ہسپانوی افراد کو اسلام کا پیغام

خطبہ جمعہ 10؍ مئی 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ احمدیت نے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا پر غالب آنا ہے۔ احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ اصل میں حقیقی اسلام ہی احمدیت ہے یا احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ ہمارے مخالفین چاہے جتنا مرضی شور مچاتے رہیں کہ احمدی مسلمان نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہر آن ہمیں من حیث الجماعت یہ تسلی دلاتی رہتی ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم اگر کہیں مل سکتی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے مل سکتی ہے۔ اُس امام الزمان سے مل سکتی ہے، اُس مسیح موعود اور مہدی معہود سے مل سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ یا جس کے ذریعہ سے اسلام کا احیائے نَو ہونا ہے۔ پس چاہے اسلامی ممالک ہیں یا غیر اسلامی دنیا ہے، حقیقی اسلام کی تعلیم اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا کو دینا اب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ذریعہ ہی مقدر فرما دیا ہے۔ آج نہیں تو کل دنیا جان لے گی کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقی مسلمان ہے اور حقیقت میں اسلام کی نمائندہ جماعت ہے۔ دو دن پہلے لاس اینجلس ٹائم کی نمائندہ آئی تھیں، انہوں نے سوال کیا کہ تم تو معمولی تعداد میں ہو، امریکہ میں اتنے لوگ جانتے بھی نہیں، تو کس طرح یہ امن کا پیغام جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ حقیقی اسلام کا پیغام ہے، ملک میں پھیلا سکتے ہو۔ تو میں نے اُنہیں یہی کہا تھا کہ امریکہ کا سوال نہیں، امریکہ میں بھی اور تمام دنیا میں بھی ہم ایک دن انشاء اللہ تعالیٰ تمہارے یا تمہاری نسلوں کے دل جیت کر اسلام کی آغوش میں لائیں گے۔ میرا خیال تھا کہ اس پر شاید وہ کسی اور رنگ میں کچھ نہ لکھ دیں لیکن آج ابھی جمعہ پر آنے سے پہلے میں نے جب یہ رپورٹ پڑھی، انٹرویو پڑھا ہے، اُس میں انہوں نے تقریباً صحیح رنگ میں ہی ساری باتیں بیان کی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر جس طرح ہمیشہ انبیاء کی تائید و نصرت فرماتی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی اُس کے یہی وعدے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہر آن ہمیں اس کے نظارے دکھا رہی ہے اور ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی الفاظ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22)۔ کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے‘‘ کو جس طرح ہمیشہ سچ کر دکھایا ہے۔ آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے، آپ کو بھی انہی الفاظ میں تسلی دلائی ہے اور الہام فرمایا ہے تو یہ بھی ضرور اللہ تعالیٰ سچ کر کے دکھائے گا۔ کیونکہ آپ ہی اس زمانے میں قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے ہیں۔ پس یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے دین کو پھیلانے کے لئے اپنے مقرر کردہ فرستادہ کی تائید و نصرت کے سامان نہ فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’خدا نے ابتداء سے ہی لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنّت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اُس نبی کریم خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں، اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا‘‘۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ380-381)

آپ فرماتے ہیں: ’’کیا یہ لوگ اپنی رُوگردانی سے خدا کے سچے ارادہ کو روک دیں گے جو ابتداء سے تمام نبی اس پر گواہی دیتے آئے ہیں۔ نہیں، بلکہ خدا کی یہ پیشگوئی عنقریب سچی ہونے والی ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22)۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ8)

پس مجھے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے رتّی بھر بھی شک نہیں ہے اور نہ ہی کسی سچے احمدی کو ہوسکتا ہے کہ نعوذ باللہ جماعت کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات سے محروم رہ جائے گی، یا یہ غلبہ نہیں ہو گا۔ یہاں ہر احمدی پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ غلبہ کیا ہے۔ کیا حکومتوں پر قبضہ کرنا یہ غلبہ ہے؟ یا ہر ملک میں احمدیوں کی اکثریت ہو جانا یہ غلبہ ہے؟ یہ بھی غلبہ کی ایک قسم ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ غلبہ دو طرح سے اور دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک حصہ اُس کا نبی کے زمانے میں ہوتا ہے اور نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اور دوسرا نبی کے بعد جو نبی کی تعلیم پھیلانے کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے، لیکن ہوتانبی کے بعد میں ہے۔ اس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے کہ:

’’خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔‘‘ یہ ایک غلبہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو عطا فرماتا ہے۔ فرمایاکہ: ’’اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں، اُس کی تخمریزی اُنہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ304)

پس نبی کے ذریعہ سے غلبہ یہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود کا دنیا کو پتہ چل جاتا ہے کہ خدا ہے۔ دنیا کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ دلائل اور برہان جو نبی دے رہا ہے، خدا تعالیٰ کی خاص تائید سے اُسے ملے ہیں۔ نبی کے علم و عرفان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پھر ایسے نشانات اُس کی تائید میں آتے ہیں جن سے سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ بیشک انبیاء کے مخالفین ان کی مخالفتوں میں بڑھ جائیں لیکن دلائل اور نشانات کو جھٹلا نہیں سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین جو ضدی تھے، اپنے باپ دادا کے طرزِ عمل پر زندگی گزارنا چاہتے تھے، اُن کے پاس دلیل تو کوئی نہیں تھی۔ بس ضد تھی اور ہٹ دھرمی تھی۔ اسی طرح برہان و دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں آپ کے مخالفین کے پاس نہ آپ کے وقت میں کوئی ردّ تھا، دلیل تھی اور نہ آج ہے۔ اسی طرح نشانات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں چاند اور سورج کے گرہن کا نشان ہے۔ پہلے نام نہاد علماء اس کا مطالبہ کرتے تھے کہ مہدی اور مسیح کے آنے کی نشانی چاند اور سورج گرہن ہے۔ جب یہ ظاہر ہو گیا تو تا ویلیں کرنی شروع کر دیں۔ پھر زلزلوں کے نشانات ہیں۔ اس کے علاوہ بیشمار نشانات ہیں۔ جنہوں نے نہیں ماننا، وہ نہیں مانتے۔ لیکن سعید فطرت لوگ جماعت میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو تخمریزی اور بیج نبی نے ڈالنا ہوتا ہے وہ ڈال دیتا ہے۔ جو سچی تعلیم دنیا کو بتانی ہو وہ بتا دیتا ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنا اثر دکھاتی رہتی ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہوا۔ اور آپ کا یہ پھینکا ہوا بیج اپنے وقت پر لہلہاتی ہوئی فصل بن کر ظاہر ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔

پس یہ غلبہ کی ایک قسم ہے۔ بیشک آپ کی زندگی میں چند لاکھ لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، لیکن یہ غلبہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بے حساب نشانات آپ کے حق میں ظاہر ہوئے اور علمی اور روحانی لحاظ سے بھی آپ کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔

پھر غلبہ کا دوسرا حصہ ہے، جیسا کہ میں نے کہا، وہ نبی کی وفات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اصل میں تو یہ بھی نبی کے دلائل اور خدا تعالیٰ کے نشانات کے ظاہر ہونے کا تسلسل ہی ہے لیکن یہ نبی کی زندگی کے بعد ہوتا ہے۔ گو دشمن سمجھتا ہے کہ نبی فوت ہو گیا کہ جس شخص نے دعویٰ کیا تھا وہ فوت ہو گیا۔ جس نے جماعت بنائی تھی وہ اس دنیا سے گزر گیا۔ اب ہم دوبارہ اُس کی بنائی ہوئی جماعت کو زیر کر لیں گے، اپنے میں شامل کر لیں گے۔ اس جماعت میں شامل لوگوں کو مفسدانہ خیالات پھیلا کر جماعت سے دور کر لیں گے کیونکہ اب ان کو سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ جو نبی کو عارضی غلبہ ملا تھا وہ اب اپنے خاتمے کو پہنچ جائے گا۔ یہ دشمنوں کی سوچ ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین نے بھی یہی سمجھا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پہلے انبیاء کی طرح میرا غلبہ بھی وہ غلبہ ہو گا اور خدا تعالیٰ کے جو وعدے ہیں، جب تک وہ پورے نہیں ہوتے، وہ غلبہ ہوتا چلا جائے گا۔

پس یہ آپ نے فرمایا کہ میں فوت بھی ہو جاؤں تو پریشان نہ ہونا۔ میں نے جو بیج ڈالا ہے، جو تخم ریزی کی ہے اُس نے تناور پھل دار درختوں کا ایک سلسلہ بننا ہے جو دوسری قدرت یعنی خلافت کے ذریعہ سے قائم رہے گا تا کہ غلبہ کا وعدہ پورا ہوتا رہے۔ پس غلبہ کا ایک حصہ جس طرح انبیاء کی زندگی میں اور ایک حصہ اُن کی زندگی کے بعد پورا ہوتا ہے، اسی طرح جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود سے کئے گئے وعدے کے دوسرے حصہ کو بھی پورا ہوتا دیکھ رہی ہے۔ بیشک جماعت کی ترقی اور غلبہ تو ہونا ہی ہے، جیسا کہ پہلے مَیں نے بتایا، عددی لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے بھی ہو گا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ بھی ہو رہا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری ذمہ داری بھی بتائی ہے کہ کس طرح ہم اس غلبہ کا حصہ نسلاً بعدنسلٍ بن سکتے ہیں۔ اور یہ ذمہ داریاں وہی ہیں جو قرآنِ کریم نے ہمیں بتائی ہیں کہ تقویٰ پر قدم مارو۔ اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کے جائزے لو اس پیغام کو اور اس مشن کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے، پورا کرو۔ آپ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں دنیا میں خدائے واحد کی حکومت قائم کرنے آئے تھے۔ دنیا کو شرک سے پاک کرنے آئے تھے۔

آپؑ فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ306-307)

پس دنیا کو توحید پر قائم کرنے اور دینِ واحد پر جمع کرنے کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے وہ ایک تو تبلیغ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاناہے۔ دوسرے اپنے اخلاق کو اعلیٰ سطح پر لے جانا ہے تیسرے دعاؤں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے مدد چاہنا ہے۔ پس آج ہر احمدی کو، ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ اُس مقصد کے حصول کا ذریعہ بن سکے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھیجے گئے تھے۔

بیشک نشانات و براہین خدا تعالیٰ نے عطا فرمائے اور آج تک ان نشانات کے ذریعہ ہی ہم احمدیت کی ترقی دیکھ رہے ہیں۔ اگر اپنی کوشش دیکھیں تو ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں اُن انعامات اور فضلوں کا جو اللہ تعالیٰ جماعت پر فرما رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری ذمہ داری بتائی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرف توجہ نہیں کرے گا تو اُن فضلوں کا وارث نہیں بن سکے گا جو آپ علیہ السلام کی جماعت کا فعّال حصہ بننے سے وابستہ ہیں۔ پس ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بیشک پھل ہماری کوشش سے نہیں لگ رہے، انعامات ہماری کوشش سے نہیں مل رہے۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔ اُس خدا کے فضل ہیں جو اپنے پیاروں کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے، جو جب کسی کو اپنے اِذنِ خاص سے کھڑا کرتا ہے تو اُس کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو حیرت انگیز طور پر پورا کر کے دشمن کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی جماعت ترقی کی نئی سے نئی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا، کوشش کا ہمیں بہر حال حکم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کوشش کرنے والوں کی خصوصیات کا جو قرآنِ کریم میں متعدد جگہ ذکر فرمایا ہے، اُن کا ایک جگہ اس طرح ذکر فرمایا کہ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (حٰم السجدۃ: 34)۔ اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ باتیں ہیں، یعنی دعوتِ الی اللہ یا تبلیغ، اپنے اعمال کی طرف نگاہ رکھنا، نیک اعمال بجا لانا، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل فرمانبرداری کرنا، اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق ان حقوق کی ادائیگی کرنا۔ کیونکہ تبلیغ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہوئے اُن کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق نہ ڈھالا جائے۔ اور پھر ان کی ادائیگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو جب تک مدّ نظر نہ رکھا جائے۔ جب ایک احمدی اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں یہ عہد کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ تو پھر اس کا مکمل پاس کرنا بھی ضروری ہے۔ تبھی ہمارے نمونے دیکھتے ہوئے دنیا ہماری طرف متوجہ ہو گی۔ جب خلفاء دنیا کو یہ چیلنج دیتے رہے یا اب مَیں جب دنیا کو یہ کہتا ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے پیغام کو بغیر تھکے دنیا تک پہنچاتے چلے جائیں گے اور ایک دن دنیا کا دل جیت کر اُن کو اسلام کی آغوش میں لے آئیں گے۔ تو اس حسنِ ظن کے ساتھ یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اعمال کی خوبصورتی اور خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرتے ہوئے افرادِ جماعت کی روحانی ترقی کے معیار نہ صرف قائم رہیں گے بلکہ بہتر سے بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو، آپ علیہ السلام کے مشن کو، ایک لگن کے ساتھ آگے چلاتے چلے جائیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہو جو دین کا علم حاصل کرنے والا ہو۔ تفقّہ فی الدین رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ہم قوموں کو اور دنیا کو پہنچاتا چلا جائے، لیکن مومنین کوبھی حکم ہے دعوتِ الی اللہ کرو۔ اگر ہمارے پاس مبلغین کی فی الحال کمی ہے تو ہم انتظار نہیں کر سکتے کہ وہ تیار ہوں گے تو پھر تبلیغ کے کام آگے بڑھیں گے، تبلیغ کے کاموں کو آگے بڑھاتے چلے جانے کے لئے ہمیں ہر جگہ سے ایسے گروہ نکالنے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کے پیغام کو آگے بڑھاتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ملک میں افرادِ جماعت کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تبلیغ کا شوق بھی رکھتا ہے اور اس کے لئے وقت بھی دیتا ہے۔ امریکہ میں بھی ایسے لوگ ہیں، باوجود اس کے کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں معاشی حالات کی سختی کی وجہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے دنیا کمانے کی طرف رجحان زیادہ ہے۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک گروہ یہاں بھی ایسا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد پر ایسے احسن رنگ میں عمل کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور اُن کے لئے دعائیں بھی نکلتی ہیں۔ بعض ایسے لوگ مجھے ملے ہیں جو چھوٹی موٹی دکانداری کرتے ہیں، سٹال لگاتے ہیں لیکن اس سٹال کے ساتھ بھی انہوں نے تبلیغ جاری رکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے سٹالوں کو بھی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ پہلے اُن کو شکوہ تھا کہ لٹریچر نہیں ملتا۔ اب کہتے ہیں کہ اس علاقے کے لئے سپینش زبان میں لٹریچر تو ہمیں مل جاتا ہے لیکن اس میدان میں وسعت آنے سے جو لٹریچر کے ذریعہ سے آ رہی ہے، اب اُن کا مطالبہ یہ ہے اور اس کے لئے اُن کے دل میں تڑپ ہے اور لگن ہے کہ ہمیں جلد از جلد سپینش بولنے اور دینی علم رکھنے والے مبلغین بھی چاہئیں۔ جماعت اپنے وسائل کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ کوشش کر رہی ہے کہ مبلغ دے لیکن اگر اتنی ڈیمانڈ ہے تو جماعتوں کو بھی اپنے بچوں اور نوجوانوں میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو دینی علم سیکھنے کے لئے جامعہ احمدیہ میں جانے کے لئے پیش کریں تا کہ یہاں کے مقامی ماحول اور زبان کے لحاظ سے اُن کو پیغام پہنچانے والے مہیا ہو سکیں۔ یہ جذبہ اور تبلیغ کا جوش یہاں کے صرف پرانے احمدیوں اور بڑی عمر کے لوگوں میں نہیں ہے بلکہ بعض نوجوانوں میں بھی مَیں نے دیکھا ہے۔ بلکہ یہاں ایک نو احمدی ہیں جو شاید بے پوائنٹ (Bay Point) کے علاقے میں رہتے ہیں، مجھے ملنے آئے تو بڑے جوشیلے تھے کہ کس طرح ان لوگوں کوجو مقامی سپینش اور یجن (Origin) کے ہیں احمدیت اور حقیقی اسلام پہنچایا جائے اور جلد سے جلد پہنچایا جائے۔ کہنے لگے کہ تبلیغ کرتا ہوں مجھے بائبل تو چالیس فیصد یاد ہے اور اب میں قرآنِ کریم کے دلائل بھی یاد کر رہا ہوں۔ اور یہ اُن لوگوں کے لئے بھی پیغام ہے جو پرانے احمدی ہیں اور اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ بقول اُن نواحمدی کے اب عیسائیت سے لوگ دور جا رہے ہیں لیکن مذہب سے نہیں، خدا تعالیٰ سے نہیں۔ اُن کو خدا کی تلاش ہے اس لئے اس خلاء کو پورا کرنے کے لئے ہمیں آگے آنا چاہئے۔ اُن کو سچے مذہب سے رُوشناس کروانے کے لئے، اُنہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ تبلیغ کی ضرورت ہے۔ بہر حال اُن کے جوش کو دیکھتے ہوئے اور خود مجھے بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی تھی مَیں نے مشنری انچارج صاحب سے بھی اس بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے کہ یہاں کے لئے سکیم بنائیں۔ امیر صاحب کو بھی کہا ہے۔ لیکن اگر ذیلی تنظیمیں بھی جماعتی نظام کے ساتھ مل کر ایک کوشش کریں اور وقفِ عارضی کی سکیمیں بنائیں اور جن علاقوں میں میدان سازگار ہیں وہاں زیادہ کام کریں تو ایک دفعہ کم از کم اس علاقے کے ہسپانوی لوگوں میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا تعارف ہو جائے گا اور ہمیں یہ کروانا بہت ضروری ہے۔ مطالبات تو اب اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ فکر نہیں کہ تعارف کس طرح کروایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے راستے کھول دئیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ نہ صرف امریکہ میں بلکہ ساؤتھ امریکہ کے ملکوں میں گوئٹے مالا کے ہمارے احمدی ہیں، یہاں آئے ہوئے ہیں، بڑے پُرجوش داعی الی اللہ ہیں۔ کہنے لگے کہ ہمیں مبلغین دیں اور لٹریچر دیں جو مقامی سپینش زبان کے مطابق ہو۔ کیونکہ ان کی سپینش اور سپین میں بولی جانے والی سپینش میں بعض جگہ بعض الفاظ میں کافی فرق ہے۔ اور ہمارا لٹریچر عموماً سپین میں تیار ہوتا ہے۔ تو جب میں نے اُنہیں کہا کہ سپین پر توجہ ہے، وہاں کا لٹریچر فی الحال استعمال کریں تو کہنے لگے کہ آپ کو وہاں کی فکر ہے جہاں صرف چالیس ملین لوگ آباد ہیں اور یہاں چار سو ملین سپینش بولنے والے ہیں ان کی آپ کو فکر نہیں ہے۔ تو یہ ہیں وہ حقیقی مددگار اور داعین ِالی اللہ جو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما رہا ہے۔

پس اب لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر زمینیں بھی ہموار کرتی چلی جا رہی ہے۔ امریکہ میں بھی اور ساتھ کے ہمسایہ ملکوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہوا چلا دی ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ کیلیفورنیا میں تو اب ہسپانوی لوگوں کی اکثریت ہو چکی ہے جن میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ مذہب کی طرف رجحان بھی ہے، لیکن اب ان کو سچے مذہب کی تلاش ہے۔ پس اس علاقے کے لئے ایک خاص پروگرام بننا چاہئے اور یہاں رہنے والوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ فی الحال جو لٹریچر مہیا ہے اُسی کو استعمال کریں، اُسی سے استفادہ کریں اور جلد از جلد یہاں کی زبان کے مطابق بھی لٹریچر کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ مجھے اپنی اس سوچ کو کہ یہاں احمدیت کے لئے میدان وسیع ہے اُس وقت بھی مزید تقویت ملی جب ہمارے مبلغ اظہر حنیف صاحب کا ایک خط یہاں آنے سے کچھ دن پہلے میرے سامنے آیا جس میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک رؤیا کے بارے میں لکھا تھا، جس کو انہوں نے غالباً اپنے کسی خطبے میں بیان کیا تھا۔ اس وقت وہ خط تو میرے سامنے نہیں ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے رؤیا یہ تھی۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو احمدیوں کا ہے اور وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کہتے ہیں کہ مجھے یہ لگا کہ وہ علاقہ ایسا ہے جیسا لاس اینجلس کا علاقہ ہے۔ پس اگر ہم کوشش کریں۔ ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں لگ جائے، حقیقی انقلاب اُس وقت آتا ہے، یا جلد اُس کے آثار شروع ہوتے ہیں جب لوگ بھی اُس کے لئے کوشش کریں۔ تویہ تو یقیناً الٰہی تقدیر ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کئے گئے غلبہ کے وعدے کو پورا فرمانا ہے لیکن اگر ہم اس وعدے کے پورا ہونے کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر یہاں رہنے والے ہر احمدی کو اپنی سوچوں کا دھارا اُس کے مطابق کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ بعض لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں اور اُن کی سوچ صرف اپنی کم ہمتی کی وجہ سے ہے کہ یہ دنیادار لوگ ہیں، ان کو دین سے کوئی غرض نہیں۔ یہاں تو دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہے۔ یہاں تو دنیا کی ہاؤہُو بہت ہے۔ ٹھیک ہے یہ سب کچھ ہے لیکن ایک بہت بڑا طبقہ ہمارا انتظار بھی کر رہا ہے۔ اور جتنا میں سوچتا ہوں میرے دل میں یہ گڑھتا جا رہا ہے کہ بعیدنہیں کہ امریکہ میں احمدیت کا انقلاب اس علاقے سے ہی آئے۔

پس ہمیں اپنی کمزوریوں کو ان کے کندھے پر رکھ کر بہانے نہیں تلاش کرنے چاہئیں۔ پس جہاں جماعتی نظام کو بھی ایک خاص پروگرام کے ذریعہ کوشش کرنی چاہئے اور اگر بنایا ہوا ہے تو پھر وہاں ذیلی تنظیموں کو بھی اُس پر عمل درآمدکرنا چاہئے۔ لیکن یہاں رہنے والے ہر احمدی اور صرف اس اسٹیٹ کے رہنے والے احمدی نہیں بلکہ پورے ملک میں رہنے والے احمدی کی یہ ذمہ داری بھی ہے اور اُس کا عہدِ بیعت یہ ذمہ داری اُس پر ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والوں کی ذمہ داری جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہے، یعنی اعمالِ صالحہ بجا لانا اور کامل فرمانبرداری کا اظہار، اُس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اس کے حصول کی کوشش کریں اور یہ کس طرح ہو گا؟ اس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف دیکھنا ہو گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ صرف یہ کہہ کرکہ ہم تو دنیا دار ہیں، ہم تو کمزور ہیں، ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے بیعت کر لی اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جواب دہی سے بچ نہیں سکتے۔ بیشک ہر احمدی مسلمان دوسرے مسلمانوں کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر بہتر حالت میں ہے اور نبی کے انکار کا جو گناہ ہے اُس سے بچا ہوا ہے۔ لیکن حقیقی مومن وہ ہے جو ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ اَسْلَمْنَا سے نکل کر ایمان کی ترقی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ ظاہری فرمانبرداری سے نکل کر کامل فرمانبرداری کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کے خاندانوں میں احمدیت اُن کے باپ دادا کے زمانے سے ہے۔ اُن بزرگوں نے اَسْلَمْنَا سے بہت آگے نکل کر اٰمَنَّا کے نظارے دکھائے، حیرت انگیز قربانیاں کیں۔ پس اُن کی قربانیوں اور اُن کی خواہشات کا احترام کرنا بھی اُن کی اولادوں پر فرض ہے۔ جب اُن کی خواہشات کا احترام ہو گا تو پھر اُن کی دعاؤں کے بھی آپ وارث بنیں گے۔ پس یہاں پرانے رہنے والے اس لحاظ سے بھی اپنے جائزے لیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کا حق بھی ادا کرنا ہے۔

اس کے علاوہ یہاں افرادِ جماعت کا ایک ایسا طبقہ بھی آیا ہے جو گزشتہ چند سالوں سے یہاں آنا شروع ہوا ہے، صرف اس لئے کہ اُن کے اپنے ملک میں اُن کے لئے حالات تنگ کر دئیے گئے۔ یہاں اُن کو ان مغربی ممالک میں یا مغربی ممالک کی حکومتیں جس میں امریکہ بھی شامل ہے صرف اس لئے شہری حقوق دے رہی ہیں اور اپنے آپ میں جذب کر رہی ہیں کہ بحیثیت احمدی اُنہیں اُن کے اپنے ملک میں شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور نہ صرف شہری حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے بلکہ ظلموں کی چکّی میں پیسا جا رہا ہے۔ پس یہاں آپ کا آنا جماعت احمدیہ کا فرد ہونے کی وجہ سے ہے۔ اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک عملی احمدی ہونے کا نمونہ بھی دکھائیں۔ یہاں میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ یہاں جو اسائلم سیکر ہیں یا ریفیوجی بن کر آئے ہوئے ہیں، کام نہ ہونے کی وجہ سے پریشان بھی رہتے ہیں، کام کی تلاش تو وہ کریں لیکن جو بھی فارغ وقت ہے اُس میں لٹریچر لے کر باہر نکل جائیں اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں۔ گھر بیٹھنے سے تو مزید ڈپریشن ہوتا ہے، اُس سے بھی بچ جائیں گے، اُس سے جان چھوٹے گی اور بعیدنہیں کہ اِس برکت سے اللہ تعالیٰ حالات بھی بہتر کر دے اور انشاء اللہ کر دے گا۔

بہر حال اب میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کس قسم کی جماعت دیکھنا چاہتے ہیں یا ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو آپ نے یہ بیان فرمائی کہ یہ سلسلہ اس لئے قائم ہوا ہے تا اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ652ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

آپ نے فرمایا کہ قرآنِ شریف سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان، تدبر اور غور سے بڑھتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ652ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھانے کے لئے سب سے پہلے تو اُس کی کتاب قرآنِ کریم کو باقاعدہ پڑھنا چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے۔ جتنا وسیع لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اُس کو نہ پڑھ کر ہم اپنے آپ کو محروم کر رہے ہیں اور یہ محرومی بھی ایمان میں کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ پس اس طرف بھی ہمیں توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ ایمان نشانات سے بھی بڑھتا ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 4صفحہ652ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نشان کے طور پر یہ بھی الہام فرمایا تھا کہ تیرے پاس دور دراز سے اور کثرت سے لوگ آئیں گے۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ نمبر39ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

اور یہ نظارے ہم نے آپ کی زندگی میں دیکھے اور تاریخ نے اس کو محفوظ کیا۔ اور یہی نہیں بلکہ ہر سال، ہر ملک کے جلسہ میں یہ نظارے ہم دیکھتے ہیں اور آج بھی یہ نظارہ نظر آ رہا ہے کہ ملک کے طول و عرض سے صرف جمعہ پڑھنے کے لئے سفری صعوبتیں برداشت کر کے اور خرچ کر کے لوگ آئے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ خلیفۂ وقت یہاں آیا ہوا ہے۔ اور یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کی وجہ سے ہے جو اُن کا خلافت سے تعلق ہے۔ پس اگر دیکھنے والی آنکھ یہ دیکھے اور ہر دل اور دماغ جو غور کرنے والا اور تدبر کرنے والا ہے اس بات کو اپنے سامنے رکھے تو اللہ تعالیٰ کی ہستی اور جماعت کی سچائی پر ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

پھر آپ نے ایک سچے احمدی کی یہ نشانی بتائی کہ آپ کی بیعت میں آنے کے بعد اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ402ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہم میں سے ہر ایک کو جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت نے ہم میں کس قدر ترقی کی ہے۔ کیا وہ اعمالِ صالحہ جن کے بجا لانے کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں حکم دیا ہے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ہم بجا لا رہے ہیں؟ یا اُنہیں تلاش کرکے بجا لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ابھی ہم اَسْلَمْنَا کے دائرے میں ہی پھر رہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ایمان میں ترقی کریں، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم ایمانوں میں مضبوط ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی کہ ہم صراطِ مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں۔ قرآنِ شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں‘‘۔ یعنی عمل، ہماری عملی حالتیں ایسی ہو جائیں کہ یہ ثابت ہو کہ ہم ان باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔ فرمایا ’’نہ صرف قال سے‘‘۔ صرف زبانی باتیں نہ ہوں۔ ’’اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے۔ اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو گا۔

لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اُس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لئے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں، کسی مخالفت کی حاجت نہیں۔ وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 146 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’خوب یاد رکھو کہ اگر تقویٰ اختیار نہ کرو گے اور اُس نیکی سے جسے خدا چاہتا ہے کثیر حصہ نہ لوگے تو اللہ تعالیٰ سب سے اوّل تم ہی کو ہلاک کرے گا۔ کیونکہ تم نے ایک سچائی کو مانا ہے اور پھر عملی طور سے اُس کے منکر ہوتے ہو۔ اس بات پر ہرگز بھروسہ نہ کرو اور مغرور مت ہو کہ بیعت کر لی ہے۔ جب تک پورا تقویٰ اختیار نہ کرو گے، ہرگز نہ بچو گے۔ خدا تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں۔ نہ اُس کو کسی کی رعایت منظور ہے۔ جو ہمارے مخالف ہیں وہ بھی اُسی کی پیدائش ہیں اور تم بھی اُسی کی مخلوق ہو۔ صرف اعتقادی بات ہرگز کام نہ آوے گی جب تک تمہارا قول اور فعل ایک نہ ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 112ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ جماعت کو تقویٰ میں بڑھنے، اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دینے، دعاؤں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’نرا بدیوں سے بچنا کوئی کمال نہیں۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسی پر بس نہ کرے۔ نہیں بلکہ اُنہیں دونو کمال حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس کے لئے مجاہدہ اور دعا سے کام لیں۔ یعنی بدیوں سے بچیں اور نیکیاں کریں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 663 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

انسان دوسرے انسان پر اپنے عمل سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ تمہارا قول و فعل ایک ہونا چاہئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دعوتِ الی اللہ کرنے والوں کو نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو۔ یہ میری نصیحت ہے، اس کو یاد رکھو۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 185 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس دنیا پر سلسلہ کی سچائی اُس وقت ثابت ہو گی جب ہمارے اندر و باہر ایک ہو جائیں گے۔ ہمارا قول و فعل ایک ہو گا۔ جب ہم نئے آنے والوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم بتا کر اپنے میں شامل کریں گے۔ پھر رنگ، نسل، قوم کے فرق کو مٹا کر صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ہمیں ہر ایک کو بھائیوں کی طرح گلے سے لگانا ہو گا۔ اپنے عزیزوں کی طرح اُن سے سلوک کرنا ہو گا۔ بہت سے افریقن امیریکن گزشتہ زمانوں میں احمدی ہوئے، جن کی آئندہ نسلیں جماعت سے دور ہو گئیں اور جو وجوہات ہیں اُن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے جو شکوہ رہتا ہے، جب اکثر میں نے پوچھا ہے کہ پاکستانیوں احمدیوں کی اکثریت نے اُنہیں اپنے اندر صحیح جذب نہیں کیا۔ اسلام کی تعلیم تو بتائی لیکن اپنے عمل اُس کے مطابق نہیں رکھے۔ گو یہ دُور ہٹنے والوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایمان کے بجائے لوگوں کی طرف توجہ دیتے رہے، اشخاص کو دیکھتے رہے۔ لیکن اُن کی ٹھوکر کا موجب بننے والے بھی اس بدقسمتی کا حصہ بن گئے۔ پس اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک آخری اقتباس مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لئے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف…‘‘۔ فرمایا: ’’مِنجُملہ اُس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے جو فرمایا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ (آل عمران 56)۔‘‘ اور جو تیرے پیرو ہیں، اُنہیں اُن لوگوں پر جو جو منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔ فرمایا: ’’یہ توسچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہو سکتا۔ جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتامتبعین میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا۔ ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے، اُس وقت تک اِتّباع کا لفظ بھی صادق نہیں آتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لئے مقدّر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتّباع کرنے والی ہو۔ اس سے مجھے تسلّی ملتی ہے اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 596 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کامل پیروی کرنے والی جماعت بنانے کی فکر تھی اور اس غم سے آپ بے چین ہوتے تھے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ قیامت تک ایسے لوگ پیدا ہوتے چلے جانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرما دیا ہے۔ اس لئے مجھے امید بھی ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوایسے کامل پیروی کرنے والے مخلصین عطا فرماتا رہا اور فرما بھی رہا ہے۔ لیکن ہمیں اپنی فکر ضرور کرنی چاہئے کہ ہم میں سے ہر ایک وہ معیار حاصل کرنے والا ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ یہ معیار حاصل کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم احمدیت کے غلبہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں۔

(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 31 مئی 2013ء تا 6 جون 2013ء جلد 20 شمارہ 22 صفحہ 5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ مئی 2013ء شہ سرخیاں

    فرمودہ مورخہ 10؍ مئی 2013ء بمطابق 10؍ہجرت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الحمید۔ چینو۔ لاس اینجلس(کیلیفورنیا۔ امریکہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور