صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 16؍ جولائی 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنحضرتﷺ کی بعثتِ ثانیہ جو آپﷺ کے عاشقِ صادق کی صورت میں ہوئی، جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود اور اُمّتی نبی بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے اپنے ساتھ پاک دل اور سعید فطرتوں کو جوڑ کر وہ جماعت قائم فرمائی جو نیکیوں میں بڑھتے چلے گئے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے گئے اور اوّلین کے ساتھ مل گئے۔ آج مَیں اس دَورِ آخرین کے ان چند اولین کی روایات پیش کروں گا جو براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت سے فیض یاب ہوئے، آپ کی صحبت میں رہے، آپ کو دیکھااور آپ کے حسن و احسان سے فیض پایا۔ ان روایات میں جہاں ان حق کے متلاشیوں کی اپنی سعید فطرت کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفقتوں، محبتوں، قوتِ قدسی اور مقام کا بھی پتہ چلتا ہے جس سے انسان ایک منفرد قسم کا روحانی حظ اٹھاتا ہے۔ ان بزرگوں کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں جنہوں نے اپنی روایات ہم تک پہنچا کر جہاں ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلائی، وہاں اس عاشقِ صادق کے حسن اور اپنی جماعت کے بارہ میں جو دلی تمنا تھی اس کی تصویر کشی کی ہوتی ہے۔

ان روایات میں سے پہلی روایت ہے حضرت میاں فیروز الدین صاحبؓ سیالکوٹ کی، جنہوں نے 1892ء میں بیعت کی تھی۔ یہ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس نے لیکچر سیالکوٹ میر حسام الدین صاحب کے مکان کی چھت پر لکھا تھا۔ باہر دواتیں چاروں دیواروں پررکھی ہوئی تھیں۔ اس میں سیاہی تھی۔ تقریبا ًعصر کا وقت تھا۔ حضور ٹہلتے ٹہلتے لکھتے تھے اور کبھی کبھی سجدے میں بھی گر جاتے تھے۔ یہ تمام نظارہ ہم نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھا تھا۔ اور بھی بہت سے لوگ ہمارے مکان پر سے نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ ہمارا مکان اس مکان سے نزدیک تھا اور اونچا بھی تھا۔ اس سے تمام نظارہ دکھائی دیتا تھا۔ جس قدر ورق حضور لکھ لیتے تھے، نیچے کاتب کے پاس بھیجتے جاتے تھے۔ کاتب سراج دین ساہو والے کا رہنے والا تھا، جب حضور مہمانوں کی سرائے میں لیکچر دینے کے لئے تشریف لے جانے لگے تو راستے میں دو دروازہ محلہ جنڈا والا کی مسجد میں ایک شخص حافظ سلطان محمد لڑکے پڑھایا کرتا تھا۔ یہ حافظ صاحب جو لڑکوں کو پڑھاتے تھے، حافظ تھے قرآن کے، اور ان کے عمل دیکھیں ذرا۔ کہتے ہیں کہ اس نے لڑکوں کو چھٹی دے دی اور ان کی جھولیوں میں راکھ بھر دی اور کہا کہ جس وقت مرزا صاحب یہاں سے گزریں تم تمام کے تمام راکھ ان کے اوپر پھینک دینا۔ مگر حضرت صاحب چونکہ بند گاڑی میں تھے اس لئے صحیح سلامت وہاں سے گزر گئے۔ کہتے ہیں کہ سرائے کے ارد گرد پیر جماعت علی شاہ کے مریدوں نے چار اکھاڑے لگائے ہوئے تھے اور لوگوں کو اندر جانے سے روکتے تھے۔ مولوی ابراہیم بھی ان میں شامل تھے۔ پیر جماعت علی شاہ پرانے ذبح خانے کے پاس کھڑا تھا۔ اب اس جگہ مستری فتح محمد کا مکان بنا ہوا ہے۔ حافظ ظفر، شہباز خان کے اڈے میں کھڑا تھا۔ یہ شخص پیر جماعت علی شاہ کا دایاں بازو تھا۔ یہ تمام مُلّاں بڑے زور شور سے لوگوں کو اشتعال دلا رہے تھے اور اندر جانے سے روکتے تھے۔ جب لیکچر شروع ہوا، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ دیا۔ ایک شخص مسمیٰ احمد دین سلہریا تھا وہ جب سرائے میں گیا تو کچھ آدمی دوڑ کر اس کے پیچھے گئے اور اسے اٹھا کر لے آئے کہ وہ لیکچر سننے نہ جائے۔ چنانچہ جس مقام پر پیر جماعت علی شاہ کھڑا تھا وہاں اسے چھوڑا مگر وہ پھر دوڑ کر چلا گیا۔ جب حضور واپس تشریف لے گئے تو مَیں، میرے چچا میراں بخش صاحب، شیخ مولا بخش صاحب بوٹ فروش، ملک حیات محمد صاحب سب انسپکٹر پولیس سکنہ گڑھی اعوان حافظ آباد سید امیر علی صاحب سب انسپکٹر، میراں بخش صاحب عطاروغیرہ وغیرہ وزیر آباد تک گئے تھے۔ جس وقت حضور کی گاڑی کچہری والے پھاٹک سے گزری تو آگے مخالف لوگ بالکل برہنہ کھڑے تھے اور آوازیں کَس رہے تھے اور گاڑی پر پتھر برسا رہے تھے۔ (یہ شرافت کا حال تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جا رہی تھیں اور اپنا یہ حال تھا کہ ننگے ہو کر کھڑے تھے۔) کہتے ہیں کہ ہم نے واپس آ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اشرار پارٹی نے مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کو زخمی کر دیا ہے۔ میرے بھائی بابو عزیز دین صاحب کا ہونٹ پتھر لگنے سے پھٹ گیا تھا۔ شیخ مولا بخش صاحب بوٹ فروش کے مکان کے شیشے توڑ دئیے گئے۔ ان کے گملے پھول دار پودے برباد کر دئیے گئے۔ مَیں جہلم بھی حضور کے ساتھ گیا تھا۔ اس سفر میں بھی رستے میں بے شمار مخلوق تھی۔ جب جہلم پہنچے تو دو یورپین لیڈیوں نے (عورتوں نے) پوچھا کہ یہ ہجوم کیوں ہے؟ کسی دوست نے کہا کہ مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے کہا ذرا ہٹ جاوٴ ہم نے تصویریں لینی ہیں۔ چنانچہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے فوٹو لے لیا۔ صبح تاریخ تھی، تمام کچہری میں چھٹی ہو گئی، صرف اسی مجسٹریٹ کی عدالت کھلی رہی جس میں حضور علیہ السلام نے جانا تھا۔ کچہری کے صحن میں ایک دری بچھی ہوئی تھی، اس پر ایک کرسی بچھی تھی۔ حضور اس کرسی پر تشریف فرما تھے۔ مخلوق بیٹھی تھی۔ میرے بیس گز کے فاصلے پر مولوی ابراہیم سیالکوٹی نے بھی اڈہ جمایا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ میرے کہنے پر لوگوں نے مجھے مانا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ اگر مَیں نے اپنے پاس سے افتراء کیا ہے، تو اس کی سزا مجھے ملے گی۔ جن لوگوں نے مانا ہے، ان کو سزا نہیں ملے گی۔ چونکہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں، جو مانیں گے انہیں ثواب ملے گا۔

یہ عین قرآنِ کریم کے اسلوب اور حکم کے مطابق ہے کہ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ  (المومن: 29) کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ لیکن وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ  (المومن: 29)۔ اگر یہ سچا ہے تو جو انذاری پیشگوئیاں یہ کر رہا ہے، وہ بلائیں یقیناً تم پر پڑنے والی ہیں۔ آج ان مسلمانوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہئے۔ پھر کہتے ہیں کہ مولوی ابراہیم کے آگے منبر پر ایک کتاب پڑی تھی۔ اس نے شرارت سے اٹھا کر اوپر کی اور کہا کہ اس طرح مسیح آسمانوں پر چلا گیا ہے۔ اس مجمع میں ایک فقیر بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اب فقیر کی داستان بھی سنیں۔ کہتے ہیں وہ فقیر بیٹھا تھا جس کا نام سائیں آزاد تھا۔ بھورے کا کرتہ اس نے پہنا ہوا تھا۔ اس نے بڑے زور سے کہا کہ او بابا! کیوں جھوٹ بولتے ہو اور لوگوں کو بہکاتے ہو۔ قرآنِ مجید میں سے کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ (آل عمران: 186)  کاٹ دو۔ تین بار اس نے بڑے زور سے یہ کہا جس سے وہ فقیر پسینہ پسینہ ہو گیا۔ پھر کہا مَیں مرزا صاحب کا مریدنہیں ہوں مگر مَیں حق کو نہیں چھپاناچاہتا۔ یہ اس فقیر کو تو سمجھ آ گئی تھی، لیکن علماء کو سمجھ نہیں آتی۔

کہتے ہیں کہ جس کمرے میں حضور سوئے ہوئے تھے اس کے ساتھ کے کمرے میں مَیں اور میرا بھائی تاج الدین سوئے ہوئے تھے۔ چونکہ وہ بیمار تھے اور ساری رات کھانستے رہے اس لئے صبح حضور نے ان سے پوچھا کہ کون بیمار تھا، کھانس رہا تھا؟ کہتے ہیں وہیں ہم حضور کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا خون بدن میں سے ٹپک رہا ہے اور مَیں دیکھتا ہوں کہ یہ کابل میں آبپاشی کا کام کرے گا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہ نمبر 10(غیر مطبوعہ) روایت میاں فیروز الدین صاحب صفحہ 129تا 132)

یہ رجسٹر روایات میں سے ایک روایت ہے۔

پھر ایک روایت ہے حضرت عمر دین حجام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی۔ یہ گجرات کے رہنے والے تھے اور انہوں نے تحریری بیعت 1899ء میں کی اور دستی بیعت 1900ء میں۔ کہتے ہیں کہ ’’غیر احمدی کہتے تھے کہ تم مرزائی ہو جاوٴ گے۔ لیکن جب مَیں اس جماعت کی طرف آتا تھا تو یہ لوگ قرآنِ شریف اور نماز وغیر ہ پڑھتے تھے۔ مجھے اس کی سمجھ نہ آتی تھی۔ مگر مَیں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا مانگی کہ اے میرے مولا کریم! اگر یہ تیری طرف سے ہے تو مجھے اس کا دیدار نصیب ہو تا کہ مَیں اس کو مان لوں اور پیچھے نہ رہ جاوٴں۔ اور اگر یہ نعوذ باللہ سچا نہیں ہے تو تیری اور تیرے رسول کی اور تمام دنیا کی اس پر لعنت ہوکہ کیوں اس نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اسی رات صبح کاذب کے وقت حضرت مسیح موعودؑ ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے کھڑے دیکھ رہے تھے اور مَیں نے ان کا اچھی طرح دیدار کر لیا اور انہوں نے نیچی نظر کر لی۔ حضور کی ریشِ مبارک کو مہندی لگی ہوئی ہے دل بہت خوش ہوا۔ (یہ خواب دیکھا تھا، خواب کا قصہ سنا رہے ہیں )۔ دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو نبی کریمﷺ ہیں کہ آج تک مَیں نے ایسا انسان نہیں دیکھا۔ آخر معلوم ہوا کہ مَیں جو رات کو دعا مانگ کر سویا تھا یہ اس کا نتیجہ ہے اور میری دعا قبول فرمائی گئی ہے۔

اس جگہ (یعنی قادیان) میں 1900ء میں آیا تھا اور آکر مسجد اقصیٰ میں بیٹھ کر میں نے دعا کی کہ یا اللہ! اگر یہ شخص وہی ہے جو میری خواب والا ہوا، کہ جو کہ تُو نے مجھ کو خواب میں افریقہ میں دکھایا تھا تو پھرمَیں اس کی بیعت کر لوں گا۔ اگر وہ نہ نکلا تو مَیں اس کی بیعت بھی نہیں کروں گا اور نہ نماز اس کے ساتھ پڑھوں گا، اور نہ ہی کھانا کھاوٴں گا اور فوراً واپس چلا جاوٴں گا۔ یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ اس مسجد میں تشریف لے آئے۔ اور مَیں نے دیکھ کر کہا کہ یہ تو بالکل وہی شخص ہے جس کومَیں نے افریقہ کے ملک میں خواب میں دیکھا تھا۔ حضور کو شناخت کرنے کے بعد ہفتہ کو بیعت کی اور اجازت لے کر تیار ہو گیا۔ تو حضور نے فرمایا کہ کم از کم حق کو شناخت کرنے کے لئے پندرہ دن یہاں اور ٹھہرو۔ مَیں نے عرض کی کہ حضور میرے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھ کو توفیق بخشے کہ مَیں ہمیشہ آپ کی زیارت کرنے کے لئے حاضر ہوتا رہوں۔ پھر حضور نے فرمایا کہ اگر بندے پر کوئی ایسا وقت آ جاوے کہ یہاں پہنچنے کی طاقت نہ ہو تو پھر خط ضرور لکھتے رہا کریں۔ میرے خطوط کا حضور نے جو جواب دیاوہ میرے پاس خط موجود ہے۔‘‘  (رجسٹر روایات صحابہ نمبر 5 (غیر مطبوعہ) صفحہ33-32)

حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ ولد میاں عبدالصمد صاحب سکنہ شہر راولپنڈی محلہ میاں قطب الدین حال دارالبرکات قادیان۔ (جن سے روایت نوٹ کی ہے انہوں نے بتایا تھا)۔ ان کی بیعت 27دسمبر 1891ء کی ہے۔ اور انہوں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شاید 1886ء میں دیکھا تھا۔

اب یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’خاکسار کو اکتوبر 1886ء میں پہلے پہل قادیان میں آنے کا اتفاق ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار بدیں مضمون شائع کیا کہ ایک لڑکا انہیں عطا کیا جاوے گا جو بہت سے قوموں کی برکت کا باعث ہو گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف لیکھرام پشاوری نے بھی ایک اشتہار شائع کیا۔ اس امر کی تحقیقات کے ضمن میں مجھے بھی قادیان آنا نصیب ہوا۔ اس کے بعد ایک عرصہ گزرنے پر آپ نے فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام تین رسالے یکے بعد دیگرے شائع کئے جن میں یہ ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰةو السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بذاتِ خود پھر دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔ اور حدیث نزول ابنِ مریم اصلی معنوں میں مجھ پر چسپاں ہوتی ہے اور مَیں ہی اس کا مصداق ہوں۔ اس مسئلے نے دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کیا۔ اور ہر طرف سے مولویوں نے کفر کے فتوے شائع کئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور رسالہ موسوم بہ آسمانی فیصلہ شائع کیا جس میں قریباً 80یا کچھ کم احباب شامل ہوئے۔ یہ پہلا جلسہ ہے جو قادیان میں ہوا۔ حضور کا منشاء یہ تھا کہ آپ کو منہاجِ نبوة پر آزمایا جاوے کہ ازروئے قرآن مومن کون ہے اور کافر کون؟ پھر لکھتے ہیں کہ خاکسار کو بھی اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا گیا۔ مَیں اس زمانے میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا مہتمم کتب خانہ تھا اور آنریری طور پر اپنی ملازمت کے اوقات کے علاوہ وہ خدمت جو حمایتِ اسلام کی تھی دینی خدمت سمجھ کر سرانجام دیتا تھا۔ کہتے ہیں جب مَیں قادیان پہنچا تو میرے ساتھ انجمن حمایت کے بہت سے کارکن جن میں سے حاجی شمس الدین سیکرٹری اور معزز احباب بھی شامل تھے۔ اس جلسے میں آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ رسالہ آسمانی فیصلہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پڑھ کر سنایا۔ لکھتے ہیں کہ جلسہ بڑی مسجد میں جو آج کل مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہے منعقد ہوا۔ سب سے اخیر حضرت مسیح موعود تشریف لائے۔ کہتے ہیں جس وقت حضور مسجد میں تشریف لائے اور میری نظر حضور کے چہرہ مبارک پر پڑی تو مَیں نے حضور کو پہچان لیا اور فوراً بجلی کی طرح میرے دل میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ وہ مبارک وجود ہے جس کو مَیں نے ایام طالبعلمی یعنی ستمبر 1882ء کو خواب میں دیکھا تھا۔ حضرت صاحب نے اس دن وہ لباس پہنا ہوا تھا جس لباس میں وہ مجھے خواب میں ملے تھے۔ کہتے ہیں جب جلسہ ختم ہوا تو حضور مسجد اقصیٰ کے دروازے کے قریب کھڑے ہوگئے اور ہر ایک ان سے مصافحہ کرتا اور رخصت ہوتا۔ سب سے اخیر میں، آخرمَیں نے مصافحہ کیا کیونکہ میرے دل میں کچھ خاص بات عرض کرنی مقصود تھی۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں نے پہلے ایک کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا کہ اگر وہ شخص نیک ہے تو آپ کی بیعت نُوْرٌ علٰی نُور ہو گی۔ اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو اس کی بیعت فسخ ہو جائے گی اور ہماری بیعت رہ جائے گی۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ ہم خود تمہیں بلا لیں گے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد حضور کا خادم حامد علی صاحب مرحوم مجھے بلا کر لے گئے اور مَیں نے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی۔ فالحمد للہ علی ذالک۔ (ماخوذ رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ) صحابہ نمبر 5صفحہ 41تا 43)

ایک روایت ہے حضرت نظام دین ٹیلر ماسٹر صاحبؓ کی، جو جہلم محلہ ملاحاں کے رہنے والے تھے۔ ان کی بیعت 1902ء کی ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں حیران ہوں کہ یہ نعمتِ عظمیٰ یعنی احمدیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے نصیب ہوئی۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ جس حالت میں مَیں تھا، اگر کئی برس بھی اسی حالت میں رہتا تو شاید احمدیت کے نزدیک بھی نہ آتا۔ مگر میرے پیدا کرنے والے نے مجھ پر اتنا احسان کیا کہ وہ راستہ جو برسوں میں مجھ سے طے نہ ہوتا اس نے اپنے فضل سے ایک رات میں احسان کر کے مجھ کو طے کرا دیا۔ اور وہ اس طرح کہ اپنے مولویوں کے مطابق مَیں ہمیشہ احمدیوں سے جب گفتگو کرتا تو مجھے ہمیشہ یقین ہوتا کہ ہمارے مولوی دین کے ستون ہیں اور ہمیں شرک، بدعت سے بچانے کے لئے محض للہ پوری کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم اہلحدیث اپنے آپ کو متقی اور ہر ایک حرام اور جھوٹ سے پرہیز کرنے والا خیال کرتے تھے۔ ایک دفعہ مارچ کا مہینہ تھا، غالب 1902ء کا ذکر ہے، ہم چند اہلحدیث جہلم سے لاہور بدیں غرض روانہ ہوئے کہ چل کر انجمن حمایتِ اسلام لاہور کا جلسہ دیکھیں جو سال کے سال ہوا کرتا تھا۔ ہم لاہور پہنچ کر جلسہ گاہ جا رہے تھے کہ پنڈال کے باہر دیوار کے ساتھ ایک مولوی صاحب کھڑے ہوئے وعظ فرما رہے تھے۔ ایک ہاتھ میں قرآنِ مجید تھا، دوسرے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے اشتہارات بانٹ رہے تھے۔ اور منہ سے یہ کہتے جاتے تھے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا ہے اس لئے کہ نبیوں کی ہتک کرتا تھا اور خود کو عیسیٰ کہتا تھا اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہی الفاظ مذکورہ بالا دہراتا جاتا تھا۔ ہم سن کر حیران ہو گئے اور اپنے دل میں کبھی وہم بھی نہ گزرا تھا کہ کوئی شخص اس قدر بھی جرأت کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر جھوٹ بولتا ہے اور قرآنِ مجید اٹھا کر جھوٹ بولتا ہے۔ (وہ مولوی جو اس وقت بولتا تھا وہ آج بھی بولتا ہے، ایک ہی قسم ہے ان کی۔) بہر حال کہتے ہیں تین آدمی تھے، مَیں نے اس سے اشتہار لے لیا اور پڑھنے لگے۔ اس پر بھی یہی مضمون تھا کہ نعوذ باللہ مرزا کوڑھی ہو گیا ہے، نبیوں کی ہتک عزت کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ چلو قادیان چلیں اور مرزا صاحب کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے شہر کے مرزائیوں کو کہیں گے جو ہر روز ہمارے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں اور جو اعتراض ہمارے علماء کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارے چودھویں صدی کے علماء جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا بیان تو چشمدیدہ ہو گا، ہم ان کو (یعنی احمدیوں کو)خوب جھوٹا کریں گے۔ پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر میرے اصرار پر تیار ہو گئے۔ ہم تینوں لاہور سے سوار ہو کر بٹالہ اترے۔ بٹالہ سے ایک روپیہ کو یکّہ لیا اور شام اور عصر کے درمیان قادیان مہمان خانے میں پہنچ گئے۔ شام کا وقت تھا، یعنی مغرب کی نماز کا وقت قریب ہی تھا۔ مَیں نے کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب جہاں نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ ہم کو بتاوٴ کہ ہم ان کے پاس کھڑے ہو کر ان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک شخص شاید وہی تھا جس سے ہم نے پوچھا تھا، میرے ساتھ ہو لیا اور وہ جگہ بتائی جہاں حضور کھڑے ہو کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ چونکہ وقت قریب ہی تھا مَیں وہیں بیٹھ گیا جہاں حضور نے میرے ساتھ داہنے ہاتھ آ کر کھڑا ہونا تھا۔ باقی دونوں دوست میرے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھ گئے۔ یہ مسجد حضور کے گھر کے ساتھ ہی تھی جس کو اب مسجد مبارک کہتے ہیں۔ یہ اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ بمشکل اس میں چھ یا سات صفیں لمبائی میں کھڑی ہو سکتی ہوں گی۔ اور ایک صف میں قریباً چھ آدمیوں سے زیادہ نہیں کھڑے ہو سکتے ہوں گے۔ چند منٹ کے بعد مغرب کی اذان ہوئی تو شاید دو تین منٹ کے بعد حضرت اقدس تشریف لے آئے۔ ہمارے قریب ہی دروازہ تھا، اس میں سے حضور نکل کر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جناب مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آگے کھڑے ہو گئے۔ موٴذّن نے تکبیر شروع کر دی۔ تکبیر کے ختم ہونے تک مَیں نے حضور کے پاوٴں سے لے کر سر تک سب اعضاء کو دیکھا حتی کے سرِمبارک کے بالوں اور ریش مبارک کے بالوں پر بھی جب میری نگاہ پڑی تو میرے دل کی کیفیت اور ہو گئی۔ مَیں نے دل میں کہا کہ الٰہی اس شکل اور صورت کا انسان مَیں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا۔ بال کیا تھے جیسے سونے کی تاریں تھیں۔ اور آنکھیں خوابیدہ، گویا ایک مکمل حیا کا نمونہ پیش کر رہی تھیں۔ ہاتھ اور پیروں کی خوبصورتی دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسی عالم میں محو تھا کہ الٰہی! یہ وہی انسان ہے کہ جس کو ہمارے مولوی جھوٹا اور نبیوں کی ہتک کرنے والا بتاتے ہیں؟ مَیں اسی خیال میں غرق تھا کہ امام نے اللہ اکبر کہا اور نماز شروع ہو گئی۔ گومَیں نماز میں تھا مگر جب تک سلام پھیرا مَیں اس حیرانی میں رہا کہ الٰہی وہ ہمارا مولوی جس کی داڑھی بڑھی ہوئی اور شرعی طور پر لبیں تراشی ہوئیں قرآنِ مجید کو ہاتھ میں لئے ہوئے قسمیں کھا رہا ہے اور سخت توہین آمیز الفاظ میں حضور کا نام لے لے کر کہہ رہا ہے کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہو گیا۔ اسی خیال نے میرے دل پر شبہ اور شکوک کا دریا پیدا کر دیا۔ کبھی تو دل کہتا کہ قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسم کھا کر بیان کرنے والا بھلا کبھی جھوٹا ہو سکتا ہے؟ یعنی مولوی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ شاید یہ شخص جو نماز میں کھڑا کیا ہے مرزا نہ ہو کوئی اور ہو، نئے آدمیوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔ اور پھر حضور کی صاف اور سادہ نورانی شکل سامنے آتی تو دل کہتا کہ کہیں وہ قسم اٹھانے والا دشمنی کی وجہ سے جھوٹ نہ بول رہا ہو؟ کہ لوگ سن کر قادیان کی طرف نہ جائیں۔ خیر نماز ہو گئی، حضور شاہ نشین پر بیٹھ گئے۔ اوّل تو آواز دی کہ مفتی صاحب ہیں تو آگے آجاویں۔ جب مفتی صاحب آ گئے تو پھر حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں؟ مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب، حضرت خلیفۃ المسیح الاول نورالدین صاحب، سب سے آخری صف میں سے اٹھ کر تشریف لائے۔ حضور نے باتیں شروع کر دیں جو طاعون کے بارے میں تھیں۔ فرمایا ہم نے پہلے ہی لوگوں کو بتا دیا تھا کہ مَیں نے فرشتوں کو پنجاب میں سیاہ رنگ کے پودے لگاتے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو آئندہ موسم میں پنجاب میں ظاہر ہونے والی ہے۔ مگر لوگوں نے اس پر تمسخر کیا اور کہا کہ طاعون ہمیشہ سمندر کے کناروں تک رہتی ہے۔ اندر ملک میں وہ کبھی نہیں آئی۔ مگر اب دیکھو کہ وہ پنجاب کے بعض شہروں میں پھوٹ پڑی ہے۔ غرض عشاء تک حضور باتیں کرتے رہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے۔ ہم بھی آ کر سو رہے۔ آپس میں باتیں کرتے رہے کہ یہ کیا بھید ہے؟ ہمارا مولوی قرآن اٹھا کر اور خدا کی قسمیں کھا کر کہتا تھا اور یہاں معاملہ برعکس نکلا۔ خیر صبح ہم لوگ اٹھے اور ارادہ یہ ہوا کہ مولوی نور الدین صاحب سچ بولیں گے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں یا کوئی اور ؟ جب ان کے مطب میں گئے تو ایک مولوی صاحب نے خلیفہ اوّل کے سامنے اعتراض پیش کیا کہ مولوی صاحب! پہلے جتنے نبی ولی گزرے ہیں وہ تو کئی کئی فاقوں کے بعد بالکل سادہ غذا کھاتے تھے اور مرزا صاحب سنا ہے کہ پلاوٴ اور زردہ بھی کھاتے ہیں؟ مولوی صاحب نے ان کو جواباً کہا کہ مولوی صاحب! مَیں نے قرآن مجید میں زردہ اور پلاوٴ حلال ہی پڑھا ہے۔ اگر آپ نے کہیں دیکھا ہے کہ حرام ہے تو بتائیں۔ اور اس مولوی نے تھوڑی دیر سکوت جو کیا تو مَیں نے جھٹ وہ اشتہار نکال کر مولوی نورالدین صاحب کے آگے رکھا کہ ایک ہمارا مولوی قسم بھی قرآن اٹھا کر کھاتا تھا کہ مرزا نعوذ باللہ کوڑھی ہوئے ہیں اور ہم کو جو بتایا گیا ہے کہ یہی مرزا صاحب ہیں، وہ تو تندرست ہیں۔ آپ بتائیں کہ یہی مرزا صاحب ہیں جن کو ہم نے نماز میں دیکھا ہے یا کوئی اور۔ مولوی صاحب نے جھٹ جیب میں ہاتھ ڈال کر وہی اشتہار نکال کر بتلایا کہ دیکھو ہم کو تمہارے مولویوں نے یہ اشتہار روانہ کیا ہے۔ اب یہ مرزا ہے اور وہ تمہارے مولوی جس نے قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بولا۔ جس کو چاہو سچا مان لو۔

تو مولویوں کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے۔ لیکن آج کل پاکستان میں مولویوں کے ساتھ میڈیا بھی شامل ہو گیا ہے۔ اور اس کے بعض پروگراموں کے اینکر جو ہیں وہ بھی مولویوں کے رول ادا کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ جھوٹ اور سچ کی کوئی پہچان نہیں رہی اس ملک میں۔ بہر حال کہتے ہیں بس پھر کیا تھا میرے آنسو نکل گئے۔ مَیں نے دل میں کہا کہ کمبخت اب بھی تو بیعت نہ کرے گا؟ واقعی یہ مولوی زمانے کے دجال ہیں۔ ہم تینوں نے ظہر کے وقت حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم کوبیعت میں لے لیں۔ حضور نے کہا جلدی مت کرو، کچھ دن ٹھہرو۔ ایسا نہ ہو کہ پھر مولوی تم کو پھسلاویں۔ اور تم زیادہ گنہگار ہو جاوٴ۔ مَیں نے رو رو کر عرض کی کہ حضور! مَیں تو اب کبھی پھسلنے کا نہیں۔ خیر دوسرے روز ہم تینوں نے بیعت کر لی۔ اور گھر واپس آ گئے۔

پھر لکھتے ہیں کہ افسوس آگے مخالفت کی وجہ سے ہمارا جو حال ہوا اگر جگہ ہوتی تو اور بھی لکھتا مگر جگہ نہیں اس لئے بند کرتا ہوں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ)نمبر 5 صفحہ 45تا 49)

تو یہ کہتے ہیں میرے پر احسان اس مولوی صاحب نے کیا جو قرآن اٹھا کرجھوٹی قسمیں کھا رہا تھا۔ اس کی وجہ سے مجھے شوق پیدا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے کا، اور حقیقت معلوم کرنے کا اور یہ میری احمدیت کی وجہ بنی۔

ایک روایت ہے حضرت میاں عبدالعزیز صاحب ولد میاں امام دین صاحب سکنہ اوجلہ تحصیل گورداسپور کی۔ انہوں نے 1893ء میں بیعت کی۔ لکھتے ہیں کہ جب 1891ء میں میری تبدیلی حلقہ سیکھواں پر ہوئی اور میاں جمال دین صاحب اور میاں امام دین صاحب اور میاں خیر دین صاحب سے واقفیت ہوئی تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کا ذکر کیا۔ تو چونکہ میرے دل میں حضور کی نسبت کوئی بغض اور عداوت نہ تھی، مَیں نے ان کے کہنے کو برا نہ منایا۔ صرف یہ خیال آیا کہ مولوی لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں؟ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ خاکسار کے آباوٴ اجداد اکثر مولوی لوگوں سے بوجہ اپنے دیندار ہونے کے محبت رکھا کرتے تھے۔ اور یہی وجہ خاکسار کی بھی مولویوں سے محبت کی تھی۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھ کو جب کتاب البریہ، ازالہ اوہام دیکھنے کو دی تو مَیں نے کتاب دیکھنے سے پہلے دعا کی کہ خداوندا مَیں بالکل نادان اور بے علم ہوں میرے علم میں جو حق ہے اس پر میرے دل کو قائم کر دے۔ یہ دعا ایسی جلد قبول ہوئی کہ جب مَیں نے ازالہ اوہام کوپڑھنا شروع کیا تو اس قدر دل کو اطمینان اور تسلی شروع ہوئی کہ حضور کی صداقت میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا اور زیادہ سے زیادہ ایمان بڑھتا گیا۔ اور جب پھرمَیں پہلی بار قادیان میں حضور کی زیارت کو میاں خیر دین صاحب کے ساتھ آیا اور حضور کی زیارت کی تو میرے دل نے ایسی اطمینان اور تسلی بخش شہادت دی کہ یہ شکل جھوٹ بولنے والی اور فریب والی نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اس وقت مَیں نے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ اوّل تو مَیں نے حضور کی نسبت کوئی لفظ بے ادبی اور گستاخی کا کبھی نہیں کہا۔ اور اگر خدا نخواستہ کبھی ایسا ہو گیا ہو تو مَیں توبہ کرتا ہوں۔ یہ شکل جھوٹ بولنے والی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میاں خیر دین صاحب کو یاد ہو گا اور اس وقت بھی شہادت دے سکتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ پھر مہر ساون صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں وہ سیکھواں کے رہنے والے معزز زمیندار تھے۔ ان کی میرے ساتھ محبت ہو گئی اور میرے عقیدہ کے ساتھ ان کو بھی اتفاق ہو گیا۔ اگرچہ وہ پہلے میاں جمال دین امام دین صاحبان سے بوجہ ان کے دو خیال ہونے کے اختلاف رکھا کرتے تھے، پھر ان کا عقیدہ اور خیال ہمارے ساتھ ہی ہو گیا۔ اور 1892ء میں خاکسار اور مہر صاحب موصوف نے ایک ہی وقت میں بیعت کی (یہاں 92ء لکھا ہے اور یہ میرا خیال ہے 93ء کا قصہ ہے۔) اور ہم ہنسا کرتے تھے کہ مَیں اور مہر صاحب جوڑے ہیں۔ (میری اور مہر صاحب موصوف کی) روحانی پیدائش ایک ہی وقت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ میراپہلانام بوجہ اس کے کہ مَیں اپنے ننھیال میں پیداہواتھا اور صاحب علم خاندان نہ تھا میرامشرکانہ نام رکھ دیایعنی میراں بخش۔ اس کی تبدیلی کی بہت کوشش کرتے رہتے اور مدت تک تبدیل بھی رہا لیکن پورے طرح نام بدلا نہ گیا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نام تبدیل کرکے عبدالعزیز رکھا تو مَیں نے دعاکی کہ خداوندکریم اب توتیرے مسیح موعودنے نام تبدیل کیا ہے اس کو مستقل طورپر قائم کردے اور پہلے نام کو ایسا مٹادے کہ وہ کسی کو یادہی نہ رہے۔ چنانچہ دعاقبول ہوئی اور سرکاری کاغذات پٹواری میں اور عام مشہوریہی نام ہے۔ پہلے نام کو کوئی نہیں جانتا۔ اس وقت تک جب تک نام تبدیل نہیں ہوا باوجود جلسوں وغیرہ میں شامل رہنے کے سلسلہ کے کسی کاغذ میں پہلا نام نہیں آیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) نمبر 5صفحہ70-69)

حضرت شیخ الله بخش صاحبؓ سکنہ بنوں صوبہ سرحد، بیعت 1905ء کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ بچپن میں مجھے کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی گئی اور چھوٹی عمر میں ہی سکول میں داخل کر دیا گیا تھا لیکن جب اینڑینس میں پہنچا اور اس وقت مَیں عمر کے ستارویں (17 ویں ) سال میں تھا تو قدرتاً میرے دل میں تحریک پیدا ہو ئی کہ اپنے مذہب کے متعلق واقفیت حاصل کروں۔ چنانچہ مَیں نے ایک مُلّاں سے قرآن شریف پڑھنے کے بعد خود بخود مترجم قرآن شریف کا مطالعہ شروع کیا۔ اسی دوران میں نامعلوم کس طرح کسی عیسائی کی ایک کتاب جس میں کسی مصری مولوی کے ساتھ مباحثہ کی صورت میں اعتراضات و جوابات درج تھے وہ میری نظر سے گزرے جس کے پڑھنے سے مجھے سخت دکھ ہوا کیونکہ اس میں ہر لحاظ مجھے حضرت عیسیؑ ٰ کا درجہ رسول کریمﷺ سے افضل نظر آنے لگا اور دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہوئے۔ مگر کچھ شرم اور کچھ اپنی بیو قوفی کے باعث اس کا ذکر نہ ہی اپنے والد صاحب کے ساتھ کر سکا اور نہ ہی کسی مولوی کے ساتھ اور اس خلش کو دل ہی دل میں لئے رہا۔ یہاں تک کہ 1905ء کے آخری مہینوں میں جب مَیں وانون میں ملازم تھا مجھے ڈاکٹرعلم الدین صاحب گجراتی سے بدر اخبار کے کچھ پرچے دیکھنے اور حضرت مسیح کی وفات کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا اور جوں ہی مسیح کی وفات مجھ پر ثابت ہو گئی مَیں نے خدا کا شکر کیا اور بغیر کسی مزید توقف کے فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس کا علم ہونے پر والد صاحب نے کچھ ناراضگی اور افسوس کا خط لکھا جس پر ان کو ان کی وہ دعا یاد کرائی گئی جو انہوں نے میری پیدائش سے پہلے کی تھی اور جس کا ذکر میرے والد صاحب چند بار گھر میں اس طرح کر چکے تھے کہ جب پہلے بچہ کی پیدائش کے بعد بارہ سال تک ہمارے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا تو ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور بڑی خشوع و خضوع کے ساتھ ان الفاظ میں دعا کی کہ ’’اے ارحم الراحمین اور وہاّب خد اجس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بڑھاپے میں آ واز سنی اور اس کو اولاد دی میری فریاد بھی سن اور اولادنرینہ عطا فرما‘‘۔ یہ ان کے والد صاحب نے دعا کی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد صاحب کو ان کی یہ دعا یاد کرواتے ہوئے لکھا کہ آپ کی دعا کی حقیقی قبولیت اب ہوئی ہے جبکہ خدا نے اپنے فضل سے مجھے ہلاکت کے گڑھے سے نجات بخش کر اپنے مامور کی غلامی کا شرف بخشا ہے۔ لکھتے ہیں کہ غالباً 1906ء کے اپریل میں میری تبدیلی اس جگہ سے اپنے وطن مالوف بنّوں میں ہوئی اور اپنی نوکری پر حاضر ہونے سے قبل مَیں نے قادیان شریف میں حاضر ہوکر مسجد مبارک میں حضور کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ بیعت کے وقت کا نقشہ اور اپنے دل کی کیفیت مختصر الفاظ میں اس طرح پیش کرتا ہوں کہ ایک آ زاد خیال اور لا مذہب نو جوان اپنے نفس امّارہ کی تمام امنگوں اور سرکشیوں کے خلاف جنگ پرآمادہ ہو کر مامور وقت کے دروازہ پر استمداد کے واسطے حاضر ہے اور اس کے انتظار میں اس کی آنکھیں بے قرار ایک چھوٹی سی کھڑکی پرپیوست ہیں۔ (وہ کھڑی جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لایا کرتے تھے۔ ) مسجد میں بہت تھوڑے آدمی ہیں اور سب موٴدب اسی پاک ہستی کی انتظار میں خاموش ہیں کہ اتنے میں اسی کھڑکی میں سے ایک مقدس، وجیہ اور پر شکوہ وجلال پیر مرد مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ اور ادھر اس نوجوان پر لرزہ طاری ہو کر آنکھوں سے آنسووٴں کی جھڑی جاری ہو جاتی ہے۔ لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیوں؟ صرف اس قدر ہوش ہے کہ حضور کا اس کھڑکی سے ورود بعینہٖ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بدر کامل اندھیری رات میں نمودار ہوگیا جس سے سب تاریکی دور ہو گئی اور حاضرین کے چہروں پر انبساط کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس موقع پر اکبر شاہ خان نے اپنے کچھ شعر بھی حضور کی تعریف میں سنائے جن کو حضور نے پسند فرمایا تھا۔ بیعت کے بعد دوسرے دن میں واپس ہو گیا کیونکہ حاضری کے تھوڑے دن تھے۔ پھر 1907ء کے موسم میں یعنی موسمِ گرما میں جب والد صاحب امرتسر آئے اور بیمار تھے تو ان کو قادیان لایا اور حضور کے ساتھ تعارف کروا کر ان کی صحت کے واسطے عرض کی گئی۔ یہ بھی کوشش تھی کہ وہ بیعت کر لیں گے لیکن افسوس کہ والد صاحب بزگوار اس نعمت سے محروم رہے۔ حضور نے دعا فرمائی اور مولوی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ سے نسخہ لینے کی بھی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ نسخہ لینے کے بعد ہم واپس امرتسر چلے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے بھی والد صاحب کو تسلی دینے کی غرض سے اپنے بچوں کی فوتیدگی کے حالات سنائے لیکن چونکہ والد صاحب کا دل اپنی لمبی بیماریوں کے باعث بہت ہی کمزور ہو چکا تھا ان کے آنسو جاری رہے۔ ان کو میرے پہلے بچہ کی مرگ کا سخت صدمہ تھا۔ (اس کی وجہ سے افسوس کرتے رہتے تھے۔ ) لکھتے ہیں کہ افسوس کہ مجھے حضرت جری الله کا دیکھنا پھر نصیب نہ ہوا۔ اور مجھ پر وہ دن سخت تلخ تھا جبکہ حضور کے وصال کی خبر بدر اخبار کے ذریعہ مجھے بنّوں میں ہوئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ) نمبر 5صفحہ 94تا 96)

حضرت محمد حسین خان ٹیلرؓ ابن مکرم خدا بخش صاحب سکنہ گوجرانوالہ، بیعت1897 ء۔ یہ لکھتے ہیں کہ مجھے بچپن میں کُشتی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن میں کُشتی دیکھ کر آیا تو خواجے وہاں کوئی رہتے تھے۔ وہاں کسی خواجے کے گھر کوئی مہمان لاڑکانہ سے آیا تھا۔ اس سے وہ دریافت کر رہے تھے کہ لاڑکانہ کے حالات سناؤ۔ تو اس نے کہا کہ مَیں نے ایک نئی بات سنی ہے کہ ہمارے لاڑکانہ میں ایک مولوی نے تقریر کی ہے۔ تقریر میں اسی مولوی نے کہا زیادہ تعلیم پڑھنے سے بھی آدمی کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور اس نے کہا کہ قادیان میں ایک مرز اہے جو فرماتا ہے کہ مَیں خدا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ مولوی صاحب نے کسی کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے یا یونہی زبانی کہا ہے۔ تو اس نے کہا کہ براہین احمدیہ کا حوالہ دیتا تھا کہ اس میں لکھا ہے۔ تو مَیں نے وہاں سکھر میں ایک احمدی تلاش کیا اس کا نام محمد حیات تھا۔ وہ چنیوٹ کا رہنے والا تھا۔ اس سے میں نے جاکر دریافت کیا کہ تمہارے پاس براہین احمدیہ ہے؟تو اس نے کہا کہ ہے۔ تو مَیں نے اسے کہا کہ ذرا کھول کر دکھائیں کہ جہاں حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ مَیں خدا ہوں۔ یہ احمدی نہیں ہوئے تھے اس وقت تک۔ جب انہوں نے کتاب کھول کر دیکھی تو اس میں لکھا ہوا تھا۔ خدا میرے میں ہے اور مَیں خدا میں ہوں۔ مَیں نے یہ بات کتاب میں سے جاکر شیخ صاحب کو دکھائی اور زبانی مَیں نے کہا کہ یہ بات تو معمولی سی ہے۔ جو آدمی شیطانی خیالات کا ہوتا ہے اسے تو ہمارے ملک میں مجسم شیطان بھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ تو جو رحمانی خیالات کا انسان ہے تو اس آدمی میں اگر رحمانی خیالات کی باتیں پائیں جائیں تو یہ کیا بڑی بات ہے؟ تو وہ مجھے جواب میں کہتا ہے کہ لو بھائی یہ بھی مرزائی ہو گیا ہے۔ تو مَیں نے ان کو جواب میں کہا کہ شیخ صاحب مرزائی تو بہت اچھی چیز ہے۔ کہتے ہیں کہ مرزائی تو ہمارے ہاں روئی دار واسکٹ کو کہتے ہیں۔ اگر کسی کو نمونیہ ہو جائے تو اس کے گلے میں ڈال دینے سے آرام آجاتا ہے۔ بہر حال وہ سب میرے پہ ہنستے رہے اور کہنے لگے لو بھائی یہ مرزائی ہو گیا۔

اسی طرح آج کل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں سے توڑ مروڑ کر حوالے پیش کئے جاتے ہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے، جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں جہاں نام نہاد علماء کا ہاتھ ہے، وہاں ٹی وی چینلز کا اور میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ پڑھنے ہی نہیں دیتے اصل کتابیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں اپنی دوکان پر چلا گیا۔ اس دن کے بعد رات کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ امام مہدی آخر الزمان جو آنے والا تھا وہ آگیا ہے۔ تو مَیں نے پوچھا کہ کس جگہ میں۔ اس آدمی نے کہا کہ یہاں سے 25 کوس کے فاصلے پر ہیں۔ اپنا خواب کا قصہ سنا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ مَیں نے پوچھا کہ کس جگہ پر مہدی آیا ہے؟ اس آدمی نے کہا کہ یہاں سے 25کوس کے فاصلے پر ہیں، جنوب کی طرف۔ تو مَیں اس آدمی کے کہنے پر جنوب کی طرف خواب میں روانہ ہوگیا۔ تو آگے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی گھوڑے پر سوار ہیں اور ان کے ساتھ دوسو سوار اور ہیں اور وہ آرہے ہیں۔ تو مَیں نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لو۔ تو مَیں نے حضور کی بیعت کر لی اور حضور کے ساتھ روانہ ہو گیا اور حضور لاہور جاکر ٹھہرے اور مَیں نے عرض کیا کہ حضور آپ مجھے رکھ لیں۔ حضور نے فرمایا کہ جو دین سے قطع تعلق کر دیتا ہے اسے دین سے کچھ نہیں ملتا۔ دنیا میں رہ کر انسان کو دین حاصل کرنا چاہئے۔ تو مَیں نے کہا یہاں نزدیک ہی شہر گوجرانوالہ ہے۔ مَیں وہاں جا کر اپنی والدہ کو مل آؤں۔ مجھے حضور نے اجازت دیدی۔ پھر مَیں گوجرانوالہ گیا تو گوجرانوالہ میں اپنے مکان کی سیڑھی میں مَیں کہہ رہا ہوں کہ آخر الزمان امام مہدی آ گیا ہے۔ جس نے بیعت کرنی ہو یا زیارت کرنی ہو لاہور میں تشریف لے جائے۔ پھر اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سکھر میں ہوں۔ سکھر میں خواب دیکھی تھی۔ دوسرے دن پھر خواب میں دیکھا کہ سکھر میں اپنی دوکان میں ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آسمان کی طرف کسی بلندی پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور ایک آدمی کو فرمایا کہ یہاں ہمارا ایک غلام رہتا ہے اس کا سر لے آؤ۔ جب اس آدمی نے مجھے آکر کہا تو مَیں نے اسے اپنا سر دونوں کانوں سے پکڑ کر دے دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور نے فرمایا سر اس کے ساتھ لگا دو اور یہ میرے خزانے سے بھی اس کو دے دو۔ اس نے آکر سر لگا دیا۔ مَیں کلمہ پڑھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور مَیں نے کہا کہ جو کچھ حضور نے مجھے دیا ہے دے دو۔ اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ (یہ خواب کاہی قصہ سنا رہے ہیں۔) اسی اثناء میں تمام رات گزر گئی۔ صبح ہو گئی اور مَیں اٹھ بیٹھا۔ پھر تیسرے دن رات دس گیارہ بجے کے قریب مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرا بدن کسی چیز سے دبایا گیا ہے اور مجھے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ مَیں سویا ہوا ہوں کہ مَیں جاگتا ہوں۔ اتنے میں حضرت امام مہدی علیہ السلام میرے پاس آگئے اور فرمایا کہ کیا ہوا اگر اس نے نہیں دیا۔ ہمارے پاس بہت ہے۔ آپ ہاتھ باہر نکالیں۔ مَیں نے ہاتھ باہر نکالا تو حضور نے میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔ مَیں نے منہ میں ڈال لیا۔ (کوئی چیز جو بھی تھی۔) گویا کہ مَیں نے حضور کی بیعت اس طرح پر کی ہے۔ پھر اس کے بعد مَیں ایک دفعہ قادیان آیا تو راستہ میں بٹالہ میں رات کے گیارہ بجے اترا تو وہاں کوئی جگہ نہیں تھی ٹھہرنے کی۔ مَیں حیرانگی سے مسافر خانے کے برآمدے میں کھڑا ہو گیا کہ یا اللہ مَیں اب کہاں جاؤں۔ لوگ جو گاڑی سے اترے تھے وہ اپنی اپنی جگہ چلے گئے۔ پھر اس کے بعد ایک آدمی نکلا تو اس نے کہا کہ آپ نے کہاں جانا ہے؟ (اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کا انتظام کس طرح کرتا تھا؟ انہوں نے آگے یہ قصہ بیان کیاہے۔) کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا کہ میں نے جانا تو سکھر تھا لیکن اب میرا یہ ارادہ ہوا ہے کہ مَیں حضرت امام مہدی آخر الزمان کی زیارت کر کے جاؤں۔ تو اس نے کہا کہ سکھر میں ایک آدمی بنام حسین بخش ہے آپ اس کو جانتے ہیں؟ تو مَیں نے کہا کہ مَیں اس کو جانتا ہوں۔ اس نے کہا کہ چلو اس کے مکان پر ٹھہریں صبح آپ چلے جانا۔ مَیں اس کے ساتھ چلا گیا تو حسین بخش کے دروازے پر دستک دی تو وہ باہر آیا اور بہت خوشی سے ملا۔ رات مَیں اس کے مکان پر ٹھہرا۔ صبح جب مَیں وہاں سے اٹھ کر قادیان روانہ ہونے لگا تو اس نے کہا کہ مَیں آپ کو نہ جانے دوں گا جب تک آپ میرے مکان پر کھانا نہ کھا لیں۔ پھر بازار گیا اور سبزی وغیرہ لاکر اور پکا کر مجھے روٹی وغیرہ کھلائی۔ پھر مجھے وہ یکّے پر بٹھانے کے واسطے آیا تو تیلی دروازہ کے باہر ایک یکّہ کھڑا تھا، قادیان جانے کی سواریاں تھیں اس میں بیٹھ گیا۔ پہلے دو سواریاں اس میں بیٹھی ہوئی تھیں، تیسرا میں بیٹھ گیا۔ یکّے والے نے گھوڑا چلا دیااس میں سے ایک آدمی تھا جس کی بہت لمبی داڑھی تھی مہندی لگائی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے پوچھا کہ آپ نے کس جگہ جانا ہے۔ مَیں نے کہا کہ حضرت امام مہدی کی زیارت کرنے جانا ہے۔ وہ کہنے لگا پتہ نہیں لوگ یہاں کیوں آتے ہیں۔ لوگوں کے دماغوں کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ بٹالہ سے قادیان تک یہی باتیں کرتا آیا۔ مَیں استغفار اور لاحول ولاقوة الاّبا للہ پڑھتا آیا تو قادیان جب اڈے خانہ پر اترے، آگے آگے وہ چلا پیچھے پیچھے مَیں چل پڑا۔ مسجد مبارک کے نیچے جہاں لیٹر بکس لگا ہے وہ تو مرزا گل کے احاطہ کی طرف ہو گیا اور ایک آدمی مجھے ملا اور اس نے کہا کہ آپ نے کہاں جانا ہے تو مَیں نے کہا کہ مَیں نے حضرت نور الدین صاحب کو ملنا ہے۔ تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ یہ میرے آگے آگے کون شخص تھا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ مرزا امام دین ہے (جو گالیاں نکال رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو)۔ پھر مَیں حضرت مولوی صاحب کے پاس چلا گیا۔ ایک ڈاکٹر حسن علی کا رقعہ ہمراہ لایا تھا (جو پہلے احمدی تھے) وہ دیا۔ مولوی صاحب نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہاں بیٹھ جائیں۔ مَیں وہاں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ حضرت صاحب مسجد میں آ گئے ہیں۔ تو مسجد مبارک میں داخل ہوئے تو ایک محراب تھا جو کہ چھوٹی سی کوٹھڑی کی طرح تھا۔ ایک طرف حضرت امام مہدی بیٹھے تھے اور دوسری طرف حضرت نور الدین صاحب بیٹھ گئے۔ میرے متعلق حضور سے کہا کہ حضوریہ ڈاکٹر حسن علی کا پھوپھی زاد بھائی ہے اور بیعت کے واسطے آیا ہے۔ پھر مَیں نے حضور کی بیعت کی اور میں حضور کو اپنے بچپن کے حالات سناتا رہا اور حضور سنتے رہے۔ ایک تو مَیں نے عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی ہے اس کے واسطے دعا کریں کہ وہ احمدی ہوجائیں۔ مَیں نے اس کے واسطے اخبار بدر بھی جاری کر دیا ہے۔ اور جو حضور کی کتب بھی ملتی ہیں وہ بھی اسے دیتا ہوں اور وہ اس کو ہاتھ نہیں لگانا پسند کرتا۔ کہتا ہے کہ اس میں جادو بھرا ہوا ہے اور جو پڑھتا ہے وہ مرزائی ہو جاتا ہے۔ حضور دعا فرماویں کہ وہ سلسلہ حقہ میں داخل ہوجائے۔ حضور نے فرمایا آپ کے ارادے نیک ہیں۔ خدا آپ کو بڑی کامیابی دے گا۔ پھر حضور نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو میری ایک آنکھ خراب تھی اور سرخ ہوئی تھی۔ حضور نے فرمایا کہ آپ کی یہ آنکھ کب سے خراب ہے۔ تو مَیں نے عرض کیا کہ یہ بچپن سے میری آنکھ خراب ہے۔ ایک دفعہ کوہ مری پہاڑ پر گیا تھا تو مجھے آرام آگیا تھا بعد میں پھر ویسی حالت ہوگئی۔ حضور نے کہا کہ آپ کا کام کوہ مری میں اچھا چل سکتا ہے۔ آپ کوہ مری میں کام کیا کریں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں اب سکھر میں کام کرتا ہوں۔ محنتی آدمی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ سکھر او ر کوہ مری کا چھ سو یا سات سو میل کا فاصلہ ہے۔ حضور نے فرمایا کہ آپ کو اللہ شفا دے گا۔ تو معاً مجھے (میری) آنکھ کوبالکل آرام ہوگیا۔ اس کے بعد جب مَیں مسجد کے نیچے گیا تو تب مولوی صاحب کے پاس جابیٹھا تو حضور (مولوی صاحب) نے مجھے اشارةً کہاکہ دوائی ڈلوالیں۔ تو مَیں نے عرض کیا کہ اب تو مجھے بالکل آرام آگیا ہے۔ پھر اس کے کچھ مدت بعد حضور لاہور تشریف لے گئے۔ اگلی روایت یہ بیان کرتے ہیں۔ ایک دن حضور کی ملاقات کے لئے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کپتان آئے اور انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ملاقات کے واسطے آئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے۔ ایک دو منٹ کے واسطے مل سکتا ہوں۔ سیڑھی میں کھڑے ہوکر حضور نے ان کی ملاقات کی تو ان افسروں نے کہا کہ رات ہمیں رپورٹ پہنچی ہے کہ رات اینٹیں پڑی ہیں (یعنی کہ کسی نے اینٹیں پھینکی ہیں )اگر آپ چاہیں تو پولیس کا انتظام کردیں۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری حفاظت خداکررہاہے۔ آپ جس طرح مناسب سمجھیں اپنا فرض اداکریں۔ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ پھرکہتے ہیں کہ ایک دن حضور دن کے دس بجے آئے گھڑی کا ٹائم ٹھیک کرنے کے واسطے۔ گھڑی رومال میں بندھی ہوئی تھی۔ نکال کر وقت ٹھیک کیاپھر اوپر چلے گئے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ پھر مَیں قادیان آیا، حضور کو ایک آدمی خط سنارہاتھا۔ سیالکوٹ سے کسی احمدی کی طرف سے آیاتھا اس میں لکھا تھا کہ حضور میرے کُڑم (سمدھی جو ہوتے ہیں، بیٹی یا بیٹے کے سسرال والے)کہتے ہیں کہ بارات کے ساتھ باجابھی لاوٴاور آتشبازی بھی لاوٴ۔ حضور نے فرمایا کہ باجا تو بطوراعلان کے ہے اس کا تو کوئی گناہ نہیں۔ اور آتش بازی ایک مکروہ چیز ہے۔ اس واسطے حضور نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ باجاہم لے آئیں گے اور آتش بازی کے خیال کو آپ چھوڑ دیں۔ پھر ایک دفعہ بابو محمد رشید کاکچھ مدت بعد احمدیت کی طرف رجحان ہوگیا۔ کچھ میرے ساتھ تبادلہ خیالات ہوا۔ اس کے بعد چارآدمی میرے ساتھ بیعت کے واسطے قادیان آنے کو تیارہوگئے۔ بابو محمد رشید، مولوی محبوب عالم اور مستری علم دین، چوتھے کا مجھے نام یادنہیں۔ مَیں نے ان چاروں شخصوں کو قادیان لاکر بیعت کروادی۔

ایک اور عجیب واقعہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب آیا تو کھڑکی کے راستے حضور جب مسجد میں تشریف لائے تو لوگ استقبال کے واسطے اٹھے۔ تو ایک پٹھان تھا جو دردنقرس سے بیمارتھا اور دوسوٹوں سے چلتاتھا۔ اس کے کھڑاہونے میں کچھ دیر ہوگئی توحضور جب باہر نکلے تو حضورکا پاوٴں اس کے پاوٴں پر آیا۔ تو اس طرف کی اس کی تمام دردیں اچھی ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد جب حضور اندرجانے لگے تو اس نے کہا کہ حضور اِس پاوٴں پر بھی پاوٴں رکھ دیں تو حضور اس کے پاوٴں پر پاوٴں رکھ کر چلے گئے۔ بعد میں اس نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں آپ سے قریباً چھ ماہ ہو گئے علاج کروارہاہوں کچھ اچھی طرح سے آرام نہیں آیاتھا۔ آج یہ واقعہ ہواہے کہ جب حضور براستہ کھڑکی مسجد میں تشریف لائے تومیرے پاوٴں پر پاوٴں آگیا تو مجھے معلوم ہواکہ اس طرف کی تمام دردیں دورہوگئی ہیں۔ خلیفہ اولؓ نے جواباًفرمایا کہ بھائی وہ تو خداتعالیٰ کے رسول ہیں۔ مَیں تو معمولی حکیم ہوں۔ مَیں نے دوا دارو ہی دیناہے۔

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو کوئی کسی ضروری حاجت کے واسطے اندرتشریف لے گئے تو پاس ہی حضور کی صدری پڑی تھی۔ اس کو اپنے کندھے پر رکھ لیا تو اندر چلے گئے۔ دوتین منٹ کے بعد پھر واپس آگئے تو صدری لا کر پھروہاں رکھ دی۔ تو سید فضل شاہ صاحب کہتے ہیں کہ حضور یہاں تو کوئی اوپراآدمی نہ بیٹھا ہواتھا۔ حضور دومنٹ کے واسطے اندرگئے ہیں اور پھر واپس آگئے ہیں توحضور نے صدری اپنے کندھے پررکھ لی۔ حضور نے فرمایا کہ کسی کو گناہ کرنے کا موقعہ نہیں دینا چاہئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) نمبر 5صفحہ97تا 103)

تو یہ ان لوگوں سے تو خدشہ نہیں تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک تربیت کا انداز تھا کہ بجائے اس کے کہ کسی کو موقع دو یا شکوک میں مبتلا ہواگر کوئی چیز تمہاری ہے تو ساتھ ہی اٹھا لو۔

روایات کافی ہیں، وقت کم ہو رہا ہے۔ آخر میں صرف ایک دو اَور بیان کر دیتاہوں۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو سرساواضلع سہارنپور کے تھے۔ 1894ء میں انہوں نے بیعت کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس زمانہ کے مولویوں اور صوفیوں پر بھی افسوس کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حق سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو راستی سے ہٹانے میں پہلوں سے بھی زیادہ زور لگایاتا اللہ تعالیٰ کے بندے راستی کو قبول نہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ تسلی نہ دیتا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پھیلاؤں گا اور تجھے نامرادنہیں ہونے دوں گا۔ تو یہ جو مولویوں کی بک بک ہے پتہ نہیں کیا تکلیف دیتی؟ فرمایا کہ اگر یہ لوگ میری آہ و بکاہ کو سن لیں کہ مَیں کس طرح ان لوگوں کی بہتری اور ہدایت کے لئے خداتعالیٰ کے حضور روتا ہوں کہ اے میرے مالک، میرے محسن تو آپ ان پر رحم فرما اور ان کے دِلِدَّروں کو دور کر دے اور ان کو صراط مستقیم پر چلا اور ان کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا لے۔ مَیں بار بار الٰہی آستانہ پر ان کے لئے گرتا ہوں کہ الٰہی یہ بے خبر ہیں کہ میں ان کے لئے تیرے سے کیا کیا مانگتا ہوں۔ اللہ اللہ جب حضور نے یہ الفاظ منہ سے فرمائے تو ہم تصویر ہی بنے ہوئے تھے کہ یہ پاک وجود اللہ تعالیٰ کے بندوں کا ایسا خیر خواہ ہے؟یہ بالکل صحیح ہے اللہ تعالیٰ جن پاک وجودوں کو اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے وہ اس کے بندوں کے لئے دردمند اور سچے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ اس کے بندوں کے لئے اس قدر بے تاب ہوتے ہیں کہ ماں باپ بھی ایسے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ لکھتے ہیں کہ کیونکہ مَیں نے آپ کے کرب کی آوازیں سنی ہوئی ہیں۔ (تو مجھے تو اندازہ ہے کہ کس طرح بے تابی ہوتی تھی)۔ (ماخوز از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) جلد 6صفحہ 98-97)

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن شیخ مسیتا صاحب سکنہ سرساوا ضلع سہارن پور کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کر جھوٹ جیسی نجاست کو اختیار نہیں کرتے تھے اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے اور اخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہوگئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ یہ یقین ہی تھا کہ آپ کے دوستوں کے دشمن ذلیل وخوار ہوجاتے تھے اور آپ کے دوست ہر وقت خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہی رہتے تھے اور خدائے تعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی اور آپ کے دوستوں میں غنا تھا اور خدائے تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتے تھے اور حق کہنے سے نہ رکتے تھے اور کسی کا خوف نہ کرتے تھے۔ اعمال صالحہ کا یہ حال تھا کہ ان کے دل محبت الٰہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالص للّہی سے ہی کرتے تھے۔ ریا جیسی ناپاکی سے متنفر رہتے تھے کیونکہ ریا کاری کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خطر ناک بد اخلاقی فرمایا کرتے تھے کہ اس میں انسان منافق بن جاتا ہے۔ مَیں نے اپنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آنکھوں کے پردے کبھی اوپر اٹھے ہوئے نہیں دیکھے تھے۔ ہمیشہ آپ کی آنکھوں کے پردے آپ کی آنکھوں کو ڈھکے ہی رکھتے تھے۔ اتنی حیا آپ کی آنکھوں میں تھی۔ مگر جب کبھی اللہ تعالیٰ کے کسی دشمن کا ذکر یا آنحضرتﷺ کا ذکر آپ کرتے تو آپ کی آنکھوں کے پردے بالکل اوپر اٹھ جاتے تھے ورنہ آپ کی آنکھوں کو پردے چھپائے ہی رکھتے تھے۔ اتنی حیا دار تھیں آپ کی آنکھیں۔ کہتے ہیں کہ رسول خداﷺ سے آپ کو اتنی محبت تھی کہ جب کبھی آپ آنحضرت رسول مقبولﷺ کا ذکر خیر فرماتے تو آپ فرماتے اگر یہ پاک رسول دنیا میں نہ آتا تو دنیا میں ہدایت ہی باقی نہ رہتی، گمراہی گمراہی ہوتی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی جماعت کو اخلاق رذیلہ سے بچنے کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تم اللہ تعالیٰ کے مظہر بنو اور اخلاق فاضلہ اختیار کرو تا اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لے۔ فرماتے ہم نے تو اپنے خدا کو ماں سے زیادہ محبت کرنے والا دیکھا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق ہی ایسے تھے کہ جس نے غور سے آپ کے اخلاق کو دیکھاوہی سر خم تسلیم ہوجاتا تھا اور آپ کی محبت میں چُور ہوجاتا تھا اور آپ کی جدائی کو پسند ہی نہ کرتا تھا اور دھونی رما کر آپ کے ہی قدموں میں گرجاتا تھا اور گیند کی طرح ٹھوکریں کھاکر بھی آپ کی جدائی کو پسندنہ کرتا تھا۔ یہ تھے میرے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق حسنہ۔ کہتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بدظنی سے بچنے کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے بدظنی کرنے والا کبھی بھی نورِ ایمان سے منور نہیں ہو سکتا کیونکہ بدظنی خطرناک بد اخلاقی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ سے بھی ناامید کر دیتی ہے۔

پس ہماری جماعت کو چاہیے بد ظنی سے بہت بچے۔ بدظنی کرنے والا خدا کی پاک جماعت میں شامل نہیں رہ سکتا۔ یہی الٰہی سلسلہ کی پہچان ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار اپنی جماعت کو یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم ہی کو معرفت الٰہی کا ذریعہ یقین کریں اور اس کے بتائے ہوئے ہی اعمالِ صالحہ ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے انہی اعمال کا ذکر کیا ہے جو کہ انسان کو دنیا کی اور آخرت کی بھلائی تک پہنچاتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں یہی وہ آخری کتاب ہے جس کی برکات کا ذکر تمام دنیا کے راستبازوں کی زبان نے تصدیق فرمائی تھی۔ پس ہماری جماعت اس پاک کتاب کو اپنا دستور العمل بنائے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ (غیر مطبوعہ) نمبر 6 صفحہ 66تا 68)

اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے بھی درجات بلند فرمائے جو یہ واقعات اور حالات ہم تک پہنچا کر ہمارے ایمانوں کو مزید بڑھانے کا باعث بنے۔ اور ہمیں بھی توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مشن کو جو اسلام کے احیائے نو کا مشن ہے آگے بڑھانے کے لئے، ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ اپنی حالتوں کو حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے اور جو نمونے صحابہ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شمارہ 31، 32 مورخہ 30 جولائی تا 12 اگست 2010 صفحہ 13 تا 17)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ جولائی 2010ء شہ سرخیاں

    حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کی روایات جن میں ان حق کے متلاشیوں کی اپنی سعید فطرت کے ساتھ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی شفقتوں، محبتوں، قوتِ قدسی اور مقام کا بھی پتہ چلتا ہے۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 16جولائی 2010ء بمطابق16وفا 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور