قرآن کریم کی اہمیت، مقام، تلاوت، تدبّر، عمل اور اثرات

خطبہ جمعہ 11؍ جولائی 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ (البقرۃ: 186)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہوں یا سفر پر ہوں تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہو گا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تا کہ تم شکر کرو۔

قرآن کریم کی اہمیت، اس کے مقام، اس پر عمل کرنے کی ضرورت اور کس طرح عمل کرنا ہے، کن لوگوں کے لئے یہ زندگی پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہیں، غرض کہ بیشمار باتیں ہیں جن کی تفصیل ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتائی ہے۔ اس لئے کہ نہ صرف ہم اس عظیم شرعی کتاب پر عمل کر کے اپنی روحانی، دینی، اخلاقی ترقی کے سامان کریں بلکہ دنیاوی ترقی کے بھی سامان کریں۔ اور اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے رمضان کے مہینے کے ساتھ جوڑ کر قرآن کریم کی برکات کا رمضان کے ساتھ تعلق قائم فرمایا ہے اور رمضان کے تعلق کو قرآن کے ساتھ قائم کر کے رمضان کی اہمیت مزید اجاگر کی گئی ہے۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کہہ کر بتایا کہ اس آخری شرعی اور کامل کتاب کا تعلق رمضان سے ہے اور جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے ایمان میں ترقی کرے، جو چاہتا ہے کہ اس آخری اور مکمل کتاب اور شریعت کو دنیا میں پھیلائے اور دنیا اس کو جان لے، جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لے جانے کی کوشش کرے، جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے اور فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ کی آواز سنے تو پھر رمضان اور قرآن کا حق ادا کرے، ان کے آپس کے تعلق کو جانے۔ اس مہینے میں یہ فاصلے جو عام دنوں اور مہینوں میں بہت دُور لگتے ہیں سمیٹ کر قریب کر دئیے ہیں۔ پس ایک مومن اس مہینے سے جتنا بھی فیض پا سکتا ہے اسے پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آیت کے اس حصّے کے بارہ میں مفسّرین نے لکھا ہے کہ رمضان کے روزوں کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کریم میں خاص طور پر احکام نازل کئے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا کہ: ’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ… یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہِ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (البدر جلد 1نمبر7، 12دسمبر 1902ء صفحہ52 کالم 2)

اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اس عظمت کی وجہ سے روزے کا اجر بھی بہت بڑا اور عظیم ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 257)

لیکن ان کے لئے جو ان روزوں اور قرآن کے آپس کے تعلق کا بھی حق ادا کریں اور اس کا حق یہ ہے کہ روزوں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھیں۔ اس پر غور کریں۔ اس کی تفسیریں سنیں یا پڑھیں۔ کیونکہ جہاں تک میرا علم ہے مَیں نے جائزہ لیا ہے ہم میں سے بھی بہت سے ایسے، ہیں بڑی تعداد ایسی ہے جو رمضان میں بھی قرآن کریم کا حق ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتے، پورا نہیں پڑھتے۔ مطلب یہ ہے کہ جس توجہ سے پڑھنا چاہئے اس طرح نہیں پڑھتے۔ اگر پڑھا بھی تو بے دلی سے تھوڑا سا پڑھ لیا۔ تو بہر حال اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کے ایک یہ معنی بھی ہیں کہ اس مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی یہی روایت ہے کہ جبریل ہر سال رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نازل شدہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے سال یہ دور دو مرتبہ کیا گیا۔ دو دفعہ قرآن کریم دہرایا گیا۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیﷺ)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ اور اللہ تعالیٰ کے خاص منشاء سے آپ کا یہ طریق ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ ہم قرآن کریم کو کم از کم ایک بار تو ضرور رمضان میں ختم کرنے کی کوشش کریں اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس پر غور بھی کریں۔ جب غور کریں گے، پڑھیں گے، سمجھیں گے تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والے ہو سکیں گے کہ ھُدًی لِّلنَّاس۔ کہ انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ ان انسانوں کے لئے ہدایت ہے جو اس سے ہدایت لینا چاہتے ہیں اور ہدایت پڑھے اور سمجھے بغیر تو نہیں مل سکتی۔

پس اس کا پڑھنا اور پڑھ کر سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ہدایت دلائل کے ساتھ ہے۔ تم لوگوں کو صرف یہ حکم نہیں دے دیا کہ تم اس کو پڑھو، اس میں ہدایت ہے بلکہ ہر ہدایت کی دلیل دی گئی ہے۔ اس کو سمجھو، پڑھو اور اپنے اوپر لاگو کرو کیونکہ دلائل کے ساتھ سمجھی ہوئی بات پر عمل دل کی گہرائی سے ہو سکتا ہے، حقیقی رنگ میں ہو سکتا ہے۔ اس ہدایت کی روح کو سمجھتے ہوئے ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہ بَیِّنَات کے ساتھ، دلائل کے ساتھ جو ہدایت ہے اس کو دوسروں تک پہنچانے اور غیروں کو سمجھانے میں بھی آسانی پیدا ہوتی ہے اور یوں قرآن کریم کے ذریعہ تبلیغ کا، ایک جہاد کا جو حکم ہے وہ بھی پورا ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس میں فرقان بھی ہے۔ ایسے ٹھوس اور بیّن دلائل ہیں جو حق اور باطل میں فرق کر دیتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے والا بھی دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ جو بھی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہا ہے وہ دوسروں سے بہر حال مختلف نظر آئے گا۔ اس کی عملی اور روحانی اور اعتقادی حالت بھی دوسروں سے نمایاں طور پر اعلیٰ درجے پر پہنچی ہو گی۔ اور قرآن کے مقابل پر جب ہم دوسروں سے بات کرتے ہیں تب بھی جب ہم قرآن کی دلیل سے بات کریں گے تو قرآن کے مقابل پر کوئی اور کتاب یا کوئی اور دین کھڑا ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں ایسی تعلیمات ہیں، ایسے تاریخی شواہد ہیں، دوسرے دینوں کے مقابل پر ایسے دلائل ہیں جو روز روشن کی طرح اپنی برتری ثابت کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کے شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے اور اب تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہنے کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور ہمیشہ محفوظ رہنے کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزوں کے ساتھ جو ایک مجاہدہ ہے اس علم و عرفان کے خزانے کو پڑھنے اور سیکھنے کی بھی کوشش کرو اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔ اس کے احکامات پر غور کرو اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرو۔ اس کے بھولے ہوئے حصے کو اس مہینے میں بار بار دہرا کر تازہ کرو۔ اس کی تعلیمات کی جگالی کر کے اس مہینے میں اپنا جائزہ لو کہ کس حد تک تم قرآن کریم پر عمل کر رہے ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کیونکہ یہی باتیں ہیں جو دنیا و عاقبت سنوارنے والی بنتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’یعنی قرآن میں تین صفتیں ہیں اول یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازع پیدا ہو گیا تھاان میں قول فیصل بیان کر کے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ225 حاشیہ نمبر11)

پس یہ ایک ایسی جامع کتاب ہے اور مکمل کتاب ہے جس کا کوئی ثانی نہیں جس میں ہر چیز مکمل طور پر بیان کر دی۔ تمام پرانے دینوں کی غلطیاں نکال دیں۔ تمام پرانی کتابوں کی کمیاں پوری کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور یہ توفیق دے کر آپ کے ذریعہ سے قرآن کریم کی اہمیت و معرفت جاننے کے سامان بھی مہیا فرمائے۔ قرآن کریم کے علوم و معرفت کے خزانے آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے۔ اس کا صحیح ادراک تو آپ کی کتب پڑھنے سے ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے۔ بہر حال اس وقت میں قرآن کریم کے بارے میں آپ کے چند اقتباسات رکھوں گا جس سے قرآن کریم کے مقام و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ اور اس بارے میں ادا کرنے والی ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں، ان کی طرف توجہ ہوتی ہے تا کہ ہم ان باتوں کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے یہ تو اس کے صرف اتنے حصے کی مَیں نے تھوڑی سی وضاحت کی ہے۔

اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اس قدر قوت اور شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقاماتِ کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالاتِ تعلیم، کیا باعتبار ثمرا تِ تعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلوسے چاہو مقابلہ کر و خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 26۔ 27۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر قرآن کریم کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ ہمیں توجہ دلاتے ہیں۔ فرمایا کہ:

’’اگر ہمارے پاس قرآن نہ ہوتا اور حدیثوں کے یہ مجموعے ہی مایہ ناز ایمان واعتقاد ہو تے (اگر صرف حدیثوں پر ہی اعتقاد کرنا ہے) تو ہم قو موں کو شر مساری سے منہ بھی نہ دکھاسکتے۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اَور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے لائق کتاب ہو گی۔ جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔ اُس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہو گی اور دیگر کتابیں قطعاً چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی۔ فرقان کے بھی یہی معنی ہیں۔ یعنی یہی ایک کتاب حق وباطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا او ر کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہو گی۔ اس لئے اب سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو۔ بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبّر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔ بڑے تأسّف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ اعتناء اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احایث کا کیا جاتا ہے۔ اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی۔‘‘ (ملفوظات جلد 1صفحہ386۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر اصلاح کے ذرائع بیان کرتے ہوئے آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ:

’’تبدیلی اور اصلاح کس طرح ہو؟ اس کا جواب وہی ہے کہ نماز سے جو اصل دعا ہے‘‘۔ پہلی بات نماز۔ پھر فرمایا: ’’قرآن شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ102۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس پہلی چیز جو ہے نمازوں کی طرف توجہ ہے۔ اور اِن دنوں میں تو خاص طور پر باجماعت نمازوں کی طرف توجہ ہونی چاہئے، خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ اور پھر قرآن کریم کا کیونکہ رمضان سے تعلق ہے اس لئے ان دنوں میں اگر پڑھنے کی عادت ڈال لیں اور سوچنے کی اور سمجھنے کی عادت ڈال لیں، اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کرنے کی عادت ڈال لیں تو وہ پھر آئندہ بھی کام آتی ہے۔

فرمایا کہ: ’’نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پربیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہر گز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ102۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ پاکستان کے ایک وزیر ماؤ زے تنگ کے زمانے میں چائنا (China) کے دورے پر گئے۔ انہوں نے ماؤ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے اپنی قوم میں یہ انقلاب پیدا کیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ جاؤ اپنے نبی کا اُسوہ دیکھو اور اپنے قرآن کریم کو پڑھو اور اس پر عمل کرو تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ تو غیروں کو بھی جو عقلمند ہیں چاہے وہ مانیں نہ مانیں لیکن قرآن کریم میں ایک نور نظر آتا ہے۔

پھر قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کیا انقلاب آتے ہیں؟ اس بارے میں معجزات کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’دوسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے‘‘ (بڑا واضح ہے) ’’وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہ برکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع ِقرآن شریف کس رنگ میں آئے اور کیسے عقائد میں، اخلاق میں، چلن میں، گفتار میں، رفتار میں، کردار میں اور اپنی جمیع عادات خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی بخشی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارق عادت تصرف تھا جو خاص خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔‘‘ (ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات روحانی خزائن جلد4 صفحہ 447)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل اور وجوہات پہلے آپ نے بیان کر دیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا ؤہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہوگئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کردیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہوگئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پُرآب ہوجاتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جو ان کو اتنی جلدی ایک عالَم سے دوسرے عالَم کی طرف کھینچ کر لے گئی۔ وہ دو ہی باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ نبی معصوم اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا، ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔ دوسری خدائے قادر ومطلق حیّ قیوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔ بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی۔ کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی۔ …لاکھوں مقدّسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الٰہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہوجاتا ہے۔ خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہی ایک قوی توکّل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذّیذ محبت الٰہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے۔ اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز حبِّ الٰہی کے اور کچھ نہیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2صفحہ 77تا79 حاشیہ)

ان کو بیشک جتنا مرضی پیسیں جس طرح گرائنڈر میں پیستے ہیں اور سخت شکنجوں میں نچوڑیں، ان کا عرق نکالیں اگر کوئی ایسی چیز کسی انسان کے پاس نکالنے کی ہو تو ایسے لوگ جو ہیں جو قرآن کی تعلیم پر غور کرنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والے ہیں ان کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہی کہ محبت الٰہی کا عرق ان میں سے نکلے گا اور کچھ بھی نہیں ہو گا۔

فرمایا’’دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دُور تر و بلند تر ہیں۔ خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں۔ انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے۔ انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے۔ جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے۔ جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے۔ جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے۔ وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے۔ پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہریک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے۔ یہ باتیں بلا ثبوت نہیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2صفحہ 77تا79 حاشیہ)

پھر آج بھی ترقی کا یہی گر ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ صرف مان لینا کافی نہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اصل یہی ہے جوکچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابندنہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 379۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے دوبارہ آپ نے فرمایا۔ پہلے بھی مَیں نے یہ اقتباس پڑھا ہے کہ:

’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ اور حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآن۔ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے۔‘‘ یہی بتائے گا کہ تمہارے میں ایمان کیسا تھا؟ تصدیق کرے گا یا جھٹلائے گا۔

فرمایا: ’’اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے‘‘۔ (کوئی کتاب ایسی نہیں جو تمہیں ہدایت دے جب تک قرآن میں سے نہیں گزرو گے۔ جب تک اس میں قرآن کریم کی تعلیمات کا ذکر نہیں ہو گا۔) فرمایا: ’’خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضغہ کی طرح ہوتی‘‘۔ (بڑے گندے لوتھڑے کی طرح ہوتی۔) ’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ26-27)

پھر اس کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور قریباً سب کے سب لوگ بد اعمالیوں اور بدعقیدگیوں میں گرفتار تھے۔ اس کی طرف اللہ جل شانہ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْر۔ یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بد عقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانے میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کے لئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی جس میں کُل مذاہب باطلہ کا ردّ موجود ہے اور خاص کر سورۃ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کُل عقائد کا ذکر ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 10 صفحہ 31۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’(قرآن میں ) جس قدر خداوند قادر مطلق نے تمام دنیا کے مقابلہ پر، تمام مخالفوں کے مقابلہ پر، تمام دشمنوں کے مقابلہ پر، تمام منکروں کے مقابلہ پر، تمام دولتمندوں کے مقابلہ پر، تمام زورآوروں کے مقابلہ پر، تمام بادشاہوں کے مقابلہ پر، تمام حکیموں کے مقابلہ پر، تمام فلاسفروں کے مقابلہ پر، تمام اہل مذہب کے مقابلہ پر ایک عاجز ناتوان بے زر، بے زور ایک اُمّی ناخوان بے علم، بے تربیت کو اپنی خداوندی کے کامل جلال سے کامیابی کے وعدے دیئے ہیں، کیا کوئی ایمانداروں اور حق کے طالبوں میں سے شک کرسکتا ہے کہ یہ تمام مواعید کہ جو اپنے وقتوں پر پورے ہوگئے اور ہوتے جاتے ہیں یہ کسی انسان کا کام ہے؟‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ266-267 حاشیہ نمبر11)

تلاوت کے آداب کے بارے میں کسی نے سوال کیا تھا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے؟ آپ نے فرمایا:

’’قرآن شریف تدبر و تفکّر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہٗ الْقُرْاٰن۔ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد5صفحہ157۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ تلاوت کی غرض کس طرح پوری ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے، نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتا لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور قاف اور عین کو پورے طور پر ادا کر دیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ428-429۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

حدیث میں بھی آیا ہے کہ اچھی تلاوت کرنی چاہئے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ حدیث نمبر 1468)

’’مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مدّ نظر نہ رکھا جاوے اس پر پورا غور نہ کیا جاوے قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ428-429۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ کلام اللہ کی تلاوت سے محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے، آپ فرماتے ہیں:

’’پرستش کی جڑ تلاوت کلام الٰہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد2 صفحہ283)

فرمایا کہ دلوں کی سختی کا علاج بھی قرآن کریم میں ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

’’انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے اور جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے۔ جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے اور بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔ … دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کوہی بار بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر اور قسم کا چنتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 519۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ قرآن کریم کے بعد اب کسی اور الہامی کتاب کی ضرورت نہیں بالکل کامل اور مکمل کتاب ہے۔ فرماتے ہیں ’’قرآن شریف ایسے زمانے میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں کہ جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آ گئی تھیں۔ یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط تفریط اور ہر یک نوع کا فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا اس لئے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجے پر نازل ہوئی۔ پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لئے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے۔ اور قرآن شریف کے وقت میں وہ سب اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ پس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا‘‘۔ (اگر اس وقت کے لحاظ سے مکمل بھی تھیں تو تب بھی کیونکہ اس وقت کی ضروریات اَور تھیں اس لئے تعلیم پھر بھی نامکمل رہنی تھی اور قرآن کریم کا ظہور بہر حال ہونا تھا۔ ) فرمایا ’’مگر قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت درپیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی آوے۔ کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر یہ فرض کیا جائے کہ کسی وقت اصول حقہ قرآن شریف کے وید اور انجیل کی طرح مشرکانہ اصول بنائے جائیں گے اور تعلیم ِتوحید میں تبدیل اور تحریف عمل میں آوے گی یا اگر ساتھ اس کے یہ بھی فرض کیا جائے جو کسی زمانے میں وہ کروڑہا مسلمان جو توحید پر قائم ہیں وہ بھی پھر طریق شرک اور مخلوق پرستی کا اختیار کر لیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہو گا مگر دونوں قسم کے فرض محال ہیں‘‘۔ (کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ یہ ہو۔) (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1 صفحہ101-102حاشیہ نمبر9)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ توبہت دُور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپرواہ ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خُنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لُطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جب موت آکر خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے مگر نہیں۔ اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب اور دجّال کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی۔

مسلمانوں کو چاہیے تھا اور اب بھی ان کے لیے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں۔ اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔ کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 140۔ 141۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اس ثبوت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اور اﷲ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لیے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10)۔ یعنی بے شک ہم نے ہی اس ذکر (یعنی قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں۔ اس لیے ان کتابوں میں انسانی چالاکیوں نے اپنا کام کیا۔ قرآن شریف کی حفا ظت کا یہ بڑا زبردست ذریعہ ہے کہ اس کی تاثیرات کا ہمیشہ تازہ بتازہ ثبوت ملتا رہتا ہے اور یہودنے چونکہ توریت کو بالکل چھوڑ دیا ہے اس لئے ان میں کوئی اثر اور قوت باقی نہیں رہی جو ان کی موت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ116-117۔ ایڈیشن 1984مطبوعہ لندن)

پھر بڑے دردکے ساتھ آپ نے ایک نصیحت فرمائی۔ فرمایا

’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ13)

یہ چند اقتباسات قرآن کریم کی اہمیت و تلاوت کی طرف توجہ دلانے، اور تعلیم پر غور کرنے اور عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے مَیں نے پڑھے ہیں تا کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کی طرف توجہ پیدا ہو اور اس رمضان میں ہم اس اہم خزانے سے فیض پانے والے ہوں۔ جیسا کہ شروع میں مَیں نے کہا اس کو پڑھیں اور غور کریں اور جو چیزیں بھول گئے ہیں۔ بعض لوگوں نے بعض آیات یاد بھی کی ہوتی ہیں لیکن بھول گئے، ان کو دہرائیں، یاد کریں۔ جو احکامات نظروں سے اوجھل ہو گئے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ابھی نماز کے بعد میں دو جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک نماز جنازہ حاضر ہے۔ ہمارے کلیم احمد وسیم صاحب ایم ٹی اے کے کارکن تھے 6؍جولائی کو دل کا دورہ پڑنے سے 54سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ مرحوم حضرت حاجی محمد دین صاحب درویش قادیان کے پوتے تھے۔ سید صادق علی صاحب سہارن پور کے نواسے تھے۔ مبارک ساقی صاحب جو یہاں مبلغ رہے ہیں، وکیل التبشیربھی رہے ہیں یہ اُن کے داماد تھے۔ مکرم کلیم صاحب بچپن سے سلسلے کے کاموں میں فعّال تھے۔ کراچی جو رہے ہیں تو وہاں کی لوکل اور ضلعی عاملہ کے ممبر تھے۔ ابو ظہبی میں بطور نائب صدر جماعت کی خدمت کی توفیق پائی۔ 1989ء میں یوکے میں شفٹ ہوگئے۔ یہاں لندن ریجن کے قائد مجلس رہے۔ پھر شعبہ مال میں، خدمت خلق میں رہے اور جلسہ سالانہ کی خدمات بجا لاتے رہے۔ 93ء میں ایم ٹی اے کا آغاز ہوا ہے تو اس وقت سے یہ ایم ٹی اے کے جو بنیادی ابتدائی کارکن تھے ان میں شامل تھے اور مینٹیننس (maintenance) اور ٹیکنیکل کاموں میں بھی کام کیا دوسرے شعبوں میں بھی انہوں نے کام کیا اور آخری سانس تک ایم ٹی اے کے لئے خدمت بجا لاتے رہے۔ وہاں جو ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ ہے یہ اس کے انچارج تھے۔ ایم ٹی اے کے ابتدائی نیوز کاسٹر اور پریزنٹر (presenter) بھی رہے تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت کا تعلق تھا۔ دیانت داری سے کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ اپنے سٹاف کے ساتھ انتہائی پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ عزت و احترام کا سلوک تھا۔ ان کی بوڑھی والدہ زندہ ہیں ان کے علاوہ انہوں نے اہلیہ سارہ وسیم صاحبہ اور ایک بیٹی اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں۔ والدین کا بڑا احترام کرنے والا، خیال رکھنے والا، انتہائی خدمت کرنے والا، بہنوں بھائیوں کا خیال رکھنے والا تھا۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر کو میں نے دیکھا ہے حقیقی معنوں میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ خدا تعالیٰ کے دین کے کام کرنے کے لئے ہر وقت حاضر ہوتے تھے اور خلافت کی طرف سے جو کوئی بھی کام سپرد ہوتا اس کو بڑے جوش اور جذبے اور بشاشت سے سرانجام دینے کی کوشش کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ لوگوں کو بھی اس کی تسلی دلایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرو اور یہ کام کرو یا دعا کرو۔ مہمان نوازی ان کا نمایاں وصف تھا اور جو مہمان گھر میں آتے تھے ان کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے بلکہ خود بلاتے تھے۔ پھر ان کی ہمشیرہ نے بھی لکھا ہے کہ تصنّع بالکل نام کا نہیں تھا اور ایک خوبی ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کی تھی۔ کہتی ہیں کہ میں نے اکثر دیکھا ہے۔ ان کو بڑا شوق تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک کارکن عاصم شہزاد صاحب کہتے ہیں گیارہ سال کلیم صاحب کے ساتھ میں نے ایم ٹی اے میں کام کیا اور ان کو ہمیشہ سچا اور مخلص اور خلافت کا فدائی کارکن پایا اور سینئر کارکن کی حیثیت سے کبھی بھی اپنے سے جونیئر کارکن کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں سینئر ہوں اور بڑے پیار اور محبت سے نئے آنے والے کارکنان کو کام سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ انہیں ایم ٹی اے کمپلیکس میں یہاں بیت الفتوح میں صفائی کے انتظامات کرتے ہوئے دیکھا اور میں نے پوچھا کہ آپ خود یہ صفائی کیوں کرتے ہیں دوسروں سے کروا لیا کریں۔ تو آپ نے بڑے فخر سے بتایا کہ جب اس کمپلیکس کا افتتاح ہوا ہے تو میرے متعلق کہا کہ خلیفہ وقت نے کارکنوں کو جو دیگر نصائح کی تھیں جو نصائح کی تھیں ان میں صفائی کی طرف بھی خاص نصیحت کی تھی اور جب اس وقت میں نصیحتیں کر رہا تھا تو اس وقت میری نظر ان کی طرف تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب سے پہلا حکم ان کے لئے تھا کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایم ٹی اے کے پرانے کلپ دیکھ رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے اقتباسات سلائیڈ میں رکھے گئے تھے اور جن سے یہ اظہار تھا کہ ایم ٹی اے جو ہے ایک ایسا ادارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے تو یہ کلپ دکھاتے ہوئے زار و قطار رونے لگے۔ کہنے لگے کہ کلیم بھی کس قدر خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی توفیق دے رہا ہے کہ وہ اس میں کام کرے۔

پھر کہتے ہیں کہ ان کا چھٹی کا، رخصت کا حق بنتا تھا۔ اس کے لئے ایک دفعہ انہوں نے رخصت کی درخواست دی تو عطاء المجیب راشد صاحب نے ان کو کہا ابھی کام بہت ہے آپ ابھی رخصت نہ لیں تو انہوں نے فوری طور پر رخصت واپس لے لی اور وہ درخواست بھی پھاڑ دی۔ عطاء المجیب صاحب نے بھی مجھے لکھا ہے کہ بڑی بشاشت سے انہوں نے وہ درخواست پھاڑی، یہ نہیں کہ کوئی غصے میں۔ پھر اس کے علاوہ امام صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ ماشاء اللہ بہت محبت اور خلوص سے انہوں نے ٹھوس خدمت کی توفیق پائی۔ ہمیشہ جماعتی کاموں اور مفادات کو ذاتی کاموں پر فوقیت دی۔ اپنے کام کے بھی ماہر تھے اور بڑی دلی رغبت سے کرتے تھے۔

خالد صاحب نے بھی لکھا کہ راویل صاحب کے زمانے میں ان کا مختلف وقتوں میں آنا جانا ہوتا تھا تو جب بھی ان کو کہا گیا۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں، جب راویل صاحب فارغ ہوں دن ہو رات ہو آ جایا کریں۔ مجھے صرف بتا دیا کریں تا کہ میں اس سے پہلے آ کے وہاں انتظام کر دیا کروں۔ تو ہر وقت خدمت کے لئے تیار رہتے تھے۔ میں نے بھی دیکھا ہے بچوں کے ساتھ ملاقات کے لئے کبھی میرے پاس آئے ہیں تو بچوں کو آگے بٹھایا کرتے تھے اور خود پیچھے بیٹھ جاتے تھے۔ شاید اس لئے کہ براہ راست بچے میرے سے باتیں کریں اور وہ تعلق جو اُن کو خلافت سے ہے ان بچوں میں بھی آئندہ جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کی یہ خواہش ہمیشہ پوری ہوتی رہے اور ان کے بچوں کا خلافت سے تعلق قائم رہے اور اِن دونوں ماں باپ نے بچوں کی جو ماشاء اللہ بڑے احسن رنگ میں تربیت کی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان بچوں کو جماعت کا مفید وجود بنائے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔ ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور استقامت دے، ان کی والدہ کو بھی صبر دے۔

دوسرا جنازہ مکرم الحاج عاصم زکی بشیر الدین صاحب امریکہ کا ہے۔ یہ جنازہ غائب ہو گا۔ پہلا جنازہ حاضر ہے۔ یہ 22؍جون 2014ء کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ چند سالوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے لیکن کبھی اپنے چہرے پر کسی قسم کا ملال ظاہر نہیں ہونے دیا۔ بڑی ہمت اور صبر کے ساتھ بیماری کا مقابلہ کرتے رہے۔ ایک عیسائی گھرانے میں 26مئی 1929ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی مذہب سے لگاؤ تھا اور جوانی میں خدا کے فضل سے آپ کو ذاتی شوق اور مطالعہ کی وجہ سے احمدیت کا تعارف ہوا اور پھر انیس بیس سال کی عمر میں آپ نے احمدیت قبول کر لی۔ خدا تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین تھا۔ نہایت مضبوط ایمان تھا۔ بڑے صابر اور شاکر مومن۔ یعنی مومن ہونے کی حقیقی تصویر تھے۔ کئی جماعتی بزرگ شخصیات سے شرف ملاقات ان کو حاصل ہوا۔ پہلی دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے 1940ء میں ان کی ملاقات ہوئی۔ 1979ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔ عاصم صاحب کہا کرتے تھے کہ جب میں نے خلیفۃ المسیح الثالث سے پہلی ملاقات کی تو مجھے یوں لگا جیسے ان کے گردنور کا ایک ہالہ ہے جو اب بھی میں تصور کر سکتا ہوں۔ امریکہ کی نیشنل عاملہ میں ان کو خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ لوکل صدر بھی رہے، سیکرٹری تبلیغ بھی رہے۔ زعیم انصار اللہ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ امریکہ کے شہر سیاٹل میں ایک پورٹ پر کام کرتے تھے اور آپ کو دو تین ماہ گھر سے دور رہنا پڑتا تھا۔ انہی ایام میں جبکہ یہ آپ کی بڑی آمدنی والی ملازمت تھی، ایک دفعہ جلسہ آ گیا اور آپ جلسہ اٹنڈ (attend) کرنے کے لئے اپنا کام چھوڑ کر آ گئے، ملازمت چھوڑ کر آ گئے۔ ہمیشہ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک جماعتی پروگرام میں شامل ہونے کے لئے یا کسی جگہ خدمت کے لئے جا رہے تھے اور تیز گاڑی چلا رہے تھے تو پولیس والے نے آپ کو روک لیا۔ آپ نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ پولیس نے پوچھا کہ چرچ یعنی مسجد میں جا رہے ہو۔ ٹوپی مسلمانوں والی نماز والی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پولیس افسر بھی کوئی نیک تھا۔ کہنے لگا اچھا جاؤ پھر جتنا تمہیں جرمانہ مَیں نے کرنا تھا وہ جا کے اپنی مسجد کو ادا کر دینا۔ تو انہوں نے مسجد پہنچتے ہی پچاسی ڈالر کی رقم جو جرمانے کی ہونی تھی وہ مسجد کے چندے میں نہایت ایمانداری سے دے دی۔ اسی طرح جب سیاٹل (Seattle) کی مسجد بنی ہے تو اس زمانے میں انہوں نے سب سے زیادہ رقم پیش کی۔ یہ 1970ء کی بات ہے جس میں کہتے ہیں کہ اس رقم میں اس زمانے میں ایک نئی کار آ جاتی تھی۔ ہمیشہ تبلیغ کا شوق تھا۔ اپنی گاڑی میں فولڈنگ ٹیبل اور چند کتب اور فلائر ہمیشہ رکھتے تھے اور جہاں بھی جاتے وہاں سٹال لگایا کرتے اور تبلیغ کیا کرتے تھے، لٹریچر تقسیم کرتے تھے۔ سیاٹل کی پبلک لائبریری میں جماعتی کتب اور فلائر انہوں نے رکھوائے۔ آخری لمحے تک ان کو جماعت کی ترقی کی فکر رہتی تھی۔ بڑی محبت تھی جماعت سے، خلافت سے۔ اور ہمیشہ لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ جماعت کے لئے خدمت کرو۔ آپ کے لواحقین میں اہلیہ اور چار بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ جولائی 2014ء شہ سرخیاں

    قرآن کریم کی اہمیت، اس کے مقام، اس کی تلاوت، اس پر تدبّر، اس پر عمل کرنے کی ضرورت اور اس کے انسانی زندگی پر اثرات سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے پُر معارف بیان اور احباب جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دینے کی تاکیدی نصائح۔

    مکرم کلیم احمد وسیم صاحب آف لندن اور مکرم الحاج عاصم زکی بشیر الدین صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکرِخیر اور نماز جنازہ۔

    فرمودہ مورخہ 11؍جولائی 2014ء بمطابق 11 وفا 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور