سچائی اور عدل و انصاف

خطبہ جمعہ 10؍ نومبر 2017ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا  (النساء: 136)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ (المائدۃ: 9)

وَ مِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ (الاعراف: 182)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح اور جس معیار کے عدل و انصاف کے قائم کرنے کی مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کسی اور مذہبی کتاب میں یہ معیار موجودنہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِس وقت ہر سطح پر مسلمانوں میں ہی ایک ایسا بڑا طبقہ ہے، لیڈروں میں بھی اور علماء میں بھی، جو انصاف اور عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اسی طرح گھروں میں عوام الناس میں عامّۃ المسلمین میں عام معاملات میں انصاف اور عدل کے وہ معیار عموماً دیکھنے میں نہیں آتے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمائے ہیں جس کی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے۔ گھریلو ناچاقیوں کے معاملات ہیں تو اس کے لئے مردوں کی طرف سے، عورتوں کی طرف سے بھی، بسا اوقات غلط واقعات کے ساتھ عدالتوں میں مقدمات پیش کئے جاتے ہیں۔ غلط گواہیاں پیش کی جاتی ہیں۔ ناجائز حقوق لینے کے لئے یا کسی کا حق مارنے کے لئے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ غرض کہ بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنا حق لینے یا یہ سمجھتے ہوئے کہ میرا حق ہے اور دوسرے کا حق مارنے کے لئے سچائی سے کام نہیں لیتی۔ جھوٹ بولتے ہیں اور عدالت کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں۔ بعض جگہ انصاف کرنے والے غلط فیصلے اپنے ذاتی مفادات کے لئے کر لیتے ہیں گویا کہ نظام ہی بگڑ گیا ہے۔ تو بہرحال اس بے انصافی سے معاشرے میں برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ پھر قومی سطح پر حکمران انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتے، نہ اپنی رعایا کے لئے ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہوتے ہیں، نہ ہی ملکوں کے آپس کے تعلقات میں انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے ہیں۔ علماء ہیں تو انہوں نے مذہب کو اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور دعویٰ مسلمانوں کا یہ ہے کہ ہم خیر اُمّت ہیں اور اسلام ہی دنیا کے مسائل کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ یقیناً مسلمان خیرِ اُمّت ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کریں۔ یقیناً اسلام ہی دنیا کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے بشرطیکہ اس کی تعلیم کے مطابق حق اور انصاف قائم کیا جائے۔

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ تین مختلف سورتوں کی ہیں۔ النساء کی، المائدۃ کی اور الاعراف کی۔

پہلی آیت جو النساء کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔

پس یہ وہ حکم ہے عدل کے معیار قائم کرنے کا۔ ذاتی گھریلو معاملات میں بھی اور معاشرتی معاملات میں بھی کہ جیسے بھی حالات ہو جائیں انصاف اور عدل پر ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ مومنوں کو یہ حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق مومن کی گواہی ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو ایمان کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہو اور مضبوط ہو۔ اس بات پر انسان قائم ہو کہ جو بھی حالات مجھ پر گزر جائیں میں نے انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے اور یہ مضبوطی اسی وقت پیدا ہوتی ہے یا اس کی مضبوطی کا تبھی پتا لگے گا جب انسان اپنے خلاف بھی گواہی دینے کے لئے تیار ہو۔ اپنے بیوی بچوں کے خلاف بھی گواہی دینے کے لئے تیار ہو۔ اپنے والدین کے خلاف بھی اگر ضرورت پڑے تو گواہی دینے کے لئے تیار ہو۔ قریبی رشتہ داروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو تیار ہو۔ فرمایا کہ خواہشات کی پیروی عدل سے دُور کرتی ہے۔ اگر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگ گئے تو عدل اور انصاف سے دُور ہو جاؤ گے۔

آجکل معاشرے کے بہت سے مسائل اس لئے ہیں کہ عدل اور انصاف کے معیار اس پائے کے نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ اپنی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا عام بات ہے۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم میں سے بھی بعض لوگ دنیاداری اور ماحول کے زیر اثر باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے ایسی باتیں کر جاتے ہیں اور ایسی گواہی دیتے ہیں جو حقائق سے دور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ چاہے ذاتی یا اپنے والدین کا نقصان بھی ہو جائے تو پھر بھی کبھی ایسی بات نہ کرو جو گول مول ہو یا کسی بھی طرح یہ تاثر پیدا ہو کہ حقائق کو چھپانے کے لئے پہلو تہی کی گئی ہے۔ سچی گواہی دینے سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ باتیں ہم روزمرّہ کے معاملات میں دیکھتے ہیں۔ مثلاً میاں بیوی کے معاملات ہیں۔ قضا میں بہت سارے ایسے معاملات آتے ہیں جہاں حقائق سے کام نہیں لیا جاتا۔ لین دین کے معاملات ہیں ان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں حقائق چھپائے جاتے ہیں۔ بعض دین کا علم رکھنے والے اور بظاہر خدمت میں پیش پیش بھی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس قسم کی باتیں کر سکتے ہیں جو بظاہر بڑے عالم ہیں اور دین کا علم رکھنے والے ہیں اور ان کا نیک اثر بھی قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اپنے خلاف، اپنے والدین کے خلاف، اپنے قریبی خونی رشتوں کے خلاف بھی حق کو نہ چھپاؤ۔ حق کو بہرحال ظاہر کرو۔ یہ لوگ صرف دوستیاں نبھانے کے لئے یا اپنے ذاتی مفادات کے لئے حق چھپاتے ہیں۔ گول مول بات کرتے ہیں یا سچی گواہی دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اور اگر حقیقت ظاہر ہو جائے تو اپنی بات کی تائید کے لئے انہوں نے تیاری بھی خوب کی ہوتی ہے کہ کس طرح اس سے بچنا ہے اور کیا دلیلیں دینی ہیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے، اس کو اچھی طرح اس کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس دنیا کے فائدے تو تم حاصل کر سکتے ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے یہاں بچ بھی گئے تو اگلے جہان میں پکڑے جاؤ گے۔ ہمارے تمام عملوں کی خبر رکھنے والا خدا وہ سارا اعمال نامہ سامنے رکھ دے گا جس میں وہ ساری باتیں ہوں گی۔

جس امام کو ہم نے مانا ہے اس نے تو اس قرآنی حکم پر چلتے ہوئے ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو غیروں کو بھی حیران و پریشان کر دیتی ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے سے بہت پہلے جوانی کے زمانے کا ایک واقعہ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے والد کے مزارعین کے خلاف ایک مقدمے میں آپ پیش ہوئے اور حق و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حق بات کی جس کا فائدہ مزارعین کو ہوا اور ان کے والد کا نقصان ہوا۔ آپ کے وکیل نے آپ کو پہلے کہا بھی کہ جس طرح مَیں کہتا ہوں اگر اس طرح گواہی نہ دی تو نقصان ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ جو بھی ہو جو حق بات ہے مَیں تو وہی بتاؤں گا۔ تو بہرحال جج نے مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ مقدمہ کے ہارنے کے بعد، جب آپ کے خلاف فیصلہ ہو گیا اور آپ عدالت سے واپس ہوئے تو اس طرح خوش خوش واپس آ رہے تھے کہ لوگ جن کو اس فیصلہ کا پتا نہیں تھا وہ سمجھے کہ شاید آپ مقدمہ جیت کر واپس آرہے ہیں۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 72 تا 73۔ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 298)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلامِ صادق کو ہم نے مانا ہے اس کا نمونہ تو یہ ہے اور اس نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ہر معاملے میں اپنی گواہیوں کے جائزے لینے چاہئیں۔ اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ ان ملکوں میں، مغربی ممالک میں بہت سے ہیں جو اپنی آمد کم بتا کر ٹیکس بچا لیتے ہیں یا حکومت سے بعض مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب معاشی حالات جو دنیا کے خراب ہوئے ہیں تو ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی حکومتیں بڑی گہرائی سے جائزے لینے لگ گئی ہیں اور جہاں بھی انہیں شک پڑتا ہے فوراً تحقیق کرتے ہیں۔ اس لئے احمدیوں کو اپنی اور جماعت کی بدنامی سے بچنے کے لئے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دنیاوی نقصان کو برداشت کرنا چاہئے اور حقائق نہیں چھپانے چاہئیں۔ ہمیشہ سچی بات کہنی چاہئے۔ اگر نیت نیک ہو گی، اللہ تعالیٰ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے پکڑیں گے، اپنی گواہیوں کے معیار کو قول سدید پہ قائم کریں گے تو اللہ تعالیٰ جو ربّ ہے، جو رازق ہے وہ خود ہی سامان بھی مہیا فرما دے گا۔ خود ہی رزق میں برکت ڈال دے گا۔ پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں۔ اگر ہم انصاف کے ایسے معیار قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو نہ گھروں کا امن و سکون قائم رہ سکتا ہے، نہ جہاں ہم رہتے ہیں اس علاقے کا اور معاشرے کا امن اور سکون قائم رہ سکتا ہے۔ اس پر عمل نہ کرنے سے افراد جماعت کے آپس کے تعلقات میں بھی دُوریاں پیدا ہوں گی۔

حیرت ہوتی ہے بعض لوگ غلط بیانی اور بے انصافی میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ بعض بچیوں کے والدین نے مجھے شکایت کی کہ ہماری لڑکی کا ایک جگہ اگر رشتہ ختم ہوا تو اس کے سابقہ سسرال والے ہر جگہ جہاں بھی رشتے کی بات چلتی ہے وہاں پہنچ کر جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور لڑکی کو بدنام کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لڑکے بھی میرے پاس آئے جن کو لڑکی کے والدین اس طرح بدنام کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف گواہیاں دے کر ان کے رشتے تڑوائے جا رہے ہیں یا ان میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو یہ انتہائی خطرناک چیز ہے۔ معاشرے کا امن برباد کرنے والی بات ہے اور اپنے عہد کو توڑنے والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے دُور ہٹنے والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہم پر احسان کیا ہے کہ ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ نے بھائی بھائی بنانے کا انتظام فرمایا اور ہم اپنے بعض ذاتی مفادات کے لئے یا اپنی اناؤں کی تسکین کے لئے یا دلوں میں بغض و کینہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے بدلے لینے کی کوشش کرتے ہیں اور بدلے لینے کے لئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے خوف کو بھی دلوں سے نکال دیتے ہیں۔ اگر کسی کے خیال میں اس پر زیادتی ہوئی بھی ہے تو اب معاملہ حل ہونے کے بعد، ختم ہونے کے بعد زیادتی کرنے والے سے علیحدہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ جو ہر معاملے کی خبر رکھنے والا ہے اس پر معاملہ چھوڑیں۔ اس بات میں ایک مومن کی سعادت مندی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دے۔

پھر اپنے معاشرے میں انصاف اور عدل اور سچائی قائم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ اپنے ذاتی معاشرتی اور قومی معاملات سے نکل کر بھی اعلیٰ معیار کا عدل اور انصاف قائم کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور غیر قوموں سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کرتے ہوئے اس کے اعلیٰ معیار قائم کرو۔ اگر دشمنوں کے ساتھ بھی تم نے عدل اور انصاف کے معیار قائم نہ کئے تو خیال کیا جائے گا کہ تم تقویٰ پر چلنے والے نہیں ہو۔ چنانچہ سورۃ مائدہ کی آیت 9 ہےجو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

بعض جگہ مذہبی اختلاف ہوتے ہیں اور اس وجہ سے دوسرے مذاہب والے زیادتی بھی کر جاتے ہیں تو ایسے حالات میں ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ قوموں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زیادتی کا بدلہ اسی طرح لیں اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ایک دفعہ درس میں بیان فرمایا کہ مثلاً اُس زمانے میں آریہ لوگ مسلمانوں کو نوکریوں سے تنگ کرتے تھے، نکال دیتے تھے کہ اگر وہ ایسا کریں بھی تو مسلمان کا کام نہیں ہے کہ ان سے بدلے لے۔ تبھی ہم اس حکم کے مطابق عمل کرسکتے ہیں۔ (ماخوذ از حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 85 تفسیر سورۃ المائدۃ آیت 9)

مومن کا یہ کام کبھی نہیں ہے کہ انصاف قائم نہ کرے۔ مومن کا یہ کام ہے کہ انصاف قائم کرے اور تقویٰ سے کام لے اور اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑے جو ہر چیز سے باخبر ہے۔ ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مضبوطی سے پکڑے اور اس پر قائم ہو اور اس میں ذرہ برابر بھی لاپرواہی نہ ہو۔ ایک حقیقی مسلمان کا نمونہ بن کر دکھانا ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر عمل اور فعل خدا تعالیٰ کی خاطر ہو۔ یہ حقیقی مسلمان کی نشانی ہے۔ ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔ انصاف کی تائید میں گواہ بننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسلامی تعلیم پر ایسے کاربند ہو، اس طرح عمل کرو کہ تمہارا عمل یا عملی نمونہ لوگوں کے لئے، دوسرے مذاہب کے لئے، معاشرے کے لئے ایک مثال بن جائے۔ دوسری قوموں کے لئے مثال بن جائے۔ آجکل مسلمانوں کی بے انصافیوں کے بارے میں مغرب میں بہت کچھ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے وہ غیروں سے کیا انصاف کریں گے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے اور مسلمان ہی اپنی حرکتوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ حکمران عوام کے حق مار رہے ہیں۔ عوام حکام سے لڑ رہے ہیں، حکومتوں سے لڑرہے ہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ظلموں کا شکار ہو رہی ہیں اور شکار ہو کر تباہ ہو رہی ہیں۔ نام نہاد اسلام پسند گروہ اپنے لوگوں کو بھی مار رہے ہیں اور غیر ملکوں میں بھی آ کر یہاں بھی ظالمانہ حرکتیں کرتے ہیں اور اپنے ظلم کو یہ کہہ کر وہ justify کرتے ہیں کہ یہ مغربی لوگ ہمارے لوگوں کو مار رہے ہیں اس لئے ہم بھی اپنا حق استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو بھی مسلمان ہی مار رہے ہیں۔ ہاں غیروں سے مدد ضرور لے رہے ہیں۔ اب گزشتہ دنوں ایک نیا منصوبہ ان شدت پسندوں کے گروپ کا سامنے آیا ہے جو یہاں مختلف شہروں میں، ملکوں میں وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہتے ہیں کہ اب یورپ میں ہم بچوں پر حملے کریں گے اور ماں باپ کے سامنے ان کے بچوں کو ماریں گے کیونکہ ان مغربی ممالک کے بمبار طیاروں نے بمباری کر کے ہمارے بچوں کو مارا، ہماری آبادیاں تباہ کیں۔ حالانکہ یہ بمباری بھی تو مسلمان حکمرانوں کے کہنے پر ہوئی ہے۔ بہرحال یہ قوموں کی دشمنی پھر آگے مزید دشمنیوں کے بچے پیدا کرتی چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس حد تک جانے پر مجبور نہ کرے کہ تم انصاف کے تقاضے پورے نہ کرو۔ انصاف کے تقاضے تم نے بہرحال پورے کرنے ہیں اور اسی وجہ سے ظلم بڑھ رہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور جو غیر مسلم ہمارے خلاف ہیں وہ بھی اس لئے کہ مسلمانوں کے عملی نمونے اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے نمونے دکھاتے ہوئے اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتاتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کرتے لیکن یہاں تو حساب ہی الٹا ہے اور مسلمان ممالک میں ظلموں کے علاوہ تو کچھ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اسلام کی تائید میں گواہی تو اسلامی تعلیم کی خوبصورتی بیان کر کے ہی دی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم کا کتنا خوبصورت حکم ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ یہ حکم کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں دیا گیا۔ انصاف قائم کرنے کے لئے کوئی امتیاز نہیں ہے۔ انصاف حاصل کرنے کا حق مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو برابر ہے۔ بلکہ دشمنوں کے ساتھ سلوک میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ اس طرف زیادہ توجہ دینی ہے۔ یہ کیسی خوبصورت تعلیم ہے۔ لیکن افسوس کہ اس تعلیم کے باوجود مسلمانوں کے عمل نے غیر مسلم دنیا میں اسلام کو بدنام کر دیا۔ عام مسلمان، حکمران، علماء سب یہ حرکتیں کر رہے ہیں اور ان کی یہ حرکتیں ہم پر یہ ذمہ داری ڈالتی ہیں کہ اپنے عملی نمونوں سے دنیا کو بتائیں کہ اسلام کس قدر انصاف اور عدل کی تعلیم دیتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں امن اور سلامتی کا قیام ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس باریکی سے صحابہ سے اس پر عمل کروایا اس کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر رسانی کے لئے کچھ صحابہ کو مکہ بھجوایا۔ مسلمانوں کے اس وقت جو حالات تھے وہ انتہائی خطرناک تھے۔ ہر وقت دشمنوں کے حملوں اور ان کی طرف سے نقصان پہنچانے کی کوششوں کا خطرہ رہتا تھا۔ ایسے حالات میں جب یہ صحابہ خبر لانے کے لئے گئے تو حرم کی حد میں انہیں کچھ آدمی ملے۔ دشمنوں کے آدمی تھے۔ ان مسلمانوں نے سوچا کہ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا ہے اس لئے اگر ہم نے اب ان کو زندہ چھوڑا تو یہ مکہ والوں کو خبر کر دیں گے اور وہ ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار دیں گے۔ اس سوچ کے ساتھ صحابہ نے حملہ کر کے ان کافروں میں سے ایک یا دو کو مار دیا۔ جب یہ صحابہ واپس مدینہ پہنچے تو پیچھے مکہ والوں کے آدمی بھی آ گئے کہ اس طرح آپ کے لوگ ہمارے دو آدمی مار کر آ گئے ہیں اور انہوں نے حرم کے اندر مارے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر یہ نہیں فرمایا کہ تم لوگ بھی ظلم کرتے رہے ہو۔ اب تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے تو اتنا شور کیوں مچا رہے ہو۔ بلکہ آپ نے جو فوری کارروائی کی اور ان کو جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ تمہارے ساتھ غلط ہوا ہے اور بے انصافی ہوئی ہے۔ ممکن ہے حرم میں ہونے کی وجہ سے کافروں نے پوری طرح دفاع کی کوشش نہ کی ہو۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عربوں کے دستور کے مطابق دونوں مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے گا اور یہ آپ نے ادا کیا اور ساتھ ہی صحابہ کی بھی بڑی سرزنش کی کہ تم نے یہ کیا غلط کام کیا۔ (شرح زرقانی علی مواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 238 تا 241 سریہ امیر المومنین عبد اللہ بن جحش مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

اسی طرح ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک جنگ میں غلطی سے ایک عورت صحابہ کے ہاتھوں قتل ہو گئی۔ آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ صحابہ پر بڑے خفا ہوئے۔ اور روایت میں آتا ہے کہ آپ کے چہرہ پر اس وقت اتنے غصّے کے آثار تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ صحابہ نے کہا بھی کہ عورت غلطی سے ماری گئی ہے۔ لیکن اس کے غلطی سے مارے جانے کے باوجود آپ کو بڑی سخت تکلیف پہنچی کہ انصاف قائم نہیں ہوا۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر باب قتل الصبیان فی الحرب 3014) (الایماء الیٰ زوائد الأمالی والأجزاء جلد دوم صفحہ 543 حدیث 1860 از شاملہ)

پھر عدل کو قائم کرتے ہوئے ایک یہودی اور ایک مسلمان کے معاملے کا کس طرح آپ نے فیصلہ فرمایا۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک یہودی کا ایک صحابی کے ذمہ چار درہم کا قرض تھا جس کی میعاد ختم ہو گئی تھی۔ اس یہودی نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمہ میرا چار درہم قرض ہے اور یہ مجھے ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی کو بلایا جن کا نام عبداللہ تھا اور انہیں کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو۔ حضرت عبداللہ نے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے مَیں نے دینا ہے لیکن اِس وقت طاقت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ انہیں فرمایا کہ اس شخص کا قرض واپس کرو۔ عبداللہ نے پھر وہی عرض کیا اور عرض کی کہ میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ آپ ہمیں خیبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے اور واپس آ کر میں اس کا قرض چکا دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اس کا حق ادا کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات تین دفعہ فرما دیتے تھے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ اسی وقت بازار گئے۔ انہوں نے ایک چادر بطور تَہ بند کے باندھی ہوئی تھی اور سر کا کپڑا بھی تھا۔ سر کا کپڑا اتار کر انہوں نے تہ بند کی جگہ باندھ لیا اور چادر چار درہم میں بیچ کر قرض ادا کر دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 336 حدیث 15570 مسند ابن أبی حدرد الأسلمیؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)۔ تو یہ معیار تھے جو آپ نے قائم فرمائے۔ یہودی کو یہ نہیں فرمایا کہ اس نے جب مہلت مانگی ہے تو وہ مہلت دے۔ بلکہ اپنے صحابی کو یہ کہا کہ فوری اس کا قرض ادا کرو اور اس کے لئے انہیں اپنے تن کے کپڑے بھی اتار کے بیچنے پڑے۔

تو یہ معیار ہیں عدل و انصاف کے اور یہی معیار ہیں جو ہم ہر سطح پر قائم رکھیں گے تو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے حقیقی ماننے والوں میں شمار ہوں گے اور وہ مقصد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا ہے اسے پورا کرنے والے ہوں گے۔ آپ اسلام کی تعلیم پھیلانے اور اس کی خوبیاں دنیا کو دکھانے کے لئے بھیجے گئے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوں۔ اور یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم جہاں حق کے ساتھ دنیا کو ہدایت دیں وہاں حق کے ساتھ اپنی اس تعلیم کے ساتھ انصاف کو بھی قائم کریں۔ پس سورۃ اعراف کی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جنہیں ہم نے پیدا کیا ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو حق کے ساتھ لوگوں کو ہدایت دیتے تھے اور اسی کے ذریعہ سے انصاف کرتے تھے۔

ہدایت دینے والے وہی ہمیشہ رہے ہیں جو حق و انصاف کی بات کرتے ہوئے پھر ہدایت دے رہے ہیں اور آج بھی ایسے لوگ کامیاب ہوں گے جو حق کے ساتھ ہدایت دینے والے ہیں اور انصاف قائم کرنے والے ہیں۔ جب انسان خود ہدایت پر قائم نہ ہو تو دوسروں کو کیا ہدایت دے گا۔ جب تک خود انسان انصاف پر قائم نہ ہو تو دوسروں کو کیا انصاف دے سکے گا۔

پس ہم نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد بیعت کو پورا کرنا ہے اور آپ کے مشن کی تکمیل کرنی ہے اور اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ہے اور تبلیغ کا حق ادا کرنا ہے تو پھر اسی اصول کے مطابق تمام اعلیٰ اخلاق کو اپنانا ہو گا جو اسلام کی تعلیم ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں، جن کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ کرو۔ اگر ہماری گواہیاں حق اور انصاف کے مطابق نہیں ہیں، اگر ہمارے گھریلو اور معاشرتی تعلقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق نہیں ہیں، اگر ہمارے دل دشمنوں کے لئے بھی بغض اور کینوں سے پاک نہیں ہیں تو پھر ہماری تبلیغ حقیقی ہدایت پہنچانے والی تبلیغ نہیں ہو گی۔ ہماری حالتوں اور ہمارے انصاف کے معیاروں کو دیکھ کر غیر ہمیں کہیں گے کہ پہلے خود تو ہدایت پر عمل کرو۔ پہلے خود تو انصاف کو اپنے معاشرے میں لاگو کرو پھر ہمیں کہنا۔ پس بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہر احمدی کی ہے کہ اپنے عمل سے تبلیغ کے راستے کھولیں اور جو تبلیغ کے راستے ہمارے عمل سے کھلیں گے، جو لوگ اسلام سے ہمارے عمل کو دیکھتے ہوئے متعارف ہوں گے وہ اسلام کی خوبیوں کے معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے حق کو پورا کرنے والے ہوں اور آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں ہم دوسرں کے لئے ہدایت اور انصاف کا نمونہ بننے والے ہوں۔

نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم حسن محمد خان عارف صاحب کا ہے جو مکرم فضل محمد خان صاحب شملوی کے صاحبزادے تھے۔ حسن محمد خان عارف صاحب سابق نائب وکیل التبشیر ربوہ تھے اور احمدیہ گزٹ کینیڈا کے مدیر بھی تھے۔ 3؍نومبر کو ستانوے سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ حسن محمد خان عارف صاحب 26؍جنوری 1920ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فضل محمد خان صاحب شملوی نے 1915ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت پائی تھی۔ حسن محمد خان صاحب کے والد پینتیس سال تک سرکاری محکموں میں کام کرتے رہے اور ڈپٹی اسسٹنٹ فنانشل ایڈوائزرکے طور پر ریٹائر ہوئے۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ اس زمانے میں بھی دو انگریز ان کے ذریعہ سے مسلمان ہوئے اور اس کے علاوہ بھی درجنوں افراد کو ان کے ذریعہ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ انہوں نے بی اے کیا پھر بڑا لمبا عرصہ نوکری کرتے رہے۔ پہلے سرکاری نوکری کر رہے تھے۔ پھر حضرت مصلح موعود کے کہنے پہ بی اے کیا۔ پھر بعد میں ربوہ میں آ کے ایم اے بھی کیا۔

1943ء میں حضرت مصلح موعود جب دہلی تشریف لے گئے تو اس وقت حسن محمد خان عارف صاحب نے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اس وقت آپ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایک محکمہ میں ملازمت کر رہے تھے۔ حسن محمد خان عارف صاحب نے جب یہ بات اپنے والد صاحب کو بتائی تو وہ بڑے خوش بھی ہوئے اور ساتھ انہوں نے یہ بھی نصیحت کی کہ وقف کرنے جا رہے ہو تو یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں بڑا آرام ملے گا۔ اگر حقیقی رنگ میں وقف کرنا ہے تو یاد رکھو کہ یہ کانٹوں کی سیج ہے اور یہاں شہزادگی والی زندگی تمہیں نہیں ملے گی اور عام آدمی کی طرح تمہیں رہنا ہو گا اور جو تمہاری موجودہ آمدنی ہے اس کی نسبت بہت کم تمہیں مشاہرہ ملے گا اور اس پہ تم نے گزارہ کرنا ہے۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ مَیں وقف کروں گا اور والدصاحب کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ پہلے اپنا بی اے مکمل کرو پھر وقف پہ آنا۔ چنانچہ 1945ء میں انہوں نے بی اے کیا۔ پھر حضرت مصلح موعود کو اطلاع دی اور آپ نے فرمایا کہ رپورٹ کرو۔ اس کے مطابق آپ گورنمنٹ کی سروس سے استعفیٰ دے کر مرکز میں پہنچ گئے اور وہاں آپ کو نائب وکیل التجارت مقرر کیا گیا۔ اور پھر ہندوستان کی تقسیم کے وقت حسن محمد خان عارف صاحب نے درویش کے طور پر مستقل قادیان رہنے کی درخواست کی۔ حضرت مصلح موعودنے اس کو قبول فرمایا لیکن بہرحال مرکز کی ضرورت کے تحت کچھ عرصہ بعد ان کو پاکستان میں بلوا لیا گیا۔ وہاں نائب وکیل التجارت کے طور پر ذمہ داری دی گئی۔ پھر فرقان فورس کے دفتر انچارج بھی رہے۔ 1951ء میں دفتر وکالت تبشیر میں تقرر ہوا پھر 1953ء کے فسادات پنجاب کے دوران دفاتر تحریک جدید پر پولیس نے چھاپا مارا۔ اس دوران حسن محمد خان عارف صاحب کو بھی گرفتار کیا گیا کیونکہ آپ کے پاس دنیا سے رپورٹیں آتی تھیں اور مبلغین کو ہر ماہ خطوط لکھتے تھے۔ بہرحال مارشل لاء لگنے کے بعد ان کی رہائی ہوئی۔ یوں آپ کو اللہ تعالیٰ نے اسیر راہ مولیٰ رہنے کی بھی توفیق دی۔ آپ دفتر کمیٹی آبادی کے انچارج رہے۔ پھر دوبارہ وکالت تبشیر میں چلے گئے۔ نائب وکیل التبشیر رہے۔ تیس سال تک آپ کو نائب وکیل التبشیر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مختلف دفاتر میں بھی عارضی طور پر کام کرتے رہے۔ وکیل الدیوان رہے۔ وکیل التعلیم رہے۔ وکیل الزراعت رہے۔ وکیل المال رہے۔ افسر امانت رہے۔ 1981ء میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لی۔ اس کے بعد یہ کینیڈا ہجرت کر گئے اور کینیڈا جا کر احمدیہ گزٹ کے ایڈیٹر کے طور پر خدمت شروع کر دی اور 2006ء تک، چھبیس سال تک آپ کو یہ خدمت کی توفیق ملی۔ شروع کے موصیان میں سے تھے۔ وصیت نمبر آپ کا 5745 تھا۔ اور تحریک جدید کے صف اوّل کے مجاہدین میں شامل تھے اور اُس وقت ان کا نمبر 151 تھا۔

1978ء میں انہوں نے اردو زبان میں ایک کتاب’مقدس کفن‘ تصنیف کی۔ انگریزی میں اس تصنیف کا آغاز کیا تھا۔ ان کی انگلش بھی اچھی تھی۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ اردو زبان میں یہ کتاب تحریر کریں کیونکہ اردو زبان میں حضرت مسیح ناصری کے کفن کے متعلق یہ پہلی کتاب ہو گی۔ اس کے علاوہ بچوں کی کتابیں بھی بعض آپ نے تصنیف کیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں اور سیدنا بلال وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی شادی 1944ء میں محترمہ سیدہ اختر فیضی صاحبہ سے ہوئی۔ یہ فضل الرحمن صاحب فیضی کی بیٹی تھیں۔ ان سے ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو امریکہ اور کینیڈا میں ہی ہیں۔ ان کی بہو لکھتی ہیں جو فرید احمد عارف کی بیوی ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ بڑے تہجد گزار اور باقاعدہ گریہ و زاری کے ساتھ نماز ادا کرنے والے تھے۔ خلافت کے ساتھ بے پناہ عشق اور اطاعت کا تعلق تھا۔ اور کہتی ہیں ان کی وفات کے بعد ہمیں علم ہوا کہ پاکستان میں کئی بیوائیں اور یتیم بچے ایسے تھے جن کی مستقل مالی امداد آپ کیا کرتے تھے۔

امیر صاحب کینیڈا لکھتے ہیں کہ جس علاقے میں یہ رہتے ہیں وہاں بہت سے سکھ آباد ہیں اور سکھوں سے دوستی کی وجہ سے سکّھوں نے وہاں جو اپنی ایک سکھ کلچر ایسوسی ایشن بنائی ہوئی ہے اس کا صدر ان کو بنا دیا اور بڑا مجبور کر کے بنایا کہ آپ ہمارے صدر بنیں۔ گاڑی نہیں چلا سکتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ جمعہ پڑھنے کے لئے بریمپٹن سے آتے تھے اور راستے میں دو تین بسیں بدلتے تھے۔ نائب امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کینیڈا تشریف لانے کے بعد یہاں کے احمدیہ گزٹ کا معیار اس قدر بلند کیا جو اُن کے لئے قابل فخر تھا۔ خلافت پر کامل یقین اور تمام خلفاء سے انتہائی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔

مَیں بھی ان کو بچپن سے جانتا ہوں لیکن خلافت کے بعد ان میں بالکل ایک ایسی تبدیلی تھی جو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ شروع شروع میں جب کمپیوٹر وغیرہ نہیں تھے تو احمدیہ گزٹ کا اردو حصہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے اور انگریزی حصہ ٹائپ کیا کرتے تھے۔ پھر خطبات کا انگریزی ترجمہ کرتے اور بار بار پڑھتے۔ جب تک اطمینان نہ ہو جاتا اس وقت تک گزٹ میں شامل نہ کرتے۔ حافظہ بھی بڑا اچھا تھا۔ اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ تھا۔ کوئی نہ کوئی کتاب اور رسالہ ہر وقت زیر مطالعہ رہتا تھا۔ اخبار بڑے شوق سے پڑھنے والے۔ اکثر صحابہ کے ایمان افروز واقعات سنایا کرتے تھے۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں احمدیہ گزٹ کا شاید ہی ایسا پرچہ ہو جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرقاۃ الیقین سے کوئی نہ کوئی ایمان افروز واقعہ اردو اور انگریزی دونوں میں شائع نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی اور ان کی نسلوں کو بھی خلافت اور احمدیت سے پختہ تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • پاؤر پوائنٹ PowerPoint
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ نومبر 2017ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ نے جس طرح اور جس معیار کے عدل و انصاف کے قائم کرنے کی مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کسی اور مذہبی کتاب میں یہ معیار موجودنہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِس وقت ہر سطح پر مسلمانوں میں ہی ایک ایسا بڑا طبقہ ہے، لیڈروں میں بھی اور علماء میں بھی، جو انصاف اور عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اسی طرح گھروں میں عوام الناس میں عامّۃ المسلمین میں عام معاملات میں انصاف اور عدل کے وہ معیار عموماً دیکھنے میں نہیں آتے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمائے ہیں جس کی ایک مومن سے توقع کی جاتی ہے۔ گھریلو ناچاقیوں کے معاملات ہیں تو اس کے لئے مردوں کی طرف سے، عورتوں کی طرف سے بھی، بسا اوقات غلط واقعات کے ساتھ عدالتوں میں مقدمات پیش کئے جاتے ہیں۔ غلط گواہیاں پیش کی جاتی ہیں۔ ناجائز حقوق لینے کے لئے یا کسی کا حق مارنے کے لئے جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ غرض کہ بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنا حق لینے یا یہ سمجھتے ہوئے کہ میرا حق ہے اور دوسرے کا حق مارنے کے لئے سچائی سے کام نہیں لیتی۔

    آجکل معاشرے کے بہت سے مسائل اس لئے ہیں کہ عدل اور انصاف کے معیار اس پائے کے نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ اپنی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا عام بات ہے۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ بعض اوقات ہم میں سے بھی بعض لوگ دنیاداری اور ماحول کے زیر اثر باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے ایسی باتیں کر جاتے ہیں اور ایسی گواہی دیتے ہیں جو حقائق سے دور ہوتی ہے۔

    بعض جگہ مذہبی اختلاف ہوتے ہیں اور اس وجہ سے دوسرے مذاہب والے زیادتی بھی کر جاتے ہیں تو ایسے حالات میں ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ قوموں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زیادتی کا بدلہ اسی طرح لیں اور انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں۔ آجکل مسلمانوں کی بے انصافیوں کے بارے میں مغرب میں بہت کچھ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتے وہ غیروں سے کیا انصاف کریں گے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے اور مسلمان ہی اپنی حرکتوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ ہم نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد بیعت کو پورا کرنا ہے اور آپ کے مشن کی تکمیل کرنی ہے اور اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ہے اور تبلیغ کا حق ادا کرنا ہے تو پھر اسی اصول کے مطابق تمام اعلیٰ اخلاق کو اپنانا ہو گا جو اسلام کی تعلیم ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں، جن کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ کرو۔ اگر ہماری گواہیاں حق اور انصاف کے مطابق نہیں ہیں، اگر ہمارے گھریلو اور معاشرتی تعلقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق نہیں ہیں، اگر ہمارے دل دشمنوں کے لئے بھی بغض اور کینوں سے پاک نہیں ہیں تو پھر ہماری تبلیغ حقیقی ہدایت پہنچانے والی تبلیغ نہیں ہو گی۔

    اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے حق کو پورا کرنے والے ہوں اور آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں ہم دوسرں کے لئے ہدایت اور انصاف کا نمونہ بننے والے ہوں۔

    مکرم حسن محمد خان عارف صاحب سابق نائب وکیل التبشیرربوہ کی کینیڈا میں وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 10؍نومبر 2017ء بمطابق 10؍نبوت 1396 ہجری شمسی، بمقام مسجدبیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور