مرتبہ ٔ شہادت کی نہایت پُرمعارف تشریح

خطبہ جمعہ 14؍ دسمبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے۔ یہ معنی بہت وسعت لئے ہوئے ہے، اور بھی اس کے مطلب ہیں۔ اس لئے آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور بعض احادیث کے حوالے سے اس بارے میں کچھ کہوں گا۔

یہاں ان ممالک میں پلنے اور بڑھنے والے بچے اور جوان یہ سوال کرتے ہیں، کئی دفعہ مجھ سے سوال ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہیمبرگ میں واقفات نَو کی کلاس تھی تو وہاں بھی غالباً ایک بچی نے سوال کیا کہ جب آپ شہداء کے واقعات بیان کرتے ہیں تو اکثر کے واقعات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں کہ دعا کرو کہ مَیں شہید ہو جاؤں یا شہید کا رتبہ پاؤں یا شہادت تو قسمت والوں کو ملا کرتی ہے۔ تو شہید ہونے کی دعا کے بجائے سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دشمن پر فتح پانے کی دعا کا کیوں نہیں کہتے اور یہ کیوں نہیں کرتے؟

یقینا دشمن پر غلبہ پانے کی جو دعاہے یہی اوّل دعا ہے اور الٰہی جماعتوں سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ غلبہ اُنہی کو حاصل ہونا ہے۔ فتوحات انہی کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی متعدد مرتبہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فتوحات کی اطلاع دی اور غلبہ کی خبر دی۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اس کے واضح اور روشن نشانات بھی جماعت احمدیہ دیکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار بھی ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ ہر سال باوجود مخالفت کے لاکھوں کی تعداد میں بیعت کر کے جو لوگ احمدیت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور اُن ملکوں میں بھی بیعتیں ہو رہی ہیں جہاں مخالفت بھی زوروں پر ہے تو یہ سب چیزیں ترقی اور فتوحات ہی ہیں جس کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح جماعت جو دوسرے پروگرام کرتی ہے اور اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کر کے غیر اسلامی دنیا کے شکوک و شبہات دور کر رہی ہے۔ یہ جوبات ہے یہ کامیابیوں اور فتوحات کی طرف قدم ہی توہیں جو جماعت احمدیہ کے اُٹھ رہے ہیں جو ایک وقت میں آ کر انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب پیدا کریں گے اور اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔

بہر حال بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ضرورت ہو، ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی رہتے ہیں۔ اس میں جان کی قربانی بھی ہے جو اُن قربانی کرنے والوں کو شہادت کا رتبہ دلا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں یہ لوگ داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شہادت صرف اسی قدر نہیں ہے، شہید کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے، اس کی گہرائی جاننے کے لئے اُن نوجوان سوال کرنے والوں کو ضرورت ہے اور بڑوں کو بھی ضرورت ہے، تا کہ شہادت کے مقام کے حصول کی ہر کوئی کوشش کرے۔ اس دعا کی روح کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابوہریرہؓ کو فرمایا کہ اگر صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے ہی شہید کہلائیں گے تو پھر تو میری اُمّت میں بہت تھوڑے شہید ہوں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب بیان الشہداء، حدیث1915)

مسلم کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صدقِ نیت سے شہادت کی تمنا کرے، اللہ تعالیٰ اُسے شہداء کے زمرے میں داخل کرے گاخواہ اُس کی وفات بستر پر ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب استحباب طلب الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالیٰ، حدیث1909)

بدر کے موقع پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اُس کے عہد کا واسطہ دے کر فتح مانگی تھی۔ اُن مسلمانوں کی زندگی مانگی تھی جو آپ کے ساتھ بدر کی جنگ میں شامل تھے۔ جان قربان کر کے شہادت پانا نہیں مانگا تھا۔ عرض کیا تھا کہ اگر یہ مسلمان ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر… حدیث: 1763)

اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کا جومقصدِ پیدائش بیان فرمایا ہے وہ عبادت ہی بیان فرمایا ہے۔

پس ایک حقیقی مومن کاپیدائش کا مقصد صرف ایک دفعہ کی زندگی قربان کرنا نہیں ہے بلکہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش ہے اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ ہاں یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن جنگ کی خواہش نہ کرے۔ لیکن جب زبردستی اُسے اس میں گھسیٹا جائے، جب دین کے مقابلے پر ایک مومن کی جان لینے کی کوشش کی جائے تو پھر وہ ڈر کر پیچھے نہ ہٹے بلکہ مردانہ وار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اور اس سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب لا تمنوا لقاء العدو حدیث: 3025)

جب جنگوں کی اجازت اور حالات تھے تو دشمن کا مقابلہ کر کے یا جان قربان کر کے ایک مومن شہادت کا رتبہ پاتا تھا یا فتح پاتا تھا اور اس میں کسی قسم کا خوف اور ڈر شامل نہیں ہوتا تھا۔

آجکل کے حالات میں جنگ تو ہے نہیں۔ جماعت احمدیہ کے دشمن بھی ہیں اور ہمارے جو دشمن ہیں، جو بزدل دشمن ہے یہ چھپ کر حملہ کرتا ہے۔ لیکن اگر سامنے آ کر بھی حملہ کرے تو پھر بھی جنگ کرنے کا تو حکم نہیں ہے۔ بعض احمدیوں کو وارننگ کے خطوط بھی آتے ہیں کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ تو اُس وقت ایک مومن کی مردانگی یہی ہے اور پاکستان کے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جان تو بیشک چلی جائے مگر دین اور خدا تعالیٰ کی رضا کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ پس یہ ایک مومن کا امتیاز ہے جومختلف حالات میں، مختلف صورتوں میں قائم رہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں شامل ہونے کے لئے مومن کو دعا بھی سکھائی ہے۔ لیکن شہادت کی وسعت کیا ہے؟ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کی گہرائی کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جنہوں نے ہمیں کھول کر اور واضح کر کے اس بارے میں سمجھایا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس وقت مَیں یہ آیت جو پہلے بیان کر چکا ہوں، نبی، صدیق اور شہید اور صالحین ان سب کی خصوصیات کے بارے میں تو بیان نہیں کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شہید کے بارے میں سوال ہوتا ہے اور اُسی کو آپ کی تفسیر اور وضاحت کی روشنی میں اس وقت بیان کروں گا۔ کیونکہ شہید کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ شہید کی حقیقت کے بارے میں، اس کے رتبہ اور مقام کے بارے میں لکھا ہے۔ مَیں چند اقتباسات پیش کروں گا جن سے واضح ہوتا ہے کہ شہید بننے کے لئے دعا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اور کس قسم کا شہید بننے کے لئے دعا کی جانی چاہئے اور کیوں ایک حقیقی مومن کو اس کی خواہش ہونی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا وغیرہ۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتاہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا‘‘۔ (اُس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا) ’’وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتاہے۔ یہانتک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے‘‘ (غیر معمولی استقلال اُس کوملتا ہے) ’’اور وہ بدُوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سررکھ دیتا ہے‘‘ (بغیر کسی غم، بغیر کسی حسرت کے وہ اپنا سر قربانی کے لئے پیش کر دیتا ہے) فرمایا: ’’اور چاہتا ہے کہ باربار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں۔ ایک ایسی لذت اور سُرور اُس کی رُوح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اُس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے۔ وہ اُس کو ایک نئی زندگی، نئی مسرت اور تازگی عطاکرتی ہے۔ یہ ہیں شہید کے معنی‘‘۔ پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ فرمایا’’پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں‘‘ (یعنی عبادت کرنے میں ایک مشقت بھی اُٹھاتے ہیں )’’اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں۔ اور جیسے شہد فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ (النحل: 70) کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں‘‘۔ اگر صرف مرنے سے ہی شہادت ملتی ہے تو پھرانسان صحبت سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنا، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا جو حقیقی نیکیاں ہیں یہ بھی شہید کا ایک مقام ہے جس کی صحبت میں رہنے والے، فرمایا کہ مختلف مرضوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ276۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ شہید کا مقام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا خدا کو دیکھتا ہے اور یقین کرتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ423مطبوعہ ربوہ)

یعنی جو کام بھی عموماً کر رہا ہو اُس میں اُسے یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے اور جب یہ صورت ہو توپھر توجہ ہمیشہ نیک کاموں کی طرف ہی رہتی ہے۔ پھرکوئی بد کام انسان نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے احسان کیا چیز ہے۔ فرمایا کہ جب یہ حالت ہو تو احسان ہو جاتا ہے۔ احسان کیا چیز ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا کاتمہیں یہ حکم ہے کہ تم اُس سے اور اُس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو‘‘ (احسان سے پہلے کی جو ایک حالت ہے وہ عدل ہے)۔ پھر فرمایا کہ’’یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ۔ اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ۔ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو‘‘۔ ایک تو فرائض مقرر کئے گئے ہیں، وہ عبادتیں تو کرنی ہیں لیکن اُس سے بڑھ کر جو نوافل ہیں اُن کی ادائیگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق جوڑنا ہے، یہ کرو گے تو یہ بندگی ہے، یہ احسان ہے۔ اور یہ پھر اُن رتبوں کی طرف لے جاتی ہے جو شہادت کے رتبے ہیں اور فرمایا کہ ’’اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت کا سلوک کرو‘‘۔ (شحنہ ٔ حق روحانی خزائن جلد 2صفحہ361-362)

صرف لوگوں کے حق دینا کام نہیں ہے بلکہ اس کے اعلیٰ درجے پانے کے لئے، اُن لوگوں میں شامل ہونے کے لئے جو شہید کا درجہ پاتے ہیں، لوگوں کاجو حق ہے وہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے پیار اور محبت، نرمی اور احسان کا سلوک کرو۔

پھر یہ ذکر فرماتے ہوئے کہ عدل کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرو کہ یہ یقین ہو کہ اُس کے علاوہ اور کوئی پرستش کے لائق نہیں، کوئی عبادت کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں، کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں۔ اُس کے علاوہ کسی پر توکّل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ خالق بھی ہے۔ اس زندگی کو اور اس کی نعمتوں کو قائم رکھنے والا بھی ہے اور وہی ربّ بھی ہے جو پالتا ہے اور اپنی نعمتیں مہیا فرماتا ہے۔ فرمایا ایک مومن کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ اس نے ان باتوں پر یقین کر لیا یا صرف یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ ہی سب طاقتوں کا مالک ہے اور ربّ ہے بلکہ اس پر ترقی ہونی چاہئے، اس سے قدم آگے بڑھنے چاہئیں۔ اور وہ ترقی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ’’عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں (یعنی عبادتوں ) میں ایسے متأدب بن جاؤ‘‘۔ (یہ حالت ہونی چاہئے کہ ایسا ادب اللہ تعالیٰ کے آگے ہو، ایسااُس کے آگے جھکنے والے ہو، اس طرح دلی چاہت سے عبادت کرنے والے ہو جو دل سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ)’’اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اور حسنِ لازوال کو دیکھ لیا ہے‘‘۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550-551)

پس جب انسان اللہ تعالیٰ کی لا محدود اور کبھی نہ ختم ہونے والے حسن کو دیکھتا ہے، اُس کی صفات پر یقین رکھتا ہے، اُس کی عبادت کی طرف توجہ رہتی ہے تو پھر اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور جب یہ صورت ہو تو پھر یہ شہید کا مقام ہے۔

آپ نے شہید کی یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جب یہ تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے تو پھر استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ پھر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اُس راہ کی جو مشکلات ہیں اُن میں بھی سکون ملتا ہے، وہ بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہر مشکل کے آگے سینہ تان کر مومن کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوئی خوف یا غم یا حسرت دل میں نہیں ہوتی کہ اگر میں نے یہ نہ کیا ہوتا، اگر میں نے فلاں مخالفِ احمدیت کی بات مان لی ہوتی، اُن کی دھمکیوں سے احمدیت چھوڑ دی ہوتی تو اِس وقت جن تکلیفوں سے مَیں گزر رہا ہوں ان سے بچ جاتا۔ یہ کبھی ایک مومن سوچ ہی نہیں سکتا اگر وہ حقیقی معنوں میں ایمان لاتا ہے۔ بلکہ ایمان کی مضبوطی، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ان تکلیفوں میں بھی اُسے آرام اور راحت اور خوشی پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پس یہ ہے شہید کا مقام۔

پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ شہید کا مقام تب ملتا ہے جب انسان تکلیف برداشت کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کرے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ276مطبوعہ ربوہ)

ہر دنیاوی آرام کو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی عبادت پر قربان کر دے۔ اور نہ صرف قربان کرے بلکہ اُس مقام تک پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اس عمل سے ایسا سکون ملے، اس عبادت میں اُسے ایسا مزا آرہا ہوکہ جیسا کہ شہد کی مٹھاس سے مزا آتا ہے۔ ایک مومن کی نماز اور عبادتیں، نماز پڑھنے کی طرف توجہ یا عبادتوں کی طرف توجہ کسی مجبوری کے تحت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل کی وجہ سے ہو۔ اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہر وہ فعل جو خدا تعالیٰ کی خاطر کیا جا رہا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ رضا جو ہے یہ پھرشہادت کا مقام دلاتی ہے۔ اسی طرح ہر برائی جو انسان اس لئے چھوڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور مَیں نے اُس کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو پختہ کرنا ہے، خدا تعالیٰ کی کیونکہ ہر اچھے اور برے فعل پر، ہر عمل پر نظر ہے اور میری یہ بری عادت یا بداعمال خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے موجب ہو سکتے ہیں۔ تو پھر یہ بات نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کو برائیوں سے روکے گی بلکہ نیکیوں کی طرف بھی متوجہ کرے گی۔ خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین میں پختگی پیدا ہو گی اور یہی ایک انسان کی زندگی کا مقصد ہے، ایک مومن کی زندگی کا مقصد ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ:

’’عام لوگ توشہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیریابندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مر جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ253۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہاں ایک حدیث بھی بیان کر دیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جن مرنے والوں کو شہداء کے زُمرہ میں شامل کیا گیا ہے، وہ پانچ ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ وبا میں ہلاک ہونے والا، پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہونے والا، ڈوب کر مرنے والا، کسی عمارت کی چھت وغیرہ کے نیچے دب کر ہلاک ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان، باب فضل التہجیر الی الظہر653)

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے‘‘۔ یعنی یہ تو ظاہری موت کی وجہ سے شہادت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کے اور بھی مقام ہیں جو ہر مومن کو تلاش کرنے چاہئیں۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اَور بھی ہے۔ اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔ یادرکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے‘‘۔ (شروع میں مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ دعا کروکہ وہ لوگ جو عمل صالح کرنے والے ہیں، اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں، وہ نبی ہوتے ہیں یا صدیق یا شہید یا صالحین۔ تو فرمایا کہ’’یادرکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے اور وہ اس سے دُوسرے درجے پر ہوتا ہے۔ اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے۔ نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں، یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہیدبھی ہوتا ہے اور صالح بھی ہوتا ہے۔ لیکن صدیق اور شہید دو الگ الگ مقام ہیں۔ اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق، شہید ہوتاہے یا نہیں؟ وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھاجاتا ہے، وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رُتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اُسے ایسی قوت عطاکرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلاتکلف صادر ہوتے ہیں۔ کوئی خوف اور رجاء اُن اعمالِ صالحہ کے صدُور کا باعث نہیں ہوتا‘‘۔ (کسی وجہ سے نہیں ہو رہے ہوتے) ’’بلکہ وہ اُس کی فطرت اور طبیعت کا جُزو ہو جاتے ہیں۔ تکلّف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا۔ جیسے ایک سائل کسی شخص کے پا س آوے‘‘۔ (دنیا داری میں ہم دیکھتے ہیں۔ آپ نے مثال دی کہ کسی شخص کے پاس کوئی سوال کرنے والا آوے) ’’تو خواہ اُس کے پا س کچھ ہو یا نہ ہو، تو اُسے دینا ہی پڑے گا‘‘۔ (اگر وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہے، اگر یہ اظہار کر رہا ہے کہ میں بڑا پیسے والا ہوں یا نہیں بھی ہے تو پھر بھی شرم و شرمی کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ فرمایا کہ) ’’اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے ہی سہی‘‘۔ (لوگ کیا کہیں گے کہ صاحبِ حیثیت بھی ہے، مگر جو مانگ رہا ہے اُس کو دے بھی نہیں رہا۔) ’’مگر شہید میں اس قسم کا تکلّف نہیں ہوتا‘‘۔ (شہید میں یہ تکلف نہیں ہے)’’اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے۔ اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا‘‘۔ (ہر قسم کی تکلیف خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرنے کے لئے وہ تیار ہو جاتا ہے اور بلا تکلف تیار ہو جاتا ہے، کسی خوف یا کسی انعام کی وجہ سے تیار نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’مثلاً ہاتھی کے سرپر ایک چیونٹی ہوتو وہ اس کا کیا احساس کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ253-254۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ایک طرح ایک حقیقی مومن کے لئے ایک تکلیف ہوتی ہے، اُس مومن کے لئے جو شہادت کا درجہ پانے کی خواہش رکھتا ہے۔ پس یہاں مزید فرمایا کہ اصل شہادت دل کی کیفیت کا نام ہے اور دل کی کیفیت خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ یقین جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ میرے ہر کام پر خدا تعالیٰ کی نظر ہے اور ہر کام مَیں نے خدا تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ پھر ایسے مومن سے، ایسے شخص سے اعلیٰ اخلاق اور اچھے اعمال اصل رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے کرنے کی وجہ دنیا دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا یہ حصول بھی صرف کوشش سے نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقی مومن کی فطرت اور طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب وہ مسلسل اس بارے میں کوشش کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ کسی بات کا اُسے خیال ہی نہیں رہتا۔ مثلاً اگر جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے اور اس کو احسن طریق پر کوئی بجا لا رہا ہے، کام کر رہا ہے تو اس لئے نہیں کہ میری تعریف ہو بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اس لئے کہ یہ خدمت ایسی گھٹی میں پڑ گئی ہے کہ اس کے بغیر چین اور سکون نہیں ہے۔ بعض لوگ جب اُن سے خدمت نہیں لی جاتی تو بے چینی کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس کی ایک مثال دی ہے کہ جیسے کوئی فقیر یا مانگنے والا اگر کسی کے پاس جائے تو اکثر اُس فقیر کو کوئی دنیا دار جس کے پاس وہ جاتا ہے، کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے۔ لیکن اُس میں عموماً دکھاوا ہوتا ہے، لیکن شہید کا یہ مقام نہیں۔ شہید یہ نیکی اس لئے کر رہا ہوتا ہے کہ اُس کی نیک فطرت اُسے نیکی پر مجبور کرتی ہے اور فطرتی نیکی کی یہ طاقت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نیکی کے کرنے، کسی خدمت کے کرنے پر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں نے کوئی بڑا کام کیا ہے، مجھے ضرور اُس کا بدلہ یا خوشنودی کا اظہار دنیا والوں سے ملنا چاہئے۔ کیونکہ جماعت کی خدمت کی ہے تو ضرور مجھے عہدیداران اُس کا بدلہ دیں۔ نہیں۔ بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہونا چاہئے۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’مرتبۂ شہادت سے وہ مرتبہ مُراد ہے جبکہ انسان اپنی قُوّتِ ایمان سے اِس قدر اپنے خدا اور روزِ جزا پر یقین کرلیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخیدور ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی ہرایک قضاء و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طر ح دِل میں نازل ہوتی اور تمام صحنِ سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے۔ اور ہر ایک اِیلام انعام کے رنگ میں دِکھائی دیتا ہے۔ سو شہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قُوّتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اُس کے تلخ قضاء و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذّت اُٹھاتا ہے۔ اور اِسی معنے کے رُو سے شہید کہلاتا ہے۔ اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15صفحہ420-421)

روزِ جزا پر ایمان تو ہر مومن کو ہے لیکن اس پر یقین کیا ہے؟ اس پر یقین خدا تعالیٰ سے اس دنیا میں تعلق پیدا کرنے سے ہے۔ دنیا دار بھی اپنے محبوب کی خاطر کئی سختیاں برداشت کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ جو سب محبوبوں سے زیادہ محبوب ہونا چاہئے، اُس کی خاطر کتنی سختیاں برداشت کرنے کی ضرورت ہے؟ جبکہ دنیا کی محبتیں تو یا وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ جاتی ہیں یا پھر اس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی محبت کے پھل تو اس دنیا سے گزرنے کے بعد اگلی زندگی میں اَور بھی بڑھ کر لگتے ہیں۔ نیک اعمال کی جزا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں لے جاتی ہے۔ بعض اعمال جو انسان اس دنیا میں کرتا ہے، بیشک بعض اوقات سخت اور کڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک دنیادار تو جھوٹ بول کر اپنی دنیاوی بہتری کے سامان کر لیتا ہے لیکن ایک حقیقی مومن جھوٹ کو شرک کے برابر سمجھ کرکبھی جھوٹ بول کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ سچائی بعض اوقات اس دنیا میں نقصان کا باعث بھی بن رہی ہوتی ہے یا اُسے بنا رہی ہوتی ہے۔ مثلاً احمدیت ایک سچائی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ہم ماننے والے ہیں لیکن یہی سچائی احمدیوں کو بہت سے ممالک میں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مشکلات میں گرفتار کئے ہوئے ہے۔ اس کے اظہار پر احمدیوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایمان پر قائم ہیں۔ یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ احمدی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اسائلم کے لئے آتے ہیں تو سچائی کے اظہار کی وجہ سے اُنہیں اپنے ملکوں سے یہ ہجرت کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن یہاں آ کر اگر جھوٹ اور غلط بیانی کو وہ اپنے اسائلم کا ذریعہ بنا لیں گے تو سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیں گے۔ ان ملکوں میں سچائی کی ابھی بھی بہت قدر ہے۔ بعضوں کے کیس تو بڑے جینوئن (Genuine) ہوتے ہیں، بعضوں کے مقدمات ہیں، ماریں پڑی ہوئی ہیں، مخالفتیں، دشمنیاں ہیں۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کوکچھ نہیں ہے لیکن سچ بول کراگر وہ یہی بتا دیں کہ ایک مسلسل ٹارچر اور لاقانونیت اور احمدیوں کے خلاف جو قانون ہے اُس نے ہماری زندگی کی آزادی چھین لی ہے اور اب ایسے حالات ہیں کہ ہم اس کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ بیشک پاکستان میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں احمدی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ رہیں گے لیکن ہر ایک کا برداشت کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ ہم میں اب برداشت نہیں رہی اس لئے ہم یہاں ہجرت کرآئے ہیں۔ تو اس بات کو یہ لوگ سمجھتے ہیں اور ہمدردی کے جذبے کے تحت اسائلم یا لمبا ویزادے دیتے ہیں۔ لیکن اگر جھوٹ بولیں تو پھر ایک جھوٹ کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ یوں بعضوں کے کیس تو خراب ہوتے ہی ہیں یا اگر بالفرض بعض کیس پاس بھی ہو جائیں تو یہ بات تو یقینی ہے کہ ایسا شخص پھر اپنے خدا کو ناراض کرنے والا بن جاتا ہے۔

پس اپنے خدا کی رضا کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ مَیں نے جن کو بھی سچائی بیان کرنے کا کہا ہے، سچائی کی بنیاد پر اپنا کیس کرنے کا کہا ہے اور انہوں نے سچائی سے کام بھی لیا ہے اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے حضور جھکے بھی ہیں تو اُن کے کیس مَیں نے دیکھا ہے چند دنوں میں پاس ہو گئے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق تو سچائی پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی خاطر ہجرت کرنے والے بھی شہید بلکہ صدیق ہیں۔ ابودردائؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے دین میں فتنے کے ڈر سے بچاؤ کی خاطرایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں صدیق ہے، اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو وہ شہید ہے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ’’اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہیں وہ قیامت کے روز عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ایک ہی درجے کی جنت میں ہوں گے۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور تفسیر سورۃ الحدید آیت: 19 جلد 8صفحہ59 دار احیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 2001)

پس آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھرہمیشہ سچائی کو قائم کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور روزِ جزا پر ایمان اور یقین رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جزا سزا یقینی امر ہے۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ جلد اول صفحہ 460حاشیہ نمبر11)۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ آپ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے۔ پس جب یقینی امر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی گزار کر بہتر جزا کیوں نہ حاصل کی جائے؟ کیوں دنیاوی خواہشات کے لئے انسان اللہ تعالیٰ کی سزا کا مورد بنے۔ بہر حال یہ ایک اور مضمون ہے۔ لیکن خلاصہ یہ کہ روزِ جزا کو سامنے رکھنے والا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان رکھنے والا بھی ہے اور شہید بھی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ: ’’شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قوّت ایمانی اور قوّت اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان کے ہو جائے‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 516)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس قدر ایمان قوی ہوتا ہے، اُسی قدر اعمال میں بھی قوت آتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ قوتِ ایمانی پورے طور پر نشوونما پا جاوے تو پھر ایسا مومن شہید کے مقام پر ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی امر اُس کے سدّ راہ نہیں ہوسکتا۔ (کوئی روک نہیں بن رہا ہوتا)۔ ’’وہ اپنی عزیز جان تک دینے میں بھی تأمل اور دریغ نہ کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ226 مطبوعہ ربوہ)

پس شہید کا رُتبہ پانا صرف جان دینا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کے اعلیٰ معیار کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اپنے ہر عمل اور فعل کے کرتے وقت یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔

مختصراً یہ بھی بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے ایمان کے کیا معیار رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب(البقرۃ: 4) کہ غیب پر ایمان لاؤ۔ فرمایا کہ نمازوں کو قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ تمام گزشتہ انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان رکھو۔ اس زمانے کے امام اور مسیح موعود پر بھی ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْن(البقرۃ: 5)۔ اور مومن آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی بعد میں آنے والی موعود باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور آخری زمانے کی سب سے بڑی موعود بات تو مسیح موعود کا آنا ہی ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آیت کے اس حصہ میں وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْن(البقرۃ: 5) میں میرے پر ایمان لانے کو اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا ہے۔ (ماخوذ از ریویو آف ریلجنز ماہ مارچ و اپریل 1915صفحہ164جلد 14نمبر3و4)

پھر ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو مضبوط کرو۔ ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔ یہ بات بھی ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔ ہر محبت سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اگر یہ محبت نہیں تو ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ پر ایمان، اُس کے فرشتوں پر ایمان، اُس کی کتابوں پر ایمان، اُس کے رسولوں پر ایمان، پہلے بھی ذکرآ چکا ہے کہ یہ سب باتیں ایمان کے لئے ضروری ہیں۔ اور پھر ان کے معیار بھی بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ پھر ایمان کا معیار اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جب ایمان لانے والوں کے سامنے خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے تو اُن کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے ڈر جاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ اب جہاد بھی کئی قسم کے ہیں۔ ایک تو جہاد تلوار کا جہاد ہے وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے بند ہو گیا۔ اب نہ کوئی مذہبی جنگیں ہیں نہ اُس قسم کا جہاد ہے۔ اور وہ جہاد جو ایک احمدی کا فرض ہے اور ایمان کی مضبوطی کے لئے اور شہادت کا رُتبہ پانے کے لئے ہر جگہ اور ہر ملک میں کرنا چاہئے وہ جہاد ہے تبلیغ کا جہاد۔ پس جہاں اپنے نفسوں کے اصلاح کا جہاد کرنا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جہاد کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے اور یہ جہاد ہر ملک میں اور ہر جگہ رہ کر کیا جا سکتا ہے اور یہاں آنے والے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔

اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہجرت کرنا یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔

پھر ایمان کی یہ نشانی ہے کہ جب اُن ایمان لانے والوں کواللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف بلایا جائے تو وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سن کرایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال نہیں دیں، بلکہ سنا اور اُس کی اطاعت کی اور یہی ایک حقیقی مومن کا طُرّۂ امتیاز ہونا چاہئے۔

بہت ساری باتیں ہیں، نصیحتیں کی جاتی ہیں، خطبات جو آپ سنتے ہیں، صرف اس لئے نہیں ہوتے کہ آپ نے سن لئے اور بس، بلکہ اُس پر عمل کرنا، سنا اور اطاعت کی، ایسا عمل جو اطاعت کا نمونہ دکھانے والا ہو۔ پس جب یہ کوششیں ہوں گی تو حقیقی مومن بنیں گے اور پھر اُن رتبوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رُتبہ دلاتے ہیں۔ اُن منزلوں کی طرف بڑھیں گے جو شہادت کا رُتبہ دلاتی ہیں۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ بحث کرنا شروع کر دے کہ یہ حکم فلاں ہے اور اس حکم کی فلاں تشریح ہے، interpretation ہے۔ یا حجتیں کرنی شروع ہو جائے۔ یہ مومن کا کام نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سنتے ہیں تو فرمایا کہ اُن کے دل کانپ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے آگے اُن سب احکامات پر عمل کرنے کی طاقت مانگتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا بھی ایک حقیقی مومن ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب حب الرسولﷺ من الایمان حدیث: 15)

پس یہ خصوصیات ہیں جو اس زمانہ میں مومن کی ہونی چاہئیں۔ بلکہ اس زمانے میں جیسا کہ شرائط بیعت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے آپ کے عاشقِ صادق مسیح موعودجن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مبعوث فرمایا ہے، اُن کے ساتھ بھی تعلق سب دنیاوی تعلقوں سے زیادہ ہونا چاہئے۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلدنمبر3 صفحہ 564)

پس یہ خصوصیات ہیں جو جیسا کہ مَیں نے کہا ایک مومن کی ہونی چاہئیں اور یہ خصوصیات ہوں تو چاہے وہ انسان طبعی موت مر رہا ہوشہادت کا رتبہ پاتا ہے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ یہ رُتبہ پانے کے لئے خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین پیدا کریں۔ روزِ جزا پر کامل یقین پیدا کریں۔ اپنے ہر عمل میں اس بات پر یقین رکھیں۔ ہر عمل کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر سختی کو جھیلنے کے لئے اُس سے مدد مانگیں۔ ایسی قوتِ ایمانی خدا تعالیٰ سے مانگیں جو بطور نشان کے ہو جائے۔ ایمان کو اتنا مضبوط کریں کہ کوئی دنیاوی لالچ، کوئی خواہش ہمارے ایمان میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ نیک اعمال بجا لانے کے لئے ہر قسم کے خوف سے دل و دماغ کو صاف رکھیں۔ بلا تکلف ہر نیکی کو بجا لانے والے ہوں۔ ہر نیکی ہماری فطرت کا حصہ بن جائے۔ ہم استقامت اور سکینت کی قوت پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہوں۔ عبادت کے ایسے معیار تلاش کرنے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔ پس یہ وہ معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ کیا کوئی حقیقی مومن ہے جو اس کے بعد یہ سوال اُٹھائے کہ ہم شہادت کی دعا کیوں کریں؟ یہ وہ حقیقی شہادت ہے جس کے لئے ایک مؤمن کو دعا کرنا ضروری ہے تا کہ وہ حقیقی مومن بن سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے مَیں نے مختصراً جو باتیں کی ہیں یہ یقینا ایسی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کو حاصل کرنے، ان کو اپنانے اور زندگیوں پر لاگو کرنے کی خواہشیں کرنی چاہئیں بلکہ لاگو کرنی چاہئیں۔ اور جب یہ معیار ہم حاصل کر لیں گے تو قطع نظر اس کے کہ دشمن کے حملوں اور گولیوں سے ہم جان قربان کرنے والے ہیں، دنیا کے کسی بھی پُر امن ملک میں رہتے ہوئے بھی ہم شہادت کا مقام پا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

جیسا کہ گزشتہ جمعہ کو جو ہیمبرگ میں پڑھا تھا مَیں نے اعلان کیا تھا کہ اُس دن ایک شہادت کی اطلاع آئی تھی، چونکہ کوائف نہیں تھے اس لئے جنازہ نہیں پڑھایا گیا تھا۔ آج انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کے بعد ان شہید کا میں جنازہ پڑھاؤں گا جن کا نام مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب ہے۔ 7؍دسمبر2012ء کو کوئٹہ میں ان کی شہادت ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خان صاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھاگ بھری صاحبہ کے ذریعہ ہوا تھا۔ یہ خاتون قادیان کے قریب ننگل کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ساہیوال چلا گیا۔ پھر 1965ء میں کوئٹہ چلا گیا۔ مقصود صاحب کی پیدائش کوئٹہ میں ہوئی تھی۔ ان کی عمر 31 سال تھی۔ تعلیم ان کی مڈل تھی۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ اسی سال نومبر میں ان کے بھائی مکرم منظور احمد صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اُن کی شہادت سے پہلے مقصود صاحب صرف بلڈنگ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے اور کچھ وقت اپنے بھائی کے ساتھ اُن کی ہارڈ ویئر کی دکان تھی اُس میں لگاتے تھے۔ بھائی کی شہادت کے بعد پھر انہوں نے مکمل طور پر دوکان کا کام شروع کر دیا۔

واقعہ اُن کی شہادت کا اس طرح ہوا کہ 7؍ دسمبر صبح نو بجے مقصود صاحب اپنے ملازم کے ہمراہ اپنی ہارڈویئر کی دوکان واقع سیٹلائٹ ٹاؤن پہنچے اور ملازم کو دکان پر بٹھا کر اپنے دو بچوں کو سکول میں جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں تھا، چھوڑنے گئے۔ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس نکلے ہی تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد آئے اور ان پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجہ میں شہید مرحوم کو پانچ گولیاں لگیں جن میں سے چار گولیاں سر میں اور ایک گولی کندھے پر لگی۔ اُنہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستہ میں ہی جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا گزشتہ ماہ ان کے بڑے بھائی کو شہید کیا گیا تھا۔ 2009 ء میں ان کو اغواء بھی کیا گیا تھا اور بارہ دن کے بعد بڑا بھاری تاوان لے کر ان کی بازیابی ہوئی تھی۔ مرحوم خدمتِ خلق کا بیحد شوق رکھتے تھے۔ جب بھی میڈیکل کیمپ لگائے جاتے شہید مرحوم نہ صرف اس میڈیکل کیمپ کے لئے اپنی گاڑی مہیا کرتے بلکہ خود ڈرائیو کر کے ساتھ جاتے۔ اسی طرح دعوتِ الی اللہ کے پروگراموں میں ساتھ جاتے اور اپنی گاڑی بھی پیش کرتے۔ ، کوئٹہ میں آنے والے مربیان کا بہت زیادہ خیال رکھتے، اُن کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے۔ سیکیورٹی کی ڈیوٹی بڑے شوق سے دیا کرتے تھے۔ جمعہ کی ڈیوٹی خاص طور پر دیا کرتے۔ صدر صاحب سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ نے بتلایا ہے کہ شہید مرحوم نہایت مہمان نواز، کم گو، خوش اخلاق، حلیم الطبع اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی کسی سے ناراض نہ ہوتے اور نہ ہی کسی کو ناراض ہونے کا موقع دیتے۔ بعض اوقات مخالفین بھی اگر سخت لہجے میں بات کرتے تو اُن کی بات کو ہنس کر ٹال دیتے لیکن یہ نہیں تھا کہ محسوس نہیں کرتے تھے۔ گھر آ کر اُن کی باتیں بتاتے ہوئے رو بھی پڑا کرتے تھے کہ فلاں فلاں مخالفین نے مجھے آج اس طرح کہا ہے۔ صدر صاحب کہتے ہیں شہادت سے تین دن قبل مجھے فون کیا اور کہا کہ اب تک میرا چندہ کیوں نہیں لیا۔ اُسی روز اپنا چندہ مکمل طور پر ادا کیا۔ بیوی بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق تھا۔ بیوی بچوں سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ اپنے والدین کے علاوہ اپنی اہلیہ کے والدین کی بھی نہایت عزت کیا کرتے تھے۔ ہر طرح سے خیال رکھنے والے تھے۔ ان کے والدنواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ ساجدہ مقصود صاحبہ اور ایک بیٹا مسرور ہے جس کی عمر نو سال ہے۔ بیٹی مریم مقصود کی عمر سات سال ہے۔ ان کی دو بہنیں ہیں اور ان کی اپنی والدہ تو وفات پا گئی تھیں۔ ان کی دوسری والدہ تھیں، والدنے دوسری شادی کر لی تھی۔

معلم سیٹلائٹ ٹاؤن ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بڑے سادہ مزاج تھے۔ مہمان نوازی ان کے گھر کا ایک عظیم خلق ہے۔ مربیان اور معلمین کی دل سے قدر کرتے تھے، بہت عزت سے پیش آتے تھے۔ ان کے گھر میں نماز سینٹر تھا۔ اس کو ہمیشہ فعال رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان کے گھر میں نمازیں تو ہوتی تھیں پھر باقاعدہ وقفِ نو اور اطفال کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں۔ بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اور بلکہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کوئٹہ کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ یہاں سے ہجرت کی جائے اور معلم صاحب سے مشورہ کر رہے تھے اور مجھے انہوں نے خط لکھنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ تھی کہ اس سے پہلے ہی ان کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا درجہ عطا فرما دیا۔ ان کے والد کے یہ دو ہی بیٹے تھے اور دونوں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو گئے۔ ان کے والد صاحب نے آسمان کی طرف منہ کر کے صرف اتنا کہا کہ اے خدا! دونوں کو لے گیا، اب ان ظالموں سے خود بدلہ لے لے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ یہ شہادت تو ان کے مقدر میں لکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کا حافظ و ناصر ہو اور اپنی پناہ میں لے لے۔ بیوی بچوں کو بھی اور والدین کو بھی صبر، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ دشمنوں کو بھی اب کیفرِ کردار تک پہنچائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ دسمبر 2012ء شہ سرخیاں

    عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے۔

    احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مرتبہ ٔ شہادت کی نہایت پُرمعارف تشریح۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے مَیں نے مختصراً جوباتیں کی ہیں یہ یقینا ایسی ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کو حاصل کرنے، ان کو اپنانے اور زندگیوں پر لاگو کرنے کی خواہشیں کرنی چاہئیں بلکہ لاگو کرنی چاہئیں۔ اور جب یہ معیار ہم حاصل کر لیں گے تو قطع نظر اس کے کہ دشمن کے حملوں اور گولیوں سے ہم جان قربان کرنے والے ہیں، دنیا کے کسی بھی  پُر امن ملک میں رہتے ہوئے بھی ہم شہادت کا مقام پا سکتے ہیں۔ احمدیت ایک سچائی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ہم ماننے والے ہیں لیکن یہی سچائی احمدیوں کو بہت سے ممالک میں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں مشکلات میں گرفتار کئے ہوئے ہے۔ اس کے اظہار پر احمدیوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایمان پر قائم ہیں۔ احمدی حالات کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کر کے یہاں اسائلم کے لئے آتے ہیں تو سچائی کے اظہار کی وجہ سے اُنہیں اپنے ملکوں سے یہ ہجرت کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن یہاں آ کر اگرجھوٹ اور غلط بیانی کو وہ اپنے اسائلم کا ذریعہ بنا لیں گے تو سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیں گے۔

    پس آپ لوگ جو یہاں آئے ہیں جب دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھرہمیشہ سچائی کو قائم کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور روزِ جزا پر ایمان اور یقین رکھیں۔

    مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب آف کوئٹہ کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر اور نمازجنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 14؍دسمبر 2012ء بمطابق 14؍فتح 1391 ہجری شمسی،  بمقام بیت السبوح۔ فرینکفرٹ (جرمنی)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور