سال ۲۰۱۳ء میں جماعتی ترقی، مالی قربانی اور وقف جدید

خطبہ جمعہ 3؍ جنوری 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے اداروں کی طرف سے بھی، جماعتوں کی طرف سے بھی، افراد کی طرف سے بھی مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ ان سب کو مبارک ہو اور جماعت کو مبارک ہو اور اس دعا کے ساتھ یہ مبارکباد ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو اپنی رحمتوں، فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے۔ اور یہ دعا ہر احمدی کی یقینا ہے اور ہونی چاہئے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں، برکتوں اور رحمتوں کی خواہش اور دعا کئے بغیر یہ مبارکباد دیتے ہیں تو صرف رسماً مبارکباد دینا تو بے فائدہ ہے اور دنیا داروں کی باتیں ہیں۔ لیکن یہ خواہش بھی بے کار ہو گی اور دعا بھی لا حاصل ہو گی اگر ہم اپنی اُن صلاحیتوں اور استعدادوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے بروئے کار نہ لائیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں ودیعت فرمائی ہوئی ہیں۔ اُن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں جن پر عمل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ ہمارا صرف نئے سال کی رات کو اجتماعی نفل پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اگر ہمیں ان نوافل کی ادائیگی کے ساتھ یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم نے حتی الوسع یہ کوشش کرنی ہے کہ نوافل کی ادائیگی کرتے رہیں۔ اپنی عبادت کے معیار کو بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بہتر بنانا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر اس سوچ کے ساتھ ہم نے دو دن پہلے اپنے نئے سال کا آغاز کیا ہے اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک کی یہ سوچ ہو۔ اگر نہیں ہے تو خدا کرے کہ ہماری یہ سوچ ہو جائے۔ یہی سوچ ہے جو اللہ تعالیٰ کے گزشتہ فضلوں کا بھی شکر گزار بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ہم پر جو احسانات اور انعامات کئے ہیں، اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بناتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور ہمارا خالص ہو کر جھکنا ہی ہماری زندگی کا مقصد ہے جواللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ پس یہ روح ہے جو ہماری ان مبارکبادوں کے پیچھے کارفرما ہونی چاہئے۔

جب ہم گزشتہ سال کا جائزہ لیتے ہیں تو جماعتی لحاظ سے جہاں بعض مشکلات بھی ہیں لیکن پھر بھی 2013ء کا سال ہمیں اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس اگر ہم نے یہ فضل جاری رکھنے ہیں تو عاجزی، محنت اور دعا کے ساتھ ان فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کو جن کے سپرد بعض جماعتی خدمات ہوئی ہوئی ہیں۔ وہ خاص طور پر اس بات کو مدّنظر رکھیں کہ یہ فضل جذب کرنے کے لئے ہمیں عاجزی، انکساری اور دعا اور محنت کی ضرورت ہے۔

بعض لوگ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمیں جماعت میں اتنے عہدوں پر کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ بے شک یہ فقرہ اُن کے منہ سے نکلتا ہے کہ کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے لیکن اس کام کی توفیق کا حق تب ادا ہو گا جب ذہن کے کسی گوشے میں بھی عہدہ کا تصور پیدا نہ ہو بلکہ خدمتِ دین کا تصور پیدا ہو۔ خدمتِ دین کو اک فضلِ الٰہی سمجھیں۔ یہ خیال دل میں رہے۔ اپنی اَنا، فخر اور رعونت اور اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھنے کا خیال بھی دل میں پیدا نہ ہو۔ جو لوگ اس سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور عاجزی کو ہر وقت اپنے سامنے رکھتے ہیں، اُن کے کاموں میں اللہ تعالیٰ پھر بے انتہا برکت بھی ڈالتا ہے۔ اُن کے ساتھ کام کرنے والے بھی بھرپور طریق سے اُن کے مددگار بن کر جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور افرادِ جماعت بھی اُن کی ہر بات کو دل کی خوشی سے قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے تمام عہدیدار یا خدمت سرانجام دینے والے بھی اپنے آپ میں یہ عاجزی، انکساری، اخلاص، محنت اور دعا کی حالت پیدا کرنے والے ہوں اور پہلے سے بڑھ کر پیدا کرنے والے ہوں۔ اور جب یہ ہوگا تو تبھی وہ یقینا خلیفۂ وقت کے بھی سلطانِ نصیر بننے والے ہوں گے۔ اور افرادِ جماعت بھی وفا کے ساتھ سلسلہ کے کاموں کو ہر دوسرے کام پر مقدم کرنے والے ہوں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہمیشہ دیکھتے چلے جانے والے ہوں۔ جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ ہمارا کام حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ اُس کام کو آگے بڑھانا ہے جو اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کا آپ کے سپرد ہوا ہے۔ بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ دنیا کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام جماعت سرانجام دے رہی ہے۔ مشنز کی تعمیر، مساجد کی تعمیر، تبلیغ کا کام، لٹریچر کی تیاری اور اشاعت، مبلغین اور مربیان کو تیار کرنا اور میدانِ عمل میں بھیجنا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کر رہی ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہماری زندگی کا مقصد عبادت کرنا ہے۔ اور ایک مسلمان مرد پر نماز باجماعت فرض ہے اور باجماعت نماز کے لئے مساجد اور مناسب جگہوں کی تعمیر اور انتظام بھی بڑا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بے شمار فضل گزشتہ سال جماعت پر فرمائے، اُن میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا فضل ہے کہ دنیا میں ہمیں مساجد بنانے کی توفیق ملی اور مساجد کو آباد کرنے کی توفیق ملی۔ گو کہ یورپ میں بھی اور آسٹریلیا میں بھی، فار ایسٹ (Far East) میں بھی اور باقی علاقوں میں بھی لیکن افریقہ اور انڈیا میں خاص طور پر اس سلسلے میں بہت کام ہوا ہے۔ اس کا مختصر جائزہ بھی میں پیش کر دیتا ہوں۔ 2013ء کے سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 136 باقاعدہ مساجد اور انڈیا میں بعض چھوٹے چھوٹے گاؤں میں فوری طور پر لکڑی اور ٹین سے عارضی مسجدیں یا شیڈ (Shed) بنائے گئے ہیں ان کی تعداد 22 تھی۔ اور 258 نئی مساجد ملیں۔ یہ مساجد اس طرح ملیں کہ تبلیغ کا جو کام جماعت کر رہی ہے، اُس کے ذریعہ سے جو ائمہ جماعت میں شامل ہوئے اُن کے ساتھ اُن کی مساجد بھی آئیں اور لوگ بھی شامل ہوئے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا زیادہ کام افریقہ اور انڈیا میں ہوا ہے۔ 158 مساجد کی جو میں نے بات کی ہے ان میں سے 102 باقاعدہ مساجد افریقہ میں بنی ہیں اور انڈیا میں مسجد کے لئے 22 شیڈ (Shed) اس لئے بنائے گئے ہیں تا کہ فوری ضرورت پوری ہو۔ اور افریقہ میں اس وقت 41 مساجد زیرِ تعمیر ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سال باقی ممالک میں بھی مسجدیں تعمیر ہوئیں اور ہو بھی رہی ہیں۔ اسی طرح مشن ہاؤسز ہیں۔ 121 مشن ہاؤسز، مرکز تعمیر ہوئے جن میں سے 77 افریقہ میں اور پانچ انڈیا میں۔ انڈیا بھی کافی وسیع ملک ہے اور افریقہ تو براعظم ہے۔ اُس میں بھی ایسٹ اور ویسٹ میں زیادہ تر ہمارے چھ، سات، آٹھ ممالک ہیں، جہاں جماعت پھیل رہی ہے اور بڑی تیزی سے وہاں کام ہو رہا ہے۔

پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمارا کام اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کا پرچار کرنا ہے تا کہ دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتہ چلے اور ہمارے مبلغین اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ جب مختلف ممالک میں میرے دورے ہوتے ہیں تو اُن کے ذریعہ سے بھی ایک حد تک جماعت کا تعارف ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیم کا دنیا کو پتہ چلتا ہے اور پھر اس تعارف کو بڑھاتے ہوئے جومبلغین ہیں، ان میں بعض تو ایسے ہیں جو مستقل ملکی اخباروں میں کالم لکھتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو میرے خطبات کے حوالے سے اخباروں میں اسلام کی تعلیم کے بارے میں مستقل کالم لکھ رہے ہیں۔ تو یہ پیغام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہا ہے اور گزشتہ سال میں اس کو بہت زیادہ وسعت ملی ہے۔

دورے کی میں نے بات کی ہے۔ پہلے دوروں کے بعد مَیں بتا بھی چکا ہوں کہ امریکہ میں جو مَیں نے پچھلے سال دورے کئے اُس میں مجموعی طور پر بارہ ملین سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ کینیڈا کے دورے میں دو شہروں کے دورے کئے اور ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔ ان دونوں ممالک میں اس طرح مجموعی طور پر تقریباً دو کروڑ افراد تک پیغام پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس لحاظ سے بھی بے شمار فضل ہیں کہ احمدیت کا پیغام پہنچانے کے نئے سے نئے راستے کھل رہے ہیں۔ میرے دوروں کے ذریعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ پیغام پہنچانے کے نئے راستے کھلے ہیں اور اُنہیں پھر مبلغین نے مزید وسعت دی ہے۔ جو active مبلغ ہیں اُن کو ایک لگن ہے، وہ پھراس کام کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس میں پھراُن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیابیاں بھی مل رہی ہیں۔ اسی طرح جرمنی کے دوروں کے دوران، گزشتہ سال میں نے شاید دودورے کئے تھے، مساجد کے سنگِ بنیاد رکھے اور جلسے میں شامل ہوا تھا تو وہاں اخباروں اور ریڈیو سٹیشنز اور ٹی وی چینلز نے جو کوریج دی ہے وہ صرف جرمنی تک ہی نہیں، بلکہ اُس میں آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے مشترکہ ٹی وی چینل بھی تھے۔ اور اس طرح مجموعی طور پر جو جرمنی کے سفر ہوئے ان میں چار ملین افراد تک پیغام پہنچا۔ پھر سنگاپور ہے، آسٹریلیا ہے، نیوزی لینڈ ہے، جاپان ہے۔ ان کے دورے کے دوران وسیع پیمانے پر میڈیا نے کوریج دی اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ تین کروڑ افراد تک پیغام پہنچا۔

تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ انسانی کوشش سے یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ انسانی کوشش کا تو یہ حال ہے کہ آسٹریلیا میں جو ہمارے سیکرٹری خارجہ تھے یا پریس کے ساتھ ان کا تعلق تھا، انہوں نے وہاں کا جو صوبائی اخبار تھا اُس کے نمائندے کو ایک انٹرویو لینے کے لئے کہا۔ اُس نے کہا مَیں انٹرویو کے لئے آ جاؤں گا اور عین وقت پر اُس نے معذرت کر لی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ اُس نے معذرت کی اور پندرہ منٹ کے بعد جو وہاں کا نیشنل اخبار ہے اُس سے رابطہ ہوا اور اس طرح لگتا تھا کہ وہ نمائندہ اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کب مجھے پتہ لگے کہ آسٹریلیا کا میرا دورہ ہے اور کب میں آؤں، اور پندرہ منٹ کے نوٹس کے بعد وہ پہنچ گیا۔ تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے ہمیں دکھاتا ہے۔ ورنہ اُن کو امیدنہیں تھی کہ اتنے شارٹ نوٹس پر کوئی نمائندہ آئے گا اور انٹرویو لے گا اور وہ بھی نیشنل اخبار کانمائندہ اور پھر نیشنل اخبار میں اس کی اشاعت بھی ہو جائے گی۔

جرمنی کی تاریخ میں بھی پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی۔ آسٹریلیا کے ٹی وی کے نیشنل اور انٹرنیشنل چینل جو ہیں اُن پر خبریں نشر ہوئیں اور جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا تھا چھیالیس ممالک میں یہ خبر گئی۔ نیوزی لینڈ کے نیشنل ٹیلیویژن نے خبر دی۔ اُن کاماؤری جو قبیلہ ہے اُن کے ٹی وی چینل نے خبریں دیں۔ جاپان کا ایک اخبار ہے جس کی سرکولیشن بیس ملین یا دو کروڑ ہے، انہوں نے میرا انٹرویو لیااور خبر دی، پھر یہی نہیں بلکہ انہوں نے بعد میں وہاں کے مشنری انچارج کا بھی انٹرویو لیا اور دوبارہ پھر خبر شائع کی اور اسلام کے متعلق سوالات کئے۔ اور وہاں جو ہماری مسجد بن رہی ہے، پہلی مسجد ہے، اُس کے بارے میں بھی خبریں شائع کیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جگہ مل گئی ہے جو بڑی اچھی وسیع جگہ ہے اور ایک ہال بھی اُس میں تعمیر ہوا ہوا ہے۔ اور اتفاق یہ ہے کہ ہال کا رُخ جو ہے وہ بالکل قبلہ رُخ ہے۔ اس لئے وہاں اُس کو بدلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بہر حال اس مسجد کے بننے سے جاپان میں بھی اسلام کا تعارف احمدیت کے حوالے سے بڑھ رہا ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسجد اور دورے کی وجہ سے صرف یہ نہیں کہ وقتی طور پر توجہ پیدا ہوئی اور قصہ ختم ہو گیا، بلکہ بعد میں بھی وہاں انہوں نے مشنری کا انٹرویو لیا اور اُس سے جو پہلے خبریں لگی تھیں یا دی گئی تھیں اُن میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل بے شمار ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے دنیا میں میرے دوروں کی وجہ سے اٹھارہ کروڑ چھبیس لاکھ تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اسی طرح اس سال میں دس سو اٹھاسی اخبارات کے ذریعہ سولہ کروڑ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے اتنے وسیع پیمانے پر احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کا انتظام فرمایا۔

افریقہ کے ممالک میں جو کام ہو رہا ہے اس کے علاوہ ہے۔ وہاں بھی بڑے وسیع پیمانے پر کام ہو رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ سے وہاں کروڑوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا ہے۔ گھانا میں وہاں کے سرکاری ٹی وی نے جو گھانا براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا ٹی وی ہے، ہمارے ایم ٹی اے کے پروگرام دینے شروع کئے ہیں۔ جب 2013ء کاجلسہ ہوا ہے تو اُس کے پروگرام انہوں نے دکھائے اور یہ جوپروگرام ہیں یہ سیٹلائٹ کے ذریعہ گھانا کے علاوہ ہمسایہ ملکوں میں بھی جا رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے راستے کھول رہا ہے۔

اس سال میں جو میری مختلف ریسپشنز ہوئی ہیں اُن میں شامل ہونے والے بھی بڑے متاثر ہوئے۔ پڑھا لکھا طبقہ جو سیاستدان اور پالیسی بنانے والے تھے اُن کو جب اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتہ چلا تو اُن کے لئے یہ تصور بالکل نیا تھا۔ جبکہ یہ تصور نہیں، تعلیم ہے اور حقیقت ہے۔ اُن کے لئے بڑی حیرت والی بات تھی کہ اسلام کی اس طرح کی تعلیم بھی ہے۔ پس کن کن فضلوں کو انسان گنے۔

بعض منافق طبع لوگ اس بارے میں یہ بھی باتیں کر دیتے ہیں کہ یہ فلاں کے ذریعہ سے ہوا یا اتنا خرچ کیا گیا تو ہوا۔ بہر حال جماعت میں چند ایک لوگ ہی ایسے ہیں۔ نہ تو اس جماعت کے پیغام پہنچانے کے لئے کسی شخص کی ضرورت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور نہ خرچ کیا جاتا ہے جس طرح لوگوں میں بلا وجہ کی افواہیں پھیلانے والے بعض پھیلا دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے بھی جماعت کے افراد کو ہشیار ہونا چاہئے۔ یہ منافق لوگ بڑے طریقے سے باتیں کرتے ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کسی شخص کی کوشش سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہتا تو ہم جتنی بھی کوشش کر لیتے یہ کبھی نہ ہوتا۔ بلکہ اب تو میں نے مختلف سفروں میں یہ دیکھا ہے کہ بعض بڑے لوگ ہیں جن سے ملنے کی لوگ بڑی خواہش کرتے ہیں، انہوں نے ملنے کا کہا لیکن میں نے کسی وجہ سے انکار کر دیاتو اُس کے بعد انہوں نے بڑی لجاجت سے بار بارملنے کی خواہش کی اور ہماری جماعت کے افراد اس بات کے گواہ ہیں۔ اس لئے یہ وہم کسی کے دل میں آنا کہ کسی کے ملنے سے ہماری جماعت کا پیغام دنیا میں پہنچتا ہے یا کسی شخص کے ذریعہ سے پیغام پہنچتا ہے، یہ انتہائی غلط تصور ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہیں کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ کسی شخص نے نہیں پہنچانا۔

پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ نہ ہم نے کسی دنیاوی آدمی اور لیڈر سے کچھ لینا ہے، نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے وہی ہمارا مولیٰ ہے اور وہی ہمارا مددگار ہے جو جماعت کی ترقی کے غیر معمولی نظارے ہمیں دکھا رہا ہے۔

افریقہ میں اس ترقی نے نام نہاد علماء اور بعض لیڈروں کو بہت سخت پریشان کیا ہوا ہے۔ وہ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ دنیا خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو رہی ہے بلکہ اُن کو یہ فکر ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے یہ لوگ حقیقی مسلمان بن رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہاں افریقہ میں بڑی کوشش ہوتی رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مسلمان بن رہے ہیں۔ ہم تو جو اسلام پھیلانا چاہتے ہیں وہ تو سختی اور دہشت گردی کا اسلام ہے۔ یہ لوگ تو مسلمان ہو کے فتنہ و فساد سے دُور ہو رہے ہیں۔ نام نہاد جہاد سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ اور یہی بات ہے جو ان دنیاوی لیڈروں کو بہت زیادہ چُبھتی ہے یا علماء کو چُبھتی ہے۔

ہمارے ٹوگو کے مبلغ بیان کرتے ہیں کہ وہاں آیاگوپے (Ayakope) ایک جگہ ہے اُس کے دورے پر گئے تو وہاں کے نو مبائعین نے بتایا کہ یہاں کچھ دن پہلے مسلمانوں کا ایک گروہ آیا تھا اور ہمیں کچھ کھانے پینے کی چیزیں دیں اور کہنے لگے کہ ہم آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ تو ہم نے کہا آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں یا لالچ دے رہے ہیں۔ ہمیں چیزیں دے کر آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسلام قبول کر لیں۔ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے پاس جماعت احمدیہ والے آئے تھے اور انہوں نے ہمیں اسلام کی تبلیغ کی اور ہم نے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا ہے اور ہمیں کسی قسم کا لالچ بھی نہیں دیا اور وہ اب ہمیں یہ خوبصورت تعلیم سکھا بھی رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو نمازیں بھی پڑھنا سکھا رہے ہیں، قرآنِ کریم پڑھنا بھی سکھا رہے ہیں۔ اس لئے ہم آپ سے یہ چیزیں نہیں لیں گے۔ آپ یہ چیزیں واپس لے جائیں۔ آپ جو اسلام پیش کر رہے ہیں ہم اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم تو اُس حقیقی اسلام کو قبول کریں گے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جس کی تبلیغ آج جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔ اور اس کے بعدپھر وہ ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھے ہیں۔ اب اُن نومبائعین نے وہاں اپنی ایک مسجد بھی بنا لی ہے۔

اسی طرح مبلغ نائیجر لکھتے ہیں۔ برنی کونی شہر میں ایک چھوٹا سا گاؤں بٹورو (Botoro) ہے، وہاں جب تبلیغ کی گئی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ گاؤں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ فوری طور پر بچوں کے لئے یسرنا القرآن کلاسز جاری کر دی گئیں۔ امام صاحب کا ریفریشر کورس جاری کر دیا گیا اور تربیتی پروگرام بنائے گئے۔ جب یہ اطلاع وہاں وہابی مولوی، امام تک پہنچی تو فوری طور پر وہ مولویوں کا ایک گروپ لے کر اس گاؤں میں پہنچ گیا اور تقریر شروع کر دی کہ یہ کافر ہیں۔ آپ جماعت کا انکار کر دیں۔ ہم آپ کو مسجد بھی بناکے دے دیں گے۔ گاؤں کے چیف نے اُسے کہا کہ میں پیدائشی مسلمان ہوں اور اب عمر کے آخری حصہ میں ہوں۔ میں نے کبھی اپنے گاؤں کی بچی کو قرآنِ کریم پڑھتے اور اسلامی باتیں کرتے نہیں دیکھا۔ مگر یہ جماعت احمدیہ کی برکت ہے کہ میری چھوٹی بچیاں مجھے دعائیں اور حدیثیں سناتی ہیں۔ اس لئے اس پہلی دفعہ کی تو میں تمہیں معافی دیتا ہوں جو تم شور مچا رہے ہو۔ اگر آئندہ اِدھر کا رُخ کیا تو گاؤں کے لڑکوں سے تمہاری پٹائی کروا دوں گا۔ مولویوں نے یہ بات سنی تو فوراً (ہوتے تو ڈرپوک اور بزدل ہیں ) گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے بھاگ گئے۔

بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ بنفورا ریجن کی ایک جماعت نیا کارا (Niankara) ہے، ۔ وہاں کے گاؤں میں دو سو دس افراد ہیں جو اس سال بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ اس گاؤں کے دو خاندان ایسے ہیں جن کا تعلق انصارِ دین فرقہ سے ہے۔ انہوں نے خوب زور لگایا اور انفرادی ملاقاتیں کر کے احمدی افراد کو مجبور کیا کہ جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں اور انصارِ دین فرقے سے اپنا تعلق جوڑیں۔ لیکن احمدی افرادنے ان باتوں پر کان نہیں دھرے بلکہ ہمیں بتایا کہ ہم پر بڑا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ہم جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جس قدر احمدیوں کی تبلیغ و تربیت نے ہمیں مطمئن کیا ہے، ہم احمدیت سے الگ ہو کر پھر اندھیروں میں واپس نہیں جانا چاہتے۔ اور انہوں نے باقاعدہ چندے بھی دینے شروع کر دئیے ہیں۔ اسی طرح بینن کی ایک جماعت کوجرومیدے ہے، چھوٹا سا گاؤں ہے کوجرومیدے (Kodjromede)۔ وہاں کے ایک شخص کریم نامی نے بیعت کی تھی۔ دو تین ماہ گزرنے کے بعد اس نے مولویوں کے زیرِ اثر آ کر مخالفت شروع کر دی تو ایک دن معلم نے امیر جماعت کو بتایا کہ اس شخص نے جماعت کے خلاف سخت بدزبانی کی ہے تو انہوں نے اُسے کہا کہ کوئی بات نہیں، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر ایک مرتد ہو گا تو وہ اپنے فضل سے ایک جماعت عطا فرمائے گا۔ کہتے ہیں کہ اُسی دن یہ معلم صاحب اور امیر صاحب اکونوپے (Akonopey)گاؤں ہے، اُس کا جو بادشاہ ہے، جو چیف ہے وہ مقامی بادشاہ کہلاتے ہیں، اُن کو تبلیغ کرنے گئے تو وہ اللہ کے فضل سے احمدی ہو گیا۔ پھر ایک واگا (Waga) گاؤں ہے، اُس گاؤں کے بھی دو آدمی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا آپ ہمارے گاؤں میں بھی آئیں اور تبلیغ کریں تو مغرب کی نماز اُن کے گاؤں میں ادا کی اور تبلیغ کی تو بتیس افرادنے احمدیت قبول کر لی۔ اس طرح گاؤں میں ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ اور وہی شخص جو بدزبانی کیا کرتا تھا وہ پولیس کو کسی مقدمے میں مطلوب تھا، اس کی وجہ سے وہ گاؤں چھوڑ کے چلا گیا۔

پھر نائیجیریا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ کیمرون کا علاقہ وومبا (Foumban) کٹّر مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ ہے۔ پہلی بار وہاں جلسہ یومِ خلافت منعقد کیا گیا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی وہاں کیمرون میں پاکستان سے آنے والے تبلیغی گروپ نے احباب جماعتِ احمدیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ جلسہ یومِ خلافت کی خبریں چونکہ ٹی وی اور ریڈیو پر گاہے بگاہے نشر ہو رہی تھیں اس لئے اُن تک بھی اس کی خبر پہنچ گئی۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کا چوبیس افراد پر مشتمل ایک گروپ جس میں دس افراد براستہ کینیا اور پندرہ افراد کیمرون اور چاڈ کے بارڈر کے ذریعہ وہاں آئے۔ اس شہر میں خدا کے فضل سے اب جماعت کی اکثریت ہے۔ یہاں کے چیف امام اور اُن کے نائبین امام مع اپنے احباب کے تین سال قبل احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ تو یہ گروپ جو آیا انہوں نے ہمارے معلم کے ذریعہ رابطہ پیدا کیا۔ یہ وہی معلم صاحب ہیں جن کے ذریعہ سے یہاں جماعت کا پودا لگا تھا، گھر گھر پیغام پہنچا تھا۔ اُس معلم کی بابت اس تبلیغی جماعتی گروپ نے دریافت کیا۔ جس پر معلم صاحب کی اہلیہ نے ان کو بتایا کہ معلم صاحب شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ اس پر یہ لوگ وہاں سے شہر کی سینٹرل مسجد میں پہنچے اور یہ جومسجد ہے یہ اللہ کے فضل سے بڑی مسجد ہے اور جماعت احمدیہ کی مسجد ہے۔ یہاں انہوں نے چیف امام سے کہا کہ ہم یہاں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور آپ سب احباب کو جماعت احمدیہ کے متعلق حقائق بتانا چاہتے ہیں۔ اس پر ہمارے چیف امام نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے جماعت احمدیہ کے خلاف بات کرنی ہے تو میں یہ آپ کو بتا دوں کہ یہ مسجد جہاں آپ کھڑے ہیں یہ جماعت احمدیہ کی مسجد ہے اور ہم سب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ہیں۔ اس لئے آپ کو ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے اور آپ سب احباب یہاں سے جا سکتے ہیں۔ بہر حال پولیس کو بھی اطلاع کر دی گئی اور انہوں نے اُن کو شہر سے نکال دیا۔

اسی طرح آج کل ساؤتھ افریقہ میں پاکستانی مولوی اکٹھے ہوئے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے بیس مولویوں کا ایک گروپ ہے۔ دہلی انڈیا سے بھی آئے ہوئے ہیں، سعودی عرب سے بھی آئے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ میں وہاں کے مقامی لوگ بھی ہیں۔ جو مسلم جوڈیشل کونسل کے زیرِ اہتمام کانفرنس میں جماعت کی مخالفت میں پروگرام بنا رہے ہیں۔ سیرالیون کی بھی یہی رپورٹ ہے۔ سیرالیون میں پاکستان سے تبلیغی مُلّاں اور مصر سے الازہر یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے مُلّاں اور سیرالیون سے سعودی عرب جا کر تعلیم حاصل کرنے والے، سعودیہ کے خرچ پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ یہاں پر پہنچے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقریباً ہر فلائٹ پر کافی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں اور شہروں اور دیہاتوں میں جا کر جماعت احمدیہ اور شیعہ احباب کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ تبلیغ کریں، صرف فتنہ و فساد پیدا کرنا (مقصد) ہے۔ بلکہ اب وہاں ایک افریقہ عرب summit میں بہت بڑی رقمیں افریقہ کے لئے بھی اور خاص طور پر سیرالیون کے لئے بھی، اُن کی ترقی کے نام پراور سکول کھولنے کے نام پر مخصوص کی گئی ہیں، اور یہ باتیں اخباروں میں وہاں آ رہی ہیں کہ یہ بنا کے دیں گے، وہ بنا کے دیں گے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح، پہلے بھی کئی دفعہ اس طرح ہو چکا ہے کہ جاتے ہیں، پیسوں کا اعلان کرتے ہیں، اُس کے بعد یا امداد آتی نہیں، یا آپس میں کھا پی جاتے ہیں اور قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور یہی انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بھی انجام ہو گا۔

بہر حال جوں جوں جماعت ترقی کر رہی ہے، جوں جوں اللہ تعالیٰ کے فضل ہو رہے ہیں، یہ مخالفتیں بھی تیز ہو رہی ہیں اور ہوں گی۔ ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، نہ ہونی چاہئے۔ آخر کار ان کی تقدیر میں ناکامی اور نامرادی لکھی ہوئی ہے۔ لیکن ہمیں جس بات کی فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے، ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم اپنے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کی کوشش کریں۔ پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ دعاؤں کے ساتھ اس سال کو بھر دیں، درود و استغفار پر اس قدر توجہ دیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم پر رحمت کی نظر ڈالتے ہوئے اپنے فضلوں کو ہم پر وسیع تر کرتا چلا جائے۔ دشمن کے مکروں کو اُن پر الٹا دے۔ ہر مخالف کو اور ہر مخالفت کو ہوا میں اُڑا دے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پہلے سے بڑھ کر ہم پر نازل ہوں۔ حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا، دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں‘‘۔ (سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صاحب صفحہ 518-519)

پس یہی ہتھیار ہے جو ہم نے بھی استعمال کرنا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے والے ہوں۔ آج جنوری کا پہلا جمعہ ہے اور روایت کے مطابق وقفِ جدید کے نئے سال کا اعلان بھی اس جمعہ کو ہوتا ہے اور گزشتہ سال میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوئے ہیں، جو وقفِ جدید کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے کئے اور کر رہا ہے، اُن کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ کچھ کا تو میں نے ذکر کیاہے۔ افریقہ میں وقفِ جدید کے چندے کا بہت سا استعمال ہوتا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس چندے کی رقم بھی وہاں تبلیغی میدان میں آگے بڑھنے کا، مسجدیں بنانے کا اور دوسری چیزیں کرنے کا ایک ذریعہ بن رہی ہے۔

پس اب مَیں اس ضمن میں مزید میں کچھ کہوں گا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقفِ جدید کی تحریک پہلے صرف پاکستان میں ہوتی تھی اور خلافتِ رابعہ کے وقت میں پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں یہ تحریک کی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے کی تا کہ افریقہ اور بھارت میں جماعت کے کاموں کو مزید وسعت دی جائے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں افریقہ اور بھارت میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہوئی اور کچھ خریدے بھی گئے ہیں، اس کے علاوہ تبلیغی سرگرمیاں ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو قبول کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ بیشک ان ممالک میں رہنے والے احمدی بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق غیر معمولی طور پر مالی قربانیاں کر رہے ہیں لیکن اُن کی غربت کی وجہ سے وہ اتنی زیادہ قربانی نہیں کر سکتے کہ تمام اخراجات پورے کر سکیں۔ اس لئے امیر ملکوں کا جو چندہ وقفِ جدید ہے، یہ خاص طور پر افریقہ اور بھارت میں خرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ان ملکوں کے لوگ بھی ایک جذبے کے تحت چندے دیتے ہیں۔ ہمارے گنی کناکری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک احمدی نوجوان محمد ساکوؔ نے بتایا کہ میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی اور گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ شادی کی تیاریاں کی جا سکیں اور جہاں سے رقم آنے کی امید تھی، وہاں سے مسلسل مایوسی ہو رہی تھی۔ اس دوران چندوں کا مطالبہ ہوا تو جو رقم گھر میں موجود تھی وہ چندے میں ادا کر دی۔ اس پر اس کی منگیتر نے بڑا شور مچایا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ جو معمولی رقم تھی وہ چندے میں دے دی۔ تو یہ نوجوان کہتے ہیں کہ میں نے اُسے کہا کہ خدا کے فضل سے مَیں ایک ایماندار شخص ہوں اور خدا پر یقین رکھنے والا شخص ہوں اس لئے گھبراؤ نہیں، اللہ تعالیٰ خود ہماری مدد فرما دے گا اور خدا کی راہ میں دیا ہوا کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ اگلے روز ہی جب وہ کام پر گئے تو اُن کو وہ ساری رقم مل گئی جو ایک لمبے عرصے سے رُکی ہوئی تھی۔ اور جب شام کو گھر لا کر انہوں نے دی تو لوگ حیران رہ گئے کہ کس طرح (اتنی) جلدی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔

پھر قربانی کے بھی یہ لوگ کیسے کیسے ذریعہ اختیار کرتے ہیں۔ بینن سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ سال کے شروع میں ان کے ریجن کوتونو کے اٹلانٹک ایریا میں اس قدر بارشیں ہوئیں کہ لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں اور وہاں قحط سالی کا سال بن گیا۔ سب کچھ ڈوب گیا۔ افراد کے پاس چندہ تو کیا کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا۔ اس صورت حال میں تبدیلی کے لئے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا، اور پھر وہاں کی ایک جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ہماری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، دیہاتی جماعتیں تو چندہ اُسی پر دیتی ہیں، تو اس بار ہم یوں کریں گے کہ جو فصلیں ہم لگائیں گے اُس میں ایک پلاٹ یا کھیت یا جوکچھ فصل ہے اس میں وہ جماعتی فصل بھی لگائیں گے تا کہ وہ ساری کی ساری چندے پر چلی جائے۔ اس کے بعد انہوں نے وہ فصل لگائی اور خدا تعالیٰ نے اُس میں اتنی برکت ڈالی کہ اُس میں سے تقریباً گیارہ ہزار آٹھ سو فرانک اُن کو آمد ہوئی جو انہوں نے چندے میں دے دی۔

اسی طرح گیمبیا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ جب محصّل ان سے چندہ لینے ان کے گھر آیا تو وہ بار بار گھر کے اندر جاتیں اور اپنے ہر بچے کی طرف سے بھی کچھ نہ کچھ چندے کی رقم لے آتیں۔ مبلغ نے بتایا کہ یہ دیکھ کر اُن کے بچے بھی اندر گئے اور اپنے گلّوں سے جو بھی معمولی رقم نکلی وہ پیش کر دی اور کہتے تھے کہ ہم کیوں ثواب سے پیچھے رہیں۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ بچوں کے دلوں میں بھی چندوں کی اہمیت ڈالتا ہے۔

اسی طرح گیمبیا کی ایک نومبائعہ ہیں، وہ کپڑا دھونے کا صابن لینے جا رہی تھی تو رستے میں اُسے معلوم ہوا کہ اس طرح چندوں کی تحریک ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص چندہ دے چاہے وہ تھوڑا سا ہی دے۔ اس پر انہوں نے وہ جو پیسے تھے وہ (چندہ میں) دے دئیے اور کہہ دیا کہ صابن کا انتظام اللہ تعالیٰ آپ ہی کر دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسا انتظام کیا کہ دو دن کے بعد اُن کے ہاں ایک مہمان آیا اور صابن کاپورا کارٹن اُن کو تحفہ دے گیا۔

اسی طرح بینن کی ایک خاتون جو بڑی چُھپ کے نیکیاں بجا لانے والی ہیں اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ اُن کا چندہ بھی خاصا معیاری تھا مگر پھر بھی سال کے اختتام پر اُن سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ سنتے ہی اپنے اوپر خدا کے فضلوں کو گننے لگیں اور اپنی طرف سے مزید ایک لاکھ فرانک سیفا چندہ دے دیا۔ اس دوران جب اُنہیں بتایا گیا کہ ان کے فلاں بیٹے کی طرف سے بھی چندے کا انتظار ہے تو فوراً اُس کی طرف سے بھی تیس ہزار ادا کر دئیے۔ بیٹی کا علم ہوا تو اُن کی طرف سے بھی خود ہی دینے لگیں۔ اسی طرح جب اُن کو بتایا گیا کہ آپ کی ایک بیٹی کا معمولی چندہ باقی ہے تو وہ بھی اُنہوں نے ادا کر دیا۔ تو اس طرح کے لوگ بھی ہیں جو اپنی تمام خواہشات کو ختم کر کے چندوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اسی طرح تنزانیہ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ جو نادہند تھے، اُن کو جب کہا گیا تو انہوں نے فوراً اپنے چندے دینے شروع کر دئیے۔ اُن کی ضروریات زیادہ تھیں لیکن بعضوں نے ضروریات کو پسِ پشت ڈالا اور چندوں کی طرف توجہ دی۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ ہمارے معلم عبدالقادر نے چندے کی تحریک کی اور اس کی اہمیت میں بتایا کہ چندہ دینے میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ وہاں کے امام صاحب بڑے غریب آدمی تھے۔ سائیکل خریدنے کی بھی اُن میں استطاعت نہیں تھی، اُس نے پوچھا کتنا چندہ چاہئے۔ معلم صاحب نے بتایا کہ جو اللہ نے توفیق دی ہے۔ اُس کے مطابق دے دیں۔ لیکن یہ بتایا کہ جو بھی آپ نے دینا ہے کوشش کریں کہ پھر اُس میں کمی نہ آئے۔ امام صاحب نے ایک ہزار فرانک ادا کر دیا۔ اور کہتے ہیں ساتھ ہی دل میں یہ سوچا کہ اگر چندے سے برکت والی بات درست ہے تو خدا تعالیٰ اب اس کو سائیکل کے بجائے موٹر سائیکل دے گا۔ چنانچہ ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں موٹر سائیکل خریدنے کی توفیق عطا فرمائی اور ایک ہزار چندے کی بجائے انہوں نے پینسٹھ ہزار فرانک چندہ ادا کیا۔

اسی طرح ہریانہ میں ایک احمدی جن کا بجٹ بارہ ہزار روپیہ تھا۔ اُنہیں چندے کی اہمیت کا بتایا گیا توانہوں نے کہا کہ میری تنخواہ تو پچاس ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔ اس لئے اس کے مطابق بجٹ تیار کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق ادائیگی شروع کر دی۔

پھر انڈیا کے ایک انسپکٹر وقفِ جدید لکھتے ہیں کہ جموں کشمیر کی ایک خاتون سکول ٹیچر ہیں۔ پورے علاقے میں ان کا چندہ وقفِ جدید سب سے زیادہ ہے۔ اپنی آمد کے لحاظ سے ان کا یہ طریق ہے کہ جب بھی نیا بجٹ بنتا ہے تو پوچھتی ہیں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے کیا بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔ جب بتایا جاتا ہے تو پہلے سے بڑھ کر وعدہ لکھواتی ہیں اور اپنی اولین فرصت میں اُس کو ادا بھی کر دیتی ہیں۔ اس سال بھی انہوں نے اپنا وعدہ لکھوایا اور اپنے خاوند مرحوم کی جانب سے بیس ہزار روپے مزید بھی ادا کئے۔

پھر وہاں کے انسپکٹر وقفِ جدید لکھتے ہیں کہ آسنور جماعت کے ایک شخص خواجہ صاحب ہیں۔ جب بھی ان کے پاس چندہ لینے کے لئے گئے تو وہ کوئی نہ کوئی واقعہ اپنی ترقی کا سناتے۔ اس مرتبہ اُن کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے بہت سے غریب دوستوں کو کاروبار سکھایا اور اب وہ لوگ مجھ سے کاروبار میں بہت مقابلہ کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ کاروبار کے مقابلے میں تو میرے سامنے آ گئے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے کاروبار میں ترقی دے، لیکن کاش کہ وہ چندہ دینے میں مجھ سے مقابلہ کریں۔ کہتے ہیں میرا مال تو جب منڈی میں پہنچتا ہے، اگر ریٹ کم بھی ہو تو اللہ تعالیٰ خود بخود اُس کا اچھا ریٹ مہیا کر دیتا ہے۔

تو عورتوں اور مردوں کے بے شمار واقعات ہیں جو مالی قربانیوں کے ہیں اور جس سے چندے کی اہمیت اُن پر واضح ہوتی ہے۔ یہ صرف باہر کے لوگوں کی امداد پر گزارہ نہیں کر رہے بلکہ خود بھی بہت قربانیاں دے رہے ہیں۔ اور حتی الوسع یہ لوگ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسا کہ ان واقعات سے بھی ظاہر ہے اور یہ سب کچھ ایک احمدی کی اُس روح کے تحت ہے جس کی قرآنِ کریم نے مالی قربانی کے ضمن میں ہمیں تعلیم دی ہے۔ اور جس کی اہمیت حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں بیان فرمائی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا میں انسان مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اسی واسطے علم تعبیر الرؤیا میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے جگر نکال کر کسی کو دیا ہے تو اس سے مُراد مال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی اتقاء اور ایما ن کے حصول کے لیے فرمایا: لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران: 93) کہ حقیقی نیکی کو ہرگز نہ پاؤ گے جب تک کہ تم عزیز ترین چیز نہ خرچ کروگے۔ کیونکہ مخلوقِ الہٰی کے ساتھ ہمدردی اور سلوک کا ایک بڑا حصہ مال کے خرچ کرنے کی ضرورت بتلاتا ہے اور ابنائے جنس اور مخلوقِ الٰہی کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے جو ایمان کا دُوسرا جزو ہے جس کے بدُوں ایمان کامل اور راسخ نہیں ہوتا۔ جب تک انسان ایثار نہ کرے دُوسرے کو نفع کیونکر پہنچا سکتا ہے۔ دُوسرے کی نفع رسانی اور ہمدردی کے لئے ایثار ضروری شے ہے اور اس آیت میں لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ میں اسی ایثار کی تعلیم اور ہدایت فرمائی گئی ہے۔ پس مال کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا بھی انسان کی سعادت اور تقویٰ شعاری کا معیار اور محک ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں للّہی وقف کا معیار اور محک وہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت بیان کی اور وہ کل اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 367-368۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ان تمام قربانی کرنے والوں اور اس روح کو سمجھنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

اب گزشتہ سال کا جو جائزہ ہے وہ پیش کرتا ہوں جو چھپن واں سال تھا اور 2014ء کا ستاون واں سال شروع ہو رہا ہے اس کا بھی اعلان کرتا ہوں۔ گزشتہ سال میں جو چھپن واں سال تھا اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید میں چوّن لاکھ چوراسی ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی اور یہ گزشتہ سال کے مقابلے پر چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ تھی۔ اور اس سال برطانیہ کی پوزیشن نمبر ایک ہے۔ اس دفعہ برطانیہ کی پوزیشن نمبر ایک سے مراد یہ ہے کہ پہلے میں پاکستان کی بات کیا کرتا تھا اور پاکستان کو نکال کے پوزیشنیں بتایا کرتا تھا۔ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ کی پوزیشن پاکستان سے اوپر ہے اور پاکستان کو نکال کے جو یہ مقابلہ ہوتا تھا اب اس لحاظ سے برطانیہ نمبر ایک آ گیا۔ پھر پاکستان نمبر دو، پھر امریکہ پھر جرمنی پھر کینیڈا پھر ہندوستان پھر آسٹریلیا پھر انڈونیشیا پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے اور پھر بیلجیم۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے برطانیہ نے اس سال جو وصولی کی ہے وہ نمایاں اضافے کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام چندہ دینے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ امریکہ اور جرمنی تو اس سے اب بہت پیچھے ہیں۔ ان کو بہت کوشش کرنی پڑے گی اگر انہوں نے آگے نکلنا ہے۔ اور اِن کو بھی اس کو maintain رکھنے کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑے گی کیونکہ جو چھلانگ لگائی ہے، لگتا ہے بہت اونچی چھلانگ لگا دی ہے۔ بعض لوگ شاید مجھے مشورہ دیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے زمانے میں بھی پاکستان شاید چندہ تحریکِ جدید میں نمبر دو پر آیا تھا تو انہوں نے باہر والوں کو تحریک کی تھی کہ آپ نے جو عزیز رشتہ دار ہیں آپ اُن کو جو رقم بھیجتے ہیں وہ زائد دے دیں اور چندے کے لئے بھی بھیج دیا کریں۔ اس لئے شاید مجھے یہ مشورہ آئے کہ آپ بھی اس طرح کریں تا کہ پاکستان کا نمبر قائم رہے۔ مَیں یہ نہیں کہوں گا۔ جو نمبر جس کو اللہ تعالیٰ نے دے دیا وہی قائم رہے۔ اب کوشش ہے اپنی کہ کون کون کس طرح کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس لحاظ سے پاکستان کا یہ نمبربھی بہر حال اُن کا ایک مقام ہے کہ ایک تو وہاں کی کرنسی وہاں کے حالات کی وجہ سے انتہائی devalue ہو چکی ہے اور اُس کے باوجود انہوں نے بڑی قربانی دی ہے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر جوپاکستان کے حالات ہیں کہ کاروبار ختم ہو چکے ہیں۔ پھر پاکستان میں جو احمدی ہیں، اُن کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود قربانیوں میں ان کابڑا نمایاں کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ ذرا سی بھی آسانیاں پیدا ہو گئیں تو جس جذبے کے تحت پاکستان کے احمدی چندہ دیتے ہیں کوئی بعیدنہیں کہ وہ خود ہی اگلے سال بغیر کسی بیرونی امداد کے آگے نکل جائیں۔ لیکن بہر حال برطانیہ نے بھی جو چھلانگ لگائی ہے اللہ تعالیٰ اس کو یہ اعزاز مبارک کرے اور سیکرٹری صاحب وقفِ جدید اور امیر صاحب کو اب زیادہ دعاؤں اور کوشش کرنے کی ضرورت ہو گی۔

اُس کے بعد بڑی جماعتوں میں فی کس ادائیگی کے مطابق پہلے تو مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ پھر سوئٹزرلینڈ ہے۔ امریکہ کاچندہ 83 پاؤنڈ فی کس ہے۔ نمبر ایک کا 93پاؤنڈ فی کس ہے۔ سوئٹزرلینڈ کا 61 پاؤنڈ ہے۔ بیلجیم کا 47 پاؤنڈ۔ یو۔ کے کا 45 پاؤنڈ۔ تعداد کے لحاظ سے لگتا ہے ان میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لئے ان کا یہ چندہ بڑھ گیا۔ آسٹریلیا39 پاؤنڈ۔ فرانس38پاؤنڈ۔ کینیڈا32پاؤنڈ۔ جاپان30پاؤنڈ۔ سنگاپور، جرمنی اور ناروے 29پاؤنڈ۔

شاملین کی تعداد بھی دس لاکھ چوالیس ہزار سات سو بیس ہے۔ اس تعداد میں زیادہ تر افریقہ کے نومبائعین اور بچے شامل ہوئے ہیں۔ لیکن آئندہ سے افریقہ والے بھی یہ نوٹ کریں کہ جنہوں نے چندے دئیے ہیں، چاہے کوئی دس پینس دینے والا ہی ہووہ اپنی فہرستیں بھجوایا کریں تا کہ ایک دفعہ پتہ لگے کہ تعداد کے لحاظ سے کس کس جماعت کاکتنا ہے۔

شاملین کی تعداد میں اضافے کے اعتبار سے بورکینا فاسو، بینن، سیرالیون، گیمبیا، نائیجر، آئیوری کوسٹ، تنزانیہ کی جماعتیں زیادہ آگے ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے نائیجریا سب سے آگے ہے، پھر گھانا ہے، پھر ماریشس ہے۔

پاکستان میں پوزیشن کے لحاظ سے جو پہلی تین جماعتیں جو ہیں ان میں اوّل لاہور ہے۔ پھر دوئم ربوہ ہے۔ سوم کراچی ہے۔ چندہ بالغان میں اضلاع کی پوزیشن جو ہے اُس میں سیالکوٹ نمبر ایک ہے، پھر راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات، ملتان، نارووال اور حیدرآباد۔

دفتر اطفال میں تین بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں اوّل لاہور ہے، دوم کراچی ہے، سوم ربوہ ہے اور اطفال میں اضلاع کی پوزیشن کے لحاظ سے سیالکوٹ نمبر ایک ہے، پھرراولپنڈی ہے، مردوں میں بھی اور بچوں میں بھی مطلب بالغان میں بھی اور بچوں میں بھی سیالکوٹ نمبر ایک ہی ہے۔ اور پھر راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، گجرات، نارووال، ملتان، ننکانہ صاحب۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں برمنگھم ویسٹ ہے، جلنگھم ہے، رینز پارک ہے، مسجد فضل ہے، ووسٹر پارک ہے، ہونسلو نارتھ، پھر ومبلڈن ہے، بریڈفورڈ ساؤتھ ہے، بالہم ہے، پھر نیو مولڈن ہے۔ اور ریجن کے لحاظ سے پہلا نمبر مڈل سیکس۔ پھر ساؤتھ لندن، پھر مڈلینڈ اور نارتھ ایسٹ ہے۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے چھوٹی جماعتیں سپن ویلی، براملے اینڈ ایملوشم، ڈیون اینڈ کارنوال اور نارتھ ہیمپٹن ہیں۔ (وصولی کے لحاظ سے) امریکہ کی دس جماعتیں۔ لاس اینجلس اِن لینڈ امپائر، سلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ، سیاٹل، لاس اینجلس ایسٹ، سینٹرل جرسی، سلور سپرنگ، سینٹرل ورجینیا، ڈیلس اور بوسٹن ہیں۔ (وصولی کے لحاظ سے) جرمنی کی پانچ لوکل امارات میں ہمبرگ نمبر ایک پھر فرینکفرٹ، گراس گراؤ، ڈامسٹڈ اور ویزبادن۔

وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی دس جماعتیں روئڈر مارک پہلی، پھر نیدا، پھر فیڈبرگ، مائنز، فولڈا، نوئس، راؤن ہیم سیوڈ، کوبلنز، ہنوفر اور کولون ہیں۔ (وصولی کے لحاظ سے)کینیڈا کی بڑی جماعتیں کیلگری، پیس ولیج، وان اور وینکوورجبکہ کینیڈا کی چھوٹی جماعتیں۔ ایڈمنٹن۔ ڈرہم۔ آٹوا۔ سسکاٹون ساؤتھ اور مِلٹن ہیں۔ مجموعی وصولی کے لحاظ سے بھارت کے صوبہ جات میں نمبر ایک کیرالہ۔ پھر جموں کشمیر پھر آندھرا پردیش، تامل ناڈو، ویسٹ بنگال، اڑیسہ، کرناٹک، قادیان پنجاب، مہاراشٹرا، دہلی، اُترپردیش۔

وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی پہلی جماعتیں کیرولائی، کالی کٹ، کینانور ٹاؤن، حیدرآباد، قادیان، کولکتہ، چنائی، پینگاڈی، بنگلور، رشی نگر، پرتھما پریم، میتھوتم اور کیرنگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کو بے انتہا نوازے۔

نمازوں کے بعدایک جنازہ بھی مَیں پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم یوسف اللطیف صاحب بوسٹن امریکہ کا ہے۔ 23؍ ستمبر 2013ء کو یہ 93 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ 1920ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 9؍ اکتوبر 1920ء کو ٹینیسی کی اسٹیٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب پڑھنے کے بعد 1948ء میں بیعت کی توفیق ملی۔ افریقن امریکن احمدی تھے۔ ان کا شمار ابتدائی افریقن امریکن احمدیوں میں ہوتا ہے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس وقت میرا فرض بنتا تھا کہ میں بیعت کروں۔ اگر نہ کرتا تو میں خدا تعالیٰ اور سچائی سے اپنا منہ موڑنے والا ہوتا۔ آپ نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر پڑھاتے رہے۔ مختلف کتب کے مصنف بھی تھے جن میں آپ کی اپنی سوانح بھی شامل ہے۔ ان کی قد آور شخصیت کی وجہ سے ان کی وفات کی خبر یکدم امریکہ اور ساری دنیا میں پھیل گئی اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہوئی۔ صدر کلنٹن نے جب اُنہیں وائٹ ہاؤس میں دعوت پر بلایا تھا تو وہاں اگرچہ یہ پاکستانی نہیں تھے اور افریقن امریکن تھے لیکن شلوار قمیض پہن کر گئے تھے۔ انہوں نے اپنے پیشے میں سب سے اونچا ایوارڈ حاصل کیا جو نوبل پرائز کے برابر تھا۔ چونکہ احمدی تھے اس لئے دین پر کبھی کمپرومائز (compromise) نہیں کیا۔ موسیقی کے اوپر انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کبھی ایسی جگہوں پر، ایسے فنگشنوں میں کبھی شامل نہیں ہوتے تھے جہاں شراب وغیرہ ہو۔ آپ کو حج اور عمرے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ مالی قربانی اور چندہ جات میں غیر معمولی قربانی پیش کرتے۔ لوکل سیکرٹری مال کہتے ہیں کہ ان کی عادت تھی کہ مہینے کے دوران جب بھی ان کو تنخواہ کا چیک ملتا تو سب سے پہلے اپنے لازمی چندہ جات ادا کرتے تھے اور آپ کہا کرتے تھے کہ مجھے آج بھی اتنا ہی یقین ہے جتنا اُس وقت تھا جب میں نے بیعت کی کہ احمدیت کا راستہ سچائی کا راستہ ہے اور یہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس راستہ پر چلنے والا کوئی شخص تباہ نہیں ہو سکتا۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس راستے پر چلنے سے میں اور میرا خاندان نجات پا جائیں گے۔ اور میرا ایمان ہے کہ احمدیت تمام انسانوں میں بھائی چارہ پیدا کرنے کی تعلیم پیش کرتی ہے۔

آپ کو قادیان اور ربوہ کی زیارت کا بھی موقع ملا۔ لندن بھی گزشتہ سال جلسہ پرآئے ہوئے تھے۔ خلافت سے ان کو والہانہ محبت تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو بھی ملے ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفہ رابع کو بھی اور مجھے بھی ملے تھے۔ جلسہ پر جب آئے ہیں تو بیمار تھے۔ ویل چیئر پر ہی تھے۔ بہت نیک اور نمازوں کے پابند تھے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔ نہایت شفیق اور ہر ایک سے پیار و محبت کا سلوک کرنے والے مخلص انسان تھے۔ احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت دوستوں سے بھی بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ لمبا عرصہ ان کو مختلف حیثیتوں سے جماعتی خدمتوں کی توفیق ملی۔ دعوتِ الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے۔ جماعتی لٹریچر اپنے ہمسایوں اور رشتے داروں اور دوستوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ جیب میں ہمہ وقت کچھ فلائرز وغیرہ رکھتے اور جہاز میں اپنے ہم سفروں میں تقسیم کرتے اپنے خرچ پر نابینا افراد کے لئے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور بچوں کی تربیت کے متعلق کتب انہوں نے شائع کیں۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ عائشہ لطیف صاحبہ اور ایک بیٹا مکرم یوسف لطیف صاحب بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 3؍ جنوری 2014ء شہ سرخیاں

    سب سے پہلے تو میں آج آپ کو اور دنیا میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔ اس دعا کے ساتھ یہ مبارکباد ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے پہلے سے بڑھ کر اس سال کو اپنے رحمتوں، فضلوں اور برکتوں کا سال بنا دے۔

    جب ہم گزشتہ سال کا جائزہ لیتے ہیں تو جماعتی لحاظ سے 2013ء کا سال ہمیں اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس اگر ہم نے یہ فضل جاری رکھنے ہیں تو عاجزی، محنت اور دعا کے ساتھ ان فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

    2013ء کے سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 158مساجد بنائی گئیں اور 258 نئی مساجد ملیں۔ افریقہ میں اس وقت 41 مساجد زیرِ تعمیر ہیں۔ اسی طرح 121 مشن ہاؤسز تعمیر ہوئے۔

    اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں غیر معمولی طورپر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے رستے کھول رہا ہے۔ حضور انور کے دورہ جات کی میڈیا میں کوریج کے ذریعہ کروڑوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔

    وقف جدید کے ستاون ویں (57)سال کے آغاز کا اعلان۔

    گزشتہ سال وقف جدید میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 54 لاکھ 84ہزارپونڈز کی مالی قربانی جماعت نے پیش کی۔

    مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔

    وقف جدید کی مالی قربانی میں برطانیہ پہلے، پاکستان دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پر رہا۔

    مختلف پہلوؤں سے نمایاں مالی قربانی کرنے والے ممالک اور جماعتوں کا جائزہ۔

    مکرم یوسف لطیف صاحب آف بوسٹن امریکہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 03جنوری 2014ء بمطابق 03 صلح 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور