شہداء سانحہ لاہور کے مختصر کوائف اور ان کے واقعات  کا ذکر

خطبہ جمعہ 11؍ جون 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج میں ان شہداء کا ذکر کروں گا جو لاہور میں جمعہ کے دوران دہشت گردوں کے ظلم اور سفّاکی کا نشانہ بنے تھے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی وہاں موجود ہر احمدی نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا۔ نہ ہی دہشت گردوں کے آگے ہاتھ جوڑے، نہ زندگی کی بھیک مانگی، بلکہ دعاوٴں میں مصروف رہے اور ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ یہ کوشش تو رہی کہ اپنی جان دے کر دوسرے کو بچائیں لیکن یہ نہیں کہ ادھر اُدھر panic ہو کر دوڑ جائیں۔ اور ان دعاوٴں سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والوں کا مقابلہ کیا جو ظالمانہ طریقے پر گولیاں چلا رہے تھے۔ ان دعائیں کرنے والوں میں کچھ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ رتبہ پا کر ان کو خدا تعالیٰ نے دائمی زندگی عطا فرما دی اور یہ سب لوگ جو ہیں یہ احمدیت کی تاریخ میں انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ بہر حال شہداء کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے ذکرِ خیر سے پہلے ایک ضروری امر کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ سے بعض جماعتوں کی طرف سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ شہداء فنڈ میں لوگ کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ رقم کس مد میں دینی ہے؟ اسی طرح بعض دوست مشورے بھی بھجوا رہے ہیں کہ شہداء کے لئے کوئی فنڈ قائم ہونا چاہئے۔ یہ ان کی لاعلمی ہے۔ شہداء کے لئے فنڈ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ رابعہ سے قائم ہے جو’’سیدنا بلالؓ فنڈ‘‘ کے نام سے ہے اور میں بھی اپنے اس دور میں ایک عید کے موقع پر اور خطبوں میں دو دفعہ بڑی واضح طور پراس کی تحریک کر چکا ہوں۔ اس فنڈ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے۔ تو بہرحال ’’سیدنا بلالؓ فنڈ‘‘ قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں۔

مکرم منیر احمد شیخ صاحب

آج سب سے پہلے میں مکرم منیر احمد شیخ صاحب کاذکر کروں گا جو دارالذکر میں شہید ہوئے تھے اور امیر ضلع لاہور تھے۔ ان کے والد صاحب مکرم شیخ تاج دین صاحب سٹیشن ماسٹر تھے اور ان کے والدنے 1927ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ جالندھر کے رہنے والے تھے۔ ملک سیف الرحمن صاحب مرحوم سے ان کی دوستی تھی اور یہ دونوں پہلے احمدیت کے بہت زیادہ مخالف تھے۔ یعنی شیخ صاحب کے والد اور حضرت مفتی ملک سیف الرحمن صاحب۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب دیکھیں اور آنحضورﷺ کے شان میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشعار پڑھے تو پھر ان کو جستجو پیدا ہوئی اور چند کتابیں پڑھنے کے بعد ان دونوں بزرگوں کے دل صاف ہو گئے۔

بہرحال مکرم شیخ منیر احمد صاحب، شیخ تاج دین صاحب کے بیٹے تھے۔ ان کی تعلیم ایل ایل بی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ سول جج بنے۔ پھر مختلف جگہوں پر ان کی پوسٹنگ ہوتی رہی، اور پھر سیشن جج سے ترقی ہوئی اور پھر لاہور میں سپیشل جج اینٹی کرپشن پہ ان کی تعیناتی ہوئی۔ پھر سپیشل جج کسٹم کے طور پر کام کیا۔ اور نَیب (NAB)کے جج کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2000ء میں یہ ریٹائر ہوئے۔

موصوف شیخ صاحب کے انصاف کی ہر جگہ شہرت تھی۔ جن کا بھی ان سے واسطہ پڑتا تھا ان کو پتہ تھا کہ یہ انصاف پسند آدمی ہیں اور انہیں کبھی کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ راولپنڈی میں ایک کیس کے دوران دونوں پارٹیوں میں سے ایک پارٹی جو لاہوری احمدی ہیں ان کی خواتین تھیں۔ ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب تھے۔ اور دوسرا فریق جو تھا، دوسری پارٹی ایک مولویوں کی پارٹی تھی۔ توکورٹ میں آ کے انہوں نے پہلے ہی بتا دیا کہ میں احمدی ہوں اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتائیں۔ جو دوسرا گروپ مولویوں کا تھا، ان کا مقدمہ احمدی پیغامیوں کے ساتھ تھا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں قبول ہے ہم آپ سے ہی فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ جو پیغامی فریق تھا ان کے وکیل مجیب الرحمن صاحب احمدی تھے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں آپ اپنی انصاف پسندی کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے خلاف فیصلہ نہ کر دیں۔ لیکن انہوں نے انصاف کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور انصاف کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا اور ان خواتین کے حق میں کر دیا اور مولویوں کے خلاف ہوا۔

ان کا علم بھی بڑا وسیع تھا۔ بڑے دلیر تھے۔ قوتِ فیصلہ بہت تھی۔ ملازموں اور غریبوں سے بڑی ہمدردی کیا کرتے تھے۔ درویش صفت انسان تھے۔ جب بھی مَیں ان کو ملا ہوں جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی۔ فضلِ عمر فاوٴنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ اس کے علاوہ شروع میں ماڈل ٹاوٴن حلقہ میں زعیم اعلیٰ کے طورپربھی خدمات رہی ہیں۔ گارڈن ٹاوٴن حلقہ کے صدر بھی رہے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارا اور بچوں کا ہمیشہ بہت خیال رکھتے تھے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ میں تو ایک غریب سٹیشن ماسٹر کا بیٹا ہوں اور تم لوگوں کی ضروریات کا، بچوں کا خیال مجھے اس لئے رکھنا پڑتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو سیشن جج کے بچے سمجھتے ہیں۔ وصیت کے نظام میں بھی شامل تھے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔

شہادت سے ایک دن قبل ان کی بہن نے لجنہ اماء اللہ کو وصایا کے حوالہ سے ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ وصیت بھی جنت کے حصول کا ذریعہ ہے اور گھر آ کر شیخ صاحب سے جب بات کی کہ کیا میں نے ٹھیک کہا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ لیکن اپنی بہن کو کہا کہ آپا! اصل جنت کی ضمانت تو شہادت سے ملتی ہے۔

اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ شہادت سے قبل شہید مرحوم کا فون آیا کہ میرے سر اور ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اور بلند آواز سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں۔ خدام نے ان کو نیچے کی طرف یعنی basement میں جانے کے لئے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اور جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر لوگوں کو کہا کہ بیٹھ جائیں اور درود شریف پڑھیں اور دعائیں کریں۔ اپنا فون ان کے پاس نہیں تھا، ایک خادم سے فون لیا گھر بھی فون کیا، پولیس کو بھی فون کیا۔ پولیس نے جواب دیا کہ ہم آ گئے ہیں تو بڑے غصے سے پھر ان کو کہا کہ پھر اندر کیوں نہیں آتے؟ ایک خادم جس نے فون دیا تھا ان کے مطابق آخری آواز ان کی اس نے یہ سنی تھی کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔

ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ نمازِ جمعہ پر جانے سے پہلے چندہ کی رقم مجھے پکڑائی اور کہا کہ اپنے پاس رکھ لو۔ کیونکہ آج تک پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا تو میں نے کہا کہ جہاں آپ پہلے رکھتے تھے وہیں رکھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں آج تم رکھ لو کیونکہ دفتر بند ہو گا اس لئے جمع نہیں کروا سکتا۔ اسی طرح ایک کیس کے بارے میں مجھے بتایا۔ اہلیہ سے کہا کہ وہ آگے چلا گیا ہے، اس کی تاریخ آگے پڑ گئی ہے اور یہ کیس کے پیسے ہیں، یہ اپنے پاس رکھ لو اور کیس والے فریق کو دے دینا اور اس کی فائل بھی۔ اہلیہ کہتی ہیں کہ حالانکہ پہلے میرے سے کبھی آج تک انہوں نے کوئی کیس ڈسکس (Discuss) نہیں کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دو دفعہ اس خواہش کااظہار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یا بلکہ پہلے ہی میرا وقف قبول کریں۔ حضور نے ان کویہی فرمایا تھا کہ جہاں آپ کام کر رہے ہیں وہیں کام کریں کیونکہ اس کے ذریعہ سے احمدیت کی تبلیغ زیادہ موٴثر رنگ میں ہو رہی ہے۔ لوگوں کو پتہ لگے کہ احمدی افسر کیسے ہوتے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے نے بتایا کہ میں نے ان سے کہاکہ اپناکوئی سکیورٹی گارڈرکھ لیں۔ کہنے لگے کیا ہو گا؟ مجھے گولی مار دیں گے تو شہید ہو جاوٴں گا۔

ہمارے سلسلہ کے ایک مبلغ ہیں مبشر مجید صاحب انہوں نے ان کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ یہ گلبرگ لاہور میں مربی ہوتے تھے کہتے ہیں کہ 97ء یا98ء کی بات ہے کہ مجھے ایک دن مربی ضلع کا فون آیا کہ غیراحمدیوں کے ایک بڑے عالم ہیں اور جمعیت علمائے پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدے پر، بڑے عہدے پر قائم ہیں ان کو ہم نے ملنے جانا ہے۔ تو کہتے ہیں میں بڑا حیران ہوا کہ کیا ضرورت، مصیبت پڑ گئی ہے ان کو ملنے کی؟ خیر، کہتے ہیں میں مربی صاحب ضلع کے ساتھ چلا گیا۔ سبزہ زار میں جمیعت کا سیکریٹریٹ ہے تو وہاں جب ہم پہنچے ہیں تو ان صاحب سے تعارف ہوا۔ یہ ہمارے شدید ترین مخالف لوگ ہیں۔ ان صاحب نے جو جمیعت علماء پاکستان کے سیکرٹری تھے انہوں نے کہا کہ مجھ پر کسٹم والوں نے ایک سراسر غلط مقدمہ بنا دیا ہے۔ جو جج ہے وہ نہایت عجیب و غریب قسم کا انسان ہے۔ میں تین پیشیاں بُھگت چکا ہوں۔ جب بھی میں عدالت میں آتا ہوں تو کرسی پر بیٹھتے ہی میز پر ایک زور دار مُکّا مارتا ہے اور کہتا ہے کہ Listen every body کہ میں احمدی ہوں، اب مقدمہ کی کارروائی شروع کرو۔ تویہ صاحب کہتے ہیں کہ میری تو آدھی جان وہیں نکل جاتی ہے جب یہ دھمکی دیتے ہیں۔ مجھے یہ خیال ہے کہ یہ مجھے پیغام دیتے ہیں کہ بچُّو! اب تم میرے قابو میں آئے ہو، اب میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ تو آپ لوگ خدا کے واسطے میری کوئی مدد کریں اور میری اس سے جان چھڑوائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مذہبی مخالفت کی بنا پر مجھے سزا دے دے گا۔ پھر بولے: عجیب قسم کا آدمی ہے۔ یہ کوئی زمانہ ہے، یہ حالات ہیں؟ کہ یہ صاحب آتے ہیں اور میز پر مُکّا مار کے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور میرے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ مربیّ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ غلطی پر ہیں۔ آپ نے ان کے پیغام کو نہیں سمجھا۔ وہ میز پر مُکّا مار کے یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک سن لو، میں احمدی ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آپ کو دھمکاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنو اور غور سے سنو کہ میں احمدی ہوں۔ نہ مَیں رشوت لیتا ہوں، نہ ہی میں کسی کی سفارش سنوں گا اور نہ ہی میرے فیصلے کسی تعصب کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ میں صرف خدا سے ڈرتا ہوں۔ مربی صاحب نے کہا یہ ہے ان کا اصل مطلب۔ اس لئے ہم پر تو آپ رحم کریں اور ہمیں کسی سفارش پر مجبور نہ کریں اور نہ ہی ہم ایسا کریں گے۔ تو کہتے ہیں بہر حال وہ صاحب بڑے پریشان تھے کہ اگر اس نے مجھے ٹانگ دیا تو پھر کیا ہو گا؟ تو میں نے کہا آپ کے کہنے کے مطابق اگر آپ بے قصور ہیں تو آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ صرف مذہبی اختلافات کی بنیاد پر آپ کو سزا نہیں دیں گے۔ اس کے بعد ان کے ہاں سے چلے آئے۔ پانچ چھ مہینے کے بعد ان کے پی اے (.P.A)  کا فون آیا اور اطلاع دی کہ وہ باعزت طور پر بری ہو گئے ہیں اور ہمارے وہ عالم صاحب جو لیڈرہیں جمیعت علمائے اسلام کے آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ان سے کہیں کہ ہمارا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شکریہ ادا کریں اس امام مہدی آخرالزمان کا، جس کی تعلیمات اور قوتِ قدسیہ کے فیض نے ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو ان اخلاق کو زندہ کرنے والی ہے جو آج دنیا سے ناپید ہیں۔ تو یہ تھا ان کے انصاف کا معیار۔ اور بڑے دبنگ، جرأت والے انسان تھے۔

گزشتہ سال جب میں نے ان کو امیر جماعت لاہور مقرر کیا ہے تو انہیں لکھا کہ اگر کوئی مشکل ہو براہِ راست رہنمائی لینی چاہتے ہوں تو بے شک لے لیا کریں اور بے شک مجھ سے رابطہ رکھیں۔ ایک دن ان کا فون آیا تو میں نے کہا کہ خیر ہے؟ تو کہنے لگے کہ اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو آپ نے دی ہے میں نے کہا فون کر لوں اور اگر کوئی ہدایت ہو تو لے لوں۔ باقی کام تو صحیح چل رہے ہیں۔ اور آپ سے سلام بھی کر لوں۔ تو بڑے منجھے ہوئے شخص تھے۔ سب جو کارکنان تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو ساتھ لے کر چلنے والے تھے۔ لجنہ ضلع لاہور کی صدر نے مجھے بتایا کہ جب یہ مقرر ہوئے ہیں تو ہمیں خیال تھا کہ یہ کس شخص کو آپ نے امیر جماعت مقرر کر دیا ہے جس کو زیادہ تر لوگ جانتے بھی نہیں۔ لیکن ان کے ساتھ کام کرنے سے پتہ چلا کہ یقیناً انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر دیا اور بڑے پیار سے ساروں کو ساتھ لے کر چلے۔ بے شمار خصوصیات کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے۔

میجر جنرل ریٹائرڈ ناصر چوہدری صاحب

دوسرے شہید میجر جنرل ریٹائرڈ ناصر چوہدری صاحب ابن مکرم چوہدری صفدر علی صاحب ہیں۔ یہ بہلول پور تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد صاحب انسپکٹر تھے اور 1930ء میں ڈیوٹی کے دوران ہی وہ بھی شہید ہوئے تھے۔ اس وقت جنرل صاحب شہید کی عمر صرف 10سال تھی۔ جنرل صاحب کی دادی جو تھیں وہ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔ 1942ء میں ان کوکمیشن ملا، بنگلور گئے۔ اور دوسری جنگِ عظیم میں برما کے فرنٹیئر فورس محاذ پر تھے۔ 43ء میں ان کا نکاح ہوا اور سید سرور شاہ صاحبؓ نے ان کا نکاح پڑھا۔ اور اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرے نکاح میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہوئے تھے۔ بہرحال فوج میں ترقی کرتے رہے اور 1971ء میں راجستھان میں اپنی بنائی ہوئی Div -33 کی کمانڈ کرتے رہے۔ وہیں ان کے گھٹنے میں گولی لگی جو ان کے جسم کے اندر ہی رہی ہے۔ ڈاکٹر اس کو نکال نہیں سکے۔ اس حملے کے دوران میں ان کا جو پرسنل سیکرٹری تھا وہ بھی زخمی ہوا۔ اس کو تو انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سے حیدرآباد بھیجا اور خود ٹرین کے ذریعے حیدر آباد پہنچے۔ ڈاکٹر کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دوبارہ چلنے لگ جائیں تو معجزہ ہو گا۔ اس لئے گولی بھی نہیں نکالی کہ خطرہ تھا کہ مزید خرابی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن بہر حال بڑی قوتِ ارادی کے مالک تھے۔ ورزش کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی ٹانگ اس قابل ہو گئی کہ چلتے تھے اور اپنی کیٹیگری اے کروا لی کیونکہ بی میں نوکر مل جاتا ہے۔ بیس سال تک یہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع لاہور رہے ہیں۔ 1987ء سے لے کر شہادت کے وقت تک بطور صدر حلقہ ماڈل ٹاوٴن خدمت سرانجام دیتے رہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 91سال تھی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ مسجد ماڈل ٹاوٴن میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔

ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت مخلص اور خلافت سے محبت کرنے والے تھے۔ نمازی، پرہیز گار، جماعت کا درد رکھنے والے انسان تھے ایک دفعہ ڈرائیور کی مشکل پیش آئی تو میں نے کہا کہ اپنی پلٹن سے ڈرائیور مانگ لیں تو جواباً کہا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے۔ خود ہی خرچ کروں گا۔ ابتدائی دور میں 1943ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے۔ لاہور کے ایک نائب امیر ضلع تھے مکرم میجر لطیف احمد صاحب۔ وہ بھی فوج سے ریٹائر ہوئے تھے اور میجر تھے، اور یہ فوج سے ریٹائر ہوئے اور جنرل تھے۔ وہ ان کو مذاق میں کہا کرتے تھے کہ دیکھو آج جنرل بھی میرے نیچے کام کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ میجر صاحب نائب امیر تھے تو شہید مرحوم ہنس کے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو اطاعت ہے۔ جب میں احمدی ہوں اور جماعت کی خاطر کام کر رہا ہوں تو پھر میجری اور جرنیلی کا کوئی سوال نہیں۔ مسجدنور میں جو ماڈل ٹاوٴن کی مسجد ہے، عموماً ہال سے باہر کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اور جو سانحہ ہوا ہے اس دن جب فائرنگ شروع ہوئی ہے تو ایک صاحب نے، احمدی دوست روشن مرزا صاحب نے کہا کہ اندر آجائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ باقی ساتھیوں کو پہلے اندر لے جائیں اور پھر آخر میں خود اندر گئے اور ہال کے آخری حصہ میں لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد لوگ تہہ خانے کی طرف جاتے رہے اور ان کو بھی لے جانے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے یہاں ہی رہنے دو۔ اسی دوران دہشتگردنے ایک گرینیڈ ان کی طرف پھینکا جو ان کے قدموں میں پھٹا۔ گرینیڈ پھٹنے سے ان کے ساتھ والے بزرگ بھی نیچے گرے لیکن اس کے بعد اٹھ کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر دہشتگردنے ان پر فائرنگ کی جس سے گردن میں ایک گولی لگی اور وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سجدہ کی حالت میں شہید ہوئے۔

جیسا کہ میں نے کہا ہے بڑی عاجزی سے اور بڑی وفا سے انہوں نے اپنی جماعت کی خدمات بھی ادا کی ہیں اور عہدِ بیعت کو بھی نبھایا ہے۔ شہادت کا رتبہ تو ان کو فوج میں بھی بعض ایسے حالات پیدا ہوئے جب مل سکتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کی کوئی نہ کوئی نیک ادا پسند آتی ہے۔ ان کی یہ ادا پسند آئی کہ شہادت کا رتبہ تو دیا لیکن مسیح محمدی کے ایک کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے دیا اور عبادت کرتے ہوئے دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم اسلم بھروانہ صاحب

پھر اسلم بھروانہ صاحب شہید ہیں جو مکرم مہر راجہ خان بھروانہ صاحب کے بیٹے تھے۔ شہید مرحوم کے والد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بیعت کی۔ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ ٹیکسلا یونیورسٹی سے مکینیکل انجنیئرنگ کی اور 1981ء سے پاکستان ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ مجلس انصار اللہ کے بڑے اچھے رکن تھے، جمعہ کے روز آپ عام طور پر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلانات کیا کرتے تھے۔ اس وقت بھی خطبہ سے پہلے اعلان کر کے فارغ ہوئے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 59سال تھی۔ ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے۔ نسیم مہدی صاحب اور پروازی صاحب کے یہ برادرِ نسبتی تھے، بہنوئی تھے اور مولوی احمد خان صاحب ان کے خسر تھے۔ پاکستان ریلوے مکینیکل انجنیئرنگ میں چیف انجنیئر تھے اور بیسویں گریڈ کے افسر تھے اور اکیسویں گریڈ کے لئے فائل جمع کروائی ہوئی تھی اور چند روز میں ان کی ترقی ہونے والی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ عظیم رتبہ ان کو عطا فرمایا ہے جس کے سامنے ان گریڈوں اور ان ترقیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے بارے میں ڈیوٹی پر موجود ایک خادم نے بتایا کہ مکرم اسلم بھروانہ صاحب کو تہہ خانہ میں بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہیں رہوں گا۔ آپ دوسروں کو تہہ خانے میں لے جائیں اور خود ہال سے باہر صحن میں نکلے تا کہ دوسروں کی خبر گیری کر سکیں۔ جب دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے دہشتگردنے ان پر فائرنگ کر دی۔

شہید مرحوم اہم جماعتی عہدوں پر فائز رہے۔ سابق قائد علاقہ راولپنڈی اور لاہور کے علاوہ سیکرٹری تربیت نومبائعین، سیکرٹری جائیداد لاہور، لاہور کا ہانڈو گجر میں قبرستان ہے اس کے نگران، بہت اخلاص سے دن رات محنت کرنے والے تھے اور بہت بہادر انسان تھے۔ جب کوئٹہ میں بسلسلہ ملازمت تعینات تھے تو ضیاء الحق اس وقت صدرِ پاکستان تھے۔ ان کی آمد پر ریلوے آفیسر ہونے کی وجہ سے ان کو آگے سیٹ ملی۔ جب وہاں جو فنکشن تھا اس میں آگے بیٹھے ہوئے تھے، پہلی لائن پر، اور وہاں ان دنوں کلمے کی مہم بھی چل رہی تھی۔ مطلب ہے کہ احمدیوں کو منع کیا تھا، نیا نیا آرڈیننس آیا تھا انہوں نے کلمے کا بیج لگایا ہوا تھا اور آ کے آگے بیٹھ گئے۔ تو گورنر نے ان کو پیغام بھیجا کہ آپ یا تو پیچھے چلے جائیں یا کلمے کا بیج اتار دیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہ تو میں کلمے کا بیج اتار سکتا ہوں اور نہ ڈر کی وجہ سے پیچھے جا سکتا ہوں۔ آپ اگر چاہیں تو مجھے بے شک گھر بھیج دیں یعنی نوکری سے فارغ کر دیں۔ بہر حال ڈٹے رہے۔ اس طرح کے ابتلاء کے دور میں لاہور کے قائد علاقہ رہے ہیں اور حالات کے پیشِ نظر احمدی نوجوانوں کو ڈیوٹی کے لئے ہمیشہ انہوں نے تیار کیا۔ خود بھی لمبے عرصے تک گیٹ پر ڈیوٹی دیتے رہے۔ بہت مدد کرنے والے اور خدمتِ خلق کرنے والے انسان تھے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ خلافت اور جماعت سے عشق تھا۔ جماعتی کام کو ترجیح دیتے تھے۔ زندگی وقف کرنے کی بہت خوشی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کی تھی اور صحت کا خیال اس لئے رکھتے تھے کہ میں نے وقف کیا ہوا ہے اور جماعت کے کام آ سکوں۔ باجماعت نماز کے پابند اور دیانتدار افسر تھے اس لئے ان کی ہر جگہ بہت عزت کی جاتی تھی۔ جب یہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تو جماعتی طور پر ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا۔ اس لئے باقاعدگی سے کفالت یتامیٰ میں چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ یتامیٰ کی طرف سے ان کا خرچ اٹھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر چندہ جات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ شہید مرحوم کی ایک عزیزہ نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ آواز آئی  ’’شہیدوں کو چننے کے لئے تیار ہو جاوٴ‘‘۔

خودمَیں نے بھی ان کودیکھا ہے بڑی عاجزی سے کام کرنے والے تھے اور مرکزی کارکنان، جس لیول کا بھی کارکن ہو، اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم اشرف بلال صاحب

اشرف بلال صاحب شہید ابن مکرم محمد لطیف صاحب۔ شہید مرحوم کے سب رشتے دار اللہ کے فضل سے احمدی ہیں٭۔

٭ یہ وضاحت روزنامہ  الفضل ربوہ مورخہ 19جنوری2011 ء صفحہ 11 کے مطابق کی گئی ہے۔

ان کے نانا مکرم خدا بخش صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہ برطانیہ کے شہری تھے۔ ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ مالی خدمات میں حصہ لینے والے تھے۔ انہوں نے شالیمار ٹاوٴن کی بیت الذکر تعمیر کروا کر جماعت کو عطیہ کرنے کی سعادت پائی۔ انجنیئرنگ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ اپنی ورکشاپ فیکٹری بنائی ہوئی تھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 56سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات، سیکرٹری تحریکِ جدید وغیرہ کے طور پر بھی انجام دے رہے تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ موصی تھے۔ ان کے بائیں کندھے کے پیچھے سے گولی لگ کر سامنے دل سے نکل گئی تھی اور مضبوطی سے انہوں نے ہاتھ جسم کے قریب کر کے جیب میں ڈالا اور ڈرائیور کو فون کیا کہ مجھے گولی لگی ہے لیکن کسی کو بتانا نہیں ہے۔ اسی طرح ایک گولی ان کی گردن پر بھی لگی۔ ایک بچہ نثار احمدنام کا جو بچپن سے ان کے پاس تھا۔ اس کے بارے میں دیکھنے والوں نے بتایا کہ ان کو گرتے ہوئے اس بچے نے بازووٴں میں لے لیا۔ لیکن وہ نیم مردہ حالت میں آ گئے۔ نثار نے ان کا سر اٹھا کر جب ان کے دل کی دھڑکن سننے کی کوشش کی ہے تو دہشتگردنے ایک اور گولیوں کی بوچھاڑ کی جس سے وہ لڑکا نثار احمد بھی شہید ہو گیا اور وہ بھی شہادت پاتے ہوئے اپنی وفا داری کا ثبوت دے گیا۔ ہر وقت ذکرِ الٰہی اور استغفار میں مصروف رہتے تھے۔ نمازوں میں خوب روتے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں میں وجہ پوچھتی تھی تو کہتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں مَیں تو اس قابل نہ تھا۔ خدمتِ خلق اور مالی قربانی میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔ ہر ماہ کئی لاکھ روپیہ خدمتِ خلق کے لئے خرچ کر دیتے تھے۔ ایک فری ڈسپنسری چلا رہے تھے۔ بہت سے لوگوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے۔ جو کوئی بھی ان کے پاس مدد کے لئے آتا تو کہتے کہ اب کسی اور کے پاس نہیں جانا، میرے سے لیا کرو۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں اشرف صاحب کا رویہ دو ماہ سے مختلف ہو رہا تھا۔ جلدی جلدی تمام کام مکمل کروا رہے تھے۔ یو۔ کے والے گھر کی دیوار اونچی کروائی اور مجھے نصیحت کی کہ اب تم ایک ملازمہ رکھ لو اور یہاں سے ایک لڑکی کے ویزے کا کام مکمل کروایا کہ اس کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ شہادت سے پندرہ روز قبل مجھے مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے وصیت کی تو میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کر پاوٴں گی۔ تو جواباً کہا کہ نہیں تم اچھی طرح سنبھال لو گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

 

کیپٹن ریٹائرڈ مرزا نعیم الدین صاحب

کیپٹن ریٹائرڈ مرزا نعیم الدین صاحب شہید ابن مکرم مرزا سراج دین صاحب۔ یہ شہید فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ خاندان میں سب سے پہلے ان کے دادا نے بیعت کی تھی۔ مرزا محمد عبداللہ صاحب درویش قادیان آپ کے تایا تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 56سال تھی اور دارالذکر میں شہید ہوئے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ نے ان کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جمعہ کے روز بیٹی کے گھر کھانا کھاتے تھے۔ زخمی حالت میں کوئی دو بجے کے قریب بیٹی کوگھر فون کیاکہ والدہ کا دھیان رکھنا۔ ان کی اہلیہ نے کہا پھر میں نے فون پکڑا، تو کہا کہ ٹھیک ہو؟ مَیں نے کہا کہ ہاں جی ٹھیک ہوں۔ کہا کہ اللہ حافظ۔ بیٹے عامر کا پتہ کرواتے رہے۔ دو افراد کو فوجی نقطہ نظر سے جان بچانے کے طریقے بتائے جس سے بفضلہ تعالیٰ وہ دونوں محفوظ رہے۔ خود یہ محراب کے قریب دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئی حالت میں شہید ہو گئے۔ ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ اس سانحے میں ان کا بیٹا عامر نعیم بھی زخمی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ہمارے دونوں خاندانوں میں ہماری ازدواجی زندگی ایک مثال تھی۔ پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ کہتے تھے کہ‘رحمت آئی’اور ہر بیٹی کی پیدائش کے بعد ان کی ترقی ہوئی۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بیٹیاں پیدا ہونے پر بعض دفعہ بیویوں کو کوستے ہیں اور یہ شکایات مجھے اکثر آتی رہتی ہیں۔ سپاہی سے یہ کیپٹن تک پہنچے اور دیانتداری کی وجہ سے لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ بڑے بہادر انسان تھے۔ 1971ء کی جنگ اور کارگل کی لڑائی میں حصہ لیا۔ شہادت کی بڑی تمنا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمنا بھی ان کی اس رنگ میں پوری فرمائی۔ عبادت کرتے ہوئے ان کو شہادت کا رتبہ دیا۔

مکرم کامران ارشد صاحب

کامران ارشد صاحب ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب۔ ان کے دادا مکرم حافظ محمد عبداللہ صاحب اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی تھے۔ انہوں نے 1918ء میں بیعت کی۔ پارٹیشن کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ بوقتِ شہادت شہید کی عمر 38سال تھی اور دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی۔

شہید مرحوم کی تعلیم بی اے تھی۔ کمپوزنگ کا کام کرتے تھے اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے۔ بطور سیکرٹری تعلیم جماعت کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ mta لاہور میں 1994ء سے رضا کارانہ خدمت سر انجام دے رہے تھے۔ اس سے پہلے دارالذکر میں شعبہ کتب میں بھی خدمت سرانجام دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ فائرنگ شروع ہونے کے وقت بہادری کے ساتھ جان کی پرواہ کئے بغیر MTA کے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکلے مگر اس دوران دہشتگردوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت حلیم طبع انسان تھے۔ بچوں کی نماز کی خصوصی نگرانی کرتے اور پچھلے ایک ماہ سے دارالذکر کے کام میں مصروف تھے۔ شہادت سے تین چار روز قبل خلافِ معمول نہایت سنجیدہ اور خاموش رہے۔ قرآنِ شریف کی تلاوت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ ان کے بارے میں جب ان کی والدہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز فجر کے بعد خواب میں دیکھا کہ گھر میں شادی کا ماحول ہے۔ باہر گلی میں احمدی عورتیں بیٹھی ہیں وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور میرے گلے میں ہار ڈالتی ہیں۔ ایک عورت نے مجھے گلے لگایا اور ایک گولڈن پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو مہندی کر لی ہے۔ آپ نے کب کرنی ہے؟ میں نے کہا کہ گھر جا کر کرتے ہیں۔ یہ والدہ کی خواب تھی۔ شہید مرحوم کے بھائی نے اپنی خواب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کامران بہت سارے پھولوں میں کھڑا ہے۔ شہید کی والدہ لمبا عرصہ حلقہ دارالذکر کی صدر رہی ہیں اور والد سیکرٹری مال رہے ہیں۔ اس حادثے میں شہید کے ماموں مظفر احمد صاحب بھی شہید ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم اعجاز احمد بیگ صاحب

اعجاز احمد بیگ صاحب شہید ابن مکرم انور بیگ صاحب۔ یہ شہید مرحوم قادیان کے قریب لنگر وال گاوٴں کے رہنے والے تھے۔ والدہ کی طرف سے محمدی بیگم کے رشتے دار تھے۔ تیمور جان صاحب ابن عبد المجید صاحب (نظام جان) کے بہنوئی تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 39سال تھی۔ مجلس خدام الاحمدیہ سے وابستہ تھے اور دارالذکر میں شہید ہوئے۔ اہلیہ ان کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ان کو یورین انفیکشن تھی اور دو سال سے بیمار تھے۔ دو مہینے کے بعد پہلی دفعہ جمعہ پڑھنے گئے اور جمعہ سے پہلے خاص طور پر تیاری کی۔ دو ماہ کے بعد صحت میں بہتری آئی اور ان کو تیار ہوا دیکھ کر کہتی ہیں مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آج پہلے کی طرح اچھے لگ رہے ہیں۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بہت سادہ اور متوکل انسان تھے۔ کبھی پریشان نہ ہوتے تھے۔ صابر تھے، کبھی کسی کے منفی طرزِ عمل کے جواب میں ردّ عمل کے طور پر منفی طرزِ عمل نہیں دکھایا۔ آپ پرائیویٹ ڈرائیونگ کرتے تھے۔ ان دنوں جنرل ناصر صاحب شہید کے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند کرے۔

مکرم مرزا اکرم بیگ صاحب

مرزا اکرم بیگ صاحب شہید ابن مکرم مرزا منور بیگ صاحب۔ یہ شہید مرحوم مرزا عمربیگ صاحب کے پوتے تھے اور عمر بیگ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی۔ پارٹیشن کے وقت قادیان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اور ایوب اعظم بیگ صاحب شہید آف واہ کینٹ ان کے حقیقی ماموں تھے۔ ان کے ماموں کو واہ کینٹ میں میرا خیال ہے 1997-98ء میں شہید کیا گیا۔ بوقتِ شہادت شہید کی عمر 58سال تھی۔ مجلس انصاراللہ کے ممبر تھے اور دارالذکر میں ہی شہید ہوئے۔ موصوف کی شہادت گرینیڈ کے شیل لگنے سے ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اپنے بیٹے کو فون کیا اور کہا کہ میں زخمی ہوں میرے لئے دعا کرنا اور اہلیہ کے ساتھ بات کی کہ میں معمولی سا زخمی ہوں میرے لئے دعا کریں۔ بڑا بیٹا فرحان بھی مسجد میں ساتھ موجود تھا جو ان کو تلاش کرتا رہا لیکن اندازہ ہے کہ جب یہ افواہ مشہور ہوئی کہ دہشتگرد چلے گئے ہیں اور جو کارروائی وہ کر رہے ہیں ختم ہو گئی ہے تو باہر نکلتے ہوئے ان کو گولی لگی جو غلط اعلان تھا۔ بڑے عبادت گزار تھے پانچ وقت کے نمازی، بہت ہمت والے انسان تھے۔ ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ اصول پسند اور وقت کی پابندی کرنے والے تھے۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہمارا گھر گھڑی کی سوئی پر چلتا تھا۔ بزرگوں کا احترام کرنے والے تھے، بچوں سے بہت پیار تھا۔ اپنے داماد سے اکثر ذکر کرتے کہ عبادت میں جو پانا چاہ رہا ہوں وہ ابھی تک نہیں ملا، شاید کچھ کمی ہے۔ شہید مرحوم نے کچھ عرصہ قبل خود خواب میں دیکھا کہ میں کسی پُل پر چل رہا ہوں اور سات آٹھ قدم چلنے کے بعد پل ختم ہو گیا ہے۔ خود ہی اس کی تعبیر کی کہ زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بلند مقام دیا۔ شہید مرحوم کے بچے بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی کی شہادت ہوتی تو کہا کرتے تھے کہ کبھی ایسا موقع آئے کہ ہم بھی شہید ہوں۔ اپنے ماموں کی شہادت پر کہا کہ کاش ان کو لگنے والی گولی مجھے لگی ہوتی۔ موصوف نے شادی سے پہلے خود خواب میں دیکھا کہ گھر میں صحن میں کھڑا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بالائی منزل سے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں حضور علیہ السلام کو دیکھ کر کہتا ہوں‘یہ تو حضور ہیں ’۔ خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت بھی کی۔ شہادت سے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ سفید چاول کھا رہا ہوں۔ اکثر معبرّین جو ہیں وہ اس کی یہ بھی تعبیر کرتے ہیں کہ کسی کی خواہش کا پورا ہونا اور بلند درجہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم منور احمد خان صاحب

منور احمد خان صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب۔ یہ ڈیریاں والا ضلع نارووال کے رہنے والے تھے۔ عرفان اللہ خان صاحب امیر ضلع نارووال کے کزن تھے اور قالینوں کا ان کا کاروبار تھا شہادت کے وقت ان کی عمر 61سال تھی۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اپنے چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ ان کی تدفین لاہور میں ہانڈو گجرقبرستان میں ہوئی ہے۔ بچوں کو خاص طور پر تربیتی کلاسز میں حصہ لینے کی تاکید کرتے۔ نیک انسان تھے، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا۔ اہلیہ بتاتی ہیں کہ اس سے قبل جب حالات خراب ہوئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے بچوں کو احمدیت اور خلافت سے منسلک رکھنا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی دعائیں اور خواہشات اپنی اولاد کے حق میں پوری فرمائے۔

مکرم عرفان احمدناصر صاحب

عرفان احمدناصر صاحب شہید ابن مکرم عبدالمالک صاحب۔ شہید مرحوم کے دادا میاں دین محمد صاحب نے 1934ء میں بیعت کی تھی۔ بدو ملہی ضلع نارووال کے رہنے والے تھے۔ ان کی پڑنانی محترمہ حسین بی بی صاحبہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی صاحبزادی امة القیوم کی رضاعی والدہ تھیں۔ شہید مرحوم کے والد مکرم عبدالمالک صاحب کو نمائندہ الفضل، نمائندہ تشحیذو خالدبرائے لاہوراور سیکرٹری تعلیم القرآن اور سیکرٹری وصایا ضلع لاہور کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ بوقتِ شہادت شہید کی عمر 31سال تھی اور مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور منتظم اشاعت خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ موصوف نے دارالذکر میں شہادت پائی۔ ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کی ڈیوٹی عموماً ٹریفک کنٹرول پر ہوتی تھی۔ اس حوالے سے غالباًامکان یہی ہے کہ یہ سب سے پہلے شہید یا پہلے چند شہیدوں میں سے ہوں گے۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ کبھی کسی کام سے انکار نہیں کیا۔ نہایت خدمت گزار تھے۔ علاقے میں سماجی کارکن کے نام سے مشہور تھے۔

مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب

مکرم سجاد اظہر بھروانہ صاحب شہید ابن مکرم مہر اللہ یار بھروانہ صاحب۔ یہ محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید کے بھانجے تھے اور یہ بھی ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے اور ریلوے میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر کلرک کی پوسٹ پر ملازمت کر رہے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 30سال تھی۔ خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال اور ذمہ دار رکن تھے۔ ان کومتعدد تنظیمی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ شہید مرحوم نے دارالذکر میں شہادت پائی اور نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ ہمیشہ خدمتِ دین کا موقع تلاش کرتے رہے اور ہر آواز پر لبیک کہنے والے تھے۔ بہت مخلص احمدی تھے۔ آخری وقت تک فون پر معتمد صاحب ضلع شہباز احمد کو وقوعہ کے بارے میں اطلاع دیتے رہے اور اطلاع دیتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ایک خادم شعیب نعیم صاحب نے بتایا کہ سجاد صاحب آئے اور مجھے کہتے ہیں کہ مجھے آج یہاں ڈیوٹی دینے دیں۔ میرا یہ دارالذکر میں آخری جمعہ ہے اس کے بعد میں نے گاوٴں چلے جانا ہے۔ چنانچہ میری جگہ انہوں نے ڈیوٹی دی اور اس ڈیوٹی کے دوران شہید ہو گئے۔ گاوٴں تو نہیں گئے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایسی جگہ لے گیا جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہے۔ بہت خدمت گزار تھے۔ اپنی ملازمت کے فوراً بعد جماعتی دفتر میں تشریف لے آتے تھے اور رات گیارہ بارہ بجے تک وہیں کام کرتے تھے۔ شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ سجاد زخمی حالت میں گھر آئے ہیں اور کہا ہے کہ میرے پیٹ میں شدید تکلیف ہے۔ میں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو خون بہہ رہا تھا۔ اور شہید مرحوم کے پیٹ میں گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

مکرم مسعود احمد اختر باجوہ صاحب

مسعود احمد اختر باجوہ صاحب شہید ابن مکرم محمد حیات باجوہ صاحب۔ شہید مرحوم کے والد صاحب 191/7-Rضلع بہاولنگر کے رہنے والے تھے۔ پیچھے سے یہ سیالکوٹ کے تھے۔ ان کے والد صاحب اپنے خاندان میں احمدیت کا باثمر پودا لگانے والے تھے۔ ان کی وجہ سے ان کے خاندان میں احمدیت آئی۔ انہوں نے حضرت مولوی عبداللہ باجوہ صاحب آف کھیوہ باجوہ کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ آپ کے ایک بھائی چک میں صدر جماعت ہیں۔ آپ نے بہاولنگر سے تعلیم حاصل کی، پھر ربوہ سے پڑھے واپڈا کے ریٹائرڈ افسر تھے۔ 1975ء سے لے کر 2000ء تک ملازمت کے سلسلہ میں کوئٹہ رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ 2001ء میں لاہور شفٹ ہوئے۔ مجلس انصار اللہ کے محنتی اور فعال ممبر تھے۔ زعیم انصار اللہ اور امیر حلقہ دارالذکر تھے۔ معاون سیکرٹری اصلاح و ارشاد واشاعت ضلع اور سیکرٹری تعلیم القرآن حلقہ دارالذکر بھی تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 72سال تھی۔ آپ نے دارالذکر میں شہادت پائی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر حامد صاحب امریکہ میں ہوتے ہیں انہوں نے بتایا کہ میں نے گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرنا تھا مگر بوجوہ نہیں کر سکا۔ تو میرے والدنے مجھے ایک ہزار ڈالر بھجوائے اور کہا کہ فوراً گرین کارڈ کے لئے اپلائی کرو جلدی میں پاکستان آنا پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اپلائی کر دیا اور پچیس دنوں میں ہی گرین کارڈ مل گیا۔ عموماً کہتے ہیں کہ چھ ماہ لگتے ہیں۔ اور اس طرح وہ والد کی شہادت پر پاکستان پہنچ بھی گئے۔ ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ شہادت سے پہلے جو زخم آنے سے خون بہہ رہا تھا تو ایک پڑوسی میاں محمود احمد صاحب کو کہا کہ میں گیا۔ میرے بچوں کا خیال رکھنا۔ انہوں نے کپڑا پھاڑ کر ان کے زخم کو باندھا۔ لوگوں کو آخر وقت تک سنبھالتے رہے۔ ایک نوجوان بچے کو سارے عرصے میں پکڑ کراس کی حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا کہ اس کو نہ گولی لگ جائے۔ سب کا خیال کرتے رہے اور دعا کی تلقین کرتے رہے۔ خود بھی درود شریف پڑھتے رہے اور اپنے پڑوسی میاں محمود صاحب کو بھی تلقین کرتے رہے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ہر بندے سے بے غرض تعلق تھا۔ جمعہ سے پہلے پڑوسیوں کو جمعہ کے لئے نکالتے اور ہر کسی سے گرمجوشی کے ساتھ ملتے اور طبیعت مزاحیہ بھی تھی ہر ایک کی دلجوئی فرماتے۔ مسعود صاحب کی آخری خواہش تھی کہ میرا بیٹا مربی بن جائے جو کہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں اس سال درجہ خامسہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ قناعت پسند تھے، چھوٹا سا گھر تھا لیکن بڑے خوش تھے۔ میرے خطبات جو ہیں بڑے غور سے سنتے تھے اور سنواتے تھے۔ اسی طرح مرکزی نمائندگان اور بزرگانِ سلسلہ کے بارے میں ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے گھر آئیں اور ان کو خدمت کا موقع ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی تمام دعائیں اور نیک خواہشات جو اپنے بچوں کے لئے اور واقفِ زندگی بچے کے لئے تھیں، ان کو بھی پورا فرمائے۔ اور اس واقفِ زندگی بچے کو وقف کا حق نبھانے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

مکرم محمدآصف فاروق صاحب

محمدآصف فاروق صاحب شہید ابن مکرم لیاقت علی صاحب۔ ان کے والد صاحب نے 1994ء میں بیعت کی تھی۔ 1994ء میں ایک آدمی ان کے والد صاحب کو مکرم مولانا مبشر کاہلوں صاحب کے پاس لے گیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سوال پوچھیں تو انہوں نے کہا میرا کوئی سوال نہیں بس بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو یہ ہے نیک فطرتوں کا ردّ عمل۔ جب بات سمجھ آ جاتی ہے تو کوئی سوال نہیں۔ جس پر اس کے بعد پھر پوری فیملی نے بیعت کر لی۔ بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 30سال تھی۔ انہوں نے بی اے ماس کمیونیکیشن (Mass Communication) میں کیا ہوا تھا۔ خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے۔ mtaلاہور کے بڑے فعال کارکن تھے۔ سمعی بصری شعبہ میں خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ موصی تھے۔ دارالذکر میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ یہ شہید بھی دہشت گردوں کے حملے کے دوران mtaکے لئے ریکارڈنگ کرنے کے لئے نکل پڑے اور اسی سلسلے میں اوپرکی منزل سے اتر رہے تھے کہ دہشت گرد کی گولی سے شہید ہو گئے۔ پچھلے تین سال مسلسل دارالذکر رہ کر کام کیا۔ شہادت سے ایک دن قبل اپنی ملازمت سے رخصت لی اور جمعہ کے لئے صبح گھر آئے اور کہا کہ میں آج سارے کام ختم کر آیا ہوں۔ اور کہاکرتے تھے کہ میرا جینا اور مرنا یہیں دارالذکر میں ہے۔ والد، والدہ اور بھائی نے کہا کہ شہادت ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ خدا کرے کہ یہ خون جماعت کی آبیاری کا باعث ہو۔ یہ ان کے جذبات ہیں۔ شہید بڑے نیک فطرت اور ہمدرد انسان تھے۔ ان کے تین ہی ٹھکانے تھے۔ یا دفتر یا دارالذکر یا گھر۔ کبھی غصہ نہیں آتا تھا۔ ایک دفعہ ان کی والدہ نے پوچھا تمہیں بیٹا غصہ نہیں آتا؟ انہوں نے کہا ہم جیسے کام کرنے والوں کو کبھی غصہ نہیں آتا۔ والد صاحب نے بتایا کہ چند سال پہلے خواب میں دیکھا کہ کسی نے میرے دل پر گولی چلائی ہے، جس کی تعبیر میں نے اپنے اوپر لاگو کی۔ لیکن جب میرا بیٹا شہید ہوا تو پتہ لگا کہ اس کی تعبیر یہ تھی۔ ان کی شہادت کے چند دن بعد 5جون کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اہلیہ کو دوسرے بیٹے سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو نیک، صالح اور خادمِ دین بنائے اور وہ لمبی عمر پانے والے ہوں۔ مکرم شیخ شمیم احمد صاحب

شیخ شمیم احمد صاحب شہید ابن مکرم شیخ نعیم احمد صاحب۔ شہید مرحوم حضرت محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوتے تھے۔ اور حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پڑپوتے تھے۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم شیخ محمد حسین صاحب حلقہ سلطان پورہ کے چالیس سال تک صدر رہے۔ ان کے دور میں ہی وہاں مسجد تعمیر ہوئی۔ شہید اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اور گھر کے واحد کفیل تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 38سال تھی۔ بینک ’’الفلاح‘‘ میں ملازمت کرتے تھے۔ خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال رکن تھے۔ آڈیٹر حلقہ الطاف پارک کے طور پر خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ مالی خدمات میں پیش پیش تھے۔ اخلاق میں بہت اعلیٰ تھے۔ ہمیشہ پیار اور محبت کا سلوک کیا کرتے تھے۔ ہر کام بڑی سمجھداری سے کرتے تھے۔ ان کے دفتر کے لوگ جو غیر از جماعت تھے، افسوس کرنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہر وقت ہنستے رہتے تھے اور ہنساتے رہتے تھے۔ والدہ بیمار تھیں تو ساری ساری رات جاگ کر خدمت کی۔ والد بیمار ہوئے تو ساری ساری رات جاگ کر انہیں سنبھالا۔ انہوں نے گھر کے باہر مین گیٹ کے اوپرکلمہ طیبہ لکھوایاہوا تھا۔ مسجد میں جب واقعہ ہوا تھا تو پونے دو بجے اپنے کزن کو فون کیا اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ لوگوں نے بعد میں بتایا کہ امیر صاحب کے آگے کھڑے رہے۔ دہشتگردنے ان سے کہا کہ تیرے پیچھے کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری بیوی، میرے بچے اور میرا خدا۔ تو دہشتگردنے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس اور گولیاں برسا دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

ان کی والدہ کہتی ہیں میرا بیٹا بہت پیارا تھا۔ میرا بڑا خیال رکھتا تھا۔ ہر خوبی کا مالک تھا، ہر کسی کے کام آتا تھا۔ اہلیہ نے بتایا کہ میرے خسر بیان کرتے ہیں کہ ان کے بچے فوت ہو جاتے تھے اور ان کو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہو گیا کہ بچے کیوں نہیں دیتا تو الفضل میں ایک خاتون کی تحریر پڑھی کہ جب اللہ مجھے بچے دے گا تو میں تحریکِ جدید کا چندہ ادا کروں گی۔ تو کہتے ہیں یہ پڑھ کر انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں آج سے ہی تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کا چندہ شروع کرتا ہوں تُو مجھے بیٹا عطا کر، جس پر میرے خاوند کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں ان کی زندگی چندوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ شہید مرحوم نے کچھ عرصہ پہلے خود اپنا ایک خواب سنایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنے بچے مجھے دے دو جس پر آپ نے تمام بچوں کو وقف کر دیا جو وقفِ نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

مکرم محمد شاہد صاحب

محمد شاہد صاحب شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم فیروز دین صاحب 1935ء میں احمدی ہوئے۔ ضلع کوٹلی آزاد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ بوقتِ شہادت موصوف کی عمر 28سال تھی۔ اور خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال ممبر تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ جمعہ کے وقت محراب کے ساتھ امیر صاحب کے قریب ان کی ڈیوٹی تھی۔ اپنی ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ والد صاحب اور دوستوں کو شہادت سے قبل فون کر کے کہا کہ میں ان دہشتگردوں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا۔ چہرے پر ناخن لگنے کے نشان تھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہو۔ شہادت سے چند دن قبل دوستوں سے کہا کہ میرے ساتھ اگر کسی کا لین دین ہو تو مکمل کر لیں۔ سگریٹ نوشی کی ان کو بری عادت تھی وہ بھی کئی مہینے پہلے چھوڑ دی تھی۔ اور آخری بات بھائی کے ساتھ ہوئی، بڑی دھیمی آواز میں کہا کہ امی کو نہ بتانا وہ پریشان ہوں گی۔ نمازوں کے پابند تھے۔ ہر جمعہ سے قبل صدقہ دینا معمول تھا اور اب بھی جب جمعہ پڑھنے ڈیوٹی پرمسجد میں آئے ہیں تو ان کی جیب میں سے اس تاریخ کی بھی 50روپے صدقہ کی رسیدنکلی۔ علاقے کے چوکیدار نے رو رو کر بتایا کہ ہمیشہ مجھے جھک کر سلام کیا کرتے تھے۔ دونوں بھائی اکٹھے ہی ایک دکان کرتے تھے۔ چھوٹے بھائی نے ان کو کہا کہ آج مجھے جمعہ پر جانے دو۔ تو انہوں نے کہا نہیں اس دفعہ مجھے جانے دو، اگلی دفعہ تم چلے جانا۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ والدین جب بھی شادی کے لئے کہتے تو کہتے پہلے چھوٹی بہن کی شادی کر لوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کی چادر میں لپیٹے۔

مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب

پروفیسر عبدالودود صاحب شہید ابن مکرم عبدالمجید صاحب۔ یہ حضرت شیخ عبد الحمید صاحب شملوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اور گورنمنٹ کالج باغبان پورہ لاہور میں انگلش کے پروفیسر تھے۔ جماعتی خدمات میں فعال تھے۔ ان کی اہلیہ بھی اپنے حلقہ کی صدر لجنہ اماء اللہ ہیں۔ خلافت جوبلی کے موقع پر ان کی کوششوں سے حلقہ میں بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا۔ بڑے حلیم طبع، ملنسار اور نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ کلمہ کیس میں اسیرِ راہِ مولیٰ بھی رہے۔ سات سال مقدمہ چلتا رہا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 55سال تھی۔ انگلش کے پروفیسر تھے۔ ایل ایل بی بھی کیا ہوا تھا۔ موصوف مجلس انصار اللہ کے انتہائی محنتی اور مخلص کارکن تھے۔ نائب زعیم انصار اللہ لاہور چھاوٴنی تھے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی کام کرتے رہے۔ کچھ عرصہ صدر حلقہ مصطفیٰ آباد بھی خدمت انجام دی۔ موصی تھے اور دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ شہید موصوف دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران مربی ہاوٴس کی طرف جا رہے تھے کہ ایک دہشتگردنے سامنے سے گولی چلائی اور موصوف مربی ہاوٴس کے دروازے پر شہید ہو گئے۔ ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ بہت محبت کرنے والے اور نرم طبیعت کے مالک تھے۔ کہتی ہیں کہ شادی کے 23سالوں میں میرے خاوندنے کبھی کوئی ترش لفظ نہیں بولا۔ بچوں سے دو معاملوں میں سختی کرتے تھے۔ نماز کے معاملے میں اور گھر میں جاری ترجمة القرآن کلاس میں شرکت کے بارے میں۔ اور ترجمہ قرآن کی کلاس جو لیتے تھے اس میں تقریباً سترہ سپارے پڑھ لئے تھے۔ کہتی ہیں حدیث کا بھی گھر میں باقاعدہ درس ہوتا تھا۔ چھوٹی عمر سے ہی بحیثیت عہدیدار کے خدمت کا موقع ملتا رہا۔ کام کرنے کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ عملی کام کے قائل تھے۔ بڑے بھائیوں نے بتایا کہ بھائیوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔ بھائیوں میں ہر کام اتفاق رائے سے ہوتا۔ کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو شہید مرحوم کے مشورے سے مستفید ہوتے۔ چھوٹے بھائی کا مکان بن رہا تھا۔ سب بھائیوں نے قرض کے طور پر اس کو رقم دینے کا فیصلہ کیا اور مرحوم نے اپنے حصہ کی رقم سب سے پہلے ادا کی۔ اور شہید مرحوم ہم بھائیوں سے کہا کرتے تھے کہ جہاں بھی کوئی ضرورت مند ہو اس کی مدد کر کے مجھ سے رقم لے لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے۔

مکرم ولید احمد صاحب

ولید احمد صاحب شہید ابن مکرم چوہدری محمدمنور صاحب۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری عبد الحمید صاحب سابق صدر جماعت محراب پور سندھ نے 1952ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ 10اپریل 1984ء کو محراب پور میں ہی ان کے دادا نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اسی طرح شہید مرحوم کے نانا مکرم چوہدری عبدالرزاق صاحب سابق امیر جماعت نوابشاہ سندھ کو 7اپریل1985ء کو معاندین احمدیت نے شہید کر دیا۔ ان کے والد صدر عمومی ربوہ کے دفتر میں اعزازی کارکن ہیں۔ شہادت کے وقت عزیز شہید کی عمر ساڑھے سترہ سال تھی اور میڈیکل کالج کے فرسٹ ائیر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وقفِ نو سکیم میں شامل تھا۔ موصی بھی تھا۔ اس کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے۔ اور لاہور کا جو سانحہ ہوا ہے اس میں سب سے کم عمر یہ عزیز بچہ ہے۔ شہادت والے دن موصوف جمعہ کی ادائیگی کے لئے کالج سے سیدھے اپنے دوسرے احمدی ساتھی طالبعلموں سے پہلے دارالذکر پہنچ گئے۔ سانحہ کے دوران موبائل پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ میری ٹانگ میں گولی لگی ہے اور متعدد شہیدوں کی لاشیں میرے سامنے پڑی نظر آ رہی ہیں۔ دعا کریں خدا تعالیٰ فضل فرمائے۔ انہوں نے ایف ایس سی ربوہ سے کی تھی۔ لاہور میں داخلہ ہوا۔ جب آخری بار ربوہ سے لاہور گئے تو اپنے ساتھی خدام دوستوں سے باری باری گھر جا کر ملے اور سب سے کہا مجھے مل لیں میرا کیا پتہ کہ میں شہید ہو جاوٴں۔ شہید مرحوم پنج وقتہ نمازی تھے۔ فرمانبردار تھے، سلجھے ہوئے تھے۔ راستے میں آتے جاتے آنے والے ساتھیوں کو اپنے دوستوں کو مسجد میں لے کر جایا کرتے تھے۔ کم گو اور ذہین نوجوان تھے۔ اپنی تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ شہادت کے ضمن میں شہید مرحوم کے بچپن کی سیکرٹری وقفِ نو نے بتایا کہ عزیزم ولید احمد کے بچپن کا ایک واقعہ ہے جب اس کی عمرگیارہ سال کی تھی تو ایک دن میں نے دورانِ کلاس سب وقفِ نوبچوں سے فرداً فرداً پوچھا کہ تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ جب عزیزم ولید کی باری آئی تو کہنے لگا کہ میں بڑا ہو کر اپنے دادا جان کی طرح شہید بنوں گا۔

شہید مرحوم کی اپنی تعلیمی ادارے میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت کے بعد تدفین والے دن اس کے اساتذہ اور طلباء نے ایک ہی دن میں تین دفعہ تعزیتی تقریب منعقد کی جس میں شامل ہونے والے اکثر غیر از جماعت طالب علم تھے۔ شہید مرحوم کے استادنے بذریعہ فون اطلاع دی کہ ہم ٹیچر اور ہمارے طالب علم تدفین میں شامل ہونے کے لئے ربوہ آنے کا پروگرام بنا چکے تھے کہ تمام طالب علم بلک بلک کر زارو قطار رونے لگے اور خدشہ پیدا ہوا کہ یہی حال رہا تو ربوہ جا کر ولید کا چہرہ دیکھ کر غم کی شدت سے بالکل بے حال نہ ہو جائیں اس لئے ہم نے مجبوراً یہ پروگرام ملتوی کر دیا اور کسی اور وقت آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے ہزاروں لاکھوں ولید جماعت کو عطا فرمائے۔

مکرم محمد انور صاحب

محمد انور صاحب شہید ابن مکرم محمد خان صاحب۔ ان کا تعلق شیخو پورہ سے تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورِ خلافت میں انہوں نے بیعت کی۔ ابتدائی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ دس سال قبل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور ساتھ ہی بیتِ نور ماڈل ٹاوٴن میں بطور سکیورٹی گارڈ خدمت کا آغاز کیا اور تاوقتِ شہادت اس فریضے کو احسن رنگ میں انجام دیا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 45سال تھی۔ مجلس ماڈل ٹاوٴن میں ہی انہوں نے (جیسا کہ وہاں سکیورٹی گارڈ تھے) شہادت پائی۔ موصی تھے۔ اس واقعہ میں ان کا بیٹا عطاء الحئی بھی شدید زخمی ہوا جو ہسپتال میں ہے۔ شہید مرحوم بحیثیت سکیورٹی گارڈ بیتِ نور کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کر رہے تھے کہ دہشتگرد کو دور سے آتے دیکھا تو اپنے ساتھ کھڑے ایک خادم کو کہا کہ یہ آدمی مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔ تو خادم نے کہا کہ آپ کو تو یوں ہی ہر ایک پر شک ہو رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں، میں فوجی ہوں میں اس کی چال ڈھال سے پہچانتا ہوں۔ بہرحال اسی وقت دہشتگرد قریب آیا اور اس نے فائرنگ شروع کر دی۔ انہوں نے بھی مقابلہ کیا۔ ایک خادم نے ان کوکہا کہ گیٹ کے اندر آ جائیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں، شیروں کا کام پیچھے ہٹنا نہیں۔ اور ساتھ ہی جو ان کے پاس ہتھیار تھا اس سے فائرنگ کی۔ دہشتگرد زخمی ہو گیا۔ لیکن پھر دوسرے دہشتگردنے گولیوں کی ایک بوچھاڑ ماری جس سے وہیں موقع پر شہید ہو گئے۔ بڑے خدمتِ دین کرنے والے تھے۔ کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ مسجد کے غسل خانے خود صاف کرتے، جھاڑو دیتے۔ اور جب مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی تو چوبیس چوبیس گھنٹے مسلسل وہیں رہے ہیں۔ والدین کی بھی ہر ممکن خدمت کرتے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں تہجد میں پہلے باقاعدگی نہیں تھی۔ ایک ماہ سے مسلسل تہجد پڑھ رہے تھے۔ اور بچوں سے پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ نماز کی ادائیگی کی ہے یا نہیں اور قرآنِ کریم پڑھا ہے کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم ملک انصار الحق صاحب

ملک انصار الحق صاحب شہید ابن مکرم ملک انوار الحق صاحب۔ یہ بھی قادیان کے ساتھ فیض اللہ گاوٴں ہے وہاں کے رہنے والے ہیں۔ اور پاکستانی آرمی کے ایک ڈپومیں سٹور کیپر تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 63برس تھی۔ مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ ساڑھے آٹھ بجے یہ نیا سوٹ پہن کر کسی کام سے نکلے اور وہیں سے نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لئے دارالذکر میں چلے گئے۔ انہوں نے کبھی بھی نمازِ جمعہ نہیں چھوڑی تھی۔ سامنے ہی کرسی پر بیٹھے تھے۔ گرینیڈ پھٹنے سے زخمی ہو گئے اور اس طرح جسم میں مختلف جگہوں پر پانچ گولیاں لگیں۔ زخمی حالت میں میو ہسپتال لے گئے جہاں پہنچ کر شہید ہو گئے۔ ان کی بہو بتاتی ہیں کہ میرے ماموں بھی تھے اور خسر بھی۔ وہ شہادت کے قابل تھے۔ دل کے صاف تھے، عاجزی بہت زیادہ تھی۔ کبھی کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تھے، ہمیشہ صلح میں پہل کرنے والے تھے۔ ان کی صرف معمولی تنخواہ تھی۔ جو پنشن ملتی تھی اس سے لوگوں کا راشن وغیرہ لگایا ہوا تھا۔ جماعت سے انتہائی طور پر وابستہ تھے اور خلافت سے بہت محبت کرتے تھے۔ ماں باپ کی خدمت کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ملازمت کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی اور خدمت کے لئے آ گئے۔ ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ عادت کے اتنے اچھے تھے کہ اگر اپنا اور اپنے بچوں کا قصور نہ بھی ہوتا تو رشتے داروں کے ساتھ صلح کے لئے بچوں سے بھی معافی منگواتے تھے۔ خود بھی معافی مانگ لیتے تھے۔ شہادت سے دو مہینے قبل اپنے خاندان کو بعض مسائل کے حوالے سے پانچ صفحات کا نصیحت آمیز خط لکھا اور اس میں اپنے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ میں اپنے بچوں سے بھی معافی مانگتا ہوں کہ اس وجہ سے میں تم سے معافی منگواتا تھا اگرچہ مجھے پتہ بھی ہوتا تھا کہ تمہاری غلطی نہیں ہے۔ شہادت کے بعد کچھ لوگ ملنے آئے تو کہتے ہیں کہ انہوں نے تو ہمارا راشن لگایا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مکرم ناصر محمود خان

ناصر محمود خان صاحب شہید ابن مکرم محمد عارف نسیم صاحب۔ شہید مرحوم کے والد محمد عارف نسیم صاحب نے 1968ء میں بیعت کی تھی۔ ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے۔ پارٹیشن کے بعد یہ رائے ونڈ آ گئے۔ پھر لاہور میں سیٹ ہو گئے۔ شہیدمرحوم خدام الاحمدیہ کے بڑے فعال کارکن تھے۔ پرنٹنگ پریس ایجنسی کا کام کرتے تھے۔ ان کے والد بھی بطور سیکرٹری زراعت اور والدہ بطور جنرل سیکرٹری ضلع لاہور خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ خود یہ بطور ناظم عمومی اور نائب قائد اول حلقہ فیصل ٹاوٴن خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ناظم عمومی بھی تھے اور نائب قائد اول بھی تھے۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 39سال تھی۔ شہید مرحوم کے بھائی مکرم عامر مشہود صاحب بتاتے ہیں کہ دارالذکر میں جب دہشتگردوں نے حملہ کیا تو میں ہال کے اندر تھا اور بھائی باہر سیڑھیوں کے پاس تھے۔ دورانِ حملہ میری ان سے فون پہ بات ہوئی اور بھائی نے بتایا کہ میں محفوظ ہوں سیڑھیوں کے نیچے کافی لوگ موجود تھے۔ دہشت گردنے ان کی طرف گرینیڈ پھینکا تو بھائی نے گرینیڈ اٹھا کر واپس پھینکنا چاہا۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ پر گرینیڈ لے لیا تا کہ دوسرے زخمی نہ ہوں یا ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن اسی دوران گرینیڈ ان کے ہاتھ میں پھٹ گیا اور وہیں ان کی شہادت ہو گئی۔ دوسروں کو بچاتے ہوئے شہید ہوئے۔ شہید مرحوم نے گھر میں سب سے پہلے وصیت کی تھی اور گھر کے سارے کام خود سنبھالتے تھے۔ رابطہ اور تعلق بنانے میں بڑے ماہر تھے۔ کہتے ہیں ان کی شہادت پر غیر از جماعت دوست بھی بہت زیادہ ملنے آئے۔ بھائی نے بتایا کہ جب ہم نے کار خریدی تو عید وغیرہ پر جاتے ہوئے پہلے ان لوگوں کو مسجد پہنچاتے تھے جن کے پاس کوئی سواری نہ ہوتی تھی اور دوسرے چکر میں ہم سب گھر والوں کو مسجد لے کر جاتے تھے۔ شہادت سے ایک ہفتہ قبل خود خواب دیکھا۔ خواب میں مجھے دیکھا کہ مَیں نے ان کی کمر پر تھپکی دی اور کہا کہ فکر نہ کرو سب اچھا ہو جائے گا۔ اللہ کرے کہ یہ قربانیاں جماعت کے لئے مزید فتوحات کا پیش خیمہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو خوشیاں دکھائے۔

مکرم عمیر احمد ملک صاحب

عمیر احمد ملک صاحب شہید ابن ملک عبدالرحیم صاحب۔ حضرت حافظ نبی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید مرحوم کے پردادا تھے۔ یہ لوگ قادیان کے قریب فیض اللہ چک کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا ملک حبیب الرحمن صاحب جامعہ احمدیہ میں انگلش پڑھانے کے علاوہ سکول اور کالج وغیرہ میں بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ٹی آئی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ گولڈکوسٹ، شہید مرحوم کے والد مکرم عبد الرحیم صاحب کے تایا تھے۔ شہید مرحوم خدام الاحمدیہ کے بہت ہی فعال رکن تھے۔ سات سال سے ناظم اشاعت ضلع لاہور کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اور AACP جو جماعت کی کمپیوٹر پروفیشنلز کی ایسوسی ایشن ہے، اس کے آڈیٹر رہے۔ تین سال سے یہ لاہور چیپٹر کے صدر بھی تھے۔ نیز ان کی والدہ بھی بطور صدر لجنہ اماء اللہ حلقہ فیصل ٹاوٴن خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 36سال تھی۔ مسجد ماڈل ٹاوٴن میں گولیاں لگیں، زخمی حالت میں جناح ہسپتال پہنچ کر جامِ شہادت نوش فرمایا۔ جمعہ کے روز خلافِ معمول نیا سفید جوڑا پہن کر گھر سے نکلے اور والد صاحب نے کہا کہ آج بڑے خوبصورت لگ رہے ہو۔ دفتر کے ملازم نے بھی یہی کہا۔ مسجد بیت نور میں خلافِ معمول پہلی صف میں بیٹھے۔ دہشت گرد کی گولی لگنے سے ہال کے اندر دوسری صف میں الٹے لیٹے رہے۔ فون پر اپنے والد سے باتیں کرتے رہے۔ وہ بھی وہیں تھے اور کہا کہ اللہ حافظ، مَیں جا رہا ہوں اور مجھے معاف کر دیں۔ اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا اور پانی مانگا۔ ڈائس سے اٹھا کر ایک کارکن نے ان کو پانی دیا۔ آواز بہت ضعیف اور کمزور ہو گئی تھی۔ بہر حال ایمبولینس کے ذریعے ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔ بلڈ پریشر بھی نیچے گرتا چلا جا رہا تھا۔ جب ہسپتال پہنچے ہیں تو وہاں والدہ کو آنکھیں کھول کر دیکھا اور والدہ سے پانی مانگا۔ والدہ جب چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھیں تو ان کی انگلی پر کاٹا صرف یہ بتانے کے لئے کہ میں زندہ ہوں اور پریشان نہ ہوں۔ اندرونی کوئی انجری (Injury) تھی جس کی وجہ سے بلیڈنگ ہو رہی تھی۔ اور آپریشن کے دوران ہی ان کو شہادت کا رتبہ ملا۔ ان کے اچھے تعلقات تھے۔ واپڈا کے کنٹریکٹر تھے، کنسٹرکشن کے ٹھیکے لیتے تھے۔ خدمتِ خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا شہادت پر آنے والے لوگوں نے بتایا کہ عمیر کا معیار بہت اچھا تھا اور ان کے سامنے کوئی بھی چیز مسئلہ نہیں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اقبال عابد صاحب مربی سلسلہ عمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمیر احمد ابن ملک عبدالرحیم صاحب دہشتگردانہ حملہ میں اللہ کے پاس چلا گیا۔ جب اس کو گولیاں لگی ہوئی تھیں تو اس عاجز کو فون کیا اور کہا مربی صاحب! خدا حافظ، خدا حافظ، خدا حافظ اور آواز بہت کمزور تھی۔ پوچھنے پر صرف اتنا بتایا کہ مسجدنور میں حملہ ہوا ہے اور مجھے گولیاں لگی ہوئی ہیں۔ گویا وہ خدا حافظ کہنے کے بعد، کہنا چاہتا تھا کہ ہم تو جا رہے ہیں لیکن احمدیت کی حفاظت کا بیڑا اب آپ کے سپرد ہے۔ ہمارے خون کی لاج رکھ لینا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی لاج پیچھے رہنے والا ہر احمدی رکھے گا اور آنحضرتﷺ کے نام کی عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔

مکرم سردار افتخار الغنی صاحب

سردار افتخار الغنی صاحب شہید ابن مکرم سردار عبدالشکور صاحب۔ یہ حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پڑپوتے تھے۔ حضرت فیض علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ افریقہ میں حضرت رحمت علی صاحب کے ہاتھ پر احمدی ہوئے۔ افریقہ سے واپسی پر امرتسر کی بجائے قادیان میں ہی سیٹ ہو گئے۔ شہیدنظامِ وصیت میں شامل تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 43سال تھی۔ مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں شہادت پائی۔ عموماً مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ لیکن وقوعہ کے روز نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے اپنے دفتر سے (اپنے کام سے) مسجد دارالذکر چلے گئے۔ شہادت سے قبل سردار عبدالباسط صاحب (جوان کے ماموں ہیں ) سے بھی فون پر بات ہوئی۔ گھر میں بھی فون کرتے رہے اور یَاحَفِیْظُ یَا حَفِیْظُ کا ورد کرتے رہے۔ ماموں کو بھی دعا کے لئے کہتے رہے کہ دعا کریں دہشتگردوں نے ہمیں گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ اہلیہ محترمہ کو پتہ چلا کہ مسجد پر حملہ ہوا ہے تو آپ کو فون کیا اور کہا کہ آپ جمعہ کے لئے نہ جائیں۔ لیکن پتہ لگا کہ آپ تو دار الذکر میں موجود ہیں۔ گھر میں بھی دعا کے لئے کہتے رہے اور ساڑھے تین بجے ایک دوست جو ملٹری میں ہے ان کو فون کر کے کہا کہ اس طرح کے حالات ہیں، پولیس تو کچھ نہیں کر رہی، تم لوگ مسجد میں لوگوں کی مدد کے لئے آوٴ۔ شہید ہونے تک دوسروں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ اور انہوں نے موقع پاتے ہی بھاگ کر ایک دہشتگرد کو پکڑا تو دوسرے دہشتگردنے فائرنگ کر دی۔ جس دہشتگرد کو پکڑا تھا اس نے اپنی خود کش جیکٹ بلاسٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پوری طرح نہیں بلاسٹ ہو سکی، دھماکا تھوڑا ہوا لیکن اس دھماکے سے شہید ہو گئے اور دہشتگرد شدید زخمی ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آسانی سے بچ سکتے تھے اگر یہ اس وقت ایک طرف ہو جاتے اور دہشتگرد پر نہ جھپٹتے۔ شہید مرحوم کو خدمتِ خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا۔ جب بھی کسی کو ضرورت پڑتی، خون کا عطیہ دے دیا کرتے۔ ہمیشہ اپنی تکلیف کے باوجود دوسروں کی مدد کرتے۔ رویہّ کے بہت اچھے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کسی دوست کی ضرورت نہیں پڑی۔ اہلیہ کہتی ہیں مجھے کبھی کوئی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے کوئی دوست یا سہیلی بنانی چاہئے۔ گھر کے سارے کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے۔ یہاں تک کہ برتن بھی دھلوا دیتے تھے۔ بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نیکی کو ہمیشہ چھپا کر رکھتے تھے۔ استغفار اور درود شریف بہت پڑھتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ انگلیوں میں تسبیح کر رہے ہیں۔ بے لوث خدمت کرنے والے تھے، رحم دل تھے۔ ہر رشتے کے لحاظ سے وہ بہترین تھے اور بطور انسان بھی۔ بچوں سے بھی دوستانہ تھے۔ والدہ کے بہت خدمت گذار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے جو پیچھے رہنے والے لواحقین ہیں ان کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلے سے اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔ نیکیوں پر قائم رکھے۔

آئندہ انشاء اللہ باقی شہداء کا ذکر کروں گا۔ کیونکہ یہ بڑا لمبا ذکر چلے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 27مورخہ 2 جولائی تا 8 جولائی 2010 صفحہ 5 تا 11)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ جون 2010ء شہ سرخیاں

    سیدنا بلال فنڈ کے بارے جماعت کو یادہانی

    خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍ جون 2010ء بمطابق11؍ احسان 1389 ہجری شمسی  بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور