خلافت، دعائیں اور ڈاکٹر مہدی علی قمر کی شہادت

خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور بہت بڑا احسان جس نے جماعت احمدیہ کو ایک اکائی میں پرویا ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے گزشتہ 106 سال اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد جیسا کہ آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیۃ میں بیان فرمایا تھا افراد جماعت نے کامل اطاعت کے ساتھ نظام خلافت کو قبول کیا۔ دنیا میں بسنے والا ہر احمدی چاہے وہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے ساتھ جو خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ شروع ہونا تھا اس سے جُڑ کر رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ مَیں ان لوگ کی بات نہیں کر رہا جو شروع میں علیحدہ ہو گئے اور ان کی اب حیثیت بھی کوئی نہیں۔ جو جماعت احمدیہ کی اکثریت ہے، وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو سمجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اسی سے جماعت کی اکائی ہے۔ اسی سے جماعت کی ترقی ہے۔ اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف زبانی ایمان کا اعلان اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے والا نہیں بنا دیتا بلکہ آیت استخلاف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے، خلافت سے وابستہ رہنے والوں کو تمکنت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان انعامات کا صرف ان لوگوں کو مورد ٹھہرایا ہے جو عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور اس مقصد کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم کرنی ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے تو بہت سے ہوں گے لیکن حقیقی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے وہی ہیں جو ہر حالت میں صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر اللہ کی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی۔ پس ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نہیں، اگر ہمارے معیار اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بلندنہیں ہو رہے تو جلسے، تقریریں، علمی باتیں اور خوشیاں منانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہو گی، توحید کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف ہماری نظر ہو گی تو ہم میں سے ہر ایک ان فضلوں کا وارث بنے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔

گزشتہ خطبہ مَیں بھی میں نے ذکر کیا تھا کہ ہر پریشانی اور ہر مشکل کے وقت ہمیں خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے۔ دنیاوی طریقہ احتجاج جو ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے اور امن کی حالت میں آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس یہی ہمارے اصل ہتھیار ہیں جن پر ہم مکمل اور مستقل انحصار کر سکتے ہیں۔ دعاؤں کے ہتھیار کو چھوڑ کر ہم چھوٹے اور عارضی ہتھیاروں کی طرف دیکھیں گے تو ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی، نہ کبھی چھوٹے ہتھیاروں سے کسی کو کامیابی ملی ہے یا ملا کرتی ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں ہمیں کامیابیاں انہیں دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہیں اور خاص طور پر جب ہم اسلام کی تاریخ دیکھیں اور خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے زمانے کو دیکھیں تو دنیاوی طاقت سے نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی فتوحات ملیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق فتوحات ملیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام تر وعدوں کے باوجود ان فتوحات کو حاصل کرنے کے لئے جان کی قربانیاں دینی پڑیں، عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے پڑے۔

یہاں ضمناً یہ بھی ذکر کر دوں کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں ایک احمدی کا ذکر کیا تھا جس نے اپنے شیعہ دوست کے حوالے سے بات کی تھی کہ تم لوگ صحیح جواب نہیں دیتے اور یہ بھی شاید مَیں نے بتایا تھا کہ لگتا ہے ان احمدی دوست کی سوچ بھی یہ ہے کہ دنیاوی کوشش کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ مَیں نے نام تو نہیں لیا تھا لیکن بہر حال سمجھ گئے۔ انہوں نے مجھے خط لکھا ہے کہ مَیں نے اپنے شیعہ دوست کا ذکر کیا تھا، میری ایسی سوچ نہیں ہے۔ لیکن بہر حال مجھے اور مختلف جگہوں سے ایسی باتیں پہنچتی رہتی ہیں جن سے ایسی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات دعاؤں سے ملنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے ہمیں فرماتا ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(الکوثر: 03)۔ پس تو اپنے رب کی عبادت کر اور اس کے لئے قربانیاں دے۔ پھر یہ جو عبادت اور قربانیاں ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائیں گی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسانی فطرت ہے اور یہ جو فطرت ہے اس کے مطابق لمبے عرصے کی پریشانیاں اور تنگیاں اور ابتلا انسان کو بے چین کر دیتے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ ایسے حالات میں رسول اور مومنین بھی مَتیٰ نَصْرُ اللّٰہ کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، اس کی آواز بلند کرتے ہیں۔ بے چین ہو کر ان کے دل سے یہ آواز بلند ہوتی ہے۔ مایوسی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کے لئے، اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا تعالیٰ کی گود میں ڈالتے ہوئے دعاؤں کو اپنی انتہا تک پہنچاتے ہوئے قربانیوں کے معیار قائم کرتے ہوئے یہ آواز بلند کرتے ہیں۔ تب پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب کہ سنو! یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے۔ (تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

مختلف اوقات میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے قریب ہونے کے نظارے دیکھے ہیں۔ آپ کو بھی الہاماً یہی فرمایا گیا اور پھر عملاً دیکھا بھی۔ آپؑ نے تو یہ نظارے دیکھے ہی ہیں لیکن ہم نے بھی مختلف وقتوں میں دیکھے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دیکھتے رہیں گے۔ اس کے اپنے اپنے دائرے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے نظارے دکھاتی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا فتح کی صورت میں آخری عظیم الشان نظارہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہم دیکھیں گے۔ دشمن کے منصوبے بہت خطرناک ہیں۔ دنیاوی نظر سے دیکھیں تو بظاہر خوفناک صورتحال نظر آتی ہے، خاص طور پر مسلمان ممالک اور پاکستان میں تو خصوصی طور پر۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو سب قدرتوں کا مالک ہے وہ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن ہے۔ دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ان سب کے مکر اُن پر الٹائے جائیں گے۔ لیکن ہمیں دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتوحات کو سنبھالنے کے لئے بھی ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ(النصر: 4)۔ کہ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ۔ پس اس مضمون کو سمجھنے کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

مَیں نے پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ قربانیوں کے مضمون کو تو ہم بہت حد تک سمجھتے ہیں لیکن دعاؤں کی حقیقت کو سمجھنے کی ابھی بہت ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ان قربانیوں کے پھل جلد سے جلد حاصل کرنے ہیں تو دعاؤں کے معیاروں کو بلند کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنے اندر وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (النمل:63) کہ(نیز بتاؤ تو) کون کسی بیکس کی بات سنتا ہے جب وہ اس (خدا) سے دعا کرتا ہے اور (اس کی) تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تم (دعا کرنے والے انسانوں ) کو (ایک دن) ساری زمین کا وارث بنا دے گا۔ کیا (اس قادر مطلق) اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ تم بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ (ترجمہ از تفسیر صغیر)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت ِاضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوٓءَ (النمل: 63)‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 455۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ہمیں اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں بعض دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی جوبلی کے لئے پہلے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بتائی تھیں۔ پھر بعد میں خلافت جوبلی کے لئے میں نے بتائی تھیں۔ ان کو بھولنا نہیں، نہ کم کرنا ہے۔ ان کو ہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔ مستقل اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا چاہئے اور پھر اپنی نمازوں کو اپنی عبادتوں کو بھی سنوار کر ادا کرنے کی اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تبھی ہم دعاؤں کا بھی حق ادا کر سکتے ہیں۔ ایم ٹی اے پر تو یہ دعائیں آتی رہتی ہیں لیکن بہر حال یاددہانی کے طور پر بتا دیتا ہوں۔ ان میں سے پہلے سورۃ فاتحہ ہے، اس کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے۔ درود شریف ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کا بہت زیادہ ورد کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو الہامی دعا سکھائی گئی تھی۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ (تذکرہ صفحہ25 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

اس کو بہت زیادہ پڑھیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو بولنے کے لحاظ سے زبان پر نہایت ہی ہلکے ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے ترازو میں بہت وزنی ہیں اور وہ خدائے رحمان کے بہت ہی پیارے ہیں اور وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ آپ نے فرمایا خدائے رحمان کے بہت پیارے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے رحم کو ابھارنے کے لئے یہ دعا بھی بہت ضروری ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل التسبیح حدیث نمبر 6406)

پھر یہ دعا تھی جو اَب بھی پڑھنی چاہئے کہ رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب۔ (اٰل عمران: 9)

یعنی اے اللہ!ہمارے دلوں کو ٹیڑھا ہونے نہ دینا بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر۔ یقینا تو ہی ہے بہت عطا کرنے والا ہے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد خواب دیکھی تھی جس میں آپؑ نے بڑی تاکید فرمائی تھی کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو رَبَّنَا لَاتُزِغْ قُلُوْبَنَا والی۔ حضرت خلیفہ اول کو جب آپ نے یہ خواب سنائی تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں اب اسے کبھی پڑھنا نہیں چھوڑوں گا۔ بہت زیادہ پڑھوں گا اور یہ فرمایا کہ جہاں اس میں ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ سے التجا ہے وہاں یہ دعا نظام خلافت سے جڑے رہنے کے لئے بھی بہت بڑی دعا ہے۔ (ماخوذ از تحریرات مبارکہ صفحہ 306-307 شائع کردہ شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ پاکستان)

پھر ایک دعا تھی جس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن۔ (البقرۃ: 251)

کہ اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔

پھر اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِ ھِمْ کی دعا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس فرماتے تھے تو آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِ ھِمْ۔ کہ اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد اول کتاب الصلٰوۃ باب ما یقول الرجل اذا خاف قومًا حدیث نمبر 1537)

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ۔ کا ترجمہ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں پوری طرح واضح نہیں ہوتا، سمجھ نہیں آتی اس کا کیا مطلب ہے۔ نَحر کے لغوی معنی بتاؤں تو شاید مزید واضح ہو جائے۔ اَلنَّحْرُ کہتے ہیں سینے کے اوپر کے حصہ کو یا سینہ اور گردن کے جوڑ کو اور خاص طور پر اس جگہ جہاں گڑھا ہے اس جگہ کو جو سانس کی نالی کا اوپر کا حصہ ہے۔ یعنی اس کا یہ مطلب بنے گا کہ اے اللہ! تُو ہی ان پر ایسا وار کر جس سے ان کی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور ہم ان کی شرارتوں سے بچ جائیں۔ تُو ہی ہے جو ان شریروں اور فساد پیدا کرنے والوں اور ظلم کرنے والوں کی طاقت توڑنے والا ہے۔ پس ان کا خاتمہ کر اور ہمیں ان کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے۔

پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ استغفار کا بھی فرماتا ہے کہ بہت زیادہ استغفار کرو۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ کی دعا ہے۔

پھر اسی طرح کچھ عرصہ ہوا مَیں نے ایک خواب کی بنا پر کہا تھا کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ (تذکرہ صفحہ 363 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) کی دعا بہت زیادہ پڑھیں۔ پھر یہ دعا بھی اس میں شامل کریں جو میں نے گزشتہ خطبہ میں بتائی تھی کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَاوَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (آل عمران: 148) کہ اے ہمارے رب! ہمارے قصوریعنی کوتاہیاں اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف کر اور ہمارے قدموں کو مضبوط کر اور کافر لوگوں کے خلاف ہماری مدد کر۔

اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک الہامی دعا ہے اسے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔ دشمن اب اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے ہمیں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا کہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ پھر فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ یعنی پس پیس ڈال ان کو، خوب پیس ڈالنا۔ فرمایا کہ میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے۔ یَارَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَآئَکَ وَ اَعْدَآئِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَاتَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔ کہ اے میرے رب! تو میری دعا سن اور اپنے دشمن اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرمااور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ 426 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

پس یہ دعائیں ہیں ان کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔

اب اس کے بعد میں آج اپنے ایک انتہائی پیارے، مخلص، باوفا، نافع الناس اور بہت سی خوبیوں کے مالک جن کا نام ڈاکٹر مہدی علی قمر تھاابن مکرم چوہدری فرزند علی صاحب کا ذکر خیر کروں گا جنہیں 26؍ مئی کو ربوہ میں شہید کر دیا گیا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ صبح تقریباً پانچ بجے دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے جب یہ دارالفضل کے قریب بہشتی مقبرہ کی طرف جا رہے تھے وہاں ان کوفائرنگ کر کے انہوں نے شہید کیا۔

یہ کہتے ہیں کہ مکرم ڈاکٹر مہدی علی صاحب جو ہارٹ سپیشلسٹ تھے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ دو یوم قبل امریکہ سے وقف عارضی کے لئے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی رہائش بھی وہیں تھی اور 26؍مئی 2014ء کی صبح بعدنماز فجر اہلیہ، ایک بیٹے اور عزیزہ کے ہمراہ بہشتی مقبرہ دعا کے لئے جا رہے تھے۔ کچی سڑک پر بہشتی مقبرے کے گیٹ کے سامنے پہنچے تھے کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد آئے جنہوں نے آ کر ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ کر دی اور فائر کر کے مین روڈ پر سرگودھا کی طرف فرار ہو گئے اور 11 گولیاں فائر کیں جو ان کو لگیں جس سے ڈاکٹر صاحب کی موقع پر ہی شہادت ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب شہید کے خاندان کا تعلق گوکھووال ضلع فیصل آباد سے ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم چوہدری فرزند علی صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے اوائل جوانی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ چوہدری صاحب کی بیعت کے بعداُن کے بھائی مکرم چوہدری اللہ دتہ صاحب نے بیعت کر لی۔ پھر یہ خاندان ربوہ شفٹ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب شہید کے نانا مکرم ماسٹر ضیاء الدین صاحب شہید ربوہ کے مکینوں میں پہلے شہید تھے جو 1974ء میں سرگودھا سٹیشن پر فائرنگ سے شہید ہوئے۔ اس وقت ماسٹر ضیاء الدین صاحب محلہ دارالبرکات کے صدر اور تعلیم الاسلام سکول میں استاد بھی تھے۔

ڈاکٹر صاحب شہید 23؍ستمبر 1963ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی پیدائش کے روز حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ قمر الانبیاء کا وصال ہوا۔ اسی مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کے والدنے ان کے نام کے ساتھ ’’قمر‘‘کا لقب لگا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے نانا شہید جو تھے انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے نام کا حصہ ’’بشیر الدین‘‘ بھی ساتھ شامل کر دیا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب شہید کا پورا نام ’’مہدی علی بشیر الدین قمر‘‘ ہوگیا۔ اور یہی نام ہر جگہ لکھا جاتاہے۔ ڈاکٹر صاحب شہیدنے ابتدائی تعلیم ربوہ میں ہی تعلیم الاسلام سکول اور کالج میں لی۔ نہایت ذہین اور ہونہار طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ پھر پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں میڈیکل کی تعلیم شروع کی۔ وہاں پڑھائی کے دوران احمدیت کی وجہ سے طلباء نے کافی مخالفت کی۔ کتابیں اور سامان وغیرہ جلا دیا جس کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے واپس ربوہ آ گئے۔ پھر حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ جا کر تعلیم شروع کی۔ ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ پھر1989ء سے جولائی 91ء تک دو سال فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بعض ازاں اپنی والدہ کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئے۔ کینیڈا میں میڈیکل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ہاؤس جاب کیا۔ پھر بروک لِن (Brooklyn) یونیورسٹی نیویارک چلے گئے۔ وہاں کارڈیالوجی میں سپیشیلائزیشن کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کولمبس اوہایو امریکہ میں آپ نے جاب شروع کیا۔ وہیں پھر مستقل رہائش اختیار کر لی اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے قیام کے بعد جب میں نے ڈاکٹروں کو تحریک کی تو یہ بھی وقف عارضی کے لئے آتے تھے۔ اس سے پہلے بھی دو دفعہ آ چکے تھے۔ اب تیسری دفعہ تشریف لائے تھے۔ جماعتی طور پر مختلف سطح پر ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ بڑے نرم مزاج، نرم خو اور نرم رو شخصیت کے مالک تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہمدرد اور دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا یا تنگی ترشی نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بتایا کہ میرے ساتھ بھی بے حدنرم رویہ رکھتے تھے۔ ہر طرح دلداری کرتے۔ غلطیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔ بچوں کے لئے بڑے شفیق اور مہربان باپ تھے۔ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔ انتہائی منکسر المزاج تھے۔ یہ کہتی ہیں کہ مجھے اگر کسی بات پر غُصّہ آ جاتا تو ہمیشہ کہتے غُصّہ نہیں کرتے۔ طبیعت میں عاجزی اور انکساری بہت تھی۔ سسرالی رشتہ داروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی خوشدامن نے بتایا کہ مَیں پانچ سال امریکہ جا کے ان کے پاس رہی اور انہوں نے کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی اور ہمیشہ اپنی ماں کی طرح میرا عزت و احترام کیا۔ مہمان نوازی ان کا ایک بہت بڑا شیوہ تھا۔ جماعتی تقریبات کے موقع پر اپنے گھر میں مہمان ٹھہرانے کا اہتمام کرتے۔ پھر ائیر پورٹ سے لانے لے جانے کا کام کرتے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کی کثرت سے امداد کیا کرتے تھے۔ شہید اپنے شعبہ کے علاوہ ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’برگ خیال‘ کے نام سے طباعت کے مراحل میں ہے۔ اسی طرح کیلیگرافی بھی اچھی کر لیتے تھے۔ ان کا خلافت سے انتہائی گہری محبت اور خلوص کا تعلق تھا اور ہر تحریک پر فوری لبیک کہنے والے تھے۔ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے تھے۔ کولمبس کی مسجد کی تعمیر میں بھی ایک بہت خطیر رقم انہوں نے پیش کی۔ اس کی زیبائش اور آرائش کا کام بھی کیا۔ اسی طرح اپنے آبائی محلہ دارالرحمت غربی ربوہ کی مسجد کے لئے بھی بڑی رقم دی۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے بھی عطیات کی فراہمی میں پیش پیش رہتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک ان کو شوق تھا اور دینی مطالعہ بھی اللہ کے فضل سے کافی تھا۔ یُوٹیوب پر غیر احمدیوں اور معترضوں کے اعتراضوں کے مؤثر جواب دینے میں مستعد تھے۔ ان کے لواحقین میں اہلیہ محترمہ وجیہ مہدی اور تین بیٹے عزیزم عبداللہ علی عمر پندرہ سال، ہاشم علی عمر سات سال اور عزیزم اشعر علی عمر تین سال ہیں۔ ان کا یہ چھوٹا بچہ اس وقت ساتھ ہی تھا جب ان کو گولیاں ماری گئیں۔ ان کی شاعری کی بات کی تھی تو وہ نمونۃً مَیں بتا دوں۔ 28؍مارچ 2014ء کو انہوں نے جو اپنی آخری نظم کہی اس کے دو تین شعر یہ ہیں۔

موت کے رو برو کریں گے ہم

زندگی کے حصول کی باتیں

نہ مٹا پائے گا یزید کوئی

حق ہیں ابن بتول کی باتیں

سب فنا ہو گا پر رہیں گی تمام

باقی اللہ رسول کی باتیں

پھر ایک ان کا پرانا شعر پہلے کا بھی ہے کہ

اللہ تیری راہ میں یہی آرزو ہے اپنی

اے کاش کام آئے خون جگر ہمارا

پھر اپنی شاعری میں ’نور استخلاف‘ کے نام سے ایک نظم ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ

رحمت حق نے پلایا ہے یوں جام زندگی

کہ بندھا اپنا خلافت سے نظام زندگی

رشک ہے شمس و قمر کو نور استخلاف پر

ابلیس کے چیلوں پہ ہے تاریک شام زندگی

ہادی علی صاحب جو ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں یہاں بھی بڑا لمبا عرصہ رہے ہیں، ڈاکٹر صاحب ان کے چھوٹے بھائی تھے اور جس طرح ہادی علی صاحب کیلیگرافی کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب کو بھی اسی طرح کیلیگرافی کا بڑا شوق تھا، لکھا کرتے تھے۔ ہادی علی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بہت ہی غیر معمولی انسان تھے۔ ان کی جدائی سارے خاندان کے لئے گویا ایک بہت بڑا صدمہ ہے مگر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا خاندان اللہ تعالیٰ کی رضا پر صدق دل سے راضی اور صابر اور شاکر ہے۔ مہدی علی شہید کی ای میلز پر اس طرح کے فقرے لکھے ہوتے تھے کہ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا(البقرۃ: 84)۔ ان کی ہمشیرہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی بہت پیاری مدبرانہ اور بزرگ طبیعت کے مالک تھے۔ فضولیات سے ہمیشہ بچتے۔ نہایت شوق اور باقاعدگی سے نماز ادا کرتے۔ بچپن سے ہی ذیلی تنظیم کے فعال رکن تھے۔ جب طفل تھے توصبح نماز فجر سے پہلے لوگوں کو جگانے کے لئے صَلِّ عَلٰی کیا کرتے تھے۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا اور جماعتی کتب کا مطالعہ بہت کم سنی سے شروع کر دیا تھا۔

اکثر بزرگ جوآپ کے محلے میں رہتے تھے آپ ان سے استفادہ کیا کرتے تھے، اُن کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان میں مولانا عبداللطیف بہاولپوری صاحب، اسی طرح صوفی بشارت الرحمن صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ ان کو ربوہ سے ایک خاص محبت تھی جو ساری زندگی آپ کے دل میں رہی یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی سرزمین ربوہ میں اپنے خدا کے حضور پیش کی۔ والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بنے اور بہت پائے کے ڈاکٹر بنے اور کئی اعزازات حاصل کئے۔ یہ معمولی ڈاکٹر بھی نہیں تھے۔ طبیعت میں بہت ٹھہراؤ تھا۔ کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ علم کی جستجو رہی۔ بچوں کی بھی بہت اعلیٰ تربیت کی۔ مصروف الاوقات ہونے کے باوجود اپنی بیوی بچوں کے لئے وقت نکالتے۔ اپنے بچوں کو قرآن کریم بھی انہوں نے خود سکھایا اور پڑھایا۔ یہاں ہمارے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی ہمیں وقت نہیں ملتا۔ دوسروں کے معاملے میں عفو سے کام لینے والے۔ خود تکالیف برداشت کر لیتے تھے اور پوچھنے پر یہی بتاتے تھے کہ اللہ کی رضا کی خاطر کر رہا ہوں۔ ان کے ایک دوست ڈاکٹر محمود کہتے ہیں کہ ہم میڈیکل کالج میں روم مَیٹ تھے وہاں دیکھنے کا موقع ملا۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور میرے سے سینئر تھے اس لئے کوئی غلط کام دیکھتے توبڑے پیار سے رہنمائی بھی فرماتے تھے۔ خدمت خلق کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا۔

ربوہ کا پہلا بلڈ بنک بھی ڈاکٹر مہدی علی شہید اور ڈاکٹر سلطان مبشر اور ڈاکٹر محمود صاحب نے شروع کیا لیکن اس میں زیادہ کوشش ڈاکٹر مہدی علی صاحب کی تھی۔ اب یہ بلڈ بنک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ارد گرد کے لوگوں کو بھی جب بھی خون کی ضرورت پڑے، خون مہیا کرتا ہے۔

ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ شہیدنہایت عاجز اور منکسر المزاج طبیعت کے مالک تھے۔ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ ابھی کچھ دن ہوئے مجھے مل کے گئے تھے۔ جب سے ان کی شہادت کی خبر ملی ہے وہی مسکراتا چہرہ بار بار سامنے آ جاتا ہے۔ بڑا پرسکون چہرہ تھا اور جیسا کہ بعض لکھنے والوں نے لکھا ہے شہادت کے وقت بھی جو اُن کی تصویر دیکھی ہے سینہ خون سے بھرا ہوا ہے لیکن لگتا ہے بڑے پرسکون انداز میں سوئے ہوئے ہیں۔ عبدالسلام ملک صاحب جو کولمبس جماعت کے صدر ہیں کہتے ہیں کہ ڈاکٹر مہدی علی صاحب ہماری جماعت میں دس سال قبل آئے تھے اور شروع سے ہی ہماری لوکل عاملہ کے فعال رکن تھے۔ جماعت کی اطاعت کا بھرپور جذبہ ان کی ذات میں ودیعت تھا۔ کبھی کسی بات پر argument نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ہر بات قبول کرتے۔ کبھی یہ نہ کہتے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا۔ جب بھی کوئی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی ہمیشہ اسے عمدگی سے نبھایا۔

خلافت سے ایک والہانہ رنگ میں عشق تھا اور جب میں 2012ء میں وہاں کولمبس امریکہ کے دورے پر گیا ہوں تو رات بھر جاگ کر مسجد کی آرائش اور خطاطی کا کام کرتے رہے۔ کئی بینر لگائے اور ان کے بھائی ہادی صاحب بھی ساتھ تھے اور رات بھر مسجد میں کام کرنے کے بعد صبح اپنے ہسپتال کی ڈیوٹی بھی پوری نبھائی۔ اور پھر یہ کہ مسجد کی سجاوٹ پر جو بھی خرچ ہوا انہوں نے ہمیشہ اپنی جیب سے ادا کیا۔ اور جب مسجد میں کام کر رہے ہوتے تھے تو کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ آپ اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں۔ نہایت سادگی سے اپنی خدمت کر رہے ہوتے تھے۔ مالی قربانی میں صف اول میں رہے۔ عبد السلام ملک صاحب بھی ڈاکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مجھے بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ کئی دفعہ ایسا ہو جاتا کہ آپ کی کامیابی کو دیکھ کر بعض دوسرے لوگ حسد کی بنا پر مشکلات کھڑی کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ان مشکلات کا سامنا کرتے۔ کبھی آپ کو میں نے غصّے میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ہی پرسکون اور مسکراتے ہوئے پایا۔ اور یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کیا ضرورت ہے پریشان ہونے کی۔ خلیفۂ وقت کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں کوئی فکر کی بات نہیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہاں آئے چند دن رہے اور بڑے خوش تھے۔ جا کے دوستوں کو بتایا کہ مَیں مل کے آیا ہوں۔ میٹنگ کی باتیں کیں۔ یہ ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ کی ای میل پر یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو جو تم دوسروں میں دیکھنا چاہتے ہو اور خود اس کی زندہ مثال تھے۔

ڈاکٹر نوری صاحب جو ربوہ میں طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں ہمارے ڈاکٹر ہیں کہتے ہیں ڈاکٹر مہدی علی صاحب مریضوں میں بے حد مقبول تھے۔ غریب اور نادار مریض آپ کے پاس بہت خوشی اور امید سے علاج کے لئے آتے تھے۔ ذاتی دلچسپی اور توجہ سے ہر مریض کو دیکھتے۔ طبیعت میں انتہائی سادگی تھی۔ لباس اتنا سادہ ہوتا کہ ان کو مریضوں کے درمیان دیکھ کر پہچاننا مشکل ہوتا تھا۔ طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں خدمت کے لئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر اور بغیر کسی تکلف کے پیش کیا۔ ارادے کے بہت پکے تھے۔ بے لوث خدمت خلق کے لئے ان کا اس ہسپتال میں آتے رہنا اپنے پیشہ کے ساتھ پر خلوص وابستگی کا ثبوت ہے۔ انتہائی عاجز انسان تھے۔ حافظہ کمال کا تھا۔ قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ساتھ شاعری اور کیلیگرافی میں بھی دلچسپی تھی۔

ہمارے ہاں مبارک صدیقی صاحب جو ہیں وہ بھی ان کے کلاس فیلو تھے۔ کہتے ہیں کہ مہدی علی بچپن سے ہی مومنانہ صفات کے حامل خوبصورت اور ذہین انسان تھے۔ جماعت احمدیہ کے جان نثار خادم اور خلافت سے از حد پیار کرنے والے تھے۔ علم اور مالی فراخی میں ہمیشہ ہم سے بہت آگے ہونے کے باوجود انتہائی حلیم اور عاجز قسم کے انسان تھے۔ کہتے ہیں کہ سکول کے زمانے میں بعض اوقات میرے پاس کورس کی ساری کتابیں نہیں ہوتی تھیں تو یہ مجھے کہتے کہ آدھا دن کتاب میں نے پڑھ لی ہے اب آدھا دن کتاب تم پڑھ لو۔ حتی کہ بعض اوقات عین اس وقت جب اگلے روز امتحان ہوتا تھا آپ جلدی جلدی کتاب پڑھ کر مجھے پکڑا جاتے کہ اب باقی دن تم پڑھ لو۔ اس کے باوجود بھی آپ زیادہ تر اول پوزیشن ہی حاصل کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں جب لندن آئے تھے تو میں نے کہا امریکہ کے ایک بڑے سرجن بن گئے ہیں تو اب کسی اچھے ریسٹورنٹ میں لے کے چلتے ہیں۔ کہنے لگے میں وہی عاجز انسان ہوں۔ کسی غریب سے ہوٹل میں چلے جائیں وہیں کھانا کھا لیں گے۔ کبھی آپ کے منہ سے غیر شائستہ لفظ نہیں سنا۔ نظام جماعت کے بارے میں بڑی غیرت رکھتے تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ آپ کے سامنے کسی چھوٹے سے چھوٹے جماعتی عہدیدار کے خلاف بھی کوئی بات کر سکے۔ ایک مثالی احمدی تھے۔ غریب دوستوں کی مالی مدد کرتے تھے لیکن ایسے رنگ میں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔

ان کے ایک دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی آواز نہایت رسیلی اور دلکش اور دلربا تھی۔ تلاوت اور تقریر کے مقابلوں میں بچپن سے ہی حصہ لیا کرتے تھے۔ ہمیشہ اچھی پوزیشن لیتے رہے۔ کہتے ہیں حضرت مصلح موعود کے چند شعر اکثر پڑھا کرتے تھے جو ابھی بھی ان کی شہادت کے بعدمیرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کے وہ شعر یہ ہیں کہ

عبث ہیں باغ احمد کی تباہی کی یہ تدبیریں

چھپی بیٹھی ہیں تیری راہ میں مولیٰ کی تقدیریں

بھلا مومن کو قاتل ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے

نگاہیں اس کی بجلی ہیں تو آہیں اس کی شمشیریں

تیری تقصیریں خود ہی تجھ کو لے ڈوبیں گی اے ظالم

لپٹ جائیں گی تیرے پاؤں میں وہ بن کے زنجیریں

(کلام محمودصفحہ 282 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

پھر ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب لکھتے ہیں کہ غریبوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے۔ گزشتہ سال آئے تو بنک اکاؤنٹ کھلوا کے مجھے بتایا کہ میں نے یہاں پیسے جمع کروا دئیے ہیں ان سے ضرورتمندوں کی مدد کر دیا کرو۔ ایک دن فون آیا کہ فلاں جماعت کاسابق کارکن ہے۔ اب وہ کارکن نہیں اور ان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ وہ مکان بنا رہے ہیں تو ان کو ایک لاکھ روپیہ دے دو۔ اسی طرح یہ بھی کہا کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ جو میڈیکل کالج میں پڑھنا چاہے تو میں اس کا سارا خرچہ دوں گا۔

ان کے ایک دوست حافظ عبدالقدوس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب فضل عمر ہسپتال میں تھے تو ایک دن دوپہر کو ان کے گھر تشریف لائے اور بتایا کہ یہ لاوارث مریض ہے اسے ایک بوتل خون تو میں نے دے دی ہے، ایک کی مزید ضرورت ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ آپ دیں۔ طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے لئے سامان وغیرہ بھیجتے رہتے تھے۔ جو Stent وغیرہ آپریشن کے لئے ڈالتے ہیں اور کہتے تھے ہسپتال کی خدمت کر کے مجھے بڑا فخر ہے۔ پھر یہ بھی چاہتے تھے کہ ربوہ میں مکان بناؤں تا کہ جماعت کی رہائش پر بوجھ نہ بنوں۔ بچوں کی تربیت کے بارے میں بھی ان کو تسلی تھی۔ باوجود امریکہ میں رہتے ہوئے اللہ کے فضل سے اچھی تربیت ہو رہی ہے کیونکہ خود ذاتی طور پر توجہ دیتے تھے۔ ان کے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہمارا بڑا پیارا بھائیوں جیسا تعلق تھا۔ اس سال ہفتہ کی رات کو ربوہ پہنچے تو فوراً آنے کو کہا۔ رات کے دس بجے تھے۔ میں نے آرام کرنے کو کہا مگر انہوں نے کہا کہ نہیں ابھی آؤ۔ خیرملاقات ہوئی۔ بہت پیار سے ایک جدید سٹیتھو سکوپ کا تحفہ پیش کیا جسے خاص طور پر لائے تھے اور پھر نمازوں کے بارے میں قبلے کا رخ وغیرہ پوچھا۔ کہتے ہیں رات کو ملاقات ہوئی۔ سوا گیارہ بجے تک گفتگو ہوتی رہی۔ میں سوا گیارہ بجے اٹھ کے آ گیا اور خدا حافظ کہہ کے رخصت کیا اور چند گھنٹوں کے بعد ہی صبح جب بہشتی مقبرے گئے تو وہیں جام شہادت نوش کیا۔

Dawn اخبار کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر جماعت احمدیہ کی مخالفت کا پس منظر بیان کر کے یوں ذکر کیا گیا ہے کہ

ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب کوئی عام ڈاکٹر نہیں تھے۔ انہوں نے امریکن کالج آف کارڈیالوجی سے ینگ انوسٹی گیٹر(young investigator) کا ایوارڈ حاصل کیا اور سال 2003ء اور 2004ء میں امریکہ کے بہترین فزیشنز میں ان کا شمار ہوا۔ اس کے علاوہ سال 2005ء، 2006ء، 2007ء میں مسلسل تین سال تک اور 2009ء، 2010ء، 2011ء اور 2012ء میں مسلسل چار سال تک امریکہ کے بہترین کارڈیالوجسٹ میں ان کا شمار ہوا۔ نیز انہیں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے فزیشن ریکگنیشن (recognition) کا بھی ایوارڈ ملا۔ پھر اخبار والے یہ لکھتے ہیں کہ میں نے انٹرنیٹ پر مہدی صاحب کے ایک پروفائل پر ان کی مسکراتی ہوئی روشن تصویر دیکھی جس کے ساتھ ان کے یہ الفاظ لکھے تھے کہ میں اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ معیار کو قائم رکھتے ہوئے مریض کی بہترین دیکھ بھال پر یقین رکھتا ہوں تا کہ ان اداروں کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکوں جن سے مَیں وابستہ ہوں۔ میری ترجیح پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو قابلیت، سچائی اور دیانت داری سے نبھانا ہے اور یقینا قابلیت، سچائی اور دیانت داری سے انہوں نے یہ سب نبھایا۔

پھر آخر میں لکھنے والے نے لکھا کہ ڈاکٹر مہدی علی قمر! میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو بچا نہیں سکا لیکن میں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مَیں نے اپنی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے تا کہ کل میں ایسے نہ مروں کہ میری آواز نہ سنی گئی ہو۔

پھر پاکستان، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دنیا کے متعدد اخباروں اور نیوز چینلزنے اس نہایت بہیمانہ قتل اور انسانیت سوز فعل کی سخت مذمت کی ہے۔ اب تک ان اخباروں اور دیگر ذائع ابلاغ کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جن میں خبریں شائع ہوئی ہیں۔ جس میں National Post Canada، The star Canada، CBC News Canada، Global News، CNN، U.S.A Today، New York Times، Washington Post، Columbus Dispath، The Wall Street Gournal (اور یہ بہت بڑا مشہور اخبار ہے)، The Express Tribune، Washington Times، The Stragetic Intelligence، Daily Mail، BBC Urdu، الجزیرۃ، ڈان وغیرہ۔ ان تمام تر اخباروں اور ذرائع ابلاغ میں جہاں ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب شہید کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی گئی ہے وہیں جماعت احمدیہ کے تعارف اور پچھلی کئی دہائیوں سے ہونے والے جبر و تشدد کا بھی انتہائی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ ان تمام تر اخباروں اور دوسرے میڈیا نے جماعت احمدیہ کا تعارف کرواتے ہوئے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نام اور دعوی نبوت اور مسیحیت کا ذکر کیا ہے وہیں اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت ہے جو جہاد کے نام پر مظلوموں کو قتل کرنے کی مذمت کرتی ہے۔ اسی طرح بعض اخباروں نے جماعت کے فلاحی کاموں کو بھی سراہا۔ پس یہ جان دے کر بھی تبلیغ کے نئے سے نئے راستے کھول گئے اور دنیا کو متعارف کروا گئے۔

وَال سٹریٹ جنرل امریکہ کامشہور اخبار ہے، دنیا میں کئی جگہ چھپتا ہے۔ اس کے تجزیہ نگار نے شہادت کے واقعہ، جماعت احمدیہ کا تعارف اور جماعت کے خلاف ہونے والے مظالم کا ذکر کرنے کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن صاحبہ کا تجزیہ پیش کیا کہ گو پاکستان میں تمام تر اقلیتیں ہی مظالم کا شکار ہیں مگر جماعت احمدیہ سخت ترین ظلموں کا شکار ہے۔ پاکستان کی کئی لوکل اخباریں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز خبریں شائع کرتی رہتی ہیں۔ اگر مسیحی برادری کے خلاف دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ملک کے وزیر اعظم خود اظہار افسوس کرنے اور متاثرین سے ملنے جاتے ہیں مگر احمدیوں کے حق میں کوئی کھڑا ہونے والا نہیں۔ (احمدیوں کے حق میں خدا کھڑا ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔)

تجزیہ نگار نے شہید کے ایک ساتھی ڈاکٹر شنتانو سنہا کا بھی انٹرویو شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر سنہا نے شہید مرحوم کے متعلق کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ان سے زیادہ دیانتدار اور خوش اخلاق شخص نہیں دیکھا۔ آپ کے جسم میں ایک بھی شر پسند ذرہ نہ تھا۔ آپ بہت زیادہ خدمت خلق کرنے والے شخص تھے اور گو کہ آپ جانتے تھے کہ آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آ سکتا ہے مگر اس کے باوجود خدمت خلق کے لئے پاکستان گئے۔ میں بس اس قدر چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کس طرح ایک انتہائی بااخلاق انسان جو انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا اس کو انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ پھر آخر میں پولیس انسپکٹر کی طرف سے صرف اس قدر بات درج کی ہے کہ پولیس والوں نے کہا ہم کوئی روشنی نہیں ڈال سکتے اور ایک پولیس اہلکار کا یہ بیان ہے کہ ہم اکثر ایسے پمفلٹ دیکھتے رہتے ہیں جن میں ربوہ کے اس ہسپتال اور یہاں علاج کروانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور غالباًیہ قتل بھی اسی سے متعلق ہے۔

اسی طرح الجزیرۃ کے ایک تجزیہ نگار نے بھی یہی لکھا ہے کہ اکثر احمدیوں کے خلاف ظلم اور تشدد کی خبریں ملتی رہتی ہیں اور مجرم یہ ظلم اس تسلی کے ساتھ کرتے ہیں کہ حکومت انہیں سزا دینے کے لئے کچھ نہیں کرے گی۔

واشنگٹن پوسٹ میں بھی شہادت کی خبر شائع ہوئی اور اسی طرح لکھا کہ جرم اس لئے ہو رہے ہیں کہ پتا ہے کچھ نہیں ہونا۔

پھر لنکاسٹرایگل گزٹ (Lancaster Eagle Gazette) جو کہ اس علاقے کا اخبار ہے جہاں ڈاکٹر صاحب خدمت انجام دے رہے تھے۔ اس اخبار نے ایک تفصیلی مضمون مرحوم کی شہادت پر شائع کیا جس میں مرحوم کے ساتھ کام کرنے والوں کے تاثرات بھی درج کئے گئے۔ کیلی موریسن جو وہاں کارڈیو ویسکولر بزنس ڈیویلپمنٹ کے مینیجر ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی افسوسناک وقت ہے اور یہاں ہسپتال میں ہر ایک کی آنکھ آنسوؤں سے تر ہے۔ پھر تجزیہ نگار نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ مرحوم گورڈن بی سنائڈر(Gordon B. Snider) کارڈیو ویسکیولر انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈاکٹروں میں سے تھے اور انہیں 2013ء میں عظیم الشان خدمت خلق یعنی لیجنڈری فلنتھراپسٹ کا اعزاز بھی ملا تھا۔ نامہ نگار نے لکھا ہے کہ مرحوم کی وفات سے نہ صرف جماعت احمدیہ کے افراد بلکہ کمیونٹی کا ہر فرد متاثر ہوا ہے۔ ان کے مریض بھی اخباروں میں ان کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں۔ کولمبس ڈِسپیچ نے اپنی خبر میں مرحوم کے بڑے بیٹے کا انٹرویو لیا۔ یہ لکھتا ہے کہ سولہ سالہ عبداللہ علی سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے والد صاحب کے اس طرح قتل کئے جانے پر کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ I am disappointed.۔ نامہ نگار نے اس جواب کو پسند کرتے ہوئے خاص طور پر ذ کر کیا کہ اس بچے کے دل میں غصہ یا انتقام کا جذبہ نہیں۔ Fox 28 Columbusنے بھی مرحوم کی شہادت کا ذکر کیا اور مرحوم کے بڑے صاحبزادے عبداللہ علی کا انٹرویو بھی شائع کیا جس میں انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب ایک عظیم شخص تھے اور مجھے یقین ہے کہ اگر قاتل کچھ دیر رک کر آپ سے بات کرتے تو یقینا آپ ان کی زندگی میں بھی کوئی مثبت تبدیلی لے آتے۔ انہوں نے یہ قتل صرف ایک ایسی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا ہے جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور یہی حالت ہے۔ مولویوں نے صرف زہر بھر دیا ہے۔ خود ان کو پتا ہی نہیں کہ کیا ہے کیا نہیں؟

بی بی سی اردو نے بھی مرحوم کی شہادت اور احمدیوں کے خلاف ظلم و ستم کا ذکر کیا نیز طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے خلاف چھپنے والے پمفلٹ کا عکس بھی شائع کیا جس میں لکھا ہوا ہے کہ طاہر ہارٹ میں علاج کروانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ نیز احمدیوں سے تعلق رکھنے والا خود بھی کافر ہو جاتا ہے۔ انا للہ۔

بہر حال یہ شہید تو اپنی زندگی میں بھی کامیابیاں دیکھتا رہا اور مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہا اور موت بھی ایسی پائی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے دائمی زندگی دے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس پیارے بھائی کو جنت میں اعلیٰ درجے عطا فرمائے۔ لمحہ لمحہ ان کے درجات کی بلندی ہوتی رہے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں اس کو جگہ دے۔ ان کے بیوی بچوں کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ڈاکٹر صاحب شہید کی تمام نیک خواہشات اور دعائیں جو انہوں نے اپنے بچوں کے لئے کیں، انہیں قبول فرمائے۔

جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ ہماری ترقیات اور دشمن کو مغلوب کرنے کے لئے سب سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس دعاؤں ہی کا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ ظاہری سامان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے وہ بھی ساتھ ساتھ ہونے چاہئیں جس حد تک ہو سکتا ہے۔ اس لئے ربوہ میں اس واقعہ کے بعداب ربوہ میں انتظامیہ کو بھی پہلے سے زیادہ چوکس اور ہشیار ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی تدبیروں اور وسائل کو انتہا تک پہنچائیں پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں اور پھر ربوہ کے ہر شہری کو بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اس پیارے شہیدنے ربوہ کی زمین پر اپنا خون بہا کر ہمیں دعاؤں اور تدبیروں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس اس طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے احمدی بھی پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں کیونکہ وہ انتہائی ناقابل برداشت حالات میں اب رہ رہے ہیں اور یہ جو حالات ہیں یہ شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ اب تو پورا ملک ہی ظلموں کی داستان بن کے رہ گیا ہے۔ کچھ دن ہوئے ہائیکورٹ کے اندر پتھر مار مار کر ایک عورت کو مار دیا۔ روزانہ وہاں قتل و غارت ہو رہی ہے اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک احمدی کو شہید کیا تو اس کا بدلہ یہ ظلم اور یہ سب کچھ ہے۔ جب یہ ظلم کیا گیا تو سرکاری اہلکار بھی وہاں یقینا موجود ہوں گے، پولیس بھی موجود ہو گی ان کے سامنے ہوا۔ اور پاکستان میں ہر ایک پہ جو ظلم ہو رہا ہے وہ اللہ اور رسول کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس رسول کے نام پر ہو رہا ہے جو محسن انسانیت ہے۔ اس رسول کے نام پر ہو رہا ہے جو رحمت للعالمین ہے۔ پس ہمارے دل اس بات سے زخمی اور چھلنی ہوتے ہیں کہ اگر ظلم کرنے ہیں تو کم از کم اللہ اور رسول کے نام پر ظلم تو نہ کرو۔ اس محسن انسانیت اور رحمت للعالمین کے نام پر ظلم تو نہ کرو۔ اسلام کو بدنام تو نہ کرو۔ لیکن یہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور ان کو پتا نہیں ہے یہ کس طرف جا رہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلے گی اور انشاء اللہ ضرور چلے گی تو ان کے نام و نشان مٹ جائیں گے۔ نہ ظلم کرنے والے رہیں گے اور نہ ظلم کی پشت پناہی کرنے والے رہیں گے۔ پس ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں، بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ عوام الناس کو بھی علماء کے چنگل سے نکالے اور یہ حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں۔ نماز جمعہ کے بعد میں انشاء اللہ شہید مرحوم کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ مئی 2014ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور بہت بڑا احسان جس نے جماعت احمدیہ کو ایک اکائی میں پرویا ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت ہے۔

    وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو سمجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اسی سے جماعت کی اکائی ہے۔ اسی سے جماعت کی ترقی ہے۔ اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔

    ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نہیں، اگر ہمارے معیار اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بلندنہیں ہو رہے تو جلسے، تقریریں، علمی باتیں اور خوشیاں منانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہو گی، توحید کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف ہماری نظر ہو گی تو ہم میں سے ہر ایک ان فضلوں کا وارث بنے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا۔

    جیسا کہ میں نے بتایا خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے اور پریشانیوں سے نجات پانے اور امن کی حالت میں آنے والوں کے لئے، اللہ تعالیٰ نے دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس یہی ہمارے اصل ہتھیار ہیں جن پر ہم مکمل اور مستقل انحصار کر سکتے ہیں۔ دشمن کے منصوبے بہت خطرناک ہیں۔ دنیاوی نظر سے دیکھیں تو بظاہر خوفناک صورتحال نظر آتی ہے؛ خاص طور پر مسلمان ممالک اور پاکستان میں تو خصوصی طور پر۔ لیکن اللہ تعالیٰ تو سب قدرتوں کا مالک ہے وہ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن ہے۔ دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملانے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ان سب کے مکر اُن پر الٹائے جائیں گے۔ لیکن ہمیں دعاؤں اور استغفار کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فتوحات کو سنبھالنے کے لئے بھی ہمیں دعاؤں کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب ابن مکرم چوہدری فرزند علی صاحب آف امریکہ کی ربوہ میں شہادت۔

    شہید مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    یہ شہید تو اپنی زندگی میں بھی کامیابیاں دیکھتا رہا اور مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہا اور موت بھی ایسی پائی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے دائمی زندگی دے گی۔

    اس پیارے شہیدنے ربوہ کی زمین پر اپنا خون بہا کر ہمیں دعاؤں اور تدبیروں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس اس طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے احمدی بھی پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں کیونکہ وہ انتہائی ناقابل برداشت حالات میں اب رہ رہے ہیں اور یہ حالات جو ہیں یہ شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلے گی اور انشاء اللہ ضرور چلے گی تو ان کے نام و نشان مٹ جائیں گے۔ نہ ظلم کرنے والے رہیں گے اور نہ ظلم کی پشت پناہی کرنے والے رہیں گے۔ پس ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں، بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ عوام الناس کو بھی علماء کے چنگل سے نکالے اور یہ حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں۔

    فرمودہ مورخہ 30؍مئی 2014ء بمطابق 30ہجرت 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور