شر پسند معاندین کا گوجرانوالہ میں معصوم احمدیوں پر حملہ، لوٹ مار اور آگ لگانے کی بہیمانہ کارروائی

خطبہ جمعہ یکم اگست 2014ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ وَالسَّمَآء ذَاتِ الْبُرُوْجِ۔ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ۔ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ۔ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْا ُخْدُوْدِ۔ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْدٌ۔ وَہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُوْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ۔ وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔ الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَہِیْدٌ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْا َنْْہَارُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ۔ (البروج: آیات 1تا12)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ: قَسم ہے بُرجوں والے آسمان کی اور موعود دن کی اور ایک گواہی دینے والے کی اور اُس کی جس کی گواہی دی جائے گی۔ ہلاک کر دئیے جائیں گے کھائیوں والے یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے۔ جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے اور وہ اس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے۔ اور وہ ان سے پرخاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ کامل غلبہ رکھنے والے صاحبِ حمد پر ایمان لے آئے جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ یقینا وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنے میں ڈالا پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب مقدر ہے۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ بعینہٖ اس واقعہ کا نقشہ کھینچ رہی ہیں جو گوجرانوالہ میں احمدیوں کے ساتھ ہوا۔ یہ احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک ایسی دلیل ہے کہ اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں اپنے علماء، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یقین کر لیں اور اس ظلم کا حصہ نہ بنیں جو ظالم لوگ یا ان کے چیلے احمدیوں پر کرتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کلام سمجھنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس کی بات تو یہ لوگ بالکل سننا نہیں چاہتے اور اس لئے ظلموں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان آیات کی مختصر وضاحت مَیں یہاں کر دیتا ہوں۔ جس برجوں والے آسمان کی یہاں قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد آسمان کے بارہ برج ہیں، ستارے ہیں سیارے ہیں جن کے بارے میں علم ہیئت والے بتاتے ہیں۔ یہاں تمثیلی رنگ میں ان روحانی برجوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اسلام کی تاریخ سے اہم تعلق ہے اور اس سے مراد بارہ مجدّدین ہیں جو اسلام کے آسمان پر سورج غروب ہونے کے بعد اپنی روشنی دینے کے لئے چمکے یا کچھ عرصے کے لئے روشنی دیتے رہے۔ اس عرصے کے بارے میں احادیث بھی موجود ہیں اور پرانے علماء بھی صاد کرتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ بارہ صدیوں میں بارہ دفعہ اسلام کے تاریک زمانے یا روشنی کی کرنیں پھیلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو لوگ بھیجے انہیں تو مسلمان مانتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْد۔ کہ وہ دن جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، اس کی قسم کھا کر جب تیرہویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے مطابق موعود مامور بھیجا تو انکار کرنے لگ گئے۔ پہلوں کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا بتایا تھا کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئیں گے (سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃ حدیث نمبر 4291) لیکن اس موعود کے بارے میں خدا تعالیٰ نے بھی علیحدہ بیان کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف نشانیاں بتا کر جن میں چاند سورج گرہن کی نشانی بھی ہے اور بے شمار اَور نشانیاں بتائیں کہ وہ آئے گا، جو روز روشن کی طرح پوری ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ لیکن اس کو یہ ماننے سے انکاری ہیں۔ بلکہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بعد بعض نے کہنا شروع کر دیا اور اب بھی بڑے زور شور سے بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں اب کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ مولوی اور نام نہاد علماء جو ہیں ان کے منبر چھن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے علم و عقل کی قلعی کھل جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اس زمانے میں آنے کے بارے میں اور عین پیشگوئیوں کے مطابق آنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’یہ عجیب امر ہے اور مَیں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک 1290ھ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 208)

پھر کچھ عرصے بعد آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا اور آسمانی اور زمینی نشان بھی آپ کے حق میں پورے ہوئے۔ جماعت کے لٹریچر میں اس کی تفصیل موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مَیں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جا رہا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس یوم الموعود کے وقت یعنی مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی احیاءِ نَو تو بیشک ہو گی۔ اسلام کی نئی زندگی کا زمانہ تو شروع ہو گا لیکن اس کے لئے مومنوں کو، ان کو جو مسیح موعود کو مانیں گے بڑی بھاری قربانیاں دینی پڑیں گی۔ فرمایا کہ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْا ُخْدُوْدِ۔ ہلاک کر دئیے جائیں گے کھائیوں والے۔ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۔ یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْدٌ۔ جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے۔ یہ مخالفین کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی مخالفتیں ہوں گی۔ لیکن یہ آگیں جو بھڑکائی بھی جائیں گی اور اس کے گرد بھی بیٹھے ہوں گے۔ یہ تو بیشک ہو گا لیکن انجام کار مخالفین اپنا بد انجام دیکھیں گے۔ وہ ہلاک کئے جائیں گے۔ بہر حال مومنوں کو لمبا عرصہ جور و ستم اور بھیانک مظالم کا نشانہ بننا پڑے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی ترقی ہم سے کچھ مطالبہ کرتی ہے اور وہ مطالبہ موت کا مطالبہ ہے۔ (ماخوذ از فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10)

ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ بہت ایندھن والی آگیں تمہارے خلاف بھڑکائی جائیں گی۔ ان آگوں میں بار بار ایندھن ڈالا جائے گا۔ یہ آگیں بھڑکانے والے ارد گرد بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے۔ یہ لوگ جنہوں نے ایسے انتظامات اپنے زعم میں کئے ہوں گے کہ گویا خندقیں کھود کر، ان مومنوں کو محدود کر کے، ہر طرف سے گھیر کر پھر آگیں جلائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ بیشک آگ کی تکلیفوں سے تو گزرنا پڑے گا لیکن آخر کار یہ ہر طرف سے گھیر کر مومنوں کو آگ میں جلانے کی کوشش کرنے والے خود ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے۔ اپنے زُعم میں تو یہ آگ کے ارد گرد پہرے لگا کر بھی بیٹھے ہوں گے کہ اس آگ سے کوئی بچ کر باہر نہ نکلے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس بھی ساتھ کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ وہ بھی نہیں کوشش کرتی کہ بچائے بلکہ حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اور پھر یہ سب آگ بھڑکانے والے نہ صرف باہر کھڑے ہوتے ہیں بلکہ مومنوں کو جلا کر مزا لیتے ہیں۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْدٌ۔ یہ صرف کوئی پرانا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی ہے جو ہمیں بتا رہی ہے کہ مومنین کے مخالفین اس طرح کی آگیں بھڑکائیں گے اور پھر ان آگوں پر پہرے لگا کر بھی بیٹھیں گے۔ یہ ایک اور ثبوت ہے ہمارے سچائی کے راستے پر ہونے کا اور مومن ہونے کا اور ان مخالفین کے ان لوگوں کے زمرہ میں شامل ہونے کا جو مومنین کے خلاف آگیں بھڑکاتے ہیں۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ گھیرا ڈال کر بیٹھے ہیں کہ اس آگ سے باہر کوئی نہ نکلے بلکہ خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔

مَیں کچھ تفصیلات شہداء کے حوالے سے بیان کروں گا جس میں آپ دیکھیں گے کہ عین اس کے مطابق انہوں نے کمروں کے دروازے بند کر کے پھر آگ لگائی اور کمروں میں جو دس گیارہ بچے، عورتیں اور لوگ تھے ان کو تنگ کرنے کے لئے، ان کو بتانے کے لئے کہ اب تم پھنس گئے اب باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں۔ انہیں پھر کھڑکیوں سے شیشوں سے طنزیہ انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے اور خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔ اس واقعہ کی جو ویڈیو فلمیں ہیں ان میں بھی ان ظالموں کے چہرے سے واضح ہوتا ہے کہ بے حیائی اور بے شرمی کی ان سے انتہا ہو رہی ہے۔ بہرحال ان کے عمل، ان کے نعرے، ان کی باتیں یہ ان کی دشمنی کی انتہا ہے۔ بلکہ اس واقعہ کے دو دن بعد کی خبر تھی۔ اسی علاقے کے قریب ایک دوسرے علاقے کے ایک مولوی نے اس علاقے کے لوگوں کو جمع کر کے یہ وعدہ بھی لیا ہے کہ ان احمدیوں کے ساتھ یہ تو کچھ بھی نہیں کیا گیا تم میرے سے وعدہ کرو کہ ہم اس سے بڑھ کر کریں گے اور تم میرا ساتھ دو گے۔ تو یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جس کے بعد ہم کہیں کہ معصوم بچوں اور عورتوں کو شہید کر کے شاید ان کو کوئی شرم آ گئی ہو۔ ایسے بھی بے شرم ہیں اور بہیمانہ سوچ رکھنے والے ظالم ہیں جو ٹوئٹر (Twitter)پر بھی (فون پر آج کل پیغام ٹوئٹ(tweet) کیا جاتا ہے) پیغام دے رہے ہیں اور اپنے تأثرات چھوڑ رہے ہیں کہ احمدیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا بڑا اچھا ہوا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام پر ہو رہا ہے۔

اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْدٌ۔ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ مستقل بیٹھے رہیں گے۔ یہ عذاب دینے کی تدبیریں لمبی کرنے کی کوشش کریں گے۔ قُعُوْد کا مطلب بیٹھنا ہے اور ’کسی چیز پر بیٹھے رہنا‘ یہ بھی محاورہ ہے کہ لمبے عرصہ تک کوئی کام کرتے چلے جانا۔

پس ان کے جھوٹ فریب اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ جو ہے یہ تو چل ہی رہا ہے اور شاید لمبا چلتا رہے گا کیونکہ مخالفین تو پیدا ہوتے رہیں گے۔ اور یہ لوگ کوشش کرتے چلے جائیں گے کہ اس کو چلاتے رہیں۔ لیکن اس کی کوئی ایک انتہا بھی ہے اور وہ انتہا یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر دی کہ تم بھی چلتے جاؤ اور آخر کار ہو گا کیا؟ تم خود اس آگ سے ہلاک کئے جاؤ گے۔ خود اس آگ میں ڈالے جاؤ گے۔

ان کے علماء بھی جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو رد کر سکیں سوائے اس کے کہ جھوٹی باتیں بنائی جائیں، آپ کی کتابوں میں سے توڑ مروڑ کر واقعات پیش کئے جائیں، اقتباسات لئے جائیں۔ لیکن مخالفت نے انہیں اندھا کر دیا ہے۔ یہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے۔ وہ آگیں بھڑکانے میں عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ پس یہ آگیں کبھی تو حقیقی رنگ میں یہ بھڑکاتے ہیں اور مومنوں کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہیں ناکام رہتے ہیں۔ اور پھر کبھی کیا بلکہ یہ تو مستقل ہی ہے کہ احمدیت کی مخالفت کی جو آگ ہے وہ یہ ہر طرف بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ آجکل انہوں نے پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں جھوٹ کے پلندوں پر مشتمل احمدیت مخالف اشتہار لگائے ہوئے ہیں اور یہ سرکاری عمارتوں پر بھی حتی کہ ہائیکورٹ کی عمارتوں پر بھی لگے ہوئے ہیں۔ اور ایسی غلط باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی ہیں یا جماعت کے عقائد کی طرف یہ لوگ منسوب کرتے ہیں کہ جس کی انتہا کوئی نہیں اور یہ باتیں منسوب کر کے لوگوں کو بھڑکاتے ہیں۔ ایسی باتیں جن کا جماعت کے عقائد سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ ان کی انہی مخالفتوں کی وجہ سے جماعت کو تسلی دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309)

پس بیشک افراد کو تو قربانیاں دینی پڑیں گی لیکن یہ جماعت کا جو درخت ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا پھلتا اور پھولتا رہے گا انشاء اللہ۔ اور یہ آگیں بھڑکانے والے خود اپنے آپ کو اسی آگ میں جلتا دیکھیں گے یا کسی اور ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا۔

قُتِلَ اَصْحٰبُ الْا ُخْدُوْدِ۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو جماعت احمدیہ کے حق میں پوری ہو بھی رہی ہے اور پوری ہوتی بھی رہے گی۔ یہ لوگ ہلاک ہوتے رہیں گے۔ پس یہ پیشگوئی بھی ان ظلموں کے ساتھ باربار پوری ہوتی رہے گی اور پھر یہ نہیں کہ باز آ جائیں بلکہ بار بار اپنے ظلموں کا اعادہ بھی کرتے رہیں گے۔ لیکن احمدیت کا درخت جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے یہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ 125 سالہ جماعت احمدیہ کی تاریخ اور یہ ترقی جو ہو رہی ہے اس سے اب ان کو یہ سبق لے لینا چاہئے کہ یہ انسانی کام نہیں ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے کام میں دخل اندازی کر کے اسے روکنے کی کوشش کر کے یہ سوائے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے اور کچھ نہیں لے رہے۔ یہ جانتے ہیں کہ غلط کرتے ہیں یا قرآن کریم بھی ان کی تائیدنہیں کرتا، اللہ کے رسول کی کوئی بات ان کی تائیدنہیں کرتی۔

میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو واقعات بیان کرتا رہا ہوں، ان میں بھی اور اب بھی جو لوگ حق کو پہچان کر بیعت میں شامل ہوتے ہیں ان کے واقعات میں بھی یہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ لوگ جو نام نہاد علماء ہیں یہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں سے صرف قرآن کی بنیاد پر بات نہ کرو۔ اپنے لوگوں کو، اپنے عوام الناس کو ان علماء نے یہ پٹی پڑھائی ہے، یہ سبق سکھاتے ہیں کہ قرآن کی بنیاد پر ان سے بات نہ کرو۔ اس سے تو یہ لوگ وفات مسیح بھی ثابت کر دیں گے۔ ختم نبوت کی جو تعریف یہ کرتے ہیں وہ بھی ثابت کر دیں گے۔ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ثابت کر دیں گے بلکہ اب تو ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کی باتیں ہی نہ سنو اور ان سے بالکل بات ہی نہ کرو۔ اس لئے کہ ان کو پتا ہے کہ دلیل کی رو سے ان کے پاس کچھ نہیں۔ ہاں ضد اور ہٹ دھرمی ہے اور ضد اور ہٹ دھرمی میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی مطلب نکالتے رہیں یا اپنی مرضی کے جتنے مرضی مطالب نکالتے رہیں۔ غلط تعلیم اور نظریات سے انہوں نے عوام الناس کو بیوقوف بنایا ہوا ہے اور اب اس زعم میں ظلم کرتے ہیں اور کرواتے ہیں کہ اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔

حکومت کا جو میڈیا یا ٹی وی چینل ہے اس کا یہ حال ہے کہ گزشتہ دنوں ایک مولوی صاحب آئے ہوئے تھے بغیر احمدیوں کا نام لئے انہوں نے یہ کہا۔ اپنی طرف سے تو وہ اپنی عوام کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن زیادہ زور ان کا اس بات پر تھا کہ یہ جو اقلیت ہے اس کو بھی اکثریت کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ اب یہ خود ہی مارتے ہیں۔ خود ہی اس پر الزام لگاتے ہیں۔ خود ہی منصف بنتے ہیں۔ خود ہی فیصلے کرتے ہیں اور پھر خود ہی سزائیں دیتے ہیں۔ بہر حال ان لوگوں کے پاس کیونکہ ایک منبر ہے اور مولویوں کے پاس ایک سٹریٹ پاور (street power) بھی ہے۔ یا خود سیاستدانوں نے اب اپنی سیاست اسی میں سمجھی ہے کہ احمدیوں کی مخالفت کی جائے، اس لئے حکومت جو ہے وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔ ان کو یہ نہیں پتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام کیا رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ یقینا وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالا۔ پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لئے جھنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا وہ لوگ جو مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب دیتے ہیں یا دینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے خلاف آگیں بھڑکاتے ہیں، پھر اس پر پہرے لگاتے ہیں کہ ان کو کوئی بچانے والا نہ آ جائے تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ یہ لوگ تو ظاہری آگ اور چھپی ہوئی آگ بھی بھڑکاتے ہیں تا کہ جو لوگ ان کے ساتھی ہیں، ان کے ہمنوا ہیں وہ ہر طریقے سے مومنوں کو عذاب میں ڈالنے کی کوشش کریں اور کرتے رہیں۔ آجکل یہ فتنہ اور چھپی ہوئی آگ اس طرح بھی بھڑکائی جاتی ہے کہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم احمدی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے یا آپؐ کی ہم توہین کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جو ہمارے دلوں کو سخت تکلیف پہنچانے والا الزام ہے۔ حالانکہ احمدی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور جلال کے اظہار کے لئے دنیا کے کونے کونے میں دن رات مصروف ہیں۔ جہاں کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ ہو احمدی سب سے پہلے اس حملے کا جواب دینے کے لئے وہاں موجود ہوتا ہے۔ پس ہم تو وہ ہیں جو اپنی موت قبول کر سکتے ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے معمولی سے لفظ کو بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو ہمارے عمل ہیں وہ کیا ہیں اور وہ جانتا ہے کہ جو ہمارے دل میں ہے وہ کیا ہے۔ اس میں تضادنہیں ہے۔ یونہی تو نعوذ باللہ ایک جھوٹے کی جماعت کو باوجود تمام دنیا کی مخالفت کے وہ ترقی پہ ترقی نہیں دے رہا۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کی جماعت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُس نے اِس کو ترقی دینی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے مومنوں کو جو میرے جاہ و جلال اور توحید کے قیام کے لئے اور میرے آخری نبی کی عزت و جلال کو قائم کرنے کے لئے صبح شام لگے ہوئے ہیں انہیں فتنے میں ڈالنے اور تکلیف دینے والوں، ان کے بدنوں کو جلانے والوں یا ان کے گھروں کو جلانے والوں یا جھوٹی باتیں ان کی طرف منسوب کر کے ان کے دلوں کو جلانے والوں کو مَیں چھوڑوں گا نہیں۔ ان کو یقینا جہنم کی آگ میں ڈالوں گا سوائے اس کے کہ وہ توبہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کر لیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے۔ لیکن اگر توبہ نہیں کرتے تو یاد رکھیں فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ جس طرح انہوں نے مؤمنوں کے دلوں کو جلایا یا ان کے بدنوں کو جلایا یا ان کے گھروں کو جلایا یا کوشش کرتے رہتے ہیں اور کبھی کامیابی ہوئی، کبھی نہیں ہوئی۔ اسی طرح انہیں بھی عذاب دیا جائے گا۔ لیکن ایسے ظلم کرنے والوں کا عذاب دو طرح کا ہو گا۔ ظاہری بھی اور باطنی بھی۔ جلنے کا عذاب بھی اور جہنم کا عذاب بھی۔ ہمارے دلوں کو تو یہ لوگ جھوٹے الزام لگاکر، اس ہستی کے بارے میں جو ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ پیارا ہے ہماری طرف جھوٹ منسوب کر کے دلوں کو جلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے دل تو اس وقت اس سچائی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کیوں ترقی کر رہی ہے۔ کیوں ہماری تمام تر مخالفت کے باوجود جماعت کا ہر فرد اپنے ایمان پر قائم ہے۔ کیوں ان کا ہر بچہ بوڑھا مرد اور عورت ہمارے سے خوف نہیں کھاتا اور ہمارے ظلموں کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیوں کر رہا ہے؟ گوجرانوالہ کے رہنے والوں نے 1974ء کے فسادوں میں بھی بہت قربانیاں کی تھیں اور اس کی ایک مثال قائم کی تھی۔ اور آج بھی انہوں نے قربانیوں کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔ جس میں آٹھ ماہ کی بچی، چھ سال کی بچی اور ایک عورت نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر قربانی کی ایک مثال قائم کی بلکہ ایک وجود جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا تھا جس نے ڈیڑھ دو ماہ بعد اس دنیا کو دیکھنا تھا وہ بھی ان ظالموں کی وجہ سے دنیا میں آنے سے محروم ہوا اور قربانی دے کے گیا۔

بہر حال ان ظالموں اور آگیں لگانے والوں کے بارے میں تو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ان کا انجام کیا ہو گا اور ساتھ ہی ایمان لانے والوں کو بھی ان قربانیوں کے بدلے میں انعامات کی تسلی کر وا کر فرمایا کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْا َنْْہَارُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ دشمنوں نے تو آگوں کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی نگرانی کرتے رہے کہ یہ نہ بجھیں۔ جیسا کہ ہماری رپورٹس میں بھی ذکر آتا ہے کہ فائر بریگیڈ والوں کو بھی انہوں نے روک دیا اور پتھر مارنے شروع کر دئیے کہ آگ بجھانے کے لئے آگے نہیں جانا۔ اسی طرح ایمبولینس کو بھی مریضوں کو نکالنے سے روک دیا اور سامنے کھڑے ہو گئے اور ناچتے رہے۔ لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مظلوموں کے لئے میں نے ایسی جنت تیار کی ہوئی ہے جس کے باغ ایسے ہیں جن کی شاخیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ جن کے سائے ٹھنڈے ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ جب چاہا پانی پی کر اپنے گلوں اور جسموں کو تازہ کر لیا۔ دشمن نے تو آگ کی تپش دینے کی کوشش کی تھی۔ جنت میں تو ٹھنڈے سائے ہیں۔ دھوپ کی تپش بھی انہیں نہیں پہنچے گی۔ دشمن نے تو معصوم بچوں اور بیمار عورت کے گلے دھوئیں سے چوک (chock) کرنے کی کوشش کی تھی یا خشک کرنے کی کوشش کی تھی اور پانی سے محروم رکھا تھا کہ اس طرح سانس گھٹ کے مر جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ان کے لئے کھلی فضا اور ٹھنڈا پانی مہیا کرے گا جہاں ان کے گلے اور جسم ہر وقت تروتازہ رہیں گے۔

پس یہ واضح فرق ہے آگیں لگانے والوں کے انجام کا اور مظلوموں اور مومنوں کے انجام کا۔ ہم ان ظلموں کے خلاف مدد کے لئے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے تھے آج بھی اس کے آگے جھکتے ہیں۔ ان آیات میں اس عورت کے بھی سوال کا جواب آ گیا جس نے اس واقعہ کے بعد کچھ دنوں پہلے مجھے جرمنی سے لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تو الہام ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یا مجھے مت ڈراؤ آگ میری غلام بلکہ میرے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ 324 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

اس عورت نے آگے کوئی بات تو نہیں لکھی لیکن مطلب یہی لگ رہا تھا کہ پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟

پہلی بات تو یہ کہ اپنا ایمان مضبوط رکھیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے بتا دیا تھا کہ یوں ہو گا جیسا کہ ان آیات میں مَیں نے اس کی تفصیل بتائی کہ یہ ہوگا۔ یہ آیات اس بارے میں بڑی واضح ہیں۔ اور الہام کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے آگیں بھڑکائیں گے۔ یقینا بھڑکائیں گے لیکن جو مقصد ان آگوں سے یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ مقصد تو یہی ہے کہ آگیں لگا کر احمدیوں کو احمدیت سے برگشتہ کرو۔ آگ کے عذاب سے جو یہ لوگ بھڑکاتے ہیں اس سے احمدیوں کو ڈرانے کی کوشش کرو۔ لیکن کیا کسی حقیقی مومن کا ان باتوں سے ایمان ضائع ہوا؟ کبھی نہیں۔ ہاں ان آگوں نے غلام بن کر مومنوں کو ترقی کے راستے ضرور دکھائے۔ اس کے دروازے ضرور کھولے اور ان کے ایمان کو مضبوط کیا۔ اس آگ کی وجہ سے اگر ظاہری نقصان ہوا تو وہ بھی کھاد بن کر جماعت کی ترقی اور تعارف کے ایسے دروازے کھولنے والا بن گیا کہ حیرت ہوتی ہے اور پھر بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ دشمن اپنی کارروائی میں ناکام بھی ہوا جیسا کہ مَیں نے کہا۔

پس ہر صورت میں جب نتائج اللہ تعالیٰ کی تائید کا پتا دے رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کے مختلف پہلو ہیں۔ ظاہری بھی اور باطنی بھی۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان آگوں کے بھڑکانے کے نتیجے میں آگ بھڑکانے والوں کو تو میں جلنے کا عذاب بھی دوں گا اور جہنم کا عذاب بھی دوں گا لیکن آگ سے نقصان پہنچنے والے مومنین کے لئے تو ٹھنڈی سائے دار جنتیں ہیں۔ یہ معصوم بچے جنہوں نے جان دی۔ یہ تو ویسے ہی جنتی ہوتے ہیں ان کی اس قربانی نے تو انہیں خدا تعالیٰ کا مزید پیارا بنا دیا۔ خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے پیار کی آغوش میں لے لیا۔ الہام میں یہ تو کہیں نہیں کہا گیا تھا کہ آگ احمدیوں کے لئے کوئی نشانی کے طور پر ہے اور یا یہ عذاب ہے دوسروں کے لئے اور یہ اس عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ کوئی ایسی نشانی نہیں بتائی گئی تھی۔ مقصد یہی تھا کہ آگ سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہاں بعض دفعہ ظاہری طور پر بھی پوری ہوتی ہے باطنی طور پر بھی پوری ہوتی ہے۔ کہیں آگیں بجھ بھی جاتی ہیں کہیں نقصان بھی پہنچائے گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار کے لئے جو عذاب مقدر تھا وہ جنگ کا عذاب تھا۔ دوسرے تو کوئی عذاب ان کو نہیں آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہی عذاب ان کے لئے مقدر تھا اور اسی سے وہ تباہ ہوئے اور ان کا زور ٹوٹا۔ لیکن کیا ان جنگوں میں مسلمان شہیدنہیں ہوئے؟ یقینا ہوئے۔ لیکن جہاں کفار کے مرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ جہنمی ہوئے وہاں مسلمانوں کی موت کو فرمایا کہ انہیں مردہ نہ کہو بلکہ یہ زندہ ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کے ہاں زندہ ہیں اور ہر روز نئے سے نئے رزق سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ پس ہمارے یہ شہداء بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں جنتوں میں پھر رہے ہیں۔ اور یہ بھی شاید احمدیت کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ تمام قربانی کرنے والیاں، عورت اور بچیاں ہی ہیں۔ کوئی مرد اِن میں شامل نہیں۔ پس ان معصوموں کی قربانیاں ان ظالموں کی جہنموں کو قریب تر لا رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ یہ موتیں سانس رکنے سے ہوئی ہیں کسی کو جلنے کے زخم نہیں آئے۔ باوجود اس کے کہ جو ظالم لوگ تھے بار بار آگ کے سامان کر رہے تھے اور مختلف قسم کا ایندھن یا ٹوٹا ہوا سامان، بالٹیاں، گھر کا فرنیچر وغیرہ جس کو یہ لوٹ نہیں سکتے تھے یا لوٹ کے لے جانا نہیں چاہتے تھے، (باقی قیمتی سامان تو لوٹ کے لے گئے)، اس کو بار بار آگ میں ڈالتے تھے تاکہ آگ کبھی نہ بجھے۔ اب اس واقعہ کی جو رپورٹ ہے، کچھ کوائف ہیں وہ بھی میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ ان شہداء میں جو خاتون شہید ہوئی ہیں ان کا نام بشریٰ بیگم صاحبہ تھا جو اہلیہ تھیں مکرم منیر احمد صاحب مرحوم کی۔ بچیاں جو ہیں وہ عزیزہ حراء تبسم بنت مکرم محمد بوٹا صاحب اور کائنات تبسم بنت مکرم محمد بوٹا صاحب۔

اس واقعہ کو ویسے تو تمام لوگوں نے سن ہی لیا ہے۔ مختلف جگہوں پر آ چکا ہے لیکن پھر بھی میں بیان کر دیتا ہوں کہ 27؍ جولائی 2014ء کو کچی پمپ والی عرفات کالونی گوجرانوالہ میں مخالفین احمدیت شدت پسندوں نے احمدی احباب کے گھروں پر حملہ کیا۔ گھروں کو آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے بتایا بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ منیر احمد صاحب مرحوم عمر 55 سال اور دو کم سن بچیاں عزیزہ حراء تبسم عمر 6 سال اور عزیزہ کائنات تبسم عمر 8 ماہ جو محمد بوٹا صاحب کی بچیاں تھیں شہید ہوئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تفصیلات اس کی یہ ہیں کہ وقوعہ کے روز شہید مرحومہ کے ایک بیٹے مکرم محمد احمد صاحب افطاری کے بعد ایک قریبی کلینک پر دوائی لینے گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ان کے چچا زاد وقاص احمد کو بعض لوگوں نے روکا ہوا ہے۔ ان کے پوچھنے پر کہ کیا معاملہ ہے؟ ان لوگوں نے ان سے بھی بدکلامی شروع کر دی اور الزام عائد کیا کہ آپ کے ایک نوجوان نے فیس بُک (facebook) پر خانہ کعبہ کی تصویر کی توہین کی ہے۔ نعوذ باللہ۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی۔ بہر حال فوراً ہی وہ لوگ جو دشمن تھے مار کٹائی پر آمادہ ہو گئے اور شیشے کی بوتلیں توڑ کر مارنے لگے جس پر محمد احمد صاحب نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر فوری طور پر بذریعہ فون اپنے بھائی محمد بوٹا صاحب کو دکان سے اور چچا خلیل احمد صاحب کو گھر سے موقع پر بلایا جنہوں نے آ کر معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی۔ اس دوران خلیل احمد صاحب ٹوٹی بوتل لگنے سے زخمی بھی ہو گئے۔ بہر حال وقتی طور پر یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ گھر آ گئے اور اپنے بھائی کو گھر چھوڑ کے سروس سٹیشن جو ان کی دکان تھی وہاں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ ڈاکٹر صاحب جن کی کلینک کے سامنے یہ معاملہ ہوا تھا۔ انہوں نے محمد بوٹا اور فضل احمد صاحب کو فون کر کے بتایا کہ یہاں لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں اور جلوس کی شکل اختیار کر کے آپ لوگوں کے گھروں پر حملہ کی غرض سے آ رہے ہیں۔ اسی طرح انجمن تاجران کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا کہ لوگ اکٹھے ہو جائیں اور دکانیں بند کر دیں۔ جس نے دکان بندنہ کی وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ یہ باقاعدہ planning تھی۔ اور یہ سارا کام جیسا کہ میں نے کہا منصوبہ بندی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس علاقے میں قریب قریب مختلف گلیوں میں اٹھارہ احمدی احباب کے گھر ہیں۔ اس اطلاع کے ملتے ہی پندرہ احمدی گھرانوں کے احباب و خواتین تو اپنے گھروں سے نکل گئے۔ تا ہم محمد بوٹا صاحب اور دیگر دو گھروں محمد اشرف صاحب صدر جماعت اور ان کے بھائی کی فیملیز ابھی گھر میں تھیں کہ جلوس نے رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے حملہ کر دیا اور احمدی گھروں کے قریب آ کر شدیدنعرے بازی کی۔ فائرنگ بھی کی اور ساتھ ہی گھروں کے بند دروازوں کو توڑنا بھی شروع کر دیا۔ اب اس کے بارے میں بھی پولیس نے غلط رپورٹ اخباروں کو دی ہے کہ دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی۔ حالانکہ فائرنگ صرف ان مخالفین نے کی تھی۔ جماعت کی طرف سے کوئی فائرنگ نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ ہر طرف سے ایک ساتھ حملہ کیا۔ اس علاقے میں شیعہ حضرات کی بہت زیادہ تعداد آباد ہے۔ ویسے تو شیعہ بہت باتیں کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اُس وقت ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا بلکہ بڑھ چڑھ کے دیا۔

اس واقعہ کے بعد صدر جماعت نے فوری طور پر ایس ایچ او پیپلز کالونی کو مطلع کیا جس پر اس نے کہا کہ مَیں خود پولیس نفری کے ساتھ موقع پر موجود ہوں اور مَیں حملہ آوروں کو مذاکرات کے لئے اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کو ساتھ لے کر نہیں گیا اور اس دوران شدت پسندوں نے دوبارہ حملہ کر دیا جو اسلحہ اور دروازے اور دیواریں توڑنے والے ہتھوڑوں گینتیوں سے لیس تھے۔ ہتھوڑے اور گینتیاں اور اسلحہ سب کچھ ان حملہ آوروں کے پاس تھا۔ ان کے ساتھ اور مجمع بھی آ کے شامل ہو گیا۔ آتے ہی انہوں نے پہلے بجلی کے میٹر توڑے، تاریں کاٹیں۔ بہرحال حالات کی سنگینی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ صدر صاحب اور ان کے بھائی کی فیملیز نے چھت کے ذریعہ غیر از جماعت ہمسایہ جو کہ اہل قرآن ہے ان کے گھر پناہ لی۔ وہ شریف آدمی تھے انہوں نے پناہ دے دی۔ جبکہ محمد بوٹا صاحب اور ان کے بھائی فضل احمد صاحب کی فیملیز اپنے ہی مکان کی بالائی منزل پر ایک کمرے میں جا کر محبوس ہو گئیں۔ اتنی دیر میں شدت پسندوں نے گھر کے اندر داخل ہو کر بالائی منزل کے اس کمرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی جہاں یہ گیارہ خواتین و بچے بند تھے۔ جب دروازہ نہ ٹوٹا تو انہوں نے کمرے کے لاک میں ایلفی ڈال دی تا کہ اندر سے بھی دروازہ نہ کھلے اور سِیل ہو جائے۔ کمرے کی کھڑکی کے شیشے توڑ دئیے اور پلاسٹک کا سامان اور دیگر اشیاء اکٹھی کر کے عین دروازے اور کھڑکی کے باہر آگ لگا دی۔ اس آگ کا زہریلا دھواں دروازے کے نیچے سے اور ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے کمرے میں بھر گیا اور ان ظالم شدت پسندوں نے آگ لگانے کے بعد اس کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر وہاں کے اندر رہنے والوں کو استہزائیہ رنگ میں الوداع کہا اور چلے گئے۔ جس میں گیارہ احمدی خواتین اور بچے بند تھے۔ بہر حال دھوئیں کی وجہ سے سانس رکنے کی وجہ سے بشریٰ بیگم صاحبہ اور ان کی دو پوتیاں حراء تبسم اور کائنات تبسم شہید ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حملہ آور اس قدر مشتعل تھے کہ انہوں نے موقع پر زخمیوں کو اٹھانے اور آگ بجھانے کے لئے آنے والی ہسپتال کی ایمبولینس اور ایک دوسری ایمرجینسی ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کو بھی موقع سے بھگا دیا اور تمام شدت پسند گھروں کو آگ لگاتے رہے، جلاتے رہے اور ساتھ ناچتے بھی رہے۔ جبکہ پولیس یہ ساری کارروائی موقع پر خاموش تماشائی کی طرح کھڑی دیکھتی رہی اور کسی طرح بھی مشتعل افراد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ میڈیا نے بھی بڑی دیر کے بعد آ کر اس کی کوریج شروع کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیا جب شدت پسند اپنا کام ختم کر چکے تھے۔

اس سانحہ میں شہید ہونے والی مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم میاں شہاب الدین صاحب آف لودھی ننگل کے ذریعہ ہوا تھا جن کو خلافت ثانیہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ یہ لوگ تو سیالکوٹ چلے گئے تھے، ان کی شادی گوجرانوالہ میں منیر احمد صاحب کے ساتھ ہوئی۔ پھر یہ 1976ء میں یہاں آ گئیں۔ ان کے خاوند منیر احمد صاحب بھی چھ ماہ قبل وفات پا گئے تھے۔ دیگر دونوں شہداء حراء تبسم اور کائنات تبسم ان کی پوتیاں تھیں۔ یہ شہید مرحومہ جو تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجوقتہ نمازی، تہجدگزار، تلاوت کرنے والی، نہایت ملنسار، ہمدرد، مہمان نواز، اعلیٰ اخلاق کی مالک تھیں۔ جانوروں اور پرندوں کو دانہ اور خوراک وغیرہ ڈالنا ان کا روزانہ کا معمول تھا اور باوجود اس کے کہ کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن جب بھی اور جہاں بھی جماعتی خدمت کی ضرورت ہوتی فوراً پیش پیش ہوتیں۔ شہادت کے وقت میں ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی اور کانوں میں بالیاں کے علاوہ کچھ نقدی بھی تھی۔ شاید انہوں نے اس لئے لے لی ہو گی کہ اب شاید یہاں سے جانا پڑے تو کچھ پیسے ہوں۔ لیکن اس دوران میں ہی سانس رکنے سے ان کی موت ہو گئی۔ تو جب پوسٹ مارٹم کے لئے لے جایا گیا تو ان ظالموں نے ان میں سے بھی کچھ چیزیں لُوٹ لیں۔ شہادت سے ایک روز قبل انہوں نے محلے میں افطاری بھی کروائی تھی اور شہید ہونے والی پوتی حرا ء تبسم نے گھروں میں جا کے افطاری تقسیم کی تھی۔

محمد بوٹا صاحب جن کی والدہ اور دونوں بیٹیاں شہید ہوئی ہیں، سعودی عرب میں بھی رہے تھے۔ وہاں سے پھر حالات کی وجہ سے واپس پاکستان آ گئے۔ اب پاکستان آ کر انہوں نے گاڑیوں کی سروس سٹیشن کا کام شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کافی اچھا تھا۔ ان کے بھائی فضل احمد صاحب بھی جنریٹر کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے۔ اچھا کاروبار تھا اور یہ بھی وہاں کے لوگوں کے حسد کی ایک وجہ تھی۔

امیر صاحب گوجرانوالہ نے بتایا کہ ساری فیملی بڑی شریف النفس، بڑی مخلص اور جماعتی غیرت رکھنے والی ہے۔ جس علاقے میں یہ لوگ آباد ہیں یہ حلقہ بھی انہی کی وجہ سے یہاں بنا تھا اور انہوں نے وہاں نماز سینٹر بھی بنایا ہوا تھا۔ چندہ جات اور دیگر جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ ہر طرح سے ہر وقت جماعت کے ساتھ تعاون اور اطاعت میں پیش پیش تھے۔ شہید مرحومہ نے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ایک بیٹے تو یہی محمد بوٹا صاحب ہیں جن کی دو بیٹیاں شہید ہوئی ہیں اور جو دو بچیاں ہیں ان کے پسماندگان میں والدہ والد اور پانچ سال کا ایک بھائی عطاء الواسع ہے اور ایک بہن عزیزہ سدرۃ النُور تین سال کی ہے۔

امیر صاحب گوجرانوالہ مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ 27؍ جولائی اتوار کے دن ساڑھے نو بجے تقریباً چار سو یا پانچ سو افرادنے احباب جماعت احمدیہ حلقہ کچی پمپ والی کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ شر پسندوں نے فیس بُک پر کسی قابل اعتراض تصویر کو احمدی خادم مکرم عاقب سلیم صاحب ولد مکرم محمد سلیم صاحب کی طرف منسوب کیا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے لوگوں کو اکٹھا کر کے فساد پھیلایا جبکہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے۔ مشتعل افرادنے ان کے علاوہ جو جہاں شہید ہوئے ہیں مزید چھ گھروں کو آگ لگائی اور ان کا سامان لوٹا۔ متاثرہ افراد کی نزدیک ہی دکانیں بھی تھیں جن پر حملہ کیا اور ان کے ویلڈنگ پلانٹ اور ہیوی جنریٹر، لوہے کے گارڈر اور عمارتی سامان جس کا کاروبار تھا وہ سب لوٹ لیا۔

سانحہ گوجرانوالہ میں شہید ہونے والوں کے علاوہ محمد بوٹا صاحب کے بھائی مکرم فضل احمد صاحب کی اہلیہ محترمہ حمیرہ فضل صاحبہ مع بچگان، بیٹی عطیۃ البصیر عمر تین سال واقفہ نو، ثمر منیب عمر ایک سال اور طلحہ انصر بعمر ایک ماہ کے علاوہ محمد بوٹا صاحب کی ہمشیرہ مکرمہ مبشرہ جری صاحبہ اہلیہ مکرم جری اللہ صاحب آف قلعہ کالروالہ ضلع سیالکوٹ جو انہیں ملنے کے لئے آئی ہوئی تھیں زخمی ہو گئیں۔ مبشرہ صاحبہ سات ماہ کی حاملہ تھیں جو وضع حمل اور عید کرنے کی غرض سے اپنی والدہ کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ جس بچے کے ضائع ہونے کا بتایا وہ ان کا بچہ تھا جن کو پھر ربوہ میں بھجوایا گیا اور وہاں ان کا آپریشن کیا گیا۔ اس وقت ان کی طبیعت کافی خراب ہی ہے۔ ربوہ میں ہی طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہیں۔ ان کے پھیپھڑوں میں دھواں بھرنے کی وجہ سے سانس کی بڑی تکلیف ہے۔ دیگر زخمی احباب جو ہیں ان میں منیب احمد لودھی عمر تینتیس سال حملہ آوروں کے تشدد سے زخمی ہوئے تھے۔ ان پر حملہ کیا گیا تھا اور ان کا جبڑا اور دو دانت ٹوٹے ہیں، کان بھی کٹ گیا ہے جبکہ جسم کے دیگر حصوں پر بھی چوٹیں آئی ہیں۔ ان کا علاج بھی جاری ہے۔ خلیل صاحب بوتل کے مارنے کی وجہ سے زخمی ہوئے۔ محمد انور صاحب قلعہ کالروالہ سیالکوٹ کو جب واقعہ کا پتا چلا تو وہ اپنی ہمشیرہ حمیرا فضل صاحبہ اور فضل احمد صاحب اور دیگر فیملی ممبران کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے پہنچ کے پھر پولیس کو بلایا۔ اس وقت تک زیادہ تر لوگ جا چکے تھے، اِکّا دُکّا ہی تھے یا تھوڑے رہ گئے تھے تو پھر پولیس آئی ہے۔ تب انہوں نے پولیس کی مدد سے اور ایمبولینس لا کے لوگوں کو نکالا اور جب وہ نکال رہے تھے تو کیونکہ بڑی آگ لگی ہوئی تھی، اندر سے لوگوں کو نکالنا تھا اس لئے اس دوران میں ان کو بھی آگ کی وجہ سے تھوڑے سے زخم آئے۔ بوٹا صاحب کی اہلیہ محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ اور دیگر دو بچے عزیزم عطاء الواسع عمر پانچ سال اور سدرۃ النور پر بھی اس سانحہ میں گیس اور دھوئیں کا اثر ہوا۔ ان کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں۔ یہاں اس علاقے میں اٹھارہ گھر ہیں جو آپس میں باہمی رشتہ دار ہیں۔ اس وقت بہر حال ربوہ میں ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا حملہ آوروں نے چھ گھروں کو سامان سمیت جلا دیا۔ محمد افضل صاحب کا، اشرف صاحب کا، بوٹا صاحب کا، سلیم صاحب کا اور خلیل صاحب کا اور فیروز دین صاحب کا گھر ہے۔ جبکہ ماسٹر بشیر صاحب اور مبشر صاحب کے دو گھروں کی توڑ پھوڑ کی ہے ان کا صرف سامان نکال کے جلایا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ احمدی احباب کی دکانوں کو بھی مکمل طور پر لوٹنے کے بعد آگ لگا دی گئی۔ اسی طرح حلقے کا جو نماز سینٹر تھا اس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس میں موجود قرآن پاک کے نسخوں، جماعتی کتب اور دیگر سامان کو جلانے کے بعدنماز سینٹر کو بھی آگ لگا دی۔

تو یہ ان کے ظلموں کی کارروائیوں کی مختصر داستان یا حالات ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ نہیں کریں گے تو عذاب جہنم اور عذاب الحریق ان کا مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ ائمۃ الکفر کے بھی پکڑنے کے جلد سامان کرے اور ان آگیں لگانے والوں میں جو پیش پیش ہیں ان کی بھی پکڑ کے سامان کرے۔ ان شہیدوں کے درجات تو اللہ تعالیٰ بلند کرتا ہی ہے۔ ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ خاص طور پر ان ماں باپ اور بہن بھائی کو جن کی معصوم بچیوں اور بہنوں کو ان سے جدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مریضوں کو بھی شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان کے مالی نقصانات کو بھی اپنے فضل سے پورا فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے۔ نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ بھی ادا کروں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • یکم اگست 2014ء شہ سرخیاں

    سورۃ البروج کی جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ بعینہٖ اس واقعہ کا نقشہ کھینچ رہی ہیں جو گوجرانوالہ میں احمدیوں کے ساتھ ہوا۔

    یہ احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک ایسی دلیل ہے کہ اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں اپنے علماء، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یقین کر لیں اور اس ظلم کا حصہ نہ بنیں جو ظالم لوگ یا ان کے چیلے احمدیوں پر کرتے ہیں۔ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْا ُخْدُوْدِ۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو جماعت احمدیہ کے حق میں پوری ہو بھی رہی ہے اور پوری ہوتی بھی رہے گی۔ یہ لوگ ہلاک ہوتے رہیں گے۔ پس یہ پیشگوئی بھی ان ظلموں کے ساتھ باربار پوری ہوتی رہے گی اور پھر یہ نہیں کہ باز آ جائیں بلکہ بار بار اپنے ظلموں کا اعادہ بھی کرتے رہیں گے۔ لیکن احمدیت کا درخت جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے یہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

    گوجرانوالہ کے رہنے والوں نے 1974ء کے فسادوں میں بھی بہت قربانیاں کی تھیں اور اس کی ایک مثال قائم کی تھی۔ اور آج بھی انہوں نے قربانیوں کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔ جس میں آٹھ ماہ کی بچی چھ سال کی بچی اور ایک عورت نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر قربانی کی ایک مثال قائم کی بلکہ ایک وجود جو ابھی اس دنیا میں نہیں آیا تھا جس نے ڈیڑھ دو ماہ بعد اس دنیا کو دیکھنا تھا وہ بھی ان ظالموں کی وجہ سے دنیا میں آنے سے محروم ہوا اور قربانی دے کے گیا۔

    رمضان کے مقدس مہینہ میں عید الفطر سے چند دن قبل شر پسند معاندین احمدیت کی طرف سے گوجرانوالہ (پاکستان) میں معصوم احمدیوں کے گھروں اور دکانوں پر حملے، لوٹ مار اور آگ لگانے کی بہیمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم منیر احمد صاحب مرحوم اور عزیزہ حراء تبسم عمر 6 سال اور عزیزہ کائنات تبسم عمر 8ماہ (جو مکرم محمد بوٹا صاحب کی بچیاں تھیں ) کی شہادت کے دردناک واقعات کا دلگداز تذکرہ اور ان کی نماز جنازہ غائب اور متعدد زخمی احباب کے لئے دعا کی تحریک۔

    فرمودہ مورخہ 01؍اگست 2014ء بمطابق01 ظہور 1393 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور