لیلۃ القدر کے مختلف پہلوؤں کا بصیرت افروز تذکرہ

خطبہ جمعہ 27؍ اگست 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

 اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْر۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ۔ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ(سورۃ القدر)

سورۃ قدر جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ:

یقینا ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔ اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔ قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ بکثرت نازل ہوتے ہیں اُس میں فرشتے اور روح القدس اپنے ربّ کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں سلام ہے۔ یہ سلسلہ طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔

لیلۃ القدر کی غیر معمولی برکت اور اہمیت

انشاء اللہ تعالیٰ چند دن تک ہم رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوں گے جس کے بارہ میں روایات میں آتا ہے کہ اس میں ایک رات ایسی آتی ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے۔ یعنی ایسی رات جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص نظر اپنے مخلص بندوں پر پڑتی ہے۔ جب ان کی خاص روحانی کیفیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور قرب کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمان رمضان کے آخری عشرہ کو عام طور پر بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ عموماً نمازوں، تراویح اور باقی نیکی کے کاموں میں بھی بہت سے ایسے لوگ جو رمضان کے پہلے اور دوسرے عشرہ میں زیادہ توجہ نہیں دیتے، آخری عشرہ میں نسبتاً بہتر حالت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جماعت میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو یہ رجحان رکھتے ہیں اور اس عشرہ میں تہجد اور نوافل کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس عشرہ میں ایک رات ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے، ایسی رات جو بڑی اہمیت کی حامل رات ہے۔ لیکن اگر صرف ہم اس آخری عشرے کے لئے ہی کوشش کریں اور باقی سارا سال کوئی ایسی کوشش نہ ہو تو کیا یہ چیز ایک انسان کو حقیقی مومن اور عابد بنا سکتی ہے؟ دیکھو خدا تعالیٰ تو دوسری جگہ پرکہتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد اس کی عبادت کرنا ہے۔ یہ بات کہ صرف ایک رات میں عبادت کر لو یا ایک رات کی تلاش میں دس دن عبادت کر لو تو تمہاری ساری زندگی کی عبادتیں پوری ہو جائیں گی، ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے دور لے جائے گی کہ تمہارا مقصدِ پیدائش عبادت کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ زِرّ بن حُبَیش کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت اُبیّ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ کے بھائی ابنِ مسعود کہتے ہیں کہ جو سارا سال عبادت کرے، وہ لیلۃ القدر کو پائے گا۔ انہوں نے کہا اللہ ان پر رحم کرے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ صرف اسی ایک رات پر تکیہ نہ کر لیں ورنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ رات رمضان میں آتی ہے اور یہ کہ آخری عشرہ میں آتی ہے۔ (مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 2777)

صحابہ تو اس بات کی گہرائی سے واقف تھے کہ صرف آخری عشرہ کی عبادتیں لیلۃ القدر دیکھنے کا باعث نہیں بن جاتیں بلکہ انسان کو اپنے مقصدِ پیدائش کو سامنے رکھتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے بندوں کی تسلی کے لئے ان کو اپنے خاص فضل سے نوازتے ہوئے ان سے اپنے قرب کا اظہار کرنے کے لئے وہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے، وہ حالت پیدا کر دیتا ہے جس میں ایک عابد بندے کو یہ خاص رات میسر آ جاتی ہے۔ اور ایک عجیب روحانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک مومن سے اس کے ایمانی عہد اور بندگی کے عہد کو پورا کرنے پر جس میں ہر لمحہ ایک مومن کے عمل میں ترقی نظر آتی ہے اور آنی چاہئے۔ اور رمضان کے روزے اور قرآنِ کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنا، اور عبادتوں کے معیار اس لئے بلند کرنے کی کوشش کرنا کہ رمضان میرے معیارِ عبودیت اور بندگی کو مزید بڑھائے گا ایک خاص رات رکھی ہے۔ ایک کوشش اور شوق کے ساتھ بلند معیار حاصل کرنے کے لئے مومن جب جُت جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے پر بے انتہا مہربان ہے، جو اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ بندہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میرے ان الفاظ کو سامنے رکھ کر کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن یعنی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نہ صرف اس کی دعا سنتا ہوں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ میں جو مَیں نے اپنے بندوں کے لئے ایک لیلۃ القدر کے پانے کاکہا ہے وہ بھی عطا کرتا ہوں۔ آسمان سے اتر کر بندوں کے قریب تر آ جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آج کی رات تم مانگو مَیں تمہیں عطا کروں گا۔ پس جب بندہ اپنا عہد پورا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قبولیتِ دعا بلکہ روحانی مقام میں اضافے کے وعدے کو پورا فرماتا ہے۔ ہمارا خدا یقینا سچے وعدوں والا خدا ہے۔ اگر کبھی کہیں کمی ہے تو ہمارے عملوں میں، ہماری کوششوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر سال رمضان کا مہینہ اور اس مہینے میں یہ دس دن رکھ کر جن میں ایک رات لیلۃ القدر ہے جو بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی انتہا ہے، بھیجتا ہے توپھر بندے کو اس ایک رات کی تیاری کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے؟۔ جس کو یہ ایک رات میسر آ جائے اس کو خدا تعالیٰ کی نظر میں جو مقام ملتا ہے وہ تمام زندگی کی عبادتوں کے برابر ہے۔ یعنی یہ ایک رات اس کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس کی شخصیت وہ نہیں رہتی جو پہلے تھی اور یہی حالت ہونی چاہئے۔ ورنہ تو اس ایک رات کا حق ادا نہیں ہو گا۔ ایک مومن کی تو شان ہی یہ ہے کہ اس کی روحانی حالت بہتری کی طرف ہمیشہ جاری رہے۔

اگر کسی کو یہ خیال آ جائے کہ مجھے لیلۃ القدر میسر آ گئی جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اس لئے اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کی چاٹ ایک مومن کو پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا عابد اور اس کے حکموں پر عمل کرنے والا بناتی ہے۔ پس جب یہ صورت پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا ایک جاری فیض شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر کہتا ہے کہ مَیں تمہاری دعائیں سنا کروں گا۔ تم نے میرا قرب پانے کی کوشش کی ہے، قدم اٹھایا ہے اور جدوجہد کی ہے، تم نے اپنے عہد کا پاس کیا ہے، اس کی نگہداشت کی ہے، اب اگر تم یہ عمل جاری رکھو تومَیں بھی تمہیں نوازتا رہوں گا۔ یعنی بندہ جب رمضان میں روحانی معیار بلند کرنے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ لیلۃ القدر کے نظارے دکھا کر اپنے قریب کرتا چلا جائے گا۔ ایک مومن کی اپنی ذات کے لئے لیلۃ القدر کا صحیح ادراک پیدا کرنے کے لئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقتِ اصفیٰ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 536 مطبوعہ ربوہ)

یعنی جب وہ بالکل پاک صاف ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے احکامات کا پابند ہو جائے۔ پس یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش ہی لیلۃ القدر کا فیض پانے والا بناتی ہے۔ اور رمضان کا مہینہ یہی روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے آتا ہے۔ اگر ہم اس کی قدر کریں گے تو لیلۃ القدر پا لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔

جیسا کہ مَیں نے ایک روایت بیان کی ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔ اس بارہ میں بعض اور احادیث مَیں نے لی ہیں۔ مَیں وہ بیان کرتا ہوں جس سے اس آخری عشرہ کی اہمیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص اہتمام کے بارہ میں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح آپ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

رمضان کی عبادت میں اہل خانہ کی شمولیت

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاواخر من رمضان حدیث نمبر 2024) (یعنی نیند بہت کم ہوتی۔ سوتے تو تھے لیکن بہت کم نیندہوتی)۔ اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔

پس اس حدیث میں یہ واضح ہے کہ آخری عشرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خود اپنی عبادت میں پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتے تھے۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عام دنوں کی عبادتوں کی لمبائی اور خوبصورتی کا توہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ (مسند احمد بن حنبل مسند عائشۃؓ جلد 8صفحہ 106 حدیث نمبر 24950 مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998)

یہ بھی حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ جواب دیا تھا، تو اس عشرہ میں کیا حالت ہوتی ہو گی۔ یہ تصور سے بھی باہر ہے۔ اور پھر جو انعامات کی اور فضلوں کی بارش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جوبارش اس عشرہ میں ہوتی ہے جس کا سب سے زیادہ فہم و ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تھا۔ توآپ یہ کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہ میرے اہلِ خانہ اس سے محروم رہیں۔ اس لئے آپ ان کو بھی اٹھاتے اور پھر جو روحانی حالت اور کیفیت ہوتی ہو گی اس کا انداز بھی یقینا عجیب ہوتا ہو گا۔ پس یہ نمونہ آپؐ نے ہمارے لئے قائم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ یہ حالت اپنے اور اپنے گھروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ یہی کیفیت ہے جسے ہم جب اپنے پر طاری کریں گے تو ہماری مغفرت کے سامان بھی ہو رہے ہوں گے اور حقیقی مومن بھی کہلا سکیں گے۔ چند اور روایات میں اس حوالے سے پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ آپؐ نے فرمایا کہ:

جو بجذبہ ٔ ایمان رضائے الٰہی کی غرض سے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، تو اس کے جو گناہ پہلے ہو چکے ہوں ان کی مغفرت کی جائے گی۔ اور جو لیلۃ القدر میں جوشِ ایمان میں رضائے الٰہی کی غرض سے رات کو اٹھے تو اس کے جو گناہ پہلے ہوچکے ہیں ان کی مغفرت کی جائے گی۔ (صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر حدیث نمبر 2014)

پس رمضان کے روزے بھی ایمان میں مضبوطی اور اللہ تعالی کی رضا سے مشروط ہیں ورنہ بھوکارہنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی غرض نہیں ہے اور لیلۃ القدر بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول سے مشروط ہے۔ خالص ہو کر

اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے۔ صرف دنیاوی اغراض سے کہ لیلۃ القدر مجھے مل جائے تو مَیں یہ دعا کروں گا کہ میرے دنیاوی مقاصد پورے ہو جائیں۔ تو یہ غرض نہیں۔ نیکیوں کے حصول کی کوشش ہونی چاہئے۔ بلکہ سب سے مقدم دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پھرایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح توجہ دلائی ہے۔

عقبہ جو حُرَیْث کے بیٹے ہیں سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو (آپ کی مراد لیلۃ القدر سے تھی) اگر تم میں سے کوئی کمزور ہو جائے یا عاجز رہ جائے۔ تو وہ آخری سات راتوں میں ہرگز مغلوب نہ ہو جائے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 2765)

پس دیکھیں، یہ کس قدر تاکید ہے کہ اگر کسی وجہ سے رمضان سے فیض نہیں بھی اٹھا سکے اور یہ خواہش رکھتے ہو کہ حقیقی مومن بنو تو اس عشرہ یا سات دن میں ہر عذر کو دور پھینکواور اپنی راتوں کو خدا تعالیٰ کی عبادت میں اس طرح گزارو جو عبادت کا حق ہے۔ جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ یہی کوشش ہے جو تمہاری روحانی ترقیات کا باعث بنے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنے گی۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ سالم بن عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ان کے والد صحابی تھے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے تھے کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے بعض کو وہ (آخری عشرہ کی) پہلی سات راتوں میں دکھائی گئی ہے اور تم میں سے بعض کو آخری سات راتوں میں دکھائی گئی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 2764)

پس اس حدیث سے پہلی حدیث کی وضاحت ہو گئی کہ صرف آخری سات راتیں نہیں بلکہ عشرہ ہے کیونکہ کوئی معین دن نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے بعض صحابہ نے پہلی سات راتوں میں دیکھی ہو اور بعض صحابہ نے آخری سات دنوں میں۔ لیکن یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 2763)

بہر حال جو بھی دیکھتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے۔ لیلۃ القدر سے گزرنے کے بعدجیسا کہ مَیں نے کہا اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے اور وہ اسی طرح ہو گی کہ پھر انسان میں ایک ایسی تبدیلی آئے جو روحانی ترقی کی طرف ہر آن لے جاتی رہے اور بڑھاتی رہے۔ یہ باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں، یہ لیلۃ القدر کا ایک پہلو ہے جس میں حدیثوں کی رو سے رمضان کے آخری عشرے کے طاق دنوں میں خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے اترنے کی ایک رات کا ذکر ہے۔ جس کے بارہ میں قرآنِ کریم فرماتا ہے، جیسا کہ مَیں نے سورۃ قدرتلاوت کی کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اور ہزار مہینے تقریباً 83 سال سے اوپر بنتے ہیں۔ یعنی اگر یہ رات میسر آ جائے تو انسان کی زندگی بھر کی دعائیں جو خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کی بہتری کے لئے ہیں وہ قبول ہو جاتی ہیں۔ انسان بہت ساری دعائیں کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہتر نہیں ہوتیں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہوں تو مومن جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھرمومن کا فائدہ دیکھتے ہوئے اس کے لئے وہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔ یا مومن کو وہ معیار حاصل ہو جاتا ہے جو اس کے روحانی معیار کو بلند کرتا ہے۔ ملائکہ کا نزول ایک مومن کے تعلق باللہ میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اور ایک رات کی عبادت ساری زندگی کی عبادتوں کے برابر ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے مقصدِ پیدائش کو پا لیتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا جب ایک دفعہ پا لیا تو پھر اسے پاتے چلے جانے کی جستجو اور کوشش میں ایک مومن لگا رہتا ہے۔ پس یہ رات ہے جس کی ایک مومن کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔

لیلۃ القدر کے وسیع تر معانی

لیکن اس کے اور بھی بڑے وسیع معنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اس سورۃ سے ظاہر ہے اس سورۃ میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ کہ ہم نے اسے قدر والی رات میں اتارا ہے۔ کس چیز کو قدر والی رات میں اتارا ہے؟ وہ یہ مکمل اور کامل شریعت ہے جو قرآنِ کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ یہ ایک تو رمضان میں قرآنِ کریم کے نازل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَہْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن (البقرہ: 186) کہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم اتارا ہے اور اس رمضان میں وہ لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیﷺ حدیث نمبر 4997)

پس مختصر یہ کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا اور جیسا کہ روایات سے پتہ چلتا ہے، اس مہینے میں جبرئیل علیہ السلام اس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دہرائی بھی کروایا کرتے تھے۔

پھر اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ زمانے کی ضرورت اس بات کی متقاضی تھی کہ کوئی کامل ہدایت اترے کیونکہ وہ ایک اندھیرا زمانہ تھا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر کہ خشکی اور تری میں فساد برپا تھا۔ پس وہ زمانہ جس میں یہ فساد برپا تھا تقاضا کر رہا تھا کہ ہدایت آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی اس اہمیت کی وجہ سے جو خشکی اور تری میں فساد برپا تھا جس کی نظیر نہ پہلے زمانوں میں ہوتی تھی نہ بعد کے زمانے میں ملتی ہے۔ اس لئے کامل ہدایت کی ضرورت تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل کتاب نازل فرمائی جس کا قرآنِ کریم میں دوسری جگہ اس طرح ذکر ملتا ہے۔ سورۃ دخان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کہ

حٰمٓ۔ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۔ اِنَّااَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ۔ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا۔ اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ۔ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ۔ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (الدخان: 6-2)

صاحبِ حمد اور صاحبِ مجد۔ حٰمٓ کا مطلب ہے صاحبِ حمد اور صاحبِ مجد۔ قسم ہے اس کتاب کی جو کھلی اور واضح ہے۔ یقینا ہم نے اسے ایک بڑی مبارک رات میں اتارا ہے۔ ہم بہر صورت انذار کرنے والے تھے۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے معاملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے امر کے طور پر جو ہماری طرف سے ہے۔ یقینا ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ رحمت کے طور پر تیرے رب کی طرف سے۔ بے شک وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پس یہ مبارک زمانہ اور مبارک رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر رحم فرماتے ہوئے کھلی، واضح، روشن اور ہدایت سے پُر کتاب اس انسانِ کامل پر اتاری جو انسانیت کی ہدایت کے لئے بے چین تھا۔ جو چاہتا تھا کہ بندہ اپنے پیدا کرنے والے کے آگے جھکے بجائے اس کے کہ بتوں کی پوجا کرے۔ جو چاہتا تھا کہ بندہ اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اسے تمام طاقتوں کا مالک اور بخشنہار سمجھے بجائے اس کے کہ ایک عاجز انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اس کی موت کو اپنی نجات کا ذریعہ بنا لے۔ وہ کامل رسول چاہتا تھا کہ انسان ظلموں سے بچے اور جہاں خدا تعالیٰ کے حق ادا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بھی حق ادا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس انسانِ کامل کی دعاؤں کو سنا اور انسانِ کامل پر قرآنِ کریم کی کامل شریعت اتاری۔ وہ کامل کتاب اتاری جو نہ صرف چودہ سو سال پہلے کے اندھیرے زمانے میں ہدایت کا موجب بنی بلکہ تا قیامت اب اس کامل کتاب نے ہر اندھیرے کو دور کرنے کا باعث بننا ہے۔ اور اس رسول نے اب تا قیامت خاتم الابنیاء اور آخری شرعی نبی رہنا ہے۔ اور جب بھی خدا تعالیٰ کے بے چین اور پریشان بندے زمانے کی تاریخ کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں گے اور چلّائیں گے تو اللہ تعالیٰ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم (کہ بے شک وہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے) کے قول کو پورا کرتے ہوئے بندوں کی تسلی کے لئے سامان پیدا فرماتا ہے۔ فرمائے گا۔ اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عاشقِ صادق کو آپؐ کی غلامی میں بھیجا ہے۔ اس غلامِ صادق اور مسیح و مہدی نے ایک جگہ لیلۃ القدر کی جو تفسیر فرمائی ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ایک نہایت لطیف نکتہ جو سورۃ القدر کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھینچتے ہیں۔ پس ان آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قویٰ میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہو گی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں۔ اور وہ حرکت حسبِ استعداد و طبائع دو قسم کی ہوتی ہے۔ حرکتِ تامّہ اور حرکتِ ناقصہ۔ حرکتِ تامّہ وہ حرکت ہے جو روح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیز کر کے رُو بحق کر دیتی ہے۔ اور حرکتِ ناقصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیز ہو جاتا ہے۔ مگر بباعث عدمِ سلامت استعداد کے وہ رُو بحق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتا ہے کہ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرۃ: 11) یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اس شخص کی پہلی حالت سے بدتر ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہوتا رہا کہ جب ان کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا تو ملائک کی اندرونی تحریک سے ہر یک طبیعت عام طور پر جنبش میں آ گئی۔ تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ ان راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خوابِ غفلت سے جاگ تو اٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن بباعث نقصان استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے۔ سو فعل ملائک کا جو ربانی مصلح کے ساتھ اترتے ہیں، ہر یک انسان پر ہوتا ہے۔ لیکن اس فعل کا نیکوں پر نیک اثر اور بدوں پر بد اثر پڑتا ہے۔ …… اور جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر چکے ہیں یہ آیتِ کریمہ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرۃ: 11)۔ اسی مختلف طور کے اثر کی طرف اشارہ کرتی ہے‘‘۔

فرمایا ’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلۃ القدر ہوتی ہے جس میں وہ نبی اور وہ کتاب جو اس کو دی گئی ہے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑی لیلۃ القدر وہ ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے۔ درحقیقت اس لیلۃ القدر کا دامن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک پھیلا ہوا ہے۔ اور جو کچھ انسانوں میں دلی اور دماغی قویٰ کی جنبش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک ہو رہی ہے وہ لیلۃ القدر کی تاثیریں ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ سعیدوں کے عقلی قویٰ میں کامل اور مستقیم طور پر وہ جنبشیں ہوتی ہیں اور اشقیاء کے عقلی قویٰ ایک کج اور غیر مستقیم طور سے جنبش میں آتے ہیں۔ اور جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نائب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو یہ تحریکیں ایک بڑی تیزی سے اپنا کام کرتی ہیں۔ بلکہ اسی زمانہ سے کہ وہ نائب رحمِ مادر میں آوے، پوشیدہ طور پر انسانی قویٰ کچھ کچھ جنبش شروع کرتے ہیں اور حسبِ استعداد اُن میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس نائب کو نیابت کے اختیارات ملنے کے وقت تو وہ جنبش نہایت تیز ہو جاتی ہے۔

پس نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے وقت جو لیلۃ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلۃ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظلّ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے۔ خدائے تعالیٰ نے اس لیلۃ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیسا کہ اس کے حق میں یہ آیتِ کریمہ ہے کہ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ (الدخان: 5) یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانے میں جو قیامت تک ممتد ہے، ہر یک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی اور انواع و اقسام کے علومِ غریبہ و فنونِ نادرہ و صناعات عجیبہ صفحہ عالم میں پھیلا دئیے جائیں گے۔ اور انسانی قویٰ میں موافق ان کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصئہ ظہور لایا جائے گا۔ لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پُر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہو گا۔ درحقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالیٰ کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے۔ اور لیلۃ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پُر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوعِ صبح صداقت تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 155تا 160)

پس یہ ہے وہ خوبصورت وضاحت جس کا ذکرجیسا کہ مَیں نے کہا آپ نے مختلف رنگ میں مختلف جگہوں پر کیا ہے، مختلف کتابوں میں کیا ہے۔ یہ ایک نمونہ ہے۔ اگر دنیا کو، خاص طور پر مسلمانوں کویہ بات سمجھ آ جائے، تو

اللہ تعالیٰ کے اس فرستادہ کی مخالفت کے بجائے اس کے مددگار بن جائیں۔ یہ دلیل جو آپ نے دی ہے بڑی زبردست دلیل ہے۔ اس کو ان لوگوں کی توجہ کھینچنے والا ہونا چاہئے جو اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں امن اور سکون چاہئے۔ اور زمانے کی اصلاح کے لئے کسی مصلح کی تلاش میں ہیں۔ یا مسیح و مہدی کے زمانے کی احادیث میں بیان کی گئی نشانیوں کے مطابق مسیح و مہدی کی آمد کے منتظر ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ کے ان الفاظ پر غور کرنا چاہئے۔

آپ فرماتے ہیں۔ جو مَیں نے پڑھا ہے اس میں ایک فقرہ یہ ہے کہ’’اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قویٰ میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہو گی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں اس وقت کے علماء اور نیک لوگوں کی تحریریں اگر پڑھیں اور اقوال دیکھیں تو سب اس بات کے گواہ ہیں کہ مسیح اور مہدی کے آنے کا وقت ہے۔ وہ کسی کی آمد کے انتظار میں تھے کہ کوئی مسیحا آئے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ فرمایا تو انہی میں سے ایک طبقہ مخالفت میں بڑھ گیا۔ اور بہت سوں نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے بجائے بگاڑ لی۔ اور بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا سامان کر لیا۔ اور آج تک یہ بے چینی لوگوں میں ہے۔ مختلف وقتوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اخباروں میں یہ بیان آتے رہتے ہیں کہ کسی مسیحا کی ضرورت ہے، کوئی کہتا ہے کہ مسلم اُمّہ کو سنبھالنے کے لئے خلافت کی ضرورت ہے۔ لیکن جب تک مسیح موعودنہیں آئے گا خلافت کس طرح جاری رہ سکتی ہے۔ یہ جوسب باتیں ہیں، یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یا بیان جاری ہوتے ہیں یا لوگوں کے احساسات ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آ گیا ہے۔ یہی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے۔ تبھی دلوں میں یہ سارا ارتعاش پیدا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرستادہ آتا ہے تو دو طرح کی حرکت ہوتی ہے۔ حرکتِ تامہ اور حرکتِ ناقصہ۔ ایک صحیح اور مکمل حرکت اور ایک کمزور اور نقص والی حرکت۔ حرکتِ تامہ سے جو صحیح حرکت ہے اس سے روح کی صفائی ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ سے ہدایت کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے۔ انسان عقل و فہم سے کام لے کر حق کو پہچان لیتا ہے۔ بعض نشانات ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے اشارے سمجھ کر حق کو پہچان لیتا ہے۔ بعض سعید روحوں کو اللہ تعالیٰ ویسے بھی رہنمائی فرما دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے سعید فطرت لوگ تو آپ کو پہچان گئے جن کے دلوں میں نیکی تھی، جنہوں نے اپنے دل، جذبات کو صحیح راستے پر چلایا۔ لیکن ابو جہل جیسے لوگ جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو عقل مند سمجھتے تھے وہ محروم رہ گئے اور ہلاک ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مثال لے لیں۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی مثال لے لیں۔ ان جیسے لوگ باوجود فاصلے کی دوری کے ساری دوریوں کو سمیٹتے ہوئے، سارے فاصلوں کو سمیٹتے ہوئے آپ کے قدموں میں آ گئے اور قبول کر لیا۔ اور مولوی محمد حسین بٹالوی جیسے لوگ جو قریب رہنے والے تھے جو بچپن کے دوست تھے وہ دشمنی کی وجہ سے محروم رہ گئے۔ یہ محروم رہنے والے جو ہیں ان کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ بباعث عدمِ سلامت استعداد کے رو بحق نہیں ہو سکتا۔ پس ان کی استعدادیں نیکی اور سلامتی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں۔ ان کے دل ٹیڑھے ہوتے ہیں۔ دلوں میں تکبر ہوتا ہے۔ اور خود پسندی ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بھی ان کی مددنہیں کرتا۔ ان کی رہنمائی نہیں کرتا۔ بلکہ ان کا مرض جو ہے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کی عقل و فہم میں حرکت بجائے مثبت طرف چلنے کے منفی ہو جاتی ہے۔ اور اس منفی سوچ کی وجہ سے ان کی جو روحانی حالت ہے وہ پہلی حالت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ پس آج بھی یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکرین کا ہے۔ اپنے زعم میں نیکی کی باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی نیکی کی باتوں کا اثر نہیں ہو رہا ہوتا۔ کیوں نہیں ہو رہا ہوتا؟ اس مخالفت کی وجہ سے جووہ حضرت مسیح موعودؑ کی کررہے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی اس کا منطقی نتیجہ پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی مخالفت کی جائے تو زبان میں نیکی کی باتوں کا اثر بھی نہیں رہتا۔ برائی کی باتوں کا بے شک رہ جائے۔ ان کی باتوں میں روحانیت نہیں ہوتی۔ ہر بات بے دلیل ہوتی ہے۔ الفضل انٹر نیشنل میں طاہر ندیم صاحب عربوں کے حالات سے متعلق مضمون لکھتے ہیں۔ اس دفعہ بھی الفضل میں طاہر ہانی صاحب جو ہمارے عرب ہیں اور ایک واقفِ زندگی بھی ہیں اور محنت سے عربی ڈیسک کا کام کر رہے ہیں۔ ان کے قبولِ احمدیت کی کہانی ان کی زبانی بیان ہو رہی تھی۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے ہانی صاحب کہتے ہیں کہ میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ احمدیت کے رد اور مخالفت میں مَیں ہر طرح کی مدد حاصل کروں، حربہ استعمال کروں لیکن جب انہوں نے بعض کتابیں پڑھیں تو دلیل کے لئے ایک عالم کے پاس گئے۔ وہ ان کے خیال میں ایسے صاحبِ علم تھے کہ وہ منٹوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو یہ سب دعاوی تھے یا جماعت جو دلیلیں پیش کرتی ہے ان کو ردّ کر سکتے تھے۔ یا ان میں صلاحیت تھی کہ وہ ردّ کر سکیں۔ بہر حال وہ کہتے ہیں کئی دن میں جاتا رہا۔ ان کو پڑھنے کے لئے کتابیں بھی دیں۔ وہ عالم صاحب ہر بات کے پڑھنے کے بعد اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے کہ دیکھو اس کتاب میں کیسی پُھس پھُسی بات لکھی ہوئی ہے۔ یہ کیا فضول بات لکھی ہوئی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس کی کوئی عقل سے کوئی قرآن سے کوئی حدیث سے دلیل دیتے یا اس کا رد ّکرتے۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ مصطفی ثابت صاحب کے ساتھ مَیں نے ان کا مناظرہ کروا دیا تو وہاں بھی سوائے ساری رات وقت کا ضیاع ہوا اور کچھ بھی انہوں نے نہیں کیا۔ آخر انہوں نے اس نام نہاد عالم کو جن کو وہ بہت بڑا عالم سجھتے تھے چھوڑ دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حق کی طرف رہنمائی فرمائی۔ (الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 27 اگست تا 2 ستمبر 2010 صفحہ 3-4)

تو باوجوددینی علم ہونے کے اللہ تعالیٰ کے فرستادے کے زمانے میں ان سب دینی عالموں کی روحانیت اور مذہب کے معاملے میں دلائل ختم ہو جاتے ہیں۔ اور مخالفت کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔ جب روحانیت ختم ہو جائے تو دینی فہم اور ادراک بھی نہیں رہتا، نہ رہ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تقویٰ سے آتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق سے آتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت شروع ہو جائے تو تقویٰ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خوابِ غفلت سے جاگ تو اٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن بباعث نقصانِ استعداد حق کی طرف رخ نہ کر سکے۔

پس آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی رغبت کا دعویٰ تو ہے لیکن روحانی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے نام پر شیطانی عمل ہیں۔ آج اگر جائزہ لیں تو ایسے ہی لوگ مذہب کے نام پر خون کرنے والے ہیں۔ اس اقتباس میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کا مَیں نے پڑھا، لیلۃ القدر کے حوالے سے ایک بہت اہم بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اصل لیلۃ القدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی اور اس لیلۃ القدر کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہے کہ نیک لوگ سیدھے راستے کی طرف آ رہے ہیں۔ آج بھی اس لیلۃ القدر کاوہی فیض ہے جو نیکی اور روحانیت میں ترقی کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن جو بدبخت ہیں، بدقسمت ہیں وہ راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔ ذریت شیطان بن رہے ہیں۔ تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیلۃ القدر کا زمانہ آپ کے نائب اور مسیح موعود کے ذریعے دوبارہ ظلی طور پر قائم ہوا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے اس زمانے کی لیلۃ القدر کی قدر اور پہچان کر کے ہم لیلۃ القدر کو پا سکتے ہیں۔ پس لوگوں کی حالتوں، دین پر صحیح ہونا اور سعید فطرت بنتے ہوئے فیض اٹھانا یا اپنے زعم میں دین کے ٹھیکے دار بن کر دین کے نام پر ظلم و بربریت پھیلانا اور خون کرنا اسی طرح مختلف طریقوں سے ایجادات کا پھیلاؤ، ان میں بعض ایجادات جو استعمال ہو رہی ہیں وہ انسانی قدروں اور اخلاق کی پامالی کا ذریعہ بن رہی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جو مومنوں کے فائدے کے لئے ہیں۔ کلامِ الٰہی اور علم و فضل کے پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ تو یہ جوسب مثبت اور منفی باتیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی آمد اور لیلۃ القدر ہونے کا ثبوت ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتوں کے اترنے کا سلسلہ مطلع الفجر تک رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لیلۃ القدر کا وہ خاص زمانہ تھا جس میں فرشتے سلامتی لے کر اترتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا اس دنیا سے واپسی کا وقت آگیا۔ آپ نے کامیابیاں دیکھیں، فتوحات دیکھیں۔ اسلام کا غلبہ ہو گیا۔ یہ مطلع الفجر تھا، وہ زمانہ تو لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ جب دین کامل ہوا، اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پوری ہوئیں، کامل اور مکمل شریعت قرآنِ کریم کی صورت میں نازل ہوئی تو وہ ایک دور تھا جوگزر گیا۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نائب رسول کے زمانے میں ظلی طور پر یہ ظہور میں رہتا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں یہ روشن صبح جو تھی وہ تیس سال تک رہی، اور پھر آہستہ آہستہ روحانی اندھیرے پھیلنے شروع ہوئے اور مکمل اندھیرا زمانہ بھی آ گیا جو آپ کی پیشگوئی کے عین مطابق تھا۔ پھر آپ کے ظل کی بعثت کے ساتھ ظلّی طور پر لیلۃ القدر کا ایک نیا زمانہ شروع ہو گیا۔ اب ہم جس زمانے سے گزر رہے ہیں یہ مطلع الفجر کے بعد کا زمانہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک لحاظ سے وہ دور بھی ختم ہوا۔ یہ دن جو طلوع ہوا ہے تو اس سے فیض پانے کے لئے اس زمانے میں اسلام اور احمدیت کے لئے جو فتوحات مقدر ہیں ان کو دنیاوی جاہ و حشمت سے بچانے کے لئے اور روحانیت کے معیار اونچے کرتے رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر سال بار بار رمضان میں لیلۃ القدر کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ لیلۃ القدر کا زمانہ تھا اور وہ تا قیامت قائم رہے گا۔ یعنی ایک لحاظ سے تو آپ کے وصال اور قرآنِ کریم کے اترنے کے ساتھ یہ ختم ہو گیا اور طلوعِ فجر ہوا لیکن ایک لحاظ سے جاری رہے گا کہ قرآن اور رمضان کے حق ادا کرو۔ تو امت کو بھی اس میں پیغام ہے کہ اُمّت بھی رمضان میں ایک رات جو لیلۃ القدر کی رات کہلاتی ہے اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار کے روحانی ماحول کو پیدا کر کے مؤمنوں پر احسان کیا ہے۔ پس اگر اس احسان کا احساس کرتے ہوئے ہم اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری شدہ فیض سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انعامات سے ہمیشہ نوازتا رہے۔ ہمارے دشمن جو اپنے زعم میں ہم پر دن رات تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمیں اندھیروں میں دیکھنا چاہتے ہیں، ہماری تباہی چاہتے ہیں اور اپنے زعم میں ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ الٰہی جماعتیں تو کبھی ضائع نہیں ہوتیں نہ برباد ہو سکتی ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تنگیاں جو آج کل ہمارے اوپر خاص طور پر پاکستان میں پیدا کی جا رہی ہیں، یہ لیلۃ القدر کے سامان لے کر آئیں اور پھرہم مطلع الفجر کاوہ نظارہ دیکھیں جو ہمیشہ کی سلامتی اور فتوحات کی صورت میں ظاہر ہو، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ 38 مورخہ 17ستمبر تا23ستمبر 2010صفحہ5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ اگست 2010ء شہ سرخیاں

    رمضان کے آخری عشرہ میں ایک ایسی رات آتی ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے یعنی ایسی رات جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص نظر اپنے مخلص بندوں پر پڑتی ہے۔

    اگر کسی کو یہ خیال آجائے کہ مجھے لیلۃ القدر میسر آگئی جس کی عبادت  ہزار مہینوں سے بہترہے اس لئے اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹاہے۔

    لیلۃ القدر سے گزرنے کے بعد اس کی قدر کرنا بھی ضروری ہے اور وہ اسی طرح ہوگی کہ پھر انسان میں ایک ایسی تبدیلی آئے جو روحانی ترقی کی طرف ہر آن لے جاتی رہے اور بڑھاتی رہے۔

    ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلۃ القدر ہوتی ہے۔

    اصل لیلۃ القدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعطاہوئی اور اس لیلۃ القدر کازمانہ  قیامت تک پھیلا ہواہے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیلۃ القدر کازمانہ آپ کے نائب اور مسیح موعودؑ کے ذریعہ دوبارہ ظلّی طورپر قائم ہوا ہے۔ ہمارے دشمن اپنے زعم میں ہم پر دن رات تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

    اللہ کرے کہ یہ تنگیاں لیلۃ القدر کا سامان لے کر آئیں اور پھر ہم مطلع الفجر کا  وہ نظارہ دیکھیں جو ہمیشہ کی سلامتی اور فتوحات کی صورت میں ظاہر ہو۔

    (قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات  کی روشنی میں لیلۃ القدر کے مختلف پہلوؤں کا بصیرت افروز تذکرہ)

    فرمودہ مورخہ 27؍اگست 2010ء بمطابق 27؍ظہور 1389 ہجری شمسی  بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور