حقیقی عبادتِ الٰہی کے لئے کوشش

خطبہ جمعہ 26؍ اگست 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گذشتہ خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر کے حوالے سے سورۃ فاتحہ کی آ یت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی وضاحت کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا احسان ہے، بہت عظیم احسان ہے کہ اُس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جن سے ہمیں قرآنِ کریم کے گہرے معانی اور تفسیر کا علم ہوا۔ اُس کے بعد مجھے بہت سے خط آئے کہ ہمیں اس خطبے کے بعد اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن(الفاتحہ: 5) کا جو عرفان حاصل ہوا ہے اور نماز میں اس دعا پر غور کرتے ہوئے پڑھنے سے جو لذت آئی ہے اُس کا مزہ ہی کچھ اور تھا اور ہے۔ بعض عربی بولنے والے عرب لوگوں نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’’کرامات الصادقین‘‘ ہم نے پہلے بھی پڑھی ہوئی تھی لیکن خطبہ میں اس کے حوالے سُن کر جوعرفان حاصل ہوا ہے اُس کے بعدلگتا تھا کہ یہ پہلے نہیں پڑھا گیا۔ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کلام ایسا ہے جس کی جُگالی کرتے رہنا چاہئے۔ بار بار جب یہ کلام سامنے آتا ہے تو نئے باب کھلتے ہیں، نئے اسرار و رموز کا پتہ چلتا ہے۔ رمضان میں ویسے بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے دعا کا جومضمون ہے وہ دل کو جا کر لگتاہے۔ دعاؤں کا یہ مضمون اور آپ کی تفسیر آج بھی جاری رہے گی۔ گذشتہ خطبہ میں مَیں نے ایک اقتباس پڑھا تھا اب مَیں اُس کا خلاصہ بیان کروں گا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھاکہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں خالص ہو کر اللہ کا عبد بننے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن میں عبودیت کے لئے قوت، ثابت قدمی، استقامت اور مستقل مزاجی کی دعا طلب کی گئی ہے۔ کیونکہ قوت اور ثباتِ قدمی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ اگر قوت اور ثباتِ قدمی نہ ہو تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا۔ عبادت کرنے کی اگر کوشش بھی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہیں ہو گی تو چند دن کی عبادت کے بعد پھر وہی عبادت میں بے قاعدگی، بے لذتی اور دل کے اُچاٹ ہونے کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ کئی لوگ لکھتے ہیں کہ رمضان کے ماحول کی وجہ سے عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ ایک ماحول بناہوا تھا، اُس کے دھارے میں ہم بھی بہتے جا رہے تھے۔ رمضان ختم ہوا تو پھر وہیں واپسی ہوگئی جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ نمازیں ہیں لیکن اُن میں وہ لذت اور ذوق نہیں۔ پس اس ماحول میں جب دعاؤں کی طرف توجہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے عبادت میں ذوق شوق، قوت اور ثباتِ قدمی کی جو دعا سکھائی ہے وہ دعا بھی کرنی چاہئے تا کہ عبودیت کا صحیح حق ادا ہو اور ہمیشہ ہوتا چلا جائے۔ اگرثباتِ قدمی نہیں تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’عبد بننے کی طرف توجہ اور ثباتِ قدمی کی طلب کے بعد پھر وہ کونسی اہم چیز ہے جو ایک مومن میں ہونی چاہئے‘‘۔

اس بارہ میں مَیں نے جو اقتباس پچھلے خطبہ میں پڑھا تھا اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اہم چیز یہ ہے کہ ایک مومن کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس قسم کی قوت ہے اور وہ قوت کس طرح حاصل ہو گی، ثباتِ قدم کس پر ہو اور اس کا معیار کیا ہو؟ اگر اس کا علم نہ ہو، اگر عبد بننے کے لئے ہدایت کے راستے کی نشاندہی نہ ہو تو پھر انسان اندھیرے میں ہاتھ پیر مارتا رہے گا، اُسے پتہ ہی نہیں ہو گا کہ وہ کس قسم کی عبودیت کی تلاش میں ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے؟ کونسی عبادتیں اُس نے کرنی ہیں؟ کیا چیزیں اُس نے مانگنی ہیں؟ کن راستوں کی اُس نے تلاش کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس لئے ضروری ہے کہ علم اور ہدایت کی تلاش کے لئے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ کی دعا کی جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت اور اُس کی کوشش میں برکت ڈالتے ہوئے ایک حقیقی عابد اور اللہ تعالیٰ کے راستوں کے متلاشی کو ہمیشہ ہدایت کے راستوں پر گامزن رکھے، اُس پر توفیق دیتا چلا جائے۔ پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا اُس ثباتِ قدم اور قوت کے حصول اور اُس کا علم رکھنے کے لئے ہے جو مستقل مزاجی سے عبودیت کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ آپ علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق ان تینوں دعاؤں کا خلاصہ گویا یہ بنے گا کہ جب تک انتہائی اخلاص، انتہائی کوشش اور ہدایت کو سمجھنے کی پوری صلاحیت حاصل نہ ہو جائے اُس وقت تک ایک حقیقی مومن کو، سچا عابد بننے والے کو آرام سے نہیں بیٹھنا چاہئے اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم نجات یافتہ ہو گئے یا ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا، یا خدا تعالیٰ کے پیار کے سلوک کے ان اعلیٰ معیاروں کو حاصل کر لیا جو معیار ایک مومن کا مطمح نظر ہونے چاہئیں۔ پس جب یہ سوچ ایک مومن کی ہو کہ ہم نے آرام سے نہیں بیٹھنا جب تک کہ ان راستوں پر نہیں چلتے تو پھر ایسے مومن کے قدم آگے بڑھتے ہیں، پھر مسجدوں میں دل لگتے ہیں، پھر نمازوں کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے۔ پھر رمضان کے روزوں کا حق ادا ہوتا ہے۔ پھر رمضان کے بعد بھی عبادت میں ذوق کی اور شوق کی اور جس طرح پچھلی دفعہ مَیں نے پڑھا تھا کہ فرمایا ایک جلن ہونی چاہئے، اُس جلن کو حاصل کرنے کی کوشش رہتی ہے۔

گزشتہ جمعہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) کی وضاحت تو کچھ حد تک ہو گئی تھی اور اس کے مختلف پہلو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے وہ آپ کے سامنے رکھے تھے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ: 6) کا مطلب، اس کے بعض گہرے مطالب، اس کے معنی، اس کی روح کیا ہے؟وہ پیش کروں گا جن سے پتہ لگتا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ: 6) کی جو دعا ہے وہ کس قدر وسیع ہے اور ہمارے ہر معاملے کا کس طرح اس دعا نے احاطہ کیا ہوا ہے؟ پہلے جو اقتباس میں پیش کروں گا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہدایت پانے کے قابل کون لوگ ہوتے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جنہیں ہدایت پانے کے صحیح راستوں کا پتہ چلتا ہے اور اُن راستوں پر چلنے کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ (یہ بھی کرامات الصادقین کا ہی حوالہ ہے جس کا ترجمہ پڑھتا ہوں)

’’اور اس سورۃ میں (یعنی سورۃ فاتحہ میں ) اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندوں کو تعلیم دیتا ہے۔ پس گویا وہ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! تم نے یہود و نصاریٰ کو دیکھ لیا ہے۔ تم اُن جیسے اعمال کرنے سے اجتناب کرو اور دعاء اور استقامت کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑو اور یہود کی مانند اللہ کی نعمتوں کو مت بھلاؤ ورنہ اُس کا غضب تم پر نازل ہو گا۔ اور تم سچے علوم اور دعا کو مت چھوڑو اور نصاریٰ کی طرح طلبِ ہدایت میں سست نہ ہو جاؤ ورنہ تم گمراہ ہو جاؤ گے اور ہدایت کے طلب کرنے کی ترغیب دی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہدایت پر ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا اور گریہ و زاری میں دوام کے بغیر ممکن نہیں‘‘۔ (ہدایت پر ثابت قدمی جب تک مستقل مزاجی سے دعا نہیں کرو گے، گریہ وزاری نہیں کرو گے یہ ممکن نہیں ہے)فرمایا ’’مزید برآں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے اور جب تک کہ خدا تعالیٰ خود بندہ کی رہنمائی نہ کرے اور اسے ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل نہ کر دے وہ ہرگز ہدایت نہیں پا سکتا۔ پھر اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہدایت کی کوئی انتہا نہیں اور انسان دعاؤں کی سیڑھی کے ذریعہ ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اور جس شخص نے دعا کو چھوڑ دیا اس نے اپنی سیڑھی کھو دی۔ یقینا ہدایت پانے کے قابل وہی ہے جن کی زبان ذکرِ الٰہی اور دعاء سے تر رہے اور وہ اس پر دوام اختیار کرنے والوں میں سے ہو‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 214)

پس ایک مومن کے لئے جو ہدایت کی تلاش میں ہے یہ ہدایات ہیں کہ دعا اور استقامت کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑو۔ یہ کبھی نہ چُھوٹے۔ طلبِ ہدایت میں سست نہ ہو ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ یاد رکھو! ہدایت پر ثابت قدمی، مستقل مزاجی سے دعا اور گریہ و زاری کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر دعا نہیں کرو گے تو ہدایت کے راستے بھی بند ہو جائیں گے کیونکہ ہدایت بندہ اپنے زور سے حاصل نہیں کر سکتا بلکہ یہ خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ پھر فرمایا یہ بات ہمیشہ سامنے رکھو کہ ہدایت کی کوئی انتہا نہیں ہے کہ ہم نے ہدایت پا لی اور جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں مکمل طور پر ہدایت یافتہ ہو گیا۔ پس جب انتہا نہیں تو دعاؤں کی سیڑھی کی ہر وقت ضرورت ہے۔ پس ایک مومن کو یہ اہم بات یاد رکھنی چاہئے کہ صرف وقتی عبادت ہدایت کا باعث نہیں بنتی بلکہ حقیقی ہدایت پانے والے وہ ہیں جن کی زبان ذکرِ الٰہی اور دعا سے تَر رہے۔ پس ان دنوں میں جبکہ ہمیں رمضان کی وجہ سے ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اسے مستقل اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہدایت کے راستوں پر ہمیشہ گامزن رہیں اور اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی ہم کوشش کرتے چلے جائیں۔ پھرآپ ہمیں صراطِ مستقیم کے معنے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’صراط لغتِ عرب میں ایسی راہ کو کہتے ہیں جو سیدھی ہو یعنی تمام اجزاء اُس کے وضع استقامت پر واقع ہوں اور ایک دوسرے کی نسبت عین محاذات پر ہوں‘‘۔ (الحکم 10؍فروری 1905ء صفحہ 4)

یعنی کوئی کجی نہ ہو، کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو، کوئی پریشان کرنے والی چیز نہ ہو، واضح اور سیدھا اور ایک مقصد کی طرف لے جانے والا راستہ ہو، یہ نہیں کہ ایک جگہ پہنچ کر انسان سوچے اور confuse ہو جائے کہ مَیں نے دائیں جانا ہے کہ بائیں جانا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کو پانے کا جو مقصد ہے، اُس طرف لے جانے والا راستہ ہو، اُسی راستے کو صراط کہتے ہیں۔ خطرے کی نشاندہی کرے، جہاں مڑنا ہے وہاں مڑنے کی طرف رہنمائی کرے۔

پھر آپ علیہ السلام اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  (الفاتحۃ: 6) کے حقیقی معنی بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’(صوفی لوگ) … اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کے معنی بھی فنا کرتے ہیں۔ یعنی روح، جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مر جائیں‘‘۔ فرمایا ’’بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادے اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دنیا سے اُٹھ جاتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے مقدم رکھا ہے، ایسا ہی انسان کا اسمِ اعظم استقامت ہے۔ اسمِ اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں‘‘۔ (حضرت اقدسؑ کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحہ 19-18 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 218)۔ یعنی مستقل مزاجی سے دعاؤں کی طرف لگے رہو گے اللہ کی طرف جاؤ گے تو تبھی انسانیت کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں یا اُن کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے۔

پس جب اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحۃ: 6) کی دعا انسان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ اوامر اور نواہی کو بھی دیکھنا ہو گا کہ کونسی باتیں کرنے کی ہیں اور کونسی نہیں کرنے کی، قرآنِ کریم کے حکموں پر نظر رکھنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہوں گے کیونکہ حقوق العباد بھی خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ جب یہ ہو گا تب ہی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی جودعا ہے وہ دل کی آواز بنے گی تبھی استقامت کا مقام حاصل ہو گا۔ تبھی انسانیت کے کمال حاصل کرنے کی طرف حقیقی توجہ اور کوشش ہو گی اور تبھی انسان پھرخدا تعالیٰ کی آغوش میں آ کرقبولیتِ دعا کے نظارے بھی دیکھے گا۔ انسان جب استقامت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا چلا جاتا ہے۔ ہدایت پر رہنے کے لئے صرف خدا کو پکارتا ہے تو پھر ہی صراطِ مستقیم قائم رہتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مضمون کو آگے چلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسمِ اعظم جمع ہوں اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے۔ خواہ وہ اس کی ہواو ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو؟جب یہ حالت ہو جائے تو اُس وقت اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ کا مزا آ جاتا ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ21-20۔ بحوالہ تفسیرحضرت اقدس مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 219)

جب انسان رَبُّنَا اللّٰہ کہتا ہے جب یہ پکار ہو گی اور پھر اُس پر استقامت دکھاتا ہے تو تب جو دعاؤں کی توفیق ملتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ اصل توفیق ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ کا مزا آتا ہے کہ مجھے پکارو مَیں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا۔ پس استقامت شرط ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے، اُسی کو ربّ سمجھتے ہوئے، اُس کے آگے جھکنا شرط ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ یہ دعا لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے، یعنی کسی بھی مرتبے کا آدمی ہو اُسے اس دعا کی ضرورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

پس خلاصہ یہ ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ: 6) کی دعا انسان کو ہر کجی سے نجات دیتی ہے اور اس پر دینِ قویم کو واضح کرتی ہے اور اُس کو ویران گھر سے نکال کر پھلوں اور خوشبوؤں بھرے باغات میں لے جاتی ہے اور جو شخص بھی اس دعا میں زیادہ آہ و زاری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو خیر و برکت میں بڑھاتا ہے۔ دعا سے ہی نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت حاصل کی اور اپنے آخری وقت تک ایک لحظہ کے لئے بھی دعا کو نہ چھوڑا اور کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے لا پرواہ ہو یا اس مقصد سے منہ پھیر لے، خواہ وہ نبی ہو یا رسولوں میں سے، کیونکہ رُشد اور ہدایت کے مراتب کبھی ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ بے انتہا ہیں اور عقل و دانش کی نگاہیں اُن تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی اور اُسے نماز کا مدار ٹھہرایا تا لوگ اُس کی ہدایت سے فائدہ اُٹھائیں اور اس کے ذریعہ توحید کو مکمل کریں اور (خدا تعالیٰ کے) وعدوں کو یاد رکھیں اور مشرکوں کے شرک سے نجات پاویں۔ اس دعا کے کمالات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کے تمام مراتب پر حاوی ہے اور ہر فرد پر بھی حاوی ہے۔ وہ ایک غیر محدود دعا ہے جس کی کوئی حد بندی یا انتہا نہیں اور نہ اس کی کوئی غایت یاکنارہ ہے۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جو خدا کے عارف بندوں کی طرح اس دعا پر مداومت اختیار کرتے ہیں، زخمی دلوں کے ساتھ جن سے خون بہتا ہے اور ایسی روحوں کے ساتھ جو زخموں پر صبر کرنے والی ہوں اور نفوسِ مطمئنہ کے ساتھ‘‘۔ (یعنی مستقل مزاجی کے ساتھ اور درد کے ساتھ اس دعا پر قائم رہتے ہیں )۔ فرمایا ’’یہ وہ دعا ہے جو ہر خیر، سلامتی، پختگی اور استقامت پر مشتمل ہے اور اس دعا میں ربّ العالمین کی طرف سے بڑی بشارتیں ہیں۔‘‘ (کرامات الصادقین۔ صفحہ 95-94۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 234-233)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ مَیں اس کا خلاصہ بیان کر دوں کہ کیوں یہ سب مراتب کے لوگوں کے لئے ضروری ہے؟ اس لئے کہ انسان کو ہر قسم کے ٹیڑھے پن اور کجی سے یہ بچاتی ہے۔ انسان کے راستے میں مختلف طریق سے ورغلانے کے لئے شیطان بیٹھا ہوا ہے اگر دل سے نکلی ہوئی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم (الفاتحۃ: 6) کی دعا ہو تو یہ دعا پھر شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے۔ اُن کو ایمان پر قائم رکھتی ہے۔ آجکل جب دنیا مذہب سے دور ہو رہی ہے، یہ دعا بہت بڑی دعا ہے جو ایک انسان کو سیدھے راستے پر قائم رکھ سکتی ہے بشرطیکہ جیسا کہ پہلے مَیں بیان کر چکا ہوں کہ انسان مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طالب رہے، بلکہ اگر خالص ہو کر کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہے تو اللہ تعالیٰ صحیح دین کی طرف رہنمائی فرماتا ہے۔ بلکہ لا مذہبوں کی بھی رہنمائی فرماتا ہے۔ اُن کے لئے بھی یہ ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے بشرطیکہ نیت نیک ہو۔ آپ نے فرمایا کہ:

’’نبیوں نے خدائے رحمان کی محبت اس دعا کے ذریعہ سے حاصل کی ہے‘‘۔

پس کسی بھی مرتبے کا انسان ہو، کوئی بھی شخص ہو جتنی زیادہ آہ و زاری سے یہ دعا مانگے گا خدا تعالیٰ اُس کو خیر و برکت میں بڑھائے گا۔ پس ایک مومن کہلانے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ وہ اس دعا سے غفلت برتے بلکہ نبیوں اور رسولوں کے لئے بھی یہ دعا ضروری ہے کیونکہ رُشد و ہدایت کے مراتب اور معیار کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہر انسان کا جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اُس کا رشد وہدایت کا ایک مرتبہ ہے اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی کوئی حدنہیں اس لئے ہدایت کے اگلے مرحلوں کی تلاش بھی ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ ایک جگہ پر پہنچ کر پھر اگلے مرحلے کو تلاش کرنا چاہئے اور اُس کی تلاش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا سکھائی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ: 6)۔

فرمایا کہ: توحید بھی اس دعا کے ذریعہ مکمل ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے، اُس کے بتائے ہوئے ہدایت کے راستوں پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس ہی جایا جاتا ہے۔ اُسی سے مدد مانگی جاتی ہے۔ وہی ہے جو ہمیں ہدایت یافتوں میں رکھ سکتا ہے نہ کہ کوئی غیر۔ پس یہ دعا ہر مرتبے کے انسان کے لئے ضروری ہے۔ ہر اُس شخص کے لئے ضروری ہے جو خدا کی بتائی ہوئی ہدایت کی تلاش میں ہے اور اُس کے اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’حقیقی مومن وہی ہے جو مستقل مزاجی سے اور ایک درد کے ساتھ اس دعا کو کرنے والا ہے‘‘۔

پس جب یہ دعا ہر مرتبہ کے لوگوں کے لئے ضروری ہے تو اس کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔ اس اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ:

’’ساتویں صداقت جو سورۂ فاتحہ میں درج ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  (الفاتحۃ: 6) ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی کجی نہیں۔ اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہریک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہرا رکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے وسائل ہیں وہ حاصل کئے جائیں اور جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خودبخود حاصل ہوجاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یونہی مطلب حاصل ہوجائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ ہریک مقصد کے حصول کے لئے ایک مقرری طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقۂ مقررہ پر قدم نہیں مارتا تب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا۔ پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراط مستقیم ہے۔ جو شخص صراط مستقیم کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اس کی کچھ پرواہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کج رو آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالم ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمت الٰہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اوّل صراط مستقیم کو طلب کر۔ پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا۔ سو سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشد ضرورت ہے طلب صراط مستقیم ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد اول حاشیہ نمبر 11صفحہ 532تا537) (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 235-234)

پھر صراطِ مستقیم کی روح اور حقیقت کو بیان فرماتے ہوئے اور یہ کہ ایک مومن کو صراطِ مستقیم کے کن معیاروں کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’صراطِ مستقیم کی حقیقت جو دینِ قویم کے مدِ نظر ہے وہ یہ ہے کہ جب بندہ اپنے فضل و احسان والے خدا سے محبت کرنے لگے، اُس کی رضا پر راضی رہے۔ اپنی روح اور دل اُس کے سپرد کر دے اور اپنے آپ کو اُس خدا کو سونپ دے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اُس کے علاوہ کسی اور سے دعا نہ کرے۔ اسی سے خاص محبت رکھے۔ اُسی سے مناجات کرے اور اُسی سے رحمت و شفقت مانگے۔ اپنی بے ہوشی سے ہوش میں آجائے۔ اپنی چال سیدھی کرے اور خدائے رحمان سے ڈرے۔ محبت الٰہی اُس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جائے۔ اللہ تعالیٰ اُس کی مدد کرے اور اُس کے یقین اور ایمان کو پختہ کرے۔ تب بندہ اپنے پورے دل، اپنی خواہشات، اپنی عقل، اپنے اعضاء اور اپنی زمین اور کھیتی باڑی سب کے ساتھ کلی طور پر اپنے ربّ کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کے سوا سب سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اُس کی نگاہ میں اپنے ربّ کے سوا اور کچھ بھی باقی نہیں رہ جاتا۔ وہ اپنے محبوب ہی کی پیروی کرتا ہے‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت کرامات الصادقین۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 239-238)

پس اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا جو ایک حقیقی مومن کو کرنی چاہئے اُس سے دنیا بھی ملتی ہے اور دین بھی مل جاتا ہے۔ فرمایا کہ اس کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے۔ اپنی بیہوشیوں سے نکلنا پڑے گا۔ دین سے جوغفلت ہے یہ بیہوشی کی حالت ہے اس سے نکلو اور اس کی تلاش کرو۔ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو۔ جب یہ چیز ہو گی تو پھر تمہاری دنیا بھی دین بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہو رہا ہو گا۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلامی ہدایت پر قائم رہنے کے لئے تین چیزیں ہیں جن کا ایک مسلمان کو خیال رکھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہدایت مشکل ہے۔ یہی تین باتیں ہیں جو اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ کونسی ہدایت ہے جو ایک مومن کو طلب کرنی چاہئے۔ اور اُس کو اپنانا چاہئے۔ فرمایا سب سے پہلی چیز’’قرآنِ شریف جو کتاب اللہ ہے، جس سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے۔ دوسری سنّت (ہے) … اور سنّت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآنِ شریف کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیلی الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں۔‘‘ (اُن کے عمل جو ہیں خدا تعالیٰ کے حکموں کی تفسیر ہوتی ہے)۔ ’’تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے‘‘ (واضح ہو جائے ہر چیز) ’’اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں (اور تیسری چیز) ’’تیسرا ذریعہ ہدایت کاحدیث ہے اور حدیث سے مراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصوں کے رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے‘‘۔ (ریویو برمباحثہ بٹالوی چکڑالوی صفحہ 4-3۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 242-241)۔ (حدیثیں جو ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد، مختلف راویوں کے ذریعے سے جمع کی گئی تھیں اُس کی تیسری حیثیت ہے)۔ پس ان میں سے وہ جو قرآن اور سنت سے نہیں ٹکراتیں وہی صحیح احادیث ہیں اور ایک مومن کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اہلِ حدیث کی طرح ہم سنت اور حدیث کو ایک چیز نہیں سمجھتے۔ تو بہر حال یہ ایک تفصیلی لائحہ عمل ہے جو ایک مومن کی ہدایت کے لئے موجود ہے۔ جب بھی ہدایت کی دعا ایک مومن مانگے تو اُن چیزوں کو سامنے رکھے اور اُن کی تلاش میں رہے اور یہی پھر حقیقی ہدایت کی طرف رہنمائی کرے گی اور بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق بھی پختہ ہو گا۔

بعض لوگ پیروں فقیروں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ مجھے شکایتیں ملتی ہیں کہ غیروں کے زیرِ اثر بعض احمدی بھی پیروں سے، دوسروں سے، دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اور اپنی دعاؤں کی طرف کم توجہ ہوتی ہے یا جادو ٹونے پر یقین ہوتا ہے اس لئے اُس کو تڑوانے کے لئے دوسروں کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ غیروں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں میں جہالت اس حد تک ہے اور اپنے عملوں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ دعاؤں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ یہ چیز انتہائی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ شکر ہے کہ چند ایک کے علاوہ شاید احمدیوں میں ایسے لوگ نہ ہوں ورنہ غیروں میں تو شرک کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور پھر یہ لوگ اپنے آپ کو مومن اور مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے‘‘۔ (یعنی اسلام کا نام استقامت رکھا ہے) ’’جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر‘‘۔ (استقامت وہ رستہ جس پر مستقل مزاجی سے انسان چلے اور ہدایت یافتہ ہو۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس لئے اسلام کا نام اس حوالے سے قرآنِ کریم میں استقامت ہے)۔ اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے‘‘۔ (اس کی وجہ، اصل وجہ جو ہے اُس پر غور کر کے سمجھی جاتی ہے)۔ ’’اور انسان کے وجود کی علّت غائی یہ ہے‘‘۔ (انسان کے وجود کا مقصد کیا ہے؟) کہ ’’نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے‘‘۔ (انسان جو ہے وہ خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اُس کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے)۔ ’’پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی وہ درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے۔ اور جب وہ اپنے تمام قویٰ سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ جب آفتاب کی طرف کی کھڑکی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آجاتی ہیں۔ ایسا ہی جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کو منور کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظت دھو دیتا ہے۔ تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اسکے اندر پیدا ہوتی ہے۔ تب کہا جاتاہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی۔ اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے۔ اسی کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلاً(بنی اسرائیل: 73) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور اور خدا کے دیکھنے کا اُس کو نور نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 345-344)

پھر آپ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  (الفاتحۃ: 6) کی دعا کی قبولیت کے لئے کن پہلوؤں کو مدِنظر رکھنا چاہئے، فرماتے ہیں کہ:

’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُد کا لحاظ رکھیں۔ کیونکہ اِیَّاکَ نَعْبُدکو اِیَّا کَ نَسْتَعِیْن پر مقدم رکھا ہے۔ پس پہلے عملی طور پر شکر کرنا چاہئے اور یہی مطلب اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم میں رکھا ہے‘‘۔ عملی شکر جو ہے اُس کی تفسیر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ہے یا اُس میں اس کی وضاحت آئی ہے۔ ’’یعنی دعا سے پہلے اسبابِ ظاہری کی نگہداشت ضروری طور پر کی جاوے اور پھر دعا کی طرف رجوع ہو۔ اولاً عقائد، اخلاق اور عادات کی اصلاح ہو پھر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔‘‘(پہلے اپنے عقیدے درست کرو۔ بدعات اور غلط قسم کی جو چیزیں رواج پا گئی ہیں اُن کو چھوڑو۔ اُس عقیدے پر قائم ہو جو حقیقی اسلامی عقیدہ ہے پھر اپنے اخلاق بہتر کرو۔ اپنے عمل صحیح کرو۔ اُن کی اصلاح ہو جائے تو پھر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا ہو۔ تب ہی اللہ تعالیٰ پھر اس کو قبول فرماتا ہے۔ فرمایا’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا تعلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ انسان تین پہلو ضرور مدِنظر رکھے۔ اول اخلاقی حالت۔ دوئم حالتِ عقائد۔ سوئم اعمال کی حالت۔ مجموعی طور پر یوں کہو کہ انسان خداداد قوتوں کے ذریعہ سے اپنے حال کی اصلاح کرے پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ نے انسان کو جوطاقتیں دی ہیں، عقل ہے، شعور ہے، اُس کے ذریعے سے اپنی اصلاح کی کوشش کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے مانگے کہ جو مجھ میں تھا اُس کو تو استعمال کر رہا ہوں اب تُو مجھے ہدایت کی طرف لے کر آ، کیونکہ تیری مدد کے بغیر ہدایت نہیں مل سکتی)۔ ’’یہ مطلب نہیں کہ اصلاح کی صورت میں دعا نہ کرے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 148۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 267-266)۔ (اُس وقت بھی مانگتا رہے جب خود اپنے طور پر بھی کوشش کر رہا ہے تب بھی دعا ضروری ہے)۔ فرمایا کہ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں دعا انسان کی زبان، قلب اور فعل سے ہوتی ہے‘‘۔ (یعنی زبان سے بھی اُس کا اظہار ہو رہا ہو، دل سے بھی اُس کا اظہار ہو رہا ہو اور انسان کے ہر عمل سے اُس کا اظہار ہو رہا ہو تبھی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا حقیقی دعا بنے گی)۔ ’’اور جب انسان خدا سے نیک ہونے کی دعا کرے تو اُسے شرم آتی ہے مگر یہی ایک دعا ہے جو ان مشکلات کو دور کرتی ہے‘‘۔ (جب انسان زبان سے اقرار کرے گا۔ دل بھی اُس کا اس طرف مائل ہو گا۔ کوشش بھی ہو گی تو ظاہر ہے پھر اس طرف توجہ بھی پیدا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ سے اب مَیں مانگ رہا ہوں، تو اس شرم کے ساتھ کہ دوہرا عمل ہو جائے گا انسان ایک طرف دعا کے ساتھ کوشش کر رہا ہو گا اور جب دعا کر رہا ہو گا تو پھر دوبارہ ان چیزوں میں اپنی زبان کی درستی میں، اپنے دل کی درستی میں، اپنے عملوں کی درستگی میں کوشش کر رہا ہو گا اور اسے شرم آ رہی ہو گی کہ میں بغیر ان کی درستگی کے کس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگوں کہ مجھے سیدھے رستے پر چلا)۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا دین اور دنیا کی ساری حاجتوں پر حاوی ہے۔ کیونکہ کسی امر میں جب تک صراطِ مستقیم نہ ملے کچھ نہیں بنتا‘‘۔ یہ دعا صرف روحانی طور کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ دنیا کی حاجتوں کے لئے بھی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’طبیب کو، زراعت کرنے والے کو، غرض ہر انسان کو ہر کام میں صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے‘‘۔ (کوئی زمیندار ہے، ڈاکٹر ہے یا کسی بھی پیشے کا کرنے والا ہے، اُس کو اپنے کام میں صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے۔ اگر نہیں ہو گی تو اُس کے کام میں خرابی پیدا ہو گی)۔ فرماتے ہیں کہ ’’بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آ جاوے گا تو وہ زمینداری کے صراطِ مستقیم پر پہنچ جاوے گا‘‘۔ (اگر ایک زمیندار ہے اُس کو جب زمینداری کرنے کا صحیح طریق آئے گا تو تبھی وہ زمینداری کے صراطِ مستقیم پر پہنچے گا۔ ایک ڈاکٹر ہے جب وہ پورا کوالیفائی کر لیتا ہے، پڑھائی مکمل کر لیتا ہے، پھر مختلف جگہوں پر جو اُس کے ہاؤس جاب ہوتے ہیں وہ مکمل کرتا ہے۔ پھر بعض تجربہ کار ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرتا ہے تو تبھی اُس کو صراطِ مستقیم کے جو مختلف مدارج ہیں حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے پیشے کے لوگ ہیں )۔ فرمایا کہ ’’زمینداری کے صراطِ مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہو جاوے گا۔ اسی طرح تم خدا کے ملنے کی صراطِ مستقیم تلاش کرو‘‘۔ (خدا کے ملنے کی بھی صراطِ مستقیم تلاش کرو۔ اس کے لئے بھی پہلے کوشش کرو اور پھر دعا کرو)۔ ’’اور دعا کرو کہ یا الٰہی! مَیں ایک تیرا گناہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں، میری رہنمائی کر، ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل مُعطی وہی ہے۔ بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے‘‘۔ اصل نیکی یہی ہے کہ بہت دعا کرو۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا نہ تو کسی پریشانی کے دُور کرنے کے لئے کسی جادو ٹونے کو زائل کرنے والے کی ضرورت ہے نہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے کہیں پیروں فقیروں کی قبروں پر جانے کی ضرورت ہے۔ خالص ہو کر اپنی حالتوں کی درستی کرتے ہوئے اگر بندہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکے تو وہی ہے جو انسان کی تمام حاجتیں پوری کرنے والا ہے)۔

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’نماز کا جو مومن کی معراج ہے مقصود یہی ہے، اس میں دعا کی جاوے اور اسی لئے اُمّ الادعیہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ دعا مانگی جاتی ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ نماز میں خالص ہو کر یہ دعا مانگو اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ جو ہے وہ دعاؤں کی ماں ہے۔ نماز معراج ہے دعاؤں کی اور اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا دعاؤں کی ماں ہے۔ اور یہ مانگو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے دروازے کھولتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراطِ مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے‘‘۔ (یہ مقصد اور غرض ہے جو ہر انسان کو، ہر مومن کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے)۔ ’’جس کو اس سورۃ میں ان الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 7-6)۔ یا اللہ ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا۔ یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور ہر رکعت میں مانگی جاتی ہے۔ اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔

فرمایا: ’’ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رَٹ دینا اصل مقصودنہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسانِ کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مدِنظر رہے۔ اس آیت میں چار قسم کے کمالات کے حاصل کرنے کی التجا ہے۔ اگر یہ ان چار قسم کے کمالات کو حاصل کرے گا تو گویا دعا مانگنے اور خلقِ انسانی کے حق کو ادا کرے گا۔ اور ان استعدادوں اور قویٰ کے بھی کام میں لانے کا حق ادا ہو جائے گا جو اِس کو دی گئی ہیں‘‘۔ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6) میں جو چار معیار ہیں، وہ معیار یہ ہیں: نبی ہے، صدیق ہے، شہید ہے اور صالح)۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یہ بھی تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم علیہ کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔ آپ نے جو راہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے۔ اس راہ کو چھوڑ کر اَور ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنا ہی خوش کرنے والا معلوم ہوتا ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے……۔ غرض مُنْعَم عَلَیْھِم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے، اُن کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآنِ شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے‘‘۔ (الحکم 31؍مارچ1905ء صفحہ 6-5۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 288-287)

پھر آپ نے فرمایا کہ:

’’یقینا جانو کہ اللہ تعالیٰ اُس وقت تک راضی نہیں ہو گا اور نہ کوئی شخص اُس تک پہنچ سکتا ہے جب تک صراطِ مستقیم پر نہ چلے۔ وہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو شناخت کرے اور اُن راہوں اور ہدایتوں پر عمل درآمد کرے جو اُس کی مرضی اور منشاء کے موافق ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’جب یہ ضروری ہے تو انسان کو چاہئے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے‘‘۔

پھر اس دعا کی وسعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’دعا کے بارہ میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے۔ یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم۔ اس میں تین لحاظ رکھنے چاہئیں۔ (1) ایک یہ کہ تمام بنی نوع کو اس میں شریک رکھے‘‘ (جب یہ دعا کر رہے ہو تو کُل انسانیت کو اس میں شریک کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صراطِ مستقیم پر چلائے اور ہدایت دے اور اُن کو بھی انعامات میں شامل کرے)۔ (پھر دوسرے نمبر پر) ’’(2) تمام مسلمانوں کو بھی شامل کرو‘‘۔ (پھر) ’’(3) تیسرے اُن حاضرین کو جو جماعتِ نماز میں داخل ہیں‘‘ (جو مسجد میں تمہارے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اُن کوبھی اپنے ساتھ اس دعا میں شامل کرو)۔ فرمایا ’’پس اس طرح کی نیت سے کل نوعِ انسان اس میں داخل ہوں گے اور یہی منشاء خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی سورت میں اس نے اپنا نام ربّ العالمین رکھا ہے جو عام ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے جس میں حیوانات بھی داخل ہیں۔ پھر اپنا نام رحمان رکھا ہے اور یہ نام نوعِ انسان کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ رحمت انسانوں سے خاص ہے اور پھر اپنا نام رحیم رکھا ہے اور یہ نام مؤمنوں کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ رحیم کا لفظ مؤمنوں سے خاص ہے۔ اور پھر اپنا نام مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن رکھا ہے۔ اور یہ نام جماعتِ موجودہ کی ہمدردی کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یَوْمِ الدِّیْن وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ کے سامنے جماعتیں حاضر ہوں گی۔ سو اسی تفصیل کے لحاظ سے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  کی دعا ہے۔ پس اس قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دعا میں تمام نوعِ انسانی کی ہمدردی داخل ہے اور اسلام کا اصول یہی ہے کہ سب کا خیر خواہ ہو‘‘۔ (الحکم 29؍اکتوبر1898ء۔ صفحہ 4بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 291-290)۔ فرمایا ’’آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں اشارہ ہے اور اس امر پر ترغیب دلائی گئی ہے کہ صحیح معرفت کے لئے دعا کی جاوے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اپنی صفات کی ماہیت تمہیں دکھائے اور تمہیں شکر گزار بندوں میں سے بنا و ے کیونکہ پہلی قومیں اللہ تعالیٰ کی صفات، اُس کے انعامات اور اُس کی خوشنودی کی معرفت سے اندھا ہونے کے بعد ہی گمراہ ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے دن ایسے اعمال میں ضائع کر دئیے جن اعمال نے انہیں گناہوں میں اور بھی آگے بڑھا دیا۔ پس اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا اور اُن پر خواری مسلط کر دی گئی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ سیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اُنہی لوگوں کا رُخ کرتا ہے جن پر اُس غضب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوں‘‘۔ (یہ بڑی غور کرنے والی چیز ہے۔ فرمایا غضب اُنہی پر ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کئے ہوں۔ پس اگر انسان سمجھے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے اتنے انعامات ہیں تو اُس کو بہت زیادہ ڈر کے رہنا چاہئے۔ ) فرمایا: ’’پس اس آیت میں مَغْضُوْبِ عَلَیْہِم سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اُن نعمتوں اور برکتوں کے بارہ میں جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اُنہیں پر نازل فرمائی تھیں اُس (کے احکام) کی نافرمانی کی۔ اپنی خواہشات کی پیروی کی اور انعام کرنے والے خدا اور اُس کے حق کو بھول گئے اور منکروں میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح ضَآلّیْن سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے صحیح رستہ پر چلنے کا ارادہ تو کیا لیکن صحیح علوم، روشن اور حقیقی معارف اور محفوظ رکھنے والی اور توفیق بخشنے والی دعائیں اُن کے شاملِ حال نہ ہوئیں بلکہ اُن پر توہمات غالب آ گئے اور وہ اُن کی طرف جھک گئے‘‘۔ (جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ آجکل بعض مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے)۔ فرمایا کہ ’’(اپنے صحیح) راستوں سے بھٹک گئے اور سچے مشرب کو بھول گئے۔ پس وہ گمراہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے افکار کو واضح اور کھلی سچائی کی چراگاہوں میں نہیں چھوڑا اور اُن کے افکار، اُن کی عقلوں اور نظروں پر تعجب ہے کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ اور اُس کی مخلوق پر وہ کچھ جائز قرار دے دیا جس کو فطرتِ صحیحہ اور قلبی انوار ہرگز قبول نہیں کرتے۔ وہ نہیں جانتے کہ شریعتیں (دراصل) طبائع کی (بطورِ علاج) خدمت کرتی ہیں اور طبیب طبیعت کا معاون ہوتا ہے نہ اُس کا مخالف۔ پس افسوس ہے کہ یہ لوگ صادقوں کی راہ سے کتنے غافل ہیں‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت کرامات الصادقین۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 323تا 325)

یہ بھی کرامات الصادقین کاعربی ترجمہ ہے۔ پس یہ لوگ جو اس زمانہ کے امام کو نہیں مان رہے، حضرت مسیح موعودؑ کو نہیں مان رہے وہ بھی بھٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص ہو کر اپنے حضور دعا کرنے والا بنائے۔ اُن لوگوں میں سے کبھی نہ بنائے جو ہدایت کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کے غضب کے مورد بنتے ہیں۔ گمراہ ہو کر اپنی دنیا و عاقبت برباد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صحیح معرفت عطا فرمائے اور ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر چلتا رکھے۔ اس رمضان کو ہمارے لئے اپنے جاری فضلوں اور ہدایت میں ترقی کرنے کا ذریعہ بنائے۔ ہمیشہ ہم اُس کے آگے جھکنے والے رہیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 26؍ اگست 2011ء شہ سرخیاں

    اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا اس ثبات قدم اور قوت کے حصول اور اس کا علم رکھنے کے لئے ہے جو مستقل مزاجی سے عبودیت کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے۔

    اگر دعا نہیں کروگے تو ہدایت کے راستے بھی بند ہو جائیں گے کیونکہ ہدایت بندہ اپنے زور سے  حاصل نہیں کرسکتا۔ حقیقی ہدایت پانے والے وہ ہیں جن کی زبان ذکرالٰہی اور دعا سے تر رہے۔ سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشد ضرورت ہے طلبِ صراط مستقیم ہے۔

    ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو۔ جب یہ چیز ہوگی تو پھر تمہاری  دنیا بھی دین بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہو رہا ہوگا۔

    خالص ہو کر اپنی حالتوں کی درستی کرتے ہوئے اگر بندہ خدا تعالیٰ کے آگے جھکے  تو وہی ہے جو انسان کی تمام حاجتیں پوری کرنے والا ہے۔

    (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی پُرمعارف تفسیر کا تذکرہ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح)

    فرمودہ مورخہ 26؍اگست 2011ء بمطابق 26؍ظہور 1390 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور