اللہ کے بندوں کے وصف

خطبہ جمعہ 18؍ اکتوبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا  (بنی اسرائیل: 54)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: اور تُو میرے بندوں سے کہہ دے کہ ایسی بات کیا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ یقیناً شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان بے شک انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے۔

جیسا کہ آپ نے ترجمہ سے سن لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بات کہو جو سب سے اچھی ہے۔ پہلی بات یہ ہے۔ اور اچھی بات وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ’’عِبَادِیْ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ ’’میرے بندے۔‘‘ ہمیں اس بات کا پابند کردیا کہ جو میرے بندے ہیں یا میرے بندے بننے کی تلاش میں ہیں ان کی اب اپنی مرضی نہیں رہی۔ ان کو اپنی مرضی چھوڑ کر میری مرضی کی تلاش کرنی چاہئے۔ اور اچھائیوں اور ان اچھی باتوں کی تلاش کرنی چاہئے جو مجھے یعنی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃالبقرۃ میں یوں فرمائی ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرۃ: 187) اور اے رسول! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ میں ان کے پاس ہی ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ سو چاہئے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا ہدایت پا جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’عِبَادِیْ‘‘ یعنی میرے بندے کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے ہیں۔ وہی عِبَادِیْ میں شامل ہیں اور عِبَادِیْ میں شامل ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب ہیں۔ اور وہ جو ایمان نہیں لاتے خدا تعالیٰ سے دور ہیں۔‘‘ (ماخوذ از جنگ مقدس۔ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 146)

پس سچا عِبَادِیْ بننے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہر حکم کو مانیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اور جب یہ کیفیت ہو گی تو ہر قسم کی بھلائیوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ دعائیں قبول ہوں گی۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہی بات کریں، کہا بھی کریں اور کیا بھی کریں جو خدا تعالیٰ کو اچھی لگتی ہے تو پھر لازماً اپنے ایمان کو بڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی ہوگی۔ اپنے عمل اس طرح ڈھالنے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اچھے اور احسن ہیں اور خوبصورت ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم عمل تو کچھ کر رہے ہوں اور باتیں کچھ اور ہوں۔ ہمارے عمل تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہوں لیکن دوسروں کو اُس کے مطابق جو اللہ اور رسول کے حکم ہیں ہم نصیحت کر رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے قول و فعل کے تضاد کو گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ  (الصف: 3)کہ اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 4) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ پس قول و فعل کا تضاد اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے بلکہ گناہ ہے۔ ایک طرف ایمان کا دعویٰ اور دوسری طرف دو رنگی یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کرلو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 42-43۔ مطبوعہ ربوہ)

یعنی سچی گفتگو بھی ہو اور جو گفتگو کررہا ہے اس کا عمل بھی اس کے مطابق ہو، اگر نہیں تو پھر وہ فائدہ نہیں دیتی۔ پس یَقُوْلُ الَّتِیْ ھِیَ اَحـْسَنُ یہ ہے کہ وہ بات کہو جو اَحْسَنُ ہے اور کسی بندے کی تعریف کے مطابق اَحْسَنُ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے مطابق اَحْسَنُ ہے۔ نیکیوں کو پھیلانے والی ہے اور برائیوں سے روکنے والی ہے۔

ہر انسان اپنی پسند کی تعریف کر کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے قول و فعل میں تضادنہیں ہے اس لئے وہ مومن ہو گیا۔ ایک شرابی یہ کہے کہ میں شراب پیتا ہوں اور تم بھی پی لو، جو میں کہتا ہوں وہ کرتا ہوں تو یہ نیکی نہیں ہے اور نہ ہی یہ احسن ہے بلکہ گناہ ہے۔ یہاں اس معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں آزادی کے نام پر کتنی بے حیائیاں کی جاتی ہیں اور کھلے عام کی جاتی ہیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ پراور اخباروں میں ان بے حیائیوں کے اشتہار دیئے جاتے ہیں۔ فیشن شو اور ڈریس شو کے نام پر ننگے لباس دکھائے جاتے ہیں۔ تو بے شک ایسے لوگوں کے قول اور فعل ایک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ مکروہ اور گناہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں یہ۔ پس بعض لوگ اور نوجوان ایسے لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں کہ بڑا کھرا ہے یہ آدمی۔ جو کچھ ظاہر میں ہے وہی اندر بھی ہے دو رنگی نہیں ہے۔ تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہے کہ یہ دو رنگی نہ ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بے حیائیوں کا اشتہار دینا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوری ہے۔ پس اس معاشرے میں رہنے والے نوجوانوں، مردوں، عورتوں کو ایسے ماحول سے بچنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے ہمیشہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ (الفاتحۃ: 6) پر چلنے کی دعا کرنی چاہئے۔ شیطان سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایک مومن سے جو توقعات رکھتا ہے جن کا اُس نے ایک مومن کو حکم دیاہے اُن کی تلاش کرنی چاہئے۔ اُن احسن چیزوں کو تلاش کرنے کی کوشش اور اُس کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے قرب کی نشاندہی فرماتا ہے۔ اپنی رضا کے طریق اُنہیں سکھاتا ہے۔ بندے کی نیکیوں پر خوش ہو کر اس کے عمل اور قول کی یک رنگی کی وجہ سے بندے کو ثواب کا مستحق بناتا ہے۔ ان باتوں کی تلاش کے لئے ایک مومن کو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی چاہئے تاکہ احسن اور غیر احسن کا فرق معلوم ہو، ان کی حقیقت معلوم ہو اور ان لوگوں میں شمار ہو جن کو خدا تعالیٰ نے عِبَادِ یْکہہ کر پکارا ہے۔ ان کی دعاؤں کی قبولیت کی انہیں نوید اور بشارت دی ہے۔ ہم احمدیوں پر تو اس زمانے میں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ یہ عہدکیا ہے کہ ہم اپنے قول اور فعل میں مطابقت رکھیں گے اور ہر وہ کام کریں گے اور اس کے لئے ہر کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک احسن ہے۔ ہمارے قول فعل میں یک رنگی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی احسن باتوں کے لئے ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کریں گے جہاں سینکڑوں حکم دیئے گئے ہیں۔ احسن اور غیر احسن کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کروگے تو اللہ تعالیٰ کی قرب کی راہوں کے پانے والے بن جاؤ گے۔ یہ کرو گے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بنو گے۔

بعض باتوں کی اس وقت مَیں یہاں نشاندہی کرتا ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران: 111)یعنی تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں یا عباد الرحمٰن کا مقام حاصل کرنے والوں کی جماعت کو یہاں سب انسانوں سے بہتر جماعت فرمایا ہے۔ کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق احسن کو اپنے قول و فعل میں قائم کیا ہوا ہے۔ اس لئے بہتر ہیں کہ نیکی کی ہدایت کرتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اس ہدایت کی تلقین کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنا قرب دلانے کے لئے دی ہے۔ فرمایا کہ تم لوگ اس لئے بہتر ہو خیر اُمّت ہو کہ بدی سے روکتے ہو۔ ہر گناہ اور برائی سے آپ بھی رکتے ہو اور دوسروں کو بھی رکنے کی تلقین کرتے ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکو اور پھر یہ کہ تمہارا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط ہے اس لئے تم خیر اُمّت ہو۔ تم اس یقین پر قائم ہو کہ خدا تعالیٰ میرے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے۔ تم اس ایمان پر قائم ہو کہ دنیا کے عارضی رب میری ضروریات پوری نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ جو رب العالمین ہے میری ضروریات پوری کرنے والا ہے اور میری دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اور پھر یہ قول ایسا ہے، یہ بات ایسی ہے جس کو دنیا کو بھی بتاؤ کہ تمہاری بقا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس کے حکموں پر عمل کرنے اور چلنے سے ہے۔ دنیاوی آسائشوں اور عیاشیوں میں نہیں ہے۔ پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان احسن باتوں اور نیکیوں اور برائیوں کی مزید تفصیل دی ہے۔ مثلاً یہ کہ فرمایا کہ وَالَّذِیْنَ لَایَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا  (الفرقان: 73)

اور وہ لوگ بھی اللہ کے بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے اور جب لغو باتوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بزرگانہ طور پر بغیر ان میں شامل ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہاں دو باتوں سے روکا ہے۔ ایک جھوٹ سے، ایک لغو بات سے۔ یعنی جھوٹی گواہی نہیں دینی۔ کیسا بھی موقع آئے، جھوٹی گواہی نہیں دینی۔ بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ تمہاری گواہی کا معیار ایسا ہو کہ خواہ اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی پیارے اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دو۔ پس یہ معیار ہے سچائی کے قائم کرنے کا۔ یہ معیار قائم ہوگا تو اس احسن میں شمار ہوگا جس کواللہ تعالیٰ نے احسن فرمایا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ نیکیوں میں مزید ترقی ہوتی ہے اور ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ سچائی کے بارہ میں مزید فرماتا ہے کہ یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (الفرقان: 70) کہ اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور وہ بات کہو جو پیچ دار نہ ہو بلکہ سچی، کھری اور سیدھی ہو۔

یہ وہ سچائی کا معیار قائم رکھنے کے لئے احسن ہے جس کو کرنے اور پھیلانے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے جائزے لیں تو سچائی کے یہ معیار نظر نہیں آتے۔ ہر قدم پر نفسانی خواہشات کھڑی ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں، کتنے ہیں ہم میں سے جو بوقت ضرورت اپنے خلاف گواہی دینے کو تیار ہو جائیں، اپنے والدین کے خلاف گواہی دیں، اپنے پیاروں کے خلاف گواہی دیں اور پھر یہ معیار قائم کریں کہ اُن کی روز مرہ کی گفتگو، کاروباری معاملات وغیرہ جو ہیں ہر قسم کی پیچ دار باتوں سے آزاد ہوں۔ کہیں نہ کہیں یا تو ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں یا قریبیوں کے مفادات آڑے آ جاتے ہیں۔ یا اَنائیں آڑے آ جاتی ہیں اور غلطی ماننے کو وہ تیار نہیں ہوتے۔ ان باتوں کو پیچ دار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اپنی جان بچائی جائے تاکہ اپنے مفادات حاصل کئے جائیں۔ قولِ سدید کا معیار اللہ تعالیٰ کے احسن حکموں میں سے ایک ہے۔ یایہ کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو یہی احسن ہے کہ سچائی بغیر کسی ایچ پیچ کے ہو۔ اگر اس حکم پر عمل ہو تو ہمارے گھروں کے جھگڑوں سے لے کر دوسرے معاشرتی جھگڑوں تک ہر ایک کا خاتمہ ہو جائے۔ نہ ہمیں عدالتوں میں جانے کی ضرورت ہو، نہ ہمیں قضا میں جانے کی ضرورت ہو۔ صلح اور صفائی کی فضا ہر طرف قائم ہو جائے۔ اگلی نسلوں میں بھی سچائی کے معیار بلند ہو جائیں۔ پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ۔ اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لا شعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ نظام کے خلاف بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں۔ لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں۔ کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں۔ پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں۔ ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں۔ بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جا رہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بھی لغویات ہیں، شرک ہیں۔ شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے۔ ایسے گانوں کو بھی نہیں سننا چاہئے۔

پھر فیس بک (Facebook) ہے یا ٹوئٹر (Twitter) ہے یا چیٹنگ (Chatting) وغیرہ ہیں۔ کمپیوٹر وغیرہ پر مجالس لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی بیہودہ اور ننگی باتیں بعض دفعہ ہو رہی ہوتی ہیں، جب ایک دوسرے فریق کی لڑائی ہوتی ہے تو پھر بعض نوجوان وہ باتیں مجھے بھی بھیج دیتے ہیں کہ کیا کیا باتیں ہو رہی تھیں۔ پہلے خود ہی اُس میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی شریف آدمی اُن کو دیکھ اور سُن نہیں سکتا۔ بڑے بڑے اچھے خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اس میں شامل ہوتے ہیں اور اپنا ننگ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔ پس ایک احمدی کے لئے ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ ایک احمدی مسلمان کو تو حکم ہے کہ تم احسن قول کی تلاش کرو۔ اُس احسن کی تلاش کرو جو نیکیوں میں بڑھانے والا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے بنو اور جو لعنت ایسے لوگوں پر پڑنی ہے اُس سے بچ سکو۔ بہر حال بہت سے احسن قول ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں۔ نیکی کے راستے اختیار کرنا اور بتانا احسن ہے اور برائی سے روکنا اور رُکنا احسن ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک مومن سے ایک حقیقی عبد سے یہی فرماتا ہے کہ احسن قول تمہارا ہونا چاہئے۔ ایک جگہ فرمایا وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ  (البقرۃ: 149) کہ یعنی ہر ایک شخص کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے آپ پر مسلط کر لیتا ہے۔ تمہارا مطمح نظر یہ ہو کہ تم نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔

پس جب نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو قول اور عمل دونوں احسن ہوں گے۔ اُس کے مطابق ہوں گے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اگر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی تو یقیناً پھر شیطان سے اور اُس کے حملوں سے بچنے کی بھی کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو مَیں نے شروع میں تلاوت کی تھی اس میں فرمایاکہ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ۔ کہ یقیناً شیطان ان کے درمیان، یعنی انسانوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ اکثر ہم جانتے ہیں۔ شیطان وہ ہے جو رحمان خدا کے حکم کے خلاف ہر بات کہنے والا ہے۔ تکبر، بغاوت اور نقصان پہنچانے والا ہے اور اس طرف مائل کرنے والا ہے۔ حسد کی آگ میں جلنے والا ہے۔ نقصان پہنچانے والا ہے۔ دلوں میں وسوسے پیدا کرنے والا ہے۔ غرض کہ جیسا کہ مَیں نے کہا ہر وہ بات جو احسن ہے اور جس کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا ہوں، شیطان اُس کے الٹ حکم دیتا ہے۔ نَزْغٌ یا اَلنَّزْغُ کا مطلب ہے، ’’شیطانی باتیں‘‘ یا مشورے جن کا مقصد لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا اور فساد پیدا کرنا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان انسان کے لئے ’’عَدُوًّا مُّبِیْنًا‘‘ ہے، کھلا کھلا دشمن ہے۔ اگر تم میرے بندے بن کر اُن تمام احسن باتوں کو نہیں کہو گے اور کرو گے، اُن پر عمل نہیں کرو گے تو پھر رحمان خدا کی بندگی سے نکل کر شیطان کی گود میں گرو گے۔ اور شیطان تمہارے اندر جھوٹ بھی پیدا کرے گا، تکبر بھی پیدا کرے گا، بغاوت بھی پیدا کرے گا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف بھی مائل کرے گا، دلوں میں وسوسے بھی پیدا کرے گا، حسد کی آگ میں بھی جلائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم لوگ رات کو سوتے وقت جو آخری دو سورتیں سورۃ ’’اَلْفَلَق‘‘ اور ’’اَلنَّاس‘‘ ہیں یہ تین دفعہ پڑھ کر اپنے اوپر پھونکا کرو تا کہ شیطانی خیالات اور وسوسوں اور برائیوں سے محفوظ رہو اور اس طرف تمہاری توجہ رہے۔

پڑھ کر یہ بھی خیال رہے کہ ہمیں ان سے محفوظ رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہو کہ ہمیں ان سے محفوظ رکھ۔

پس احسن بات اُس وقت ہو گی، نیکیوں میں بڑھنے اور شیطان سے بچنے کی حالت بھی اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شاملِ حال ہو گی۔ اُس سے دعاؤں کے ساتھ ہدایت طلب کرتے ہوئے اُس کے احکام کی تلاش اور شیطان سے بچنے کی کوشش ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اور اُس کے اعمال کو فاسد بنانے کے واسطے ہمیشہ تاک میں لگا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نیکی کے کاموں میں بھی اس کو گمراہ کر نا چاہتا ہے اور کسی نہ کسی قسم کا فساد ڈالنے کی تدبیریں کرتا ہے۔ نماز پڑ ھتا ہے تو اس میں بھی رِیا وغیرہ کو ئی شعبہ فساد کاملا ناچاہتا ہے۔‘‘یعنی نماز پڑھنے والے کے دل میں خیالات پیدا کرکے۔ ’’ایک امامت کرانے والے کو بھی اس بلا میں مبتلا کر نا چاہتا ہے۔ پس اس کے حملہ سے کبھی بے خوف نہیں ہو نا چاہئے کیو نکہ اس کے حملے فاسقوں، فاجروں پر تو کھلے کھلے ہو تے ہیں۔ وہ تو اس کا گویا شکار ہیں لیکن زاہدوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ نہیں چُوکتا اور کسی نہ کسی رنگ میں موقع پاکر ان پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے۔ جولوگ خدا کے فضل کے نیچے ہو تے ہیں اور شیطان کی باریک در باریک شرارتوں سے آگا ہ ہو تے ہیں وہ تو بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں لیکن جوابھی خام اور کمزور ہو تے ہیں وہ کبھی کبھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ رِیا اور عُجب وغیرہ سے بچنے کے واسطے ایک ملامتی فرقہ ہے جواپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور سَیّئات کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔‘‘ ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کہتے ہیں نیکیاں ظاہر نہ کرو اور اپنی برائیاں ظاہر کرو تا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ بڑے نیک ہیں۔ فرمایا کہ: ’’وہ اس طرح پرسمجھتے ہیں کہ ہم شیطان کے حملوں سے بچ جاتے ہیں مگر میرے نزدیک وہ بھی کا مل نہیں ہیں۔ ان کے دل میں بھی غیر ہے۔ اگر غیر نہ ہو تا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے۔ انسان معرفت اور سلوک میں اس وقت کامل ہو تا ہے جب کسی نوع اور رنگ کا غیر ان کے دل میں نہ رہے اور یہ فرقہ انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے۔ یہ ایسا کامل گروہ ہو تا ہے کہ اس کے دل میں غیر کا وجود بالکل معدوم ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 630-631۔ مطبوعہ ربوہ)

بہر حال اس سے یہ بھی کوئی نہ سمجھ لے کہ انبیاء کو یہ مقام ملتا ہے اس کی کوشش کی ضرورت نہیں، اس کے علاوہ کسی کو نہیں مل سکتا۔ کئی مواقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی فرمایا ہے کہ تم اپنے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ۔ بلکہ فرمایا کہ ولی بنو، ولی پرست نہ بنو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 139۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کو پیش فرما کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ہے، اس پر چلنے کی کوشش کرو۔

پس شیطان کے حملے سے بچنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسن قول ضروری ہے۔ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ پھر دعا بھی اللہ تعالیٰ نے سکھائی کہ قرآنِ کریم کی آخری دو سورتیں جو ہیں جس میں شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے بچنے کی دعا ہے۔

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ  (حٰمٓ السجدۃ: 37) اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھو۔ اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقیناً وہ سنتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی کھول کر بتا دوں کہ شیطان کے حسد کی آگ جس میں وہ خود بھی جلا اور آدم کی اطاعت سے انکاری ہوا اور باہر نکلا اور پھر انسانوں کو اس آگ میں جلانے کا عہد بھی اُس نے کیا، یہ بہت خطرناک چیز ہے۔ یہ حسد کی آگ ہی ہے جو معاشرے کی بے سکونی کا باعث ہے۔ پس ہر احمدی کو اس سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اور خاص طورپر اس سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور بہت گڑ گڑا کر دعا کرنی چاہئے۔ شیطان کا حملہ دو طرح کا ہے۔ ایک تو وہ خدا تعالیٰ سے تعلق کو توڑنے اور تڑوانے کے لئے حملے کرتا ہے اور دوسری طرف انسان کا جو انسان سے تعلق ہے اُسے تڑوانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ احسن قول اللہ تعالیٰ سے محبت کی طرف بھی لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر انسان کی محبت دوسرے انسان سے بھی پیدا کرتا ہے۔ یعنی جیسا کہ میں نے پہلے کہا، حقوق اللہ اور حقوق العباد احسن قول سے ہی ادا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہمارا یہ نعرہ جو ہم لگاتے ہیں، کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہمارے غیر بھی اس نعرہ سے متاثر ہوتے ہیں اور اگر ہماری مجالس میں آئیں تو اس کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن ہم آپس میں اس کا اظہار نہ کر رہے ہوں تو یہ نعرہ بے فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور بار بار میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ ’’رُحَمَآءُ بَیْنَھُم‘‘ (الفتح: 30) ایک دوسرے سے بہت رحم کا اور رأفت کا سلوک کرو، پیار و محبت کا سلوک کرو۔ جو ایسے لوگ ہیں وہی صحیح مومن ہیں۔ یہ مومن کی نشانی ہے۔ بڑھ بڑھ کر تقریریں کر کے ہم چاہے جتنا مرضی ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ یہ ہمارا نعرہ ہے ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ پھر یہ بھی ہم پیش کریں کہ جماعت کی اکائی کی ایک مثال ہے۔ یہ جتنی بھی ہماری کوششیں ہوں اس کا حقیقی اثر تبھی ہو گا جب ہم اپنے گھروں میں، اپنے ماحول میں یہ فضا پیدا کریں گے کہ ایک دوسرے سے رحم کا سلوک کرنا ہے، ایک دوسرے سے درگزر کا سلوک کرنا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تلقین فرمائی ہے۔ فرمایا وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا (النور: 23) کہ معاف کرو اور درگزر سے کام لو۔ غرض کہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا حکم ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں لیکن یہ دنیا ایسی ہے جہاں ہر قدم پر شیطان سے سامنا ہے۔ جو بہت سے موقعوں پر ہمارے قول و فعل میں تضاد پیدا کر کے ہمیں اُن باتوں سے دور لے جانا چاہتا ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن اور عبدِ رحمان کو حکم دیا ہے۔

پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان تو اپنا کام کرتا رہے گا، اُس نے آدم کی پیدائش سے ہی اللہ تعالیٰ سے یہ مہلت مانگی تھی کہ مجھے مہلت دے کہ جس کے متعلق تو مجھے کہتا ہے کہ میں اس کو سجدہ کروں اُسے سیدھے راستے سے بھٹکاؤں۔ اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اکثر کو میں ایسے انداز سے بھٹکاؤں گا کہ یہ میرے پیچھے چلیں گے۔ عبدِ رحمان کم ہوں گے اور شیطان کے بندے زیادہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ جو بھی تیری پیروی کرے گا اُسے میں جہنم میں ڈالوں گا۔

اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے مثالیں بھی دی ہیں، بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اُن کا صحیح استعمال برا نہیں ہے، لیکن ان کا غلط استعمال برائیوں کے پھیلانے، غلاظتوں کے پھیلانے، گناہوں کے پھیلانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہی چیزیں نیکیوں کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہیں۔ ٹی وی ہے، معلوماتی اور علمی باتیں بھی بتاتا ہے لیکن بے حیائیاں بھی اس کی وجہ سے عام ہیں۔ اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کر رہے ہیں یا جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ میں نے جلسوں کے دنوں میں بھی توجہ دلائی تھی اور اُس کا بعض لوگوں پر اثر بھی ہوا اور انہوں نے مجھے کہا کہ پہلے ہم ایم ٹی اے نہیں دیکھا کرتے تھے، اب آپ کے کہنے پر، توجہ دلانے پر ہم نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ پہلے کیوں نہ اس کو دیکھا، کیوں نہ ہم اس کے ساتھ جڑے۔ بعضوں نے یہ اظہار کیا کہ ہفتہ دس دن میں ہی ہمارے اندر روحانی اور علمی معیار میں اضافہ ہوا ہے۔ جماعت کے بارے میں ہمیں صحیح پتہ چلا ہے۔

پس پھر مَیں یاددہانی کروا رہا ہوں، اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اُٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تا کہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آ رہے ہیں جو جہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو۔ اگر افرادِ جماعت اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے۔ غیر تو اس سے اب بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور جماعت کی سچائی اُن پر واضح ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسلام کی حقانیت کا اُنہیں پتہ چل رہا ہے اور صحیح ادراک ہو رہا ہے۔ پس یہاں کے رہنے والے احمدیوں کو بھی اور دنیا کے رہنے والے احمدیوں کو بھی ایم ٹی اے سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے۔ ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی تو اس نے اس عقل کو استعمال کر کے اپنی آسانیوں کے سامان پیدا کئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا  (الکہف: 8) یعنی زمین پر جو کچھ ہے اُسے یقیناً ہم نے زینت بنایا ہے تا کہ ہم اُنہیں آزمائیں کہ کون بہترین عمل کرتا ہے۔

پس یہاں زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دے کر اُس کی اہمیت بھی بیان فرما دی۔ ہر نئی ایجاد جو ہم کرتے ہیں اُس کو بھی زینت بتا دیا، اُس کی اہمیت بیان فرمائی لیکن فرمایا کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب احسن عمل کے ساتھ یہ وابستہ ہو۔ پس ہمیں نصیحت ہے کہ ان ایجادات سے فائدہ اُٹھاؤ لیکن احسن عمل مدّنظر رہے۔ یہ ایجادات ہیں، ان کی خوبصورتی تبھی ہے جب اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام کیا جائے یا کام لیا جائے، نہ کہ فتنہ و فساد پیدا ہو۔ اگر احسن عمل نہیں تو یہ چیزیں ابتلا بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے میں نے مثالیں دیں۔ یہ ٹیلی ویژن ہی ہے جو فائدہ بھی دے رہا ہے اور ابتلا بھی بن رہا ہے۔ بہت سے گھر انٹرنیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔ بچے خراب ہو رہے ہیں اس لئے کہ آزادی کے نام پر اللہ تعالیٰ کی مہیا کی گئی چیزوں کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ حقیقی عبد کے لئے حکم ہے کہ ہمیشہ احسن قول اور احسن عمل کو سامنے رکھو اور کام کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ بہر حال قرآنِ شریف کے بے شمار حکم ہیں ہر حکم کی تفصیل یہاں بیان نہیں ہو سکتی۔ ایک بات ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اس بارے میں شروع میں بھی میں کچھ کہہ آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جو احسن قول کے بارے میں ہمیشہ مدّنظر رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے، فرمایاکہ وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (حٰمٓ السجدۃ: 34) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ خوبصورت تعلیم اور بات ہے جو ایک حقیقی بندے سے جس کی توقع کی جاتی ہے، کی جانی چاہئے۔ جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی تھی اُس میں فرمایا تھا کہ یَقُوْلُ الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کہ ایسی بات کیا کرو جو سب سے اچھی ہو۔ اور سب سے اچھی وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب اچھی باتیں سمٹ کر اس ایک بات میں آ جاتی ہیں، اس آیت میں ان کا خلاصہ ہے اور یہی سب سے احسن قول ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ۔ اب خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو خود بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ خود کس حد تک ان باتوں پر عمل کر رہا ہے جن کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں کیونکہ یہ گناہ ہے۔

پس جیسا کہ مَیں تفصیل سے ذکر کر آیا ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہو گا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنا ہوگا۔ یہ ہے اعلیٰ ترین مثال اسلامی تعلیم کی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ کہ اس سے بڑا قول اور احسن قول کوئی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہے۔ لیکن بلانے کے لئے اپنے عمل بھی وہ بناؤ جو عمل صالح ہیں۔ عمل صالح وہ عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہے، نیکیوں کو پھیلانے والا ہے، وقت کی ضرورت کے مطابق ہے اور اصلاح کا موجب ہے۔ یہاں عملِ صالح کی ایک مثال دیتا ہوں جس کا براہِ راست اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن آپ کے لئے واضح کرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔

اب مثلاً پہلے مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ معاف کرنا اور درگزر سے کام لینا یہ ایک نیک کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معاف کرنے کی عادت ڈالو لیکن ایک عادی چور کو معاف کرنا یا کسی عادی قاتل کو معاف کرنا احسن کام نہیں ہے، نہ عملِ صالح ہے۔ یہاں عملِ صالح یہ ہو گا کہ معاشرے کو نقصان سے بچانے کے لئے اور برائیوں سے روکنے کے لئے ایسے شخص کو سزا دی جائے جو بار بار یہ غلطیاں کرتا ہے اور جان بوجھ کر کرتا ہے۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دعوتِ الی اللہ کرنے والے سے بہتر اور کوئی نہیں ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ لیکن دعوتِ الی اللہ کرنے والے کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف دعوتِ الی اللہ کافی نہیں بلکہ اُس کا ہر عمل عملِ صالح ہونا چاہئے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف تو ایک انسان کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہوں اس لئے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانا میرا فرض ہے لیکن دوسری طرف اپنے بیوی بچوں کا حق ادا نہ کر رہا ہو۔ یا عورت اپنے گھر کی نگرانی اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہ دے رہی ہو یا دوسرے اسلامی احکامات ہیں اس پر کوئی عمل نہ کر رہا ہو۔ عورت کا لباس جس کے حیا اور تقدس کا اسلام حکم دیتا ہو اُس کا تو خیال نہ ہو اور تبلیغ کے لئے سرگرمی ہو۔ جب ایسے شخص کی تبلیغ سے کوئی اسلام قبول کر کے پھر قرآنِ کریم کو پڑھے گا تو کہے گا کہ مجھے تو تم نے تبلیغ کی لیکن قرآن تو حیا اور پردے کا بھی حکم دیتا ہے۔ تم تو اس پر عمل نہیں کر رہے۔ اسی طرح اور بہت سی برائیاں ہیں۔ جھوٹ ہے، چغل خوری ہے اور بہت سے غلط کام ہیں۔ ان کی اس وجہ سے معافی نہیں ہو جائے گی کہ کوئی تبلیغ بہت اچھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسن قول کہنے والا عمل صالح کرنے والا بھی ہو اور اس بات کا اظہار کرنے والا ہو کہ میں فرمانبردار ہوں، کامل اطاعت کرنے والا ہوں اور تمام حکموں پر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کا نعرہ لگانے والا ہوں۔ اور یہی ایک حقیقی مسلمان کی نشانی ہے۔

پس اس حوالے سے میں آسٹریلیا کی جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس بات کو یاد رکھیں کہ دعوتِ الی اللہ، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لیکن اس کے لئے، اس کے ساتھ اور اس کام کو کرنے کے لئے اپنے عمل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے اور کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک جس کی آبادی 23 ملین کے قریب ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ہے، بلکہ برّاعظم ہے لیکن بہر حال آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے اور چند شہروں تک محدود ہے۔ بے شک بعض شہروں کا فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ پر بھی کہا تھا کہ لجنہ، خدام اور انصار اور جماعتی نظام کو تبلیغ کے کام کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے، نتائج پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اگر ہم اپنے کام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ نتائج بھی پیدا ہوں گے۔ کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ ہم تو جماعت احمدیہ کو جانتے نہیں۔ اتفاق سے میں نے عید والے دن یہاں سے جو ایم ٹی اے سٹوڈیو کا پروگرام آ رہا تھا دیکھا، تو ہمارے نائب امیر صاحب جو ہیں، خالد سیف اللہ صاحب، یہ بتا رہے تھے کہ 1989ء میں، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے عید اور جمعہ یہاں پڑھایا اور مسجد بہت بڑی لگ رہی تھی اور زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو کے قریب یہاں آدمی تھے، اور اب اُن کے خیال کے مطابق اڑھائی ہزار کے قریب ہیں۔ اُس وقت تو میرا بھی فوری ردّ عمل یہی تھا کہ الحمد للہ۔ اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ تعداد بڑھائی۔ لیکن جب میں نے سوچا تو ساتھ ہی فکر بھی پیدا ہوئی کہ تقریباً چوبیس سال کے بعد یہ تعداد بھی زیادہ تر پاکستان اور فجی سے آنے والوں کی ہے۔ تبلیغ سے شاید دو چار احمدی ہوئے ہوں اور وہ بھی سنبھالے نہیں گئے۔ چوبیس سال میں یہاں کے لوکل، مقامی چوبیس احمدی بھی نہیں بنائے گئے۔ یعنی سال میں ایک احمدی بھی نہیں بنا۔ یہ تعداد جو بڑھی ہے، وہ یہاں کی تعداد میں اضافہ پاکستان اور فجی کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ آسٹریلیا کی جماعت کی کوشش سے نہیں ہوا۔ پس ہمیں حقائق سے آنکھیں بندنہیں کرنی چاہئیں اور ان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ یہ فکر کی بات ہے۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بہت فکر کی بات ہے۔ اسی طرح لوکل لوگوں کے علاوہ یعنی جو لوگ شروع میں یہاں آ کر آباد ہوئے، جو اَب اپنے آپ کو آسٹریلین کہتے ہیں، اُن کے علاوہ مقامی آبادی جو پہلے کی ہے، نیٹو (Native) ہیں، اُن کے علاوہ بھی یہاں عرب اور دوسری قومیں بھی آباد ہوئی ہیں۔ اُن میں بھی تبلیغ کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ planکر کے پھر تبلیغ کی مہم کرنی چاہئے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ آسٹریلین لوگوں میں سننے کا حوصلہ بھی ہے اور بات کرنا چاہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں۔ اگر تعلقات بنا کر، رابطے کر کے ان تک پہنچا جائے تو کچھ نہ کچھ سعید فطرت لوگ ضرور ایسے نکلیں گے جو حقیقی دین کو قبول کرنے والے ہوں گے۔ ہر طبقے کے لوگوں تک اسلام کا امن اور محبت اور بھائی چارے کا پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ میلبرن میں جو بعض لوگ مجھے ملے، وہ احمدیوں کو تو جانتے ہیں جن کی دوستیاں ہیں لیکن اکثر اُن میں سے ایسے تھے جن کو اسلام کے حقیقی پیغام کا پتہ نہیں تھا۔ وہ احمدیوں کو ایک تنظیم سمجھتے ہیں، اچھے اخلاق والے سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کا بنیادی پیغام اُن تک نہیں پہنچا ہوا۔ پس اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک مخلص دوست کو جلسہ پر انعام دیا گیا کہ باوجود معذوری کے انہوں نے اسلام کا امن کے پیغام کا جو فلائر تھا وہ بیس ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا۔ اب آپ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں آپ چار ہزار کے قریب ہیں، ویسے میرا خیال ہے اس سے زیادہ ہیں۔ اگر اس سے نصف لوگ یعنی دو ہزار لوگ پانچ ہزار کی تعداد میں بھی فلائر تقسیم کرتے تو دس ملین تقسیم ہو سکتا تھا۔ گویا آسٹریلیا کی آدھی آبادی جو ہے اُس تک اسلام کا امن کا پیغام پہنچ سکتا تھا اور اسلام کی جو صحیح تصویر ہے ایک سال میں پھیلائی جا سکتی تھی۔ پھر تبلیغ کے لئے اگلا پمفلٹ تیار ہوتا، بلکہ اس کاچوتھا حصہ بھی اگر ہم تقسیم کرتے، بلکہ دسواں حصہ بھی تقسیم کرتے تو میڈیا کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے، پھر اخبارات ہی اس پیغام کو اٹھا لیتے ہیں۔ اور کئی ملکوں میں اس طرح ہوا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی اس طرح ہوا ہے۔ اور باقی کام ان کے ذریعہ سے ہو جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے میڈیا سے تعلقات بیشک اچھے ہیں، اور توجہ تو ہے لیکن اس کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ یہاں بہت سے بڑی عمر کے لوگ بھی جو آئے ہوئے ہیں اور مختلف ملکوں میں بھی آئے ہوئے ہیں اُن کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں اور یہاں بھی یہی کہوں گا کہ ان کے پاس کام بھی کوئی نہیں ہے، گھر میں فارغ بیٹھے ہیں، اپنا وقت وقف کریں اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کریں۔ جماعت کالٹریچر ہے، لے جائیں، تقسیم کریں، تبلیغ کریں۔ یہ اعدادو شمار جو میں نے دئیے ہیں یہ صرف احساس دلانے کے لئے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ آسٹریلیا کے چھپائی وغیرہ کے جو اخراجات ہیں شاید جماعت آسٹریلیا اس وقت اُن کی متحمل نہ ہو سکے۔ پانچ دس سینٹ (Cent) میں بھی اگر ایک لٹریچر چھپتا ہے، اگر Bulk میں چھپوائیں تو اتنی تعدادپر اتنی ہی Cost آتی ہے، تو دس ملین کے لئے کم از کم پانچ لاکھ ڈالر چاہئے ہوں گے۔ لیکن بہر حال اگر لاکھوں میں بھی شائع کئے جائیں تو بہت کام ہو سکتا ہے اور یہ کئے جا سکتے ہیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

باقی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پریس جو ہے، اُس سے رابطے ہوں تو وہی کام کرتا ہے۔ بلڈ ڈونیشن وغیرہ کا منصوبہ ہے، مَیں نے سنا ہے یہ بھی آپ کرتے ہیں لیکن اس کو اسلام کے نام سے منسوب کریں، تو اسلام کی امن کی تعلیم بھی دنیا پر واضح ہو۔ انشاء اللہ پھر توجہ پیدا ہو گی اور پھر مزید راستے کھلیں گے۔ اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے اس کام کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے عمل صالح ہوں۔ نیکیوں میں بڑھنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ پر ایمان بھی کامل ہو۔ دعاؤں کی طرف توجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل فرمائے جو عمل صالح کرنے والے بھی ہیں اور نیکیوں اور فرمانبرداریوں میں بڑھنے والے بھی ہیں اور اُس کی رضا کے مطابق ہم کام کرنے والے بھی ہوں اور ان کے نیک نتائج بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے، اللہ کرے ہماری تعداد میں اضافہ یہاں کے مقامی لوگوں سے بھی ہو۔

نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو محترمہ صاحبزادی امۃ المتین صاحبہ کا ہے، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور مکرم سید میر محمود احمدناصر صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 14؍ اکتوبر کی رات کو تقریباً بارہ بجے ربوہ میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

پرسوں عید والےدن ان کی تدفین ہوئی تھی۔ آپ قادیان میں 21؍ دسمبر 1936ء کو پیدا ہوئی تھیں اور قادیان میں دارالمسیح میں ان کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اماں جانؓ اور خلیفہ ثانیؓ نے اُس وقت ان کے لئے بڑی دعائیں کیں۔ آپ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی بیٹی تھیں، حضرت مصلح موعودؓ کی اس اہلیہ سے یہی ایک اولاد تھی اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نواسی تھیں۔ حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ماموں بھی تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس بیٹی کے لئے کچھ نظمیں بھی لکھی تھیں جو کلامِ محمود میں اطفال الاحمدیہ کے ترانے کے نام سے شائع ہیں۔ اس کا ایک شعر یہ ہے کہ

میری رات دن بس یہی اک صدا ہے

کہ اس عالمِ کون کا اک خدا ہے

بہر حال حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی اولاد میں، خاص طور پر لڑکیوں میں، ساروں میں مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ اُن کا اللہ تعالیٰ سے بڑا قریبی تعلق تھا اور نمازوں میں باقاعدگی اور نہ صرف باقاعدگی بلکہ بڑے الحاح سے اور توجہ سے نماز پڑھنے والے، ساری لمبی نمازیں پڑھنے والی ہیں۔ مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر کیونکہ مبلغ بھی رہے ہیں، واقفِ زندگی ہیں، سپین میں بھی مبلغ رہے اور امریکہ میں بھی آپ کو ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور مبلغ کی بیوی ہونے کا جو حق ہوتا ہے وہ انہوں نے ادا کیا۔ سپین میں مسجد بشارت جب بنی ہے اُس وقت یہ لوگ وہیں تھے۔ اور تیاری کے کام اور کھانے پکانے کے کاموں میں اُس وقت انہوں نے بڑا کام کیا، باقاعدہ انتظام نہیں تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے بھی ذکر کیا کہ انہوں نے بتایا کہ جس رات، رات کو تین بجے کام سے فارغ ہو کر سوتے تھے اُس وقت بڑا خوش ہوتے تھے کہ آج اللہ تعالیٰ نے کچھ سونے کا موقع دیا۔ (ماخوذ از خطبات طاہر جلد اول صفحہ 139۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ ستمبر 1982ء۔ مطبوعہ ربوہ)

بڑی لمبی دیر راتوں تک انہوں نے کام کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ تقریب جو مسجد بشارت میں تھی بڑی کامیاب بھی ہوئی۔ مہمانوں کا اور خلیفۃ المسیح الرابع کا کھانا بھی یہ خود اپنے ساتھ اپنی نگرانی میں پکواتی تھیں، کیونکہ باقاعدہ لنگر کا انتظام نہیں تھا۔ امریکہ میں کیلیفورنیا میں لمبا عرصہ رہیں، وہاں بھی اُس وقت جماعت کے حالات ایسے تھے کہ واشنگ مشین وغیرہ ایسی چیزیں کوئی نہیں تھیں تو کپڑے وغیرہ دھونے، باقی گھر کے کام کرنے، اگر کوئی مدد گار مدد کے لئے offer کرتا تھا تو نہیں مانتی تھیں۔ گھر کے کام خود کرنے کی عادت تھی۔ لجنہ مرکزیہ پاکستان میں بھی یہ مختلف عہدوں پر سیکرٹری کے طور پر خدمات بجا لاتی رہی ہیں۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ اور میری خالہ تھیں لیکن خلافت کے بعد جو ہمیشہ تعلق تھا، احترام اور محبت اور پیار اور عزت کا بہت بڑھ گیا تھا۔ بلکہ شروع میں جب پہلی دفعہ لندن آئی ہیں تو کسی کو کہا کہ میں تو اب کھل کے بات نہیں کر سکتی۔ اب بھی، پچھلے سال بھی جلسے پر آئی ہوئی تھیں، کافی بیمار تھیں لیکن پھر بھی جلسے پر لندن آئیں اور اُن سے ملاقات ہوئی۔ ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا خاوند مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر اور بیٹوں میں دو بیٹے واقفِ زندگی ہیں۔ ڈاکٹر غلام احمد فرّخ صاحب جنہوں نے امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی تھی اور آجکل ربوہ میں صدر انجمن کے دفاتر میں کام کر رہے ہیں۔ اور دوسرے واقفِ زندگی بیٹے محمد احمد صاحب امریکہ میں تھے اپنی ملازمت چھوڑ کے پھر لندن آ گئے اور وہاں میرے ساتھ ہیں۔ یہاں آئے ہوئے تھے اپنی والدہ کی وفات کی وجہ سے چند دن پہلے ربوہ گئے ہیں اور دونوں بھائی بڑی وفا سے خدمت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو آئندہ بھی توفیق دے۔ اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی ایک بیٹی ہیں جو ہالینڈ میں رہتی ہیں اور ایک بیٹے ڈاکٹر ہیں وہ دبئی میں اور ایک امریکہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جماعت سے اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مکرم میر محمود احمد صاحب بھی اب اپنے آپ کو کافی اکیلا محسوس کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو بھی اپنے فضل سے سکون کی کیفیت عطا فرمائے اور جو کمی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے پوری فرما سکتا ہے۔ ایک لمبا ساتھ ہو تو بہر حال احساس تو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نمازوں کے بعد ان کا غائب جنازہ ادا ہو گا۔

(الفضل انٹرنیشنل مورخہ8؍نومبر2013ء تا 14؍نومبر2013ء جلد 20شمارہ 45 صفحہ 5 تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ اکتوبر 2013ء شہ سرخیاں

    فرمودہ مورخہ 18؍اکتوبر2013ء بمطابق 18؍اخاء 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الہدیٰ، سڈنی، آسٹریلیا

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور