“علومِ ظاہری و باطنی سے پُر”: حضرت مصلح موعودؓ

خطبہ جمعہ 19؍ فروری 2021ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

20؍فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس تعلق میں آج میں کچھ کہوں گا۔ کل 20؍ فروری ہے۔ یہ ایک لمبی پیشگوئی ہے۔ مختلف خصوصیات اس میں بیان ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے موعود بیٹے سے متعلق ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بتائیں۔ آج میں اس میں سے ایک پہلو کہ وہ ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی تحریرات، تقاریر وغیرہ کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ اس میں کچھ حد تک اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا‘‘ اس کا بھی اظہار ہو جاتا ہے۔ (ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 647)

ظاہری و باطنی علوم جو خدا تعالیٰ نے آپ کو باوجود دنیاوی تعلیم کی کمی کے عطا کیے کیونکہ آپ کی تعلیم بنیادی طور پر صرف پرائمری کی تعلیم ہی تھی اور جن کو آپؓ نے مختلف موقعوں پر بیان فرمایا وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ بلکہ ان کا تعارف بھی ایک خطبہ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ تعارف بھی ایک سلسلہ خطبات کا متقاضی ہے۔ پس یہ تو ممکن نہیں کہ میں سب کچھ بیان کروں لیکن میں نے سوچا کہ تعارف کی خاطر اور ایک جھلک دکھانے کے لیے آپؓ کے جو بعض مضامین، تقاریر ہیں ان کا ایک جائزہ، مختصر تعارف پیش کروں۔ یا ان مضامین کے بعض نکات خلاصۃً پیش کروں تا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم و معرفت اور تبحر کی ہلکی سی جھلک سامنے آ جائے۔

یہ مضامین، تقاریر، تحریرات اللہ تعالیٰ کی توحید، ملائکہ کی حقیقت، نبیوں کے مقام و مرتبہ، حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اور دوسرے روحانی امور اور اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی رہنمائی، اسلام کا اقتصادی اور مالی نظام، اسلام کی تاریخ۔ اس وقت کے، آپ کے زمانے کے بعض مسائل جو اس عصر کے، وقت کے، دَور کے تھے جن میں سے بعض آج بھی اسی طرح قائم ہیں اور آپؓ کے خیالات کو پڑھ کر، اس وقت کے خیالات کو پڑھ کران کا حل بھی آج سامنے آجاتا ہے اور بے شمار عنوان ہیں جن پر آپؓ کے یہ سب خطابات اور تحریرات مشتمل ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا ان سب کا صرف تعارف بھی ممکن نہیں۔ اس لیے بعض کا تعارف بیان کروں گا اور یہ بھی میں نے اس وقت کے لیے ہیں جب آپؓ نے جوانی میں قدم رکھا تھا۔ سولہ سترہ سال کی عمر کا نوجوان جس کی دنیاوی تعلیم یا دینی تعلیم بھی باقاعدہ کوئی نہیں تھی وہ ایسے ایسے نکات بیان کرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ توحید کے موضوع پر سترہ سال کی عمر میں آپؓ نے جلسہ میں ایک ایسی تقریر کی جس کی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ بالکل نئے نکات نکالے ہیں۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 40)

بہرحال آپؓ کی سولہ سترہ سال یا اٹھارہ سال کی عمر سے لے کر چونتیس پینتیس سال کی عمر تک جو کہ ابتدائی جوانی اور جوانی کی عمر ہے آپؓ کے علم و معرفت کے خزانوں کی ایک جھلک پیش کرتا ہوں۔ اس عرصہ میں جو کچھ آپ نے فرمایا میں اس کا پچاسواں حصہ بھی تعارف میں پیش نہیں کروں گا، نہیں کر سکوں گا بلکہ شاید اس سے بھی کم۔ اس کے بعد بھی آپ نے لمبی عمر پائی اور علم و عرفان کے موتی اللہ تعالیٰ سے علم پا کر بکھیرتے چلے گئے۔

مارچ 1907ء میں جبکہ آپؓ کی عمر صرف 18 سال تھی حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عظیم الشان مضمون بعنوان ’’محبت الٰہی‘‘ تحریر فرمایا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔ اس مضمون سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ہی، چھوٹی عمر میں ہی علوم ظاہری و باطنی سے آپؓ کو پُر کرنا شروع کیا۔ آپؓ نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے آدمی کو پیدا ہی محبت کے لیے کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے کا مقصد اور غرض ہی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو اور اس دائمی زندگی بخشنے والے سمندر میں ہمیشہ غوطہ زن رہے۔ دائمی زندگی کون سی ہے؟ اگلے جہان کی۔ محبت ہی کے نتیجہ میں انسان گناہوں سے بچتا ہے اور درجات میں ترقی کرتا ہے اور محبت ہی خداشناسی کا موجب بنتی ہے۔ بدوں محبت انسان کو خدا تعالیٰ کی حقیقت اور حقیقی معرفت نصیب ہو ہی نہیں سکتی۔ آپؓ نے فرمایا: پس ضروری ہوا کہ گناہوں سے بچنے کے لیے اور ترقی درجات کے لیے ہم اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے بڑھائیں اور اپنے دل میں وہ اخلاص اور محبت پیدا کریں جس سے کہ ہم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور ہم ایک سورج کی طرح ہوں جس سے دنیا روشنی پکڑتی ہو۔ اس کے بعد آپؓ نے مختلف مذاہب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تو ایک ہی ہے لیکن اس کے بارے میں ہر مذہب کے تصورات جدا ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں، آریوں کا خدا کے بارے میں عقیدہ بیان فرمایا اور ثابت کیا کہ ایسی تعلیم اور صفات والا خدا انسان کی عبادت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ آپ نے اسلامی تعلیم پیش کرتے ہوئے ثابت کیا کہ اسلام کا خدا ہی ہر قسم کی خوبیوں اور حسن کا جامع ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ انسان فقط اسی سے محبت کرے اور اسی کی عبادت کرے۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ تو واضح ہے کہ خدا تو سب کا ایک ہی ہے لیکن جو خدا کا نظریہ دوسرے مذاہب پیش کرتے ہیں اس کے مقابلے میں اسلام خدا کا جو نظریہ پیش کرتا ہے وہی حقیقی نظریہ ہے اور اسی سے خدا تعالیٰ کی محبت بھی دلوں میں پیدا ہو سکتی ہے۔ آپ نے خدا تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ کر کے ثابت کیا کہ کسی دوسرے مذہب میں خدا تعالیٰ کی اس قدر صفات بیان نہیں کی گئیں اور نہ اسلام کی بیان کردہ صفات میں کوئی دوسرا مذہب خوبیوں اور کمالات کے لحاظ سے شریک ہے۔ آخر پر آپ نے اسلام کے زندہ خدا کا یہ ثبوت پیش کیا کہ فقط اسلام کا خدا ہی وحی و الہام سے انسان کی آج بھی رہنمائی کرتا ہے جس طرح کہ وہ پہلے کرتا تھا اور یہی زندہ خدا کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ پھر آپ نے آخر میں یہ تحریر فرمایا کہ اب میں اپنے مضمون کے خاتمہ پر پہنچ گیا ہوں کیونکہ میں نے ثابت کیا ہے کہ غیر مذاہب کے خدا اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔ ان کی تعلیم ناقص ہے۔ انسان ان پر عمل درآمد کرنہیں کر سکتا۔ بہرحال پھر آپؓ نے لکھا کہ اسلام کی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے اور خدا قادر مطلق ہے اور کل عیوب سے پاک ہے اور سب سے بڑی خصوصیت اسلام نے یہ بتائی ہے کہ اس میں محبت کرنے والے کو بالکل صاف جواب نہیں ملتا بلکہ خدا تعالیٰ اس کے امتحان کے بعد اس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صاف جواب نہیں دیتا بلکہ خدا تعالیٰ کے اس امتحان کے بعد ایک امتحان میں سے گزرنا پڑتا ہے پھر اس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس محبت کی گرمی کو جو کہ محبت کرنے والے کے دل میں ہر ایک چیز کو جلا رہی ہوتی ہے اپنی تسکین دہ کلام سے ٹھنڈا کرتا ہے اور اس سوزش اور جلن کو دور کرتا ہے جو کہ جواب کے نہ ملنے سے بپا ہوتی ہے اور اس طرح محبت اَور بھی چمک اٹھتی ہے اور اس کے دل میں ایک جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں خدا کے اَور بھی قریب ہو جاؤں اور اس طرح بڑھتے بڑھتے وہ یہاں تک نزدیک ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی نسبت فرماتا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ۔ یعنی تومجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا نام دنیا میں تیرے سبب سے ظاہر ہے اور تیری عزت میرے سبب سے ہے اور درحقیقت خدا تعالیٰ کے نام کا جلال دنیا پر ظاہر کرنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ اس کی محبت کے دریا میں غرق ہوتے ہیں اور ان کی عزت صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ میں محبت الٰہی کے لفظ پر جس قدر سوچتا ہوں اسی قدر ایک خاص لذت اور وجد دل میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیارا ہے مذہب اسلام جس نے ہم کو ایسی نعمت کی طرف ہدایت کی ہے جس سے ہمارے دل روشن اور ہمارے دماغ منور ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم ہمارے زخمی دلوں کے لیے ایک مرہم کا کام دیتی ہے اور اگر اسلام نہ ہوتا تو بخدا طالب حق تو زندہ ہی مر جاتے اور وہ جن کے دلوں میں محبت کا ذوق ہے ان کی کمر ٹوٹ جاتی اور محبت ایک ناممکن وجہ سمجھی جاتی اور اس کو وہم سے موسوم کیا جاتا کیونکہ جب لوگ دیکھتے کہ کوئی ایسی ہستی نہیں جس سے کہ ہم محبت کر سکیں تو وہ محبت کے وجود میں شک لانے کے سوا اور کیا کر سکتے۔ خدا نے اسلام سا مذہب انسان کو عطا کر کے غمگین دلوں کو تسکین دی ہے اور زخمی سینوں کو مرہم عنایت کی ہے۔ جب ایک خدا سے محبت کرنے والا انسان دیکھتا ہے کہ وہ جس سے مَیں محبت کرتا ہوں ایک ذرّے ذرّے کو دیکھتا ہے اور دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔ وہ سنتا ہے اور بولتا ہے اور پھر یہ کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے سے محبت کرنے والے کو بدلہ دے تو اس وقت وہ اپنے دل میں اس محبت کی وجہ سے خوشی حاصل کرتا ہے اور خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ یعنی انسان خوشی حاصل کرتا ہے اور خاص لذت محسوس کرتا ہے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد 1 صفحہ 2 تا 4)

حضرت مصلح موعودؓ نے 28؍ دسمبر 1908ء کے جلسہ میں اس موضوع پر ایک بڑا پُرمغز خطاب فرمایا کہ ’’ہم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں‘‘۔ یہ خیالات ایک انیس سالہ نوجوان کے ہیں۔ حضور نے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ… وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ یہاں تک یہ آیت ہے۔ سورہ توبہ کی 111-112آیت۔ دونوں آیات وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ تک تلاوت کیں اور اس کے بعد فرمایا: ہر ایک شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ خدا نے مجھے کیوں پیدا کیا ہے اور جبکہ مرنا ہے۔ مرنا ہر ایک انسان کے لیے ضروری ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟جب اس چند روزہ زندگی کے لیے انسان اس قدر کوشش کرتا ہے اور تدبیریں کام میں لاتا ہے تو کیا اس لامحدود زندگی کے لیے کوئی ضرورت نہیں؟ یعنی اگلے جہان کی زندگی جو لامحدود ہے اس کے لیے کوئی ضرورت نہیں اور کیا ہمیں اس کے لیے کچھ بھی تیاری نہیں کرنی چاہیے۔ بڑا اہم سوال ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں آپؓ وضاحت کرتے ہیں کہ انسان ایک ذرہ سا سودا کرنے لگے تو بڑی احتیاط کرتا ہے اور ہمیشہ وہی خریدتا ہے جو مفید اور نفع رساں ہو۔

پس کیسا افسوس ہے اس پر جو ایسی تجارت نہ کرے جس میں لاکھوں کا نہیں کروڑوں کا نہیں بلکہ غیرمحدودنفع ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں آپؓ فرماتے ہیں کہ پس انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے وہ مال جمع کرے جو اس کے کام آئے نہ وہ کہ اس کے بعد اس کے ورثاء برباد کر دیں۔ لیکن یہ دنیاوی مال تو ورثاء برباد بھی کر سکتے ہیں لیکن اگر یہ اس قرآن کی بتائی ہوئی تجارت کرتا ہے تو اس سے وہ نفع اٹھائے گا۔ اس کے بعد کوئی اسے بربادنہیں کر سکے گا بلکہ مرنے کے بعد اسی کے کام آئے گا۔ آپؓ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ ایسے تاجروں کا خود خزانچی بن جاتا ہے۔ پس جس کا خزانچی خدا خود ہو اس کو اَور کسی کی کیا ضرورت ہے؟ جو اس طرح خدا کے ساتھ تجارت کریں اور اس کی فوجوں میں داخل ہو جائیں ان میں دلیری بھی چاہیے اور چاہیے کہ وہ اپنی جانیں لفظاً نہیں بلکہ عملاً خدا کے سپرد کر دیں۔ حضورؓ نے ایسی تجارت کرنے والوں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیوں اور فتوحات کا ذکر فرمایا کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے انہیں دشمن پر فتح عطا فرمائی اور غلبہ سے نوازا۔ اس تجارت یابیع کے لیے بعض شرائط بھی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ انسان ہر وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے اور اس طرح معافی مانگنے سے اپنے دل کے زنگ کو دور کرتا ہے۔ نمبر دو یہ کہ خدا تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے عبادت کی طرف توجہ کرے۔ نمبر تین یہ کہ حمد و شکر اور خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنے کا التزام رکھے۔ نمبر چار یہ کہ امر بالمعروف کرے۔ نمبر پانچ یہ کہ حدود الٰہیہ کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کی حفاظت کرے۔ اِن امور پر عمل کرنے والا مخلص مومن کامیاب و کامگار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں پاتا ہے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد 1 صفحہ 6-7)

پھر خلافت کے بعد دوسرے سال 1916ء کے جلسہ میں آپؓ نے ’’ذکر الٰہی‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا جس میں آپؓ نے نہایت اچھوتے اور دلنشیں انداز میں ذکر الٰہی اور اس سے متعلقہ امور کا ذکر کرتے ہوئے ’’ذکر الٰہی سے مراد کیا ہے؟ اس کی ضرورت اس کی قسمیں اور فوائد‘‘ پر روشنی ڈالی۔ آپؓ نے اسی مضمون میں موجودہ دور کے صوفیاء وغیرہ کے ذکر کی کیفیت بھی بیان فرمائی کہ اُن کا اندازِ ذکر اُن کو رسموں میں مبتلا اور خدا کے قرب سے دور کر رہا ہے۔ آپؓ نے وضاحت فرمائی کہ ذکر چار قسم کا ہوتا ہے۔ پہلا ذکر نماز ہے۔ دوسرا قرآن کریم کا پڑھنا ہے۔ تیسرا اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان کرنا ہے اور ان کی تکرار اور اقرار کرنا اور ان کی تفصیل اپنی زبان سے بیان کرنا۔ چوتھا خدا تعالیٰ کی صفات کو علیحدگی اور تنہائی میں بیان کرنا، غور کرنا اور لوگوں میں بھی اس کا اظہار کرنا۔ اسی تسلسل میں آپؓ نے ذکر الٰہی کو مقبول بنانے کے لیے ذرائع اور ذکر الٰہی کے خاص اوقات بھی بیان فرمائے کہ کیا کیا اوقات ہیں۔ کیا ذریعے ہیں۔ اسی خطاب میں آپؓ نے مقام محمود تک پہنچانے والے ذکر یعنی نماز تہجد میں باقاعدگی کی تاکید بھی فرمائی اور اس کے التزام و اہتمام کے ایک درجن سے زائد طریقے بتلائے کہ کس طرح ہم باقاعدگی سے پڑھ سکتے ہیں اور اسی طرح نماز میں توجہ کو قائم رکھنے کے لیے آپؓ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بائیس طریق بیان فرمائے اس جگہ اور آخر میں حضورؓ نے ذکر الٰہی کے بارہ عظیم الشان فوائد بھی بیان فرمائے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد 3صفحہ 15-16)

اس تقریر کے دوران ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہوئی کہ دورانِ تقریر ایک غیر احمدی صوفی صاحب جو جلسہ میں آئے ہوئے تھے، وہاں بیٹھے ہوئے سن رہے تھے انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کو رقعہ بھیجا کہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں۔ جو نکات آپ بیان کر رہے ہیں اس قسم کا تو ایک نکتہ جو ہے صوفیائے کرام دس دس سال خدمت لے کر بتایا کرتے تھے کہ جو انسان دس سال اُن کی خدمت کرتا تھا، ان کے ساتھ رہتا تھا تو پھر ایک نکتہ بتاتے تھے۔ آپؓ نے ایک وقت میں ہی سارے نکتے بیان کر دیے۔ آپؓ نے ایک مجلس میں سارے رازوں سے پردہ اٹھا دیا۔ یہ کیا غضب کر دیا آپ نے؟  (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 195)

’’ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے۔‘‘ پٹیالہ میں آپؓ نے یہ خطاب فرمایا جس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ 9؍ اکتوبر 1917ء کو پٹیالہ میں یہ تقریر آپؓ نے فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی ہستی، اسلام اور قرآن کریم کی صداقت اور حضرت مسیح موعود کی سچائی کو صفت ربوبیت کے حوالے سے ثابت کیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ہستی کا ثبوت ہیں۔ صفات الٰہیہ پر غور کرنے اور ان زبردست قدرتوں کا مشاہدہ کرنے سے جن کا ظہور ہمیشہ ہوتا رہتا ہے ماننا پڑتا ہے کہ ضرور ایک زبردست عالم، دانا اور رحیم و کریم ہستی موجود ہے۔ حضور نے فرمایا کہ سورت فاتحہ جو امّ القرآن ہے اس میں ان چار صفات کو بیان کیا گیا ہے جو تمام صفات کا خلاصہ ہیں اور جن پر غور کرنے سے انسان ہرقسم کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں سے بچ سکتا ہے۔ مثلاً پہلی صفت رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا تعلق تمام مخلوقات سے ہے۔ ہر چیز اس کی ربوبیت سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ تو خدا تعالیٰ کا رب العالمین ہونا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جس خدا نے جسم کی ربوبیت اور ترقی کے لیے اعلیٰ درجہ کے سامان کیے ہیں اس نے روح کی زندگی کے لیے بھی ضرور سامان کیے ہوں گے جو جسم کی نسبت زیادہ قیمتی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ۔ (فاطر: 25) ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے نبی آئے ہیں جو انسانوں کی تربیت اور روحانی ربوبیت اور ترقی کا سامان کرتے رہے۔

آخر پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جنہیں دنیا کی تمام اقوام اور زمانوں کی اصلاح کے لیے بھیجا۔ چونکہ آپؐ کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کر دی گئی ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب میرے بعد خدا سے ہمکلامی کا شرف حاصل کر کے ایسے خدا کے بندے آتے رہیں گے جو لوگوں کو اس شریعت کے مطالب سے آگاہ کر کے انہیں خدا سے ملاتے رہیں گے۔ چنانچہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے صفت ربوبیت کے تحت حضرت مرزا صاحب کو بھیجا جنہوں نے خدا سے ہمکلام ہونے اور اصلاحِ خلق کرنے کا دعویٰ فرمایا اور خدا کی فعلی تائید آپ کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں ظاہر ہوئی اور زندہ نشانات نے آپؑ کے دعویٰ کی صداقت کو ثابت کر دیا۔ آخر میں حضورؓ نے فرمایا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو زندہ خدا کو پیش کرتا ہے اور اس میں زندگی کا ثبوت مل رہا ہے۔ نیز یہ بھی کہ خدا جس طرح پہلے اپنے بندوں کی روحانی ربوبیت کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر ہم آج بھی انہی انعامات اور فوائد کو حاصل کر سکتے ہیں جو آج سے ہزاروں سال پیشتر حاصل ہوئے تھے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد4 صفحہ 4-5)

پھر آپؓ کا ایک لیکچر اسلام میں اختلافات کے آغاز پر ہے جو 1919ء میں آپؓ نے مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی (Martin Historical Society)کے ایک اجلاس میں اسلامیہ کالج لاہور میں فرمایا۔ تقریباً سو صفحہ کا یہ کُل مکمل لیکچر ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ 26؍فروری 1919ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے ایک غیر معمولی اجلاس میں آپؓ نے یہ پیش فرمایا۔ سید عبدالقادر صاحب پروفیسر تاریخ کی صدارت میں یہ منعقد ہوا۔ اس وقت یہ عبدالقادر صاحب تاریخ کے بڑے پروفیسر تھے۔ احمدی نہیں تھے۔ ان کی صدارت میں یہ ہوا۔ اس مضمون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا کہ اسلام میں تفرقہ کی بنیاد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پندرہ سال بعد پڑی ہے اور اس وقت کے بعد مسلمانوں میں شقاق کا شگاف وسیع ہی ہوتا چلا گیا ہے اور اسی زمانہ کی تاریخ نہایت تاریک پردوں میں چھپی ہوئی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے نزدیک اسلام پر ایک بدنما دھبہ ہے اور اس کے دوستوں کے لیے بھی ایک سر چکرا دینے والا سوال ہے اور بہت کم ہیں جنہوں نے اس زمانے کی تاریخ کی دلدل سے صحیح و سلامت پار نکلنا چاہا ہو اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو سکے ہوں اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ آج آپ لوگوں کے سامنے اسی کے متعلق کچھ بیان کروں۔ چنانچہ حضور نے جو تقریر فرمائی اس میں گراں قدر نصائح تھیں، تحقیق تھی۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ خیال کہ اسلام میں فتنوں کے موجب بعض بڑے بڑے صحابہ ہی تھے بالکل غلط ہے۔ حضورؓ نے اپنے اس مقالہ میں حضرت عثمانؓ کے ابتدائی حالات، حضرت عثمانؓ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں مرتبہ جو تھا وہ کیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کا مرتبہ۔ فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا۔ صحابہ کی نسبت بدگمانی بلا وجہ ہے اس پر بحث کرتے ہوئے فتنہ کی وجوہ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اس کے شروع ہونے والے اسباب و عوامل بیان فرمائے۔ فتنہ کے بانی مبانی عبداللہ بن سبا کے حالات اور اس زمانے میں کوفہ، بصرہ، شام اور وہاں کے مسلمانوں کے عمومی مزاج پر روشنی ڈالی۔ حضرت عثمانؓ پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ایسے امراء مقرر کر دیے تھے جو اس فتنے کا باعث بن رہے تھے۔ حضورؓ اس کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غرض جو لوگ تحقیق کے لیے بھیجے گئے تھے وہ نہایت عظیم الشان اور بے تعلق لوگ تھے اور ان کی تحقیق پر کسی شخص کو اعتراض کی گنجائش حاصل نہیں۔ فرمایا کہ پس ان تینوں صحابہ کا مع ان دیگر آدمیوں کے جو دوسرے بلاد میں بھیجے گئے تھے متفقہ فیصلہ کر دینا کہ ملک میں بالکل امن و امان ہے۔ ظلم و تعدی کا نام و نشان نہیں۔ حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں، ایک فیصلہ ہے جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب فساد چند شریرالنفس آدمیوں کی شرارت اور عبداللہ بن سبا کی انگیخت کا نتیجہ تھا ورنہ حضرت عثمانؓ اور ان کے نواب یعنی ان کے جو عامل مقرر کیے گئے تھے، گورنر تھے، وہ ہر قسم کے اعتراضات سے پاک تھے۔ حضرت عثمانؓ اپنی طبیعت کے مطابق نرمی اور رحمدلی کی طرف مائل رہے۔ مفسدوں کی شرارت اور فتنہ پردازی پر یہی کہتے رہے کہ میں مسلمانوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا۔ کبار صحابہ اور حضرت معاویہ نے اس سلسلہ میں قیام امن کے لیے بعض تجاویز پیش کیں مگر حضرت عثمانؓ رحمدلی کے طریق پر ہی قائم رہے بلکہ معترضین کے منہ بند کرنے کے لیے ان کے مطالبات بھی جائز حد تک مان لیتے رہے۔ اختلاف روایات اور تاریخی حالات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ایک نہایت ضروری اور لازمی امر بیان کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں کہ اس زمانے کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس زمانے کے بعد کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو اور یہ بات تاریخ کے لیے نہایت مضر ہوتی ہے کیونکہ جب سخت عداوت یا ناواجب محبت کا دخل ہو تو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ سکتی۔ تاریخ کی تصحیح کا یہ زرّیں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں۔ کسی منفرد واقعہ کی صحیح صحت معلوم کرنے کے لیے اسے زنجیر میں پرو کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کڑی ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی بھی جاتی ہے کہ نہیں۔ حضورؓ کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہ ہر ایک فتنہ سے یا عیب سے پاک تھے بلکہ ان کا رویہ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا اور ان کا قدم نیکی کے اعلیٰ مقام پر قائم تھا اور یہ کہ صحابہ کو حضرت عثمانؓ کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ آخر دم تک وفا داری سے کام لیتے رہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ پر خفیہ ریشہ دوانیوں کا الزام بھی بالکل غلط ہے۔ انصار پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمانؓ سے ناراض تھے وہ غلط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار کے سب سردار اس فتنہ کے دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد4صفحہ 11تا 13)

اس پر بعضوں نے، غیروں نے بھی تاثرات دیے۔ ’’اس کی پہلی اشاعت پر سید عبدالقادر صاحب ایم اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور نے تمہید تحریر فرمائی تھی جس میں لکھا تھا کہ فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے۔ مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شُد بُد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمانؓ کے عہد کے اختلافات کی تہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوانِ خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد کی جس قدر اصلی اسلامی تاریخوں کا مطالعہ کیا جائے گا اسی قدر یہ مضمون سبق آموز اور قابل قدر معلوم ہو گا۔‘‘ (نوٹ از ناشر (فضل محمود جاوید قادیان)اسلام میں اختلافات کا آغاز صفحہ2مطبوعہ ستمبر1937ء)

پھر آپؓ کی ایک تقریر ’’تقدیر الٰہی‘‘ پر ہے جو جلسہ سالانہ پر آپؓ نے مسجدنور قادیان میں کی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے۔ یہ 1919ء کے جلسہ سالانہ کے موقع کی بات ہے۔ یہ تقدیر الٰہی کا جو مسئلہ ہے یہ نہایت مشکل اور دقیق مسئلہ ہے اس پرآپؓ نے بڑا عارفانہ خطاب فرمایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے خدا تعالیٰ سے عاجزانہ طور پر کہا کہ اے خدا! اگر اس مضمون کا سنانا مناسب نہیں تو میرے دل میں ڈال دے کہ اسے نہ سناؤں لیکن مجھے یہی تحریک ہوئی کہ سناؤں۔ گو وہ مضمون مشکل ہے اور اس کے سمجھنے کے لیے بہت محنت اور کوشش کی ضرورت ہے لیکن آپ لوگ اسے سمجھ لیں گے تو بہت بڑا فائدہ اٹھائیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس خطاب کے مختلف حوالے بیان کرتے ہوئے اس کے بارے میں یوں فرمایا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا اس موضوع پر ایک ایسے جلسہ عام سے خطاب فرمانا جہاں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ، ذہین اور بلید ہر قسم کے لوگ جمع تھے یقینا ًکوئی معمولی کام نہ تھا۔ آپؓ نے جس عمدگی سے اس مضمون کو ادا کیا بلا شبہ وہ آپ ہی کا حق تھا۔ خلیفہ رابعؒ فرماتے ہیں کہ یہ تقریر کیا تھی! علم کلام کا ایک شاہکار تھا۔ مسئلہ ٔقضاو قدر کی اہمیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بیان کرنے کے بعد آپؓ نے اس موضوع پر اظہار خیال فرمایا کہ مسئلہ تقدیر پر ایمان اور وجودِ باری تعالیٰ پر ایمان لانا لازم و ملزوم ہے۔ اس کے بعد آپؓ نے قضاو قدر کے متنازع فیہ نظریات پر بحث فرما کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات میں تطبیق فرمائی اور اس کے بعد مسئلۂ تقدیر کے نہ سمجھنے کے نتیجہ میں انسان کو جو بڑی بڑی ٹھوکریں لگی ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ پھر وحدت الوجود کے عقیدہ کی غلطیاں ظاہر کرتے ہوئے چھ قرآنی آیات سے نہایت لطیف اور ٹھوس دلائل پیش کر کے اس عقیدے کا ردّ فرمایا۔ بعدازاں اس کی دوسری انتہا کو بھی غلط ثابت فرمایا اور اس خیال کی بدلائل تردید کی کہ خدا گویا کچھ نہیں کر سکتا اور جو کچھ بھی ہے وہ تدبیر ہی ہے۔ علمِ الٰہی اور تقدیرِ الٰہی کو خلط ملط کرنے کے نتیجہ میں انسانی فکر نے جو ٹھوکریں کھائی ہیں اس کا نہایت عمدہ تجزیہ کر کے اس مسئلہ کو خوب نکھارا ہے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: یہ تقریر تقدیر الٰہی کے مسئلہ پر ہر پہلو سے بحث کرتی ہے اور مختلف قدیم و جدید اعتراضات کے جوابات بھی اس میں دیے گئے ہیں۔ تقدیر کے ذکر میں آپؓ نے سات روحانی مقامات کا ذکر بھی فرمایا ہے جو تقدیر الٰہی کے مسئلہ کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس کے تقاضے پورے کرنے کے نتیجہ میں انسان کو مل سکتے ہیں۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد4 صفحہ 20-21)

تو بہرحال یہ پڑھنے والی ہے۔ تقدیر الٰہی کے بارے میں لوگ سوال کرتے رہتے ہیں، ان کو یہ پڑھنی چاہیے۔

پھر مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ایک موقع پر آپؓ نے نصائح فرمائیں۔ ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ کے عنوان سے اِلٰہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ایک کانفرنس ہوئی تھی اس میں جو بیان فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد فاتح اتحادی ممالک نے دولتِ عثمانیہ سے صلح کی جو شرائط طے کیں وہ انتہائی ذلت آمیز تھیں۔ ان کی رو سے سلطنت ترکی کے حصے بخرے کر دیے گئے تھے۔ اس کی بحری و بری و ہوائی افواج نہایت محدود کر دی گئیں اور اس پر بعض اَور کڑی پابندیاں بھی لگا دی گئیں۔ ان حالات میں ترکی کی سلطنت کے ساتھ صلح کی شرائط کے مسئلہ پر غور کرنے اور مسلمانوں کے لیے آئندہ طریق عمل سوچنے اور تجویز کرنے کے لیے یکم اور 2؍جون 1920ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جانا مقرر ہوا۔ جمعیت علمائے ہندوستان کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے 30؍مئی 1920ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ اس کانفرنس میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے دعوت دی۔ چنانچہ حضور نے ’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘ کے عنوان سے ایک دن میں یہ مضمون تحریر فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب، حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ذریعہ بھجوایا۔ حضورؓ نے اپنے اس مضمون میں معاہدہ ترکیہ کی شرائط کے نقائص کی نشاندہی فرما کر اس کے بد اثرات سے بچنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے بعض تجاویز پیش فرمائیں۔ حضور نے نہایت مدلل انداز میں اپنے موقف کو پیش کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا کہ جو تجاویز ہجرت، جہاد عام اور گورنمنٹ سے قطع تعلق کرنے کی پیش کی جا رہی ہیں یہ ناقابل عمل اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ حضورؓ نے اپنی طرف سے یہ تجویز فرمائی کہ مسلمان متفق اللسان ہو کر یعنی ایک زبان ہو کر اتحادی حکومتوں پر یہ واضح کر دیں کہ چونکہ انہوں نے ترکوں سے صلح کی شرائط اپنے تجویز کردہ قواعد کے خلاف رکھی ہیں اور اس معاہدے میں مسیحی تعصب دکھائی دیتا ہے نیز ان شرائط میں سرمایہ داروں (Capitalist)کے مفادات کو مدّنظر رکھا گیا ہے لہذا مسلمان اس فیصلہ کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے تبدیل کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ اس مضمون میں حضورؓ نے مذکورہ تجویز کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے لیے بلا تاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ یعنی مؤتمرعالم اسلامی قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد5 صفحہ 10)

آج جو کہتے ہیں یہ جو بنائی ہے کہ مسلمان اکٹھے ہوں وہ بھی فیصلہ نہیں کر سک رہی۔ لیکن یہ تجویز بھی حضرت مصلح موعودؓ نے دی تھی۔ اس مضمون میں جو حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے آج بھی عمومی طور پر بعض مغربی طاقتوں کا مسلمانوں کی حکومتوں کے ساتھ یہی رویہ اور سلوک نظر آتا ہے۔ اس وقت جب یہ انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولتیں بھی نہیں تھیں یہ غیر معمولی تجزیہ جو آپؓ نے کیا تھا اور پھر جو مشورے دیے تھے وہ آپؓ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید کی نشاندہی کرتا ہے اور دنیا کا علم جو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا کیا اور آپؓ کی ذہانت جو اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا اس کی نشاندہی کرتا ہے۔

پھر آپؓ کی ایک تقریر ’’ملائکۃ اللہ‘‘ پہ ہے جو 28دسمبر1920ء کی ہے۔ دو دن بیت النور میں یہ تقریر ارشاد فرمائی۔ ’’ملائکۃ اللہ کا یہ مضمون اسلام کے بنیادی اصول اور ایمانیات میں داخل ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ مضمون نہایت باریک و دقیق ہے حضور نے اسے نہایت آسان اور بصیرت افروز انداز میں پیش فرمایا ہے۔ حضور نے قرآن کریم کی رو سے ملائکہ کی حقیقت و ضرورت، ان کی اقسام، ان کے فرائض و خدمات کے علاوہ فرشتوں کے وجود پر دلائل اور ان سے متعلق شبہات و اعتراضات کے مفصل و مدلّل جوابات دیے ہیں۔ مضمون کے آخر پر حضور نے فرشتوں سے تعلق پیدا کرنے اور ان سے فیض حاصل کرنے کے آٹھ ذرائع بیان فرمائے ہیں۔‘‘ (تعارف کتب انوار العلوم جلد5 صفحہ15)

یعنی نمبر ایک جس انسان پر جبرئیل نازل ہو اس کے پاس بیٹھنے سے۔ نیک لوگوں اور انبیاء کے ساتھ صحبت صالحین سے، انبیاء کی صحبت سے۔ نمبر دو یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے اور نمبر تین یہ کہ انسان کے قلب میں یہ تحریک ہو کہ عفو اور درگذر کو قائم کرے اور بدظنی کو ترک کرے۔ نمبر چار یہ کہ انسان تسبیح اور تحمید کرے۔ نمبر پانچ یہ کہ غور سےقرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔ چھ یہ کہ جو کتابیں ایک ایسے شخص کی لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کو پڑھنے سے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں جو پڑھنی چاہئیں۔ نمبر سات یہ کہ جس مقام پر ملائکہ کا خاص نزول ہوا ہو انسان وہاں جائے۔ بعض شعائر اللہ ہیں، ایسے مقامات ہیں وہاں جانا چاہیے۔ اور نمبر آٹھ یہ کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو۔ یہ ساری باتیں آپؓ نے اس میں بیان فرمائیں۔ (ماخوذ از ملائکۃ اللہ انوار العلوم جلد5صفحہ556تا 561)

پھر ’’ضرورت مذہب‘‘ یہ بھی آپ کا ایک لیکچر ہے جو آپؓ نے 5؍مارچ 1921ء کو لاہور میں کالج کے بعض طلباء کے سوالوں کے جوابات میں دیا۔ اس کی خلاصۃً تفصیل اس طرح ہے کہ 4؍ مارچ 1921ء کو ایک مقدمے میں شہادت کی غرض سے حضرت مصلح موعودؓ لاہور تشریف لے گئے اور 4؍ سے 7؍ مارچ تک وہاں مقیم رہے۔ 5؍مارچ کو کالج کے بعض طلباء نے حضور سے ملاقات کے دوران مندرجہ ذیل تین سوالات پوچھے۔ اول یہ کہ مذہب کی کوئی ضرورت نہیں نہ اس سے کوئی فائدہ ہے؟ ہاں لوگ اگر اس کو بعض ظاہری فوائد حاصل کرنے کے لیے اختیار کر لیں تو بُرا نہیں تو اس پر روشنی ڈالیں۔ دوسری یہ کہ دیگر مذاہب میں بھی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پیشگوئیاں کرتے ہیں پھر اسلام کی یہ خصوصیت نہ رہی کہ اس کی کوئی پیشگوئیاں ہوئی ہیں۔ سوم یہ کہ حضرت مرزا صاحب کے سلسلہ کا پھیلنا ان کی صداقت کا ثبوت نہیں کیونکہ روس میں لینن کو بھی بڑی کامیابی ہوئی ہے۔ حضور نے ان تینوں سوالوں کے نہایت آسان پیرائے میں مدلل جواب ارشاد فرمائے۔ ’’ضرورتِ مذہب‘‘ کے نام سے یہ چھپی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ مذہب کی ضرورت کا سوال خدا کی ہستی سے وابستہ ہے۔ اگر خدا ہے تو مذہب کی بھی ضرورت ہے اور خدا کی ہستی کا ثبوت اس کا اپنے بندوں سے کلام کرنا ہے اور اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔ دوسرے سوال کے جواب میں حضور نے بتایا کہ انبیاء اور دیگر لوگوں کی پیشگوئیوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اپنے علم کی بنا پر پیشگوئیاں کرتے ہیں اور وہ قیاس کا رنگ رکھتی ہیں جبکہ انبیاء کی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ مخالف حالات میں ہوتی ہے۔ ان کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں شوکت اور حاکمانہ اقتدار ہوتا ہے۔ اور تیسرے سوال کے جواب میں حضورؓ نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحبؑ کو جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس ترقی کے بارے میں حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ پہلے سے موجود ہے اور اس کے مطابق ہی ترقی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ دوسروں کی ترقی بھی ہو رہی ہے اور حضرت مرزا صاحب کی ترقی ان کی صداقت کی علامت نہیں۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد6 صفحہ1-2)

بہرحال یہ ایک لمبا تفصیلی مضمون ہے۔

پھر ہستی باری تعالیٰ پر 1921ء میں آپؓ نے ایک تقریر فرمائی۔ یہ بھی 190 صفحات کی بہت لمبی تقریر ہے اور خلاصہ اس طرح ہے کہ ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر حقائق و معارف سے پُر، بصیرت افروز انداز میں ایک عالمانہ اور جامع تقریر 1921ء میں فرمائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اس تقریر میں ہستی باری تعالیٰ کے آٹھ دلائل اور ان پر پیدا ہونے والے اعتراضات کے جواب ارشاد فرمائے۔ خدا تعالیٰ کی صفات سے خدا کی ہستی کا ثبوت فراہم فرمایا اور صفات الٰہیہ کی اقسام بھی بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق اہل یورپ کے خیالات، زرتشتیوں کے خیالات، ہندوؤں کے خیالات اور آریوں کے تصورات کے بالمقابل اسلام کی خداتعالیٰ سے متعلق تعلیمات تفصیل سے بیان فرمائیں۔ علاوہ ازیں حضور نے اپنی اس تقریر میں شرک کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے ان کا ردّ بیان فرمایا اور رؤیتِ الٰہی، رؤیت کے مدارج و درجات، اس کے فوائد اور اس رؤیت کے حصول کے طریق و ذرائع بھی بیان فرمائے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد6 صفحہ6)

پھر آپؓ نے ایک تصنیف 1921ء میں ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے نام سے فرمائی۔ شہزادہ ویلز کی ہندوستان آمد کے موقع پر ان کو پیش کی گئی۔ اس کا خلاصۃً (مضمون) یہ ہے کہ برطانیہ عظمیٰ کے ولی عہد شہزادہ ویلز دسمبر 1921ء میں ہندوستان کے دورے پر آئے۔ یہ وہی شہزادے ہیں جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم کہلائے اور 1936ء میں چرچ آف انگلینڈ سے اختلاف کرکے تخت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی ہندوستان آمد کے وقت ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف فرمائی اور حضور کی تجویز کے مطابق جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار دو سو آٹھ ممبروں نے ایک آنہ فی کس جمع کر کے اس کتاب کی اشاعت کا انتظام کیا اور جماعت احمدیہ کے ایک وفدنے لاہور میں 27؍ فروری 1922ء کو گورنمنٹ پنجاب کے توسط سے پرنس آف ویلز کی خدمت میں ایک ایڈریس کے ساتھ یہ کتاب اسلام کے بے نظیر تحفہ کی صورت میں پیش کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس مختصر عالمانہ تصنیف میں حکومت وقت سے وفاداری کے اظہار کے علاوہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مختصر حالات اور سلسلہ احمدیہ کی تعلیم، تاریخ اور اس کے قیام کی غرض بیان فرمائی۔ آخر میں سنتِ رسول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک اسلام کا پیغام نہایت مؤثر رنگ میں پہنچا کر اسے اسلام کی طرف دعوت دی ہے۔ شہزادہ ویلز نے حضور کی طرف سے پیش کیے گئے اس تحفے کو قبول کیا اور اپنے چیف سیکرٹری کے ذریعہ اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد6 صفحہ7)

اس بارے میں تاثرات یہ ہیں کہ شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے، 1936ء میں انگلینڈ چرچ سے جیسا کہ میں نے بتایا اختلاف کی وجہ سے تخت سے دست بردار ہو گئے اور انہوں نے اس تحفے کو بڑی قدر کی نگاہ سے اور احترام سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ اد اکیا بلکہ مارچ 1922ء کو لاہور سے جموں تک کے سفرمیں اسے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے۔ اور جیسا کہ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا۔ اسی طرح ان کے ایڈیکانگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا۔

اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے 24؍ اپریل 1922ء میں اس کتاب پر ریویو کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ ہم خلیفہ ثانی کے سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے…۔ تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرور رشک کریں گے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں۔ اس واسطے اس تحفے کو دیکھ کر ہم عش عش کر اُٹھے۔ اس تحفے میں فاضل مصنف نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا پورا عمل کیا ہے۔ دعوتِ اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے کسی فرقے کا کوئی فرد یا موجودہ زمانے کا کوئی شورش پسند اخبار حسد اور بغض کی راہ سے اس تحفے پر کوئی حملہ کرے۔ ہمیں اس تحفہ میں کوئی ایسا مقام دکھائی نہیں دیا جس میں خوشامد سے کام لیا گیا ہو۔ ہاں بعض مقامات ایسے ہیں جس میں مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے ابتدا سے آخر تک مختصر سے حالات لکھے ہیں لیکن وہ واقعات امن پسندی اور حکومت کی وفا داری کا اظہار ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ بد امن اور شورش پسند فرقے کو کبھی خدا دوست نہیں رکھتا اور تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

اسی طرح پنجاب کے ایک نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے 18؍اپریل 1922ء کی اشاعت میں لکھا کہ ’’یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ … قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہو سکتی جو مذہب میں اور خاص کر ہندوستان اور برطانیہ کے بےشمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلدنمبر4 صفحہ294) بیرونی دنیا پر بھی اس کتاب نے گہرا اثر ڈالا۔ مغربی ممالک میں تو اس نے تبلیغ اسلام کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ چنانچہ ویانا جو آسٹریا کا کیپیٹل (Capital)ہے وہاں کے ایک پروفیسر نے جو تین زبانوں کا ماہر تھا، اسے پڑھ کر بےحد خوشی کا اظہار کیا اور افسوس کیا کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے ورنہ دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرتا۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے امریکہ سے لکھا کہ اس کتاب نے امریکہ کو بہت متاثر کیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا امریکہ کے علمی تقاضوں کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ میں بھی اس کا اثر ہوا۔ چنانچہ نیروبی کے اخبار ’’لیڈر‘‘ نے لکھا کہ گو میں عیسائی نہیں مگر عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور ان کے لٹریچر کو خوب سمجھتا ہوں لیکن جو کچھ مجھے اس کتاب سے حاصل ہوا ہے اور جو میں نے حظّ اٹھایا ہے اسے بیان نہیں کر سکتا۔ اس کتاب کا لکھنے والا گو مسلمان ہے لیکن شبہ غالب ہے کہ وہ عیسائیوں میں سالہا سال تک رہا ہے اور ان کے لٹریچر کو اس نے غور سے پڑھا ہے ورنہ یہ بہت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کو ایسی پتے کی باتیں اس دھڑلے سے سنائے۔ آج تک کوئی ایسی کتاب میری نظر سے نہیں گزری جو مذہبی بنیاد پر لکھی گئی ہو اور تعصّب سے مبرا رہی ہو۔ اس شان کی یہ پہلی کتاب ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ292تا 294)

اسی طرح ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘۔ یہ 1924ء کی آپ کی ایک تقریر ہے جو ویمبلےکانفرنس میں تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ پڑھا گیا تھا۔ کتاب تو بہت موٹی ہے۔ 250 صفحات کی ہے۔ 1924ء میں یہ ویمبلےکانفرنس منعقد ہوئی تھی اور دنیا کے تمام مذاہب کے چوٹی کے علماء کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بارے میں لیکچر دیں۔ اس میں حضرت مصلح موعودؓ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کانفرنس کے لیے ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے نام سے 24؍ مئی تا 6؍ جون دوہفتے سے بھی کم عرصہ میں ایک ضخیم کتاب تصنیف فرمائی۔ پھر اس کا خلاصہ حضرت مصلح موعودؓ کی موجودگی میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے اس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔ یہ لیکچر ایسا منفرد اور اچھوتا تھا کہ عیسائیت کے بڑے بڑے لیڈر بھی بے اختیار بول اٹھے کہ بلا شبہ اس مضمون میں جو خیالات بیان کیے گئے ہیں وہ تربیت اور دلائل اور اپنی خوبی و حسن کے لحاظ سے اچھوتے اور منفرد ہیں۔ چنانچہ اس لیکچر کے ذریعہ خدا نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیائے مذاہب کے بڑے بڑے لیڈروں کو اس طرح پہنچانے کا موقع دیا کہ وہ بھی اسلام کی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کتاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے اسلام کی حسین تعلیم کی مختلف جہات پر نہایت شاندار انداز میں روشنی ڈالی۔ سب سے پہلے آپ نے سورت صافات کی آیات سے یہ ثابت کیا کہ یہ جو مذہبی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اس قسم کی کانفرنسوں کے انعقاد کی خبر آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجیدنے دے دی تھی۔ اس کے بعد آپ نے جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا اور دلائل قاطعہ سے ثابت کیا کہ احمدیت اور حقیقی اسلام ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس کے بعد آپ نے مذہب کے چار مقاصد بیان کیے۔ اس ذیل میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے بارے میں اسلام کا جو تصور ہے اسے کھول کر بیان کیا۔ واضح کیا کہ اسلام انسان سے اپنے خدا کے ساتھ کس طرح کا تعلق رکھنے کی امید کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس شبہ کا ازالہ بھی کیا کہ اسلام اس طرح کی تعلیم دیتا ہے کہ اسباب سے کام ہی نہ لیا جاوے بلکہ سب کام خدا پر چھوڑ دیے جائیں یعنی ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ الزام مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے کہ اسلام کی ہرگز یہ تعلیم نہیں ہے بلکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ اسباب سے بھرپور کام لیا جائے۔ جو ذرائع ہیں ان کو استعمال کیا جائے پھر خدا پر توکّل کیا جاوے۔ توکّل ہرگز ترکِ اسباب کا نام نہیں ہے۔ توکّل کرنا تو ترکِ اسباب کا نام نہیں ہے بلکہ اس امر پر یقین کا نام ہے کہ خداتعالیٰ ایک زندہ خدا ہے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اس وقت صرف اسلام ہی ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ سے ملا سکتا ہے کیونکہ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جو بھی اسلام کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق عمل کرتے ہوئے خدا سے وصال کی تڑپ رکھے خدا ضرور اسے مل جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس شبہ کا ازالہ صرف اسلام ہی کرتا ہے کہ اس کی تعلیم پر چل کر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو کہ صفات الٰہیہ کے مظہر ہوتے ہیں اور جو پہلے خود اپنی ذات پر صفاتِ الٰہیہ کا پرتو ڈالتے اور پھر دوسروں کو اس کا نشان دکھاتے ہیں اور ہستی باری کا کامل عرفان بخشتے ہیں۔ چنانچہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لیے کہ لوگ اس کے وجود کو پہچانیں اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہوں حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا تھا۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اخلاق کی مختلف جہات کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیم ہی سب سے کامل ہے اور کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ پھر آپؓ نے اخلاقِ حسنہ کے اصول اور اخلاقِ سیئہ سے بچنے کے ذرائع کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اخلاق کی درستگی کے بارے میں اسلام کی جو تعلیم ہے اس کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے تمدن کے بارے میں اسلام کی تعلیم بیان کی ہے اور نہایت لطیف پیرائے میں اخلاق اور تمدن کے فرق کو واضح کیا ہے۔ پھر انسان کے معاشرے میں مختلف لوگوں سے جوتعلقات ہیں وہ کن خطوط پر استوار ہونے چاہئیں، اس پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر شہریت کے اصول بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے حکومت اور رعایا کے فرائض اور حقوق تفصیل سے بیان کیے اور پھر اس مضمون کو مزید وسیع کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ حکومتوں کے آپس کے تعلقات کس قسم کے ہونے چاہئیں اور مختلف ملکوں میں تنازعات کے حل کے لیے آپ نے قرآن کریم کے زریں اصول بیان کیے ہیں۔ اور بتایا کہ اگر لیگ آف نیشنز (League of Nations)کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جائے گی تو وہ کامیاب ہو گی اور وہ نہیں رکھی گئی لہٰذا ناکام بھی ہوئی اور اب یواین او (UNO)بھی اگر اس نہج پر نہیں چلے گی تو وہ بھی ناکام ہو رہی ہے اور ہو جائے گی۔ بہرحال کتاب کے آخر پر حضرت مصلح موعودؓ نے حالات ما بعد الموت کے بارے میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اگلے جہان میں جو ثواب و عذاب ملیں گے ان کی حقیقت کیا ہو گی۔ اس کتاب میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ آپ نے ان تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی مثالیں بھی دی ہیں اور انہوں نے کس طرح اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کیے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا ان پر کس قدر اثر ہوا کہ ان میں سے بعض نے اپنی جانیں قربان کر دیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو چھوڑنا پسندنہیں کیا۔ آخر پر حضرت مصلح موعودؓ نے تمام دنیا میں بسنے والوں کو قبول احمدیت کی دعوت دیتے ہوئے خوشخبری دی ہے کہ ان مصائب کے دُور ہونے کا وقت آ گیا ہے اور اگر اس دَور کے فرستادے کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں گے تو وہ دین و دنیا کی فلاح پائیں گے۔ (ماخوذ از تعارف کتب انوار العلوم جلد8 صفحہ6 تا 9)

مضمون کے خاتمہ پر جو پریذیڈنٹ تھے انہوں نے مختلف الفاظ میں ریمارکس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے۔ میں صرف اپنی طرف سے اور حاضرین جلسہ کی طرف سے مضمون کی خوبیٔ ترتیب، خوبیٔ خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں اور مَیں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ مَیں ان کی طرف سے شکریہ کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ ایک صاحب حضرت صاحب کے حضور حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ہندوستان میں تیس سال کام کیا ہے اور مسلمانوں کے حالات اور دلائل کا مطالعہ کیا ہے کیونکہ میں ایک مشنری کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا ہوں مگر جس خوبی، صفائی اور لطافت سے آپ نے آج کے مضمون کو پیش کیا ہے میں نے اس سے پہلے کبھی کسی جگہ بھی نہیں سنا۔ مجھے اس مضمون کو سن کر کیا بلحاظ خیالات، کیا بلحاظ ترتیب اور کیا بلحاظ دلائل بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک اور صاحب آئے جنہوں نے عرض کیا کہ میں اس مضمون کے سننے کے لیے فرانس سے آیا ہوں۔ میں عیسائیت پر اسلام کو ترجیح دیا کرتا تھا اور اسلام پر بدھ ازم کو ترجیح دیا کرتا تھا۔ اب جبکہ میں نے آپ کا مضمون بھی سن لیا ہے اور بدھ ازم کو بھی سنا ہے تو میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی اسلام ہی سب سے بالا تر مذہب ہے۔ جس خوبی سے اور جس خوش اسلوبی سے آپ نے اسلام کو پیش کیا اس کا کوئی دوسرا مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میرے دل پر اب اس کا گہرا اثر ہے۔ اَور بھی بہت سارے ریمارکس ہیں۔ پھر مسز شارپلز کہ وہ بھی اس کانفرنس کی سیکرٹری ہیں، اس نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں کہ لوگ آپ کے بڑے مشکور ہیں۔ پھر اسی عورت نے کہا کہ لوگ، عورتیں اور مرد، میرے پاس آتے ہیں اور اس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ ایک جرمن شخص جو یہاں پروفیسر ہیں انہوں نے جلسہ سے واپسی کے وقت سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضرت صاحب کے حضور مبارکباد عرض کی اور کہا کہ میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے تھے۔ میں نے دیکھا کہ بعض اپنی زانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور کہتے تھے کہ

Rare ideas. One can not hear such ideas everyday.

یہ نہایت نادر خیالات ہیں۔ ایسے خیالات ہر روز سننے میں نہیں آتے۔ وہی جرمن پروفیسر روایت کرتے ہیں کہ بعض جگہ لوگ بے اختیار بول اٹھتے تھے کہ

What a beautiful and true principle.

کیا ہی خوبصورت اور سچے اصول ہیں۔ اور خود یہ جرمن پروفیسر اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کرتا تھا کہ یہ موقع احمدیوں کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ (turning point)ہے یعنی ترقی کا مقام ہے اور یہ ایسی کامیابی ہے کہ اگر آپ لوگ ہزاروں پاؤنڈ بھی خرچ کر دیتے تو ایسی شہرت اور ایسی کامیابی کبھی نہ ہوتی جیسی کہ اس ایک لیکچر کے ذریعہ سے ہوئی ہے۔ بہائی مذہب کی ایک عورت نے لیکچر سنا اور پھر ہمارے ساتھ ساتھ مکان کے قریب تک چلی آئی۔ وہ کہتی تھی کہ میں بہائی خیالات رکھتی تھی مگر اب آج کا لیکچر سن کر میرے خیالات بدل گئے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ کے زیادہ تر لیکچر سنوں۔ مجھے اگر مہربانی سے بتائیں کہ کب اور کہاں کہاں لیکچر ہوں گے تو میں ضرور آؤں گی۔ ایک عورت نے پیچھے پڑ کے حضور کو اپنے گھر چائے پہ آنے کی دعوت بھی دی۔ ایک صاحب نے یہ بھی کہا کہ ایسا پیارا مضمون تھا کہ حب الوطنی سے بھی زیادہ پیارا تھا۔ (ماخوذ از الفضل 23اکتوبر1924ء صفحہ4-5)

تو بہرحال یہ چند جھلکیاں میں نے 18 سال کی عمر سے 35 سال کی عمر تک کے علم و عرفان کے موتیوں کی دکھائی ہیں۔ شروع جوانی ہے اور پھر جوانی ہے اور جوانی کی عمر کی یہ باتیں اس شخص کی ہیں جس کی جیسا کہ میں نے کہا کوئی دنیاوی تعلیم نہیں تھی لیکن علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا گیا تھا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی صداقت کا بھی ایک نشان ہے۔ اس سترہ سال کے عرصہ میں جو میں نے بیان کیا ہے، جو باتیں بیان کی ہیں وہ صرف سترہ سال کے عرصہ کی ہیں۔ کچھ آپ کی خلافت سے پہلے کی کچھ خلافت کے بعد کی اور اس سترہ سال کے عرصہ میں جو کچھ بھی آپ نے بیان فرمایا ہے اس کا بھی پچاسواں حصہ میں نے کہا تھا بلکہ سوواں حصہ کہنا چاہیے وہ بھی بیان نہیں کر سکا۔ خیال تھا کہ شاید کافی تعارف کتب ہو جائے گا۔ خطبات اور تفسیریں حضرت مصلح موعودؓ کی اس کے علاوہ ہیں جن میں علم و معرفت کے نکات ہیں۔ علوم و معرفت کی نہریں ان میں بہ رہی ہیں۔ پھر مختلف مجالس میں دنیا کی رہنمائی آپ نے کی ہے۔ بس اس خزانے کو بھی جو کافی حد تک چھپ چکا ہے جماعت کے افراد کو پڑھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درجات بلند فرماتا رہے۔

پاکستان کے حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے لوگوں کو بھی امن اور چین اور سکون کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے حملوں اور مکروں کو اپنے فضل سے ملیامیٹ کردے۔

(الفضل انٹرنیشنل 12؍مارچ 2021ءصفحہ5تا10)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 19؍ فروری 2021ء شہ سرخیاں

    ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘

    پیشگوئی مصلح موعود کے ایک پہلو ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی تحریرات، تقاریر وغیرہ کے حوالے سے مختصر بیان۔

    فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے۔ مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شُد بُد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا۔ (تبصرہ پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم اے برکتاب ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘)

    اس تحفے میں فاضل مصنف نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا پورا عمل کیا ہے دعوتِ اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے۔ (تبصرہ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ برکتاب ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘)

    یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہو سکتی جو مذہب میں اور خاص کر ہندوستان اور برطانیہ کے بیشمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ (تبصرہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ برکتاب ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘)

    میں اس مضمون کے سننے کے لیے فرانس سے آیا ہوں۔ میں عیسائیت پر اسلام کو ترجیح دیا کرتا تھا اور اسلام پر بدھ ازم کو ترجیح دیا کرتا تھا۔ اب جبکہ میں نے آپ کا مضمون بھی سن لیا ہے اور بدھ ازم کو بھی سنا ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ واقعی اسلام ہی سب سے بالا تر مذہب ہے۔ جس خوبی سے اور جس خوش اسلوبی سے آپ نے اسلام کو پیش کیا اس کا کوئی دوسرا مذہب مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میرے دل پر اب اس کا گہرا اثر ہے (ویمبلےکانفرنس میں شریک ایک زائر کے تاثرات)

    پاکستان میں احمدیوں کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک: ’’دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں کے لوگوں کو بھی امن اور چین اور سکون کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور مخالفین کے حملوں اور مکروں کو اپنے فضل سے ملیا میٹ کر دے۔‘‘

    فرمودہ 19؍فروری2021ء بمطابق 19؍تبلیغ 1400 ہجری شمسی، بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور