حضرت مسیح موعودؑکی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات

خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت میر حسام الدین صاحب جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا تعلق تھا، آپ ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے بیٹے میر حامد شاہ صاحب کے بیٹے کے نکاح کے موقع پر یہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ: میر حامد شاہ صاحب جماعت میں خصوصیت رکھنے کے علاوہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔) ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت سے واقفیت تھی جبکہ آپ اپنے والد کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر ملازمت کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ میر حسام الدین صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تو آپ سے تعلق پیدا ہوا۔ فرماتے ہیں کہ وہاں کچہری کی چھوٹی سی ملازمت پر کئی سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہے۔ انہی ایام میں حکیم حسام الدین صاحب سے تعلقات ہوئے اور آخر وقت تک تعلقات قائم رہے۔ یہ تعلقات صرف انہی کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ بھی رہے۔ (ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلے میں خاص لوگوں میں شمار ہوتے رہے۔) ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حضرت میر حامد شاہ صاحب کے بارے میں ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ شاہ صاحب ایک درویش مزاج آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’تاہم حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ جو ابتدا کے تعلقات تھے۔ اس مثال سے ان کی خصوصیت نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعوی کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ حکیم حسام الدین صاحب کو آپ کے تشریف لانے کی بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے ایک مکان میں آپ کے ٹھہرانے کا انتظام کیا۔ لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جب معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیالکوٹ سے واپسی کا ارادہ فرما لیا۔ (خطبات محمود جلد3 صفحہ326-327) (منڈیر کے بارے میں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ ایسی چھتیں جن کی منڈیر نہ ہو ان چھتوں کے اوپر سونا نہیں چاہئے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی النوم علیٰ سطح غیر محجر حدیث نمبر5041)

اور اس زمانے میں گرمیوں میں لوگ چھتوں پر سویا کرتے تھے کیونکہ پنکھے وغیرہ کا تو انتظام نہیں ہوتا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دیکھا کہ چھت کی منڈیر نہیں ہے تو آپ نے فرمایا یہ گھر تو صحیح نہیں ہے۔ آپ نے واپسی کا ارادہ فرما لیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ’’اوراس وقت میرے ذریعے سے ہی باہر مَردوں کو لکھ دیا کہ کل ہم واپس قادیان چلے جائیں گے۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ یہ مکان ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چھت پر منڈیر نہیں۔ اس خبر کے سننے پر احباب جن میں مولوی عبدالکریم صاحب وغیرہ تھے راضی بقضاء معلوم دیتے تھے لیکن جونہی حکیم حسام الدین صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کس طرح واپس جاتے ہیں۔ چلے تو جائیں اور فوراً زنانہ دروازے پر حاضر ہوئے اور اطلاع کرائی کہ حکیم حسام الدین حضرت صاحب سے ملنے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوراً باہر تشریف لے آئے۔ حکیم صاحب نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور اس لئے واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ مکان مناسب نہیں۔ (مکان کے متعلق انہوں نے عرض کیا کہ) مکان کے متعلق تو یہ ہے کہ تمام شہر میں سے جو مکان بھی پسند ہو اسی کا انتظام ہو سکتا ہے۔ رہا واپس جانا تو کیا آپ اس لئے یہاں آئے تھے کہ فوراً واپس چلے جائیں اور لوگوں میں میری ناک کٹ جائے۔ اس بات کو ایسے لب و لہجے میں انہوں نے کہا اور اس زور کے ساتھ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل خاموش ہو گئے اور آخر میں کہا اچھا ہم نہیں جاتے۔‘‘ (ماخوذ از خطبات محمود جلد3 صفحہ326-327۔ خطبہ نکاح بیان فرمودہ 19 اکتوبر 1933ء)

ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہنے لگا کہ) آپ جانتے ہیں کہ علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مان لی تو ہمارے لئے موجب ہتک ہو گی۔ لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سوجھی اور اِنہیں نہ سوجھی۔ اس لئے ان سے منوانے کا یہ طریق ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے۔ (یعنی علماء بات نہیں مانتے۔ علماء سے یا مولویوں سے بات منوانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہی کے منہ سے بات نکلوائی جائے اور جو طریقہ اُس شخص نے پیش کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے آیا تھا یہ تھا کہ) جب آپ کو وفات مسیح کا مسئلہ معلوم ہوا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدے سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے۔ اس لئے وہ افضل بلکہ خود خدا ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام علماء کو اکٹھا کر کے یہ پوچھیں کہ یہ بات ہے بتاؤ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ) اُس وقت علماء یہی کہتے کہ آپ ہی فرمائیے اس کا کیا جواب ہے۔ آپ کہتے کہ رائے تو دراصل آپ لوگوں کی ہی صائب ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ تجویز پیش کر رہا ہے کہ آپ یہ کہتے کہ) فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو سکتی ہے۔ علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ بسم اللہ کر کے اعلان کیجئے۔ ہم تائید کے لئے تیار ہیں۔ پھر اسی طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتا کہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے تو اس کا کیا مطلب سمجھا جائے گا۔ اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتا (کہ) آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی۔ یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو بیشک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا۔ خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا۔ تو (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابل پر ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہرگز نہیں ڈر سکتیں۔ یہ ہمارا کام نہیں خود خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد12 صفحہ196-197۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1929ء)

اور آجکل بھی اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یوں نہ کیا جائے، یوں دعویٰ کیا جائے، نبی نہ مانا جائے صرف مجدد کہا جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خود میرے سے بھی یہاں ایک شخص مسلمان رسالے کے انٹرویو لینے آئے تھے۔ کہتے ہیں اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہ مانیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ پھر علماء آپ کے خلاف نہیں رہیں گے۔ تو اس کو میں نے بڑا سمجھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواب دیا کہ جو اللہ نے کہا ہے وہ مانا جائے یا تمہارے علماء کی بات مانی جائے لیکن بہر حال ان کو سمجھ نہیں آتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد4 صفحہ211۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے 1903ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جو اسلام سے مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنا نام دھرمپال رکھ لیا تھا۔ ’’ترک اسلام‘‘ نام کی کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب لکھا جو ’’نور الدین‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنائی جاتی تھی۔ جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہیں ہوتی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ نار سے ظاہری آگ مرادنہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس تاویل کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب ’’نور الدین‘‘ میں یہی جواب لکھا اور تحریر فرمایا کہ ’’تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو۔ یقینا خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق اسے اس آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تھا‘‘۔ (نورالدین صفحہ 146) (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ614)

ایک موقعہ پر آپ نے اس کی مزید تفصیل بھی بیان کی نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے معجزات کا بھی ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس کتاب کا ذکر ہو چکا ہے جب ’’حضرت خلیفہ اولؓ یہ کتاب نور الدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے۔ آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو مشکل ہے اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں بسراواں ؔ کی طرف سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) مجھے یاد ہے (کہ) مَیں بھی ساتھ تھا۔ کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جو لوگ عام طور پر عقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو، اس طرح کی تاویلیں اور نکتے بہت پسند کرتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً ساری سیر میں اس بات کا ردّ کرتے رہے اور فرمایا کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا سلوک کیا تو کیا بعید ہے (کہ آگ میں ڈالا ہو)۔ کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم معجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا۔ پس اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا ہو تو کیا بعید ہے۔ ہماری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں۔ چنانچہ جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے انہوں نے کاٹ دیا اور پھر نئے فقرات لکھے‘‘۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ’’معجزات کے بارے میں انبیاء ہی کی رائے صحیح سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اُن کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اور جواب پاتا ہے اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس جنہوں نے کبھی خواب ہی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تردّد رہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) مگر جو یہ کہتے ہیں کہ اِدھر ہم نے سونے کے لئے تکیے پر سر رکھا اُدھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاں لوگوں نے دی ہیں۔ یعنی سارا دن تمہیں بہت گالیاں ملی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اور تکیے پر سر رکھنے سے لے کر اٹھنے تک اللہ تعالیٰ اسی طرح تسلّی دیتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہتا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ أَقْوُمُ۔ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سجھ سکتے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے۔ نبی نبی ہی ہے۔ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی‘‘۔ (حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ) میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد میں پہنچ چکے ہوں گے مگر اس شخص کی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی) ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ أَقُوْمُ کا الہام ہوتا رہا ہے‘‘۔ (پھر آپ نے فرمایا) ’’پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلے پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چرچا رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام لیتے تھے۔ ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دوپہر کے قریب کا وقت تھا۔ کیا موقع تھا؟ یہ یادنہیں۔ (آپ فرماتے ہیں ) پہلے بھی کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس وقت موقع بیان کیا ہو مگر اس وقت یادنہیں ہے۔ (فرماتے ہیں کہ) مَیں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان جو شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے۔ آپ بالعموم حضرت خلیفہ اول کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نور الدین صاحب بھی کہا کرتے تھے۔ آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور (حضرت خلیفہ اوّل کے بارے میں ) فرمایا کہ ان کی ذات بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے۔ اور یہ ہمارا ناشکرا پن ہو گا اگر اس کو تسلیم نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے۔ پھر طبّ بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں۔ یہ تو پہلے بات ہوئی جو حضرت مصلح موعود کے سامنے ہوئی۔ پھر آگے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودنے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے۔ پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے۔ (اس موقع پر یہ بات آپ نے کہی جب یہ مقابلہ ہو رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے اور حضرت خلیفہ اول نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں باوجود ان ساری تعریفوں کے اگر ایسے شخص کا کوئی حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے۔ پھر اپنا ذکر فرمایا کہ) یا مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے پر میرا نام دے دیاجائے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں حضرت خلیفہ اول کا ایک اعلیٰ مقام ہونے کے باوجود، ان کے الفاظ ان کے بارے میں جو بیان ہوئے اس کے باوجود اگر مقابلہ پہ حوالہ پیش کیا جائے تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی ہے جیسے گالیاں دلوائی جائیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ) خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں۔ (یعنی جس کی اتباع کی ہے، جس کی بیعت کی ہے اس کی پیروی کریں۔ خلفاء کی عزت اسی طرح قائم رہتی ہے۔ ) اور اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے (یعنی خلفاء سے بھی اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے) تو جسے اس کا علم ہو اسے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو‘‘۔ (پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) نقد کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے۔ (یعنی کسی بات کو سمجھنے کا، اس کی گہرائی میں جانے کا، اس کو پرکھنے کا، اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کا علم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کا جو علم ہے۔ فرماتے ہیں۔ وہ خلفاء کو، ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے) اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقینا نقد کے بعد ہم اس کو حل کر لیں گے (یعنی اس کو پرکھنے کے بعد ہم حل کر لیں گے) اور وہ حل ننانوے فیصدی صحیح ہو گا۔ لیکن اس کو حل کرنے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلے میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے۔ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پیش کرے اور آگے سے دوسرا میرا نام لے دے تو اس کے معنے سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائے۔

پس خواہ حضرت خلیفہ اول ہوں یا مَیں ہوں یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ، جب یہ بات پیش کر دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے۔ جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سندنہیں ہو سکتی۔ (اگر علم نہیں ہے تو اس کی کوئی سندنہیں۔ ) اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اس کے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالے کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے معنی یہ کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں۔ اس طرح خلیفہ نبی کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلے پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے۔ (حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ) یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیں معلوم ہوں۔ کیا حضرت ابوبکر اور عمر کو ساری احادیث یاد تھیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو ہم کو یادنہیں اور دوسرے آ کر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے۔ (فرمایا کہ) یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول (اس زمانے میں صحابہ موجود تھے، انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہوا تھا اس لئے آپ ان کو فرما رہے ہیں کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ خلیفہ اول) کتابیں بہت کم پڑھا کرتے تھے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تازہ تازہ کتابیں شائع ہوتی تھیں ان میں سے بہت کم پڑھتے تھے۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ) میرے سامنے یہ واقعہ ہوا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو (یہ کتابیں) پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں۔ وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں (ہے)۔ بعض لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھپ جاتی ہیں (اور ایک مثال آپ نے دی کہ) آج ہی جو خطبہ چھپا ہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی۔ میں نے اصلاح تو کی تھی لیکن اصلاح کرتے وقت پہلے فقرے کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا (اور اس کی وجہ سے غلطی ہوگئی۔ کہنا تو یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آسکتا بلکہ غیرشرعی نبی آسکتا ہے۔ اور میں نے اس کے بعد کے فقرے کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کر دیا کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے۔ مگر چھپنے کے بعد (فرماتے ہیں ) جب میں نے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا جو میں نے سمجھا تھا اور الفضل میں یہ فقرہ پڑھ کر میں بڑا حیران ہوگیا۔ (تو اصل میں لکھنا یہ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آ سکتا بلکہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے جو اسی نبوت کو آگے جاری رکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی نبوت کو قائم کرتا ہے۔ تو بہر حال جو فقرہ لکھا گیا اس سے الٹ یہ پڑھا گیا جس طرح کہ کوئی شرعی نبی کے رستے مسدودنہیں ہیں۔ بہرحال آپ نے اس کی تفسیر فرمائی۔ پھر آپ فرماتے ہیں) تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ … تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیمار وغیرہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں تا ہمارے خیالات سے واقفیت رہے۔ (اور پھر باوجود اس کے کہ حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہ اندھا اعتقاد تھا۔ لیکن بعض دفعہ عدم علم ہوتا ہے اس لئے الٹ بات ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس لئے میں پروف پڑھنے کے لئے بھیجتا ہوں کہ کتابیں پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ہوتی تو پروف پڑھنے سے ہمارے خیالات سے ان کو واقفیت ہو جائے۔ اور پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) پڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد بھی ہو۔ مثلاً حضرت یحيٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حوالے میں نہیں نکال سکا اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو وہ خواہ کتنا عرصہ گزر جائے مجھے یاد رہتی ہے۔ جن باتوں کا یاد رکھنا میرے کام سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ مجھے یادنہیں رہتیں۔ حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوا لوں گا اس لئے یادنہیں رکھ سکتا‘‘۔ (ماخوذ از الفضل 10 ؍ ستمبر 1938ء صفحہ 6، 7 جلد26 نمبر209)

تو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہو گئی کہ خلفاء اگر کوئی ایسی تشریح کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تشریح سے الٹ ہے تو اس کے بارے میں اطلاع کر دینی چاہئے اور اگر خلیفہ وقت سمجھے کہ یہ جو تشریح کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے اس کی یہ تشریح ہو سکتی تھی تو پھر وہی تسلیم ہو گی اور اگر نہیں تو پھر وہ اپنی بات کو درست کر لے گا۔ لیکن بہر حال یہ سمجھنا کہ اس نے یہ کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا۔ آپس میں تضاد کیوں ہے؟ یہ باتیں غلط ہیں۔ تضاد کوئی نہیں ہوتا، ہاں بعض دفعہ عدم علم ضرور ہوتا ہے۔

پھر ایک چاند اور سورج گرہن کے واقعہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا یہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مخالف مولوی جو غالباً گجرات کا رہنے والا تھا ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ مرزا صاحب کے دعوے سے بالکل دھوکہ نہ کھانا۔ حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مہدی کی علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگے گا۔ جب تک یہ پیشگوئی پوری نہ ہو اور سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن نہ لگے ان کے دعوے کو ہرگز سچا نہیں سمجھا جا سکتا۔ اتفاق کی بات کہ وہ (مولوی) ابھی زندہ ہی تھا کہ سورج اور چاند کے گرہن کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ (گرہن لگ گیا تو) اس (مولوی) کے ہمسائے میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے سنایا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو اس مولوی نے گھبراہٹ میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ ٹہلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ’’ہُن لوگ گمراہ ہون گے۔ ہُن لوگ گمراہ ہون گے‘‘ یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔ اس نے یہ نہ سمجھا کہ جب پیشگوئی پوری ہو گئی ہے تو لوگ حضرت مرزا صاحب کو مان کر ہدایت پائیں گے۔ گمراہ نہیں ہوں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ عیسائی بھی ایک طرف تو یہ مانتے تھے کہ وہ تمام علامتیں پوری ہو گئی ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سن کر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس وقت اتفاقی طور پر ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا۔ جیسے مسلمان کہتے ہیں علامتیں تو پوری ہو گئیں مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایسا اتفاق ایک جھوٹے کو ہی نصیب ہوتا ہے (اور) سچے کو نصیب نہیں ہوتا‘‘۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ56) جھوٹے کے حق میں تو تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور سچوں کے حق میں آجکل کچھ نہیں ہو رہا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو اور درگذر کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا دوست جانتے ہیں۔ دشمنوں نے گُمہاروں کو آپ کے برتن بنانے سے، سقّوں کو پانی دینے سے بند کر دیا۔ لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتارکرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہئے۔ جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آ کر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو۔ انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے۔ حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں۔ مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا۔ مرزا صاحب نے معاف کر ہی دیا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 10 صفحہ277۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1926ء)

یہ جو واقعات ہیں، ہمیں ان سے صرف محظوظ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے اوپر لاگو بھی کرنے چاہئیں۔ معافی اور درگزر کی طرف کافی توجہ کی ضرورت ہے۔

پھر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں۔ مَیں نے اپنے کانوں سے مخالفین کی گالیاں سنیں اور اپنے سامنے بٹھا کر سنیں مگر باوجود اس کے تہذیب اور متانت کے ساتھ ایسے لوگوں سے باتیں کرتا رہا۔ (فرماتے ہیں کہ) میں نے پتھر بھی کھائے۔ اس وقت بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر امرتسر میں پتھر پھینکے گئے۔ اس وقت میں بچہ تھا مگر اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مجھے حصہ دے دیا۔ لوگ بڑی کثرت سے اس گاڑی پر پتھر مار رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے۔ میری اس وقت چودہ پندرہ سال کی عمر ہو گی۔ گاڑی کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ میں نے وہ کھڑکی بند کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس زور سے پتھر مار رہے تھے کہ کھڑکی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پتھر میرے ہاتھ پر لگے۔ پھر جب سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر پھینکے گئے اس وقت بھی مجھے لگے۔ پھر جب تھوڑا عرصہ ہوا میں سیالکوٹ گیا تو باوجود اس کے کہ جماعت کے لوگوں نے میرے ارد گرد حلقہ بنا لیا تھا مجھے چار پتھر لگے۔‘‘ (حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات، انوار العلوم جلد 13صفحہ 508)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو تحریک کی کہ ایسے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اس لئے باقی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ بند کر دیں۔ … آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی تبلیغ کا ویسا ہی حق ہے جیسا مجھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ تم اپنی بات پیش کرو، مَیں اپنی بات پیش کرتا ہوں اور جب تک یہ طریق نہ پیش کیا جائے امن کبھی نہیں ہو سکتا اور حق نہیں پھیل سکتا۔ دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو حق پر نہیں سمجھتا لیکن جب خیالات میں اختلاف ہو تو ضروری ہے کہ اسے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘ (خطبات محمود جلد 12 صفحہ 418۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 1930ء)

یہی بات اگر حکومت پاکستان سمجھ لے یا عرب دنیا میں لوگ سمجھ لیں تو پھر تبلیغ کے بڑے رستے وسیع ہو جائیں اور ان کو خود پتا لگ جائے کہ کون حق پر ہے اور کون غلط۔

پھر ملکہ کو تبلیغ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ کر سکے۔ یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اسے قبول کر لوگی تو آپ کا بھلا ہو گا۔ یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا جاتا اس چھٹی کے متعلق اس طرح شکریہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چھٹی مل گئی ہے جسے پڑھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ (الفضل 19 اگست1916ء صفحہ7 جلد4 نمبر13) تو آج جو ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ تو آج بھی کبھی ان لیڈروں کو اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔

ایک ترک سفیر ایک دفعہ قادیان آیا۔ اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’آج سے کئی سال پہلے جب بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے ایک ترکی سفیر یہاں آیا۔ ترکی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے مسلمانوں سے بہت سا چندہ لیا اور جب اس نے جماعت احمدیہ کا ذکر سنا تو قادیان بھی آیا۔ حسین کامی اس کا نام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کی گفتگو ہوئی۔ اس کا خیال تھا کہ مجھے یہاں سے زیادہ مدد ملے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا وہ احترام کیا جو ایک مہمان کا کرنا چاہئے۔ پھر مذہبی گفتگو بھی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کچھ نصائح کیں کہ دیانت و امانت پر قائم رہنا چاہئے۔ لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ (یہی آجکل مسلمان لیڈروں کے لئے مسلمان ملکوں میں ضروری ہے) اور فرمایا کہ رومی سلطنت ایسے ہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرے میں ہے کیونکہ وہ لوگ جو سلطنت کی اہم خدمات پر مامور ہیں اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اسلامی سلطنت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلطان روم (جو ترکی کا بادشاہ تھا یا اس وقت خلافت کہلاتی تھی) کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازے میں ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری کی سرشت ظاہر کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ نصیحتیں کیں تو اس سفیر کو بہت بُری لگیں کیونکہ وہ اس خیال کے ماتحت آیا تھا کہ میں سفیر ہوں اور یہ لوگ میرے ہاتھ چُومیں گے اور میری کسی بات کا انکار نہیں کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اس سے یہ کڑوی کڑوی باتیں کیں کہ تم حکومت سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر کے اس کی غداری کرتے ہو۔ تمہیں تقویٰ و طہارت سے کام لے کر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے تو وہ یہاں سے بڑے غصے میں گیا اور اس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسلامی حکومت کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی حکومت میں بعض کچے دھاگے ہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مسلمان عام طور پر دین سے محبت رکھتے ہیں مگر افسوس کہ مولوی انہیں کسی بات پر صحیح طرح غور کرنے نہیں دیتے۔ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھتے اور سچائی سے پیار کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مولوی انہیں کسی بات پر غور کرنے نہیں دیتے اور جھٹ اشتعال دلا دیتے ہیں۔ اس موقع پر بھی مولویوں نے عام شور مچا دیا کہ ترکی کی حکومت جو محافظ حرمین شریفین ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی ہتک کی ہے۔ جب یہ شور بلند ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں لکھا کہ تم یہ کہتے ہو کہ ترکی کی حکومت مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کرتی ہے۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ ترکی کی حکومت چیز ہی کیا ہے کہ وہ مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کرے۔ مکّہ اور مدینہ تو خود ترکی کی حکومت کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (یہ بیان کر کے پھر آپ نے فرمایا کہ) جس شخص کے دل میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اتنی غیرت ہو اس کے ماننے والوں کے متعلق کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے تو وہ خوش ہوں۔ ہم تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ تسلیم کیا جائے کہ حقیقی طور پر مکہ اور مدینہ کی کوئی حکومت حفاظت کر رہی ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکّہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے۔ کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ظاہری طور پر ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے لیکن اگر خدا نخواستہ کبھی ایسا موقع آئے تو اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت جماعت احمدیہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔ ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں۔ ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکّہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا خدا اس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بَدبِیں آنکھ پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہو گا‘‘۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ547تا549۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اگست 1935ء)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی ہر احمدی کے دل میں مقامات مقدسہ کے بارے میں یہی جذبات ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان اور یقین میں بھی ہمیشہ اضافہ کرتا رہے اور ہمیشہ ہمیں قربانی کرنے والوں کی صف اوّل میں رکھے۔

نمازوں کے بعد میں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ ایک مکرم سمیر بخوطہ صاحب کاہے جو 24؍فروری 2015ء کی صبح جرمنی میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ بڑے عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے لیکن اس تکلیف کے باوجود آپ مسلسل خدمت دین میں مصروف رہے۔ ان کی 58 سال عمر تھی۔ 11؍مئی 1957ء کو الجزائر میں پیدا ہوئے اور 1991ء میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ہاتھ پر بیعت کی۔

امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اس کثرت سے خواب دیکھے ہیں کہ میرے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی کہ میں احمدیت قبول نہ کرتا۔ 1993 سے 94ء تک جرمنی کی جماعت کاسّل (Kassel) کے صدر کے طور پر خدمت کرتے رہے۔ 1994ء سے 99ء تک بطور لوکل امیر کاسّل (Kassel) خدمت کی توفیق پائی۔ 99ء سے 2003ء تک ریجن ہیسن (Hessen) نارتھ کے ریجنل امیر کی حیثیت سے خدمت بجا لانے کی توفیق پائی۔

امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ 1998ء کے جلسہ سالانہ فرانس میں شامل ہوئے۔ خاکسار کی ان سے پہلی ملاقات تھی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دو دیوانوں کا ذکر فرمایا ہے مَیں یہ چاہتا ہوں کہ ان دیوانوں میں سے ایک مَیں ہوں۔ اور اس کے بعد پھر انہوں نے واقعی دیوانوں کی طرح تبلیغ کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔

2006ء میں انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں بحیثیت معلم خدمت دین کے لئے وقف کرتا ہوں۔ پہلے بھی خدمت کرتے تھے۔ تو بہر حال اس کے بعد سے لے کر تا دم آخر انہوں نے بڑے احسن رنگ میں خدمت سرانجام دی۔ امیر صاحب فرانس ہی لکھتے ہیں کہ عاجز نے سمیر بخوطہ صاحب کو گزشتہ 16 سال سے تبلیغ میں دیوانوں کی طرح کام کرتے دیکھا ہے۔ کیا فرانس کی گلیاں اور کیا مراکش، تیونس یا الجزائر یا کری باس (Caraibes) کے جزائر گلی گلی گھر گھر پیدل جانا پڑا تو کبھی یہ نہیں کہا کہ گاڑی نہیں ہے یا فاصلہ زیادہ ہے۔ پیدل ہی چل پڑے اور کئی کئی میل پیدل چلتے ہوئے لٹریچر تقسیم کرتے، تبلیغ کرتے اور سوالوں کے جواب دیتے۔

خلافت سے ان کو عشق تھا اور ہر خط جن کا جواب میری طرف سے موصول ہوتا تھا اس کو بڑا سنبھال کر رکھتے تھے اور بڑا احترام کرتے تھے۔ الجزائر کے بہت سے دورے کئے اور وہاں جماعتوں کو آرگنائز کیا۔ صدر صاحب الجزائر نے بتایا کہ سخت گرمی کے باوجود ایسے علاقوں میں جہاں پہنچنا مشکل تھا گاؤں گاؤں پیدل گئے اور باوجود شوگر کی تکلیف کے مسلسل کام کرتے رہے۔ امیر صاحب فرانس کے ساتھ مراکش کے دورے کئے۔ ایک دفعہ عیدالفطر بھی وہیں گزاری اور رمضان بھی وہیں گزارا۔ احمدیوں کے گھر گھر جاتے، انہیں اکٹھا کرتے، نظام جماعت کے بارے میں بتاتے۔ بڑی مستقل مزاجی سے انہوں نے خدمت کی ہے۔ نہ صرف تبلیغ کی بلکہ جن کو تبلیغ کرتے تھے ان کی تربیت بھی کی اور جماعتوں کو آرگنائز بھی کیا۔

تیونس میں تبلیغی سفر کے دوران ایک دفعہ پولیس نے پکڑ لیا۔ حراست میں بھی رہے۔ اس کے بعد پھر یورپین پاسپورٹ کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیا گیا۔ امیر صاحب فرانس کہتے ہیں کہ اگر میں یہ بات کہوں کہ وہ ایک جنّ کی طرح تبلیغ کرتے تھے تو غلط نہ ہو گا۔ آخری وقت میں بھی احباب کو تبلیغ کرنے کی اور جماعت کے کام کرنے کی نصیحت کرتے رہے۔ اور جو اس وقت کاسّل (Kassel) میں ہمارے مربی ہیں ان کو انہوں نے وفات کے وقت یہی کہا جو مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر کام کرنے میں مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی وفا کے ساتھ نہ صرف اپنے عہد بیعت کو نبھایا بلکہ دین کی خدمت کا بھی جو عہد کیا تھا اس کو بھی اس کی جو انتہا ہو سکتی تھی اس تک پہنچانے کی کوشش کی۔ خدمت دین ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور خلافت کی اطاعت اس طرح تھی کہ انسان تصور نہیں کر سکتا کہ نیا احمدی ہؤا ہؤا اس حد تک اطاعت کے جذبے سے سرشار ہو گا۔ وہاں کاسّل (Kassel) کے جو مربی سفیر الرحمن ہیں، لکھتے ہیں کہ گزشتہ جمعہ کے روز ہسپتال کی انتظامیہ سے بڑی مشکل سے جمعہ پڑھنے کی اجازت لے کر آئے اور مسجد میں تشریف لائے اور تصاویر کھنچوائیں اور کہتے تھے کہ میرا یہ آخری جمعہ ہے۔ یہ ان کو پتا تھا۔

آخری ایام میں بھی ان کا یہی مطالبہ تھا کہ مربی صاحب کو کہتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد حضرت مصلح موعود کی تصنیف ذکر الٰہی کی دو عدد کاپیاں دی جائیں۔ یہ انہوں نے اپنے زیر تبلیغ ڈاکٹرز کو پہنچانی تھیں۔ اور مربی صاحب کہتے ہیں جیسے ہی مَیں نے ہسپتال میں یہ تصنیف پہنچائی تو سمیر صاحب نے اہلیہ سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹرز کو دے آؤ اور وہ ڈاکٹر صاحب بھی سمیر بخوطہ صاحب کے رویّے اور ان کے اخلاق سے بہت متاثرتھے اور انہوں نے بار بار اس کا اظہار بھی کیا کہ ہم نے آج تک اس سے زیادہ صبر والا اور خدا تعالیٰ پر توکّل کرنے والا مریض نہیں دیکھا۔

مربی صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میٹنگ تھی اور اس میں فیصلہ ہونا تھا کہ مہمان نوازی کے لئے جو لوگوں نے آنا ہے ان کے لئے کتنے لوگوں کا کھانا تیار کیا جائے، کتنی چیزیں بنائی جائیں اور لمبی بحث چلنی شروع ہو گئی کہ اتنی تعداد میں بنائی جائے یا اتنی تعداد میں بنائی جائے۔ سمیر بخوطہ صاحب بھی بحیثیت نمائندہ وہاں موجود تھے۔ اس پر انہوں نے بڑی ناراضگی کا اظہار کیا۔ کہنے لگے کہ ہم کوئی چھوٹے بچے نہیں ہیں کہ ہمیں قواعدنئے سرے سے سکھائے جائیں اور نہ ہی یہ جماعت ہمارے لئے کوئی نئی چیز ہے۔ ہمارے پاس ایک نظام ہے اور وہ نظام یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کے نمائندے ہم میں موجود ہیں، یعنی مربی موجود ہیں، وہ جو بھی ہمیں کہیں ہم نے بس اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اس لئے اتنی تعداد میں بنائی جائے یا اتنی بنائی جائے اس کو چھوڑو اور جس طرح یہ کہتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں اس کے مطابق عمل کرو۔

پس یہ روح ہے جب پیدا ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اتفاق بھی ہوتا ہے، اتحاد بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہر مقام پر جہاں بھی ہمیں موقع ملے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں، آگے ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کہا کرتے تھے کہ تبلیغ میرا آکسیجن ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کاسّل (Kassel) میں کافی غیرپاکستانی احمدی ہیں اور یہ سب انہی کی بدولت اور انہی کی محنت سے احمدیت میں شامل ہوئے ہیں۔ اپنے پیچھے انہوں نے اہلیہ مریم بخوطہ صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ بڑے بیٹے نورالدین شادی شدہ ہیں اور دوسرے عبدالحکیم اور منیر احمد ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ان کے پاس ایک بیگ ہوا کرتا تھا، ہمیشہ جب بھی سفر پر جاتے تو بیگ رکھا کرتے تھے بلکہ اب بھی انہوں نے الجزائر جانے کے لئے سیٹیں بک کروائی ہوئی تھیں لیکن زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔ امیر صاحب فرانس کہتے ہیں ان کی وفات کے بعد یہ بیگ ان کی اہلیہ کے سپرد کیا گیا تو دیکھا تو اس میں دو قمیصیں، ایک پاجامہ اور ایک گرم کوٹ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چار عربی کتب اور جو میری طرف سے خط ان کو گئے ہوئے تھے وہ خط انہوں نے رکھے ہوئے تھے اور عربی زبان کے سو(100) بیعت فارم اس بیگ میں تھے۔ یہ کُل سفر کا ان کا بیگ ہوتا تھا جس کو ہر وقت وہ ساتھ رکھتے تھے۔

صدر جماعت الجزائر ہیں فالی محمد صاحب وہ کہتے ہیں کہ بہت بااخلاق انسان اور خلیفۂ وقت کی بہترین نمائندگی کرنے والے تھے۔ کہتے ہیں میری پہلی ملاقات ان سے 2007ء میں ہوئی۔ اس کے بعد مرحوم نے خلیفہ وقت کی ہدایات کے مطابق یہاں جماعت قائم کی۔ بیماری کے باوجود دورے کرتے۔ کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر صبر سکھایا۔ بڑی خواہش تھی کہ الجزائر میں اپنی مسجد ہو اور اس میں نماز ادا کریں۔ الجزائر کے ہی اعمراش حمید صاحب کہتے ہیں کہ بڑی مؤثر شخصیت کے مالک تھے اور تعارف کے بعد سے ہی آپ کے لئے جذبات محبت پیدا ہو گئے تھے۔ مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ اس علاقے میں ہماری اپنی کوئی مسجد ہو سکتی ہے؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ یقینا سچا ہے۔ اگر اس دن جب یہاں مسجد بنے میں حاضر نہ ہوں تو مجھے بھول نہ جانا اور دعاؤں میں یاد رکھنا۔ ایک دن بخوطہ صاحب نے بتایا کہ افریقہ کے دورے کے دوران ایک بوڑھے شخص نے آپ کو ہاتھ پکڑ کر پوچھا کہ کیا آپ کو ایک خزانہ دکھاؤں؟ پھر اپنی جیب سے بیعت کی قبولیت کا خط ایک پلاسٹک کور میں محفوظ کیا ہوا دکھایا کہ یہ خزانہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔ تو یہ لوگ ہیں جو احمدی ہوئے اور اپنے اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جرمنی سے عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ خلفائے احمدیت سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے، حکّام بالا کی اطاعت کرنے والے، تبلیغ کے جذبے سے سرشار، مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جن کتب کا بھی ترجمہ ہو چکا تھا یاجو عربی میں تھیں ان کو تین مرتبہ پڑھا اور بہت سا حصہ زبانی یاد کیا۔ جب آپ کاسّل (Kassel) کے امیر تھے تو آپ کی تبلیغ سے 18 مختلف قومیّتوں کے افراد احمدی ہوئے۔ آپ نے ان کی تربیت بھی کی اور انہیں جماعت کا فعّال حصہ بنایا۔ کاسّل (Kassel) کے نماز سینٹر میں ستّر سے نوّے عرب احمدیوں کی کلاس لگاتے تھے جن میں عرب دوست اپنے غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ کاسّل (Kassel) کی جماعت کے لئے ایک فرشتہ تھے۔ مسجد حاصل کرنے میں بھی آپ کا بہت بڑا کردار ہے۔ عربی فرنچ اور جرمن میں ان کو کافی عبور تھا۔ سمیع قریشی صاحب کہتے ہیں جب میرے ذریعہ سے انہوں نے بیعت کی اور حضرت خلیفہ رابع کو جب یہ بیعت فارم بھجوایا گیا، بیعت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآء۔ کے مصداق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ثابت بھی کیا۔

دوسرا جنازہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب کا ہے جو چوہدری محمد ابراہیم صاحب کے بیٹے تھے۔ شیخوپورہ کے رہنے والے تھے۔ 77-78ء میں انہوں نے خود بیعت کی توفیق پائی۔ بعد میں ان کی فیملی بھی اور دو بھائیوں نے بھی بیعت کر لی۔ رچنا ٹاؤن میں قیام کے دوران بحیثیت سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور سیکرٹری امور عامہ خدمت کی توفیق پائی۔ علاقہ میں معروف اور نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ 7؍ستمبر 2011ء کو رچنا ٹاؤن میں مخالفین جماعت نے بشیر صاحب پر ان کے گھر کے قریب قاتلانہ حملہ کیا۔ حملہ کے نتیجہ میں ان کو تین گولیاں لگیں۔ ایک گولی گردن میں لگی اور آر پار ہو گئی جبکہ دو گولیاں پیٹ میں لگیں جنہوں نے بڑی آنت کو شدیدنقصان پہنچایا۔ وقوعہ کے بعد پھر ان کا ایک ہفتہ لاہور میں علاج ہوا اس کے بعد فضل عمر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اللہ کے فضل سے صحتیاب ہوئے۔ اور ان پر قاتلانہ حملہ کے مدعی ان کے ایک غیر احمدی بھانجے زاہد احمد صاحب بنے۔ اور یہ گروہ تو کیونکہ پورا مافیا ہوتے ہیں نتیجۃً قاتلوں نے 5؍مارچ 2012ء کو فائر کر کے ان کے بھانجے کو بھی شہید کر دیا جو غیر از جماعت تھے۔ ان حالات میں چوہدری صاحب نے پھر اپنی فیملی کے ساتھ وہاں سے شفٹ ہونے کا سوچا اور ربوہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل ان کو کینسر تشخیص ہوا تھا۔ زیر علاج رہے لیکن تقدیر غالب آئی اور ان کی وفات ہو گئی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بڑے نرم مزاج تھے۔ نمازوں کی طرف توجہ دینے والے تھے۔ والدین کی خدمت کرتے ہوئے ان کو دیکھا۔ بہت صابر اور سادہ تھے۔ رحمدل اور ہر کسی سے مخلص تھے۔ خود اپنے آپ کو نقصان کروا لیتے تھے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ کسی ضرورتمند کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ ہمیشہ سب کی مدد کرتے تھے چاہے وہ احمدی ہو یا غیر احمدی۔ تہجد گزار اور ہمیشہ مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے والے اور یتیم بچوں اور بیواؤں کی پرورش کرتے تھے۔ مخالفین کا بھی ذکر ہوتا تو ہمیشہ کہتے بس یہ دعا کرو اللہ ان کو ہدایت دے۔ جب ان پر حملہ ہوا ہے اس وقت بھی تیمارداری کے لئے جو لوگ گئے انہوں نے کہا کہ ان ظالموں کو اللہ تعالیٰ پکڑے تو آپ نے فرمایا یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 63سال تھی۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر عطا فرمائے اور مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ فروری 2015ء شہ سرخیاں

    حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ بعض واقعات کا نہایت دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ اور اس کی روشنی میں احباب کو اہم نصائح۔

    الجزائر سے تعلق رکھنے والے احمدی مکرم سمیر بخوطہ صاحب آف جرمنی اور مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب (ربوہ) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 27؍فروری 2015ء بمطابق27تبلیغ 1394 ہجری شمسی،  بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور