تمام سچی تعریف اللہ کے لئے ہے

خطبہ جمعہ 20؍ جولائی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

عموماً ہم جب اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کو دیکھتے ہیں تو اکثریت کے منہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام کے ذکر پر اَلْحَمْدُلِلّٰہ نکلتا ہے، چاہے اُسے اَلْحَمْد کے گہرے معنی کا علم ہو یا نہ ہو۔ ایک ماحول میں اُٹھان کی وجہ سے یہ احساس ضرور ہے کہ چاہے تکلفاً ہی کہا جائے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ ضرور کہنا ہے۔ کم علم سے کم علم کو بھی یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ الفاظ ضرور کہے جائیں جو اللہ تعالیٰ کی تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پس ایک احمدی کے منہ سے ہر ایسے موقع پر جس سے خوشی پہنچ رہی ہو، جس پر جب اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام مل رہا ہو، یا کسی بھی طریقے سے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے نواز رہا ہے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہ ضرور نکلتا ہے، چاہے وہ کسی کی ذاتی خوشی ہو یا جماعتی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہو۔ اور یہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کے الفاظ کی ادائیگی ہر ایسے موقع پر ایک احمدی کے منہ سے ہونی بھی چاہئے۔ لیکن ان الفاظ کی ادائیگی کا اظہار الفاظ کہنے والے کے لئے اور بھی زیادہ برکت کا موجب بن جاتا ہے جب وہ سوچ سمجھ کر، اُس کی روح کو جانتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور مسیح موعود کو مانا ہے، مہدی موعود کو مانا ہے اور اس ایمان کی وجہ سے ہمیں اَلْحَمْدُلِلّٰہ یاکسی بھی قرآنی لفظ کے معانی اور روح کو سمجھنے میں دقت نہیں ہے، بشرطیکہ ہماری اس طرف توجہ ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس کی روح سے ہمیں روشناس کروایا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کی مختلف رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ اس وقت مَیں ایک مختصر وضاحت حَمْد کے لفظ کی آپ کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’واضح ہو کہ حمد اُس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے۔ نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو اور اپنی مشیئت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور حقیقتِ حمد کما حقہٗ صرف اُسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوارکا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے۔ اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہی محسن ہے اور اول و آخر میں سب احسان اُسی کی طرف سے ہیں۔ اور سب تعریف اُسی کے لئے ہے، اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اُس کے غیروں کے متعلق کی جائے، اُس کا مرجع بھی وہی ہے‘‘۔ (اردو ترجمہ عربی عبارت از اعجاز المسیح۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد اول۔ سورۃ فاتحہ۔ صفحہ 75-74۔ مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ تفصیل ہے جس کا لفظ حَمد حامل ہے۔ اور جب ان باتوں کو سامنے رکھ کر اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا جائے تو وہ حقیقی حمد بنتی ہے جو ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ حمد بہت سی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے استعمال ہوا ہے۔ بہر حال اس وقت مَیں اس اقتباس کے حوالے سے بات کروں گا، اس کی تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حمد کی وضاحت کے حوالے سے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہ یہ ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ ایسی تعریف جو کسی مستحق تعریف کے اچھے فعل پر ہو۔ اور انسانوں میں سے بھی مختلف لوگوں کی تعریف ہوتی ہے۔ لیکن فرمایا کہ جو تعریف کا مستحق ہے اور تعریف کا سب سے زیادہ مستحق اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ پس ایک بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کی اس لئے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ تعریف کاحقدار ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ایسے انعام دینے والے کی تعریف جس نے اپنے ارادے سے انعام دیا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ کے انعام جب نازل ہوتے ہیں تو انعام حاصل کرنے والے کے اپنے عمل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ رحمانیت کا جلوہ دکھاتے ہوئے بغیر کسی عمل کے بھی نواز دیتا ہے یا اُس عمل سے ہزاروں گنا زیادہ بڑھا کر نوازتا ہے جتنا کہ عمل کیا گیا ہو یا پھر رحیمیت کے جلوے کے تحت اگر انعام دیتا ہے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بندے کو توفیق دیتا ہے کہ وہ کوئی کام کرے یادعا کرے اور اُس کے نتیجے میں نیک نتائج ظاہرہوں اور پھر اللہ تعالیٰ بندے کو نوازے۔

اور پھر تیسری چیز یہ فرمائی کہ اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون ہے جو اپنی مشیت کے مطابق کوئی احسان کرتا ہے یا کوئی بھی کام کرتا ہے، اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں پر احسان کرے۔ اس لئے اُس نے اپنی رحمت کو وسیع تر کیا ہوا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے وعدے اُس کی مشیت کے ساتھ شامل ہو جائیں تو پھر انعاموں اور فضلوں اور احسانوں کی ایسی بارش ہوتی ہے جس کا انسان احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔ اور یہ صورتحال اس دَور میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور فیصلہ آپ کے غلبہ کا اعلان کرتا ہے۔

پھر اگلی بات آپ نے یہ فرمائی کہ حمد کی حقیقی حقدار وہ ذات ہوتی ہے جس سے تمام فیض اور نور کے چشمے پھوٹ رہے ہوں۔ پس جب انسان اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہے تو یہ سوچ کر کہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس سے انسان کو سب فیض پہنچ رہے ہیں اور وہی ذات ہے جو زمین و آسمان کا نور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض (النور: 36) جب وہ نور ہے تو اُسی کی طرف انسان رجوع کرے۔ اُس کی طرف بڑھے۔ اُس کے آگے جھکے اور یوں پھر ایسا انسان حقیقی حمد کرنے والا بن کر اندھیروں سے روشنیوں کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور یہاں پھر اللہ تعالیٰ کے احسان کا ایک اور مضمون شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْر (البقرۃ: 258) کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا دوست ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور جس بندے کا اللہ تعالیٰ دوست اور ولی ہو جائے پھر اُسے اَلْحَمْدُلِلّٰہ کا بھی ایک نیا اِدراک حاصل ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا بھی ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گویا حقیقی حمد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتا ہے اور پھر اس وارث بننے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فضل ہوتا چلا جاتا ہے۔

پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی پر غیر شعوری طور پر احسان کرتا ہے، نہ کسی مجبوری کے تحت بلکہ علی وجہ البصیرت یہ احسان ہے۔ جانتا ہے کہ مَیں یہ احسان کر رہا ہوں اور اس احسان کا بدلہ بھی نہیں لینالیکن بندے کو یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم شکرگزار بنو گے، حقیقی حمد کرتے رہو گے، بندگی کا حق اداکرو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ اور بھی زیادہ تمہیں ملے گا۔ میرے یہ انعامات اور احسانات بڑھتے چلے جائیں گے اور نہ صرف یہ انعامات اور احسانات اس دنیا میں تم پر ہوتے رہیں گے بلکہ اُس دنیا میں بھی یہ انعامات اور احسانات تم پر ہوں گے اور حقیقی حمد کے نہ ختم ہونے والے پھل تم کھاتے چلے جاؤ گے۔

پھر یہ بھی فرمایا کہ اس بات کو بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو تعریف اللہ تعالیٰ کے غیر کی یا اُس کی مخلوق کی تم کرتے ہو وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف لے جاتی ہے اور لے جانے والی ہونی چاہئے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کا اِدراک اور فہم ہونا چاہئے کہ تمام تعریف کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے۔ زمین و آسمان اور اس کی ہر چیز پیدا کرنے والا خدا ہے، چاہے وہ جاندار مخلوق ہے یا غیر جاندار مخلوق۔ نباتات ہیں، حیوانات ہیں، انسان ہے، سب کا پیدا کرنے والا اور اُن میں وہ خصوصیات پیدا کرنے والا خدا تعالیٰ ہے جس سے ایک انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔

پس کسی بھی چیز کی اور کسی بھی انسان کی اپنی ذاتی اہمیت کوئی نہیں جب تک کہ خدا تعالیٰ اُس میں وہ خصوصیت یا طاقت پیدا نہ کرے جو انسان کو فائدہ پہنچانے والی ہے۔ اس زمین پر بھی بیشمار چیزیں جو ہم دیکھتے ہیں اُن سے فائدہ پہنچانے کی خاصیت خدا تعالیٰ نے ہی اُن میں رکھی ہے اور انسان اُن سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے کہ یہ فائدہ حاصل کیا جائے۔ پس جب ہر ایک کو ہر خصوصیت خدا تعالیٰ کی مرضی اور اُس کے ارادے اور اُس کے قانونِ قدرت سے مل رہی ہے تو پھر غیر اللہ سے فائدہ اُٹھانے کے بعد حقیقی شکرگزاری بھی خدا تعالیٰ کی ہونی چاہئے اور حمد اُسی کی کرنی چاہئے کہ اُس نے یہ اسباب اور سامان پیدا فرمائے جس کی وجہ سے اللہ کے بندے نے فائدہ اُٹھایا، ایک مومن نے فائدہ اُٹھایا۔ ہاں یہ بھی حکم ہے کہ شکرگزاری بندوں کی بھی کرنی چاہئے۔ اگر تم کسی دوسرے انسان سے فائدہ اُٹھاتے ہو تو اُس کے بھی شکرگزار بنو۔ اگر بندوں کی شکرگزاری اس نیت سے کی جائے کہ خدا تعالیٰ نے اسے میرے فائدے کے لئے بھیجا ہے، اُسے مجھے فائدہ پہنچانے کا ایک ذریعہ بنایا ہے، میری بہتری کا ذریعہ بنایا ہے تو یہ بھی خدا تعالیٰ کی شکرگزاری ہے۔ اور یہ شکرگزاری اُس ربّ العالمین کی ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے جس نے ہمیں بھی پیدا کیا اور ہماری پرورش کے سامان کئے اور باقی چیزوں کے لئے بھی۔ پھر کسی بندے کو انسان ربّ نہیں بناتا۔ یہ نہیں سمجھتا کہ اس بندے کی وجہ سے میرے یہ کام ہوئے ہیں یا مجھے سب کچھ ملا ہے۔ پھر حقیقی ربّ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جو ربّ العالمین ہے۔

پس یہ ایک مومن کی شان ہے کہ جب وہ بندوں کے احسانوں کا بھی شکرگزار ہوتا ہے تو احسان کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے بلکہ جب کسی کی طرف سے نیک سلوک دیکھتا ہے تو اس نیک سلوک کی وجہ بھی خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے کہ اُس نے دوسرے کے دل میں نیک سلوک کرنے کا خیال ڈالا۔ پس ایک حقیقی مومن کی سوچ ہر فائدہ پر چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے پہنچ رہا ہو اُسے خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف لے جاتی ہے۔ اور جب یہ صورت ہو تو وہی حقیقی حمد ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلوائی ہے اور توجہ قائم کرنے کا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادِ جماعت کی اکثریت تو اس سوچ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتی ہے اور کرنی چاہئے کہ ایمان بھی اس حقیقی حمد کے ساتھ ہی ترقی کرتا ہے لیکن من حیث الجماعت بھی ہمیں یہی سوچ رکھنی چاہئے کہ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ جو جماعت کو مختلف نہج پر آگے بڑھتا ہوا دکھاتا ہے تو اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے بنیں اور ہمیشہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کی حقیقی روح کو جاننے والے ہوں۔ اور جب اس طریق پر ہر طرف حمد ہو رہی ہو گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ کر برسے گی۔ یہ حقیقی حمد انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب بھی پیدا کرتی ہے۔ باریک تر شرک سے بھی بچاتی ہے۔ ایک انسان کو حقیقی عابد بناتی ہے اور پھر اُن حکموں کی تلاش کر کے اُن پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ انسانی قدروں کو اپنانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ پس یہ حمد ہے جس کے کرنے کی ہمیں تلاش رہنی چاہئے۔

گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں جو مَیں نے کینیڈا میں دیا تھا، امریکہ اور کینیڈا کے نوجوانوں کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں توفیق دی ہے کہ وہ جماعتی کاموں میں کافی ایکٹو (Active) ہوئے ہیں اور خاص طور پر تعلقات بڑھانے میں غیروں سے کافی آگے بڑھے ہیں۔ اور پھر تعلقات کے بہتر نتائج بھی نکلے ہیں اور بہت سے پڑھے لکھے لوگوں سے اُن کے رابطے ہوئے ہیں۔ اُن ملکوں کی بڑی شخصیات سے اُن کے رابطے ہوئے ہیں۔ اور اُن رابطوں کی وجہ سے جب مَیں وہاں گیا تو مختلف لوگوں سے بھی مجھے ملایا گیا۔ اُن سے ملنے کا موقع بھی دیا اور اکثر ہمارے مشن ہاؤس میں آ کے وہیں ملتے رہے۔ عموماً بڑے بڑے لوگ جن کے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ نہیں آئیں گے، وہ لوگ جو ملکوں کی پالیسیز بناتے ہیں، جو دنیا پر حکومت کر رہے ہیں اور دنیا کے بارے میں پالیسیز بناتے ہیں، اُن کو بھی کچھ بتانے اور سمجھانے کا اور کہنے کا موقع ملا۔ ان تعلقات کی وجہ سے یہ فائدہ ہوا۔ اور اس میں جیسا کہ مَیں نے کہا، بڑا کردار نوجوانوں نے ادا کیا۔ لیکن ان نوجوانوں کو جو خواہ امریکہ کے ہوں یا کینیڈا کے ہوں یا دنیا میں کسی بھی ملک کے ہوں، مَیں یہ توجہ بھی دلانی چاہتا ہوں کہ کسی دنیاوی تعلق کو اپنی بڑی کامیابی نہ سمجھیں۔ ہاں ایک موقع اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیاکہ ان دنیاوی لوگوں تک آپ کی پہنچ ہو اور اُن تک حقیقی اور انصاف پر مبنی اسلام کی تعلیم پہنچے یا اگر آپ لوگوں نے اُن لوگوں سے مجھے ملوایا یا کوئی فنکشن ارینج (Arrange) کیا تو مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ اُنہیں اسلام کی خوبصورت تعلیم بتاؤں اور حکمت سے ان ملکوں کے بڑوں کو جو دنیا کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں بتاؤں کہ دنیا کی رہنمائی کس طرح ہو سکتی ہے۔

پس پہلی بات تو مَیں ہر جگہ کے نوجوانوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کیونکہ ابھی مَیں امریکہ اور کینیڈا کا دورہ کر کے آیا ہوں اس لئے وہاں کے نوجوانوں کو خاص طور پر کہ اپنے تعلقات کو، اپنی کامیابیوں کو اپنی کسی خوبی پر محمول نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں کہ اُس نے آپ کو یہ موقع دیا کہ تعلقات بنائیں۔ اور ان تعلقات سے ہمارا مقصد اپنا ذاتی مفاد اُٹھانا نہیں ہے، نہ کبھی یہ ہونا چاہئے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا کی رہنمائی ہو، دنیا کو حتی الوسع کوشش کر کے سیدھے راستے پر چلنے کے طریقے بتائے جائیں۔ اگر وہ مان لے تو ٹھیک، نہیں تو پھر کم از کم ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے۔ دنیا کو فسادوں اور تباہی سے بچایا جائے کیونکہ جس نہج پر دنیا چل رہی ہے، اگر یہ جاری رہا تو یقینا بہت بڑی تباہی آگے نظر آ رہی ہے۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف لایا جائے۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ شاید ان تعلقات سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ ہے یا ہماری کوئی اپنی قابلیت ہے جس کی وجہ سے یہ تعلقات بنے یا جماعت احمدیہ کی ترقی اس سے وابستہ ہے تو وہ بالکل غلط ہے۔

جیسا کہ مَیں نے حمد کے مضمون میں وضاحت کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو ترقیات سے نوازے۔ ان ترقیات کے حصول میں ہماری تو ادنیٰ کوشش ہوتی ہے اور باقی جو نتائج حاصل ہو رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان کے رنگ میں ہو رہے ہوتے ہیں۔ پس ہر کوشش کے پھل کسی کی ذاتی خوبی اور محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہیں، بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہی ہیں۔ اگر ہم اس سوچ کو قائم رکھیں گے تو فضل بڑھتے جائیں گے۔ باقی ان دنیاداروں سے نہ ہم نے کچھ لینا ہے، نہ ہمارا یہ مقصد ہے۔ میرے امریکہ کے دورے کی رپورٹس الفضل میں پڑھنے والوں نے تو پڑھ لی ہوں گی۔ امریکہ میں اُس جگہ اور عمارت میں جو کیپیٹل ہل (Capitol Hill) کہلاتی ہے، جہاں امریکی کانگریس اور سینیٹ (Senate) بیٹھ کر اپنے ملکی اور دنیا کے فیصلے کرتی ہیں، جہاں اُس ملک کے اور بھی مختلف دفاتر ہیں، وہاں ایک ہال میں فنکشن بھی ہوا تھا، جہاں مَیں نے اُنہیں مختصر خطاب کیا تھا۔ ہمارے بعض مخالفین نے، خاص طورپر پاکستان میں اسے ہمارے خلاف، جماعت کے خلاف اُچھالنے کی کوشش کی تا کہ احمدیوں کے خلاف مزید بھڑکایا جائے لیکن بہر حال ان کو کوئی ایسی خاص پذیرائی تو نہیں ملی۔ ان کا یہ مؤقف تھاکہ مَیں احمدیوں کے لئے امریکی حکومت سے کوئی مدد مانگنے گیا ہوں یا نعوذ باللہ ملک کے خلاف، پاکستان کے خلاف کوئی سازش کرنے گیا ہوں۔ یہ تو جو کچھ مَیں نے وہاں کہا اُسے سن کر، اگر ان کی انصاف کی آنکھ ہو، جو نہیں ہے تو خود ہی انصاف سے فیصلہ کر لیں گے اور ہر عقلمند فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں لینے گیا تھا یا اُنہیں کچھ دینے اور بتانے گیا تھا۔

ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ جماعت کی ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے، کسی حکومت کی مدد سے نہیں۔ اور نہ کبھی ہمارے دل میں یہ خیال آیا ہے۔ ملک کے خلاف سازش کا سوال ہے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ وطن سے محبت کرنے والے ہیں جن کا نہ پاکستان کے بنانے میں کوئی کردار ہے، نہ اس کے قائم رکھنے میں کوئی کردار ہے، بلکہ یہ لوگ تو دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں اور تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جہاں تک لینے کی بات ہے تو یہ بھی بتا دوں کہ 2008ء میں جوبلی کے جلسہ پر جب مَیں وہاں گیا تھا تو وہاں ایک ریسپشن (Reception)بھی تھی جس میں مقامی لوگ آئے ہوئے تھے لیکن اس میں صرف ایک سینیٹر تھوڑی دیر کے لئے آئے۔ وہ پانچ منٹ بیٹھے اور چلے گئے اور وہ بھی فنکشن سے پہلے۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی سینیٹر (Senator) یا کانگریس مین (Congressman) وغیرہ نہیں تھے۔ اور اُن سے دو منٹ بات ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ انداز مجھے ایسے لگا جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ کیا مانگنے آئے ہو؟کیونکہ پاکستانیوں کے متعلق اُن کا شاید یہی تصور ہے کہ مانگنے آتے ہیں۔ تو اُسے مَیں نے کہا کہ مَیں تمہارے سے کچھ لینے نہیں آیا۔ اُس وقت بھی مَیں نے اُس کو کہا تھا کہ تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر تم دنیا میں امن قائم کرناچاہتے ہو تو تمہیں کیا طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور کس طرح اپنی پالیسیز بنانی چاہئیں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ واحد سینیٹر تھے جوآئے۔ چند منٹ کی گفتگو مجھ سے کی اور چلے گئے۔

لیکن اس خطاب یا فنکشن کا جہاں تک تعلق ہے جو کیپیٹل ہِل میں ہوا اُس کی اہمیت میرے لئے صرف اتنی تھی کہ اگر یہ لیڈر اکٹھے ہو جائیں اور پڑھا لکھا طبقہ وہاں آ جائے تو ان کو اسلام کی تعلیم کے کچھ پہلو بتائے جائیں اور دنیا کے امن کے لئے شاید یہ سن کے پھر دنیا کے امن کے لئے ان کو صحیح قدم اُٹھانے کا خیال پیدا ہو جائے۔

اس فنکشن سے ایک دن پہلے سی این این (CNN) کے نمائندہ نے میرا انٹرویو لیا تھا۔ وہ اور باتوں کے علاوہ کہنے لگا کہ تمہارے لئے یہ بڑا اہم موقع پیدا ہو رہا ہے تو کیسا محسوس کر رہے ہو۔ مَیں نے اُسے کہا اور ایک دم میرے منہ سے یہی نکلا کہ میرے لئے تو یہ کوئی ایسا زیادہ اہم موقع نہیں ہے۔ اُس کے الفاظ کچھ ایسے تھے جیسے کوئی بڑی ایکسائٹمنٹ (Excitement) ہو گی یا  کچھ ہو گا۔ تو بہرحال مَیں نے کہاکہ کوئی ایسا موقع نہیں ہے جس کی وجہ سے مَیں ضرورت سے زیادہ ایکسائٹڈ (Excited) ہو جاؤں۔ اس دورے پر جو امریکہ میں آیا ہوں میرا اصل مقصد تو اپنے لوگوں سے ملنا اور اُن کی دینی، اخلاقی، روحانی حالت کی بہتری کی طرف اُنہیں توجہ دلانا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ تمہاری یہ بات جو ہے یہ تو امریکی سیاستدانوں کے لئے بڑی دھچکے والی بات ہے کہ تم اُسے کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ اور پھر ہنس کے کہنے لگا کہ مَیں تمہاری یہ بات بہر حال ان سیاستدانوں کو نہیں بتاؤں گا۔

بہر حال ایک دنیا دار کی نظر میں تو اس کی کوئی اہمیت ہوگی لیکن ہمارے نزدیک نہ ہے اور نہ ہونی چاہئے۔ ہاں ہم اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کا شکریہ ضرور ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہماری باتیں سنیں۔ اسی طرح اس فنکشن سے پہلے جب مختلف ملاقاتیں ہو رہی تھیں، وہاں کے فوجوں میں جو مختلف فرقوں کے چیپلن (Chaplain) ہیں وہ بھی ہمارے ایک احمدی کے تعلق کی وجہ سے مجھے ملنے آئے۔ چار پانچ آدمی تھے تو اُن میں سے ایک نے مجھے کہا کہ کل تم نے کانگریس میں جا کر کانگریس مین اور سینیٹر سے خطاب کرنا ہے تو نروس (Nervous) تو نہیں ہو رہے ہو گے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ بالکل نہیں۔ مَیں نے تو قرآن اور اسلام کی باتیں کرنی ہیں اور مَیں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی نروس ہونے والی بات ہے اور اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے۔ مختلف جگہوں پر لیکچرز دینے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ ہمیں اگر کوئی ایسا موقع آئے تو بڑی دِقّت ہوتی ہے اور بعض دفعہ نروس ہو جاتے ہیں حالانکہ ہم بہت زیادہ لیکچر دینے والے ہیں۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بیشک چیپلن تو ہیں، یا مذہبی لیڈر سمجھ لیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، لیکن دنیاداری ان پر غالب ہے اور کیپیٹل ہل کا جو نام ہے وہی اُن کے لئے ایک ہوّا ہے چاہے وہ امریکن ہی ہوں۔ لیکن خدائے واحد کو ماننے والے کے لئے خدا ہی سب کچھ ہے اور ہونا چاہئے۔ جماعت پر اعتراض کرنے والے بھی اسی طرح دنیاداروں سے متأثر ہوتے ہیں جس طرح یہ لوگ ہو رہے ہیں ان کی بھی میٹنگیں ہوتی ہوں گی۔ بعض جا کے ملتے بھی ہوں گے اور ان لوگوں کو متأثر ہونے کی وجہ سے کبھی یہ توفیق نہیں ملی کہ اسلام کا پیغام پہنچائیں، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں، قرآنِ کریم کا پیغام پہنچائیں۔ جب فنکشن ہو گیا تو ایک کانگریس مَین نے جو ایک دوسرے (کانگریس مین) سے بات کر رہا تھا جو ہمارے ایک احمدی نے سن لی کہ مسلمان لیڈروں کو اس طرح ہونا چاہئے کہ کھل کر بات کیا کریں اور حقیقت بیان کریں اور پُرزور الفاظ میں کریں۔ تو یہ بہر حال ایک تأثر تھا۔ ان لوگوں کو بھی، آج تک کسی مسلمان لیڈر کو، بلکہ حکومتوں کے سربراہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق نہیں دی۔ اس لئے نہیں دی کہ ان کو دین سے زیادہ دنیا کی طرف رغبت ہے۔

پس نوجوان ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ تعلقات رکھیں کہ ہم نے ان دنیاوی لیڈروں سے کچھ لینا نہیں بلکہ دینا ہے۔ شکرگزاری کے جذبات سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس طرح بڑھتے رہیں گے۔ یاد رکھیں جماعت کے کاموں میں کبھی دنیاداری راس نہیں آتی۔ اگر دنیاداروں کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا تو جو خدا تعالیٰ ہے، جو انعام دینے والا ہے وہ ان انعاموں کو واپس لینے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔

پس ہمارا مقصد تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حمد اور اُس کی رضا ہونا چاہئے اور ہے، نہ کہ کسی دنیا دار سے تعلقات ہماری انتہاء ہے۔ یہ کبھی نہ ہماری انتہا ہوئی ہے نہ ہے نہ انشاء اللہ ہو گی۔ اور نہ ہی ہماری زندگی کا مقصد ان دنیاداروں سے کچھ حاصل کرنا اور ان تک پہنچنا ہے اور چاہے وہ امریکہ کا کیپیٹل ہل ہو یا کوئی اور ایوان ہو، وہاں کا فنکشن نہ کبھی ہماری زندگی کا مقصد رہا ہے اور نہ ہو گا اور نہ ہونا چاہئے۔ یہ ہماری انتہا نہیں۔ ہماری انتہا ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ وہ جتنا بھی پڑھا لکھا ہے اور لوگوں سے تعلقات ہیں کہ خدائے واحد کے آگے جھکنے والا دنیا کو بنانا ہے، یہ ہمارا انتہائی مقصود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو تمام ایوانوں اور ملکوں کے جھنڈوں سے اونچا کرنا ہے۔ یہ ہمارا مقصد ہے۔

ایم ٹی اے پر اکثر آپ نے دیکھا ہو گا اور رپورٹس میں بھی پڑھا ہو گا کہ جو کچھ مَیں نے وہاں کہا وہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں کہاہے اور اسلام کی تعلیم جو حق اور سچائی کی تعلیم ہے، وہ کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں بھی میری کوئی خوبی نہیں۔ مَیں تو اپنے آپ کو کم علم اور عاجز انسان سمجھتا ہوں لیکن جس مسیح موعود کی نمائندگی میں مَیں اس خطاب کے لئے گیا تھا، اُس کے ساتھ اور آپ کے آقا اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْب۔ وہاں جاتے ہوئے کار میں جب مَیں دعا کر رہا تھا تو یہی خیال مجھے آیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا اونچا ایوان ہے اور اس سے پہلے تو کبھی سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا، اُسی وقت مجھے جاتے جاتے یہ خیال آیا کہ مَیں تو تیرا ایک عاجز بندہ ہوں اور تیرے پیغام کو لے کر وہاں جا رہا ہوں۔ تیرے مسیح موعود کی نمائندگی میں جا رہا ہوں۔ اس لئے نُصِرْتَ بِالرُّعْب کا جو وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہے اُس کا نظارہ آج بھی دکھا دے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور یہ ذوق رکھنے والے احمدیوں نے دیکھا اور اس کا اظہار بھی کیا بلکہ دوسروں نے بھی اظہار کیا کہ نُصِرْتَ بِالرُّعْب کا نظارہ ہم نے وہاں دیکھا۔ انور محمود خان صاحب جو مولانا عبدالمالک خان صاحب کے بیٹے ہیں، وہیں رہتے ہیں، وہاں کی مرکزی عاملہ میں شامل ہیں، انہوں نے ان سیاستدانوں کے وہاں کے حالات کے بارے میں اور ان سیاستدانوں کے مختصر تبصروں کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا ہے جو مَیں سمجھتا ہوں کہ اُن کو الفضل اور دوسرے رسالوں میں چھپوا بھی دینا چاہئے کہ کس طرح اُن پر اثر ہو رہا تھا۔

اس فنکشن میں انتیس(29) کانگریس مین اور سینیٹرز آئے ہوئے تھے۔ تھنک ٹینک (Think -tank) سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ پینٹاگون (Pentagon) سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ این جی اوز (NGO’s) سے کچھ لوگ تھے۔ پروفیسرز تھے اور ان ساروں کی تعداد تقریباً ایک سو دس تھی۔ عموماً وہاں کی روایت بھی ہے اور یہی کہا جاتا ہے کہ کانگریس مین اور سینیٹرز کسی فنکشن میں جائیں تو زیادہ دیر بیٹھا نہیں کرتے، تھوڑی دیر بعد اُٹھ کے چلے جاتے ہیں۔ بہر حال یہ کہ اُن کے اخلاق کا کیا معیار ہے یہ تو وہ جانتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی وہاں جانتا ہے کہ بیٹھا نہیں کرتے، اُٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اس فنکشن میں دو تین کے علاوہ جنہوں نے پہلے اجازت لے لی تھی۔ باقی سب جو ہیں پورا وقت بیٹھے رہے ہیں، بلکہ کیپیٹل ہل کے ہی ایک پرانے بیوروکریٹ جو وہاں کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ مَیں پندرہ سال سے یہاں ہوں اور ایک پہلی بات تو یہ کہ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کہ دس سے زیادہ کانگریس مین یا سینیٹرز کبھی کسی فنکشن میں اکٹھے آئے ہوں۔ دوسری بات یہ کہ چاہے جس کا مرضی پروگرام ہو کوئی پانچ سات دس منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھتا، اُٹھ کے چلے جاتے ہیں، چاہے ملکی سربراہان آئیں بلکہ ہمارے اپنے فنکشنوں میں بھی نہیں بیٹھتے۔ اور پھر وہ کہنے لگاکہ یہ بات تو میرے لئے بالکل ہی عجیب تھی کہ مختلف پارٹیوں کے لیڈر، اپوزیشن اور جو حکومتی سیاستدان تھے دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور پھر بیٹھے رہے۔

جس سینیٹر کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہ 2008ء میں مجھے ملا اور بڑا متکبرانہ رویہ تھا۔ وہ بھی نہ صرف وہاں آیا ہوا تھا بلکہ سٹیج پر آ کر بولا اور جتنی دیر میری تقریر تھی وہ پورا وقت بیٹھا رہا اور سن کے گیا۔ بعض سینٹرز اور کانگریس مین ایسے بھی تھے جو سیٹوں کی کمی کی وجہ سے کھڑے رہے ہیں۔ ان کا وہاں بڑے سے بڑا ہال جو میسّر تھا اس میں کچھ ہمارے لوگ تھے اور کچھ یہ لوگ۔ بڑے ہال تو وہاں اس طرح ہوتے نہیں۔ یہ جو سب سے بہتر اور بڑا ہال ہے اور اس میں اچھے فنکشن ہوتے ہیں۔ یہ ان کا گولڈ روم کہلاتاہے۔ سیٹوں کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ کھڑے بھی رہے ہیں اور باقاعدہ وہ باتیں سنتے رہے ہیں جو شاید اُن کے مزاج کی نہیں تھیں کہ انصاف کرو۔ جو مَیں نے باتیں کہیں وہ یہی تھیں کہ انصاف کرو۔ انصاف کو اگر صحیح طرح سے قائم نہ کیا تو پھر تم لوگوں کی جتنی مرضی طاقت ہو سنبھال نہیں سکتے۔ بڑی قومیں چھوٹی قوموں کا خیال رکھیں۔ یہ چیز امن قائم کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ سلامتی کونسل اور یو این او میں برابری پر تمام قوموں کو بیٹھنا چاہئے۔ دوسرے ملکوں کی دولت پر نظر نہ رکھیں۔ تو یہ باتیں مَیں نے اُن کو کہیں تھیں اور یہ ایسی نہیں کہ جو کہا جائے کہ اُن کے مزاج کے بڑے مطابق تھیں اور یہ سب کچھ قرآنِ کریم کی تعلیم سے مَیں نے اُن کو بتایا۔ میری تقریر کے بعد پہلے وہاں جومسلمان کانگریس مین ہیں، جو افریقن امریکن ہیں، وہ مجھے کہنے لگے کہ مجھے تمہاری یہ بات بڑی اچھی لگی ہے کہ دوسروں کی دولت کو حرص کی نظر سے نہ دیکھو۔ وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ کیا پالیسیز ہیں اور کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیکچر کو جلدی چھپوا کے سب تک پہنچانا چاہئے۔ اور ایک کانگریس مین کا تبصرہ یہ تھا کہ یہ پیغام ایسا ہے جس کی امریکہ کو آج ضرورت ہے۔ پس ان لوگوں تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچا دینا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے۔ اثر ہوتا ہے یا نہیں، یا عارضی طور پر اثر ہوا ہے تو کب زائل ہو جائے، بات پر کان دھرتے ہیں یا نہیں، لیکن ان پر اسلام کی خوبصورت تعلیم بہر حال واضح ہو گئی ہے۔

پس اصل حمد اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے یہ سامان پیدا فرمائے اور اس بات کو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔ اسی طرح ان کے سیاستدانوں کو بھی مختلف ملاقاتوں میں مَیں نے انصاف قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اگر توجہ کر لیں گے تو دنیا بھی فسادوں سے محفوظ رہے گی اور یہ بھی۔ اگر نہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر بھی اپنا کام کرے گی۔

کینیڈا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سیکرٹری خارجہ نوجوان ہیں۔ اُن کے اور اُن کی ٹیم کے اچھے تعلقات ہیں۔ نئے لوگوں سے بھی اور پرانے تعلقات کو بھی انہوں نے قائم کیا ہے۔ پس اُن کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اُس نے اُنہیں موقع دیا کہ جماعت کے کسی کام آ سکیں اور حق اور انصاف کی باتیں اُن تک پہنچا سکیں۔ کئی پارٹی لیڈر اور سیاستدان وہاں آئے جن سے انہوں نے میری ملاقاتیں کروائی۔ دنیا کو پُرامن بنانے کے لئے ان بڑے ملکوں کے سیاستدانوں کو سمجھانا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح پڑھے لکھے طبقے کو بھی سمجھانا ضروری ہے۔

اس مرتبہ کینیڈا میں ایسی دو تقاریب پیدا ہو گئیں۔ ایک تو ریسپشن ہوئی یایہ کہہ لیں کہ وہاں انہوں نے طاہر ہال نیا بنایا جس کا افتتاح تھا جس میں مقامی کینیڈین کی خاصی تعداد تھی، سیاستدانوں کی بھی اور دوسرے پڑھے لکھے لوگوں کی بھی، جنہیں اسلامی تعلیم کی روشنی میں کچھ کہنے کا موقع ملا۔ بعض مہمانوں کے جو تبصرے مجھ تک پہنچے ہیں وہ بڑے مثبت ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ مثبت تبصرے اُن کے ذہنوں کو بدلنے والے اور اُن کی پالیسیز کو بدلنے والے بھی ہوں۔ اسی طاہر ہال کے بارے میں یہ بھی بتا دوں کہ پہلے ایک حکومتی ادارے نے جو بعض چیریٹی اداروں اور این جی اوز کی مدد کرتے ہیں، تقریباً دو اڑھائی ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا کہ اس کی تعمیر میں کچھ حصہ جماعت ڈالے اور کچھ یہ دیں گے۔ جب مجھے پتہ لگا تو مَیں نے کہا بہتر یہ ہے کہ شکریہ کے ساتھ ان کی رقم واپس کر دی جائے اور جماعت اگر بنا سکتی ہے توخود بنائے، تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایااور جماعت کو توفیق دی اور کئی ملین ڈالر خرچ کر کے جماعت نے یہ ہال اور اس کے ساتھ جامعہ احمدیہ کی عمارت بنائی ہے۔ باوجود اس کے کہ کینیڈا کی جماعت کی مساجد کے بھی بڑے منصوبے ہیں اور کئی کئی ملین ڈالر کے منصوبے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ منصوبوں پر عملدرآمد کر رہی ہے اور قربانی کرنے والی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ جامعہ کے لئے جو ابھی تک عمارت استعمال ہو رہی تھی، گو وہ ایک خریدی ہوئی عمارت تھی لیکن وہ چھوٹی پڑ گئی تھی۔ اب اچھے کلاس رومز، دفاتر وغیرہ اس کے ساتھ بن گئے ہیں اور پیس ولیج (Peace Village) میں ہی یہ جامعہ ہے جہاں کنٹرول وغیرہ بھی نسبتاً آسان ہے۔ اس سال انشاء اللہ وہاں جامعہ شروع ہو جائے گا۔

پس ان ترقیات کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو حقیقی شکرگزار اور حمد کرنے والا بنائے۔

جماعت کے تعلقات کی وجہ سے وزیرِ اعلیٰ اونٹاریو (Ontario) نے بڑا زور دے کر ایک ریسیپشن کا انتظام کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے وہاں ہر لیول پر اچھے تعلقات ہیں۔ جب میرے کینیڈا آنے کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ وہ میری ریسیپشن کرنا چاہتے ہیں اور میرے اس وجہ سے انکار پر کہ وقت تھوڑا ہے اور شہر میں جہاں وزیرِ اعلیٰ کا دفتر ہے، سیکرٹیریٹ ہے یا جہاں بھی انتظام کرنا تھا انہوں نے اپنے گیسٹ ہاؤسز وغیرہ میں یا وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں تو وہاں آنا جانا بہت مشکل ہو جائے گا، وقت ضائع ہو گا۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں آپ لوگوں کی رہائش کے قریب ایک بڑے ہوٹل میں ریسپشن کر دوں گا لیکن آپ نے آنا ضرور ہے۔ بہرحال پھر اس وجہ سے انکار کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے دعوت کی اور بڑے اچھے الفاظ میں جماعت کا ذکر کیا، جماعت کے تعلقات کا ذکر کیا، جماعت کے کاموں کا ذکر کیا۔ وہاں ان کے جو بھی لوگ آئے ہوئے تھے اُنہیں بھی وہاں دس پندرہ بیس منٹ اسلام کی خوبصورت تعلیم بتانے کی توفیق ملی۔

پس تعلقات کے لحاظ سے کینیڈا جماعت کے بعض عہدیداروں کے بھی اور عام لوگوں کے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اور وہ تعلقات جو پہلے قائم ہوئے تھے، نہ صرف قائم ہیں بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا، ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی نوجوان یا کسی بھی شخص کی ذاتی وجہ سے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت عمومی طور پر اخلاص و وفا میں بڑی بڑھی ہوئی ہے۔ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں وہاں اُن کے انتظامات میں بعض خرابیوں کی وجہ سے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا تھا تو افرادِ جماعت سے جب وہاں ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو اُنہوں نے رو رو کربھی اور خطوط کے ذریعے سے بھی بڑی معافی مانگی۔ حالانکہ میری ناراضگی کا اظہار اگر کچھ تھوڑا سا تھا تو وہ متعلقہ شعبہ جات کے بارے میں تھا، اُن کے عہدیداران سے تھا نہ کہ افرادِ جماعت سے۔ یہ افرادِ جماعت کی محبت اور اخلاص ہی تھا جو مَیں نے اُن کویہ کہا تھا کہ اگر ان کا خیال نہ ہوتا تو جلسہ امریکہ میں منتقل کر دیا جاتا۔

پس مجھے وہاں افرادِ جماعت سے عموماً تو کوئی شکوہ نہیں۔ ہاں جلسہ کے دوران جو بعض غلطیاں ہوئی ہیں۔ عہدیداران کی طرف سے بھی ہوئیں یا اگر افراد میں سے ہوئیں تو جس طرح کہ عموماً خواتین کے ایک حصے سے ہر جگہ شکوہ رہتا ہے کہ وہاں کافی شور پڑتا رہا ہے اور انہوں نے توجہ سے جلسہ نہیں سنا، لیکن ان تمام باتوں کی اصلاح عہدیداروں اور ڈیوٹی دینے والوں اور ڈیوٹی دینے والیوں کی صحیح رنگ میں ڈیوٹی کی طرف توجہ سے ہو سکتی ہے۔ پس اگر معافی مانگنی چاہئے تھی تو عہدیداروں اور بعض ڈیوٹی دینے والوں کو، جس کا اُنہیں تو خیال نہیں آیا لیکن عام احمدی مرد اور عورتیں اس بات پر بے چین ہو رہے تھے کہ مَیں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے۔ ایک تو وہاں پیس ولیج میں پہلی آبادی تو تھی لیکن اب ارد گرد اَور بھی جگہ بن گئی ہے۔ پیس ویلیج (Peace Village) کا ایک اور حصہ آباد ہو گیا ہے۔ اسی طرح سڑک کی پار دوسری طرف بھی آبادی ہو گئی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ تقریباً ہزار کے قریب گھر ایسے احمدیوں کے ہو گئے ہیں۔ اس لئے ایک تو وہاں بڑی رونق رہتی ہے اور ہر وقت وہاں یہی تھا کہ جیسے احمدی ماحول ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کی جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں۔ یہ کیسی پیاری جماعت ہے جس نے خلافت سے محبت کی بھی انتہا کی ہوئی ہے توجیسا کہ مَیں نے کہاروزانہ پیس ولیج میں رونق رہتی تھی۔ اور بلکہ دن تھوڑے تھے اور رمضان تھا ورنہ اُن کے اخلاص و وفا کو دیکھ کرمیرا تو دل چاہتا تھا کچھ دن اور وہاں رہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے یہ بھی فضل ہے کہ جلسہ کی جگہ بعض انتظامات کے لحاظ سے تنگ پڑ رہی ہے۔ پارکنگ وغیرہ کی بھی بہت تنگی ہو رہی تھی۔ اس لئے کینیڈا جماعت کو اپنے جلسہ کی وسعت کے بارہ میں بھی، جگہ کے بارہ میں بھی سوچنا چاہئے۔ اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہئے کہ کس طرح انتظام ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جب ضرورت بڑھا رہا ہے تو انتظامات بھی فرما دے گا انشاء اللہ۔ بشرطیکہ حقیقی شکرگزار بندے بنیں اور حمد کرنے والے بنیں۔ ایک اور بات مَیں کینیڈا والوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں، کینیڈا میں بھی اور امریکہ میں بھی اور اب یہاں بھی پاکستان کے ریفیوجی یا اسائلم سیکرز بہت سے نئے آئے ہیں، آج کل آ رہے ہیں، اُنہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرما دیا ہے تو اُس کے فضلوں کو مزید جذب کرنے کے لئے وہ اپنے آپ کو دنیا میں گم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے جوڑیں، اُس کے احکامات کو سامنے رکھیں، اُس کی رضا کو سامنے رکھیں۔ نوجوان خاص طور پر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا جس قدر شکرگزار ہوتے ہوئے آپ اُس کی حمد کریں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جائیں گے۔ پاکستان سے جن تکالیف کی وجہ سے آئے ہیں اُنہیں ہمیشہ یاد رکھیں تو خدا تعالیٰ بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ نئے آنے والوں کو، عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی ہمیشہ اپنے نیک نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ رکھنی چاہئے تا کہ جہاں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں وہاں لوگوں کے لئے بھی اور یہاں رہنے والے احمدیوں کے لئے بھی ایک نمونہ بنیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہاں آنا صرف دنیا کے لئے نہ ہو، بلکہ دین بھی مدّ نظر رہے۔

اب انشاء اللہ تعالیٰ دو دن تک رمضان بھی شروع ہو رہا ہے اور امریکہ اور کینیڈا میں تو شاید کل سے شروع ہو رہا ہے۔ اس رمضان سے بھی ہر احمدی کو خوب فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اپنی دعاؤں اور عبادتوں کو بھی انتہا تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور کھینچنے کے دن ہیں۔ ان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی ہراحمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر اپنے اوپر نازل ہوتا ہوا دیکھیں۔ اللہ کرے کہ اس طرح ہی ہو۔

اب جمعہ کی نماز کے بعد مَیں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ہمارے ایک شہید چوہدری نعیم احمد گوندل صاحب کا ہے جن کو کل شہید کیا گیا ہے جو چوہدری عبدالواحد صاحب اور نگی ٹاؤن ضلع کراچی کے بیٹے تھے۔ ان کی کل ہی شہادت ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے دادا مکرم خورشید عالم صاحب مرحوم تھے۔ شہید مرحوم 1961ء میں پیدا ہوئے۔ چک 99 شمالی سرگودھا کے تھے۔ پھر 1971ء میں گوندل فارم کوٹری میں شفٹ ہو گئے، پھر اور نگی ٹاؤن میں آ گئے۔ 1914ء میں ان کی دادی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور دادا نے پھر بعد میں بیعت کی۔ شہید مرحوم نے ایم اے اکنامکس اور ایم بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کر رہے تھے۔

ان کاشہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ یہ 19 جولائی کی صبح کو سوا آٹھ بجے حسب معمول دفتر سٹیٹ بینک جانے کیلئے گھر سے نکلے۔ آپ عموماً گھر کے سامنے ایک تنگ گلی سے گزر کر بڑی سڑک پر جاتے تھے جہاں سے آپ کو بینک کی گاڑی آ کر دفتر لے جایا کرتی تھی۔ موصوف جب گلی میں داخل ہوئے ہیں تو سامنے سے دو نوجوانوں نے آ کر کنپٹی پر فائر کیا ہے۔ گولی دائیں جانب سے لگی اور بائیں سے نکل گئی جس سے نعیم احمد گوندل صاحب موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ گیارہ سال سے شہید مرحوم صدر حلقہ اور نگی ٹاؤن کی خدمت پر مامور تھے۔ اس سے قبل چار سال بطور قائد مجلس اور نگی ٹاؤن اور اس سے قبل انہوں نے زعیم حلقہ، سیکرٹری وقفِ نو، مربی اطفال اور مختلف حیثیتوں سے جماعت کی خدمات سرانجام دیں۔ نہایت خوش اخلاق، ملنسار، حلیم الطبع تھے۔ اہلِ علاقہ بھی ان کے بارہ میں یہی رائے رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ سے اور نگی ٹاؤن کے حالات خراب تھے اور مخالفانہ وال چاکنگ وغیرہ کا سلسلہ جاری تھا لیکن ہمیشہ آپ بڑی بہادری سے سب چیزوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ دلیر اور بہادر شخص تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے۔ کچھ غیر احمدی تعزیت کے لئے آئے تو انہوں نے بھی آپ کے اوصاف کا تذکرہ کیا۔ یہاں بھی جلسے پر کئی سالوں سے آ رہے تھے اور جن کے گھر ٹھہرتے تھے اُن کی بچیوں نے کہا کہ ہمارے گھر بہت سارے مہمان ہوتے تھے تو ہم نے دیکھا کہ جلسے کے مہمان کی بجائے خود اُن کے میزبان بن جایا کرتے تھے۔ بلکہ عاجزی یہاں تک تھی کہ جب اپنے بوٹ پالش کرنے لگے ہیں تو ساتھ مہمانوں کے بھی بوٹ پالش کر دیا کرتے تھے۔ ایک جلسے پر آئے ہیں جب بارشیں زیادہ تھیں تو کہتے ہیں کہ گھر والوں نے کیچڑ سے لدے ہوئے جولانگ بوٹ پہنے ہوئے تھے اُنہوں نے آ کر انہیں اتار دیا۔ صبح اُٹھ کر دیکھا تو ساروں کے بوٹ بڑے سلیقے سے صاف ستھرے ایک لائن میں پڑے تھے۔ انہوں نے رات کو جلسے کے سارے مہمانوں کے بوٹ، جو بھی ان کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے، مٹی اتار کے صاف کر کے، پالش کر کے، جو دھونے والے تھے دھو دھا کے رکھے ہوئے تھے۔ انتہائی عاجز طبیعت تھی۔ اولاد تو ان کی کوئی نہیں تھی لیکن اہلیہ بھی کہتی ہیں کہ اس طرح انہوں نے میرا خیال رکھا کہ مجھے خیال آتا ہے کہ شاید میرے ماں باپ نے مجھے زندگی میں اتنا آرام نہیں دیا اور پیار نہیں دیا جتنا اس شخص نے دیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور یہ سختی کے دن بھی اللہ تعالیٰ جلد سے جلد پاکستان میں ختم کرے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور خاص طور پر اس رمضان میں اس لحاظ سے بھی پاکستانی اور دنیا میں ہر جگہ احمدیوں کو خاص طور پر بہت دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جوسختیوں کے دن ہیں یہ جلدی بدلے۔

دوسرا جنازہ مکرم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بیٹھے تھے۔ چھیاسی سال کی عمر میں چودہ پندرہ جولائی کی درمیانی شب کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ حضرت ام ناصر کے بطن سے یہ پیدا ہوئے تھے اور بڑے نرمی سے بات کرنے والے، غریبوں سے حسن سلوک کرنے والے تھے۔ انہوں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ اُس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سنڈیکیٹ جو سندھ میں زمینوں کا اپنا ادارہ تھا وہاں ان کو بھیج دیا تھا۔ تو اُس کے بعد پھر وہی کام کرتے تھے۔ جب یہ بند ہو گیا تو پھر یہ اپنا ہی کاروبار کرتے رہے۔ خلافت سے بھی ان کا بڑا تعلق تھا۔ مجھے باقاعدگی سے خط بھی لکھا کرتے تھے اور بڑے اخلاص و وفا کا تعلق انہوں نے ہمیشہ ظاہر کیا۔ میرے ماموں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ اب نماز کے بعدنماز جنازہ ادا ہو گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ جولائی 2012ء شہ سرخیاں

    ایک مومن کی شان ہے کہ جب وہ بندوں کے احسانوں کا بھی شکرگزار ہوتا ہے  تو احسان کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے۔

    اپنے تعلقات کو، اپنی کامیابیوں کو اپنی کسی خوبی پر محمول نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے  اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں کہ اُس نے آپ کو یہ موقع دیا کہ تعلقات بنائیں۔ اور ان تعلقات سے  ہمارا مقصد اپنا ذاتی مفاد اُٹھانا نہیں ہے، نہ کبھی یہ ہونا چاہئے۔ 

    اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ شاید ان تعلقات سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ ہے یا ہماری کوئی اپنی قابلیت ہے جس کی وجہ سے یہ تعلقات بنے یا جماعت احمدیہ کی ترقی اس سے وابستہ ہے تو وہ بالکل غلط ہے۔

    ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ جماعت کی ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے، کسی حکومت کی مدد سے نہیں۔ ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ تعلقات رکھیں کہ ہم نے ان دنیاوی لیڈروں سے کچھ لینا نہیں بلکہ دینا ہے۔

    شکرگزاری کے جذبات سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل  کس طرح بڑھتے رہیں گے۔ یاد رکھیں جماعت کے کاموں میں کبھی دنیاداری راس نہیں آتی۔

    (امریکہ اور کینیڈا کے دوروں کے حوالہ سے غیروں سے تعلقات بنانے کے سلسلہ میں اہم نصائح)

    واشنگٹن میں Capitol Hillمیں منعقد ہونے والے فنکشن میں اللہ تعالیٰ کی رعب کے ساتھ  نصرت کے وعدوں کا پُرشوکت اظہار۔ غیروں کے تأثرات کا تذکرہ۔

    ان لوگوں تک اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچا دینا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے۔ اثر ہوتا ہے یا نہیں، یا عارضی طور پر اثر ہوا ہے تو کب زائل ہو جائے، بات پر کان دھرتے ہیں یا نہیں، لیکن ان پر اسلام کی خوبصورت تعلیم بہر حال واضح ہو گئی ہے۔ پس اصل حمد اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے یہ سامان پیدا فرمائے اور اس بات کو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے۔

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت عمومی طور پر اخلاص و وفا میں بڑی بڑھی ہوئی ہے۔

    کینیڈا میں مختلف پروگراموں کی کامیابی اور جماعتی ترقیات کا تذکرہ۔

    اس رمضان سے بھی خوب فائدہ ہر احمدی کو اُٹھانا چاہئے۔ اپنی دعاؤں اور عبادتوں کو بھی انتہا تک لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور کھینچنے کے دن ہیں،   ان سے بھر پور فائدہ ہر احمدی کو اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    مکرم چوہدری نعیم احمد گوندل صاحب اور نگی ٹاؤن کراچی کی شہادت اور  محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب کی وفات کا تذکرہ اور مرحومین کی نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 20؍ جولائی 2012ء بمطابق 20؍وفا 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور