اسلام احمدیت کی صداقت اور ترقی

خطبہ جمعہ 16؍ اکتوبر 2015ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ دنوں مَیں ہالینڈ میں تھا۔ وہاں ایک جرنلسٹ، جو ریجنل اخبار میں لکھنے والے ہیں اور نیشنل اخبار بھی ان سے آرٹیکل لیتے ہیں، مجھے کہنے لگے کہ کیا جماعت احمدیہ دنیا میں سب سے زیادہ بڑھنے والی جماعت ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر ایک بین الاقوامی جماعت کی حیثیت سے دیکھیں تو یقینا جماعت احمدیہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی جماعت ہے اور اب تو یہ بات ہمارے غیر بھی مانتے ہیں جن کی جماعت پر نظر ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اٹھنے والی آواز آج دنیا کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں گونج رہی ہے۔ اور پھر اس کی امتیازی شان اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے، زیادہ روشن ہو کر ابھرتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت جب ایک عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ جماعت احمدیہ دنیا میں جانی جائے گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے وثوق سے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا کہ جماعت احمدیہ دنیا میں جانی جائے گی اور اس کا پھیلاؤ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا نشان ہو گا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ اس سلسلے کو پھیلا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس سلسلے کو دنیا میں پھیلائے (ملفوظات جلد 4 صفحہ 176۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

بلکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو ایسا پھیلا دے گا کہ یہ سب پر غالب ہوں گے اور فرمایا کہ آجکل کے موجودہ ابتلا سب دور ہو جائیں گے۔ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ ہر ایک کام بتدریج ہو۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 176حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ نے فرمایا کہ ’’کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور عجیب۔ یہ خدا کا نشان اور اعجاز ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 176۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں اور یقینا ہر احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچا ایمان رکھتا ہے اس بات پر قائم ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صرف 125سال پہلے ایک چھوٹے سے دور دراز علاقے سے اٹھی ہوئی آواز کو دنیا کے کونے کونے میں نہ صرف پھیلا دیا بلکہ مخلصین کی جماعتیں بھی قائم فرماتا چلا جا رہا ہے جو آپ سے اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھ رہی ہیں تو وہ خدا اپنے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی یہ بات بھی پوری فرمائے گا کہ ابتلا دور ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ سب پر غالب ہو گا۔ آجکل ہم اس دور میں سے گزر رہے ہیں جب یہ سلسلہ دنیا میں پھیل رہا ہے اور یہ تدریجی ترقی دنیا کو اب نظر بھی آ رہی ہے تبھی تو اس جرنلسٹ نے مجھے پوچھا تھا کہ کیا یہ جماعت اب دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والی جماعت ہے۔ اور کئی اور جگہ بھی غیر یہ سوال کرتے ہیں اور اعتراف بھی کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ بڑی تیزی سے ترقی کرنے والی جماعت ہے۔ گو ابتلا بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں لیکن اگر دشمن کی نیت اور کوشش کو دیکھیں تو یہ ابتلا کچھ بھی نہیں اور پھر ہر ابتلا چاہے وہ احمدی پر احمدیت کی وجہ سے ذاتی ہو یا بعض جگہ پوری جماعت اس تکلیف میں سے یا ابتلا میں سے گزر رہی ہو تو ایسا ہر ابتلا پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور جلوے دکھاتا ہے۔ ہر احمدی جو پاکستان سے ان مغربی ممالک میں آیا ہے اگر اس کے اندر شکرگزاری کا احساس ہے تو اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ حالات کی وجہ سے اپنے ملک سے ہجرت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کس قدر فضل فرمائے اور پھر صرف یہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے جو رپورٹس آتی ہیں جن میں بیعتوں کا ذکر اور بیعت کرنے والوں کے واقعات ہوتے ہیں انہیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کہاں کہاں پہنچی ہوئی ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ تائیدات کے نظارے بھی کیسے کیسے دکھا رہا ہے۔ اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا، انسان کی بنائی ہوئی جماعت ہوتی تو جتنی مخالفت جماعت کے قیام سے اور ابتدا سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہوئی ہے اور اب تک ہو رہی ہے اور آپ کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ہر دن یہی سلوک دنیا میں مختلف جگہ ہو رہا ہے، اس مخالفت کی وجہ سے یہ سلسلہ اب تک ختم ہو جانا چاہئے تھا اور اس کے جھوٹ کا پول کھل جانا چاہئے تھا۔ لیکن یہ ختم ہونے کا سوال نہیں ہے، یہاں تو اللہ تعالیٰ ترقیات دکھا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ

’’مخالفوں نے ہر طرح مخالفت کی مگر خدا نے ترقی دی۔ یہ سچائی کی دلیل ہے کہ دنیا ٹوٹ کر زور لگا دے اور حق پھیل جاوے‘‘ فرمایا کہ ’’اب ہمارے مقابل کونسا دقیقہ مخالفت کا چھوڑا گیا مگر آخر ان کو ناکامی ہی ہوئی ہے۔ یہ خدا کا نشان ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 186۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس جیسا کہ مَیں نے کہا مخالفین زور لگاتے رہے اور لگا رہے ہیں مگر آج بھی مخالفین کا باوجود ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے، بڑے بڑے علماء کی ہمارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں کرنے کے بلکہ حکومتوں کی احمدیت کی مخالفت میں پُرزور کارروائیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات ہی پوری ہو رہی ہے کہ مخالفین ناکام ہوئے اور یہ خدا کا نشان ہے۔

پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح نشان دکھاتا ہے، کس طرح پکڑ پکڑ کر لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں لاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ایک دفعہ ذکر ہوا کہ لاہور سے ایک شخص کا خط آیا کہ اسے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت بتایا گیا ہے کہ آپ سچے ہیں۔ وہ ایک فقیر کا مرید تھا جو داتا گنج بخش کے مقبرے کے پاس رہا کرتا تھا۔ اس شخص نے اس فقیر سے ذکر کیا تو اس فقیر نے کہا کہ مرزا صاحب کی اتنے عرصے سے ترقی ہونا ان کی سچائی کی دلیل ہے۔ پھر ایک اور مست فقیر وہاں تھا۔ درباروں میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی وہاں آ گیا۔ اس نے کہا بابا ہمیں بھی پوچھ لینے دو۔ یعنی خدا تعالیٰ سے ہمیں بھی پوچھ لینے دو کہ سچائی کیا ہے؟ دوسرے دن اس نے بتلایا کہ خدا نے کہا کہ مرزا مولیٰ ہے۔ پہلے فقیر نے اس پر کہا کہ مولانا کہا ہو گا۔ وہ تیرا اور میرا ہم جیسے سب کا مولیٰ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آجکل خواب اور رؤیا بہت ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگوں کو خوابوں کے ذریعہ اطلاع دے۔ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس طرح پھرتے ہیں جیسے آسمان میں ٹڈی ہوتی ہے۔ وہ دلوں میں ڈالتے پھرتے ہیں کہ مان لو، مان لو۔

پھر ایک اور شخص کا حال بیان کیا جس نے حضور علیہ السلام کے ردّ میں کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تُو ردّ لکھتا ہے اور اصل میں مرزا صاحب سچے ہیں۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 188۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ خدا تعالیٰ کی رہنمائی ہے جو وہ سعید فطرت لوگوں کی کرتا ہے۔

آج جب تبلیغ کے وسائل اس وقت کی نسبت بہت زیادہ ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں تھے لیکن پھر بھی جو رہنمائی اللہ تعالیٰ لوگوں کی رؤیا اور خوابوں کے ذریعہ فرماتا ہے اس کا دلوں کو کھولنے میں بہت بڑا حصہ ہے۔ بیشک تبلیغ بھی اس پر اثر کرتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ چاہے لیکن اللہ تعالیٰ براہ راست رہنمائی کے سامان بھی کرتا ہے اور آج بھی بیشمار لوگ ہیں جن کی اس طرح رہنمائی ہوئی اور ہو رہی ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو مانتے ہیں، آپ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس وقت مَیں گزشتہ سال میں ہونے والے بعض ایسے واقعات کی مثالیں پیش کرتا ہوں۔ بہت سارے واقعات میں سے چند ایک لئے ہیں جن کی خوابوں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کی باتیں سن کر کہ قادیان سے ہزاروں میل دُور بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو ایسے علاقوں میں ہیں جہاں کسی طرح کا نظامِ رسل و رسائل اور مواصلات بھی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی فرما رہا ہے۔

ایک چھوٹا سا آئی لینڈ ہے ماریشس کے پاس مایوٹے (Mayote)۔ وہاں مبلغ دورے پر گئے تو کہتے ہیں کہ ایک غیر احمدی دوست نے خواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا۔ کچھ عرصے بعد انہیں ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا تو ایم ٹی اے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر فوراً کہنے لگے کہ یہی تو وہ بزرگ ہیں جنہیں مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اس طرح ان کو یقین ہو گیا کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ چنانچہ جب ان کو اس کے اور احمدیت کے بارے میں بتایا گیاتو وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

اسی طرح گنی کناکری افریقہ کا ایک اور دوردراز بالکل دوسری طرف ملک ہے۔ یہاں شہر میں ایک یونیورسٹی کے طالبعلم سلیمان صاحب تھے۔ لمبے عرصہ سے زیر تبلیغ تھے لیکن بیعت نہیں کر رہے تھے۔ ایک دن وہ آئے اور کہا کہ اب میں مطمئن ہوں اور بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ کس طرح مطمئن ہوئے تو انہوں نے اپنی خواب بیان کی کہ میں ایک کشتی میں سوار ہوں اور ہماری کشتی کے قریب ایک دوسری کشتی ڈوب رہی ہے اور اس کے مسافر ہمیں مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ ہماری کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں۔ ہم جس میز کے گرد بیٹھے ہیں وہاں امام مہدی علیہ السلام بھی موجود ہیں۔ خواب میں یہ دیکھتے ہیں کہ ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجود ہیں اور پینے کے لئے دودھ کا پیالہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے وہ پیالہ لیا اور خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا جس کا ذائقہ نہایت عمدہ تھا۔ اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو مَیں سمجھ گیا کہ یہ زندگی بخش جام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہونے اور آپ کی بیعت کرنے کے نتیجہ میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔

اسی طرح ایک ملک آئیوری کوسٹ ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی اللٰسان (Alassane) صاحب ہیں۔ انہوں نے ایک خواب بیان کی کہ میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع ہے۔ میرا ایک ساتھی مجھے کہتا ہے کہ اس مجمع میں امام مہدی بھی ہیں۔ تجسّس کی وجہ سے مَیں امام مہدی سے ملنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ میرا ساتھی مجھے کہتا ہے کہ امام مہدی سے ملنے سے پہلے احمدیت قبول کر لو۔ چنانچہ میں خواب میں ہی بیعت کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد جب میں مجمع کے قریب ہوتا ہوں تو واقعی اس میں امام مہدی علیہ السلام کو دیکھتا ہوں کہ آپ تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس خواب کے بعداللّٰسان تراؤرے صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔

پھر ہندوستان، ساؤتھ انڈیا کا جو کیرالہ کا علاقہ ہے، اس میں ایک نومبائع دوست کو ایم ٹی اے اور خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ یہ لکھنے والے وہاں کے صدر جماعت ہیں۔ پانچ ماہ قبل جب انہوں نے رپورٹ بھیجی تو لکھتے ہیں کہ موصوف اپنے گھر میں کیبل کے ذریعہ ٹی وی دیکھا کرتے تھے۔ اچانک ان کو ایم ٹی اے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ یہ دوست عبدالحمید صاحب تھے جو احمدی ہوئے۔ یہ طریقت مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور ایک پیر صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں ایم ٹی اے دیکھتے ہوئے ابھی ایک دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر رہے ہیں۔ وہاں انہوں نے اپنے پیر صاحب کو بھی زیارت کرتے ہوئے دیکھا جو فوت ہو چکے ہیں۔ اس خواب کے بعد یہ کہتے ہیں کہ جماعت کا پتا کرتے ہوئے صدر جماعت کے پاس آئے۔ بیعت کے لئے اصرار کیا۔ انہوں نے مزید مطالعہ کا کہا۔ پھر امیر ضلع کے پاس گئے۔ انہوں نے بھی مزید مطالعہ کا کہا۔ پھر یہ قادیان بھی پہنچ گئے اور وہاں جا کے بیعت کر لی۔

اسی طرح تیونس جو نارتھ افریقہ کاملک ہے، یہاں کے ایک دوست قادر صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت سے متاثر تو تھا لیکن بیعت کی طرف میرا دل نہیں جاتا تھا۔ تسلی نہیں تھی کہ بیعت کروں۔ کیوں؟ اس لئے کہ امام مہدی کو نبی کے طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھا اور یہی چیز بنیادی چیز ہے۔ اگر مسلمانوں کو خاص طورپہ یہ سمجھ آ جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ایک غیر شرعی نبی کا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی آپ نے جو کچھ پایا ہے وہ پایا ہے اور آپ کے طفیل آپ سے محبت اور پیار کی وجہ سے نبی آ سکتا ہے اور آپ کے طفیل اللہ تعالیٰ فضل فرما سکتا ہے اور مسیح نے جو آنا تھا وہ نبی کے مقام کے ساتھ ہی آنا تھا۔ تو بہرحال یہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ پھر کہتے ہیں مَیں نے فیصلہ کیا کہ اسی صورت میں بیعت کروں گا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے بتا دے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں۔ اس دوران کہتے ہیں میری گفتگو ایک احمدی دوست سے ہوئی تو اس نے مجھے ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ جو امام مہدی کو پہچاننے کے باوجود بیعت نہیں کرے گا وہ جہالت کی موت مرے گا۔ تو کہتے ہیں کہ اس بات کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ میں نے رات کو استخارہ کیا اور خواب میں دیکھا کہ میں قرآن کریم پڑھ رہا ہوں اور ایک ایسے مقام پر رکا جہاں لکھا تھا۔ اِنِّیْ اَنْصُرُکَ یَا اَحْمَد۔ کہتے ہیں کہ یہ خواب دیکھ کے میں نے فوراً بیعت کر لی۔ پھر ایک اور ملک مالی ہے۔ وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ یہاں کے ایک چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے ایک معمر شخص کولی بالی صاحب ہیں۔ بڑی عمر کے شخص تھے۔ دسمبر 2014ء میں انہیں بیعت کی توفیق ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ 1964ء میں جب وہ آئیوری کوسٹ میں تھے انہوں نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ دو سفید رنگ کے آدمی ان کے پاس آتے ہیں جنہوں نے کہا کہ امام مہدی آ چکے ہیں ان کی بیعت کرو۔ اس خواب کے بعد وقت گزر گیا انہوں نے آرمی جوائن کر لی۔ خواب بھی بھول گئی۔ لیکن 2014ء میں ایک روز ریڈیو tune کر رہے تھے تو احمدیہ ریڈیو مل گیا۔ وہاں ہمارے ریڈیو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی چل رہے ہیں۔ جب اس کو سننا شروع کیا اور امام مہدی کی آمد کا سنا تو کہتے ہیں میری دل کی کیفیت بدل گئی اور خواب بھی یاد آ گئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ وفات سے قبل ان کو امام مہدی کی بیعت میں آنے کی توفیق ملی جس کی اطلاع ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے پچاس سال پہلے دے دی گئی تھی۔ تو نیک فطرتوں کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور ایک عرصہ لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی۔

پھر ایک اور ملک سوازی لینڈ ہے۔ وہاں ایک احمدی نوجوان طاہر صاحب ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بیعت کی ہے۔ اس سال رمضان میں ستائیسویں کی رات خواب میں انہوں نے دیکھا کہ چاند اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمک رہا ہے گویا کہ ایک دن کا سماں ہے۔ خواب میں ہی آواز آئی کہ یہ وہ روشنی ہے جسے تم نے پا لیا ہے۔ اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ یہ آہستہ آہستہ پورے سوازی لینڈ میں پھیل جائے گی۔ خواب میں مجھے سمجھایا گیا کہ اس روشنی سے مراد احمدیت ہے جو آہستہ آہستہ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس خواب کے بعد اس نو احمدی کو غیر معمولی طور پر ثبات قدم عطا ہوا ہے۔

پھر مالی کا ایک اور واقعہ ہے۔ ایک جماعت ناندرے بوغو میں ایک بزرگ سعید صاحب ہیں۔ احمدیت کے بارے میں انہوں نے سنا تھا لیکن وہ احمدیت کے بارے میں اپنی تسلی کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے چالیس راتوں کا چلّہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکیسویں رات انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ساتھ مجھے بھی دیکھا کہ دونوں ان کے گھر میں آتے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ آسمان پر لے جاتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں یہ خواب دیکھ کر ان کی تسلی ہو گئی ہے اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ افریقن لوگ یونہی احمدیت قبول کر لیتے ہیں لیکن چونکہ ان میں حق قبول کرنے کی جستجو ہے اس لئے سنتے ہیں اور پرکھتے ہیں۔ ڈھٹائی نہیں دکھاتے اور کیونکہ فطرت نیک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتا ہے۔ دین کے لئے ان کے دل میں ایک درد تھا۔ تبھی تو چالیس دن انہوں نے چلّہ کرنے کا سوچا۔

مالی کے ہی ایک اور صاحب ماماصاجُوبَا (Mama Sajoba) ہیں۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں سنا لیکن انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آیا جماعت سچی ہے یا نہیں۔ اس پر انہوں نے استخارہ کیا۔ استخارے کے تیسرے دن انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک کشتی میں سفر کر رہے ہیں۔ یہ کشتی عین پانی کے درمیان میں الٹ جاتی ہے اور تمام لوگ ڈوبنے لگتے ہیں۔ اتنے میں پانی سے ایک بچہ نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم بچنا چاہتے ہو تو احمدیت قبول کر لو۔ اس پر انہوں نے خواب میں ہی احمدیت قبول کر لی جس سے وہ بچ جاتے ہیں جبکہ دیگر تمام افراد ڈوب جاتے ہیں۔ چنانچہ خواب کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔

پھر سیرالیون سے عبدل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب تو احمدی تھے۔ (بعض دین سے دور ہٹے ہوؤں کو، بگڑے ہوؤں کو بھی اللہ تعالیٰ والدین کی دعا کی وجہ سے یا اپنی اور نیکیوں کی وجہ سے بھی رہنمائی فرماتا ہے) کہتے ہیں میرے والد صاحب احمدی تھے لیکن میں بعض وجوہات کی بنا پر جماعت سے دُور ہوتا گیا اور تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر تبلیغ کے لئے جانے لگ گیا۔ تبلیغی جماعت والے افریقہ میں بھی پاکستان سے بھی جاتے ہیں، ہندوستان سے بھی جاتے ہیں تو کہتے ہیں بہرحال مبلغ نے اور میرے والد صاحب نے مجھے کافی سمجھایا مگر مجھے کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہ خود لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد ایک دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑی اور خوبصورت تصویر آسمان پر ہے جو مسیح الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ہے۔ اگلے ہی دن میں نے تبلیغی جماعت کو چھوڑا اور احمدیت اور حقیقی اسلام میں دوبارہ شامل ہو گیا اور الحمد للہ کہ سارے پروگراموں میں شریک ہوتا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادے ہیں اور بھیجے ہوئے ہیں۔ مسیح اور مہدی ہیں۔ بلکہ آپ کے بعد جاری نظام خلافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنے والا ہے خلفاء کو بھی خواب میں دکھا کر رہنمائی فرما دیتا ہے۔

چنانچہ نائیجیریا سے ایک معلم لکھتے ہیں کہ محمدنامی ایک شخص نے اپنا خواب بیان کیا کہ وہ بحری جہاز پر سوار تھا۔ جب بحری جہاز سمندر کے وسط میں پہنچا تو اچانک طوفان آ گیا اور جہاز ڈوبنے لگ گیا اور زندگی کے آثار ختم ہونے لگے۔ اس وقت اچانک ایک انسان نے ہاتھ پھیلائے اور مجھے کنارے پر لے آیا۔ مجھے نہیں علم تھا کہ یہ خدا کا بندہ کون ہے۔ کچھ عرصے بعد اس محمدنامی شخص کا رابطہ ہمارے ایک داعی الی اللہ اور معلم سے ہوا۔ داعی الی اللہ نے اس شخص کو ایم ٹی اے دکھایا تو ایم ٹی اے پر جب اس نے میری شکل دیکھی تو یکدم کہنے لگا کہ یہی وہ خدا کا بندہ تھا جس نے مجھے بچایا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے سارے خاندان کے ساتھ جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا۔

اسی طرح سوڈان سے (سوڈان کے لوگ مذہب کے معاملے میں بڑے کٹّر ہیں) وہاں کے احمد صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں ڈاکٹر امیر صاحب ہیں انہوں نے فون کر کے انہیں بتایا کہ وہ بیعت کرنا چاہتے ہیں اور پھر اگلے روز جمعہ تھا وہ جمعہ پر آ گئے اور جمعہ ہمارے ساتھ ادا کیا۔ بیعت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ نے اپنے میاں کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ خواب میں دیکھا کہ حضور ان سے پوچھتے ہیں کہ ابھی تک آپ نے بیعت کیوں نہیں کی۔ اس پر انہوں نے ہاتھ بلند کئے اور کہا کہ میں بیعت کے لئے تیار ہوں۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ دیکھا۔ کہتے ہیں اس سے امیر صاحب کو یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے کیونکہ بیوی نے ایک خلیفہ کو دیکھا اور بیٹی نے دوسرے خلیفہ کو دیکھاتو یہ یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے اور خلافت کا نظام سچا ہے۔ موصوف کا تعلق صوفی خاندان سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں کے ایک بزرگ مجذوب ابراہیم صاحب ہیں جن کی رؤیا و کشوف پورے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے ان مجذوب کو فون کر کے جماعت کے بارے میں پوچھا کہ امام مہدی ظاہر ہو گئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وہ ظاہر ہو کر فوت بھی ہو گئے ہیں۔ آپ کو اس کی اطلاع نہیں ہوئی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ اس وقت امام مہدی کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ کیا مجھے ان کی بیعت کرنی چاہئے تو مجذوب صاحب نے کہا کہ بیعت کر لیں۔ اس کے بعد جس طرح وہ واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہوا جو داتا گنج بخش کے پاس فقیر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجذوب ہیں اور وہ رہنمائی لے کے ایک شخص کو بتا رہے ہیں اسی طرح ان کو بھی 120سال کے بعد رہنمائی اس ایک اور مجذوب سے ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں اس کے بعد انہوں نے فون اپنی اہلیہ کو دیا اور انہوں نے مجذوب سے پوچھا کہ بیعت بہتر ہے یا راہ طریقت سے چمٹے رہنا۔ مجذوب نے کہا کہ جب انسان بیعت کر لیتا ہے تو خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔

اسی طرح بینن کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہکوتونو شہر میں ایک سال قبل بیلو (Bello)نامی ایک نائیجیرین دوست کاروبار کے سلسلہ میں آئے۔ نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلے تو محلے میں دو مساجد دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گئے کہ کس مسجد میں جاؤں۔ چنانچہ یہاں اب اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعہ سے مسجد دکھا کر ایک اور رہنمائی فرما رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ غیر احمدیوں کی مسجد میں گئے اور دوسرے جمعہ پر پھر وہ احمدیوں کی مسجد میں آ گئے۔ کہتے ہیں پھر میں نے دونوں مسجدوں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنی شروع کیں تو لوگوں نے احمدیوں کے متعلق برا بھلا کہا۔ لوگوں کی باتوں سے مَیں سوچ میں پڑ گیا کہ صفائی اور سلیقے کے لحاظ سے تو احمدیوں کی مسجد منظم ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ احمدی اسلام کے خلاف ہیں۔ ان کا نبی اور ہے۔ لیکن مجھے سکون ان کی مسجد سے ہی ملا ہے۔ چنانچہ میں دعا میں لگ گیا کہ اے خدا! تو ہی میری مدد اور رہنمائی کر۔ میں یہاں اس علاقے میں نیا ہوں۔ احمدیوں کی مسجد میں جاتا ہوں تو سکون ملتا ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ احمدی برے ہیں، کافر ہیں۔ دوسری مسجد میں دل نہیں لگتا۔ اس صورتحال میں گھر میں ہی نماز پڑھتا رہا۔ نہ اِدھر جانا شروع کیا نہ اُدھر گیا۔ دونوں طرف ہی جانا چھوڑ دیا توکہتے ہیں تین چار دن بعد مجھے خواب میں میرے گھر کے دو صابن دکھائے گئے۔ دو صابن پڑے تھے ایک نیلے رنگ کا صابن جو کہ جرمن صابن تھا جبکہ دوسرا لوکل صابن تھا۔ کہتے ہیں مجھے نیم بیداری میں تعبیر سمجھائی گئی کہ نیلے رنگ سے مرادنیلے رنگ کی صفیں ہیں۔ بیدار ہو کر میں نے سوچا کہ جمعہ والے دن احمدیوں کی مسجد میں تو سرخ رنگ کا قالین تھا اور سبز صفیں تھیں۔ لیکن خواب دیکھنے کے بعد دوبارہ میں نے دونوں مساجد کا جائزہ لیا تو احمدیہ مسجد میں مجھے نیلے رنگ کی صفیں ملیں۔ پھر میں نے احمدیہ مسجد میں ہی نمازیں پڑھنی شروع کر دیں اور مزید دعاؤں میں لگا رہا۔ کہتے ہیں ایک دن خواب میں دیکھا کہ امام نے مجھے ایک کتاب دی ہے اور اس میں بہت ہی خوبصورت ایک تصویر ہے۔ چنانچہ اگلے جمعہ نماز کے بعد احمدیہ مسجد کے امام سے ملا اور کہا کہ میں اسلام احمدیت کے بارے میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ میری اتنی سی بات سن کر کہتے ہیں کہ میں آپ کو ایک دو دن میں کتاب بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ مجھے جو کتاب بھجوائی گئی بجائے اس کے کہ کوئی مسائل کی کتاب ہوتی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بارے میں کوئی کتاب ہوتی، کوئی حدیثوں سے حوالے دئیے جاتے، انہوں نے جو کتاب بھجوائی وہ World Crisis and the Pathway to Peace تھی۔ کہتے ہیں اسے مَیں نے کھولا تو پہلے صفحے پر وہی تصویر تھی جو مَیں نے خواب میں دیکھی تھی۔ کہتے ہیں اس سے میرا ایمان اور بڑھ گیا۔ پھر مجھے ایک مرتبہ قرآن کریم دکھایا گیا۔ جو قرآن میرے پاس گھر میں تھا وہ نہ تھا بلکہ ایک اور قرآن تھا۔ چند دن کے بعد وہ فرنچ ترجمہ قرآن میں نے مسجد میں دیکھا جو خواب میں دکھایا گیا تھا۔ (جماعت کا چھپا ہوا فرنچ ترجمہ وہ مسجد میں دیکھا۔) اس طرح اللہ تعالیٰ میری رہنمائی کرتا گیا گویا کہ وہ خود میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے چلا رہا ہے۔ پھر موصوف کہتے ہیں کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے مجھے نیم خوابی کی حالت میں بتایا کہ دس احکام ہیں انہیں پڑھو اور پھر خواب میں ہی مجھے وہ دس احکام پڑھ کر سنائے گئے۔ مجھے ان کے الفاظ تو یادنہ تھے مگر ہر ایک مضمون میرے دل میں راسخ ہوتا جا رہا تھا گڑتا جا رہا تھا۔ کہتے ہیں عین تین چار دن کے بعد میں مسجد کے مربی صاحب سے باتیں کرنے لگا اور ابھی طرف اس طرف نہیں آیا تھا کہ کیسے بیعت کرنی ہے کہ مربی صاحب نے ایک ورق دیا کہ اسلام پر عمل کرنے کے لئے یہ دس شرائط ہیں ان کو پڑھو اور سمجھو۔ (یعنی جماعت احمدیہ کی اگر حقیقت معلوم کرنی ہے تو) جب میں نے دس شرائط بیعت پڑھیں تو بہت رویا کہ میرے خدانے کس طرح مجھے ہدایت دی ہے۔ چنانچہ میں نے بیعت کر لی اور خدا تعالیٰ کا شکر اداکیا اور کہتے ہیں اب بیعت کے بعد تو ہر روز مجھے ایک نیا لطف آ رہا ہے اور مزہ آ رہا ہے۔

پھر مصر کے ایک صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے 2004ء میں خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایک جگہ آرام کر رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوں اور وہ مجھے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ تمہیں اس معاملے میں تحقیق کرنی چاہئے۔ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آئی اور کہتے ہیں مَیں نے اس سے پہلے کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ خواب کے چار سال بعد میں نے ایم ٹی اے دیکھا اور تحقیق کرنے لگا اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی۔ کہتے ہیں نومبر 2014ء میں مَیں نے بیعت کرنے سے پہلے خواب دیکھا کہ میں ایک مسجد میں داخل ہوا ہوں جو نمازیوں سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلوہ نشین ہیں اور میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ مَیں حضور کے قریب ہوتا ہوں اور ان کی جگہ پھر حضرت خلیفہ اول ہوتے ہیں۔ ایک آواز کہتی ہے کہ یہ ابوبکر صدیق ہیں۔ میں اور قریب ہوتا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی جگہ خلیفۃ المسیح الخامس ہوتے ہیں۔ آپ مجھے دیکھتے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور میں بھی دعا میں شامل ہو جاتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یوں کی کہ دعاؤں کی قبولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی اتباع کی برکت سے ہوتی ہے۔

پس یہ حق کو سمجھنے والے خوش قسمت لوگ ہیں۔ ان کے دل کی کیفیت دیکھ کر خدا تعالیٰ ان کی رہنمائی فرماتا رہا یا فرماتا ہے اور جیسا کہ بعض لوگوں کی خوابوں سے ظاہر ہے ایسے بھی لوگ ہیں کہ ان کی ایسی واضح رہنمائی فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور وہ جو اپنے آپ کو دین کا عالم سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس رہنمائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نومبائعین کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ علیہ السلام نے ان نومبائعین سے اظہار محبت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ جو بڑے بڑے مولوی تھے ان کے لئے خدا تعالیٰ نے دروازے بند کر دئیے اور آپ کے لئے کھول دئیے۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 191۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

خدا تعالیٰ کا یہ آپ لوگوں پر بھی بڑا احسان ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور جو جماعت احمدیہ کے ممبران ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس جیسا کہ مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد رکھنا چاہئے اور اس کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے بھی بعض ایسے ہوں جن کے آباؤ اجداد، ان کے بزرگ دادا پڑدادا اس مجلس میں شامل ہوں یا اس مجلس کے شاملین میں سے ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے اور پھر آپ لوگوں کو ان بزرگوں کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد رکھا اور اپنی نسلوں میں احمدیت کو جاری رکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت میں شامل ہونے والوں کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو۔ یہ سب کی سب ہمارے مخالفوں سے ہی نکل کر بنی ہے اور ہر روز جو بیعت کرتے ہیں یہ انہی میں سے آتے ہیں۔ ان میں صلاحیت اور سعادت نہ ہو تی تو یہ کس طرح نکل کر آتے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’بہت سے خطوط اس قسم کی بیعت کرنے والوں کے آتے ہیں کہ پہلے میں گالیاں دیا کرتا تھا مگر اب میں توبہ کرتا ہوں مجھے معاف کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 125-126۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہی مخالفت کے رویّے تھے لیکن اب وہ اخلاص میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بیعت کی اور بیعت کے بعد اخلاص و وفا میں بڑھے۔ چنانچہ مالی کے ایک مبلغ صاحب نے لکھا کہ ہمارے ایک ممبر جماعت سلیمان صاحب ہیں۔ بیعت کے بعد ان کی اہلیہ ان کے بھائی دیام تپیلے (Diam Tapily) کے پاس چلی گئیں اور عرض کیا کہ تمہارا بھائی اب مسلمان نہیں رہا۔ یہ مسلمان خاندان تھا۔ بیوی اپنے خاوند کے بھائی کے پاس گئی اور خاوند کے بھائی کو کہا کہ تمہارا بھائی احمدی ہو گیا ہے۔ اب مسلمان نہیں رہا۔ وہ احمدی ہو گیا ہے تم جا کر اس کو سمجھاؤ۔ اس پر ان کے بھائی کو بہت غصہ آیا۔ وہ سلیمان صاحب کے پاس آئے اور احمدیت چھوڑنے کو کہا اور کہا کہ اگر وہ احمدیت نہیں چھوڑیں گے تو پھر اس کا بھائی اور ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا حتی کہ تمہارا جنازہ بھی مَیں نہیں پڑھوں گا، احمدی ہی پڑھیں گے۔ لیکن سلیمان صاحب نے بھائی کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ثابت قدم رہے۔ ان کے مخالف بھائی نے بھی کچھ عرصہ بعد ریڈیو احمدیہ اس غرض سے سننا شروع کیا کہ احمدیت سے اپنے بھائی کو بچائیں گے۔ سنیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور بچائیں گے۔ مگر کچھ عرصے بعد خود ان کے مخالف بھائی کے دل کی حالت بدل گئی اور بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہو گئے۔

اسی طرح ہندوستان سے ہمارے مربی اجمل صاحب لکھتے ہیں کہ اس سال 17؍جون کو (جب انہوں نے یہ تحریر لکھی) صوبہ بنگال کے ضلع مرشد آباد کے ایک گاؤں میں ایک تبلیغی میٹنگ رکھی گئی۔ اس میٹنگ میں گاؤں کی غیر احمدی مسجد کی کمیٹی کے نگران اور مسجد کے مؤذن اور بعض دیگر پڑھے لکھے غیر احمدی احباب بھی شامل ہوئے۔ میٹنگ کے بعد مسجد کی کمیٹی کے نگران کہنے لگے کہ میرا بھتیجا احمدی ہے اور میں ہمیشہ احمدیوں سے نفرت کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ احمدی بے دین لوگ ہیں لیکن اب میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ احمدی ہی حقیقی مسلمان ہیں اور باقی سب اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ بعد میں پھر اس گاؤں میں بارہ بیعتیں بھی ہوئیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں جو وہ کر رہا ہے اور جماعت یہ نشانات دیکھ رہی ہے اور یقینا یہ واقعات ہمارے ایمانوں کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ خدا ہی کے سلسلے میں برکت ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’انہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے۔ خون تک کے مقدمے بنوائے مگراللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں ہوتی ہیں وہ ضائع نہیں ہو سکتیں۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگر انسانی ہاتھوں یا انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے اب تک اس کو نیست و نابود کر چکے ہوتے۔ انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت ہے۔ پس جس قدر تم اپنی قوتِ یقین کو بڑھاؤ گے اسی قدر دل روشن ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 257۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) جس قدر تم یعنی احمدی اپنی قوت یقین کو بڑھاؤ گے اسی قدر تمہارے دل روشن ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ یقینا خدائی الفاظ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائیدات لئے ہوئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن کے درمیان یہ سلسلہ پرورش پا رہا ہے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں فرمایا کہ دلوں کو روشن کرنے کے لئے قوت یقین کو بڑھانے کی ضرورت ہے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے؟ کیا ہمارے دل روشن ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری دین کی طرف رغبت ہے؟ کیا ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روحانی اور عملی حالتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟

بہت سے واقعات لوگ جو نئے احمدی ہو رہے ہیں لکھتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ہماری روحانی حالت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہماری نمازوں کی کیا کیفیت ہو گئی ہے۔ ہماری عملی حالتوں میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان کے رویّے یکسر بدل گئے ہیں۔ پہلے جہاں گھروں میں فساد فتنہ، لڑائیاں جھگڑے ہوتے تھے، گھروں میں سکون اور امن پیدا ہو گیا ہے۔ دیکھیں کس طرح اور کس فکر کے ساتھ نئے شامل ہونے والے اپنے دین اور دینی حالت کے بارے میں سوچتے ہیں، فکر مند ہیں، تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں۔ یہی حالت ہم سب میں، ہر ایک میں پیدا ہونی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ ہمیں اپنی دینی حالتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمیدنہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلیٰ کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْر خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو‘‘۔ (اپنی جو دعائیں ہیں، جو ضروریات ہیں وہ اپنی زبان میں مانگو۔ سجدوں میں مانگو) ’’اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی‘‘۔ فرمایا کہ ’’آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں، ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز تو بہت جلد جلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہتے ہیں‘‘۔ (غیر احمدیوں میں یہی حال ہے لیکن ہمارے ہاں بعد میں دعا بھی نہیں ہوتی اور نمازیں بھی بعض لوگ میں نے دیکھا ہے بڑی تیزی سے پڑھ رہے ہوتے ہیں ) فر مایاکہ ’’نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے (جب بادشاہ کے دربار میں گئے وہاں تو کچھ نہ کہا) لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے اسے کیا فائدہ۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو‘‘۔

فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دئیے ہیں۔ سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے۔ چنانچہ اس دعا کو اﷲ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے۔ (أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ‘‘۔ فرمایا کہ ’’یعنی دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جاوے‘‘ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں) ’’جس سے اﷲ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو۔ اس لیے فرمایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں۔ رَبّ الْعَالَمِیْنَ۔ سب کو پیدا کرنے والا اور پالنے والا۔ اَلرَّحْمٰن۔ جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے۔ الرَّحِیْم۔ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ فرمایا ’’پورا اور کامل موحّد تب ہی ہوتا ہے(انسان خدا تعالیٰ کی خدائے واحد کی پرستش کرنے والا تبھی ہوتا ہے) جب اﷲ تعالیٰ کو مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ تسلیم کرتا ہے۔ دیکھو! حُکّام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے (تم دنیاوی حُکّام کے سامنے جاتے ہو، افسروں کے سامنے جاتے ہو تو ان کو سب کچھ سمجھ لینا یہ گناہ ہے) اور اس سے شرک لازم آتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے۔ (لیکن اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے ان سے کس طرح پیش آنا چاہئے) ان کی اطاعت ضروری ہے (جہاں تک حاکم کا سوال ہے ان کی اطاعت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حاکم بنایا ہے) مگر ان کو خدا ہر گز نہ بناؤ‘‘۔ (یہ نہ سمجھو کہ صرف وہی تمہارے کام کریں گے۔ بعض اپنے افسروں کے سامنے بھی اس طرح مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں خوشامد کر رہے ہوتے ہیں کہ جس طرح نعوذ باللہ وہ خدا ہوں ) فرمایا کہ ’’انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو۔ پھر یہ کہو۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے۔ اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہؤا اور جو گمراہ ہوئے۔ غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے۔ اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو‘‘۔ (یہ نماز پڑھنے کے آداب ہیں جنہیں سمجھنا چاہئے لیکن بعض لوگ جو تیزی میں پڑھتے ہیں وہ کیا سمجھتے ہوں گے) فرمایا کہ ’’طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں۔ یہ یقینا سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آ ہی نہیں سکتی جبتک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے۔ روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھوکر نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور نِدّ نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کرکے دکھاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 257 تا 259۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (عقیدہ بھی یہ ہو۔ عمل بھی یہ ہو۔ قول و فعل ایک ہوں تب ہی انسان ایک صحیح مومن بن سکتا ہے۔)

پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا اس تعلیم کے مطابق ہمارے عمل اور سوچیں ہیں۔ اگر نہیں تو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں بعد میں آنے والی قومیں ترقی کر کے ہم سے بہت آگے نہ نکل جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کو پا کر اتنی دُور نہ چلی جائیں کہ ہمیں جب احساس ہو کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں، ہماری نسلیں پیچھے رہ رہی ہیں تو پھر دہائیاں ان فاصلوں کو پورا کرنے میں لگ جائیں۔ نسلوں کو اگلی نسلوں کو سنوارنے میں وقت لگ جائے۔ یہ دیکھیں کہ کہیں اس دنیا میں ڈوب کر ہماری نسلیں بہت پیچھے نہ چلی جائیں۔ ان ملکوں میں آ کر صرف دنیا داری کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں وہ بہرحال ادا کرنے فرض ہیں۔ نمازیں جو ہیں بہرحال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں۔ پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے، اس پر بہت کوشش کریں اور اس کو سمجھیں اور یہ سمجھنا اور اس پر کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے اور ان الفاظ پر بھی غور کریں کہ اپنی قوت یقین کو بڑھائیں اور دلوں کو روشن کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے پھر ان انعاموں کو حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ نہ ہو کہ پیچھے رہنے سے ان انعاموں سے محروم ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق قائم ہوا ہے یہ کوشش کریں وہ کبھی نہ ٹوٹے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں اور جماعت کا ایک فعّال اور مضبوط حصہ بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ہمیشہ وارث بنتے چلے جائیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ اکتوبر 2015ء شہ سرخیاں

    یقیناً ہر احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچا ایمان رکھتا ہے اس بات پر قائم ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صرف 125سال پہلے ایک چھوٹے سے دور دراز علاقے سے اٹھی ہوئی آواز کو دنیا کے کونے کونے میں نہ صرف پھیلا دیا بلکہ مخلصین کی جماعتیں بھی قائم فرماتا چلا جا رہا ہے جو آپ سے اخلاص و وفا اور ایمان میں بڑھ رہی ہیں تو وہ خدا اپنے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی یہ بات بھی پوری فرمائے گا کہ ابتلا دور ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ سب پر غالب ہو گا۔

    ہر ابتلا چاہے وہ احمدی پر احمدیت کی وجہ سے ذاتی ہو یا بعض جگہ پوری جماعت اس تکلیف میں سے یا ابتلا میں سے گزر رہی ہو تو ایسا ہر ابتلا پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور جلوے دکھاتا ہے۔

    جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانے میں اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ آپ کی سچائی کی طرف لوگوں کی رہنمائی فرماتا تھا آج بھی بیشمار لوگ ہیں جن کی اس طرح رہنمائی ہوئی اور ہو رہی ہے۔

    گزشتہ سال میں خوابوں کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کی طرف رہنمائی کے بہت سارے واقعات میں سے بعض کا نہایت ایمان افروز تذکرہ۔

    اللہ تعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے اور فرستادے ہیں اور بھیجے ہوئے ہیں۔ مسیح اور مہدی ہیں۔ بلکہ آپ کے بعد جاری نظام خلافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنے والا ہے خلفاء کو بھی خواب میں دکھا کر رہنمائی فرما دیتا ہے۔

    یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں جو وہ کر رہا ہے اور جماعت یہ نشانات دیکھ رہی ہے اور یقینا یہ واقعات ہمارے ایمانوں کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری قوت یقین بڑھ رہی ہے؟ کیا ہمارے دل روشن ہو رہے ہیں؟ کیا ہماری دین کی طرف رغبت ہے؟ کیا ہم اسلامی احکامات پر عمل کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روحانی اور عملی حالتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ملکوں میں آ کر صرف دنیا داری کے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں وہ بہرحال ادا کرنے فرض ہیں۔ نمازیں جو ہیں بہرحال ادا کرنی ضروری ہیں اور سمجھ کر ادا کرنی ضروری ہیں۔ پس یہ نہ ہو کہ ہماری نسلیں بہت پیچھے چلی جائیں اور نئے آنے والے ان انعامات کے وارث بن کر جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اپنے مقام کو ہم سے بہت بلند کر لیں۔

    فرمودہ مورخہ 16؍اکتوبر 2015ء بمطابق 16اخاء 1394 ہجری شمسی،  بمقام بیت العافیت، فرینکفرٹ جرمنی

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور