نتیجہ خیز دعاؤں کے حصول کے لئے عابد بننے کی طرف توجہ

خطبہ جمعہ 15؍ مارچ 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْماً ضَآلِّیْنَ۔ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظالِمُوْنَ۔ قَالَ اخْسَئُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ۔ إِنَّہُ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُولُوْنَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۔ فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیّاً حَتّٰی اَنْسَوْکُمْ ذِکْرِیْ وَکُنتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُونَ۔ اِنِّیْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْا اَنَّہُمْ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ۔ (سورۃ المؤمنون: 107تا 112)

گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس کے حوالے سے جو خطبہ کے ابتدا میں ہی مَیں نے پڑھا تھا، یہ بتایا تھا کہ دعا کیا ہے؟ دعا سے کس طرح تسلی اور سکینت ملتی ہے؟ دعا کی فلاسفی کیا ہے اور کس طرح مانگنی چاہئے؟ یعنی دعا مانگنے کا معیار کیا ہے جو ایک مومن کو اختیار کرنا چاہئے۔

اصل میں تو دعا کی یہ روح اور فلاسفی قرآنِ کریم کی ہی بیان فرمودہ ہے، اُس میں بیان ہوئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمائی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اور ارشادات بھی ہیں جو بڑے مختصر ارشادات ہیں لیکن دعا کرنے اور دعا کی حقیقت جاننے کے ایسے طریقے اور اسلوب ہیں جن پر عمل کر کے ایک انسان خدا تعالیٰ کا قرب پانے والا اور دعا کی حقیقت جاننے والا بن جاتا ہے۔

آپ علیہ السلام اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ:

’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں رہتا۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 21 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے۔ ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لیے کہتے ہیں۔ کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اﷲ تعالیٰ کے لیے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 33 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی فطری جوش ہے جو بندے اور خدا کے تعلق کو قائم کرتا ہے اور اُس کو مضبوط کرتا ہے۔ پس اس فطری جوش اور مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ یہ فطری جوش بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے پیدا ہو گا۔

پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:۔ ’’دعاؤں میں جو رُو بخدا ہو کر توجہ کی جاوے تو پھر ان میں خارق عادت اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعاؤں میں قبولیت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے اور دعاؤں کے لیے بھی ایک وقت‘‘ (ہوتا ہے) ’’جیسے صبح کا ایک خاص وقت ہے۔ اس وقت میں خصوصیت ہے وہ دوسرے اوقات میں نہیں۔ اسی طرح پر دعا کے لیے بھی بعض اوقات ہوتے ہیں جبکہ ان میں قبولیت اور اثر پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 309 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ہر کام میں صبح کے وقت تازہ دم ہو کر جو کام انسان کرتا ہے اُس کے نتائج بہترین ہوتے ہیں۔ آجکل کے ان لوگوں کی طرح نہیں جو ساری رات یا رات دیر تک یا تو انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں یا اور دنیاوی کاموں میں ملوث رہتے ہیں۔ اُن کی رات کو نیند پوری نہیں ہوتی۔ صبح اُٹھتے ہیں تو ادھ پچدّی نیند کے ساتھ، اُس میں نماز کیا ادا ہو گی؟ اور ان کے دوسرے کاموں میں کیا برکت پڑے گی۔ ہر شخص چاہے دنیا دار بھی ہو اپنے بہترین کام کے لئے تازہ دم ہو کر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ پوری توجہ سے کام ہو۔ اُس کام کے بہترین نتائج ظاہر ہوں۔ پس آپ نے فرمایاکہ اس طرح تمہیں یہ بھی تلاش کرنا چاہئے کہ تمہارے دعاؤں کے بہترین اوقات کیا ہیں؟ وہ کیفیت کب پیدا ہوتی ہے جب دعا قبول ہوتی ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ کا رحم ہے اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی پر مصیبت وارد ہوتی ہو تو وہ ڈرے۔ جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا خدا اُسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا۔ اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ جب عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعاؤں میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور امر الٰہی کی تعظیم‘‘ (یعنی جو حکم خدا تعالیٰ نے دئیے ہیں اُنہیں پورے عزت و احترام کے ساتھ بجا لانے کی کوشش کرتا ہے) ’’اور خلق اﷲ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے۔ یہی ہیں جو سعادت کے نشان ہیں۔ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 539 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی سعید فطرت کے نیک عمل اُس پھل کی طرح ہیں جو میٹھا ہے اور پُر لذت ہے۔ جس کے پھل کو دیکھ کے سب کہیں، جس کو چکھ کر سب کہیں کہ یہ میٹھا پھل دینے والا درخت ہے۔ شقی وہ بدبخت انسان ہے جس کے عمل نہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے ہیں اور نہ ہی اُس کے بندوں کا حق ادا کرنے و الے ہیں۔ گویا کڑوا اور بدبودار پھل دینے والا درخت ہے۔

پس یہ چند اقتباسات مَیں نے اس لئے پیش کئے کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے تعلق کا مزید ادراک پیدا ہو۔ اس لئے کہ ہمیں دعا کرنے کے اسلوب اور طریقوں کا پتہ چلے۔ اس لئے کہ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اچھے اور برے کے فرق کو دیکھ کر ہم اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ ہمیں دعاؤں کے صحیح طریق کو اپناتے ہوئے دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو۔ تا کہ ہم اُن لوگوں میں شامل ہوں جو دنیا کی حَسَنَہ سے بھی حصہ لینے والے ہیں اور آخرت کی حَسَنَہ سے بھی حصہ لینے والے ہیں۔ تا کہ ہم ذاتی اور جماعتی مقاصد کے حصول میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے والے ہوں۔ پس یہ وہ اہم مضمون ہے جسے ایک مسلمان کو، اُس مسلمان کو جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا ہے، جس نے زمانے کے امام اور مسیح و مہدی موعود کی بیعت میں آنے کی سعادت پائی ہے۔ اُس کو ان باتوں کو سمجھنے اور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ حقیقی مومن اور جو صرف ایمان کا دعویٰ کرنے والا ہے اُس میں فرق پیدا ہو جائے۔ واضح ہو جائے کہ حقیقی مومن کون ہے اور وہ کون ہے جو صرف مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

قرآنِ کریم نے متعدد جگہ جو دعا کے مضمون پر کھل کر روشنی ڈالی ہے اس کو ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم دعا کی حکمت اور فلاسفی اور دعا کرنے کے طریق کو سمجھ کر دعا کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اور نہ صرف دعا کی طرف توجہ کرنے والے ہوں بلکہ نتیجہ خیز دعاؤں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔ ایسی دعائیں کرنے والے ہوں جن کا نتیجہ نکلتا ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر زندگی بے مقصد ہے۔ نتیجہ خیز دعاؤں کی انسانوں کو اپنی زندگیاں سنوارنے کے لئے ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں، اُس سے کچھ مانگتے ہیں یا نہیں۔ دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعاؤں اور پھل لانے والی دعاؤں کی ہمیں ضرورت ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کو، وہ تو بے نیاز ہے۔ اسی لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ یہ اعلان کر دو کہ قُلْ مَا یَعْبَؤُاْ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعٓاؤُکُمْ (سورۃ الفرقان: 78) یعنی کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے، اگر تمہاری طرف سے دعا ہی نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے، لیکن اس آیت میں اَور بھی صراحت ہے‘‘ (مزید کھول کر بیان کیا ہے) ’’یعنی ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 221 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

دعا ئیں کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے۔ اُس کی عبادت، اپنی عبادت کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ سے اگر تعلق جوڑنا ہے، اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کروانی ہے، دشمن کی ناکامی کے نظارے دیکھنے ہیں تو ہمیں عابد بننے کی طرف توجہ دینی ہو گی، حقیقی عابدبننے کی طرف توجہ کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو صحیح عابد بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں یہ روح پیدا کرے تا کہ ہم دشمنوں کے بد انجام کو دیکھنے والے ہوں۔ آج کل دشمن، وہ لوگ جن کے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دشمنی، کینہ اور بغض میں اس قدر بھر چکے ہیں کہ جس کی انتہا کوئی نہیں رہی۔ خاص طور پر پاکستان میں اور پھر ہندوستان کے کچھ علاقوں میں بھی، یا اُن کے زیرِ اثر بعض مسلمان افریقن ممالک کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ان سے ہر قسم کی کمینگی کے اظہار ہونے لگے ہیں۔ صفِ اول میں گو پاکستان کے مُلّاں اور نام نہاد علماء ہی ہیں۔ کوئی موقع نہیں چھوڑتے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف انتہائی ذلیل اور مذموم حرکتوں کے مرتکب نہ ہورہے ہوں۔ احمدیوں کے دلوں کو چھلنی کرنے کے موقعے تلاش کرتے ہیں۔ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس لئے محبت اور وفا کا تعلق رکھتے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشقِ صادق ہیں۔ یہ احمدیوں کا جرم ہے۔ احمدیوں کایہ وفا کا تعلق اس لئے ہے، یہ محبت کا تعلق اس لئے ہے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر حقیقی عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کیا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا تعلق اس لئے رکھتے ہیں کہ حقیقی توحید کا فہم و ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے عطا ہوا۔ پس جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی کی وجہ سے اپنی حدوں کو پھلانگ رہے ہیں، اُن کا مقابلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی منادی کرنے والے سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اُس بندے سے ہے جس کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعودنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عابد کی پرواہ کرتا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑا عابد کوئی نہیں۔ ماضی میں بھی ہم دشمنوں کا انجام دیکھتے آئے اور آجکل بھی دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں کہ ان مغلّظات بکنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طریقے سے پکڑا جو یقینا بہت سوں کے لئے عبرت کا باعث بنا یا عبرت کا باعث بننے والا تھااور ہے۔ پاکستان میں بھی دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں۔ مَیں بوجوہ بعض جگہوں کے نام تو نہیں لیتا جہاں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ان دریدہ دہنی کرنے والوں کو، بیہودگیاں کرنے و الوں کو اللہ تعالیٰ نے پکڑا۔ یہ دریدہ دہنی کرنے والے کئی قسم کے ہیں۔ جو بڑے نیک، پارسا تھے۔ ان کو کسی نہ کسی گھناؤنے الزام میں، نہ صرف الزام میں بلکہ جرم میں اُن کے اپنے لوگوں نے جو اُنہیں بہت بڑا بزرگ سمجھتے تھے، ذلیل کر کے اپنے علاقے سے نکلوایا یا نکال دیا۔ یا پھر یہ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی اَور رنگ میں ان کی ذلت کے نظارے دکھا کر جہاں اُن کے حامیوں کو شرمندہ کیا، وہاں احمدیوں کے ایمان کو بھی مضبوط کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ان الزام تراشیاں کرنے والوں نے بعض ایسی ایسی ذلیل حرکات کی ہیں کہ بعض لوگ مجھے واقعات لکھتے ہیں اور بعض دفعہ اخباروں میں بھی آ جاتی ہیں کہ ان کا تو میں یہاں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ کس قسم کی گھٹیا سوچیں ہیں۔ کس قسم کے گھٹیا ان کے عمل ہیں اور دشمنی ہے زمانے کے امام کے ساتھ۔ عوام کی اکثریت یا تو بے حس ہے، (پاکستان کی میں بات کر رہا ہوں ) یا خوفزدہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پھر بھی یہ لوگ سبق حاصل نہیں کرتے کہ ان نام نہاد اسلام کا درد رکھنے والوں کی جو ذلت ہو رہی ہے یا ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی دشمنی کی وجہ سے ہے اور غور کریں تو یہی چیز ان کے لئے عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں جیسا کہ مَیں نے کہا افریقہ میں بھی بعض دفعہ دشمنیاں ہیں لیکن مسلمان اپنے علماء کی جب یہ گھٹیا حالت دیکھتے ہیں تو پھر یہ احمدیت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ افریقہ میں بہت سے علاقوں میں تو احمدیت پھیلی بھی اس وجہ سے ہے۔ اپنے علماء کی حالت دیکھ کر انہوں نے صحیح دین کو پہچانا ہے۔ ان میں یہ جرأت ہے کہ اپنے ان نام نہاد علماء کی حرکتوں سے سبق حاصل کریں اور حق کی تلاش کریں۔ بہر حال مَیں احمدیوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مخالفینِ احمدیت کی حرکتوں اور کمینگیوں سے پریشان نہ ہوں۔ گزشتہ دنوں مجھے کسی احمدی نے پاکستان سے لکھا کہ ہمارے علاقے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کا زور اس قدر ہے اور اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ دشمن ہر اوچھی حرکت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر بگاڑ کر یا تصویر کے ساتھ بڑا توہین آمیز سلوک کر کے ہمارے دلوں کو چھلنی کر رہے ہیں۔ یہ جہالت جو ہم دیکھتے ہیں تو اب برداشت نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ دل پھٹ جائے گا۔ اتنے غلیظ پوسٹر دیواروں پر لگا رہے ہیں کہ بعض غیر از جماعت جو شرفاء ہیں اُن کی دیواروں پر جو پوسٹر لگے ہوئے تھے، انہوں نے بھی وہ اتار دئیے کہ اب یہ انتہا ہو رہی ہے۔ تو یہ لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر بے ساختہ روتے ہوئے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ میں نے اُن کو بھی لکھا ہے کہ صبر اور دعا سے کام لیں۔ ہمیں دشمن کے شور و فغاں میں بڑھنے، بیہودگیوں میں بڑھنے کے بعد یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا سبق ملا ہے۔ پس ہمیں اس سبق کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔ یہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھا کر اُس میں فنا ہونے کا سبق ہے۔ ایسے لوگ اپنی موت کو خود دعوت دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی اہانت کرنے والے ہمیشہ ہی تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بھی اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو جس طرح لیکھو پر دعا کی تلوار چلی تھی، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کے اِذن سے چلے گی۔ پس اپنے دکھ، اپنے درد، اپنی چیخیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کو عبرت کا نشان بنائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مجلس میں جو 19؍ اپریل 1904ء کی ہے فرمایا کہ:

’’مَیں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا۔ ’’زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ فرمایا میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے؟ اتنے میں میری نظر اُس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے۔ اور وہ دعا یہ ہے۔ یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَ مَزِّقْ اَعْدَآ ئَکَ وَ اَعَدَآ ئِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْ لَنَا حُسَامَکَ وَ لَا تَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔‘‘

یعنی ’’اے میرے رب! تُو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا۔ اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔‘‘

انکار کرنے والے بہت سارے ہوتے ہیں لیکن بعض انکار کرنے والے شریر ہوتے ہیں جو اپنی شرارتوں میں انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں۔ پس یہ دعا اُن کے لئے ہے۔ فرمایا کہ:

’’اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اُس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹا دیا کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں۔ ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح اُن امور کو ظاہر کر رہا ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 426-427 مع حاشیہ۔ نظارت اشاعت ربوہ۔ 2004ء)

اور یہ نظارے آج بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو دکھا رہا ہے۔ ایک طرف یہ گالیاں ہیں، دوسری طرف ترقیات ہیں۔ بیشک ملک میں شرفاء بھی ہیں، ایسے بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا، جوپوسٹروں کو اپنے گھروں کی دیواروں پر سے اُتارنے والے ہیں۔ لیکن ان میں جو اکثریت ہے اُن میں گونگی شرافت ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ شرافت تو ہے لیکن گونگی شرافت ہے جو بولتی نہیں۔ (تذکرہ صفحہ 426-427 مع حاشیہ۔ نظارت اشاعت ربوہ۔ 2004ء)

لیکن ایک پڑھا لکھا طبقہ جو انگریزی اخباروں میں لکھتا ہے، انہوں نے اب اس حد سے بڑھے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بھی اُٹھانا شروع کر دی ہے۔ بہر حال ملک کو بچانے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ الہامی دعا بھی پڑھنی چاہئے تا کہ شر پسندوں کا خاتمہ ہو۔ ملک کی شریف آبادی اُن شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احمدی ان شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر صبر اور دعا کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ مختلف شہروں میں، مختلف علاقوں میں احمدیوں کے خلاف ان شر پسندوں کی منصوبہ بندیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارا خدا خیر الماکرین ہے۔ ان کے منصوبوں کو ان پر الٹانے والا ہے اور اُلٹا رہا ہے۔ وہی ہے جس نے اب تک ہمیں اُن کے خوفناک منصوبوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا خدا کے دامن کو کبھی نہ چھوڑیں۔ پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا، مَیں جماعت کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں اس کے آگے جھک جائیں تو تھوڑے عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ انقلاب آ سکتا ہے۔

مستقل مزاجی سے دعاؤں کی طرف توجہ دیتے چلے جانے کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ:

’’دعا اور اُس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاپر ابتلاآتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آ جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت، ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعدنصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے۔ کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہیں چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی۔ ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 707-708 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یعنی اگر انسان اس قسم کی باتیں سوچے تو پھر وہ لا شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی جو دعائیں قبول فرمانے کی صفت ہے، اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔

پس ہمارا کام اپنے اندر استقلال پیدا کرنا ہے۔ ہمیں اُن شرائط کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سے چند ایک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بیان کی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول کبھی غلط نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(سورۃ البقرۃ: 187)۔ کہ دعا کو اُس کی شرائط کے ساتھ مانگو، میں قبول کروں گا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم مایوس ہوں۔ ہاں قبولیت کا وقت خدا تعالیٰ نے رکھا ہے۔ ہر ابتلا ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا بنائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ قبولیت بھی ہم دیکھیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور ارشاد بھی پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حدنہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں نہ لگا رہے۔ اللہ تعالیٰ پر کبھی بد ظنی اور بدگمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے۔ یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ وہ وقت آ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سن لے گا اور اُسے جواب دے گا۔ جو لوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بدنصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں۔ اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے۔ پس اُس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اُس قانون کو اُس کے لئے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہو جائیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا؟ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا‘‘… فرمایا ’’دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹایوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے اُن سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اُس کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا۔ چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں۔ اسی عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تُو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے مگر انہوں نے یہی کہا کہ مَیں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ بیشک اُن کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا۔ اِنّی لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ۔ (سورۃ یوسف: 95) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دعاؤں کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں سے محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا۔ مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا۔ بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا۔ وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اُس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 151-152 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور پھر ہماری دعائیں تو ہمارے دل کی تڑپ، ہمارے دلوں کا چھلنی ہونا اپنی ذات پر ظلم کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ہم اُن ظلموں کا نشانہ ہیں۔ ہم ان ظلموں کا نشانہ اس لئے بن رہے ہیں کہ اس زمانے میں ہم نے خدا تعالیٰ کے فرستادے اور پیارے کو مانا ہے۔ پس یقینا ہم خدا تعالیٰ کے لئے یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ اگر اُس کی خاطر برداشت کر رہے ہیں تو وہ ضرور ہماری دعائیں سنے گا اور سن رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کی ترقی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ دشمن کے منصوبے تو بڑے شدید تھے اور ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا رحم اور فضل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہیں اور ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے خداتعا لیٰ یہ نظارے دکھا رہا ہے کہ کئی جگہ دشمن کے منصوبوں کے توڑ کر رہا ہے اور صرف پاکستان میں نہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں بھی مخالفت ہے لیکن جماعت کی ترقی رُک نہیں رہی۔

یورپین پارلیمنٹ مَیں جب میں گیا تو ایک اخباری نمائندے نے کہا کہ تمہاری دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے یا تعداد کتنی ہے؟ تم لوگ اپنے آپ کو کہاں رکھتے ہو؟ تو مجھے یہ خیال آیا کہ اُس نے تعداد کی حقیقت پوچھنے کے بعد یہ سوال کرنا ہے کہ پھر تم جو تعلیم دیتے ہو، امن پسندی کی باتیں کرتے ہو، جس کو تم دنیا میں پھیلانا چاہتے ہوتو تمہاری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ تمہاری حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ تو مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا وہ جواب فوراً ذہن میں آیا جو انہوں نے یہاں یورپ کے ایک پریس نمائندے کو اس کے سوال پر دیا تھا کہ آپ کی تعداد کتنی ہے؟ انہوں نے فرمایا تھا کہ آج سے ترانوے سال پہلے جو ایک تھا وہ اب ایک کروڑ کے قریب ہے تو حساب کر لو کہ آئندہ اتنے عرصے میں ہم کتنے ہوں گے؟ (ماخوذ از دورۂ مغرب 1400ھ صفحہ 211 تا 213)

تو میں نے بھی اُسے کہا کہ جماعت احمدیہ کو اب 123 سال تو گزر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کروڑوں میں ہیں اور وہ وقت بھی انشاء اللہ تعالیٰ قریب ہے جب ہم ایک اثر رکھنے والی جماعت کے طور پر دنیا کو نظر آئیں گے۔ جب میں نے یہ جواب دیااور اس سے کہا کہ لگتا ہے کہ تمہارا سوال یہی تھا تو تسلی ہو گئی؟ اُس نے کہا ہاں میرے ذہن میں یہی تھا۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا اثر دنیا کے مقاصد کے حصول کے لئے نہیں ہو گابلکہ خداتعالیٰ کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے، محبت اور پیار کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ہو گا۔ پس ہمیں کسی طرح بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ مخالفین کے ظلم ہمیں اپنے کام سے ہٹا سکتے ہیں یا ترقی میں روک بن سکتے ہیں۔ ترقی تو ہمیں خدا تعالیٰ دکھا رہا ہے اور نہ صرف ہمیں ترقی کے نظارے دکھا رہا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آئندہ آنے والی زندگی میں اپنے پیاروں کے ساتھ جڑنے والوں اور اُن کی مخالفت کرنے والوں کی حالت کا نقشہ کھینچ کر ہمارے لئے تسلی اور سکینت کے سامان بھی فرما دئیے ہیں۔ جو آیات میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں، وہ اس حالت کا نقشہ کھینچتی ہیں۔ فرمایا قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْماً ضَآلِّیْنَ (سورۃ المؤمنون: 107) وہ یعنی مخالفین یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدنصیبی غالب آ گئی اور ہم ایک گمراہ قوم تھے۔ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظَالِمُوْنَ۔ (سورۃ المؤمنون: 108)

اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال لے، یعنی اس دوزخ سے، جہنم سے ہمیں نکال دے۔ پس اگر ہم پھر ایسا کریں تو یقینا ہم ظلم کرنے والے ہوں گے۔ قَالَ اخْسَئُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْن۔ (سورۃ المؤمنون: 109)

وہ کہے گا، اسی میں تم واپس لوٹ جاؤ۔ وہیں رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ إِنَّہُ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُولُوْنَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۔ (سورۃ المؤمنون: 110) یقینا میرے بندوں میں سے ایک ایسا فریق بھی تھا جو کہا کرتا تھا اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کراور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ فَاتَّخَذْتُمُوْہُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰی اَنْسَوْکُمْ ذِکْرِیْ وَکُنتُمْ مِّنْہُمْ تَضْحَکُونَ۔ (سورۃ المؤمنون: 111) پس تم نے اُنہیں تمسخر کا نشانہ بنا لیا، یہاں تک کہ اُنہوں نے تمہیں میری یاد سے غافل کر دیا۔ اور تم اُن سے ٹھٹھا کرتے رہے۔ اِنِّیْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْا اَنَّہُمْ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ۔ (سورۃ المؤمنون: 112) یقینا آج میں نے اُن کو اُس کی جو وہ صبر کیا کرتے تھے یہ جزا دی ہے کہ یقینا وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ پس یہ دشمنی کرنے والوں کا، زندگی کے فیشن سے دور جا پڑنے والوں کا انجام ہے کہ جب اگلے جہان میں جا کر ان پر حقیقت واضح ہو گی تو پھر کہیں گے کہ ہماری بدبختی ہمیں گھیر کر یہاں تک لے آئی ہے۔ پس اے اللہ! ہمیں ایک دفعہ لوٹا دے۔ ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو ظلم کرنے والے ہوں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ میرا قانون نہیں ہے۔ اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ میرے سامنے سے دور ہو جاؤ اور تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے۔ اسی میں داخل ہو جاؤ۔ اب میں تمہاری کوئی بات، کوئی چیخ و پکار نہیں سنوں گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو چیخ و پکار یا باتیں سننی تھیں وہ اس دنیا میں اُن کی سنتا ہے جو نیکوں کا عمل ہے، نہ کہ ان لوگوں کی جو یہاں ظلم کرنے کے بعد اگلے جہان میں جا کے (چیخ و پکار) کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ ایسے لوگوں سے سلوک کا ذکر فرمایا ہے جو اُس کے فرستادوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ خدا جو ہر وقت اپنے بندے کی معافی مانگنے کے انتظار میں ہے وہ اب انکار کر دے گا کہ اب وقت گزر گیا۔ جب تم یہاں آ گئے تو یہاں اعمال کی جزا ملنی ہے۔ جو اعمال تم اُس دنیا میں کر آئے ہو، جو حرکتیں تم اُس دنیا میں میرے بندوں کے دل چھلنی کر کے کر آئے ہو، میرے آگے جھکنے والے اور میرے دین کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے جو سلوک تم نے روا رکھا، جس طرح وہ میرے کام کو آگے بڑھانا چاہتے تھے تم نے اُن کے کام میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی، نہ صرف دوسروں کو اُن کی باتیں سننے سے روکا بلکہ اُن پر ظلم کی بھی انتہا کی۔ میرے نام کا کلمہ پڑھنے والوں کو تم نے ہنسی اور تمسخر کا نشانہ بنایابلکہ اُن کے خون سے بھی کھیلتے رہے۔ پس اب معافی کس چیز کی؟ آج تمہاری کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔ جاؤ اور اپنے ٹھکانے جہنم میں جا کر رہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج یقینا میرے وہ بندے جو میرے حکم کے مطابق، میرے وعدے کے مطابق آنے والے فرستادے پر ایمان لائے، وہی اس قابل ہیں کہ اُن پر میں رحم کروں، اُن کی باتیں سنوں، اُن کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دوں۔ دنیا میں اُن پر کئے گئے ظلموں کی جزا اُن پر پیار کی نظر ڈال کردوں۔ اس دنیا میں اُن کی جزا کئی گنا بڑھا کر دوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے وہ لوگو! جو میرے بندوں پر ظلم کرتے رہے، ان پر ظلموں اور ان پر تمسخر نے تمہیں اس حد تک اندھا کر دیا کہ تم میری ذات سے بھی غافل ہو گئے۔ میرے اس حکم کو بھول گئے کہ عمداً مومنوں کی دل آزاری کرنا اور اُن کا قتل کرنا تمہیں جہنم کی آگ میں لے جائے گا۔ تو اپنے اس عہد کو بھول گئے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرو گے۔ تم نے یہ عہد کیا ہے لیکن تم بھول گئے۔ پس جب تم خدا تعالیٰ کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہو، اُس کی یاد سے غافل ہو گئے ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے لگ گئے ہو تو میرا اب تمہارے سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ تم نے مظلوموں کی جائیدادوں کو لوٹا، اُنہیں آگیں لگائیں، اُن کی جائیدادوں پر قبضے کئے۔ اُن کے کاروباروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اگر مشترکہ کاروبار تھے تو اُن کے پیسے کھا گئے۔ غرض جرموں کی ایک لمبی فہرست ہے جو تم کرتے رہے۔ پس اب یہ جہنم کی سزا ہی تمہارا مقدّر ہے۔ یہ قرآنِ کریم کہہ رہا ہے۔ کسی قسم کی نرمی اور معافی کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرو اور پھر ایمان لانے والوں اور رحم اور بخشش مانگنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یقینا آج تمہارے صبر اور استقلال اور ایمان میں مضبوطی اور میرے سے تعلق کی وجہ سے، میرے آگے جھکنے کی وجہ سے، میرا عبد بننے کی وجہ سے تم اُن لوگوں میں شمار کئے جاتے ہو جو کامیاب لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے مورد بننے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں۔ پس ان آیات کی رو سے یہ مومن اور غیر مومن کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کا رحم اور بخشش حاصل کرنے والے ہیں۔ ہماری ہر قسم کی کوتاہیوں اور کمیوں کی پردہ پوشی فرمائے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ رہے اور ’’فَائِزُوْن‘‘ میں ہمارا شمار ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 15؍ مارچ 2013ء شہ سرخیاں

    قرآنِ کریم نے متعدد جگہ جو دعا کے مضمون پر کھل کر روشنی ڈالی ہے اس کو ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم دعا کی حکمت اور فلاسفی اور دعا کرنے کے طریق کو سمجھ کر دعا کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اور نہ صرف دعا کی طرف توجہ کرنے والے ہوں بلکہ نتیجہ خیز دعاؤں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے اگر تعلق جوڑنا ہے، اپنی نیک خواہشات کی تکمیل کروانی ہے، دشمن کی ناکامی کے نظارے دیکھنے ہیں تو ہمیں عابد بننے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔

    ہمیں دشمن کے شور و فغاں میں بڑھنے، بیہودگیوں میں بڑھنے کے بعد یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا سبق ملا ہے۔ پس ہمیں اس سبق کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔

    اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کی اہانت کرنے والے ہمیشہ ہی تباہ و برباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بھی اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو جس طرح لیکھو پر دعا کی تلوار چلی تھی، ان پر بھی اللہ تعالیٰ کے اِذن سے چلے گی۔ پس اپنے دکھ، اپنے درد، اپنی چیخیں خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ایسے شریروں کو عبرت کا نشان بنائے۔

    ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر صبر اور دعا کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔

    قرآن مجید کی تعلیمات اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے دعاؤں کی حقیقت اور فلاسفی اور موجودہ حالات میں خاص طور پر دعاؤں کی پُر اثر تحریک۔

    فرمودہ مؤرخہ 15؍مارچ 2013ء بمطابق 15؍ امان 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور