جلسہ سالانہ علمی، روحانی اور تربیتی ترقی کا موقع

خطبہ جمعہ 22؍ جولائی 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ جمعہ میں مَیں نے میزبانوں اور ڈیوٹی کے کارکنوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے مہمانوں کی عزت و احترام کے ساتھ مہمان نوازی ایک حقیقی مومن کا وصف ہے۔ اور جلسے کے ان دنوں میں اس اعلیٰ خُلق کااظہار ہر کارکن کے عمل اور رویّہ سے ہونا چاہئے، چاہے وہ کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہو۔ آج پھر چند باتیں اسی حوالے سے کروں گا، لیکن آج مہمانوں کی ذمہ داری اور ایک مومن کو کیسا مہمان ہونا چاہئے؟ اس کا بھی ساتھ ذکر ہو گا۔ اِسی طرح جیسا کہ میرا طریق ہے عموماً جلسے کے حوالے سے بعض انتظامی ہدایات بھی دی جاتی ہیں سو اِن کی بھی یاددہانی کروائی جائے گی۔ یہ بہت ضروری ہے۔ گو یہ ہدایات جلسہ سالانہ کے پروگرام میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں لیکن تجربہ یہی ہے کہ اِن کے پڑھنے کی طرف لوگ کم توجہ دیتے ہیں یا اس کو اتنا اہم نہیں سمجھتے۔ ویسے بھی یاددہانی فائدہ مند چیز ہے اور اللہ تعالیٰ توفرماتا ہے کہ مومنوں کو نصیحت جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے احکامات کے تحت کی جاتی ہے وہ یقینا اُن کے لئے نفع رساں ہے اُن کو فائدہ پہنچانے والی ہے اور جماعت احمدیہ کی یہ بھی خوبی ہے کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا ہے، جس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں ہے، یا اس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے اور اُس کے رسول کے حکم کے ماتحت ڈالی گئی ہے۔ اور پھر آپ ہی وہ جماعت ہیں جس کو آج دنیا میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ نظامِ خلافت سے وابستہ ہیں۔ پس جب اس جماعت کے افراد کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ کے اور اُس کے رسول کے حوالے سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ خاص طور پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کرنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ہم ایک ہاتھ کے تحت اُٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں اور نصیحتوں کو سُن کر اُن پر توجہ دینے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ اس خطبہ میں کی گئی باتوں پر بھی آپ عمل کرنے والے ہوں اور اس جلسے میں جو میری طرف سے یا دوسرے مقررین کی طرف سے علمی، روحانی اور تربیتی مضامین بیان ہوں اُن کو سُن کر یہاں بھی اور بعد میں بھی اپنے گھروں میں جا کر عمل کرنے والے ہوں۔ گزشتہ جمعہ میں مَیں نے ایک حدیث کے حوالے سے میزبانوں اور کارکنوں کو بتایا تھا کہ ایک مومن جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کا یہ فرض ہے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، عزت اور احترام کرے اور عمومی مہمان نوازی تین دن رات تک ہے۔ گو بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ مہمان نوازی ہو سکتی ہے اور ہوتی رہی ہے لیکن یہاں تین دن رات کہہ کر مہمانوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بیشک میزبان کا کام ہے کہ عزت و تکریم کے ساتھ اپنے مہمان کی مہمان نوازی کرے اور یہ اُس مہمان کا جائز حق ہے، لیکن مہمان کو بھی اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر حدود سے زیادہ چاہو گے تو پھر بعض اوقات میزبانوں کی طبیعتوں میں بے چینی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس حدیث میں آگے یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے اور یہ کہہ کر مہمان کی غیرت کو بھی اُبھارا گیا ہے کہ اس سے زیادہ مہمان نوازی کروانا صدقہ ہے۔ اور کوئی صاحبِ حیثیت یا باغیرت اور عزت والا شخص صدقہ کھانا پسندنہیں کرتا۔ پھر اس حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ یہ جائز نہیں کہ مہمان اتنا عرصہ مہمان نواز کے پاس رہے، میزبان کے پاس رہے کہ اُس کو تکلیف میں ڈال دے۔ (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث نمبر6135)

ظاہر ہے جب تکلیف میں ڈالا جائے گا تو طبیعتوں میں بے چینی پیدا ہو گی اور ہوتی ہے۔ ہر ایک کے اپنے اپنے حالات اور مصروفیات ہیں۔ جماعتی نظام ہے تو اس کے بھی اپنے بعض مسائل ہیں۔ اس لئے مہمان نوازی ایسا خُلق ہے جو عزت و تکریم کا احساس پیدا کرنے کے لئے ہے، آپس میں محبت پیدا کرنے کے لئے ہے، پیار و محبت کے جذبات پیدا کرنے کے لئے ہے۔ جب تکلیف پہنچانی شروع کی جائے پھر اس میں بال آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جماعتی طور پر اجتماعی قیام گاہوں میں چاہے وہ مسجد کے ہالوں میں ہیں یا متفرق جگہوں پر ہیں ایک محدود وقت تک ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اُس کے بعد حکومتی کارندوں کی بھی نظر ہوتی ہے کہ وہاں رہائش کا جو بھی انتظام ہے، اُس کے اندر رہتے ہوئے، شرائط پوری کرتے ہوئے انتظام ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس لئے خاص طور پر یورپ سے باہر سے آئے ہوئے مہمان اس بات کا خیال رکھیں کہ یہاں جماعتی قیامگاہیں بھی ایک محدود وقت تک کے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔ اس لئے اگر زیادہ ٹھہرنا ہے تو پھر اپنا کوئی اور بندوبست کریں۔ لیکن اَور دوسرے بندوبست میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سامنے رکھیں کہ میزبان کو تکلیف میں نہ ڈالو۔ ہر بات کی تفصیل بیان کرنا یہ اسلام کا ہی خاصّہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر معمولی باتوں کو بھی سامنے رکھ کر ہماری ہر طرح سے تربیت فرمائی ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اُن کی پاسداری کرے۔ اِن بظاہر چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھنے سے بڑی نیکیوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے اور توفیق ملتی ہے اور ایک پیار اور محبت کرنے والا ایک دوسرے کے جذبات کا احساس کرنے والا معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ اور یہی ایک بہت بڑا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسے کے مقاصد میں سے ہمیں بتایا ہے کہ ایک پیار، محبت اور اخوت کا رشتہ قائم ہو اور معاشرہ قائم ہو۔ (ماخوذاز آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلدنمبر4صفحہ 352)

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس حسین معاشرے کی بنیاد جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اللہ اور رسول کی اطاعت اور اولو الامر کی اطاعت میں ہے۔ پس جتنے جتنے اطاعت کے معیار ہوں گے، یا بلند ہوتے چلے جائیں گے اُتنی ہی باتوں کو سننے اور عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ پس ہر آنے والے کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اطاعت کے معیار بھی بلند کرنے ہیں اور اس کے لئے کوشش بھی کرنی ہے تا کہ ہمارے پاؤں، ہمارے قدم پیچھے کی طرف نہ پھسلنے شروع ہو جائیں، تا کہ ہم جلسے کے فیض سے فیضیاب ہو سکیں۔ بعض لوگ یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں جو دو ہفتے کا یا تین ہفتے کا جماعتی انتظام ہے اُس کے مطابق ہی ہم ٹھہریں گے اور پھر اگر زیادہ ٹھہرنا ہوا تو اپنا انتظام کر لیں گے۔ لیکن عملاً بعض لوگ کئی کئی مہینے ٹھہرتے ہیں، انتظامیہ بھی تنگ آ جاتی ہے۔ پھر اگر جماعتی پروگراموں کی وجہ سے اُن جگہوں کی ضرورت ہو، اُن جگہوں سے اِن مہمانوں کو ادھر اُدھر کیا جائے تو اعتراض بھی کرتے ہیں، میرے پاس بھی بعض شکایتیں آتی ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے بھی میں درخواست کروں گا کہ ایک تو جو زبان دی ہے، جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کریں، دوسرے اطاعتِ نظام کا خیال رکھیں۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی اطاعت انسان کو نیکیوں کی توفیق دیتی ہے۔ اگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی اہمیت نہ ہوتی، معاشرے پر اس کا اثر نہ پڑ رہا ہوتا، انسان کے اخلاق پر اس کا اثر نہ پڑ رہا ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ہمیں ان باتوں کی طرف اتنی توجہ نہ دلواتے۔

محدود وقت کے لئے مہمان نوازی کا ایک حدیث میں جہاں ذکر آتا ہے، اس کی مزید وضاحت بھی ہوتی ہے۔ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جو ابی شریح خذاعی سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن تک ہے اور اس کی خصوصی خاطر داری ایک دن اور رات ہے۔ مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اُسے گناہگار کر دے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اُسے گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا وہ اُس کے پاس اتنا ٹھہرا رہے کہ اُس کے پاس کچھ نہ ہو جس سے وہ اُس کی ضیافت کر سکے۔ (صحیح مسلم کتاب اللقطۃباب الضیافۃ و نحوھا حدیث نمبر4514)

اب اگر میزبان ضیافت نہیں کر رہا، مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر رہا، چاہے وہ کسی مجبوری کی وجہ سے ہی ہو تو میزبان گناہگار بن رہا ہے اور پھر بات یہیں نہیں رُکتی۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں ذکر ہو چکا ہے کہ میزبان کو تکلیف میں نہ ڈالو۔ اب میزبان اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کرتا ہے اور اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتا ہے۔ پھر اگر وعدے کے مطابق قرض دینے والے کا قرض نہیں چکاتا تو پھر گناہگار بنتا ہے۔ پھر بعض دفعہ لمبی مہمان نوازی ہے، میزبان یا اُس کے گھر والے بھی، گھر میں سے کسی بھی فرد میں اس وجہ سے چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے کہ مہمان ہمارے گھر بیٹھا ہوا ہے، جاتا نہیں۔ چاہے غیب میں ہی سہی وہ مہمان کو کوسنے لگ جائے، بُرا بھلا کہہ دے تو پھر گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ اس سے مہمان کی عزت و تکریم نہیں رہتی۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضیافت نہ کر کے گناہگار ہونے کا ہی فرمایا ہے لیکن اگر اس کی جزئیات میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسی ایک لفظ میں بہت سی نصائح آپ نے فرما دیں۔ پھر ایک اور رنگ میں میزبان کو بھی توجہ دلا دی کہ تم مہمان کا جائز حق نہ دے کر اس فعل کو معمولی نہ سمجھو۔ اگر یہ فرض ادا نہیں کرو گے تو گناہگار بن جاؤ گے، تمہارا اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن مہمان کو فرمایا کہ پھر اس صورت میں تمہارا بھی اپنے میزبان کو گناہگار بنانے میں حصہ ہو گا۔ اس لئے تم بھی پوچھے جاؤ گے۔ تو دیکھیں بظاہر ایک چھوٹی سی بات ہے جو کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر ہر ایک اپنے اپنے حق اداکرے تو پھر نہ تو وہ میزبان گناہگار بنتا ہے اور نہ ہی مہمان گناہگار بننے والا یا بنانے والا بنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا جماعت پر یہ بڑا فضل ہے کہ 99.99 فیصد لوگ بات سنتے ہیں، ہدایات سنتے ہیں تو اِس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کو بھی چاہئے کہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھائیں اور جماعت کا جو حسن ہے اُس کو اور نکھارنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ کیا ضرورت ہے کہ معمولی لوگوں کی بات کو اتنا اُبھار کر پیش کیا جائے۔ یہ جو چند ایک لوگ ہیں، اِن کو جو نصائح کی جاتی ہیں وہ بھی فائدہ مند ہو جاتی ہیں۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جو نصائح فرمائیں تو مجموعی طور پر صحابہ کے عمل کو دیکھ کر نہیں فرمائی تھیں بلکہ کسی ایک آدھ کے عمل کو دیکھ کر ہی فرمائی ہوں گی۔ صحابہ میں سے اکثریت نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں پر پہنچی ہوئی تھی، بلکہ مہاجرین جب ہجرت کر کے مدینہ میں آئے ہیں تو ایک لمبا عرصہ انصار نے اُن کی ایسی خدمت کی جس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو بھائی بھائی بن گئے تھے۔ مؤاخات پیدا ہو گئی تھی اور گھر کے فرد کی طرح تھے، لیکن انصار کے رویّے باوجود اس کے کہ وہ مہاجر مستقل حیثیت سے ہی رہنے لگ گئے تھے اور ایک رشتہ بھی قائم ہو گیا وہ اُن کے ساتھ مہمانوں والا سلوک ہی کرتے تھے۔ اکثر اپنے سے بہتر خوراک وغیرہ کا انتظام اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے کرتے تھے۔ لیکن اُدھر مہاجروں کا بھی ایک رویّہ تھا۔ اُن میں ایسے تھے جو کہتے تھے کہ ہماری مہمان نوازی اس طرح نہ کرو۔ ہمیں اپنے حقوق میں سے اس طرح نہ دو۔ تم ہمیں بازار کا رستہ بتا دو تا کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوویں اور خود کمائیں۔ (ماخوذ از اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3ذکر’’عبدالرحمن بن عوف‘‘ صفحہ377دار الفکر بیروت2003ء)

سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اس کے کہ آپ کے صحابہ کی اکثریت نیکیوں پر قائم رہنے والی اور ہر بات کا خیال رکھنے والی تھی پھر بھی نصیحت فرماتے ہیں۔ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ چند ایک کی خاطر اتنی بڑی نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو مستقل اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے اس لئے کہ اُن کے معیار کم نہ ہو جائیں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی تھی جس نے ایسے اعلیٰ اخلاق دکھانے والے پیدا کئے، دونوں طرف سے ایسے اظہار کرنے والے پیدا کئے جن کی مثالیں نہیں ملتیں۔ اور پھر اس لئے بھی نصیحت ہوتی تھی کہ نئے آنے والے بھی جو میزبان بن رہے ہیں یا مہمان بن رہے ہیں اُن کی تربیت کے لئے یہ باتیں سامنے لا کر اُن کے نیکیوں کے معیار بلند تر کئے جائیں۔ پھر قرآن شریف بھی ہمیں فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات (سورۃالبقرۃ: 149) کا حکم دیتا ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے بنو۔ یہ حکم ہے۔ ایک تو ان باتوں کی طرف توجہ دلانے سے ہر ایک کی نیکیوں میں بڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ اگر نیکیوں میں آگے بڑھ رہے ہو اور دیکھ رہے ہو کہ میرا بھائی پیچھے رہ رہا ہے تو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بھی آگے لاؤ۔ نیکیوں کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے ہو تو جہاں نیکیوں میں آگے بڑھنے والوں سے مقابلہ ہے وہاں پیچھے رہ جانے والوں کو بھی کوشش کر کے اوپر لانا ضروری ہے تا کہ من حیث القوم ترقی کی طرف قدم بڑھتے چلے جائیں اور کوئی ایسا خلق نہ رہ جائے جس میں ہم میں سے ایک بھی اپنی استعدادوں کے مطابق کوشش نہ کر رہا ہو۔ یہ خوبصورتی اور حُسن اُس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب مومنین ایک جماعت کی صورت میں ہوں۔ پس جب نصائح کی جاتی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو یہ کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے نہیں ہوتیں یا پھر جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کی نیکیوں کے معیار بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ مہمان نوازی کے ذکر میں گزشتہ جمعہ میں مَیں نے کہا تھا کہ کسی کے یہ کہنے پر کہ غریب لوگ گھر میں دال کھاتے ہیں یا غریب ممالک میں بعض کو دال بھی نہیں ملتی لیکن امیر گوشت کھانے کے عادی ہیں، اس لئے لنگر میں عام طور پر جو عام لوگ ہیں، غریب ہیں اُن کے لئے تو بیشک دال پکا کرے، اُن کو بیشک دال کھلائی جائے اور امیروں کے لئے گوشت اور اچھا کھانا پکنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو سُن کر انتہائی ناپسند فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ جلسے کے مہمانوں کے لئے ایک ہی طرح کا کھاناپکاکرے گا۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر8صفحہ64غیر مطبوعہ)

لیکن آپ نے ایک موقع پر غرباء کو بھی نصیحت فرمائی۔ یہ شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ دوپہر کا کھانا دونوں مجلسوں کو میں کھلایا کرتا تھا۔ ایک مجلس نئے مہمانوں کی ہوتی تھی جو حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی تھی۔ ایک عموما ً یہاں اپنے والوں کی ہوتی تھی۔ حضرت اقدس بعض اوقات تقریروں میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو اگر ایک شخص غریب ہے ہمیشہ گھر میں دال روٹی کھاتا ہے تو اگر یہاں بھی اُسے دال کھانے کو ملے تو اُسے برا نہیں ماننا چاہئے۔ ہم بعض اوقات اُمراء کے لئے گوشت روٹی کا انتظام خصوصیت سے بھی کر دیتے ہیں تا وہ عادت کی وجہ سے بیمار نہ ہو جائیں۔ اُن کو اگر دال ہی دی جائے تو جس غرض کے لئے وہ آتے ہیں وہ غرض پوری نہیں ہو سکتی۔ اُن کی صحت خراب ہو جاتی ہے، غرباء کو اُن کی ریس نہیں کرنی چاہئے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ350-351غیر مطبوعہ)

اور اس لئے بعض دفعہ یہاں بھی بعض قوموں کی طبائع کے مطابق مختلف کھانے پکتے ہیں۔ پس حالات کے مطابق اگر کبھی کسی وقت مختلف کھانا پکانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو کسی فریق کو بُرا نہیں منانا چاہئے، کسی شخص کو بُرا نہیں منانا چاہئے۔ لیکن عموماً کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایک جیسا کھانا ملے سوائے بیماروں کے جیسا کہ مَیں نے کہا یا غیر ملکی مہمان جو ہیں یا غیر از جماعت جو ہیں اُن کے لئے کچھ تھوڑا سا خاص کھانا بھی پکایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ یا عہدیداروں کا یہ کام نہیں ہے کہ اپنے لئے خاص کھانے پکوائیں۔ وہاں جب ایک جگہ یہ سوال اُٹھا تھا جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ ایک عہدیدار نے اپنے لئے بٹیرے پکوا لئے اور ایک دوسرے شخص کے لئے جو مہمان تھے، جب اُن کو پتہ لگا اُنہوں نے مطالبہ کیا تو اُنہیں نہیں دئیے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں جب یہ آیا تو آپ نے فوری طور پر باورچی سے بٹیرے منگوا کر اُس مہمان کو بھجوائے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیرے پکیں گے تا کہ انصاف قائم رہے۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ جلد 15 صفحہ 17غیر مطبوعہ)

سُنا ہے اس پر کسی نے مذاقاً جلسے کی انتظامیہ کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ اب تمہارے ذمہ یہ لگا دیا گیا ہے کہ جلسہ پر بٹیرے پکایا کرو۔ شاید افسر صاحب جلسہ سالانہ اس پیغام کو سن کر پریشان بھی ہو گئے ہوں۔ کیونکہ اِن کا یہ پہلا سال ہے اور پریشان بھی ذرا جلدی ہو جاتے ہیں کچھ موسمی حالات کی وجہ سے بھی پریشان ہیں۔ اُن کے لئے دعا بھی بہت کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے کاموں میں برکت ڈالے۔ اور افسر صاحب بھی تسلی رکھیں کہ بٹیروں کا یہ مطالبہ کوئی سنجیدہ مطالبہ نہیں ہے۔ لیکن بہر حال ہر ایک کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مہمان کی عزت اور جذبات کا خیال رکھا جائے۔ بٹیروں کی بجائے بیشک دال کھلائیں لیکن عزت کے ساتھ کھلائیں۔ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل روایت کرتے ہیں کہ جب لاہور میں حضرت صاحب ایک لیکچر کے ارادہ سے تشریف لائے۔ سولہ دن آپ کا قیام لاہور میں رہا۔ کھانے کا انتظام جن احباب کے سپرد تھا اُن میں مَیں بھی شامل تھا۔ غالباً خلیفہ رجب الدین نے کسی مہمان کو کہہ دیا کہ پانی بھی ساتھ پیؤ۔ بیچارے زیادہ کھانا کھانے والے ہوں گے۔ کہہ دیا کھانا کھائے جا رہے ہو پانی بھی ساتھ پیو۔ یہ بات کسی طرح حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچ گئی کہ مہمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور کھانا خاطر خواہ نہیں ملتا۔ حضور باہر تشریف لائے اور دروازے میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ کون منتظم ہے؟ ہم نے عرض کہ حضور ہم حضور کے خادم ہیں۔ حضور نے فرمایا میں نے سنا ہے کہ لوگوں کو کھانا اچھا نہیں ملتا اور بعض کو کہا جاتا ہے کہ بازار سے کھا لو، کیا یہ بات صحیح ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ حضرت! بے تکلفی میں کسی نے کسی کو کہا ہے ورنہ انتظام سب ٹھیک ہے۔ فرمایا نہیں ہم اپنے لنگر کا انتظام خود کریں گے، مہمان ہمارے ہیں اور لنگر کا انتظام بھی ہمارے ہی ذمہ عائد ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے مل کر معافی کی درخواست کی اور آئندہ احتیاط کا وعدہ کیا۔ پھر حضور نے معاف فرمایا اور لنگر جماعت کی طرف سے جاری رہا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ270-271غیر مطبوعہ)

پس چاہے کارکنان اپنے کسی بہت ہی بے تکلف قریبی عزیز سے ہی بات کہہ رہے ہوں، اگر وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر میں مہمان بن کر آیا ہے تو اُس کی عزتِ نفس کا بھی بہر حال خیال رکھنا ہو گا اُس کی عزت و تکریم کرنی ہو گی۔ اگر صرف ایک دفعہ کے بعد دو دفعہ یا چار دفعہ نہیں، دس بیس دفعہ بھی اگر کوئی پلیٹ لے کر کھانے کے لئے آتا ہے تو بغیر کسی اظہار کے اُس کو سالن ڈال کر دینا چاہئے۔ لیکن یہاں مَیں مہمانوں سے بھی کہوں گا کہ وہ سالن ضائع نہ کیا کریں۔ بعض دفعہ میں نے جاکر دیکھا ہے کہ سالن پلیٹ میں چھوڑ جاتے ہیں اور ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ آلو گوشت میں سے خاص پسند کی چیز کھا لیتے ہیں، بوٹیاں کھا لیں یا تھوڑا سا شوربہ کھالیا لیکن اکثر آلو ضائع کر دیتے ہیں، سوائے یہاں یورپ کے رہنے والے لوگ کچھ آلو کھا لیتے ہیں۔ بہر حال سوائے اُن کے جن کو آلو انتہائی ناپسندیدہ ہوں بعض بالکل کھا ہی نہیں سکتے یا کسی کو کوئی طبی وجہ ہو۔ مہمان جو ہیں اُن کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ سالن ضائع نہ ہو۔ جتنا ڈالیں یا ڈلوائیں وہ کھائیں۔ بہرحال میزبان اور مہمان دونوں کا رویہ ہے جو ایک خوبصورت ماحول پیدا کرتا ہے۔

ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک کارکن پر اس لئے بہت زیادہ ناراض ہوئے کہ اُس نے مہمانوں کے سامنے سے پلیٹیں اُٹھانی شروع کر دی تھیں۔ مہمان کھا رہے تھے۔ بعض آہستہ آہستہ کھاتے ہیں تو جب کافی وقت گزر گیا اُس نے جو پلیٹیں ہیں وہ اُٹھانی شروع کر دیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک مہمان کھا کر خودنہ کہے کہ پلیٹ اُٹھاؤ، تمہارا کام نہیں۔ اور آئندہ سے مہمان کو یہ نہیں کہنا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے جلدی کرو۔ (ماخوذاز رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر13صفحہ454-455غیر مطبوعہ)

لیکن مہمانوں کو بھی یہ عمومی نصیحت ہے کہ کھانا کھا کر پھر اُٹھ جاؤ۔ جتنی دیر کھانے میں لگتی ہے وہ تو ٹھیک ہے لیکن اُس کے بعد بیٹھ کے گپیں مارنے نہ لگ جاؤ۔ گو یہ نصیحت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دی ہے کہ وقت ضائع نہ کیا کرو، اُٹھ جایا کرو۔ لیکن یہ اعلیٰ اخلاق کا ایک بنیادی اصول ہے جس کو عموم میں بھی استعمال ہونا چاہئے۔ کام کرنے والے بھی کارکنان ہیں انہوں نے بھی آرام کرنا ہوتا ہے، اپنا کام سمیٹنا ہوتاہے، مہمانوں کو اُن کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔

جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد تعلق باللہ پیدا کرنا ہے۔ اس لئے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے، کارکنان بھی اور مہمان بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس تعلق کو پیدا کرنے کے لئے اپنی نمازوں اور نوافل کی طرف بہت توجہ دیں، دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں کہ انہی میں ہمارے مسائل کا حل ہے۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس بارے میں کیا نمونے ہوتے تھے، کس طرح ذوق و شوق سے وہ نمازیں ادا کیا کرتے تھے اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولدنتھے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی یہ ایک برکت تھی کہ باوجودیکہ میں بچہ تھا لیکن نمازمیں کھڑے ہوتے ہی رقت طاری ہو جاتی اور آنسو بندنہ ہوتے تھے کہ سلام پِھر جاتا اور نماز ختم ہو جاتی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی اللہ، جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کی زیارت کا موقع بخشا۔ یہ ایک فضل عظیم ہے جو اس نے مجھ پر کیا۔ ورنہ میں نے اپنے نانا جان کو ترستے اور روتے سُنا تھا کہ نہ معلوم کہ مہدی علیہ السلام کا زمانہ کب آئے گا؟ اس نے ہم پر فضل کیا، ہمیں اُس کی زیارت کا شرف بخشا۔ الحمدللہ رب العالمین۔ اور حضور کے ہزاروں نشان دیکھے جس سے حضور کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ (رجسٹرروایات صحابہ جلدنمبر5صفحہ167غیر مطبوعہ)

پس ہم وہ لوگ ہیں جن کو گو آپؑ کی زیارت کا شرف تو حاصل نہیں ہوا لیکن آپ کے دعاوی پر ایمان لانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو پورا کرنے والے بنے۔ پس اپنی نمازوں اور نوافل میں بھی ہمیں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے اِن دنوں میں نمازوں اور نوافل میں سوزوگداز پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسیح موعود کو ماننے والا بنایا، اس کی توفیق عطا فرمائی اور پھر آج کل کا دور جو ہے جس میں مخالفینِ احمدیت اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، انفرادی اور اجتماعی دعائیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہی ہے جو اِن کا توڑ ہے اور اس طرف آج کل بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ جلسے پر لوگ آتے ہیں، میل ملاقات بھی ہوتی ہے، بعض لمبے عرصے کے بعد ایک دوسرے کو ملتے ہیں، بعض دفعہ نئی واقفیتیں پیدا ہوتی ہیں پھر خواہش ہوتی ہے کہ مل بیٹھیں ذرا مزید معلومات حاصل کریں، لیکن اس کے لئے جلسے کی کارروائی کے بعد وقفوں میں بیشک بیٹھیں اپنی مجلس لگائیں لیکن ان میں بھی اِدھر اُدھر کی فضول گفتگو کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا ذکر ہو۔ بہت سارے پیارے ہیں جو رخصت ہوئے، اُن کا بھی ذکر ہو، اُن کی نیک یادوں کا ذکر ہو۔ بعض نیک واقعات کا ذکر ہو۔ بعض کے نئے رشتے بھی ان دنوں میں قائم ہوتے ہیں تو اس وجہ سے بھی خاص طور پر بیٹھناپڑتا ہے۔ عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ صرف وقفے کے دوران باتیں کریں اور چاہے وہ اجتماعی قیامگاہیں ہیں یا وقفہ ہے یا گھروں میں ہیں، تو پھر وہاں بھی باتیں ایک حد تک ہونی چاہئیں۔ بعض دفعہ لوگ ساری ساری رات جاگتے ہیں اور پھر صبح کی نماز بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ پس اتنا نہ جاگیں کہ رات کو نوافل اور فجر کی نماز ضائع ہو جائے بلکہ خاص اہتمام سے گھروں میں بھی اور جہاں بھی ٹھہرے ہوئے ہیں تہجد کا اہتمام ہونا چاہئے۔ تبھی روحانی ماحول سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

عورتوں کو خاص طور پر اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے اس لئے اس میں شامل ہونے والے کی نظر اس بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ ہم نے اپنے روحانی، اخلاقی اور علمی معیاروں کو بلند کرنا ہے۔ اُس میں ترقی کرنی ہے اور اس ماحول سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانا ہے۔ جب یہ سوچ ہو گی تو وہ خواتین بھی جو اپنے لباس اور زیوروں کی نمائش کر رہی ہوتی ہیں وہ بھی سادہ لباس میں آئیں گی یا اس سوچ کے ساتھ آئیں گی کہ اصل مقصد ہمارا جلسہ سننا ہے۔ پس یہ سوچ رکھنی چاہئے اور لباس مناسب اور ڈھکے ہوئے ہونے چاہئیں۔ بعض کے لباس کے بارے میں شکایات آتی ہیں کہ ایسے ہوتے ہیں جس سے کسی طرح بھی کسی احمدی عورت کا تقدس ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا۔ پس لباس وہ ہو جو زینت کو چھپانے والا ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرما دی کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے جو لباس تم زیب تن کرو گے، وہی تمہاری زینت چھپانے والا لباس ہے۔ اسی طرح مردوں اور عورتوں کو یہ حکم بھی ہے کہ وہ غضِ بصر سے کام لیں۔ راستہ چلتے ہوئے بلا وجہ ادھر اُدھر نہ دیکھیں، نظریں نہ دوڑائیں، یہ بھی انتہائی ضروری چیز ہے۔ اس ماحول میں بعض سڑکوں پہ عورتیں اور مرد اکٹھے چل رہے ہوتے ہیں وہاں اس بات کا خیال رکھناچاہئے۔ ماحول کے تقدس کے لئے بہت ضروری ہے، اپنے اخلاق کے لئے بہت ضروری ہے۔ پس اس طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں۔ اب چند انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلا دوں کہ آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی کے انتظام میں جو سختی ہے اُسے خوشی سے برداشت کریں۔ سکینر (Scaner) سے گزرنا اور سامان چیک کروانا انتہائی ضروری ہے اور خود اس کے لئے پیش کرنا چاہئے۔ اگر کبھی غلطی سے کسی کی نظر سے اوجھل بھی ہو گئے ہیں تب بھی خود پیش ہوں کہ ہمیں چیک کرو۔ یہ نہ سمجھیں کہ ایک دفعہ چیک کر لیا۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے باہر چلے گئے، دوبارہ اندر آگئے تو دوسری دفعہ چیکنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنی مرتبہ بھی باہر جائیں گے جب بھی اندر آنا ہو گا، چیکنگ ہو گی اور چیکنگ کرنے والوں کا بھی کام ہے چاہے بیشک واقف کار بھی ہوں اُن کی چیکنگ کرنی ہے۔ اس لئے اس بات پر کبھی مہمانوں کو یا شامل ہونے والوں کو چِڑنا نہیں چاہئے۔ لیکن مردوں اور عورتوں کی طرف جن کارکنان یا کارکنات کی سکینرز (scaners) پر ڈیوٹی ہے، چیکنگ پر ڈیوٹی ہے، اُن سے بھی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چیک تو ضرور کریں لیکن یہ بھی کوشش کریں کہ تمام احتیاطوں کے ساتھ جتنی جلدی چیکنگ ہو سکتی ہے ہو جائے تا کہ لوگوں کو زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جلسہ بھی وقت پہ شروع ہو اور وقت پر پنڈال میں داخل ہو جائیں، مارکی میں آ جائیں۔ پھر ڈیوٹی والے کارکنان یا سکیورٹی والے ہیں اُن کو تو مَیں پہلے بھی سیکورٹی کی طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ جہاں جہاں بھی فینسیں (Fences) لگائی گئی ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ فینس (Fence) کافی ہے۔ اُن فینسوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ڈیوٹی بھی دینی چاہئے۔ اور بڑی احتیاط سے اپنے فرض کو سمجھتے ہوئے ڈیوٹی ادا کریں۔ کسی بھی ڈیوٹی کو جہاں بھی کسی کی لگائی گئی ہے معمولی نہ سمجھیں۔ شرارتی عنصر کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے، اور کسی سے کوئی بعیدنہیں۔ اس لئے صرف ڈیوٹی دینے والے ہی نہیں بلکہ جلسے میں سب شامل ہونے والے جو ہیں اپنے ماحول پر نظر رکھیں۔ جیسا کہ میں نے کہا اپنے یہ دن دعاؤں میں گزاریں۔ اس کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق صدقات پر بھی توجہ دیں۔ سکینرز کی بات میں نے کی تھی تو اس دفعہ کوشش کی گئی ہے کہ عموماً اندر آنے کے زیادہ سے زیادہ راستے بنائے جائیں تا کہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ مریضوں کو، بچوں والوں کو زیادہ سہولت میسر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن پھر بھی بعض دفعہ بعض دقتیں سامنے آ جاتی ہیں، اس پر بے صبر اور بے حوصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ پھر تقریروں کے دوران ضرورت سے زیادہ نعرے نہ لگائیں۔ بعض لوگوں کو نعرے لگانے کی بہت عادت ہے۔ بلکہ نعرے لگانے کا جو مرکزی نظام ہے اُس کے تحت ہی نعرہ لگنا چاہئے۔ اُنہی کی ذمہ داری ہے، اُنہی میں رہنے دیں لیکن جب نعرہ لگائیں تو پھر نعرے کا جواب بڑے پُرجوش طریقے سے ہونا چاہئے۔ پھر یہ نہیں کہ آواز ہی نہ نکلے۔

تمام تقریریں جلسہ گاہ میں بیٹھ کر سنیں۔ اس دوران میں باہر جانا، ادھر اُدھر جانا، پھرنا، یہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں، کہ مناسب نہیں ہے۔ جس مقصد کے لئے آئے ہیں اُس مقصد کوپورا کرنے کی کوشش کریں۔ ہر تقریر کوئی نہ کوئی ایسا پہلو رکھتی ہے جو آپ کے فائدے کے لئے ہے، جو آپ کے لئے نیا ہے۔

صفائی کا خاص خیال رکھیں، اپنے گند بھی ادھر اُدھر نہ پھینکیں بلکہ اگر کہیں کاغذ یا ڈسپوزیبل (Disposable) گلاس، پلیٹیں یا کوئی چیزیں پڑی ہوئی دیکھیں تو اُس کو بھی فوری طور پر ڈسٹ بِن میں ڈال دیں۔ اسی طرح غسل خانوں کی صفائی کا کام ہے، اس کا بھی خاص اہتمام کریں۔ کارکن تو یہ صفائی کرتے ہی ہیں اور جو اس ڈیوٹی پر متعین ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے لوث ہو کر، مرد ہوں، عورتیں ہوں، وہ اپنا یہ کام کر رہی ہیں۔ لیکن مہمان بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ غسل خانوں میں، ٹوائلٹس میں خاص صفائی ہونی چاہئے۔ خاص طور پر کیچڑ والے پاؤں لے کر جب جاتے ہیں تو پھر اُس کی صفائی بھی کریں۔ گو بارش رُک گئی ہے لیکن پتہ کوئی نہیں، لیکن اُس کے باوجود بھی زمین نرم ہے اور زمین کی نرمی کی وجہ سے پاؤں پر مٹی بھی لگ جاتی ہے، اس لئے صفائی کا بہت خیال رکھیں، غسل خانوں میں گندنہیں ہونا چاہئے۔

پھر جلسہ گاہ کے اندر مارکی میں داخل ہو کر ایک بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ جو پہلے آنے والے ہیں اُن کو اگر کوئی جائز عذر نہیں ہے تو آگے آ کر بیٹھیں تا کہ پیچھے سے آنے والے پھر آرام سے بیٹھ سکیں۔ اسی طرح جو بعد میں آنے والے ہیں اُن کو جہاں جگہ ملتی ہے وہ بیٹھ جائیں اور ایک دوسرے پر سے پھلانگ کر نہ جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک مجلس میں اسی طرح پھلانگ کر جانے والے ایک شخص پر آپ بڑے ناراض ہوئے اور مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے اور حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ اِن کو نصیحت کرو۔ اور پھر انہوں نے بڑے سخت الفاظ میں نصیحت فرمائی تھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر11صفحہ329غیر مطبوعہ)

پس جس کو جہاں جگہ ملتی ہے، وہ بیٹھے۔ پہلے آنے والے آگے آئیں۔ بعد میں آنے والے جہاں جہاں اُن کو جگہ مل رہی ہے بیٹھتے چلے جائیں۔ لیکن بہرحال ہر ایک کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بعد میں بھی لوگ آنے والے ہیں اس لئے کہیں بھی خالی جگہ نہ ہو۔ جس جس طرح آتے جائیں خالی جگہ کو پُر کرتے چلے جائیں۔ آخر میں پھر دوبارہ مَیں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اِن دنوں میں خاص طور پر اس ماحول کو اپنی دعاؤں سے معطر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 22؍ جولائی 2011ء شہ سرخیاں

    جب اس جماعت کے افراد کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ کے اور اُس کے رسول کے حوالے سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ خاص طور پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کرنی چاہئے، کیونکہ اس کے بغیر ہم میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ہم ایک ہاتھ کے تحت اُٹھنے اور بیٹھنے والے ہیں اور نصیحتوں کو سُن کر اُن پر توجہ دینے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ اس خطبہ میں کی گئی باتوں پر بھی آپ عمل کرنے والے ہوں اور اس جلسے میں جو میری طرف سے یا دوسرے مقررین کی طرف سے علمی، روحانی اور تربیتی مضامین بیان ہوں اُن کو سُن کر یہاں بھی اور بعد میں بھی اپنے گھروں میں جا کر عمل کرنے والے ہوں۔ احادیث نبویہ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات۔ آپ کے اور آپ کے صحابہ کے عملی نمونوں کے حوالہ سے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو خصوصی نصائح۔ کارکنان اور انتظامیہ کے لئے اہم ہدایات۔

    فرمودہ مورخہ 22؍ جولائی 2011ء بمطابق 22؍وفا 1390 ہجری شمسی، بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن۔ ہمپشائر

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور