عملی اصلاح کی راہ میں حائل اسباب کی نشاندہی

خطبہ جمعہ 13؍ دسمبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

عملی اصلاح کے مضمون کے بارے میں مَیں گزشتہ دو جمعوں سے بیان کر رہا ہوں۔ گزشتہ جمعہ کو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے، اُس کے چند پہلوؤں کا ذکر مَیں نے سوالوں کی صورت میں کیا تھا۔ یا یہ بتا رہا تھا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم میں ہمیں وہ باتیں بتائی ہیں اور سوال یہ تھے کہ کیا ہم یہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟ہماری عملی اصلاح انہی چند باتوں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اسلام کی تعلیم کے تو بے شمار پہلو ہیں۔ بے شمار احکامات ہیں جو قرآنِ کریم نے ہمیں دئیے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تعلیم میں ہماری اصلاح کے لئے بڑا واضح فرمایا ہے کہ:

’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکموں میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے، وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرتا ہے‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26)

پس ہمارے لئے یہ بڑا خوف کا مقام ہے اور ہمیں اپنا ہر عمل اور ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر کرنے اور اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبوں میں بھی کہہ چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم کی حکومت کو ہم پر لاگو کروانا تھا، اُسے قائم کرنا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ اور آپ کی سنّت پر ہمیں چلانا تھا۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ علیہ السلام نے ہمیں بار بار توجہ دلائی ہے۔ اگر ہم ایمانداری سے اپنے جائزے لیں تو جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ باتیں سن کر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں، کچھ دن کے لئے تو ہماری عملی اصلاح ہوتی ہے اور پھر واپس اپنی اُسی ڈگر پر ہم میں سے اکثر چلنا شروع کر دیتے ہیں جس پر پہلے تھے۔ پس ہم اُس گڈّے کی طرح ہیں جس کی مثال مَیں گزشتہ خطبوں میں بھی دے چکا ہوں۔ جس پر جب تک ڈھکنے کا دباؤ پڑا رہے، بند رہتا ہے اور ڈھکنا کھلتے ہی سپرنگ اُسے اچھال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ اسی طرح جب تک ایک موضوع پر مسلسل نصیحت کی جاتی رہے اکثر لوگوں پر اثر رہتا ہے اور جب ان نصیحتوں اور توجہ کا دباؤ ختم ہوتا ہے تو پھر نفس کا سپرنگ یا برائیوں کا سپرنگ کسی نہ کسی برائی کو اچھال کر پھر ظاہر کر دیتا ہے۔ کئی مخلصین نے گزشتہ خطبوں کے بعد مجھے لکھا کہ ہم کوشش بھی کر رہے ہیں اور دعا بھی، اور آپ بھی دعا کریں کہ ان خطبات کے زیرِ اثر بہت سی برائیوں کا گڈّا جو ڈبے میں بند ہوا ہے یہ بند ہی رہے اور کچھ عرصے بعد باہر نہ نکل آئے۔ بہر حال ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ جیک (Jack) یا گڈّا بار بار باکس سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی چیز کی اصلاح تبھی ہو سکتی ہے اور اصلاح کی کوشش کے مختلف ذرائع تبھی اپنائے جا سکتے ہیں جب اس کمی کی وجوہات معلوم ہوں، اسباب معلوم ہوں تا کہ اُن وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وجہ قائم رہے تو عارضی اصلاح کے بعد پھر برائی عَود کرے گی، واپس آئے گی۔ اس پہلو سے جب مَیں نے غور کیا اور مزیدپڑھا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تجزیہ مجھے ملا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریقِ تحریر اور تقریر کی یہ خوبی ہے کہ ممکنہ سوال اُٹھا کر اُن کا حل بھی مثالوں سے بتاتے ہیں۔ قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی روشنی میں جس طرح آپ مسئلے کا حل بتاتے ہیں، اس طرح اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ بہر حال اس وجہ سے میں نے سوچا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبات سے ہی استفادہ کرتے ہوئے اُس کی روشنی میں ان وجوہات کو بھی آپ کے سامنے بیان کروں۔ اعمال کی اصلاح کے بارے میں جو چیزیں روک بنتی ہیں یا اثر انداز ہوتی ہیں، اُن میں سے سب سے پہلی چیز لوگوں کا یہ احساس ہے کہ کوئی گناہ بڑا ہے اور کوئی گناہ چھوٹا۔ یعنی لوگوں نے خود ہی یا بعض علماء کی باتوں میں آ کراُن کے زیرِ اثر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بعض گناہ چھوٹے ہیں اور بعض گناہ بڑے ہیں اور یہی بات ہے جو عملی اصلاح میں روک بنتی ہے۔ اس سے انسان میں گناہ کرنے کی دلیری پیدا ہوتی ہے، جرأت پیدا ہوتی ہے۔ برائیوں اور گناہوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یا اس کی سزا اتنی نہیں ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 339 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اُس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اُس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دُکھ نہ اُٹھایا جاوے، بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کُل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے۔ صغائر‘‘یعنی چھوٹے گناہ’’سہل انگاری سے کبائر‘‘ یعنی بڑے گناہ ’’ہو جاتے ہیں۔ صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کُل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 7۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے۔ کیونکہ جب یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ یہ معمولی گناہ ہے تو پھر بیماری کا بیج ضائع نہیں ہوتا اور حالات کے مطابق یہ چھوٹے گناہ بھی بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہم سب کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہر چھوٹے گناہ کی بھی اور بڑے گناہ کی بھی باز پرس اور سزا رکھی ہے۔ پھر جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں کہ آپ نے چھوٹے بڑے گناہ اور نیکی کی کس طرح تعریف اور وضاحت فرمائی ہے تو مختلف موقعوں اور مختلف لوگوں کے لئے آپ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں۔ کہیں آپ نے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ فرمایا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ کسی شخص کو آپ بڑی نیکی کے بارے میں پوچھنے پر فرماتے ہیں کہ تہجد کی ادائیگی بہت بڑی نیکی ہے۔ کسی کے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد میں شامل ہو جاؤ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ بڑی نیکی مختلف حالات اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 339-340 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

جہاد کی نیکی کے بارے میں یہ بھی بتا دوں، ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جہادنہیں کرتے۔ اُس زمانے میں جب اسلام پر ہر طرف سے تلوار سے حملے کئے جا رہے تھے تو تلوار کا جہاد ہی بہت بڑی نیکی تھا۔ اور اُس میں بغیر کسی جائز عذر کے شامل نہ ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ لیکن مسیح موعود کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود ’’یَضَعُ الْحَرب‘‘ کرے گا۔ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم صفحہ 490 شائع کردہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) کیونکہ دینِ اسلام پر حملے کے طریق بدل جائیں گے۔ اسلام پر بحیثیت دین تلوار سے حملہ نہیں کیا جائے گا اور لٹریچر، پریس، میڈیا یا جو اَور اس قسم کے مختلف ذرائع ہیں، ان کے ذریعہ سے اسلام پر حملہ ہو گا۔ اس لئے مسیح موعود اور اُس کی جماعت بھی یہی ہتھیار استعمال کرے گی جس سے اُن پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اور اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ:

’دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 77)

گویا یہ تلوار کے جہاد کی نیکی جو کسی زمانے میں اس لئے جائز بلکہ ضروری تھی کہ اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کیا جا رہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی لیکن اب وہ نیکی نہیں رہی بلکہ منع ہو گئی اور حرام ہو گئی، اُس وقت تک جب تک کہ تلوار نہ اُٹھائی جائے، اُس وقت تک جب تک اسلام کے خلاف اسلام مخالف طاقتیں ہتھیار نہ اُٹھائیں۔ اب جو نیکی اور جائز جہاد ہے وہ قرآنِ کریم کی تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے۔ عِلم کا جہاد ہے۔ پریس، میڈیا اور لٹریچر کے ذریعہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے۔ اگر براہِ راست خود کوئی علمی جہاد میں حصہ نہیں لے رہا، اپنی کم علمی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، تو اشاعتِ لٹریچر اور تبلیغی سرگرمیوں کے لئے مالی قربانی کا جہاد ہے۔ لیکن یہ جہاد کرنے والا اگر اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کر رہا اور اس طرح اُن کا خیال نہیں رکھ رہا تو اُس کے لئے بڑی نیکی یہ جہادنہیں بلکہ بڑی نیکی اُن حقوق کی ادائیگی ہے جو اُس پر فرض ہیں۔ اور اُن کو اُن کے حق سے محروم کرنا، اُن کی تعلیم پر توجہ نہ دینا، اُس سے محروم رکھنا ایسے شخص کو پھر گناہ گار بنا دیتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باوجود جہاد کی فضیلت کے جیسا کہ مَیں نے بتایا آپ نے کسی کو بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت بتائی ہے۔ پس ہر شخص اور ہر موقع اور حالات کے لحاظ سے بڑا کام اور نیکی الگ ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غلط کاموں پر روپیہ لُٹانا ایک برائی ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے۔ آجکل تو جوئے کی مشینیں ہیں، مختلف قسم کے جوئے کی قسمیں ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو لاٹریوں کے بھی بڑے رسیا ہیں۔ جوئے کی مشینوں پر جاتے ہیں اور ویسے بھی جوأ کھیلتے ہیں۔ لیکن عام زندگی میں جھوٹ نہیں بولتے۔ عام آدمی کے ساتھ ظلم نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ لوگ ان برائیوں کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں لیکن جوئے اور غلط کاموں میں پیسے لٹانے اور ضائع کرنے کو یہ بُرا نہیں سمجھتے۔ تو ایسے شخص کے لئے غلط رنگ میں رقم لٹانا بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ باقی گناہ تو وہ پہلے ہی گناہ سمجھتا ہے۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اپنے لباس کو حیا دار نہیں رکھتی۔ باہر نکلتے ہوئے پردے کا خیال نہیں رکھتی۔ باوجود احمدی مسلمان ہونے کے اور کہلانے کے ننگے سر، بغیر حجاب کے، بغیر سکارف کے یا چادر کے پھرتی ہے۔ لباس چست اور جسم کی نمائش کرنے والا ہے۔ لیکن مالی قربانی کے لئے کہو، کسی چیریٹی میں چندے کے لئے کہو تو کھلا دل ہے، یا جھوٹ سے اُسے نفرت ہے اور برداشت نہیں کرتی کہ اُس کے سامنے کوئی جھوٹ بولے تو اس کے لئے بڑی نیکی چندوں میں بڑھنا یا بڑی نیکی جھوٹ سے نفرت نہیں بلکہ بڑی نیکی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنا ہے کہ اپنے لباس کو حیا دار بناؤ اور پردے کا خیال رکھو۔ جس کو وہ چھوٹی نیکی سمجھ کر توجہ نہیں کر رہی یہی ایک وقت میں پھر اُس کو بڑی برائی کی طرف بھی دھکیل دے گی۔ غرض کہ ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل نیکی اور بدی کی تعریف اُس کے لئے بتلا دیتے ہیں۔ پس جب تک یہ خیال رہے کہ فلاں بدی بڑی ہے اور فلاں چھوٹی ہے اور فلاں نیکی بڑی ہے اور فلاں نیکی چھوٹی ہے، اُس وقت تک انسان نہ بدیوں سے بچ سکتا ہے نہ نیکیوں کی توفیق پا سکتا ہے۔ ہمیشہ ہمارے سامنے یہ بات رہنی چاہئے کہ بڑی بدیاں وہی ہیں جن کے چھوڑنے پر انسان قادر نہ ہو۔ بہت مشکل پیش آتی ہے اور وہ انسان کی عادت میں داخل ہو گئی ہوں اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کو کرنا انسان کو مشکل لگتا ہو۔ یعنی بہت سی بدیاں ایک کے لئے بڑی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی اور بہت سی نیکیاں ایک کے لئے بڑی نیکی ہیں اور دوسرے کے لئے چھوٹی۔

پس اگر ہم نے اپنی عملی اصلاح کرنی ہے تو سب سے پہلے اس خیال کو دل سے نکالنا ہو گا کہ مثلاً زنا ایک بڑا گناہ ہے، قتل ایک بڑا گناہ ہے، چوری ایک بڑا گناہ ہے، غیبت ایک بڑا گناہ ہے اور ان کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ چھوٹے گناہ ہیں۔ پس اس خیال کو دل سے نکالنا ضروری ہے اور اس خیال کو بھی دل سے نکالنا ہو گا کہ روزہ بڑی نیکی ہے، زکوۃ بڑی نیکی ہے، حج بڑی نیکی ہے اور اس کے علاوہ جتنی نیکیاں ہیں، چھوٹی نیکیاں ہیں جس طرح عام مسلمانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال دل سے نہیں نکالتے تو ہمارا عملی حصہ کمزور رہے گا۔ عملی حصے کی مضبوطی اُس وقت آئے گی جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات کو سامنے رکھیں گے کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل نہ کرنے والا نجات کا دروازہ اپنے اوپر بند کرتا ہے۔ پس ہمیں غیروں کی طرح یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بعض نیکیاں بڑی ہیں اور بعض نیکیاں چھوٹی ہیں۔ اور اس معاملے میں اُن لوگوں کی جو دوسرے مسلمان ہیں، غُلو کی یہ حالت ہے کہ مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ سب سے بڑی نیکی ہے، لیکن نماز باجماعت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن روزہ بہت ضروری ہے، اس پر بڑی پابندی ہوتی ہے۔ جس پر زکوۃ فرض ہے، وہ زکوۃ بچانے کی کوشش تو کرے گا لیکن روزہ ضرور رکھے گا۔ کیونکہ اگر روزہ نہ رکھے تو اُس کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے۔

زکوٰۃ بچانے کا ایک وقت میں تو یہ حال تھا لیکن اب پتہ نہیں پاکستان میں کیا حال ہے۔ 1974ء کے بعد جب احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم قرار دیا گیا تو بعض غیر از جماعت جن کے بنکوں میں اکاؤنٹ تھے، تو اُن اکاؤنٹس سے کیونکہ حکومت سال کے آخر پر زبردستی زکوٰۃ لیتی ہے لیکن حکومت کے مطابق احمدیوں پر یہ واجب نہیں ہے کیونکہ غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ سو زکوٰۃ سے بچنے کے لئے بعض غیر از جماعت بھی بنک فارموں پر قادیانی یا احمدی لکھ دیا کرتے تھے۔ تو ان کی ایمان کی تو یہ حالت ہے کہ ویسے احمدی کافر ہیں لیکن اپنے پیسے بچانے کے لئے وقت آیا تو خود بھی اُن کافروں میں شامل ہو گئے۔ آجکل پتہ نہیں کیا صورتحال ہے۔ بہر حال ایک وقت میں ایسی صورتحال تھی۔ یہ صورتِ حال اس لئے ہے کہ نیکی اور بدی کے معیاروں کو مقرر کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں دیکھتے، اُس کے رسول کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ نام نہاد فقیہوں اور مفتیوں اور علماء کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر کے ایک سفر پر تھے اور اس حالت میں ایک موقع پیدا ہوا کہ آپ ایک جگہ تقریر فرما رہے تھے۔ تقریر کے دوران آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی تو ایک دوست نے یہ دیکھ کر چائے کی پیالی آپ کو پیش کی۔ آپ نے اُسے ہٹا دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر تکلیف محسوس ہوئی، اُس نے فکرمند ہوکے پھر چائے کی پیالی پیش کی۔ آپ نے ہٹا دیا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا کہ رہنے دو۔ لیکن کیونکہ تکلیف پھر ہوئی اور گلے میں خشکی کا احساس ہوا تو پھر اُس نے تیسری دفعہ چائے کی پیالی پیش کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے نہ لی تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں ریاء کر رہا ہوں اور سفر میں جو روزہ نہ رکھنے کا حکم اور سہولت ہے، اُس سے لوگوں کو دکھانے کے لئے فائدہ نہیں اُٹھا رہا۔ آپ نے ایک گھونٹ اس پیالی میں سے لے لیا۔ تو اس پر وہاں بیٹھے غیر از جماعت لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں روزہ نہیں رکھا ہوا۔ اُن لوگوں کے نزدیک روزے کی اہمیت یہ ہے کہ روزہ رکھ لو چاہے خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو۔ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے شایدنوّے فیصدنماز بھی نہیں پڑھتے ہوں گے، اُس کے بھی تارک ہوں گے اور ننانوے فیصد جھوٹ بولنے والے، دھوکہ فریب کرنے والے، مال لوٹنے والے تھے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُن میں سے ننانوے فیصد یقینا اُس وقت روزے دار بھی ہوں گے کیونکہ روزے کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ روزہ اُس طرح نہیں رکھتے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولتا ہے، غیبت کرتا ہے، گالی دیتا ہے، خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے، وہ صرف بھوکا پیاسا رہتا ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو مسلمانوں کی جو اکثریت ہے اس معیار کے مطابق بھوکی پیاسی رہتی ہے۔ مگر یہ بھوکا پیاسا رہنا اُن کے نزدیک بہت بڑی نیکی ہے اور اُن کا بیڑا پار کرنے کے لئے کافی ہے۔ یا چند مزیدنیکیوں کو جو اُن کے نزدیک بڑی ہیں اُس میں شامل کر لیں گے کہ اسی سے ہماری بخشش کے سامان ہو گئے۔ ایسے لوگ جو ہیں وہ نہ دنیا میں نیکیاں قائم کرنے والے ہو سکتے ہیں، نہ ہی وہ صحیح معیارِ گناہ قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے خود ساختہ بڑی نیکیوں اور چھوٹی نیکیوں اور بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کے معیار قائم کر لئے ہیں اور نتیجۃً وہ جو بھی اُن کی نیکی کی تعریف ہے، اُس کے مقابلے پر بڑی نیکی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جس بدی کو چھوٹا سمجھتے ہیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اُس کو نہ چھوڑنا یہی ہے کہ اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور یوں ایک برائی سے دوسری برائی میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے اُس نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جسے کرنا مشکل ہو اور وہ ہر ایک کے لئے مختلف ہے، اور اُس بدی کوبڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا مشکل ہو۔

پس اگر ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے تو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہماری خود ساختہ تعریفیں ہمیں نیکیوں پر قدم مارنے والا اور بدیوں سے روکنے والا نہیں بنائیں گی۔ اگر خود ہی تعریفیں کرنے لگ جائیں اور کچھ بدیاں چھوڑیں اور کچھ نہ چھوڑیں اور کچھ نیکیاں اختیار کریں اور کچھ نہ اختیار کریں تو بسا اوقات انسان اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ چھوٹی نظر آنے والی نیکیاں عدمِ توجہ کی وجہ سے نیکیوں سے بھی محروم کر دیتی ہیں اور اکثر معمولی نظر آنے والی بدیاں روحانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے طہارت اور پاکیزگی کے انعام سے انسان محروم رہ جاتا ہے۔ پھر بعض بدیوں کو چھوٹا سمجھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بدی کا بیج قائم رہتا ہے جو مناسب موقع اور وقت کی تلاش میں رہتا ہے اور موقع پاتے ہی باہر آ جاتا ہے۔

پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی ایک بدی یا بدیوں کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب سب مل کر بھر پور کوشش کریں۔ ایک معاشرہ ہے، جماعت ہے پھر جماعت کا ہر فرد جو ہے وہ اس کے لئے کوشش کرے۔ اگر ہر کوئی اپنی تعریف کے مطابق نیکی اور بدی کرے گا تو پھر ایک شخص ایک بات کو بدی سمجھ رہا ہو گا یا بڑی بدی سمجھ رہا ہو گا تو دوسرا اُس کو چھوٹی بدی سمجھ رہا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ تیسرا ان دونوں سے مختلف سوچ رکھتا ہو، تو پھر معاشرے سے بدیاں ختم نہیں ہو سکتیں۔ بدیاں تبھی ختم ہوں گی جب سب کی سوچ کا دھارا ایک طرف ہو۔ مثلاً مسلمانوں کی اکثریت جو ہے وہ تمام گناہوں سے بدتر بلکہ شرک سے بھی بڑا (گناہ) سؤر کا گوشت کھانے کو سمجھتی ہے۔ ہر بدمعاش، چور، زانی، لٹیرا یہ سب کام کرنے کے بعد اپنے آپ کو مسلمان کہے گا، لیکن اگر کہو کہ سؤر کھا لو تو کہے گا میں مسلمان ہوں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے، مَیں کس طرح سؤر کھا سکتا ہوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ سؤر کھانا گناہ ہے اور حرام ہے۔ اس معاشرے میں رہنے اور پیدا ہونے اور پلنے اور بڑھنے کے باوجود یہاں کے جو مسلمان ہیں، اُن میں ننانوے اعشاریہ نو فیصد مسلمان جو ہیں سؤر کے گوشت سے کراہت کرتے ہیں۔ پس یہ اُس احساس کی وجہ سے ہے جو اجتماعی طور پر مسلمانوں میں پیدا کیا گیا ہے۔

پس برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو قائم کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کے احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ معمولی نیکی بھی بڑی نیکی ہے اور معمولی بدی بھی بڑا گناہ ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا اور اُس کے لئے کوشش نہیں ہوگی معاشرے میں بدیاں قائم رہیں گی اور عملی اصلاح میں روک بنتی رہیں گی۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 342تا 346 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

پھر اعمال کی اصلاح میں جو دوسری وجہ ہے، وہ ماحول ہے یا نقل کا مادّہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادّہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے۔ اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا مادّہ ہے۔ اور یہ مادّہ جو ہے یقینا ہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے۔ ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیرِ اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔ لیکن اگر جھوٹ، لڑائی جھگڑا، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں، جماعتی وقار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے۔ باہر جاتا ہے تو ماحول میں، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے بار بار مَیں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں۔ پھر یہ بات بھی بہت توجہ طلب ہے کہ بچوں کی تربیت کی عمر انتہائی بچپن سے ہی ہے۔ یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہو گا تو پھر تربیت شروع ہو گی۔ دو سال، تین سال کی عمر بھی بچے کی تربیت کی عمر ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، بچہ گھر میں ماں باپ سے اور بڑوں سے سیکھتا ہے اور اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کی نقل کرتا ہے۔ ماں باپ کو کبھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، اُسے کیا پتہ؟ اُسے ہر بات پتہ ہوتی ہے اور بچہ ماں باپ کی ہر حرکت دیکھ رہا ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر وہ اُس کے ذہن میں بیٹھ رہی ہوتی ہے۔ اور ایک وقت میں آ کے پھر وہ اُن کی نقل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بچیاں ماؤں کی نقل میں اپنی کھیلوں میں اپنی ماؤں جیسے لباس پہننے کی کوشش کرتی ہیں، اُن کی نقّالی کرتی ہیں۔ لڑکے باپوں کی نقل کرتے ہیں۔ جو برائیاں یا اچھائیاں ماں باپ میں ہیں، اُن کی نقل کریں گے۔ مثلاً جب یہ بڑے ہوں گے اور ان کو پڑھایا جائے گا کہ یہ برائیاں ہیں اور یہ اچھائیاں ہیں، جیسے مثلاً جھوٹ ہے، یہ بولنا برائی ہے، وعدہ پورا کرنا اچھائی ہے۔ لیکن ایک بچہ جس نے اپنے ماں باپ کی سچائی کے اعلیٰ معیار نہیں دیکھے، جس نے ماں باپ اور گھر کے بڑوں سے کبھی وعدے پورے ہوتے نہیں دیکھے، وہ تعلیم کے لحاظ سے تو بیشک سمجھیں گے کہ یہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور وعدے پورے کرنا نیکی ہے اور اچھائی ہے لیکن عملاً وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اپنے گھر میں اس کے خلاف عمل دیکھتے رہے ہیں۔ بچوں کی عادتیں بچپن سے ہی پختہ ہوجاتی ہیں، اس لئے وہ بڑے ہو کر اس کو نہیں تسلیم کریں گے۔ اگر ماں کو بچہ دیکھتا ہے کہ نماز میں سست ہے اور باپ گھر آ کر پوچھے اگر کہ نماز پڑھ لی تو کہہ دے کہ ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گی تو بچہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا اچھا جواب ہے۔ مجھ سے بھی اگر کسی نے پوچھا کہ نمازپڑھ لی تو مَیں بھی یہی جواب دے دیا کروں گا۔ ابھی نہیں پڑھی، پڑھ لوں گا۔ یا یہ جواب سنتا ہے کہ بھول گئی، یا یہ جواب سنتا ہے کہ پڑھ لی، حالانکہ بچہ سارا دن ماں کے ساتھ رہا اور اُسے پتہ ہے کہ ماں نے نماز نہیں پڑھی۔ تو بچہ یہ جواب ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اسی طرح باپ کی غلط باتیں جو ہیں وہ بچے کے ذہن میں آ جاتی ہیں اور اُن کے جو بھی جواب غلط رنگ میں باپ دیتا ہے، وہ پھر بچہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ تو ماں باپ دونوں بچے کی تربیت کے لحاظ سے اگر غلط تربیت کر رہے ہیں یا غلط عمل کر رہے ہیں تو اُس کو غلط رنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اپنے عمل سے غلط تعلیم اُس کو دے رہے ہیں۔ اور بچہ پھر بڑے ہو کے یہی کچھ کرتا ہے، عملاً یہی جواب دیتا ہے۔

اسی طرح ہمسایوں، ماں باپ کی سہیلیوں اور دوستوں کے غلط عمل کا بھی بچے پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے۔ پس اگر اپنی نسل کی، اپنی اولاد کی حقیقی عملی اصلاح کرنی ہے تاکہ آئندہ عملی اصلاح کا معیار بلند ہو تو ماں باپ کو اپنی حالت کی طرف بھی نظر رکھنی ہو گی۔ اور اپنی دوستیاں ایسے لوگوں سے بنانے کی ضرورت ہو گی جو عملی لحاظ سے ٹھیک ہوں۔ تو بہر حال بچپن میں نقل کی بھی عادت ہوتی ہے اور ماحول کا اثر بھی ذہن میں بیٹھ جانے والا ہوتا ہے۔ اگر بچے کو نیک ماحول میں رکھ دیں گے تو نیک کام کرتا چلا جائے گا۔ اگر بُرے ماحول میں رکھ دیں گے تو بُرے کام کرتا چلا جائے گا۔ اور بُرے کام کرنے والے کو جب بڑے ہو کر سمجھایا جائے گا کہ یہ بری چیز ہے اُسے مت کرو تو اُس وقت وہ اُن کے اختیار سے نکل چکا ہو گا۔ پھر ماں باپ کو شکوہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے۔

پس ماں باپ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل سے بچوں کو بھی نمازی بنائیں۔ اپنے عمل سے بچوں کو بھی سچ پر قائم کریں۔ اپنے عمل سے دوسرے اعلیٰ اخلاق بھی اُن کے سامنے رکھیں تا کہ وہ بھی اُن اخلاق کو اپنانے والے ہوں۔ جھوٹی قسمیں کھانے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں تا کہ بچے بھی بچ سکیں۔ عملی طور پر بچپن میں پیدا کئے گئے خیالات کا کس قدر اثر رہتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی کی مثال دی ہے جو سکھوں کے ایک رئیس خاندان سے تھے اور احمدی ہو گئے تھے، گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور اُن کے ساتھیوں نے اُن کی چِڑ بنا لی تھی کہ ہم نے آپ کو گائے کا گوشت ضرور کھلانا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مہمان خانے میں آگے آگے وہ تیز تیز چلے جا رہے ہیں اور پیچھے پیچھے اُن کے دوست کہہ رہے ہیں، ہم نے آپ کو آج یہ بوٹی ضرور کھلانی ہے۔ اور وہ ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ خدا کے لئے یہ نہ کرو۔ اور بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کو یا کسی اَور نومسلم کو کسی نے کھلا دی تو عملاً اتنی کراہت آئی کہ اُس نے اُس کی قَے کردی۔ اُس کو اُلٹی آگئی۔ تو یہ بچپن سے گائے کے گوشت سے نفرت پیدا کرنے کا نتیجہ ہے کہ بڑے ہو کر مسلمان ہو کر پھر بھی اُس سے کراہت ہے۔ اب عقیدہ کے لحاظ سے بیشک انہوں نے اپنا عقیدہ بدل لیا۔ نیا عقیدہ اختیار کر لیا لیکن ماں باپ نے عملی نمونے سے اُن کو گائے کے گوشت سے جو نفرت دلوا دی تھی وہ پھر بھی دُور نہ ہوئی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عمل چونکہ نظر آنے والی چیز ہے اس لئے لوگ اُس کی نقل کر لیتے ہیں اور یہ بیج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لیکن عقیدہ کیونکہ نظر آنے والی چیز نہیں ہے اس لئے وہ اپنے دائرے میں محدود رہتا ہے۔ اور اس کی مثال اس طرح ہی ہے کہ عقیدہ ایک پیوندی درخت ہے۔ درخت کو جس طرح پیوند لگائی جائے تو پھر اُس سے نئی شاخ پھوٹتی ہے، نئی قسم کا پھل نکل آتا ہے۔ اُسے خاص طور پر لگایا جائے تو لگتا ہے۔ عمل کی مثال تخمی درخت کی طرح ہے یعنی جو بیج سے پھیلتا ہے۔ آپ ہی آپ اس کا بیج زمین میں جڑ پکڑ کر اُگنے لگ جاتا ہے جب بھی موسم سازگار ملتا ہے۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 346تا 350 خطبہ جمعہ فرمودہ 29مئی 1936ء)

پس بُرے عمل کا پھیلنا بہت آسان ہے اور یہ معاشرے میں اپنوں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے اور غیروں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے۔ یعنی نیکیوں اور بدیوں کے پھیلنے میں معاشرے کا بہت زیادہ اثر ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس بات کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ بعض اور اسباب بھی ہیں جو انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف اور اپنے بچوں کی عملی اصلاح کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

آج ایک افسوسناک خبر بھی ہے۔ جمعہ کی نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ بھی پڑھوں گا جو مکرم خالد احمد البراقی مرحوم سیریا کا ہے۔ خالد براقی صاحب انجینئر تھے۔ 37 سال ان کی عمر تھی۔ ان کے والدین کو 1986ء میں دمشق کے نواحی علاقے کی ایک بستی ’حوش عرب‘ میں سب سے پہلے بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت کرنے کے بعد ان کے والد صاحب کو مخالفت اور دھمکیوں کے ساتھ 1989ء میں چھ ماہ کی جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اسی طرح حالیہ فسادات میں جو شام میں ہو رہے ہیں، 2012ء اور 2013ء میں بھی دو دفعہ ان کے والد کو گرفتار کیا گیا۔ خالد براقی صاحب کے سب بہن بھائی بچپن سے ہی احمدی ہیں۔ انہیں 18ء ستمبر 2013ء کی شام کو وہاں کی جو انٹیلی جنس کی ایجنسی ہے، اُس کی کسی برانچ نے گرفتار کیا جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکیں۔ یہاں تک کہ 9؍ دسمبر 2013ء کو ان کے والد کو ملٹری انٹیلی جنس کی ایک برانچ میں بلایا گیا اور وہاں اُن کے بیٹے کے بعض کاغذات وغیرہ تھما دئیے اور بتایا کہ اس کی 28؍ اکتوبر 2013ء کو وفات ہو گئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی لاش بھی ان کے والد صاحب کو نہیں دی گئی۔ غالباً یہی امکان ہے کہ وہاں اُن کو ٹارچر دیا گیا جس کی وجہ سے اُن کی وفات ہوئی۔ خالد البراقی صاحب کی نیکی، تقویٰ، حُسنِ خلق اور دینی تعلیمات کی پابندی کی گواہی وہاں سے بہت سارے احمدیوں اور غیر احمدیوں نے دی ہے۔ تلاوتِ قرآنِ کریم کے وقت ان کی آواز غیر معمولی اچھی ہوتی تھی۔ بہت نرم دل اور لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے اور ہر مفوضہ کام کو نہایت خوشدلی کے ساتھ انجام دینے والے۔ تعاون، اخلاص اور نظامِ جماعت اور خلافت سے محبت ان کے خصائل میں شامل تھیں۔ اپنے وطن اور تمام لوگوں سے محبت رکھنے والے وجود تھے۔ ایک مقامی جماعت کے صدر بھی رہے۔ اس وقت سیکرٹری تعلیم القرآن اور وقفِ عارضی کی خدمات بجا لا رہے تھے۔ موصی تھے۔ باقاعدہ چندوں کی ادائیگی کرنے والے تھے۔ ان کی بیوی بھی احمدی ہیں اور تین بچے ہیں۔ بیٹی شروب اور بیٹا احمد، دونوں کی عمر چھ سال سے کم ہے اور چھوٹا بچہ حسام الدین جو اُن کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل پیدا ہوا تھا، وقفِ نو کی تحریک میں شامل ہے۔

اپنی فیس بُک پر گرفتاری سے پہلے خالد البراقی صاحب نے یہ لکھا تھاکہ:

’’وطن کی محبت جزوِ ایمان ہے۔ یا رب ہمارے ملک کی حفاظت فرما اور اُسے تمام مصائب سے رہائی عطا فرما اور اُسے پہلے سے زیادہ مضبوط اور زیادہ خوبصورت بنا اور اس کے اہل کو اپنا زیادہ مقرب بنا لے۔ خدایا! اس ملک کے باسیوں کے دل ایک دوسرے کے قریب کر دے۔ اُنہیں آپس میں محبت کرنے والا بنا دے۔ اے خدایا! تو ہمیشہ کے لئے امن اور سلامتی اور خیر کے پھیلانے کے لئے اس ملک کے نیک لوگوں کی مدد فرما‘‘۔

اللہ کرے یہ دعا اس کے ملک کے لئے پوری ہو اور تمام امتِ مسلمہ کے لئے بھی پوری ہو تا کہ وہاں کے فساد ختم ہوں۔ طاہر ندیم صاحب کہتے ہیں خالد البراقی صاحب کا اکثر ای میل سے رابطہ رہتا تھا۔ شام میں قیام کے دوران ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ یہ نوجوان تواضع اور خاکساری کی بڑی مثال تھے۔ نہایت سادہ، نیک، ہنس مکھ۔ دمشق میں جماعت کے ہی ایک مکان میں رہتے تھے جسے بطور مرکز استعمال کیا جاتا تھا۔ اُنہیں علم کی اس قدر پیاس تھی کہ کہتے ہیں اکثر اپنے ایک کزن کے ساتھ ہمارے پاس آ جایا کرتے تھے۔ علمی موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں۔ جو بھی کوئی جماعتی کتاب ملتی، بڑی محبت اور تڑپ کے ساتھ اُس کا مطالعہ کرتے۔ جماعت کی پرانی لائبریری میں سے بعض عربی کتب اور رسالہ البشریٰ کے قدیم شماروں میں سے مضامین نکالے، پھر کمپیوٹر پر دوبارہ لکھے اور کہتے ہیں پھر ہمیں بھی ارسال کئے۔ مختلف کتابوں کے جو ترجمے ہو رہے ہیں ان تراجم پر نظرِ ثانی میں معاونت کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہری محبت اور خلافت سے بھی عشق تھا۔ یومِ مسیح موعود علیہ السلام کے موقع پر نشر ہونے والے عربی پروگرام کو سن کر بہت جذباتی انداز میں انہوں نے اپنا پیغام بھیجا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک قصیدہ بھی نہایت پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا۔ یکم اپریل 2012ء کو انہوں نے مجھے ایک خط لکھا تھا جس کے آخر پر اپنا 2006ء کا ایک رؤیا لکھا تھا۔ اس رؤیا سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بھاری ذمہ داری اور اہم امانت اُن کے سپرد کی جائے گی اور رؤیا میں اُنہیں حق پر قائم رہنے اور کوئی کمزوری نہ دکھانے کی تاکید کی گئی تھی۔ اس رؤیا کے بعد اُن کو جماعت کا صدر بنایا گیا تو سمجھے کہ شاید یہ رؤیا پوری ہو گئی ہے۔ لیکن رؤیا میں حق پر قائم رہنے اور کمزوری نہ دکھاتے ہوئے جان دینے کی تلقین کی گئی تھی۔ تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسی حالت میں اُنہوں نے اپنی جان دی کہ دین پر قائم رہے اور اپنے ایمان میں لغزش نہیں آنے دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔

وہاں ہمارے ایک اور مبلغ انجم پرویز صاحب رہے ہیں وہ کہتے ہیں بڑی محنت، اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتے تھے اور کہتے تھے میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ میں احمدی ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ احمدی سچے، دیانتدار، محنتی اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ تبلیغ کا انہیں بڑا شوق تھا اور کام پر چونکہ تبلیغ کرنا منع ہے اس لئے کہتے تھے کہ میں احمدی اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ لوگوں کو خود توجہ پیدا ہو۔ وطن سے بڑی محبت کرنے والے تھے جیسا کہ اُن کے اس بیان سے بھی ظاہر ہو گیااور اپنے دوستوں اور ہم جلیسوں کو بھی یہ سمجھایا کرتے تھے کہ وطن سے محبت کرو کیونکہ یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے اور میں نے ان حالات پر جو خطبات دئیے ہیں، وہ خطبات بھی انہوں نے اپنے دوستوں کو سنائے اور اُن کو آمادہ کیا کہ تشدد کی زندگی ختم کرو اور پُر امن شہری بن کے رہو۔ لیکن بعض بدفطرت جو تھے ان کے خلاف تھے۔ لگتا ہے حکومت کے انہی کارندوں نے اُن پر ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے اُن کو یہ شہادت کا رُتبہ نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کے والدین کو بھی صبر عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ دسمبر 2013ء شہ سرخیاں

    اعمال کی اصلاح کے بارے میں جو چیزیں روک بنتی ہیں یا اثر انداز ہوتی ہیں، اُن میں سے سب سے پہلی چیز لوگوں کا یہ احساس ہے کہ کوئی گناہ بڑا ہے اور کوئی گناہ چھوٹا۔

    ہر نیکی اور گناہ کا معیار ہر شخص کی حالت کے مطابق ہے اور مختلف حالتوں میں مختلف لوگوں کے عمل اُس کے لئے نیکی اور بدی کی تعریف بتلا دیتے ہیں۔ پس جب تک یہ خیال رہے کہ فلاں بدی بڑی ہے اور فلاں چھوٹی ہے اور فلاں نیکی بڑی ہے اور فلاں نیکی چھوٹی ہے، اُس وقت تک انسان نہ بدیوں سے بچ سکتا ہے نہ نیکیوں کی توفیق پا سکتا ہے۔ ہمیشہ ہمارے سامنے یہ بات رہنی چاہئے کہ بڑی بدیاں وہی ہیں جن کے چھوڑنے پر انسان قادر نہ ہو۔ اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کو کرنا انسان کو مشکل لگتا ہو۔

    اگر ہم نے اپنی اصلاح کرنی ہے تو ہمیشہ یہ بات سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر نیکی کو اختیار کرنے اور ہر بدی سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہماری خود ساختہ تعریفیں ہمیں نیکیوں پر قدم مارنے والا اور بدیوں سے روکنے والا نہیں بنائیں گی۔

    کسی ایک بدی یا بدیوں کا خاتمہ تبھی ہو سکتا ہے جب سب مل کر بھر پور کوشش کریں۔ جماعت کا ہر فرد جو ہے وہ اس کے لئے کوشش کرے۔

    پس برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو قائم کرنے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کے احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ معمولی نیکی بھی بڑی نیکی ہے اور معمولی بدی بھی بڑا گناہ ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا اور اُس کے لئے کوشش نہیں ہوگی معاشرے میں بدیاں قائم رہیں گی اور عملی اصلاح میں روک بنتی رہیں گی۔

    بچوں کی تربیت کی عمر انتہائی بچپن سے ہی ہے۔ یہ خیال نہ آئے کہ بچہ بڑا ہو گا تو پھر تربیت شروع ہو گی۔

    بُرے عمل کا پھیلنا بہت آسان ہے اور یہ معاشرے میں اپنوں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے اور غیروں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے۔ یعنی نیکیوں اور بدیوں کے پھیلنے میں معاشرے کا بہت زیادہ اثر ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس بات کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

    حضرت مصلح موعودؓ کے ایک خطبہ کے حوالہ سے عملی اصلاح کی راہ میں حائل اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے خبر دار رہنے اور ان وجوہات کو دور کرنے کے سلسلہ میں اہم نصائح۔

    مکرم خالد البراقی صاحب آف سیریا کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 13دسمبر 2013ء بمطابق 13 فتح 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور