شرائط بیعت۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں اہم نصائح

خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی خوشی اور برکت کا دن ہے جس میں جمعہ کی برکات بھی شامل ہو گئی ہیں۔ کیونکہ آج کے دن آج سے قریباً 123سال پہلے قرآنِ کریم کی، اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے ایک عظیم پیشگوئی پوری ہوئی۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، آپ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی اور مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور ہوا اور بیعت کے آغاز سے پہلوں سے ملنے والی آخرین کی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ اور پھر ہم بھی اُن خوش قسمتوں میں شامل ہوئے جو اس سے فیض پانے والے ہیں۔ پس ہر احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا دعویدار ہے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ شروع ہوا، وہ آپ کے ماننے والوں پر بھی اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کا تقاضا کرتا ہے تا کہ ہم اُن برکات سے حصہ پاتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس ہر سال جب 23؍ مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے یومِ مسیح موعود منانا ہے، یا الحمد للہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے ہم نے آگاہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے۔ بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے۔ اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کا دن ہے وہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود و سلام بھیجنے کا دن ہے۔

پس اس اہمیت کو ہمیں ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور یہ اہمیت شرائطِ بیعت پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اس چیز کی یاددہانی کے لئے مَیں آج پھر آپ کے سامنے شرائطِ بیعت اور ان شرائط کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہم سے آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُس کی کچھ وضاحت پیش کروں گا۔

پہلی شرط جو بیعت کرنے والا کرتا ہے، احمدیت میں شامل ہونے والا کرتا ہے، جس پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو، شرک سے مجتنب رہے گا‘‘۔ شرک سے بچتا رہے گا۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے۔ بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل‘‘ (کوئی بات، کوئی چیز، کوئی عمل) ’’جس کو وہ عظمت دی جائے جو خداتعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُت ہے……۔ یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزّہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِز اور مُذِل خیال نہ کرنا‘‘۔ (یعنی کوئی ایسا شخص خیال نہ کرنا جو عزت دینے والا ہے یا ذلیل کرنے والا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ ہی عزتیں دیتا ہے اور ذلت دیتا ہے) ’’کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا۔ اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا‘‘۔ (اُسی سے وابستہ رکھنا) ’’اپنا خوف اسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی‘‘۔ (وہ کون سی تین قسم کی خاص باتیں ہیں۔ فرمایا) ’’اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا‘‘ (جو کچھ بھی دنیا میں موجود ہے اُس کی کوئی حیثیت نہیں) ’’تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔‘‘ (ہر چیز جو ہے وہ ہلاک ہونے والی ہے اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی، ختم ہونے والی ہے اور اُس کی کوئی حقیقت نہیں، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سب جھوٹ ہے)۔ ’’دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا‘‘ (کہ ربّ صرف ہمارا خدا ہے وہی ہمارا پالنے والا ہے اور وہی ہے جس کو خدائی طاقت حاصل ہے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور منبع ہے)۔ فرمایا ’’اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں‘‘ (یہ مختلف قسم کے جو پالنے والے نظر آتے ہیں یا جن سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں) ’’یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا‘‘ (یہ سب لوگ بھی، جن سے ہمیں فائدہ دنیا میں مل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی مل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے نظام کا ایک حصہ ہیں)۔ ’’تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالیٰ کا شریک نہ گرداننا۔ اور اسی میں کھوئے جانا‘‘۔ (یعنی عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کرنا۔) (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کاجواب روحانی خزائن جلد 12صفحہ 349-350)

پھر بیعت کی دوسری شرط ہے۔ ’’یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں‘‘ (جو سچائی سے روکتے ہیں ) ’’تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں (کوئی حرج نہیں )اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے‘‘۔

فرمایا’’دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔ اس میں خدا کی تعلیم یہ ہے۔ کہ

فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31) ……وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا(البقرۃ: 283)…… وَلَا تَکْتُمُوْا الشَّھَادَۃَ۔ وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبَہٗ (البقرۃ284)…… وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ(الانعام: 153)……کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَٓاءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (النساء: 136)……وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا(سورۃ المائدۃ آیت 9)…… وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰت (الاحزاب: 36)…… وَتَوَاصَوْا بِا لْحَقِّ۔ وَتَوَاصَوْابِالصَّبْرِ (العصر: 4)……لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ(الفرقان: 73)۔

اس کے ترجمہ میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہے۔ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے‘‘۔ (انصاف کی بات ہے)’’اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو۔ اگر چہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے۔ یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے۔ ان کی عادت ہے کہ اَوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں۔ اور جھوٹوں کی مجلسوں میں نہیں بیٹھتے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ 360-361)

پھر آپ اس کے بارہ میں مزید فرماتے ہیں۔ دوسری شرط میں بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ فرمایا کہ:

’’زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (آج کل جو ٹی وی پروگرام ہیں، بعض چینلز ہیں، بعض انٹر نیٹ پر آتے ہیں یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو ان برائیوں کی طرف لے جانے والی ہیں۔ نظر کا بھی ایک زنا ہے، اُس سے بھی بچنا چاہئے۔ ہر ایسی چیز جو برائیوں کی طرف لے جانے والی ہے فرمایاکہ اُس سے بچو۔) ’’زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ 342) (تمہاری منزل مقصودکیا ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی رضااور یہی آخری منزل ہے اور اس کے رستے میں یہ چیز روک بنتی ہے)

پھر اسی دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بدنظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا:

’’قرآنِ شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا۔ فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو اُن سے رُکنا ہی پڑتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 105۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ مزید فرماتے ہیں۔ ’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے۔ غضّ بصر کا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، حلال و حرام کا امتیاز، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 614۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

فسق و فجور سے بچنے کے لئے آپ فرماتے ہیں:

’’جب یہ فسق وفجو ر میں حد سے نکلنے لگے‘‘ (یعنی مسلمان یا دوسرے مذاہب کے لوگ) ’’اور خدا کے احکا م کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب وزینت میں ہی گم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی‘‘ (یہ مسلمانوں کے ذکر میں فرمایا) ’’اسی طرح ہلا کو، چنگنیرخا ن وغیر ہ سے بر با د کروایا۔ لکھا ہے کہ اس وقت یہ آسما ن سے آواز آتی تھی اَ یُّھَاالْکُفَّا ر اُقْتُلُوْ االْفُجَّار۔ (یعنی اے کافرو! فاجروں کو قتل کرو) غر ض فا سق فا جر انسا ن خدا کی نظر میں کا فر سے بھی ذلیل اور قا بل نفر ین ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ108۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر فساد سے بچنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:

’’تمہیں چاہیے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے اُن سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ اُن کے لیے غائبانہ دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے۔ تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو مَیں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سُن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ ……

جب مَیں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو مَیں ہرگز پسندنہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔ نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے (اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ مجھے لوگ گندی گالیاں دیں )کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کردو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خد اپر چھوڑدو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 157۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ) (دشمنوں کے مقابلے میں۔ اور یہی پاکستان میں احمدیوں کو بار بار کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں اب لوگوں نے غلیظ قسم کی گالیوں کی انتہا کر دی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیتے ہیں۔ اور اس کا صرف حل یہی ہے کہ دعائیں کی جائیں اور بہت دعائیں کی جائیں۔)

پھر آپ نفسانی جوشوں سے بچنے کے لئے فرماتے ہیں:

’’وہ بات مانو جس پر عقل اور کانشس کی گواہی ہے اور خدا کی کتابیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں‘‘۔ فرمایا ’’زنا نہ کرو، جھوٹ نہ بولو اور بدنظری نہ کرو اور ہر ایک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کی راہوں سے بچو۔ اور نفسانی جوشوں سے مغلوب مت ہو اور پنج وقت نماز ادا کرو کہ انسانی فطرت پر پنج طور پر ہی انقلاب آتے ہیں اور اپنے نبی کریم کے شکر گزار رہو، اُس پر درود بھیجو، کیونکہ وہی ہے جس نے تاریکی کے زمانے کے بعدنئے سرے خدا شناسی کی راہ سکھلائی‘‘۔ (ضمیمہ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15 صفحہ525)

پھر تیسری شرط بیعت کی یہ ہے:

’’یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ (باقاعدگی رکھے گا۔) اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اے وے تمام لوگو !جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پور ے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہوکر ترک کرو۔ یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا‘‘۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 15)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ بہت قریب آ جاتا ہے اگر اُس کا حق ادا کیا جائے)’’نماز کا حق ادا کر نے والا یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گرِپڑی ہے۔ …… جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تبا ہ نہ ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں نماز ہو تی تو وہ قوم کبھی تبا ہ نہ ہو تی۔ حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں۔ سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پا نچ دفعہ ادا کرنے کا ہے۔ اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ بر کات بھی نہ ہو ں گی جو اس سے حاصل ہو تی ہے اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ627۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر تہجد کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:

’’راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے۔ ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اُسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کاانتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجدمیں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کوچھوڑ دو اور خدا تعالی کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کوبناؤ۔ (ملفو ظات جلد1 صفحہ28۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ درود کے بارہ میں بتاتے ہیں کہ:

’’انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اُسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجاؤ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ (الزمر: 54) اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپؐ پر درود پڑھو۔ اور آپؐ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ سب حکموں پر کار بند رہو‘‘۔ (البدرجلد2، نمبر14۔ 24 اپریل 1903ء صفحہ109)

پھر استغفار کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:

’’جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے اُن کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ ہیں کہ گناہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں۔‘‘ (اگر غلطی سے گناہ ہو گیا تو انسان استغفار کرنے سے اُس کے بدنتائج سے بچ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ جاتا ہے) ’’کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے، یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے، وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ 34)

پھر چوتھی شرط بیعت کی یہ ہے ’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’پہلا خلق ان میں سے عفو ہے‘‘(معاف کرنا ہے)۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے۔ وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے۔ سزا دلائی جائے۔ قید کرایا جائے۔ جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصالِ خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135)۔ جَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہ (الشوریٰ: 41) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔ لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پربخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر (یعنی اس بخشنے کا کا فائدہ ہو) تو اس کا وہ بدلہ پائے گا‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ 351)

پھر فرمایاکہ:

’’انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو۔ بے حیائی نہ کرے۔ مخلوق سے بد سلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔ اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے۔ سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد5 صفحہ 609۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر عاجزی کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: ’’اس سے پیشتر کہ عذاب الہٰی آکر توبہ کا دروازہ بندکردے، توبہ کرو۔ جب کہ دُنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے توبہ کریں۔ توبہ سے مراد یہ ہے کہ ان تمام بد کاریوں اور خدا کی نارضا مندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں‘‘۔ (جو انسانی عادات ہیں انسان میں، اچھے اخلاق اُن میں اپنانے کی کوشش کرو) ’’غضب نہ ہو۔ تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے‘‘(غصہ کی جگہ عاجزی انکساری لے لے)۔ ’’اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر: 9) یعنی خدا کی رضاکے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعا لیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔ قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے‘‘۔ (ملفو ظات جلد 1صفحہ 134-135۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر پانچویں شرط یہ ہے ’’یہ کہ ہر حال رنج وراحت اور عسر اور یسر اور نعمت اور بلاء میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا۔ اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اُس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اُس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے تعلق میں )۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لے لیتے ہیں‘‘۔ (یعنی اپنی جان بیچ کر اللہ تعالیٰ کی رضا خریدتے ہیں، اپنی جان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے)۔ ’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے۔ خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے‘‘ (اس آیت کو بیان نہیں کیا گیا لیکن بہر حال آپ آیت کی تشریح کر رہے ہیں ) ’’کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت خلق کے لئے بنائی گئی ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ385)

پھر خدا کا پیار حاصل کرنے کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمتِ خاص کے مورد ہیں‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ421)

پھر خدا تعالیٰ سے وفا داری کے تعلق میں فرماتے ہیں کہ: ’’ہر مومن کا یہی حال ہوتا ہے کہ اگر وہ اخلاص اور وفا داری سے اُس کا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کا ولی بنتا ہے۔ لیکن اگر ایمان کی عمارت بوسیدہ ہے تو پھر بیشک خطرہ ہوتا ہے۔ ہم کسی کے دل کا حال تو جانتے ہی نہیں۔ …… لیکن جب خالص خدا ہی کا ہو جاوے تو خداتعالیٰ اس کی خاص حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سب کا خدا ہے مگر جو اپنے آپ کو خاص کرتے ہیں ان پر خاص تجلی کرتا ہے۔ اور خدا کے لیے خاص ہونا یہی ہے کہ نفس کو بالکل چکنا چور ہوکر اس کا کوئی ریزہ باقی نہ رہ جائے۔ اس لیے مَیں باربار اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ بیعت پر ہرگز ناز نہ کرو۔ اگر دل پاک نہیں ہے ہا تھ پرہاتھ رکھناکیا فا ئدہ دے گا‘‘ (یعنی بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھانا کیا فائدہ دے گا) ’’مگر جو سچا اقر ار کر تا ہے اس کے بڑے بڑے گنا ہ بخشے جا تے ہیں اور اس کو ایک نئی زند گی ملتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ 65۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر چھٹی شرط یہ ہے۔ ’’یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کواپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

اس ضمن میں پہلے مَیں ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ حضرت عمرو بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طور پر زندہ کرے گا‘‘۔ (یہ قال الرسول کی بات ہو رہی ہے) ’’کہ لوگ اُس پر عمل کرنے لگیں تو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور اُن کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اُسے اپنا لیا تو اُس شخص کو بھی اُن پر عمل کرنے والوں کے گناہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہو گی۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب المقدمۃباب من احیا سنۃقد امیتت حدیث: 209)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو اللہ تعا لیٰ قر آن شر یف میں فر ما تا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)۔ خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر و ی ہی ایک راہ ہے اور کو ئی دو سر ی راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے۔ انسان کا مد عا صر ف اس ایک وا حد لا شر یک خدا کی تلا ش ہو نا چا ہیئے۔ شرک اور بدعت سے اجتناب کر نا چاہئے۔ رسو م کا تا بع اور

ہو اوہو س کا میطع نہ بننا چا ہیئے۔ دیکھومَیں پھر کہتا ہو ں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طر ح انسان کا میاب نہیں ہو سکتا۔ ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآن شریف اُس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تا بعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں۔ آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں۔ سو تم ان سے پرہیز کرو۔ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا گویا اپنی الگ ایک شریعت بنا لی ہے۔ تم یاد رکھو کہ قرآن شریف اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیرو ی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں۔ بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے۔ ناکام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ 102-103۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر ساتویں شرط یہ ہے کہ ’’یہ کہ تکبّر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

تکبر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہر ایک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کا رحم، جو بھی اللہ تعالیٰ کو ماننے والا ہے، اُس کو واحد سمجھنے والا ہے، اُس کی مدد کرتا ہے، اُس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے لیکن تکبر کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ) ’’شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن5 جلد صفحہ 598)

فرماتے ہیں کہ ’’اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریاء ہے، یا خود پسندی ہے، یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ قبول کے لائق ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کرلیا ہے۔‘‘ (بیعت کر لی یہی کافی ہے) ’’کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے۔ اوروہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا‘‘۔ (کشتی نو ح۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ 12)

پھر مسکینوں کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لیے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کوہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے۔ بلکہ سوال یہ ہوگا کہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہؓ خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پو چھے گا۔ اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔ پس چاہئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کرکیا کرو‘‘۔ (ملفو ظات جلد3 صفحہ 370۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آٹھویں شرط یہ ہے کہ’’یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پراسلام کی زندگی۔ مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ اس مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا ہے‘‘۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد3 صفحہ10تا12)

پس آپ کا مقصد دنیا کی اصلاح کرنا ہے اور ہم جو ماننے والے ہیں، ہمیں ان باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر نویں شرط یہ ہے: ’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور و ہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اﷲ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہٗ)۔ ……

پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمددی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر: 9) وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفّار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی‘‘۔ فرماتے ہیں ’’مَیں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھتا ہے تو چار قدم گرتا ہے، لیکن مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کردے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے‘‘۔ (ملفو ظات جلد 4صفحہ 219۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اُس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو۔ اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔ اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو۔ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ ……بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہوکر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اور امیر ہوکر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو‘‘۔ (کشتی نو ح روحا نی خز ائن جلد 19صفحہ 11-12)

پھر دسویں شرط یہ ہے: ’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اُس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیاوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ160 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں فرما رہے ہیں )’’اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اُس کو قوت دیں گے۔ اور اُس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اُس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے‘‘۔ (براہین احمد یہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ 420)

یعنی یہ شرعی احکامات ہیں اور یہی معروف احکام ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور ایک انسان کی دنیاوی طوقوں سے نجات بھی اسی میں ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اب میری طرف دوڑوکہ وقت ہے کہ جو شخص اس وقت میری طرف دوڑتا ہے مَیں اُس کو اس سے تشبیہ دیتا ہوں کہ جو عین طوفان کے وقت جہاز پر بیٹھ گیا۔ لیکن جو شخص مجھے نہیں مانتا۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ طوفان میں اپنے تئیں ڈال رہا ہے اور کوئی بچنے کا سامان اُس کے پاس نہیں۔ سچا شفیع مَیں ہوں جو اس بزرگ شفیع کا سایہ ہوں‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہوں) ’’اور اس کا ظل جس کو اس زمانے کے اندھوں نے قبول نہ کیا اور اس کی بہت ہی تحقیر کی، یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ (دافع البلاء روحانی خزائن جلد18 صفحہ 233)

پھر آپ فرماتے ہیں۔ اب ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آخر میں بیان ہے’’اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درختِ وجود کی سرسبز شاخو ! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو‘‘۔ (پھر فرماتے ہیں اس بارے میں کہ کون عزیز ہیں؟) فرمایا کہ’’میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہچا نتا ہے؟ صر ف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں۔ اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ مَیں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصّہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑ تا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔ مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جا ئیگا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میَں ہوں‘‘ (مضبوط قلعہ میں ہوں، حفاظت میں رکھنے والا قلعہ میں ہوں ) ’’جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے۔ اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جوبدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتاہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مُزکّی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اُس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پَیر رکھ دیتا ہے تووہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اُس میں کبھی آگ نہیں تھی‘‘۔ (انسان جب پاک بنتا ہے، نفس کی دوزخ میں جب پاؤں رکھتا ہے جب انسان اپنے آپ کو، اپنے نفس کو پاک کرتا ہے تو پھر جتنی بھی اُس کی نفس کی آگ تھی وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے) فرمایا: ’’تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اُس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلّی ٔ خاص کے ساتھ رب العالمین کا استو یٰ اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے) تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اُس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اِسی عالم میں اُس کو مل جاتا ہے‘‘۔ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد3 صفحہ 34-35)

پس یہ وہ تعلیم اور خواہشات ہیں جن پر چلنے اور پورا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ حقیقی بیعت کنندہ کا یہ معیار مقرر کیا ہے۔ پس آج کے دن ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان شرائط پر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے، انہیں دور فرمائے اور ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر کوئی نیکیاں ہمارے اندر ہیں تو اُن کے معیار پہلے سے بلند ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بلند کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں۔

آج مَیں نے احتیاطاً پاکستان کے حوالے سے کچھ نوٹس رکھ لئے تھے۔ پاکستان میں بھی 23؍مارچ کو یومِ پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو مَیں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دورسے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے۔ کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعائیں کی ہیں لیکن پھر بھی یہی کہاجاتا ہے اس لئے چند حقائق بھی مَیں پیش کروں گا کہ احمدی کس حد تک اس ملک کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے؟

’دورِ جدید‘ ایک اخبار تھا، اُس نے 1923ء میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق یہ لکھا کہ ’’پنجاب کونسل کے تمام مسلمانوں نے (جو) (یقینا مسلمانانِ پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائز حق رکھتے ہیں ) جبکہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستندنمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہئے تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی کی ذاتِ ستودہ صفات تھی جس پر اُن کی نظر انتخاب پڑی۔ چنانچہ چوہدری صاحب نے اپنا روپیہ صرف کر کے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومتِ برطانیہ اور سیاسینِ انگلستان کے رو برو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانانِ پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حد تک متأثر ہوئی……۔ (اخبار دورِ جدید لاہور 16 اکتوبر 1923 بحوالہ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کی قربانیاں از مرزاخلیل احمد قمر صفحہ 11)

یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کر سکتا۔

پھر ممتاز ادبی شخصیات میں سے مولانا محمد علی جوہر صاحب ہیں۔ اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘ مؤرخہ 26؍ستمبر 1927ء میں لکھتے ہیں کہ:

’’ناشکری ہو گی کہ جناب میرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنے تمام تر توجہات، بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں …… اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں، مشعل راہ ثابت ہو گا‘‘۔ (اخبار ’’ہمدرد‘‘ مورخہ 26ستمبر 1927ء بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ 7)

یعنی مولانا محمد علی جوہر صاحب بھی نہ صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کو سراہ رہے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ کومسلمان فرقہ میں شمار کر رہے ہیں۔ جبکہ آجکل تاریخِ پاکستان میں سے احمدیوں کا نام نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور آئینی لحاظ سے مسلمان تو وہ لوگ ویسے ہی تسلیم نہیں کرتے۔ پھر اسی طرح ایک بزرگ ادیب خواجہ حسن نظامی نے گول میز کانفرنس کے بارہ میں لکھا کہ:

’’گول میز کانفرنس میں ہر ہندو اور مسلمان اور ہر انگریز نے جو چوہدری ظفر اللہ خان کی لیاقت کو مانا اور کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو فضول اور بے کار بات زبان سے نہیں نکالتا اور نئے زمانے کی پولیٹکس پیچیدہ کو اچھی طرح سمجھتا ہے تو وہ چوہدری ظفر اللہ خان ہے‘‘۔ (اخبار ’’منادی‘‘ 24اکتوبر1934بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردارصفحہ 24)

پھر ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین میں سے سب سے زیادہ کامیاب آغا خان اور چوہدری ظفر اللہ خان ثابت ہوئے‘‘۔ (اقبال کے آخری دو سال صفحہ16 بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردارصفحہ 24)

یہ بھی ایک کتاب ہے ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ اور اس کی ناشر اقبال اکیڈمی پاکستان ہے۔

پھر حضرت قائد اعظم نے خود سیاست میں واپس آنے کے بارے میں ہندوستان واپس جانے کے بارے میں فرمایا کہ:

’’مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ مَیں ہندوستان کی کوئی مددنہیں کر سکتا‘‘۔ (جب یہ واپس چلے گئے تھے ہندوستان چھوڑ کے، انگلستان آ گئے تھے) ’’نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں، نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر مَیں نے لنڈن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کر لیا‘‘۔ (قائد اعظم اور ان کا عہد از رئیس احمد جعفری صفحہ192بحوالہ تعمیرو ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ 8)

یہ رئیس جعفری صاحب کی کتاب’’قائد اعظم اور ان کا عہد‘‘ میں یہ درج ہے۔ ’’تو اُس وقت جماعت احمدیہ نے ان کو واپس لانے کی کوشش کی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے امام مسجد لنڈن مولانا عبدالرحیم درد صاحب کو بھیجا کہ قائد اعظم پر زور ڈالیں کہ وہ واپس آئیں اور مسلمانوں کی رہنمائی کریں تا کہ اُن کے حق ادا ہو سکیں۔ آخر قائد اعظم ہندوستان واپس گئے اور مسلمانوں کی خدمت پر کمر بستہ ہونے کی حامی بھر لی اور بے ساختہ انہوں نے یہ کہا کہ:

The eloquent persuasion of the Imam left me no escape. (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 6صفحہ 102 جدید ایڈیشن)

یعنی امام مسجد لنڈن کی جو فصیح و بلیغ تلقین اور ترغیب تھی، اُس نے بھی میرے لئے کوئی فرار کا رستہ نہیں چھوڑا۔

پھر مشہور صحافی جناب محمد شفیع جو میم شین کے نام سے مشہور ہیں، لکھتے ہیں کہ:

’’یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد امام لنڈن ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آ کر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح 1934ء میں ہندوستان واپس آ گئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے‘‘۔ پاکستان ٹائمز 11؍ستمبر1981ء میں یہ حوالہ درج ہے۔ (پاکستان ٹائمز 11ستمبر1981ء سپلیمنٹ IIکالم نمبر1بحوالہ تعمیر ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثا لی کردارصفحہ8)

پھر جو اشد مخالفین تھے انہوں نے بھی ایک اعتراف کیا۔ چنانچہ مجلسِ احرار نے ’’مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ 1946ء میں شائع کیا جس میں صاف طور پر لکھا کہ مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی جو پالیسی تھی اس کو سراہا۔ اس کے بعد جب سنٹرل وسطی کے الیکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے۔ (مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ صفحہ 18 بحوالہ تعمیر و ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ 10-11)

مشہور اہلحدیث عالم مولوی میر ابراہیم سیالکوٹی اپنی کتاب ’پیغام ہدایت و تائید پاکستان و مسلم لیگ‘ میں لکھتے ہیں کہ احمدیوں کا اسلامی جھنڈے کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحدنمائندہ جماعت ہے‘‘۔ یعنی ان کے نزدیک احمدی مسلمان بھی ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

پھر باؤنڈری کمیشن کے سامنے جو حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی خدمات ہیں اُن کو حمیدنظامی صاحب نوائے وقت کے بانی تھے، بڑی مدحت بھرے الفاظ میں لکھتے ہیں۔ نوائے وقت آجکل تو جماعت کے خلاف بہت کچھ لکھتا رہتا ہے، ان کی پالیسی بدل گئی ہے کیونکہ یہ لوگ دنیاوی فائدہ زیادہ دیکھنے لگ گئے ہیں، لیکن بہر حال جناب حمیدنظامی صاحب جو اس کے بانی تھے وہ لکھتے ہیں کہ:

’’حد بندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا…… کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی۔ کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ اُن کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقے سے اربابِ اختیار تک پہنچا دی گئی ہے۔ سرظفراللہ خان صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا۔ مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلا لحاظ عقیدہ، اُن کے اس کام کے معترف اور شکر گزار ہوں گے‘‘۔ (نوائے وقت یکم اگست 1947ء بحوالہ تعمیر و ترقیٔ پاکستان میں جماعت احمدیہ کامثالی کردار صفحہ104-105)

پھر جب53ء کے فسادات ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی عدالت میں جماعت کا معاملہ پیش ہوا۔ جسٹس منیر بھی جج تھے، لکھتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ باؤنڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائداعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر معمور کیا تھا، خاص قسم کے دلائل پیش کئے، لیکن عدالت ھذا کا صدر (یعنی جسٹس منیر) جو اس کمیشن کا ممبر تھا، (اُس وقت باؤنڈری کمیشن میں یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ) اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملے میں کی تھی۔ یہ حقیقت باؤنڈری کمیشن کے حکام کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مصلحت سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔ چوہدری ظفراللہ خان نے مسلمانوں کے لئے نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں، اس کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت المعروف’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ صفحہ305جدید ایڈیشن)

اور یہ شرمناک ناشکرا پن اب اکثر سیاسی جماعتوں میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، اور پھر جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔ اس لئے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 23؍ مارچ 2012ء شہ سرخیاں

    ہر سال جب 23؍ مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے  یومِ مسیح موعود منانا ہے، یا الحمد للہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت  مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے ہم نے آگاہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے۔ بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے۔ اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کا دن ہے وہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود و سلام بھیجنے کا دن ہے۔

    شرائط بیعت کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اہم نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 23؍مارچ 2012ء بمطابق 23؍امان 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور