اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری

خطبہ جمعہ 6؍ اگست 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ) تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

الحمدللہ گذشتہ اتوار جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ سب سے پہلے تو ہمارے سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور جھکنے چاہئیں۔ اور حقیقی مومن کا یہی رویہ ہونا چاہئے کہ محض اور محض اس کے فضل سے تمام کام بخیروخوبی انجام کو پہنچے۔ اللہ کرے کہ ہم اس اہم بات کو ہمیشہ سمجھتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ابتدا ہی اس بات سے کی ہے کہ ایک حقیقی مومن اپنے تمام کام اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتاہے تاکہ اس کی ابتداء سے انتہاء تک اللہ تعالیٰ کی مددشاملِ حال رہے اور خداتعالیٰ ہر لمحے یاد آتارہے۔ قرآن کریم کی پہلی آیت ہی بسم اللہ سے شروع ہوتی ہے جو کہ اِس بات کا اعلان ہے کہ مَیں اپنے خدا کے نام کے ساتھ اس عظیم کتاب کو پڑھتاہوں جس نے میری دین ودنیاکی بقاکیلئے اُسے اپنے نبیﷺ پر نازل فرمایا۔

ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرو

پس ایک مومن کو یہی نصیحت ہے کہ اپنے ہرکام کی ابتدا بِسْمِ اللّٰہِ سے کرو۔ اور پھر اللہ کے نام کے ساتھ۔ بِسْمِ اللّٰہِ کے بعد جن صفات کا استعمال کیا گیا ہے وہ دو ہیں۔ گواللہ جوتمام صفات کا جامع ہے۔ ایک اَلرَّحْمٰن اور دوسرے اَلرَّحِیْم ہے۔ اَلرَّحْمٰن وہ ہے جو بے انتہا کرم کرنے والا ہے۔ بارباررحم کرنے والاہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ہی ہے جو بے انتہاء رحم کرتے ہوئے اپنا کرم فرماتی ہے۔ جو کسی کام کو کرنے کے لئے ایسے حالات پیداکرتی ہے، ایسے انتظامات کرتی ہے جو کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی بہت سی صفات اپنے بندوں کے لئے صفتِ رحمانیت کا نظارہ دکھاتے ہوئے بروئے کار لا رہاہوتاہے۔ اور پھر صفت رحیمیت ہے جو صفت رحمانیت کے عموم سے ہٹ کر عبادالرحمٰن کے لئے خاص طور پراپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ ایک مومن جب اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے اس کے حضور جھکتا ہے، تمام امور کے بااحسن انجام پانے کے لئے اس کی مدد اور رحمت کا امیدوار ہوتاہے توپھراللہ تعالیٰ اپنی تائیدونصرت کے جلوے دکھاتاہے اور یہ تائیدونصرت کے جلوے ہم نے اس جلسہ کے دوران بھی دیکھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے بھی نظارے ہم نے دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے نظارے بھی ہم نے دیکھے۔ اور ان کو دیکھ کر ہم میں شکرگزاری کی کیفیت بھی پیدا ہوتی رہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس شکرگزاری اور اللہ تعالیٰ کا عبدِشکور بننے کی وجہ سے ہر موقع پراللہ تعالیٰ کے اس وعدے سے بھی فیض پاتے رہے کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8) اگر تم شکر گزاربنے تو مَیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ پس جلسے کے دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے افضال کو دیکھ کر اُس کے شکر گزار رہے، اس کے آگے جھکتے رہے اور ہمارے بعض خدشات اور تحفظات کوخداتعالیٰ نے اپنے فضل سے دورفرمایااوربے شمار برکتوں کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا۔ پس ان افضال، اللہ تعالیٰ کے رحمانیت اور رحیمیت کے نظارے جو ہم نے دیکھے ان کے جاری رکھنے کے لئے یہ کیفیت ہمیشہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش اور جستجو کے لئے کوشش کرتے رہیں، اس سے فضل مانگتے رہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیاکاہویادین کاانجام کو نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ فرمایاکہ ’’اور اگر غورکرکے دیکھوتو ظاہر ہوگاکہ دنیاکی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں۔ خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہورہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ سووہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اُس کی طاقت سے باہر ہیں اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔ فرمایا ’’اسی طرح خداکی رحیمیت تب ظہورکرتی ہے کہ جب انسان سب توفیقوں کو پاکر خداداد قوتوں کوکسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتاہے اور جہاں تک اپنا زوراور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتاہے تواُس وقت عادتِ الٰہیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتابلکہ ان کوششوں پر ثمراتِ حسنہ مترتب کرتاہے۔ پس یہ اس کی سراسررحیمیت ہے کہ جوانسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 422-421۔ حاشیہ نمبر 11)

شکر گزاری

پس جلسہ کے کاموں کی منصوبہ بندی، کارکنان کی محنت، انتظامات جس کے نتیجہ میں بہتری اور کامیابی ایک مومن کو خداتعالیٰ کے فضلوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور وہ بجائے تمام امور کے عمدگی سے طے پا جانے کو اپنی طرف منسوب کرنے کے اسے خداتعالیٰ کافضل قراردیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ بنتاہے۔ اور حقیقی عبدِ شکور بننا یہی خداتعالیٰ کی شکرگزاری ہے یا خداتعالیٰ کی شکرگزاری جو ہے وہی انسان کوعبدِ شکوربناتی ہے۔

جیساکہ مَیں نے پہلے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اگر تم شکر گزاربنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس شکر کے مضمون پر توجہ دلائی ہے کہ مومنین کی نشانی شکرگزاری ہی ہے۔ لیکن غیر مومن شکرگزار نہیں ہوتے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے انسان کے ناشکرے پن کاذکریوں فرماتاہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَشْکُرُوْنَ(البقرة: 244) کہ اللہ لوگوں پر یقیناًبڑافضل کرنے والاہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اتنے فضلوں اور احسانوں کے بعدجو شکرگزاری کا حق ہے اُسے اداکرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ انسان کی روحانی ترقی کے بھی سامان فرماتاہے اور دنیاوی اور ظاہری ترقی کے بھی سامان فرماتاہے۔ پس ایک مومن جب یہ دونوں طرح کے فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے برستے دیکھتاہے تواللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں پہلے سے بڑھتاہے۔ اور خداتعالیٰ کی شکرگزاری کا سب سے بہترین طریق اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے جسے ہروقت ہرمومن کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے۔ اس کے آگے جھکنا ہے اور اپنے ہر کام کے نیک نتائج کو خداتعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کرنا ہے، اس کے فضل کی طرف منسوب کرنا ہے۔ اور یہی حقیقی مومن کہلاتے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کے نام کے ساتھ ہر کام کے شروع کرنے کا ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت اور رحیمیت کواپنے کاموں کے انجام تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اور جب ایک مومن کواس بات کاادراک حاصل ہو جاتاہے تو اس بات کے علاوہ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہوتاکہ اس شکرگزاری کا اظہار اللہ تعالیٰ کی حمدکرتے ہوئے کرے۔ اور حمد کے لئے بھی قرآن کریم نے ہی ہمیں صحیح طریق بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة فاتحہ میں ایک مومن کو واضح فرمادیاکہ جب تم میرے نام کے ساتھ کام شروع کرتے ہو اور میرے فضلوں کے نظارے دیکھتے ہوتو پھر یہ اعلان کرو۔ اپنی عبادتوں میں طاق ہو جاوٴ اور وہاں سے یہ اعلان کرو پانچوں وقت کی نمازوں میں، اور نمازوں کی ہررکعت میں اور نوافل میں اور دعاوٴں میں کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الفاتحہ: 2) کہ سب تعریف اور حمداللہ تعالیٰ کی ہے جس نے میرے لئے یہ تمام سامان مہیا فرمائے۔ پس ایک مومن کو، ایک حقیقی شکرگزار کو، اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعامات افضال جو خداتعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے نتیجہ میں ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں اسے خداتعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناتے ہیں۔ حقیقی حمد کا ادراک اس میں پیداہوتاہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ثنا اور شکر کی بجائے حمد کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے، حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیاہے نہ کہ شکر اور مدح سے۔ کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ ان کا قائمقام ہوتاہے۔ مگراس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے‘‘۔ (کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7۔ صفحہ 107۔ (ترجمہ از عربی عبارت) تفسیرحضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 76)

پس جب ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں تویہ صرف سادہ شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اس بات کا اقرار ہے کہ ایک تو اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سامان بہم پہنچائے پھر ہماری محنت یا کوشش جو بھی ہم نے کی اور جس حد تک کی اس کو نوازتے ہوئے ہماری دعاوٴں کو قبول کرتے ہوئے اس کے پھل عطافرمائے اور پھر صرف یہی نہیں کہ اس حدتک انعامات اور فضلوں سے نوازا جس قدرہماری محنت اور دعا تھی بلکہ جہاں جہاں ہماری کوششوں میں کمیاں رہ گئیں، ہماری دعاؤں میں کمی رہ گئی، اس کی اصلاح کرتے ہوئے اس کے بہترین اور خوبصورت اور احسن ترین نتائج بھی پیدافرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری معمولی انسانوں کی شکرگزاری کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی حمدکرتے ہوئے کہ ہماری پردہ پوشی فرمائی ہے کمیوں کو دورکیااورنہ صرف یہ کہ پردہ پوشی فرمائی بلکہ خود ہی ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کوششوں کے معیار بھی بہتر کر دیئے اور اتنے بہتر کر دیئے کہ انسانی کوششوں سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے پیدافرمائے۔ پس جب ہم اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں توپھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوشخبری دیتاہے کہ تم میری حمد اور شکر گزاری کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میرے شکرگزاربنتے ہوئے، جو اچھے نتائج تم نے حاصل کئے ہیں انہیں میری طرف منسوب کرتے ہوئے جب اپنی سوچوں کے دائرے اس طرح چلاتے ہوتوپھرایسے لوگوں کو مَیں نوازتاہوں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا مضمون اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، طاقتوں اور تمام صفات کا ادراک پیداکرنے والا ہے جسے ہمیں سمجھنے کی اور ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے بعد، اس کی حمد کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا شکرگزاربننے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور یہ شکرگزاری بندوں کا حق ہے۔ ہر شخص جس نے ہمارے لئے کچھ بھی کیاہواس کا حق ہے کہ ہم اس کے شکرگزاربنیں اور یہی عبادالرحمٰن کا شیوہ ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے تو یہ فرمایاہے کہ بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کے، حقوق اللہ کی ادائیگی کابھی حق ادانہیں ہو سکتا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ216)

آنحضرتﷺ جو شکر اور احسان کے بدلے اتارنے کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تھے۔ جہاں تک کوئی انسان پہنچ نہیں سکتا، آپؐ فرماتے ہیں کہ ’’جوانسانوں کا شکر ادا نہیں کرتاوہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘۔ (سنن الترمذی۔ کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک۔ حدیث نمبر 1954)

آپﷺ تو جو کوئی معمولی سا بھی کام آپؐ کا کرتاتھاآپؐ کی خدمت کرتاتھا، بے انتہاشکر اداکیاکرتے تھے۔ یہ آپ کا جذبہ شکر گزاری ہی تھا جس کے تحت آپؐ نے انصارِمدینہ کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ میں رہنے کا فیصلہ فرمایااورمدینہ کواپناوطنِ ثانی قراردیااورروزمرہ کی زندگی میں آپؐ کے ان گنت واقعات ہیں جو آپؐ کی شکرگزاری کے جذبات کے تحت دوسروں کو نوازتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں۔ پس یہ شکر گزاری کے جذبات کا اظہار بھی آپﷺ کا ایک عظیم اُسوہ ہے۔ اس کی ایک حقیقی مومن کوپیروی کرنی بہت ضروری ہے۔ ہر وقت اس کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جیساکہ مَیں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے تمام کام بخیروخوبی اپنے انجام کو پہنچے اس کے لئے ہم جہاں سب سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے شکرگزار ہیں وہاں ان سب کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے تمام کاموں اور امورکی انجام دہی کے لئے دن رات ایک کی ہے۔ کئی کارکنان ہیں جنہوں نے جلسہ سے کئی دن پہلے تک، کئی کئی گھنٹے وقارِ عمل کیااورحدیقہ المہدی میں ایک عارضی شہر قائم کر دیااوراب تک یہ وقارِعمل چل رہے ہیں جب وہاں سے سب کچھ اٹھانا بھی ہے، سمیٹنا بھی ہے، صفائی بھی کرنی ہے۔ بے شک یہ مارکیز جو لگائی جاتی ہیں کمپنی والے خودہی اپنی چیزیں اتاررہے ہیں۔ لیکن پھر بھی وائینڈاَپ کابہت زیادہ کام ہوتاہے جو کافی دن تک چلتارہتاہے۔ بہرحال یہ سب لوگ شکریہ کے مستحق ہیں۔ جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کو بھی، ان کارکنان کا بھی اور باقی تمام شعبوں کے کارکنوں کابھی شکرگزاراوراحسان مندہوناچاہئے۔

جہاں تک غیرازجماعت مہمانوں کا تعلق ہے جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے وہ خاص طورپر مجھے شکریہ اداکر کے گئے ہیں کہ ان کابے حد خیال رکھا گیا۔ کھانا، پینا، رہائش، ٹرانسپورٹ غرض جو جوشعبہ بھی ان کی خدمت پر مامور تھاان سب نے بلا استثناء تمام خدمت کرنے والوں کی بے انتہا تعریفیں کی ہیں۔ اور اس بات نے ہمیشہ کی طرح انہیں متأثر بھی کیا ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ کس طرح ہمہ وقت معمولی معمولی خدمت بھی انتہائی خوش دلی سے اور خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے تھے۔

جلسہ کی خوش کن بات

اس سال جلسہ کی خوش کن بات یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جو تنقیدکے بڑے ماہر ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی سقم یا کمی نکال لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر کام میں مکمل طورپر پرفیکشن (Perfection) توبہرحال نہیں ہو سکتی۔ بہرحال یہ اچھی بات ہے شعبہ جات کو اپنے کاموں میں بہتری کی طرف راہنمائی مل جاتی ہے۔ مَیں ان کی عادت یانقائص کی نشاندہی پر اعتراض نہیں کر رہا جیساکہ مَیں نے کہا کہ اچھی بات ہے راہنمائی ہو جاتی ہے اور عادت کا بھی جو لفظ مَیں نے استعمال کیا ہے اس لئے بھی کیاہے کہ بعض لوگ عادتاً بھی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں کہ چھٹّا پھینک دیتے ہیں۔ جیسے فضل کا چھٹّاپھینکاجاتاہے، یہ بھی چھٹاپھینک دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی اعتراض تو ٹھیک ہو جائے گا۔ تو ان کی عادت بھی انتظامیہ کو فائدہ دیتی ہے۔ بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھاکہ اس سال میرے پاس ابھی تک نقائص کی نشاندہی کرنے والوں کے جو خطوط آئے ہیں انہوں نے بھی انتظامات کی تعریف کی ہے۔ اور یہی لکھا ہے کہ ہر شعبہ میں جس حد تک بہتری پیداکرنے کی کوشش ہو سکتی تھی یہ کوشش نظر آئی ہے بلکہ بعض جو لوگوں کے ادھراُدھر پھرنے اور گپوں میں وقت گزارنے کا شکوہ کیا کرتے تھے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ اس دفعہ شاملینِ جلسہ کی جلسہ کے پروگراموں میں شمولیت اور سنجیدگی میں بہت بہتری نظر آئی اور بہت توجہ نظرآئی۔ اسی طرح عبادت، دعاوٴں اور ذکرِ الٰہی کی طرف بھی توجہ نظر آئی ہے۔ اس لئے شاملینِ جلسہ بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بھی اس جلسہ میں اپنے اُس مقصد کو بھی جس کے لئے وہ آئے تھے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہی جلسہ کا مقصدہے جیساکہ مَیں نے کہا ہے اور ان کوکرناچاہئے تھا۔ اللہ کرے یہ جو تبدیلی لوگوں میں نظرآئی ہے دائمی تبدیلی ہو۔

پھر جماعت احمدیہ عالمگیرکے مختلف ممالک میں بسنے والے احمدی جو عموماً UK کے جلسہ کے انتظارمیں بھی ہوتے ہیں اور بڑے غورسے اسے دیکھتے اور سنتے بھی ہیں اور احمدیوں کوجو خاص طورپرUK اور جرمنی کے جلسے کا انتظار بھی ہوتاہے۔ یہ جلسے کا دیکھنا اور سننا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعے سے آسان ہواہے ورنہ پاکستان کی جماعتوں میں تو جلسہ نہ ہونے کی وجہ سے محرومی کا احساس بہت بڑھ گیا تھا۔ بہرحال جب ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا جلسے کی کارروائی کو دیکھتی ہے اور سنتی ہے توایم ٹی اے کو شکریہ اور تعریف کے بے شمار خطوط اور ای میلزوغیرہ آتے ہیں۔ ایم ٹی اے کی انتظامیہ نے بتایا کہ اس سال میں اتنی زیادہ تعدادمیں آ ئے ہیں اور ویسے تو ہر سال ہی آتے ہیں لیکن اس سال تعداد بڑھی ہے کہ جواب دینا ممکن نہیں۔ بہرحال ان سب کا شکریہ جنہوں نے ایم ٹی اے کے کارکنوں کی کوششوں کو سراہا ہے۔ ایم ٹی اے کو براہ راست پیغامات کے علاوہ مجھے بھی بہت سے لوگ مبارکباد اور شکریہ کے خط لکھتے ہیں جن میں خاص طورپرایم ٹی اے کے کارکنان کا ذکر بھی ہوتاہے کہ ہماراان تک سلام بھی اور شکریہ کا پیغام بھی پہنچادینا۔ ماشاء اللہ یہ کارکنان جوکام کرنے والے ہیں ایم ٹی اے میں جن کی اکثریتvolunteersکے طورپر کام کرتے ہیں۔ اور سال ہا سال سے مستقل مزاجی سے کام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ سب شکریہ کے مستحق ہیں۔ مَیں جماعت کی طرف سے بھی اور اپنی طرف سے بھی ان سب کا شکریہ اداکرتاہوں۔ یہاں UK میں ایم ٹی اے انٹرنیشنل میں کام کرنے والے ہیں ان کے علاوہ بھی دنیاکے بڑے ممالک میں ایم ٹی اے کے volunteersکام کررہے ہیں، ان کابھی شکریہ اداکرتاہوں۔ اس کے علاوہ جماعت کی ویب سائٹ ہے alislam.orgکے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ بھی جلسہ کے پروگراموں کو دکھانے میں بہت کردار ادا کر رہی ہے۔ اس میں بھی بے شمار volunteersکام کر رہے ہیں۔ اور کئی کئی گھنٹے وقت دیتے ہیں۔ امریکہ سے اس کا انتظام ہوتاہے۔ ڈاکٹرنسیم رحمت اللہ صاحب اس کے انچارج ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال اتنا زیادہ لوگوں نے اس کو استعمال کیا کہ اس کی سروس متاثر ہو رہی تھی اور رک رک کر لوگ دیکھ رہے تھے اور بہت زیادہ شکوے کے پیغام آئے کہ اس کی مزیدبہتری کی طرف توجہ دیں۔ بہرحال یہ تو ایک محدود تعدادکے لئے ہوتاہے لیکن اس سال بہت کثیرتعداد میں اس کو استعمال کیا ہے۔ alislam.org کی جوٹیم ہے اس کو بھی اب سوچنا چاہئے کہ کس طرح اس کا معیار مزیدبہتر کیاجا سکے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جب وِزٹ کرتے ہیں تو فائدہ اٹھائیں۔ اس سال سکیورٹی کے حوالے سے بھی بعض فکریں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے دُورفرمایااورصرف خیالی فکریں نہیں تھیں یا پاکستان کے واقعہ کی وجہ سے ڈر اور خوف نہیں تھا بلکہ حقیقی فکر تھی۔ ایک واقعہ ایساہوا بھی کہ شواہد بتاتے ہیں کہ جو بھی تھے نیت بد تھی۔ لیکن سکیورٹی کے کارکنان کے چوکس رہنے اور بروقت انتظام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شر سے محفوظ رکھا۔ اس لحاظ سے تمام سکیورٹی کے انتظامات اور یہ شعبہ جواس سال تقسیم کارکے لحاظ سے بھی مزیدوسیع کیا گیا تھا یہ سب لوگ جو ہیں شکریہ کے مستحق ہیں۔ بعض کارکنان نے تو شاید مشکل سے دوتین گھنٹے ہی آرام کیا ہو گااورباقی وقت اپنی ڈیوٹیوں پر رہے ہیں۔ جیساکہ مَیں نے کہا ہے حفاظت اور خدمتِ خلق کے شعبے کی عمومی رنگ میں بہترین کارکردگی رہی ہے۔ لیکن ایک دوایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حفاظت اور خدمتِ خلق کے کارکنان سے غلط فہمی کی وجہ سے بعض لوگوں کو تکلیف بھی پہنچی۔ جیساکہ مَیں نے کہاکہ یہ غلط فہمی کی وجہ سے ہواہے جس کے لئے ایک دوفیملیوں کو جن کو تکلیف پہنچی ہے ان سے معذرت ہے۔ لیکن جس پریشر کے تحت، جس دباوٴ کے تحت یہ کارکنان کام کر رہے تھے اور بعض کو جیساکہ مَیں نے کہا آرام کا وقت ہی نہیں مِلا تھا۔ ان حالات میں ایسے معمولی واقعات ہو جاتے ہیں اس لئے میری درخواست ہے کہ جن سے یہ زیادتی ہوئی ہے وہ ان کارکنان کو معاف کردیں اور دل میں کوئی رنجش نہ لائیں۔ بہرحال عمومی طورپر ڈیوٹی دینے والے غیرمعمولی چوکس رہے ہیں اور بڑی گہری نظر سے ہر طرف نظر رکھ کر کام کیا ہے اور میری توقعات سے بڑھ کر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ جو خدام یہاں UK کے جلسہ پر ڈیوٹیاں دیتے ہیں، ان میں مستقل ڈیوٹیاں دینے والے بھی ہیں۔ یہ جلسہ کے صرف چندنہیں بلکہ گزشتہ چھبیس سال سے ڈیوٹیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مَیں ان کا شکریہ اداکرناچاہتاہوں۔ خاص طورپرمسجدفضل میں مستقل ایک جذبے سے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے ہیں اپنے کام کاحرج کرکے وقت دے رہے ہیں خاص طورپر مسجدفضل کے حلقے کے لوگ۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے۔

اس دفعہ حفاظت کے حوالے سے بھی ذمہ داری کے عجیب عجیب نظارے دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک لجنہ کی عہدیدار نے مجھے لکھاکہ وہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ مارکیٹ کی طرف گئیں کیونکہ بیچ میں سے گئیں تھیں باہر سے نہیں گزر رہیں تھیں اس لئے چیکنگ کا خیال نہیں تھا انہوں نے ویسے بھی بیج لگایاہواتھا، لیکن وہاں سے نکلتے ہوئے ایک خادم نے کہا کہ آپ اپنے بیگ چیک کروائیں۔ لجنہ کی عہدیدار ان کہتی ہیں ہم نے انہیں بہت کہا کہ ہمارے بیج لگاہوا ہے کہ ہم ڈیوٹی پہ ہیں، اندرسے آرہی ہیں اور اندر دوبارہ واپس جارہی ہیں، باہر نہیں نکلیں۔ لیکن اس نے کہا کہ بیگ وغیرہ چیک کئے بغیر مَیں تو آپ کونہیں جانے دوں گا۔ کہتی ہیں ہم نے پوچھا آپ کو یہ چیکنگ کے لئے کس نے کہا ہے؟مقصدیہ تھاکہ کوئی علیحدہ سے خاص ہدایت آئی ہے۔ اس نے سادہ سا جواب دیا، اس نے میرا حوالہ دیا کہ خطبہ میں حضور نے کہا کہ سکیورٹی والے بھی اگر باہر نکلتے ہیں تو ان کو بھی چیک کرنا ہے۔ اس لئے میرے لئے تو یہی ہدایت کافی ہے۔ اس لئے مَیں تو آپ کو چیک کئے بغیر نہیں جانے دوں گا۔ چاہے افسرمیرا کہتاہے یا نہیں کہتا۔ تو یہ ڈیوٹی والوں کا جذبہ تھا۔ اس سے مجھے وہ واقعہ بھی یاد آگیا۔ ایک دفعہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے وقت کی بات ہے احرارنے جب شرارت کرنے کا ارادہ کیااورکافی زیادہ خطرہ بھی تھا توبہشتی مقبرہ کے لئے حفاظت کے لئے آپ نے خاص طورپر ڈیوٹیاں لگائیں۔ ہرایک کو خاص کوڈبتایاکہ اس کے بغیر تم نے کسی کو اندر نہیں داخل ہونے دینا۔ چیک کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓ ی ایک دفعہ رات کو خود گئے تو ڈیوٹی والوں نے روک لیا، انہوں نے اپنا نام لیا۔ اس نے کہا حضور! مَیں نے آپ کو پہچان تو لیا ہے لیکن مجھے آپ کا حکم ہے کہ کوڈ کے بغیر جانے نہیں دینا۔ اس لئے آپ نہیں جاسکتے۔ تو حضرت خلیفہ ثانیؓ نے اس کی بڑی تعریف کی۔ یہ بڑالمباواقعہ ہے۔ بہرحال اگرخلیفہٴ وقت کی ہدایت پر خلیفہٴ وقت کوخود روکا جا سکتاہے توعہدیداران کاروکنا کوئی ایسی بات نہیں۔ بعض نئے انتظامات ہوں تواندازے صحیح نہیں ہوتے اور اندازے میں کمیاں بھی رہ جاتی ہیں۔ اس دفعہ بھی جلسہ گاہ میں داخلے کے گیٹ سکینر کی وجہ سے محدودتھے اس لئے خاص طورپرعورتوں کو لمبے عرصہ کے لئے انتظارکرناپڑاجس کا ذکر مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کیا تھا۔ بعض ڈیوٹی والی خواتین نے مجھے لکھاکہ رش اور لمبے انتظارکی وجہ سے عورتوں اور چھوٹے بچوں کو دواڑھائی گھنٹے تک اور سایہ دارجگہ کی کمی ہونے کی وجہ سے دھوپ میں کھڑاہوناپڑا۔ لیکن عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ بڑے صبراورتحمل سے اتنالمباعرصہ اپنی باری کا انتظارکرتی رہیں۔ اور کیو (queue) میں (لائن میں) لگی رہیں۔ ذرابھی بے صبری اور ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ بچے بھی بڑی تکلیف میں تھے لیکن بڑے حوصلے سے انہیں بہلاتی رہیں۔ ایک کارکنہ لکھتی ہیں کہ ان ماوٴں اور بچوں کی حالت دیکھ کر مجھے رونا آرہاتھا۔ اس لئے بھی کہ یہ بچوں سمیت تکلیف میں ہیں اور اس لئے بھی کہ یہ وہ احمدی مائیں ہیں اور یہ بچے ہیں جو جلسہ سننے کے لئے آئے ہیں۔ اور صرف اس لئے اتنے صبراورحوصلے کا مظاہرہ یہ عورتیں کر رہی ہیں کہ ان کا یہاں آنا دینی غرض سے ہے۔ بہرحال بعض کارکنات ان کی یہ حالت دیکھ کر روتی تو رہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتی تھیں کیونکہ اپنے فرائض کی ادائیگی بھی ضروری تھی۔ گوبعد میں انتظام بہترکر دیا گیااورپہلے دن والاواقعہ دوبارہ نہیں ہوا۔ جمعہ کی وقتی تکلیف ہوئی تھی۔ انتظامیہ خاص طورپر چھوٹے بچوں والی ماوٴں سے معذرت بھی کررہی ہے اور ان کی شکرگزاربھی ہے۔ اس بات نے ان احمدی عورتوں کے صبراورحوصلے کا اظہار بھی کروادیااوربتادیاکہ آج تک یہ صبرہم میں قائم ہے کیونکہ اگران عورتوں کی وجہ سے ذرابھی بے صبری کا اظہار ہوتا تو وہ داخلے کا جو نظام تھا، تمام نظام درہم برہم ہو جانا تھا۔ اس کی کامیابی یقیناًشامل ہونے والوں کے تعاون کی وجہ سے ہے۔ اس کے لئے پھر وہی خداتعالیٰ کی حمد کامضمون چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں میں اس بات کو قائم رکھتاہے کہ جماعت کے لئے تم نے قربانی دینی ہے۔ غیرازجماعت مہمانوں نے بھی خاص طورپر اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ ایساپُرسکون queلگاہوا تھاجوعجیب نظارہ پیش کرتاتھا۔

اسی طرح باقی شعبہ جات میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے نظارے دیکھے۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ گزشتہ سال بھی اچھا انتظام تھا لیکن اس سال پہلے سے بہترہوا۔ لنگرخانے کا شعبہ ہے۔ کھاناکھلانے کا شعبہ، کھاناپکانے اور کھلانے کے بہترین انتظامات تھے۔ دوسرے تمام شعبہ جات بھی، گویا تمام شعبے جو ہیں شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایمان اور اخلاص میں مزیدبڑھائے۔ (آمین)

پولیس نے بھی جلسہ کے بعدہماری انتظامیہ سے یہی کہاہے کہ غیرمعمولی سکون کے ساتھ تمام کام ہوئے ہیں جو ہمارے لئے بھی نمونہ ہیں۔ اسی طرح حکومت کے محکمہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی نے گزشتہ سال اپنے قواعد کی وجہ سے کچھ پابندیاں لگائیں تھیں اس سال نہ صرف یہ کہ گزشتہ کمیاں دورہوئی ہیں بلکہ محکمہ ہیلتھ اینڈسیفٹی نے انتظامیہ کو کہاکہ آپ کا کام اتنامثالی تھا کہ ہم اپنے محکمہ کی جو مجموعی رپورٹ چھپتی ہے اس میں اس کی مثال دوسروں کے لئے بھی پیش کریں گے۔

پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں ورنہ یہ ہماری کوششیں نہیں جو تمام متعلقہ لوگوں کے رُخ بھی ہماری طرف کر دیں۔ پس ہماری نظرتو ہمیشہ کی طرح خداتعالیٰ کی طرف ہی ہے اور ہونی چاہئے اور اس کی ہم حمد کرتے ہیں جواپنے فضلوں سے ہمارے کاموں کی پردہ پوشی بھی فرماتاہے اور بہترنتائج بھی پیدا فرماتاہے۔ اوردشمن کے منصوبوں کوبھی خاک میں ملاتاہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ اس نے اپناخاص ہاتھ رکھتے ہوئے اور نصرت فرماتے ہوئے تمام شعبہ جات کے کارکنان کو اپنے فرائض اداکرنے کی توفیق عطافرمائی۔ اورجیساکہ مَیں نے کہا کہ شاملین نے بھی اور ایم ٹی اے کے ذریعہ دیکھنے والوں نے بھی جلسے پر اللہ تعالیٰ کے افضال کی بارش ہوتے دیکھی جس کا اظہار خطوط میں ہو رہا ہے۔ اللہ ہم پر اپنے فضلوں کو ہمیشہ بڑھاتاچلاجائے۔ (آمین) اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے ہم پر جو حسنِ ظن فرمایا ہے اس پر ہم پورا اترنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ بنے رہیں۔ (آمین)

آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’جو کچھ ترقی اور تبدیلی ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے وہ زمانے بھر میں اس وقت کسی دوسرے میں نہیں‘‘۔

پس ترقی اور تبدیلی میں ہم نے قدم آگے بڑھاناہے انشاء اللہ اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی حمد کرنے والا بننا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہمیشہ ہم پر پہلے سے بڑھ کر نازل ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

آج ایک افسوسناک خبر بھی ہے۔ مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب جو ہمارے مصری احمدی تھے کل ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کی نمازِ جنازہ تو انشاء اللہ غالباًسوموارکے دن پڑھائی جائے گی۔ لیکن ان کے بعض کوائف پیش کرتاہوں۔ ان کی فروری 1936ء میں مصر میں پیدائش ہوئی۔ اس لحاظ سے تقریباً74سال عمر بنتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مو صی تھے۔ 1971ء سے کینیڈامیں تھے۔ 1955ء میں ان کی بیعت ہوئی تھی۔ بیعت کی کافی لمبی تفصیلات ہیں۔ الفضل میں طاہر ندیم صاحب جو عرب احمدیوں کا تعارف کروا رہے ہیں اس میں ان کے بارہ میں بھی لکھا ہے۔ ان کا ایک بیٹااورایک بیٹی ہیں۔ پہلی اہلیہ ان کی وفات پاگئیں تھیں پھر انہوں نے دوسری شادی کی ہے۔ یہ مختلف آئل کمپنیوں میں کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے پاس جماعتی عہدے بھی تھے۔ کینیڈامیں نیشنل سیکرٹری تبلیغ رہے ہیں اور 85ء میں یہاں پر انٹرنیشنل کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔ یہ جماعتی خدمات کا ایک خاص جوش اور ولولہ رکھتے تھے۔ عربوں کے لئے آڈیوکیسٹ تیارکرتے رہے۔ ایم ٹی اے کے لئے بہت ساراموادانہوں نے تیارکیاہوا ہے۔ ان کے کئی پروگرام آچکے ہیں۔ مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ انہوں نے اپنی بہت ساری بڑی بڑی رقمیں جماعت کے لئے پیش کیں۔ ان کے بارہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے یہ فرمایاتھاکہ مَیں نے ایک دفعہ حساب کیا یہ اپنی آمد کا ستّر(70)فیصد چندوں میں اداکردیا کرتے تھے۔ بہت زیادہ مالی قربانی کرنے والے تھے۔ پرنٹنگ پریس لگانے کے لئے انہوں نے مرکز میں خرچ کیااورمصرمیں دارالتبلیغ میں بھی اور کئی کتب انہوں نے تصنیف کی ہیں۔ محکمة الفکر عربی کی کتاب ہے۔ اجوبة عن الایمان، الاسلام الدین الحی، معجزہ الفلکیة، السیرة المطھرہ، دلائل صدق الانبیاءاوراسی طرح حضرت چوہدری سرظفراللہ خاں صاحبؓ کی ایک کتاب ہے حضرت خلیفہ الاوّلؓ نوردین۔ اس کا عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب “Revelation, Rationality, Knowledge & Truth” کا ترجمہ کیا۔ انہوں نے Five Volumeکی کمنٹری کی پہلی جلد کا بھی ترجمہ کیا 2003ء میں مجھے یاد ہے مسودہ میرے پاس لے کر آئے اور اس وقت کافی بیمارتھے اور کہا کہ مجھے اتنی توفیق مل جائے کہ یہ مکمل ہو جائے اور اس کی اشاعت ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو توفیق دی اور غالباً چاریا پانچ ماہ ہوئے کہ یہ شائع بھی ہو گئی ہے۔ اسی طرح دیباچہ تفسیرالقرآن کا ترجمہ انہوں نے کیا، گودوسرے ساتھی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ جلسوں پر اچھی تقریریں کیا کرتے تھے۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ مَیں نے ان کو پہلی دفعہ 1984ء میں غالباً گھانامیں دیکھا۔ یہ 84ء میں خلیفہ المسیح الرابعؒ کے کہنے پر گھانا گئے تھے۔ گھانامیں اس وقت بعض غیراحمدیوں کا خیال تھا کہ عرب مسلمان جو ہیں وہ احمدی نہیں ہوتے تواس وقت حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ نے ان کوبھجوا یاتھاکہ جائیں اور وہاں ان مسلمانوں میں جہاں عربوں کا زیادہ رسوخ ہے احمدیت کی تبلیغ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو وہاں کافی موقع ملااوراس کے بعد84ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہجرت کی تو یہ بھی یہاں آگئے تھے تو انہوں نے اشاعت تصنیف کاکام بہت کیا اور کچھ تھوڑا سا ابتلامیں سے بھی گزرنا پڑالیکن خداتعالیٰ کے فضل سے انتہائی اخلاص ووفاانہوں نے دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پھربہت اجر عطافرمایا۔ اب جب گزشتہ سات آٹھ مہینے سے زیادہ بیمار ہوئے تو مجھے لکھتے رہے کہ مَیں یہاں آناچاہتاہوں۔ جتنا وقت ہے وہ یہاں آپ کے قریب گزارنا چاہتاہوں تو مَیں نے کہا یہیں آجائیں تویہاں تشریف لے آئے۔ گیسٹ ہاوٴس میں جس دن آئے ہیں کافی بیمارتھے مجھے پتہ لگا تومَیں نے کہا کہ جاکے مَیں پتہ کرتاہوں لیکن ان کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ مَیں آرہا ہوں توبڑی تیز ی سے یہ اپنے کمرے سے نکلے ہیں اور میرے دفترپہنچ گئے۔ مَیں نے ان سے پوچھا بھی کہ مَیں خود آرہا تھا۔ تو انہوں نے کہا نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں آیاہوں، مَیں نے خود ملنے آنا تھا۔ اب وہ یہیں تھے۔ چند دن پہلے زیادہ بیمار ہوئے ہیں تو ہسپتال داخل ہوئے ہیں اور پھربیماری بڑھتی چلی گئی جو جان لیواثابت ہوئی۔ عربی کے جو پروگرام تھے ’’الحوارالمباشر‘‘ اس میں ان کا بڑا کردار رہا ہے اور کسرِ صلیب کے لئے انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة و السلام کے غلام ہونے کا حقیقی حق اداکیا ہے۔ بائبل کا گہراعلم رکھتے تھے اس وجہ سے بڑے بڑے پادری بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ کینسرکی بیماری تھی جو بڑے صبر سے انہوں نے گزاری ہے اور جب تک انتہا نہیں ہوگئی اس وقت تک خدمت کرتے رہے ہیں اور اپنے ساتھیوں پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیاکہ بیماری کتنی شدیدہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔ آمین۔ انشاء اللہ تعالیٰ جیساکہ مَیں نے کہا غالب خیال یہی ہے کہ سوموار کو ان کا جنازہ ہوگا۔ ا ن کے بچوں بیٹے اور بیٹی نے آنا ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 35 مورخہ 27؍اگست تا 2؍ستمبر 2010 صفحہ 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ اگست 2010ء شہ سرخیاں

    جماعتِ احمدیہ برطانیہ کے جلسہ کا کامیاب انعقاد،جلسہ کی بہتری اور کامیابی خدا تعالیٰ کے فضلوں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں، ایک دوسرے کا شکر گزار بننے کی ضرورت اور یہ بندوں کاحق ہے، یہی عباد الرحمٰن کا شیوہ ہے، تمام کارکنان، کارکنات اور ڈیوٹی والوں کا حضور ِ انور کی طرف سے شکریہ، شاملین ِ جلسہ کی پروگراموں میں شمولیت اور سنجیدگی میں بہت اور بہت توجہ، ایم ٹی اے کے تمام کارکنان کا بھی شکریہ، جماعت کی Official ویب سائٹ alislam.org کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دلانا، مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کی وفات اور خدمات سلسلہ کاتذکرہ۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06اگست 2010ء بمطابق 06ظہور 1389 ہجری شمسی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور