صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی مختلف خوابوں اور رؤیا کا ایمان افروز تذکرہ

خطبہ جمعہ 8؍ فروری 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج بھی مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مختلف خوابیں، رؤیا پیش کروں گا۔ خدا تعالیٰ کا ان کے ساتھ تعلق اور ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور خدا تعالیٰ کا ان کے ساتھ سلوک کیا تھا۔ بلکہ بعض تو ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کو بتایا ان کے بیچ میں آج بھی ہمارے لئے بعض نصائح ہیں، سبق ہیں۔ حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ جن کی 1905ء کی بیعت تھی، فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں فاقہ کی حالت میں دن کے بارہ بجے لیٹا ہوا تھا کہ میری بیوی مجھے دبانے لگ گئی۔ اس حالت میں مجھے نیند آ گئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک عورت نیلے کپڑوں والی میرے گھر پر آئی ہے۔ ایک ہاتھ پر دودھ کا کٹورا بھرا ہوا رکھے ہوئے آئی ہے اور آ کر اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ میاں جی! مَیں یہ دودھ آپ کے واسطے لائی ہوں، آپ اس کو پی لیں۔ جب اس کو پینے لگا تو عورت نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملا لیں۔ جب مَیں دودھ میں شکر ملانے لگا (خواب میں) تو کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی۔ (جاگ آ گئی)۔ میری بیوی جو میرے جسم کو دبا رہی تھی، کہنے لگی، کیا آپ ڈر گئے ہیں؟ مَیں نے کہا۔ ڈرا نہیں، ایک خواب دیکھا ہے اور وہ خواب مَیں نے اپنی بیوی کو سنا دیا۔ اور مَیں پھر بھول گیا۔ (ابھی تھوڑی دیر گزری تھی) پانچ منٹ گزرے تھے کہ اسی طرح نیلے کپڑے پہنے ہوئے ہاتھ پر دودھ کا کٹورا رکھے ہوئے ایک عورت میرے گھر پر آئی۔ وہ عورت میرے ایک شاگرد کی ماں تھی۔ آکر اُس نے مجھے دودھ کا کٹورا دیا اور کہا کہ آپ اس کو پی لیں۔ جب مَیں پینے لگا تو اُس نے کہا کہ اس میں شکر ڈالی ہوئی ہے، آپ اس کو ملا لیں۔ میری بیوی اس واقعہ کو بغور دیکھ رہی تھی۔ مسکرا کر کہنے لگی، یہ تو آپ کا خواب ہے جو مجھے آپ پہلے سنا چکے ہیں، لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 11 صفحہ362-363 روایات حضرت میاں محمد ظہورالدین صاحب ڈولیؓ)

تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی خوابوں کی اصل حالت میں تعبیر فرما دیتا ہے۔ ایک نیک شخص کے فاقہ کی حالت کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فوری انتظام فرمایا۔ خدا کو نہ ماننے والے بیشک یہ کہتے رہیں کہ اُس کو قدرتی خیال آگیا اور وہ دودھ لے کے آ گئی، یہ اتفاقی حادثہ تھا۔ دونوں طرف جو اطلاع اللہ تعالیٰ پہلے خواب میں دے رہا ہے، یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہو سکتا۔ یہی جو قدرت ہے، یہی تو خدا تعالیٰ ہے جس نے ایک عورت کے دل میں ایک نیک آدمی کی بھوک مٹانے کا خیال ڈالا اور فوری طور پر پھر اُس نے اُس کو پورا بھی کر دیا۔

حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیّرؓ جن کا بیعت کا سن 1901ء ہے، بیان فرماتے ہیں کہ مَیں جبکہ ہائی سکول میں مدرس تھا تو ایک دن حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ سے جو اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے، کھیلوں کے معاملے میں جن کا مَیں انچارج تھا، کچھ اختلاف ہو گیا۔ اُسی رات مَیں نے تہجد میں دعا کی، اختلاف کی وجہ سے کہتے ہیں بڑا پریشان تھا۔ تو مجھے حریر پر لکھا ہوا دکھلایا گیا، ایک باریک کاغذ پر لکھا ہوا دکھلایا گیا کہ “No tournaments, No games”۔ اس کے بعد کہتے ہیں مَیں بیمار ہو کر ٹورنامنٹ میں شامل نہیں ہو سکا۔ نیز جو ٹورنامنٹ کے دن تھے ان میں متواتر شدید بارش ہو جانے کی وجہ سے گورداسپور ٹورنامنٹ کمیٹی نے ٹورنامنٹ بالکل بند کر دیا۔ ہمارے طلباء کو بہت خوشی ہوئی کہ ایک الہام پورا ہو گیا۔ کیونکہ انہوں نے، جو پلیئر تھے، کھلاڑی تھے اُن کو بھی بتا دیا تھا تو اُن کو یہ خوشی تھی کہ ہمارے ٹیچر کا الہام پورا ہو گیا۔ وہ اللہ اکبر کے نعرے مارتے ہوئے جب قادیان آئے تو اس الہام کی تمام تفصیل حضرت اقدس کے حضور پہنچی۔ اور مَیں نے لکھ کر مفصل عرض کیا۔ اس پر حضور نے مجھے لکھا۔ ’’آپ کا الہام بڑی صفائی سے پورا ہوا۔ یہ آپ کی صفائی قلب کی علامت ہے۔‘‘ اس طرح حضور خدام کے کشوف اور رؤیا پر اظہارِ خوشنودی فرماتے تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 11 صفحہ 312-313 روایات حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیّرؓ)

حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں بیان فرماتے ہیں کہ جب دیوار کا مقدمہ تھا تو حضرت اقدس بٹالہ تاریخ پر تشریف لے گئے ہوئے تھے (یعنی قادیان میں ان کے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ جو دیوار کا مقدمہ تھا) حضور نے فرمایا کہ جس کسی کو خواب آوے وہ مجھے بتلاوے اور کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’’تُو یوسف ثانی ہے۔‘‘ یوسف کو بھی بھائیوں کی وجہ سے تکلیف پہنچی تھی۔ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’تو یوسفِ ثانی ہے‘‘۔ کہتے ہیں مَیں نے بھی ایک خواب حضور کو سنائی کہ مَیں ایک میٹھا خربوزہ کھا رہا ہوں۔ جب مَیں نے اُس کی ایک کاش اپنے لڑکے عبداللہ کو دی تو وہ خشک ہو گئی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تمہارے گھر میں اسی بیوی سے ایک اَور لڑکا پیدا ہو گا مگر وہ زندہ نہیں رہے گا۔ چنانچہ ایک لڑکا میرے ہاں پیدا ہوا اور گیارہ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا۔ اس کے بعد اس بیوی سے کوئی بچہ نہیں ہوا۔ (گو اس خواب کامقدمہ سے تعلق تونہیں تھا، لیکن بہر حال انہوں نے اس وقت یہ خواب دیکھی تو یہ بتائی۔) (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 10 صفحہ 355 روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں)

حضرت امیر محمد خان صاحبؓ جنہوں نے 1903ء میں بیعت کی، فرماتے ہیں کہ جنوری1917ء بروز جمعرات مَیں نے خواب میں ایک شخص کو سرپٹ گھوڑا دوڑاتے چلے آتے دیکھا اور مَیں ایک کنوئیں کے پاس میدان میں کھڑا تھا۔ اُس شخص نے گھوڑے سے اُتر کر مجھے کہا کہ مَیں بادشاہ ہوں اور احمد علی میرا نام ہے۔ میرے لئے دعا کی جائے۔ تب مَیں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھایا اور اُس نے بھی میرے ساتھ دعا میں شمولیت اختیار کی۔ جب ہم دعا سے فارغ ہوئے تو وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر سر پٹ گھوڑا دوڑا کر واپس چلا گیا۔ ابھی تھوڑی دور گیا تھا کہ اُس کا بیشمار لشکر گردوغبار اُڑاتا ہوا اُس سے آ ملا۔ (یہ خواب بیان فرما رہے ہیں ) جسے وہ ساتھ لے کر مخالف لشکر کے مقابلہ میں ڈٹ گیا۔ مخالف کا لشکر ہتھیاروں اور وردیوں سے سجا ہوا تھا جسے دیکھ کر اُس کا مقابلہ مشکل نظر آتا تھا۔ تب کسی نے کہا، دونوں کے مقابلہ کی یہ کوئی نسبت نہیں تھی۔ لیکن پھر کہتے ہیں کسی نے خواب میں ان کو کہا۔ کیا مور کی سجاوٹ کم ہوتی ہے۔ (یہ فوجی سجے تو ہوئے ہیں، مور بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے، سجا ہوتا ہے) مگر جونہی بندوق کی آواز سنتا ہے فوراً بھاگ جاتا ہے اور غاروں میں جا چھپتا ہے۔ اس طرح مخالف کا لشکر بھاگ جائے گا۔ پھر کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 151۔ الف از روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پس اصل طاقت خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی تائیدات و نصرت کی ہوتی ہے، نہ ظاہری شان و شوکت کی۔ جو کام دعاؤں سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے ہوتا ہے، وہ ظاہری شان و شوکت سے نہیں ہوتا۔ ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور اُس وقت کے آنے پر اللہ تعالیٰ پھر اُس کا انجام دکھاتا ہے۔

حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ فرماتے ہیں۔ ان کی بیعت 23؍نومبر 1889ء کی ہے۔ چھوٹی سی خواب ہے۔ کہتے ہیں کہ کنڈے میں حضور ایک جگہ ٹہل رہے تھے (جگہ کا نام ہے، کنڈا) وہاں اُس وقت اکیلے تھے۔ مَیں نے کچھ رقم حضور کے پیش کی۔ شاید وہ بیس روپے سے دو تین روپے کم تھے۔ تو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کیسے ہیں؟ مَیں نے کہا حضور مجھے خواب آئی تھی کہ مَیں نے اتنی رقم آپ کودی ہے، خواب پوری کی ہے۔ آپ نے منظور فرمائی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 7 صفحہ 424 روایات حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ)

حضرت امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں جن کا بیعت کا سن 1903ء ہے کہ میرے بڑے بھائی چوہدری عطا محمد خان صاحب کا ایک زمین کے متعلق مقدمہ تھا۔ مَیں نے 21؍ جنوری 1913ء کو خواب میں دیکھا کہ اُن کی بیوی غیر سے نکاح کر رہی ہے۔ چنانچہ وہ مقدمہ خارج ہو گیا اور وہ جائیداد بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 144 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

بعض دفعہ بعض لوگ خواب بھیج دیتے ہیں۔ کوئی خواب دیکھی تو فوراً الزام تراشیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں اور فکر مندیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ تو خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں۔ اب یہاں انہوں نے خواب دیکھی کہ بیوی غیر سے نکاح کر رہی ہے۔ (جس کی تعبیر یہ نکلی کہ) جائیداد کا مقدمہ تھا اور وہ مقدمہ ہار گئے۔

حضرت امیر محمد خان صاحبؓ جن کا بیعت کا سن 1903ء ہے، انہی کی روایت ہے۔ ان کی کافی ساری روایات خوابوں کے بارے میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ 18؍ دسمبر 1912ء کی رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جسے میں سینہ سے لگا کر درود شریف پڑھ رہا ہوں اور پتاشے تقسیم کر رہا ہوں۔ لڑکا خوبصورت تو ہے مگر دُبلا اور کمزور ہے۔ لہٰذا 15؍ فروری 1913ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند عطا کیا جس کا نام حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ خان رکھا۔ جس کی کمزوری اب 1938ء میں چوبیس سال کی عمر میں برابر چلی آ رہی ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 143 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پھر انہی کا ایک اور خواب ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 24؍ نومبر 1913ء کی رات خواب کے اندر مجھے ایک ہندو سادھو دکھایا گیا جس کو کوڑھ کا مرض تھا مگر باوجود اس کے بدن اُس کا مضبوط تھا۔ جو اپنے بدن کی مضبوطی نوجوان لڑکوں کو دکھلا کر رہبانیت یا تجرد کی ترغیب دیتا تھا اور تانبے پر گندھک اور سنکھیا کے ذریعہ رنگ چڑھا کر اُسے سونا ظاہر کرتا تھا۔ (یہ خواب بیان ہو رہی ہے) مَیں نے سادھو سے کہا کہ تم میرے روبرو بھی سونا بنا کر دکھاؤ۔ میرے اس کہنے پر وہ ذرا جھجکا مگر شیخی میں آ کر بنانے لگا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ دیکھو، اب مَیں تیرے مخصوص سونے کی حقیقت ظاہر کرتا ہوں۔ یعنی اُسے آگ پر تاؤ دے کر اُس پر ہتھوڑا مارتا ہوں جس سے اُس کی اصلیت فوراً کھل جائے گی۔ تب سادھو نے شرمندہ ہو کر مجھے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ میرا پردہ فاش ہو جائے گا۔ اس کے بعد مَیں نے اُس سادھو کے معتقدوں کو تبلیغ شروع کر دی۔ وہ اُن کو جس راہ پر لگانا چاہتا تھا، اُس راہ سے ہٹانے کے لئے اسلام کی اصل حقیقت اُن کو بیان کرنی شروع کر دی۔ کہتے ہیں جسے سادھو بھی بغور سنتا گیا۔ (یہ خواب بیان ہو رہی ہے) جب سادھو کے چیلوں پر اثر ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی ضرور مرزا صاحب کی کتاب سنا کر جائیں۔ تو کہتے ہیں اس کے بعد پھر مَیں نے سادھو سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھو خدا تعالیٰ نے انسان میں کچھ طاقتیں رکھی ہیں۔ اگر انسان اُنہیں جائز طور پر استعمال کرے تو فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اگر ان طاقتوں کو استعمال میں نہ لائے تو نقصان اُٹھاتا ہے۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے جو انسان میں رحم کی طاقت رکھی ہے، اب اگر ایک مظلوم عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور ظالم کو سزا دلانا چاہے مگر کوئی اُس کی گواہی نہ دے کہ کسی کو سزا دلانا رحم نہیں تو کیا پھر ایسا کرنا جائز ہو گا؟ ہرگز نہیں۔ یعنی ظالم کو تو بہرحال سزا دلوانی چاہئے، اُس کے لئے تو کوئی رحم نہیں۔ پھر کہتے ہیں (آگے میں خواب میں دیکھتا ہوں) اب پھر اُن کو یہی کہتا ہوں کہ خدا نے جو آنکھیں دیکھنے کے لئے دی ہیں، اگر کوئی اُن سے کام نہ لے تو سخت نقصان اُٹھائے گا۔ دیکھو اگر زمیندار آنکھیں بند کر چھوڑے اور اُن سے کام لے کر کھیتی باڑی کا کام نہ کرے تو کیا آرام پائے گا۔ میری اس مثال سے اُس سادھو کے جو زمیندار معتقد تھے وہ خود بخود بے اختیار بول اُٹھے کہ خدا نے جو انسان میں اولاد پیدا کرنے کی طاقت رکھی ہے اگر اس کو استعمال نہ کیا جائے تو پیارے پیارے بچے کہاں سے حاصل ہوں؟ اس کے بعد پھرمَیں نے سادھو کے مریدوں کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو یہ سادھو جو آپ کو اپدیش دینے کا مدعی ہے، اگر ان کے پِتا استری بھوگ نہ کرتے۔ یعنی ماں باپ کا ملاپ نہ ہوتا تو یہ کہاں سے پیدا ہوتا۔ تو یہ دلیل سن کر سادھو بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا کہ پہلے لوگوں نے تو اس طریق کو اچھا ہی سمجھا تھا اور ان دلائل پر کسی نے غور نہیں کیا مگر مرزا صاحب نے تو ہر باطل کا کھنڈن کر دیا۔ (ہر باطل کو جھٹلا دیا، کھول کے بیان کردیا، تباہ کردیا۔) کہتے ہیں پھر مَیں نے کہا کہ اگر یہی طریق چارپایوں میں روا رکھا جائے تو سواری کے جانور اور دودھ اور کھیتی باڑی کے جانور کہاں سے آئیں؟ اور اس طریق سے مخلوق کی پیدائش کی غرض وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) مفقود ہو جائے اور نبیوں اور اوتاروں کی آمد کا سلسلہ بھی بند ہو جائے جن کے ذریعہ لوگ مُکتِی حاصل کرتے ہیں۔ جب مَیں یہ کہہ چکا تو خواب میں ہی دیکھ رہے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو درس فرما رہے تھے، اپنی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے کہ تم جو مجھ سے معارفِ قرآن سیکھ رہے ہو، رہبانیت کے طریق پر عمل کرنے سے یہ موقع کہاں میسر آ سکتا تھا۔ (اس طرح کے رہبانیت سے جو راہب بننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی سمجھتے ہیں ناں کہ ہم بڑی نیکی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ گئے۔ تو خواب میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بھی بتایا۔ کہتے ہیں کہ) جب بیداری ہوئی تو مجھے تفہیم ہوئی، یہ سمجھایا گیا کہ دیکھو یہ سادھو کا جو کوڑھ کا مرض ہے یہ بھی بیجا طور پر قانونِ قدرت سے ہٹنے کے نتیجہ میں ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 144-146 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

اسی طرح خدا تعالیٰ کے قانون کے خلاف جو بھی غیر فطری عمل ہوتے ہیں یا بعض ایسی تنظیمیں بن گئیں، پارلیمنٹیں، قانون ساز ادارے اس کے لئے قانون بنانے لگ گئے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کا قانون بھی حرکت میں آتا ہے اور حرکت میں آکر قوموں کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ ان کو بھی جو بہت زیادہ دنیادار لوگ ہیں، پس یہ ہر غیرفطری عمل کو اپنے قانون کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس لئے احمدیوں کو جو اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا حصہ نہ بننے کے لئے آج کل بہت زیادہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت عبدالستار صاحبؓ ولد عبداللہ صاحب فرماتے ہیں۔ ان کی 1892ء کی بیعت ہے کہ میری بیوی نے خواب سنائی کہ مجھے حضرت صاحب نے دو روپے دئیے ہیں۔ جب مقدمہ فتح ہوا تو حضرت صاحب نے مجھے دو روپے دئیے۔ اس طرح وہ خواب پورا ہوا اور مَیں نے اپنی بیوی کو وہ دونوں روپے دے کر خواب پورا کر دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 188 روایات حضرت عبدالستار صاحبؓ)

پھر حضرت امیر محمد خان صاحبؓ ہی کی ایک روایت ہے۔ کہتے ہیں یکم جون 1905ء کومَیں نے خواب کے اندر ایک مصفّٰی پانی سے، (صاف پانی سے) مچھلیاں پکڑنی شروع کیں کہ اتنے میں ایک طوفان آیا اور ذرا ہی کم ہوا تھا کہ اتنے میں زلزلہ سے زمین ہلنی شروع ہو گئی اور مَیں زمین کو ہلتے دیکھ کر سر بسجود ہو گیا اور سجدے کے اندر یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث پڑھنا شروع کردیا کہ اتنے میں ایک اور زلزلہ آیا جس پر لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ تو معمولی زلزلہ ہے، زور کا زلزلہ تو نہیں آیا۔ جب انہوں نے یہ کہنا شروع کیا تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ تم بھی ابھی سربسجود رہو، زلزلہ آتا ہے۔ اور اس کے بعد ایک ایسا زلزلہ آیا جس سے بہت ہی سخت تباہی ہوئی‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 138 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

یہ جون 1905ء کے خواب کا ذکر کر رہے ہیں۔ کانگڑہ کا جو زلزلہ بڑا زبردست آیا تھا، وہ تو اپریل میں آیا تھا اور اُس کے بعد بھی پھر زلزلے آئے ہیں۔ تو شاید آئندہ زلزلوں کی بھی ان کو اطلاع دی گئی۔ پھر جنگِ عظیم کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بہر حال ایک بات، ایک سبق اس میں یہ بھی ہے کہ ایک زلزلہ کی آفت کی حالت کو دیکھ کے یا دوسری آفات کو دیکھ کے انسان کو لاپرواہ نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے سر جھکا رہنا چاہئے اور اُسی سے لَو لگائے رکھو تبھی آفات سے بچت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے، ان میں زلازل کی اور آفات کی بہت زیادہ پیشگوئیاں ہیں۔ اس لئے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے آگے ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے۔ لاپرواہ نہ ہو جائیں۔ پھر امیر محمد خان صاحبؓ ہی فرماتے ہیں کہ 29؍ مئی 1905ء کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بارش اور آندھی کا طوفان ہے جس کو دیکھ کر لوگ ایک درخت کے نیچے سے میدان میں بھاگے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ درخت ہمیں نہ دبا لے۔ مگر غریب اور مسکین لوگوں نے درخت کے سائے کو غنیمت جانا اور میدان سے بھاگ کر درخت کے نیچے آ گئے اور جونہی اُن غرباء کا درخت کے سائے میں پناہ لینا تھا کہ طوفان سے میدان والے تباہ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے۔ ختم وہی ہے جس کا اختتام ایسا ہو۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 137-138 از روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

تو عموماً دیکھا گیا ہے کہ امراء کی نسبت غرباء ہی زیادہ تر انبیاء کو ماننے والے بھی ہوتے ہیں اور اُن کی چھاؤں میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت امیر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 25؍ جون 1905ء کو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب کے اندر اپنے گھر موضع اہرانہ میں عبادت فرماتے ہوئے دیکھا۔ آپ جب عبادت سے فارغ ہوئے تو حضور گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ جب تھوڑی دور تشریف لے گئے تو فرمایا کہ کوئی ہے جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول سے کہیں کہ وہ بھی جلد تیار ہوں اور یہ رقعہ اسمی نواب صاحب مولوی صاحب کو دے دیں۔ رقعہ میں یہ لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا کہ فلاں چیز جو از قسم روپیہ یا جواہرات کے ہے، ساتھ لیتے آویں۔ تب مَیں نے عرض کی کہ حضور مَیں حاضر ہوں اور حضور سے رقعہ لے کر فوراً حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچا دیا۔ جب ہم سر زمینِ مکہ میں پہنچے۔ (یہ سفر جاری ہے اور مکّہ کی طرف جا رہے ہیں۔ جب مکّہ میں پہنچے) تو وہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں نظر آئیں جن میں پتھر اور روڑے اور چونا تھا اور ان پتھروں اور روڑوں اور چونے کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے مصفّٰی پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں تھیں جسے دیکھ کر خیال آیا کہ یہ سب خدا کا فضل ہے جو پانی اس طریق سے بہ رہا ہے۔ اگر یہ نالیاں زلزلے سے درہم برہم ہو جائیں تو پانی خراب ہو جائے‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 138-139 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصل تعبیرکیا ہے۔ لیکن بہر حال یہ اشارہ بھی لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے غلام مکّہ مکرمہ سے ایک دن پھر اسلام کی حقیقی اور صاف اور دل و جان کو صاف کرنے والی تعلیم سے دنیا کو بھی صاف کرنے کی کوشش کریں گے اور خلافت کے نظام کے تحت یہ فیض جاری رہے گا اور مختلف قومیں اس سے پانی پئیں گی اور فائدہ اُٹھائیں گی اور یہ فیضان جاری رہے گا انشاء اللہ۔

حضرت امیر محمد خان صاحبؓ ہی فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات سے چند روز پہلے مَیں نے خواب میں سورج گرہن دیکھا جس کی تعبیر مَیں نے آپ کی وفات سمجھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 146 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پھر یہ لکھتے ہیں کہ ’’بارہ تیرہ جنوری 1938ء کی درمیانی رات کو مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ مبارک کو خواب میں چند احباب کے ساتھ اس طریق سے دعا فرماتے دیکھا کہ گویا آپ اُن احباب کے گرد گھوم کر اُن کو حفاظت میں لے رہے ہیں مگر پاؤں سے ننگے ہیں اور چوہدری فتح محمد صاحب آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔ لہٰذا 13؍جنوری کو آپ نے مسجد مبارک میں چند احباب کے ساتھ مرزا عزیز احمد صاحب کے صاحبزادے کے متعلق دعا کی اور حضور کے اس دعا کرنے کا اعلان قبل از دعا چوہدری فتح محمد صاحب نے مسجد مبارک میں کیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 156-157 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پھر یہ لکھتے ہیں کہ ’’ستمبر 1912ء میں مَیں نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مع چند دیگر احباب کے خواب میں دیکھا کہ حضور فرما رہے ہیں کہ ہمیں یہ منظور نہیں کہ کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو گند بکنے میں حد کر دیں اور ہم امن سے رہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ کفار گند بکنے کی انتہا سے پہلے ہی پیسے جائیں۔ کہتے ہیں جب یہ خواب مَیں نے حضرت خلیفہ اول کو سنایا تو حضور نے فرمایا کہ بہت مبارک خواب ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 143 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پھر یہ لکھتے ہیں کہ 20؍ فروری 1913ء کی رات کو مَیں نے خواب میں حضرت خالدؓ بن ولید اور ضرارؓ بن ازور کو دیکھا کہ تلواریں ہاتھ میں ہیں اور فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں بلکہ اکثر لوگ خود بخود اُن کے آگے ہتھیار ڈالتے جا رہے ہیں۔ حتی کہ یزیدنے بھی ہتھیار ڈال دئیے اور ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 144 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

حضرت مرزا محمد افضل صاحبؓ ولد مرزا محمد جلال الدین صاحب سفرِ جہلم کے ضمن میں فرماتے ہیں (ان کی بیعت کا سن 1895ء ہے) کہ 1903ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جہلم تشریف لائے اور میں وہاں گیا۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ بعض لوگوں کے سوال پر حضور نے فرمایا کہ یہ خدا کا نور ہے(یعنی سلسلہ احمدیہ)لوگوں کے بجھانے سے نہیں بجھ سکے گا۔ اس سفر میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابلؓ نے فرمایا تھا۔ خدا نے مجھے تین بار سر دینے کو فرمایا ہے۔ پس مَیں دوں گا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 225-226 روایات حضرت مرزا محمد افضل صاحبؓ)

پھر امیر محمد خان صاحبؓ ہی لکھتے ہیں کہ 6؍ دسمبر 1913ء کی رات کو مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں ایک سوٹا ہے اور بھورے رنگ کی بھینس حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی طرف دوڑتی ہوئی مارنے کو آتی ہے لیکن سوٹے کے خوف سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی طرف منہ رکھتی ہوئی پیچھے کی طرف ہٹتی گئی۔ یہاں تک کہ آپ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں کہ مُہریں بنانے والا اپنی دوکان میں بیٹھا تھا اور ایک اور شخص دوکاندار سے جعلی مہریں بنوانا چاہتا تھا اور وہ ابھی دوکان پر ہی تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ وہاں پہنچ گئے۔ دوکاندار نے مجھے پوچھا کہ مولوی نور الدین صاحب یہی ہیں۔ جب مَیں نے کہا کہ ہاں یہی ہیں تو دوکاندار نے جھٹ مہر بنانے والے کو پکڑ لیا اور حضرت خلیفہ اوّل اُس محل میں داخل ہو گئے، بھینس بھی ساتھ تھی۔ صاحب مکان خوش خو، خوش شکل، بارعب، نیک دل آدمی تھا۔ اُس نے حضرت صاحب کا بہت ادب آداب کیا اور کھانا کھلایا اور جب حضور پھر اس مکان سے باہر تشریف لائے تو آپ کے گردا گرد بے شمار خلقت کا ہجوم تھا۔ اتنے میں جعلی مہریں بنانے والا ہجوم سے نکل کر بھاگا۔ بہتیری تلاش کی وہ کہیں نہ ملا۔ مَیں نے پرواز کر کے بھی اُسے تلاش کیا مگر نظر نہ آیا (خواب میں )۔ خود ہی اس کی تعبیر بیان فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ خواب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی لمبی بیماری اور تبدیلی آب و ہوا کے لئے حضرت نواب صاحب کی کوٹھی تشریف لانے اور مولوی محمد علی صاحب کے آپ کی حیاتی میں خلافت کے خلاف ٹریکٹ شائع کرنے اور پھر حضور کے جنازے پر بیشمار مخلوق کے ہجوم کے ہونے اور پھر مولوی محمد علی صاحب کے قادیان سے چلے جانے سے ہو بہو پوری ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 148-149 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

پھر یہ کہتے ہیں۔ ’’13؍ مارچ 1914ء کی رات مَیں نے خواب میں ایک شہد کا چھتہ دیکھا جس سے شہد کی دھار نکل رہی تھی جسے ہم لوگ برتنوں میں ڈال رہے ہیں۔ اُس کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ مجھے غسلِ جنازہ مولوی شیر علی صاحبؓ دیں جو میرے بھائی اور نیک ہیں۔ چنانچہ مَیں نے اپنا یہ خواب صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بروقت پہنچا دی۔ (خلیفہ اوّلؓ کی زندگی کی بات ہے) اور مولوی شیر علی صاحبؓ نے ہی آپ کو (خلیفہ اوّل کو)غسل جنازہ دیا۔ ہاں مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے خواب کی بنا پرہی آپ سے غسل دلایا گیا یا کوئی اس کی اور بھی صورت تھی۔ البتہ غسل ضرور مولوی صاحب نے ہی دیا اور میری خواب بھی پوری ہوئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 149-150 روایات حضرت امیر محمد خانصاحبؓ)

حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب جن کی بیعت کا سن 1906ء ہے، فرماتے ہیں۔ جب ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مالکِ حقیقی کو جا ملے اور خلافتِ اُولیٰ کا دور دورہ ہوا تو خدا تعالیٰ نے اس خلافت کے ذریعہ سے جو مجھ پر وارد فرمایا، وہ یہ ہے۔ ایک دن رؤیا میں دیکھا کہ ایک نہایت ہی خوبصورت شاہی گھوڑا باندھا ہوا ہے۔ جس کا رنگ شاہ گندمی کمید ہے۔ اُس گھوڑے کے پاس ایک پلنگ ہے جس پر بسترا بچھا ہوا ہے، تکیہ وغیرہ بھی رکھا ہوا ہے۔ خواب میں ایسا معلوم ہوا کہ آندھی چلی ہے۔ وہ آندھی موسمِ گرما کی سی آندھی ہے جس طرح موسمِ گرما میں رات کے وقت عموماً آندھی چلا کرتی ہے۔ (انڈیا پاکستان میں رہنے والے جانتے ہیں، رات کو آندھیاں آیا کرتی ہیں) بسترے مٹی، تنکے، چھوٹے چھوٹے کنکروں وغیرہ سے پُر ہو جایا کرتے ہیں۔ (باہر جو لوگ سویا کرتے ہیں، اُن کو یہ پتہ ہے) اس قسم کے بستر کو مَیں صاف کر رہا ہوں، جھاڑ رہا ہوں اور وہ بسترا خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ سارا واقعہ مَیں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی خدمت میں عرض کیا۔ اس کی تعبیر انہوں نے یہ فرمائی کہ جو کچھ ہم کو ملا، اُس میں سے تم کو بھی حصہ مل گیا۔

حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب فرماتے ہیں (ان کی بیعت 1898ء کی ہے) کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک زمانے میں مجھے نہایت شاندار نظارہ دکھایا گیا۔ جو درحقیقت میری زندگی کی مختلف کیفیات کی خوشخبری تھی۔ یعنی حج کے دن بوقتِ تہجد میں نے دیکھا کہ دو شخص باہم باتیں کرتے ہیں۔ ایک نے کہا کہ سنا ہے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یاروں کی شکلیں نظر آتی ہیں، (یعنی دوستوں کی، ساتھیوں کی شکلیں نظر آتی ہیں)۔ اُس نے کہا ہاں جہلم کی طرف سے نظر آتی ہیں۔ پھر اُس نے کہا یہ دیکھو۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک شیش محل ہے جس کے شیشے سیاہ ہیں۔ معاً وہ براق ہو گئے اور اُس کے اندر چاروں یارانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرسیوں پر جلوہ پیرا تھے۔ (یعنی چاروں خلفاء)۔ نہایت شاندار نظارہ تھا۔ پھر وہ نظارہ ہٹ کر صرف حضرت عثمان نظر آئے۔ پھر وہ بھی نظارہ بدل کر صرف حضرت ابوبکر صدیق نظر آئے۔ یہ نظارہ میں نے سیر ہو کر اور اچھی طرح دیکھا۔ حضرت صدیق نے مجھے اپنا چہرہ اچھی طرح دکھلایا تو وہ بالکل حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل تھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو حضرت خلیفۃ المسیح ہیں۔ تو الہام ہوا کہ ابوبکر نورالدین کی شکل میں ہے۔ اصحاب فوت نہیں ہوں گے جب تک نورالدین کو نہ دیکھیں گے۔ میں نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا۔ حضور نے جواباً فرمایا کہ مبشرات میں سے آپ کے رؤیائیصالحہ ہے۔ ایسے ہی مجھے مختلف اوقات میں مبشرات ہوتے رہے۔ ایک اس میں یہ بھی تھا۔ ’’امن است درمکانِ محبت سرائے ما‘‘ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے۔ یعنی ہماری محبت کے گھر میں رہنے والے کے لئے امن ہے۔ پھر کہتے ہیں یہ بھی مجھے الہام ہوتے رہے۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے شعرہیں کہ ؎

’اب گیا وقتِ خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن‘

’خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے

جب آتی ہے تو اک عالم کو اک عالَم دکھاتی ہے‘

یہ خوشخبریاں اللہ تعالیٰ اُس زمانے سے جماعت کی ترقی کی صحابہ کو دکھاتا آ رہا ہے۔

پھر کہتے ہیں بہت ساری خوابیں مَیں نے دیکھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے پلاؤ کھلایا۔ پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حلوہ دیا کہ تقسیم کرو۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیچھے بھی اور ساتھ بھی نماز پڑھی۔ حضور کو پانی پلایا۔ حضور ایک ٹیلے پر کھڑے تھے اور میں گڑھے میں تھا۔ حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر اپنے ساتھ کھڑا کر لیا۔ ایسا ہی حضور پھول چن رہے تھے۔ مَیں نے بھی چُن کر حضور کو دئیے۔ کہتے ہیں ایسے ہی میں نے حج کیا، مکہ مکرمہ کو دیکھا۔ طوافِ کعبہ کیا اور طواف کے بعد بیت اللہ میں پھلوں سے لدے ہوئے درخت پیدا ہو گئے۔ آم کھجور وغیرہ کے۔ یہ نظارے دیکھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ میرے ابتلاء کا زمانہ ختم ہونے کی خوشخبریاں مجھے ملیں۔ کہتے ہیں بعض بزرگوں قاضی عبداللہ صاحب اور اَور دوسرے لوگوں کو بھی میرے بارے میں مبشّرات ملیں۔ پھر کہتے ہیں کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے 11؍مئی 1936ء کو آخری نفلی روزے کے دن تہجد کے وقت دیکھا کہ وائسرائے قادیان میں آیا ہے اور مَیں نے سب ملاقاتیوں میں سے احمدیوں کو پیش پیش رکھا ہے۔ یعنی یہ ملاقات کروا رہے ہیں اور مَیں اور مولانا اکٹھے ہیں۔ وائسرائے کو خطرہ ہے کہ مولانا اُسے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ میرا وائسرائے سے دوستانہ بے تکلف تعلق ہے۔ مَیں اُس کو پان دے کر کہتا ہوں کہ مولوی صاحب کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ (یہ مولوی غلام رسول صاحب کی طرف سے خواب تھی) اُن کی طرف سے میں ذمہ دار ہوں۔ ایسا ہی ایک اور شخص نے بھی ان کے بارے میں اچھی خواب دیکھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 7 صفحہ 119-121 روایات حضرت اللہ دتّہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر)

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں (انہوں نے 1894ء میں بیعت کی) کہ اے خدائے ذوالجلال! جو تیری جھوٹی قَسم کھاتا ہے وہ تیری درگاہ میں مردود و مخذول ہو جاتا ہے۔ پس مَیں تیری قدرتوں پر ایمان رکھتا ہوں اور تیری ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ تو نے مجھ گناہ گار ناچیز پر یہ بھید کھولے تھے۔ اگر مَیں نے تیری جھوٹی قسم کھائی ہے اور محض جھوٹے الہام یا خواب بنا کر تیری ذاتِ اقدس کی طرف منسوب کئے ہیں تو تو مجھے سزا دینے پر بھی قادر ہے۔ مَیں نے دیکھا (خواب بتاتے ہیں) کہ کوئی باغ ہے اُس میں ساری جماعت کے احباب موجود ہیں۔ اور غرباء ایک طرف ہیں اور امراء ایک طرف ہیں۔ امراء نے اپنا لیڈر جناب حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو مقرر کیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں خواب دیکھ رہے ہیں اور اس خواب کا تعلق حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے ہے۔ کہتے ہیں بہر حال مولوی عبدالکریم صاحب کو مقرر کیا۔ مجھے میرے غرباء احباب نے اپنا لیڈرمقرر کیا اور فیصلہ یہ ہو اکہ پہلی تقریر جناب حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کریں گے اور اُن کا جواب مجھ ناچیز کے ذمہ قرار پایا۔ حضرت مولانا نے اپنی تقریر میں اپنی خلافت کے دلائل پیش کئے اور مَیں نے اپنی تقریر میں جناب حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی کی خلافت کے دلائل دئیے۔ دلائل دے کر مولانا کی تقریر کا ردّ کیا۔ پھر مولانا نے اپنی خلافت کے دلائل بیان کئے۔ پھر میں نے اپنی تقریر میں مولانا کے دلائل کا ردّ کیا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خلافت کے دلائل بیان کرنے شروع ہی کئے تھے کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک جست ماری، (چھلانگ لگائی) پھر دوسری چھلانگ لگائی اور پھر تیسری چھلانگ لگا کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضرت! میری بیعت لے لیجئے۔ حضرت خلیفہ اول نے مولوی صاحب سے بیعت لی اور آپ بالکل خاموش تنِ تنہا ایک آم کی جڑ میں آم سے کمر لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ میری اس رؤیا کے شاہد جناب شیخ حبیب علی صاحب عرفانی اور جناب ماسٹر عبدالرحمن مہر سنگھ صاحب بھی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں یہ رؤیا دیکھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ غیرمطبوعہ جلد 6 صفحہ 74-75 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)

خلافت سے متعلق یہ رؤیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ سے ہی جماعت میں اللہ تعالیٰ دکھاتا چلا آ رہا ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے، بعض لوگ اعتراض کر دیتے ہیں کہ جی آج خوابیں دیکھ لیں، خلیفہ اوّل کے زمانے سے خوابیں اور بہت ساری خوابیں ہیں، پھر حضرت خلیفہ ثانی کی، پھر اُسکے بعد۔ بہر حال یہ چند خوابیں تھیں جو میں نے بیان کیں۔ اب جو اگلی بات مَیں کرنا چاہتا ہوں وہ آج اس وقت سیرالیون اور بنگلہ دیش دو ملک ہیں جہاں ان کے جلسہ سالانہ منعقد ہو رہے ہیں۔ سیرالیون کا تو یہی وقت ہے، اس وقت شاید جلسہ ہو رہا ہو گا۔ اور بنگلہ دیش میں جلسہ کا جو پہلا دن ہے ہوگیا ہے۔ اس سال بنگلہ دیش میں احمدیت کو پہنچے ہوئے، شروع ہوئے ہوئے ایک سو سال ہو چکا ہے۔ جیسا کہ برطانیہ کی جماعت کو بھی اس سال سو سال پورے ہوئے ہیں۔ جماعت برطانیہ بھی اپنے جشنِ تشکر کا پروگرام بنا رہی ہے۔ بنگلہ دیشی جماعت نے یہ پروگرام بنائے اور اُن پر کچھ پر عمل بھی ہوا۔ جلسہ سالانہ بھی اس پروگرام کا ایک بہت بڑا حصہ تھا بلکہ ہے۔ اس لئے انہوں نے اس سال کرایہ پر بڑی وسیع جگہ لے کر ایک سٹیڈیم میں جلسے کا انتظام کیا تھا تاکہ آسانی سے تمام پروگرام ہو سکیں اور رہائش وغیرہ کا بھی انتظام ہوجائے۔ زیادہ تعداد میں لوگ شامل ہو سکیں۔ جلسہ سالانہ کے جو انتظامات اور تیاریاں ہوتی ہیں وہ مکمل تھیں کہ پرسوں کچھ نام نہاد علماء نے اپنے چیلے چانٹوں کو اکٹھا کر کے (مدرسوں کے طلباء کو ہی اکٹھا کیا ہو گا) اور کچھ جماعتِ اسلامی کے لوگ تھے۔ انہوں نے تقریباً دو تین ہزار کی تعداد میں حملہ کر دیا۔ پولیس وہاں کھڑی رہی، اُس نے کچھ نہیں کیا۔ آخر ان دہشت گردوں نے، حملہ آوروں نے تقریباً سارا سامان اور جو انتظامات تھے انہیں درہم برہم کیا۔ پھر کرائے کا جو بہت سارا سامان تھا، کرسیاں اور ٹینٹ اور باقی چیزیں مارکیز وغیرہ اُس کو آگ لگا دی۔ جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ تو اسلام کے ان نام نہاد عَلم برداروں کا یہ رویّہ ہے۔ بہرحال ابھی جلسہ تو کینسل نہیں ہوا، وہ تو جیسا کہ مَیں نے کہا انشاء اللہ ہو رہا ہے۔ جماعت کی جو اپنی جگہ ہے اُس میں ہو رہا ہے۔ تعداد کم ہو گی، جگہ کی تنگی ہو گی لیکن جلسہ بہرحال ہمیشہ کی طرح انشاء اللہ تعالیٰ منعقد ہو گا۔ اللہ تعالیٰ تمام شاملینِ جلسہ جن میں اس سال بہت سارے غیر ممالک کے نمائندے اور مہمان بھی گئے ہوئے ہیں، اُن کو بھی حفاظت میں رکھے اور جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے اختتام کو پہنچے۔ اور اِن علماء کے شر اُن پر الٹائے۔ جو بہت بڑا مالی نقصان ہوا ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کی بھی تلافی فرمائے۔ اس لئے بہت دعائیں کریں۔ دوسرا جلسہ جیسا کہ مَیں نے کہا سیرالیون میں ہو رہا ہے۔ سیرالیون کے اور بنگلہ دیش کے علماء کا یہ فرق ہے کہ وہاں کے بعض علماء نے خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہوئے پیغامات بھیجے ہیں اور شامل ہوئے ہیں۔ وہ لوگ نیک خواہشات کے جذبات رکھتے ہیں۔ اُن میں کم از کم انسانیت ہے۔ باوجود مخالفت کے ہمارے پروگراموں میں آ بھی جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی جزا دے اور اُن کے دل مزید کھولے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کو بھی سمجھنے لگیں، پیغام کو سمجھنے لگیں۔ بہر حال سیرالیون کے لئے بھی دعا کریں۔ اُن کا جلسہ بھی ہر لحاظ سے بابرکت اور کامیاب ہو اور تمام شامل ہونے والے احمدی اور دوسرے مہمان بھی جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون کی جماعت بھی بہت زیادہ اخلاص رکھنے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو مزیدبڑھاتا چلا جائے اور جلد تر یہ ملک بھی اور تمام افریقہ بھی احمدیت کی آغوش میں آ جائے تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نمازوں کے بعدمَیں کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ عزیزم کریفہ کونڈے (Kerifa Conde) جو جامعہ احمدیہ سیرالیون کے طالبعلم تھے، اُن کا ہے۔ یہ جامعہ میں درجہ ثانیہ میں پڑھ رہے تھے۔ 31؍ جنوری کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جلسہ سالانہ جیسا کہ مَیں نے بتایا، ہو رہا ہے، اس کی تیاریاں کر رہے تھے جس طرح خدام کرتے ہیں۔ تیاریوں کے سلسلہ میں وقارِ عمل کے دوران سیڑھی سے گرنے کی وجہ سے سر میں شدید چوٹ آئی۔ فوراً ہسپتال پہنچایا گیا۔ وہاں علاج ہو رہا تھا۔ ایکسرے سے پتہ لگا کہ سر کی ہڈی پر سکلپ (Sculp) میں کریک آیا ہے۔ ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا۔ آپریشن کی تیاری ہو رہی تھی کہ اُس سے پہلے ہی ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سیرالیون کے ہمسایہ ملک گنی کناکری سے یہ جامعہ میں پڑھنے کے لئے آئے تھے۔ بہت نیک، مخلص اور محنتی طالبعلم تھے۔ مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ جب انہوں نے وقف کر کے جامعہ احمدیہ میں پڑھنے کا ارادہ کیا تو گھر والوں نے بہت مخالفت کی لیکن وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ گزشتہ سال جب چھٹیوں میں سیرالیون سے گنی کناکری گئے تو موصوف کے والدین نے اپنے بیٹے میں نمایاں تبدیلی دیکھی اور یہ تبدیلی دیکھ کر مرحوم کے والدین بھی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ موصوف کے والد صاحب کا نام فاسینے کونڈے (Facine Conde) اور والدہ کا نام سیویلی ڈونو (Siwili Douno) ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان بڑے صالح، متقی، جماعت اور خلافت سے بے انتہا محبت کرنے والے تھے۔ نیز جو بھی ذمہ داری ان کے سپرد کی جاتی اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے اپنے ایک دوست نے بتایا کہ ہمیشہ اس دعا کے لئے کہا کرتے تھے کہ دعا کرنا کہ میری موت جب بھی آئے ہمیشہ احمدیت پر ہی آئے۔

دوسرا جنازہ چوہدری بشیر احمد صاحب صراف سابق صدر حلقہ غربی ڈسکہ کوٹ کا ہے۔ 24؍نومبر 2012ء کو 82 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت میاں اللہ دتہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کو تقریباً 61سال مختلف عہدوں پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ سولہ سال قائد مجلس خدام الاحمدیہ، چھتیس سال سیکرٹری مال، پچیس سال سیکرٹری رشتہ ناطہ، بائیس تیئس سال صدر جماعت اور دس سال امیر حلقہ رہے۔ اس کے علاوہ آپ چالیس سے زیادہ مرتبہ یعنی چالیس سال تقریباً شوریٰ کے نمائندے بھی مقرر ہوئے۔ صوم و صلوۃ کے پابند، تہجد گزار، ہمدرد، مہمان نواز، خلافت اور نظامِ جماعت کے وفادار، غیر معمولی قربانی کرنے والے بہت سی خوبیوں کے حامل تھے۔ نیک انسان تھے۔ متقی انسان تھے۔ آپ کو تین خلفاء کی خدمت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس طرح کئی صحابہ اور جماعتی عہدیداروں کی ان کے دورہ جات کے دوران بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کو ڈسکہ کوٹ میں ایک بڑی جگہ لے کر مسجد تعمیر کروانے کی توفیق بھی ملی۔ بہت دلیر اور بہادر، نڈر انسان تھے۔ غیر احمدی لوگ بھی آپ کی شخصیت سے متاثر تھے۔ تین بار اسیرِ راہِ مولیٰ ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

تیسرا جنازہ مکرم عبدالغفار ڈار صاحب کا ہے جن کی 5؍فروری 2013ء کو وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ راولپنڈی میں تھے۔ آخری وقت تک بالکل ٹھیک تھے۔ بظاہر کوئی ایسی بات نہیں تھی جو خطر ناک ہوتی۔ ان کی آخر تک صحت بھی بڑھاپے کے علاوہ باقی تو ٹھیک تھی۔ 97 سال کی عمر ہونے کے باوجود دوسری منزل پر پچیس چھبیس سیڑھیاں وغیرہ چڑھ کر جایا کرتے تھے۔ وفات کے روز شام ساڑھے چھ بجے کے قریب چائے پی کر کہا کہ کھانا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا۔ صرف رات کو سونے کی دوائی دے دینا۔ رات دس بجے کے قریب جب آپ کا نواسہ دوائی کھلانے کمرے میں گیا تو لائٹ بند تھی، چہرہ زرد تھا اور جسم میں کچھ حرکت نہ تھی۔ غالباً اسی وقت وفات ہو چکی تھی۔ بہرحال ہسپتال لے گئے تو پتہ لگا۔ ڈاکٹروں نے دیکھا تو وفات ہو چکی ہے۔ آپ کا سنِ پیدائش 1916ء ہے۔ آپ کا تعلق آسنور (مقبوضہ کشمیر) سے ہے۔ آپ کا خاندان کشمیر کے اولین مخلص احمدیوں کا ہے۔ آپ کے دادا حضرت حاجی عمر ڈار صاحب اور آپ کے والد حضرت عبدالقادر ڈار صاحب حضرت اقدس کے صحابہ میں سے تھے۔ اسی طرح آپ کے چچا حضرت عبدالرحمن صاحب بھی صحابی تھے۔ ان کے دادا جان کے ہم زلف مرحوم محمد رمضان بٹ صاحب محلہ کشمیریاں سیالکوٹ میں میں مقیم تھے۔ علامہ اقبال کے محلہ کی ایک معروف مسجد کبوتراں والی میں آپ کا آنا جانا ہوا۔ یہ لکھتے ہیں کہ اسی محلہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کی دعوتِ الی اللہ کے نتیجہ میں دادا صاحب نے قادیان کا سفر اختیار کیا۔ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے دادا صاحب مرحوم سے کہا کہ خواجہ صاحب! آپ اپنے وطن سے ایک اعلیٰ دینی فریضہ کی انجام دہی کے لئے گھر سے نکلے ہیں۔ حج کے لئے نکلے تھے لیکن بیماری کی وجہ سے، وہاں وبا کی وجہ سے حج پر جا نہیں سکے تھے۔ کہتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور عمل میں آ چکا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ امام مہدی کو نہ صرف قبول کرنا ضروری ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلام پہنچانا واجبات میں سے ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے ساتھ قادیان چلیں۔ جس بزرگ اور ولی اللہ نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اُن کی زیارت کریں، اُن کو پَرکھیں۔ چنانچہ آپ قادیان تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد میں مجلس لگی ہوئی تھی۔ احباب مجلس سوالات کر رہے تھے اور حضور ان کے جوابات دے رہے تھے۔ تو کہتے ہیں دادا جان کو خیال آیا کہ یہ مجلس تو علماء اور لکھے پڑھے لوگوں کے سوالات و جوابات کی مجلس ہے۔ کیوں نہ مَیں بھی اپنے دل میں ایک سوال رکھوں۔ اگر یہ مأمور من اللہ ہوں گے تو ضرور میرے دل میں پیدا شدہ سوال کا جواب عطا کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دل میں سوال رکھا۔ کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میرے سوال کئے بغیر مجھے اس سلسلہ میں جواب اور رہنمائی ملنی چاہئے کہ حق بات کیا ہے۔ آپ کا یہ خیال کرنا ہی تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بعض لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں مگر اپنے رحمی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک سے پیش نہیں آتے، حالانکہ یہ امر صریح طور پر اسلامی تعلیم اور تقویٰ کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں اس بات سے دل میں جو میرا سوال تھا اُس کا مجھے جواب مل گیا۔ شرح صدر ہو گئی اور مَیں نے بیعت کر لی۔ انہوں نے اپنے بھائی کی کوئی زمین ان کو نہیں دی تھی، دبائی ہوئی تھی۔ تو فوراًاپنے داماد کو خط لکھا کہ نشاندہی کر کے جو اُن کا رقبہ بنتا ہے اُن کو دے دو۔ تو یہ ان کے دادا کے احمدی ہونے کا فوری اثر تھا۔ بہرحال ڈار صاحب جو تھے، انہوں نے یاڑی پورہ مڈل سکول کشمیر سے پانچویں جماعت پاس کی۔ 1928ء میں قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے۔ مدرسہ احمدیہ کی سات جماعتیں پاس کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1938ء میں مولوی فاضل کیا۔ ان کی اہلیہ تو پہلے ہی 2005ء میں وفات پا چکی تھیں۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ غفار صاحب کی بڑی اونچی بھاری آواز تھی، بہرحال خوش الحان بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ میری آواز اچھی تھی تو حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی موجودگی میں ایک جلسہ ہوا جہاں مجھے نظم پڑھنے کا موقع ملا۔ حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی ایک نظم حضور کی موجودگی میں سنائی۔ جب انہوں نے یہ لکھا تو کہتے ہیں کہ پچاسی سال ہو گئے ہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک شعر یہ تھا کہ

’’وہ بچہ جو اکیلا رہ گیا تھا آشیانے میں‘‘ (حضرت خلیفہ ثانی کے متعلق یہ نظم تھی)

’’وہ بچہ جو اکیلا رہ گیا تھا آشیانے میں

خدا کے فضل سے اُس کے ہوئے ہیں بال و پَر پیدا‘‘

تو کہتے ہیں کہ میں نظم پڑھتے ہوئے ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی کی طرف اشارہ کرتا تھا اور ایک دفعہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف تو اس سے خوب نعرے لگے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ ثانی کا واقعہ سنایا کہ میرے والد صاحب قادیان میں ہی بیمار ہوگئے تو مجھے انہوں نے حضرت خلیفہ ثانی سے دوائی لینے کے لئے بھیجا۔ مَیں گیا تو حضرت خلیفہ ثانی باہر نکل رہے تھے کہ مَیں نے عرض کی کہ اس طرح والد صاحب بیمار ہیں، انہوں نے دوائی منگوائی ہے۔ آپ پھر واپس گئے اور اُن کی دوائی دی۔ اس خاندان سے حضرت خلیفہ ثانی کا بھی بڑا پیار کا تعلق تھا۔ بلکہ کشمیریوں ساروں سے ہی۔ پھر انہوں نے جماعت کے بھی کافی کام کئے ہیں۔ حضرت خلیفہ ثانی خاص کام ان سے لیتے رہے۔ وہاں کشمیر سے ’اصلاح‘ ایک رسالہ نکلتا تھا، اُس کی رہنمائی بھی حضرت خلیفہ ثانی فرمایا کرتے تھے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد اُس میں ان کو رکھوایا۔ بہرحال یہ کافی صاحب الرائے بھی تھے۔ ہمیشہ شوریٰ میں بھی رائے دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ سید عبدالحئی شاہ صاحب کی روایت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے ان کو تاحیات شوریٰ کا ممبر مقرر فرمایا تھا۔ ان کے نواسے کہتے ہیں کہ ہمیں نماز کے لئے کہتے رہتے اور ہر وقت یہ پوچھتے بھی تھے کہ نماز میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟ خلفاء کے ساتھ اپنے واقعات بڑے رشک سے سناتے تھے۔ خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا ابھی یہ تینوں جنازے انشاء اللہ نمازوں کے بعد ادا ہوں گے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ فروری 2013ء شہ سرخیاں

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی مختلف خوابوں اور رؤیا کا ایمان افروز تذکرہ جن سے ان صحابہ کے خدا تعالیٰ سے تعلق اور خداتعالیٰ کے ان کے ساتھ سلوک کا پتہ چلتاہے۔ ان میں اور بھی بہت سی نصائح اور سبق ہیں۔ جماعت احمدیہ بنگلہ دیش نے ایک سٹیڈیم کرایہ پر لے کر جلسہ سالانہ کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں کہ شرپسند مخالف علماء اور ان کے چیلوں چانٹوں نے حملہ کر کے تمام انتظامات کو درہم برہم کر کے سامان کو آگ لگا دی جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا۔ اب یہ جلسہ جماعت کی اپنی جگہ پر ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن علماء کے شر اُن پرالٹا دے۔

    بنگلہ دیش اور سیرالیون کے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے دعا کی تحریک۔

    عزیزم کریفہ کونڈے متعلّم جامعہ احمدیہ سیرالیون، مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب صراف (ڈسکہ کوٹ۔ پاکستان) اور مکرم عبدالغفار ڈارصاحب (راولپنڈی) کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 8؍ فروری 2013ء بمطابق 8؍ تبلیغ 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور