینہ پر حملے کی وجہ سے اب تمام ہی جان توڑ کر لڑیں گے۔ ادھر آنحضرتؐ کو بھی کسی طرح کفار کے اس ارادے کا پتا چل گیا۔ تو آپؐ نے اگلے دن ہی صحابہ کو جمع کیا اور کفار کا پیچھا کرنے کے لئے لشکر کی تیاری کے لئے کہا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی شرط لگا دی کہ اس لشکر میں صرف وہی صحابہ شرکت کریں گے جو اُحد کی جنگ میں گئے تھے۔ اب ان کی حالت کا اندازہ لگائیں جو جنگ کی وجہ سے تھکے بھی ہوئے تھے اور اکثر ان میں سے زخمی حالت میں بھی تھے۔ چنانچہ 250 مسلمانوں کا یہ لشکر تشکیل دیا گیا جو مدینہ سے روانہ ہوا۔ یہ سب کے سب اس خوشی اور جوش سے نکلے تھے جیسے کوئی فاتح لشکر ہے جو دشمن کے تعاقب کے لئے نکلتا ہے۔ مدینہ سے 8میل کے فاصلے پر آپ نے حمراء الاسد کے میدان میں ڈیرہ ڈالا۔ اور آپ نے صحابہ کوحکم فرمایا کہ 500 مختلف جگہ پر آگیں روشن کر دو۔ اور جب یہ روشن کی گئیں تو دور سے ہی دیکھنے والوں کو مرعوب کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے اس لشکر کی کفار کو بھی کسی طرح اطلاع مل گئی اور ابوسفیان اور دوسرے سرداروں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ واپس مکہ لوٹ جائیں۔ کفار کے واپس چلے جانے کی اطلاع جب آنحضرتﷺ کو ملی تو آپ بھی ایک دو دن ٹھہر کر مدینہ واپس لوٹ آئے اور فرمایا کہ کفار پر یہ رعب اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان زخمیوں کی تعریف فرما کر جو قربانیوں کی اعلیٰ ترین مثال قائم کئے ہوئے ہیں، ان تقوی شعاروں کو اجرِ عظیم کی خوشخبری دیتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزاء الثانی صفحہ 274باب غزوہ رسول اللہﷺ حمراء الاسد مطبوعہ بیروت1996) (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام باب غزوہ حمراء الاسد صفحہ 546,547مطبوعہ بیروت 2001)

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اُحد سے لوٹتے وقت ابوسفیان نے یہ اعلان کیا تھا اور چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر دوبارہ ہماری پوری جنگ ہو گی۔ آنحضرتﷺ نے بھی اس چیلنج کو قبول کیا اور اعلان فرمایا کہ ٹھیک ہے، آ جانا۔ بہر حال 4ہجری میں آنحضرتﷺ نے ڈیڑھ ہزار صحابہ کا لشکرتیار کیا اور لشکر لے کر اس میدان کی طرف نکلے۔ ادھر ابو سفیان نے بھی مکہ میں دوہزار کا لشکر تیار کیا لیکن دل میں ڈرتا بھی تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے تھوڑا ہے۔ جاسوسی کا انتظام تو وہاں تھا۔ پتا لگ گیا تھا کہ کتنے مسلمان تیار ہو رہے ہیں۔ تو اس نے یہ چال چلی کہ ایک شخص کو مدینہ روانہ کیا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرو کہ کفار مکہ کا تو بہت بڑا لشکر تیار ہو کر آ رہا ہے اور تم لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمنوں کے یہ پروپیگنڈے مسلمانوں کو ایمان میں بڑھاتے ہیں۔ اور ان کا جواب یہ تھا اور ہوتا ہے۔ کہحَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ بہر حال آنحضرتﷺ کے ساتھ مسلمانوں کا یہ لشکرجو ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں تھا بدر کے میدان میں پہنچا۔ لیکن کفار کا لشکر مکہ سے کچھ دور باہر آ کر پھر واپس مڑگیا۔ اور یہ بہانہ کر دیا کہ یہ قحط کا سال تھااور ہماری تیاری نہیں ہوئی، اور اگلے سال اچھی طرح تیاری کر کے ہم پھر نکلیں گے۔ پس کفار جو یہ چال چلنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ڈرا کر اور بڑے لشکر کی خبر دے کر خوفزدہ کر کے جنگ کے لئے نکلنے سے روک دیں، ان کی یہ تدبیر بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی مومنین کی حالت کی گواہی قرآنِ کریم میں فرمائی کہ موت سے ڈرنے کی باتیں کفار کے لئے تو اہم ہو سکتی ہیں لیکن مسلمانوں کو تو یہ ایمان میں بڑھاتی ہیں۔ بہر حال مسلمان بدر کے میدان میں جا کر کچھ دن رُکے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزاء الثانی صفحہ279,280باب غزوہ رسول اللہﷺ بدر الموعد مطبوعہ بیروت1996) (السیرۃ الحلبیۃ از علامہ ابوالفرج نورالدین حلبی جلد 2صفحہ 373,375باب ذکر مغازیۃ غزوہ بدر الآخر مطبوعہ بیروت 2002)

اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسلمانوں نے کفار سے تو کیا خوفزدہ ہونا تھا، اُلٹا کفار کا لشکر خوفزدہ ہو کر سامنے آنے کی جرأت نہ کر سکا۔ پس یہ خدائی رُعب تھا جو کفار پر پڑا۔ اور یہ حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (آل عمران: 174) کا دل سے نکلا ہوا نعرہ ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ قوی تر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ صحابہ کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ دشمن کا ایک ہونا اور مومنین کو یا صحابہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنا کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔

آج بھی یہی اعلان اور جواب ہے جو ایک حقیقی مومن کا ہونا چاہئے۔ آج مسیحِ محمدی کی جماعت کے افراد کو بھی اسی طرح خوف دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کسی گروہ، کسی ٹولے، کسی اسمبلی یا کسی تنظیم کے ڈرانے سے نہیں ڈرتے۔ بلکہ ہمیشہ صبر اور استقامت دکھاتے ہوئے اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ ماریں کھاتے ہیں، صبر کرتے ہیں۔ مالی نقصان اٹھاتے ہیں لیکن ایمان میں لغزش نہیں آنے دیتے۔ شہید کئے جاتے ہیں کہ اس طرح ان کے عزیز، بیوی، بچے، ماں باپ، بہن بھائی خوفزدہ ہو کر دین چھوڑ دیں گے لیکن مومنین کے خلاف یہ سب منظم سازشیں انہیں مخالفین کے گروہ کے رعب میں نہیں آنے دیتیں بلکہ ان کا جواب ہمیشہحَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (آل عمران: 174) ہوتا ہے۔ ہمیشہ ان کی نظر خدا تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ دشمن جب شورو فغاں میں بڑھتا ہے تو وہ یارِ نہاں میں اور زیادہ ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس آج دنیا کے بعض ممالک میں احمدیت کی مخالفت ہے تو یہ احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے۔ یہ بات ہمیں پہلے سے زیادہ دعاوٴں کی طرف متوجہ کرنے والی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ اس مخالفت نے اور گروہ بندی نے، بلکہ تمام 72فرقوں نے جمع ہو کر، مخالفت میں پورا زور لگا کر پاکستان میں احمدیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا نہ پہنچا سکتے ہیں۔ مومن کے نزدیک ظاہری نقصان کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اصل چیز ایمان کی دولت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شہید کی شہادت کے بعد ان کے بیوی بچوں، ماں باپ اور عزیزوں کی طرف سے مَیں ایمان میں مضبوطی اور پہلے سے بڑھ کر اخلاص و وفا کے اظہار کے خطوط وصول کرتا ہوں۔ یہی حال مخالفت کا آج کل ہندوستان کے بعض علاقوں میں ہے۔ تمام مولوی ٹولے جمع ہو گئے ہیں اور احمدیوں کو، نومبائعین کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے دین سے پھیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی حال بنگلہ دیش میں تھا اور اب بھی جب ان کو موقع ملتا ہے کہیں کہیں ہو جاتا ہے۔ یہی حال عرب کے بعض ممالک میں ہے۔ شام ہو یا مصر ہو یا کوئی اور دوسرا علاقہ ہوجہاں احمدیوں کا پتا چلتا ہے، حکومتی ادارے انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی حال بلغاریہ میں احمدیوں سے کیا جا رہا ہے تا کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں۔ سرکاری مفتی پولیس کے ذریعہ دباوٴ ڈلواتا ہے۔ یہی حال روس کی بعض مسلمان ریاستوں میں ہے۔ وہاں کا جومرکزی مفتی ہے وہ حکومتی ایجنسیوں کے ذریعہ سے ہمارے مبلغین اور افرادِ جماعت پر دباوٴ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض دنیا کے مختلف ممالک میں مسیح محمدی کی جماعت کی مخالفت اس کی عالمگیریت ثابت کرتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ حسیب کو سمجھنے والے ہمیشہ، ہر جگہ یہی جواب دیتے ہیں کہ جتنی چاہے گروہ بندیاں کر کے مخالفتیں کر لو۔ ہمارا ہمیشہ یہ جواب ہے کہحَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (آل عمران: 174) کیونکہ ہم نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ اور آپ کے صحابہ سے یہی سیکھا ہے۔ پس احمدیوں کو ہمیشہ صبر اور برداشت سے بغیر کسی خوف کے ان تکلیفوں کو برداشت کرتے چلے جانا چاہئے۔ اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کی اس طرح بھی وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ: ’’ان آیات میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑ یہ صبر اور ثابت قدمی ہے اور ہر ایک جذبہ نفسانی یا بلا جو دشمنوں کی طرح حملہ کرے اس کے مقابل ثابت قدم رہنا اور بزدل ہو کر بھاگ نہ جانا، یہی شجاعت ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10صفحہ 359)

پس یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کا ایک اور مضمون کھولا ہے کہ ظاہری دشمنی کے علاوہ بھی ایک دشمنی ہے اور وہ دشمن ہے جو نفسانی جذبہ ہے۔ اور یہ بھی ایک بلا ہے جو دشمن کی طرح حملہ کرتی ہے۔ اس کے مقابل پر بھی ثابت قدم رہناکہ یہی مومنانہ شان ہے۔ ظاہری دشمن کے مقابلے کی طاقت تو تب پیدا ہو گی جب نفسانی جذبے کے حملے کا مقابلہ کر سکو گے۔ ایمان میں ترقی اس وقت ہوتی ہے جب یہ خیال دل میں رہے کہ سب کچھ خدا کا ہے اور اس کی خاطر ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اگر زمانے کی ہواو ہوس سے مرعوب ہو گئے اور اس رَو میں بہَ گئے جس میں زمانہ چل رہا ہے تو مخالفین کے ٹولوں اور جان مال کے نقصان کی برداشت کی طاقت بھی نہیں رہے گی۔ پس نفسانی دشمن پر بھی قابو پانا اور اس کے سامنے ثابت قدمی دکھانا مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اور پھر یہی چیز جیسا کہ مَیں نے کہا، ظاہری دشمن کے مقابلے کے لئے بھی طاقت بخشے گی۔ اورحَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (آل عمران: 174) کا نعرہ دل سے اٹھے گا اور عرش پر پہنچے گا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے وہ نظارے نظر آئیں گے جس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔ پیغمبرِ خداﷺ نے مکہ میں تیرہ برس دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں۔ مگر آپ نے صحابہؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں۔ مگر جب یہ جماعت کثیرہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چُپ ہو جائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دُکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو شخص دکھ دیتا ہے، یا تو وہ توبہ کر لیتا ہے، یا فنا ہو جاتا ہے۔ کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں‘‘۔ (آج کل بھی بہت سارے لوگوں کے اسی طرح کے خطوط آتے ہیں )

صبر بھی ایک عبادت ہے

پھر فرمایاکہ: ’’صبر بھی ایک عبادت ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یعنی ان پر بے حساب انعام ہوں گے۔ یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے۔ اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہو جاتا ہے۔ صبر جیسی کوئی شے نہیں ہے۔‘‘  (ملفوظات جلد دوم صفحہ543,544)

آج کے لئے’’حَسِیْب‘‘ کے حوالہ سے مَیں نے گو مضمون منتخب نہیں کیا تھا لیکن بہر حال کچھ نہ کچھ آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ ایک تو یہی ہے جو بیان ہو گیا ہے جو مومنوں کی ایمانی حالت کی تصویر کَشی کرتا ہے اور بتا تا ہے کہ ثابت قدم اور صابر مومنین کے لئے مخالفین کی مخالفت انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہے۔ اور انہیں حَسْبُنَا اللّٰہُ کا ادراک دلاتی ہے۔ دوسری آیت جو میں اب بیان کرنے لگا ہوں بلکہ یہ دو آیات ہیں کہ انبیاء اور ان کی جماعت کا کیا مقصد ہے؟ اس کے بارے میں بتاتی ہیں کہ جو پیغام نبی پر اترا ہے، اسے کھول کر دنیا تک پہنچا دو اور یہی تمہارا کام ہے۔ اس کا حساب لینا کہ مانتے ہیں کہ نہیں مانتے اور نہیں مانتے تو کیا سلوک کرنا ہے، یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اور خدا تعالیٰ حساب لینے میں تیز ہے۔ یہ مضمون بھی سورة رعد کی ان آیات میں بیان ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنۡ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ۔ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ وَ اللّٰہُ یَحۡکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ ؕ وَ ہُوَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ (الرعد: 41-42) اور اگر ہم تمہیں ان انذاری باتوں میں سے کچھ دکھا دیں جو ہم اُن سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو ہرصورت میں تیرا کام صرف کھول کھول کر پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔ کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ یقیناً ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹائے چلے آ رہے ہیں۔ اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے فیصلے کو ٹالنے والا کوئی نہیں۔ اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔

پہلی آیت جو اکتالیسویں آیت ہے۔ اس میں اس سے پہلی آیت کے مضمون کو چلاتے ہوئے بات ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا سزا دینے کا اپنا طریق ہے۔ وہ مالک ہے۔ کب اور کس طرح مخالفین کو سزا دینی ہے۔ یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ وہ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم میں ہے کہ کب سزا کی ضرورت پڑنی ہے اور کس کے لئے پڑنی ہے۔ ایک عمومی بات کہنے کے بعد ضروری نہیں کہ وہ ضرور ان سزاوٴں کو فوری طور پر لاگو بھی کر دے گا۔ سزا جو کہ ایک نشان کے طور پر ہے اس کا مقصد اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ان میں سے کون سے ایسے ہیں جو نبی کی مخالفت سے باز آ جائیں گے اور اصلاح کر لیں گے اور سزا سے بچ جائیں گے۔ اور کون ہیں جن پر سزا کا کچھ حصہ پڑے گا تو وہ اصلاح کی طرف توجہ کریں گے۔ اور کتنے ایسے ہیں جو کسی صورت میں بھی باز آنے والے نہیں۔ وہ مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ شرارتوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ان پر سزا وارد ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی!کچھ انذاری وعدے جو تیرے ذریعہ کئے گئے ہیں، بعض لوگوں کے عملوں کی وجہ سے تو فوری دکھا دیں گے۔ زندگی میں نظر آ جائیں گے۔ اور بعض ہو سکتا ہے کہ اے نبی! تیری وفات کے بعد پورے ہوں۔ بدر کی جنگ میں ہی دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ انہوں نے ایمان نہیں لانا تو آنحضرتﷺ نے جہاں جہاں نشان لگائے تھے کہ ابو جہل کی، عتبہ کی، شیبہ کی لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہیں۔ عین آپ کی پیشگوئی کے مطابق وہ وہیں قتل کئے گئے اور ان کی موت ٹل نہیں سکی۔ (بخاری کتاب المغازی باب دعا النبیﷺ علی کفار قریش..حدیث 3960) اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ایمان لے آنا تھا جیسے ابو سفیان ہیں، عکرمہ ہیں۔ یہ ایسے لوگ تھے کہ اسلام کے خلاف جنگوں میں شریک بھی ہوئے اور اس کے باوجود بچتے رہے۔ آخر کار ایمان لے آئے۔ اور پھر اسلام کی خاطر لڑے۔

اصل کام تبلیغ

پس فرمایا اصل کام نبی اور اس کی جماعت کا تبلیغ کرنا ہے۔ کسی قوم کو سزا دینا اصل مقصودنہیں ہے۔ اصل مقصود ایک خدا کا عبادت گزار بنانا ہے۔ پس جو حد سے بڑھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی انذاری پیشگوئیاں پوری ہوں گی اور بعض کو چھوٹ بھی دی جائے گی۔ لیکن یہ اصولی بات ہے کہ جن عملوں پر انذار کیا گیا ہے وہ نبی کی زندگی میں موجود لوگ کریں یا بعد میں کریں۔ اگر اصلاح نہیں کرتے توان پر پکڑ ہو گی۔ اور کس طرح پکڑ ہو گی؟ یہاں ہو گی یا اگلے جہان میں ہو گی یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا چیز فائدہ مند ہے کس طرح کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ فوری پکڑ ضروری ہے یا چھوٹ دینا ضروری ہے؟ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حساب لیناہمارے ذمہ ہے۔ اعتراض کرنے والے اگر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی، وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے پر جب خدا تعالیٰ حساب لے گا توسب واضح ہو جائے گا۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین بھی یہی اعتراض کرتے ہیں۔ تو یہی جواب ان کو بھی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ بعض باتیں نبی کی زندگی کے بعد پوری ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نبی کی جماعت کے ذریعہ پورا کروانا چاہتا ہے۔ اور احمدی اس بات پر گواہ ہیں کہ بہت ساری پیشگوئیاں جو ہیں وہ پوری ہو رہی ہیں۔ اور ہر نیا دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ظاہر کرتے ہوئے طلوع ہوتا ہے۔

پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالفین اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ یہ بات پوری نہیں ہوئی اور وہ بات پوری نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مخالفین کو نظر نہیں آتا کہ کس طرح ہم زمین کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں؟ آنحضرتﷺ کی زندگی کا ہر دن گواہ ہے کہ کس طرح اسلام آپ کے زمانے میں پھیلتا چلا جا رہا تھا اور مخالفین کے پاوٴں سے زمین نکل رہی تھی۔ مختلف شہروں کے امیر غریب اسلام میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ حصار میں لا رہے تھے۔ اور پھر آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہی مکہ بھی فتح ہو گیا اور عرب سے باہر بھی اسلام پھیل گیا اور پھر خلافتِ راشدہ میں اور بعد کے دور میں بھی اسلام پھیلتا چلا گیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اس قوم کے لوگوں کو سزا دینی ہے، وہاں سزا بھی دی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یا تو لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے اسلام مخالف طاقتوں کی زمین گھٹتی جائے گی یا اللہ عذاب اور آفات کے ذریعہ سے ان پر زمین تنگ کرتا ہے۔ ماضی میں بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو کوئی توڑنے والا نہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ساتھ ہے تو کون ہے جو اس کی ترقی میں روک بن سکے؟ پس لَا مُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ (الرعد 42) یعنی اس کے فیصلے کو کوئی ٹالنے والا نہیں کہہ کر مومنوں کو یہ حوصلہ بھی دے دیا کہ اگر تم حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ کے بنے رہو تو کوئی وجہ نہیں کہ دشمن سے خوفزدہ ہو۔ تبلیغ کا کام تمہارے سپرد ہے وہ کرتے چلے جاوٴ۔ اور آخر پر فرمایا کہوَ ہُوَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ (الرعد 42)۔ کہ وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ یعنی حساب لینے میں آتا ہے تو فوراً لے لیتا ہے۔ یہ نہیں کہ فوری طور پر سزا دے دیتا ہے۔ جب فیصلہ کر لیا کہ حساب لینا ہے تو فوری طور پر لیتا ہے۔ پھر دوسرے اور کاموں کی طرح نہیں، کسی انسان کی طرح نہیں کہ یہ کام کر لوں، اس کے ساتھ تدبیریں چل رہی ہوتی ہیں اور اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا۔

اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا (الرعد: 42)کے مضمون کو ایک دوسری جگہ سورة انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ کہ بَلۡ مَتَّعۡنَا ہٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی طَالَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ؕ اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ  (الانبیاء: 45) بلکہ ہم نے ان کو بھی اور ان کے آباء و اجداد کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا ہے یہاں تک کہ عمر اُن پر دراز ہو گئی۔ پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آ سکتے ہیں؟

مسیح محمدیؐ کے ماننے والوں کے لئے خوشخبری

پس اگر کسی قوم کی عمر لمبی ہو جائے یا ان کا طاقت کا عرصہ لمبا ہو جائے اور وہ اس وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی یہ حالت اب دائمی رہنے والی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو لمبا عرصہ فائدہ پہنچایا ہے۔ بہت مال و متاع ان کے پاس تھا اور ہے۔ دولتیں بھی اکٹھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو، اس طرف بھی نظر رکھو، اس طرف بھی دیکھو کہ پہلی قومیں بھی ختم ہو گئی تھیں۔ وہ بڑی بڑی طاقتور قومیں تھیں اور ان کی سرحدیں چھوٹی ہوتی رہیں۔ اب ماضی قریب میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین قوموں کی حکومتیں جو تھیں، بہت پھیلی ہوئی تھیں۔ ہندوستان کی سرحدیں بھی کہاں سے کہاں تک مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں اور پھر وہ چھوٹی ہوتی چلی گئیں۔ کئی ملک آزاد ہوئے اور نئے ملک وجود میں آئے۔ روس کس قدر وسیع رقبہ پر پھیل گیا تھا لیکن اب وہاں بھی آزاد ریاستوں کا قیام ہو گیا ہے۔ یہی تقدیر کسی وقت امریکہ کے ساتھ بھی دہرائی جائے گی۔ اسی طرح جب یہ بڑے ملک محفوظ نہیں تو چھوٹے ملک جو ہیں وہ کس بات پر بھروسہ کر رہے ہیں، ان کی اسمبلیاں کس طاقت پر زُعم کئے بیٹھی ہیں؟ ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں، وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔ لیکن اسلام کے لئے خوشخبری ہے۔ حقیقی مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کے لئے خوشخبری ہے کہ مسیح محمدی کی آمد کے ساتھ اسلام نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے۔ اور پھیل رہا ہے۔ پس ہماری تبلیغ تو ایک معمولی کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسلام نے غالب آنا ہے۔ انشاء اللہ۔ اور انشاء اللہ آکر رہے گا۔ لیکن محبت اور پیار کے پیغام سے اور دعاوٴں سے۔ یہی کام ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے۔ باقی خدائی تقدیر کس طرح فیصلہ کرے گی یا کر رہی ہے

یہ جو سب زلزلے، طوفان، تباہیاں ہیں یہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا ایک چکر چل رہاہے۔ غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کا ہے اور خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودکے ذریعہ دکھاناہے۔ کاش کہ مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کا حصہ بننے کے لئے آپ کی جماعت کا حصہ بنیں اور آپ کے مددگار بنیں اور مخالفتیں ترک کردیں۔ اس زمانے میں بھی جو آفات آ رہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ہیں۔ آفات میں غریب کیوں مارے جاتے ہیں؟

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ مخالفتیں تو ائمۃ الکفر کر رہے ہیں یا بڑے بڑے لوگ کر رہے ہیں اور آفات سے ہم بیچارے غریب مارے جاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جواب دیا ہوا ہے آپ کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآنِ شریف بھی یہی فرماتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ کی تکذیب کی وجہ سے مصر کے ملک پر طرح طرح کی آفات نازل ہوئیں۔ جوئیں برسیں، مینڈکیں برسیں، خون برسا اور عام قحط پڑا۔ حالانکہ ملکِ مصر کے دور دور کے باشندوں کو حضرت موسیٰؑ کی خبر بھی نہ تھی، اور نہ ان کا اس میں کچھ گناہ تھا اور نہ صرف یہ بلکہ تمام مصریوں کے پلوٹھے بچے مارے گئے۔ اور فرعون ایک مدت تک ان آفات سے محفوظ تھا اور جو محض بے خبر تھے وہ پہلے مارے گئے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کو صلیب سے قتل کرنا چاہا تھا ان کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا اور وہ آرام سے زندگی بسر کرتے رہے۔ لیکن چالیس برس بعد جب وہ صدی گزرنے پر تھی تو طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی قتل کئے گئے اور طاعون بھی پڑی۔ اور قرآنِ شریف سے ثابت ہے کہ یہ عذاب محض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے تھا۔

ایسا ہی آنحضرتﷺ کے وقت میں سات برس کا قحط پڑا اور اکثر اس قحط میں غریب ہی مارے گئے۔ اور بڑے بڑے سردار، فتنہ انگیز جو دکھ دینے والے تھے، مدت تک عذاب سے بچے رہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں۔ جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں۔ پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں۔ اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہےاَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا (الرعد: 42)۔ یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں۔ اس میرے بیان میں ان بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آ گیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے۔ اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے۔ ان کا کیا قصور تھا؟ انہوں نے کون سی تکذیب کی تھی؟ سو یاد رہے کہ جب خدا کے کسی مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے۔ خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو۔ مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اُن قہری نشانوں سے جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا، صرف غریب مارے گئے۔ لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اس کے لشکر کے غرق کیا۔ یہ سنت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کار انکار نہیں کر سکتا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ 165تا167)

ایک اور اقتباس کہ آفتیں کیوں آتی ہیں؟ وہ بھی پڑھ دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔ ’’طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور امراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ ائمۃ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے اُن سب میں فرعون بچا رہا۔ چنانچہ قرآنِ شریف میں بھی آیا کہاَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا (الرعد: 42)۔ یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں۔ اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں توبہ کرنی ہوتی ہے یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے۔“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ200-201 مطبوعہ ربوہ)

گذشتہ دنوں چِلّی میں بھی ایک زلزلہ آیا ہے۔ اور اس سے دو مہینہ پہلے ہیٹی میں بھی زلزلہ آیا تھا۔

تو چِلی میں جو زلزلہ آیا وہ ہیٹی کے زلزلے سے 64گنا زیادہ طاقتورتھا۔ اور پندرہ لاکھ گھروں کو مجموعی طور پرنقصان پہنچا جن میں سے پانچ لاکھ تو بہت زیادہ تباہ ہوئے ہیں۔ اس زلزلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زلزلے کی جو ریکارڈڈ ہسٹری ہے اس میں یہ ساتواں خوفناک ترین زلزلہ ہے۔ اس کے بارے میں اور بھی معلومات سائنسدانوں نے دی ہیں۔ مثلاً یہ کہ زلزلے کے اس جھٹکے سے زمینی دن میں 1.26سیکنڈ فرق پڑا ہے اور اکثر زلزلوں سے اس طرح فرق پڑتے ہیں۔ پھر سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین اپنے figure axis جو اس کا مرکز ہے، اس سے تین انچ ہٹ گئی ہے۔ اور یہ figure axis نارتھ ساوٴتھ کا axisنہیں ہے جس کے گرد زمین گھوم رہی ہے۔ بلکہ سائنسدان کہتے ہیں کہ figure axisوہ ہے جس پر زمین اپنا توازن قائم کرتی ہے۔ اور ہر زلزلے میں اس میں فرق پڑتا جاتا ہے۔ گویا یہ بھی زمین کو ہٹاتے چلے جانے کی ایک صورت بن رہی ہے۔ پھر برف پگھلنے سے زمین کے ڈوبنے کی جوسائنسدان پیشگوئی کر رہے ہیں وہ ایک علیحدہ آفت ہے، جس نے دنیا کو پریشان کیا ہوا ہے۔

یہ سب مسیح موعودؑ کی تائید میں ہی ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زلزلوں کو اپنے نشانوں میں سے ایک نشان قرار دیا ہے۔ کچھ آپ کی زندگی میں آئے۔ اور چِلّی میں بھی ایک زلزلہ 1906ء میں آیا تھا جو آپ کی زندگی میں آیا تھا۔ اور چِلّی کے اس زلزلے کی خبر جب آپ تک پہنچی تھی تو اس کو بھی آپ نے اپنا ایک نشان قرار دیا تھا۔ یہ سب چیزیں جو ہیں، یہ حضرت مسیح موعود کی تائید میں ہی ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ معلوم تاریخ کے مطابق 1570ء سے جو ریکارڈ نظر آیا ہے اس کے مطابق 1835ء تک پانچ زلزلے آئے تھے۔ 1835ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کا سال تھا۔ اور پھر 1835ء کے بعد 1868ء میں ایک زلزلہ آیا۔ پھر آپ کے دعویٰ کے بعد 1906ء کایہ زلزلہ آیا جس کو آپ نے اپنا نشان فرمایا ہے اور اس کے بعد آج تک پہلے تین سو سال میں تو صرف پانچ ریکارڈ ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس سوسال میں آج تک چِلّی میں ہی 18بڑے زلزلے آ چکے ہیں۔ چھوٹے تو وہاں آتے ہی رہتے ہیں۔ بڑے ہی خوفناک زلزلے آ چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چِلّی کے زلزلے کے حوالے سے ہی فرماتے ہیں۔ مَیں اقتباس پڑھتا ہوں۔ فرمایا: کہ ’’کئی مرتبہ زلزلوں سے پہلے اخباروں میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے۔ یہاں تک کہ زمین زیر و زبر ہو جائے گی۔ پس وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموساوغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ تو سب کو معلوم ہیں۔ لیکن حال میں 16/اگست1906ء کو جو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چِلّی کے صوبے میں ایک سخت زلزلہ آیا وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا‘‘۔ (اس زلزلے کے بارہ میں بھی پتا لگتا ہے کہ تین دن تک تو ساتھ کے شہروں کو پتا ہی نہیں لگا کہ وہاں اتنی زیادہ تباہی ہوئی ہے)۔ فرماتے ہیں کہ: ’’جس سے پندرہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے برباد ہو گئے اور ہزارہا جانیں تلف ہوئیں۔ اور دس لاکھ آدمی اب تک بے خانمان ہیں۔ شایدنادان لوگ کہیں گے کہ یہ کیونکر نشان ہو سکتا ہے۔ یہ زلزلے تو پنجاب میں نہیں آئے۔ مگروہ نہیں جانتے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے۔ نہ صرف پنجاب کا۔ اور اس نے تمام دنیا کے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کو ناحق ٹال دینا اور خدا کے کلام کو غور سے نہ پڑھنا اور کوشش کرتے رہنا کہ کسی طرح حق چھپ جائے۔ مگر ایسی تکذیب سے سچائی چھپ نہیں سکتی‘‘۔

دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی

پھر فرمایا کہ: ’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے۔ ایسا ہی یورپ میں بھی آئے۔ اور نیزایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے۔ اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے۔ اور اس قدر سخت موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے۔ اور زمین پر اس قدر تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی۔ یہاں تک کہ ہر ایک عقل مند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی۔ اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتا نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گاکہ یہ کیا ہونے والا ہے؟ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی۔ اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی۔ کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے۔ اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاوٴں میں کچھ تاخیر ہو جاتی۔ پَر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے۔ جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے۔ وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا(بنی اسرائیل: 16)‘‘ (یعنی ہم کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے جب تک ہم وہاں کوئی نبی مبعوث نہ کر لیں۔ اور مسیح محمدی تو ساری دنیا کے لئے آئے ہیں )۔ فرمایا: ’’اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے۔ اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کامنہ دیکھوگے’’۔ اور اس کے آگے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ اقتباس بھی ہے جو اکثر پڑھا جاتا ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا کہ: ’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں۔ اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددنہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پَر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشمِ خود دیکھ لو گے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ نمبر267تا269)

اور یہ وارننگ خاص طور پر ہندوستان پاکستان کے علاقے کے لئے ہے۔

اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے اور سمجھ دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کو پہچاننے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچیں۔ ہمیں بھی اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس راستے میں ہر مشکل اور تکلیف ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہو نہ کہ خوفزدہ ہو کر ہم اپنے کاموں سے رک جائیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ13مورخہ 26مارچ تا یکم اپریل 2010صفحہ5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 5؍ مارچ 2010ء شہ سرخیاں

    انبیاء کے ماننے والوں کی تعداد عموماً بہت قلیل ہوتی ہے اور ان کی بھر پور مخالفت ہوتی ہے اور یہی سلوک آنحضرتﷺ کے ساتھ دشمنان اسلام نے کیامگر آپﷺ نے استقلال کے ساتھ ان سب کا سامنا کیا اور کامیاب ہوئے، بعض ممالک میں احمدیت کی مخالفت ہے تو یہ احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے 72فرقوں نے جمع ہو کر زور لگایا ہے مگر جماعت کو نقصان نہیں پہنچا نہ پہنچا سکتے ہیں، ہمارا جواب ہمیشہ یہی رہا ہے حسبنا اللہ و نعم الوکیل، مخالفین کو سزا دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے اصل کام نبی اور اس کی جماعت کا تبلیغ کرنا ہے، کسی قوم کی عمر یا طاقت کا لمبا ہونا دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے پہلی قومیں بھی جو پھیلی ہوئی تھیں وہ چھوٹی ہوتی گئیں اب یہی تقدیر امریکہ کے ساتھ بھی دوہرائی جائے گی مسیح محمدی کی جماعت کے لئے خوشخبری کہ جماعت نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے یہ زلزلے، طوفان وغیرہ تقدیر کا ایک چکر ہیں، یہ سب حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میں ہی ہیں، حضرت مسیح موعودؑ کا زلزلوں کو اپنا نشان قرار دینا اور زلزلوں کا کچھ ریکارڈ، حضورؑ کا اقتباس کہ دنیا ایک قیامت دیکھے گی، اے یورپ تو بھی امن میں نہیں۔ ۔ ۔ ، یہ وارننگ خاص طور پر ہندوستان پاکستان کے علاقے کے لئے ہے۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5مارچ 2010ء بمطابق 5امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور