خلافتِ احمدیہ

خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2025ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

وَاَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۵۴﴾ قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَاِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَمَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۵۵﴾ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾ وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۷﴾ (النور:54تا57)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوئے ایک سو سترہ سال گزر چکے ہیں۔

1908ء میں یہ نظام قائم ہوا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ قائم ہوا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جماعت احمدیہ پر کہ ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مسیح و مہدی کی آمد کے بعد ایک ایسا دور شروع ہو گا جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا دور ہے اور پھر اسی نظام میں خلافت کا دور بھی شروع ہو گا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح طور پر پیشگوئی فرمائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی جو حدیث میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے آپؐ نے فرمایا کہ

تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہو گی۔ جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھالے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہوگئے۔(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 285حدیث 18596 مطبوعہ عالم الکتب بیروت )

پس یہ پیشگوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بعد ایک نیا دور اسلام کی نشأة ثانیہ کا شروع ہوا اور آپؑ کے وصال کے بعد خلافت کا دور بھی شروع ہوا۔

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقیناًاللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم پھر جاؤ تو اس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے۔ اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے اور اس رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں۔

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لیے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لیے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

پس ان آیتوں سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ تم میں نظام خلافت قائم ہو گا۔ خلفائے راشدین کا زمانہ تیس سال تک رہا۔ اب تیس سال کے لیے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک مکمل وعدہ تھا اور اس کی تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دی جیسا کہ میں نے حدیث پڑھی ہے کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت تھی۔ پھر بادشاہت تھی۔ پھر جابر بادشاہت تھی۔ پھر خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ مسیح موعود کے زمانے میں قائم ہو گی۔ پس اس بات کو ہم احمدیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا ایک عہد کیا ہے اور اس عہد کی ایک شرط یہ ہے کہ ہم ہمیشہ خلافت کے ساتھ جڑے رہیں گے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے بلکہ تلقین فرمائی ہے اور اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ پس

جب تک ہم خلافت سے جڑے رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے

لیکن اس کے لیے بھی شرائط ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیات میں بھی فرمایا ہے۔ پس ان شرائط کو پورا کرنا بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔

ان کی وضاحت سے پہلے خلافت کے جاری رہنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا جو ارشاد ہے وہ بھی میں پڑھتا ہوں۔ آپ نے رسالہ الوصیت میں فرمایا خدا تعالیٰ ’’دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ (1) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2)دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے۔‘‘ یعنی ان پڑھ اور جاہل لوگ جو تھے، گاؤں کے رہنے والے مرتد ہو گئے۔ ’’اور صحابہؓ  بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔ ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ موسیٰؑ مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اِس سے جو بنی اسرائیل کو وعدہ کے موافق منزل مقصود تک پہنچا دیں فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے ایک بڑا ماتم برپا ہوا۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں

’’…سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے۔ سو اب ممکن نہیں کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لیے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لیے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے۔‘‘

یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حدیث کے مطابق ایک دائمی قدرت کی نشاندہی فرما دی ہے۔ ’’جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی۔‘‘ آپؑ نے فرمایا اور دوسری قدرت نہیں آ سکتی۔ ’’جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لیے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے، پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔

میں خدا کی طرف سے قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304تا 306)

اب یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قدرتِ ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور ہر ملک میں صالحین کی جماعت اکٹھی ہو کر دعائیں کرے۔ اس وقت جب آپؑ نے یہ ارشاد فرمایا تھا انڈیا میں یا ہندوستان میں جماعت احمدیہ تھی اور چند ایک لوگ باہر ہوں گے لیکن یہ پیشگوئی بھی آپؑ نے ایک رنگ میں فرما دی کہ ہر ملک میں یہ دعا کرتے رہیں گویا کہ آئندہ زمانہ ایسا آئے گا کہ جب دنیا میں ہر جگہ جماعت احمدیہ پھیل جائے گی اور

آج ہم وہ زمانہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں جماعت احمدیہ پھیلی ہوئی ہے اور ہر جگہ خلافت سے وفا اور پیار اور محبت کا تعلق ہمیں نظر آتا ہے جو دُور دراز کے ملکوں میں رہنے والوں میں بھی ہے

اور خلافت خامسہ کے انتخاب میں بھی آپ نے دیکھا کس طرح دنیا میں پھیلے ہوئے لوگوں نے اکٹھے ہو کر نظامِ خلافت کے ساتھ جڑنے کا عہد کیا اور بیعت کی اور یہ بیعت ان شاء اللہ آئندہ بھی قائم رہے گی لوگ کرتے رہیں گے اور آئندہ ہمیشہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے ہمیں نوازتا چلا جائے گا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ہمیں اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر خوشخبری کا پیغام ہے۔

پس ہمیں چاہیے کہ خلافت کے ساتھ جڑے رہیں اور خلافت کے نظام کے قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے رہیں گے تو تاقیامت ہم خلافت سے وابستہ رہیں گے۔ نسلیں ہماری وابستہ رہیں گی اور اس کے فیض سے فیض پاتے رہیں گے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید جماعت احمدیہ میں بھی خلافت ملوکیت میں بدل جائے لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی یہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور جو حدیث میں نے پڑھی آپؐ نے اس میں جو فرمایا ہے وہ بھی یہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایاوہ بھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی جو خلافت ہے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ روحانی خلافت رہے گی اور اس کا سلسلہ قیامت تک رہے گا اور کوئی اس میں ایسا دَور نہیں آئے گا جب کہا جائے کہ شاید کوئی ملوکیت آ گئی۔ بعض فتنہ پرداز لوگ یہ باتیں کہنے لگ جاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں ملوکیت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ روحانی خلافت قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ تمہارے اندر بھی اسی طرح خلافت قائم ہو گی جس طرح کہ پہلے لوگوں میں خلافت قائم تھی اور وہ خلافت ملوکیت کی خلافت نہیں تھی بلکہ روحانیت کی خلافت تھی جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ قرآن کریم میں مذکور انبیاء کی تاریخ سے ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خلافت کا نظام تھا جو اللہ تعالیٰ براہ راست دیتا تھا لیکن ایک دوسرا نظام بھی اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے جو خلفائے راشدین کے دور سے شروع ہوا اور وہ اب آگے چل رہا ہے۔

ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس عنوان پر ایک مضمون لکھا۔ ان کا خیال یہ تھاکہ شاید ایک زمانہ آئے کہ ملوکیت کا نظام آجائے۔ اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب پتہ لگا تو آپؓ نے بڑی سختی سے اس کا رد فرمایا، بڑی تردید فرمائی اور آپؓ نے فرمایا کہ ملوکیت جماعت احمدیہ میں نہیں آئے گی جب تک روحانیت اور تقویٰ قائم ہے۔(ماخوذ از الفضل 3 اپریل 1952ء صفحہ 3)

اور یہ ان شاء اللہ تعالیٰ قائم رہے گی اور اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے فرمائے ہیں جیسا کہ آپؑ نے خود فرمایا ہے کہ جب تک وہ وعدے پورے نہیں ہوتے کوئی ایسا نظام جماعت احمدیہ میں نہیں آئے گا جو آپ کی خلافت کو گزند پہنچانے والا ہو، نقصان پہنچانے والا ہو۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ خلافت کے مقام کا ادراک رکھنے والے اور کامل وفا سے خلافت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اس لیے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ اس کے بعد کوئی اپنی رائے رکھتے۔ بلکہ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں کسی معاملے میں کوئی رائے رکھتا ہوں اور خلیفة المسیح اس کے خلاف فیصلہ فرما دیں، اور ان کی رائے مختلف ہو تو میرے دل میں کبھی خیال بھی نہیں آیا کہ میری کوئی اپنی رائے بھی ہے۔ یہ تھی وفا، کامل وفا۔ بہرحال اس لحاظ سے بھی

ہمیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقینِ کامل ہونا چاہیے کہ نظام خلافت اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق قائم ہوا اور اس کے مطابق چلتا رہے گا نہ کہ کسی قسم کی دنیاوی بادشاہت اس میں آئے گی۔

خلیفۂ وقت تو راتوں کو اٹھ کر اپنی نمازوں میں افراد جماعت کے لیے دعا کرتا ہے۔ کیا کوئی بادشاہ ایسا ہے جو یہ عمل کرتا ہو؟

پس اس بات کو ہم اگر یاد رکھیں اور اس کے مطابق عمل بھی کریں تو پھر ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ یہ ان لوگوں کو ملے گا جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے۔ پس جب تک ہم میں سے وہ لوگ جو اللہ اور رسول کے حکموں کی اطاعت کرتے رہیں گے تو وہ لوگ بھی حصہ پاتے رہیں گے اور ہم بھی اس وعدے سے حصہ پاتے رہیں گے۔ اگر نہیں تو ایسے لوگ تو علیحدہ ہو جائیں گے لیکن خدائی وعدہ ان شاء اللہ کبھی نہیں ٹلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے۔ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور ہدایت پاتے رہو گے اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کہ اللہ تعالیٰ کا ان لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے۔ ایمان اور عمل صالح کا معیار جو ہے وہ پہلی آیت میں بیان فرما دیا۔ کامل اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھو تب ہی حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ تبھی نیک اعمال بجا لانے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور اس میں بڑھتے چلے جانے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا تو پھر خلافت کی نعمت سے ہم فیض پاتے چلے جائیں گے۔

پس اللہ تعالیٰ نے خلافت کو جاری رکھنے کے لیے اور اس سے فیض پانے کے لیے ہم لوگوں کو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو اس خلافت سے منسلک ہوں گے وہ اللہ اوررسول کی اطاعت کریں اور اس کے حکموں پر عمل کریں۔

مسلمانوں میں اب دیکھ لیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث ہے اس کے مطابق یہی ہم دیکھتے ہیں کہ

مسلمانوں میں حقیقی خلافت، خلافتِ راشدہ اس وقت تک قائم رہی جب تک وہ لوگ اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھے رہے۔ جب اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے بھی محروم ہو گئے۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ جماعت احمدیہ سے منسلک ہو کر اگر اس سے فیض پانا ہے تو خلافت کے ساتھ جڑنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے اور خلافت کی کامل اطاعت کرنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے اور خلیفہ وقت کے حکموں پر عمل کرنا اور اس سے وفا کا تعلق رکھنا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔

تبھی وہ ہدایت یافتہ بھی ہوگا، تبھی وہ اس سے فیضیاب بھی ہوتا رہے گا جو ایک ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے جو حقیقی مومن ہے اور خلافت سے جڑنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خلافت کا یہ جو نظام ہے یہ ایسا نظام ہے کہ اللہ تعالیٰ خود دلوں کو پھیرتا ہے۔ یہی تائید الٰہی ہے اور ہمیشہ ہر خلافت کے زمانے میں ہم نے یہ دیکھا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ جب آپؓ خلیفہ کے مقام پر فائز ہوئے تو آپؓ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدات تھیں اور لوگوں نے آپؓ کی بیعت کی۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے زمانے میں بھی ہم نے دیکھا کہ باوجود فتنہ و فساد کے اللہ تعالیٰ کی تائیدات آپؓ کے ساتھ تھیں اور یہ تائیدات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وعدوں کو پورا کرنے والی تھیں اور پھر جماعت احمدیہ ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو گئی اور جو لوگ خلافت کے نظام کے خلاف تھے یا آئندہ خلافت جاری رکھنے کے خلاف تھے وہ علیحدہ ہو گئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ پھر خلافت ثالثہ میں بھی ہم نے دیکھا کہ کس طرح ایک ہاتھ پر لوگ جمع ہوئے۔ پھر خلافت رابعہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ جمع ہوئے اور کسی قسم کے شر نے ان کو بکھرنے نہیں دیا اور پھر خلافت خامسہ میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کس طرح لوگ جمع ہوئے۔ یہ ایک مثال ہے اور ایک ایسی مثال ہے جس کی اَور کوئی مثال نہیں اور دُور دراز ملکوں کے لوگ اکٹھے ہوئے اور ایسی وفا کا تعلق انہوں نے ظاہر کیا کہ اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اب دنیا میں آج آپ دیکھ لیں کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو ایک نظام میں پروئی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت سے وابستہ، خلافت سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کے بہت فضل ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دشمنوں کی طرف سے جماعت احمدیہ پر بےشمار ظلموں کی بھرمار کی جا رہی ہے خاص طور پر پاکستان میں اور بعض اَور ملکوں میں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اپنے ایمان پر قائم ہیں اور اس کے باوجود اس بات پر قائم ہیں کہ یہ تکلیفیں ہمیں ہمارے دین سے نہیں ہٹا سکتیں اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ہم پر اور ہماری نسلوں پر جو انعامات کی بارش کر رہا ہے اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں دیکھ لیں 1974ء میں جماعت کے خلاف جو فساد ہوا اس کے باوجود جماعت ترقی کرتی چلی گئی اور دنیا میں پھیل گئی۔ 1984ء میں جماعت کے خلاف جو قانون پاس ہوئے اس سے جماعت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی۔ خلیفۂ وقت کو گو پاکستان ربوہ سے، مرکز ربوہ سے نکلنا پڑا لیکن جماعت کی ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی بلکہ باہر نکل کر ایک نئی شان سے خلافت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے دیکھا اور خلافت کے زیر سایہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برساتے ہوئے ایک نیا دور شروع ہوا۔ اور پھر خلافت رابعہ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح جماعت ترقی کر گئی اور اس طرح اب بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جماعت ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ باوجود اس کے کہ دشمن نے ظلموں کی انتہا کر دی ہے۔ آجکل خاص طور پر 2010ء کے بعد جب مخالفین نے بڑے وسیع پیمانے پر ہماری مسجدوں پر حملہ کر کے احمدیوں کو شہید کیا اور اس کے بعد پھر وقتاً فوقتاً شہادتیں ہو رہی ہیںبعض دفعہ زیادہ کبھی کم اور خلافت خامسہ کے دور میں تو بےشمار شہادتیں ہوئی ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے باوجود لوگوں کے ایمانوں کو متزلزل نہیں کر رہا۔ اللہ کا فضل ہے کہ لوگوں کے ایمان میں ترقی ہو رہی ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ایمان پر قائم ہیں بلکہ ایمان میں مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے بعض لوگ کمزور ایمان ہوتے ہیں، کچھ پیچھے بھی ہٹے ہوں گے لیکن اکثریت اپنے ایمانوں پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو نواز بھی رہا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اَور اَور ذریعوں سے نوازا ہے۔ ان کو باہر نکلنے کا موقع مل گیا اور اس طرح ان کو دنیاوی ترقیات سے بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا۔

اسی طرح باہر کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اَور ملکوں میں جماعت احمدیہ کثرت سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کا خلافت کے ساتھ تھا جس کے نتیجے یہ ظاہر ہو رہے ہیں کہ آج ہم دو سو تیرہ، چودہ ملکوں میں جماعت احمدیہ کے نظام کو قائم کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی جماعت قائم ہو رہی ہے اور دُور دراز رہنے والے لوگ بھی ایسے ہیں جو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خلافت سے ان کا تعلق ہے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں، بہت سارے واقعات بیان کرتا رہتا ہوں کہ کس طرح دور دراز کے افریقہ کے لوگ، گاؤں کے رہنے والے لوگ خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیںاور باوجود نقصانات کے اپنے ایمان پر قائم ہیں۔

اب برکینا فاسو میں ڈوری کے مقام پر جہاں آٹھ، نو احمدیوں کی شہادتیں ہوئیں اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ان کی نسلیں اور ان کی اولادیں ایمان پر قائم ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ

ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جس طرح ہمارے ان شہیدوں نے ایمان رکھا اور اپنی جانیں قربان کیں اور ہم بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم خلافت کے لیے اور خلافت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔

اور ایسے ایسے محبت کے پیغام وہ مجھے بھیجتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان دُور بیٹھے ہوئے لوگوں کو جن کو ہم بعض دفعہ اَن پڑھ سمجھتے ہیں ان میں بھی ایمان کی ایسی حرارت ہے کہ ان کے الفاظ اور ان کا جذبہ اور ان کا عشق اور خلافت سے محبت اور پیار ایک ناقابل بیان اور ناقابلِ مثال چیز ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ خلافت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا تھا کہ دائمی ہوگی وہ اس دائمی نظام کو قائم رکھنے کے لیے لوگوں کے دلوں کو بھی ایمان سے بھر رہا ہے اور بھرتا چلا جارہا ہے۔ افریقہ کے ایک ملک میں مَیں گیا۔ ایک شخص جس کے بازو بھی صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے، معذور تھا۔ اس نے مجھ سے سلام کیا اور اس زور سے جکڑا کہ لگتا تھا کہ میرا ہاتھ کسی شکنجے میں آگیا ہے اور اتنی محبت کا اظہار کیا کہ حیرت ہوتی تھی کہ اس کو کتنی محبت ہے۔ کبھی کوئی جان پہچان پہلے نہیں۔ صرف خلافت کی محبت تھی۔ دیکھ کے لوگ آنسوؤں سے رونے لگ جاتے تھے۔ کبھی پہلے ملے نہیں، کوئی واقفیت نہیں لیکن اس طرح گلے لگ کے روتے کہ حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں خلافت کے لیے محبت پیدا کر دی ہے اور یہ عہد کرتے تھے کہ ہم خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ یہ ہمارا عہد ہی نہیں بلکہ ہم اس کو پورا کر کے دکھانے والے ہیں۔ بےشمار لوگ ہر سال مجھے خط لکھتے ہیں اور بےشمار خطوط ایسے ہیں جن میں چھوٹے بچوں سے لے کر عورتوں اور جوانوں اور بوڑھوں تک کے خطوط میں محبت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے اور ایسی ایسی محبت کے نظارے ہیں جسے دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں خلافت کے لیے اور جماعت کے لیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے لیے محبت پیدا کر دی ہے اور اسلام کی ترقی کے لیے کتنا درد ان کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے۔ پس یہ چیز ہے جو خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے اور اس کو جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے کہ تم لوگ اس پر قائم رہو گے، اگر نیکیوں پر قائم رہو گے، اپنے عمل نیک رکھو گے تو پھر اس سے فیض بھی پاتے رہو گے۔

اللہ تعالیٰ نے انہی آیات میں یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ

ایمان میں ترقی کرنے والے ایسے ہیں جو کبھی شرک نہیں کرتے۔

پس ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ ہر قسم کے شرک سے بچیں۔ گذشتہ دنوں میں نے یوکے کی شوریٰ میں جو ایک خطاب کیا تھا اس میں بھی میں نے یہی کہا تھا اور حضرت مصلح موعودؓ کے مختلف حوالوں سے یہ بات بیان کی تھی کہ اگر ہمارے اندر،کسی عہدیدار کے اندر اور صرف عہدیدار ہی مخاطب نہیں بلکہ ہر احمدی مخاطب ہے کسی شخص کے اندر بھی اَنا ہے، ہمارے اندر تکبر ہے تو ہمارے اندر شرک کی ملاوٹ ہے۔

پس اگر ہم نے خلافت کے فیض سے حقیقی فیض پانا ہے اور حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے تو پھر ہمیں ہر قسم کے شرک سے، اپنی اناؤں سے اور تکبر سے اپنے آپ کو نجات دلانی ہو گی اور اس سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہو گا اور ایسے عہدیدار بھی اور ایسے کام کرنے والے بھی تبھی جماعت کے لیے مفید اور کارآمد وجود بن سکیں گے جب ان کی انائیں ختم ہو جائیں گی، جب ان کے تکبر ختم ہو جائیں گے اور خالصۃً للہ، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کام کرنے والے ہوں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ

یہ لوگ ایسے ہیں جو نماز کا قیام کرنے والے ہیں، جو زکوٰة کی ادائیگی کرنے والے ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرنے والے ہیں۔ اور یہ لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا۔

پس اللہ تعالیٰ نے اب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے یہ انعام کا سلسلہ، خلافت کے انعام کا سلسلہ شروع فرمایا ہے اس سے فیض پانے کے لیے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا وعدہ خلافت کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے یا خلافت سے فیض پانے کے لیے کامل اطاعت کرنے والوں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کیونکہ اللہ کی کامل اطاعت کرنےوالے وہی ہیں جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں

اور عبادت کے لیے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بار بار اس بات کا حکم دیا ہے کہ نمازوں کو قائم کرو۔ پس نمازوں کا قیام انتہائی اہم چیز ہے۔ اس کے لیے ہر احمدی کو جو اپنے آپ کو خلافت سے منسلک سمجھتا ہے اور منسلک کرنا چاہتا ہے اور اس سے فیض پانا چاہتا ہے اس کو یہ بات سامنے رکھنی ہو گی کہ ہم نے نمازوں کے قیام کی طرف بھرپور توجہ دینی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازوں کے قیام کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ بڑے عمدہ رنگ میں یہ فرمایا کہ صلوٰة کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے اور خلیفۂ وقت دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 575، ایڈیشن 2022ء)

خلیفۂ وقت سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ پس آج تو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ نظام قائم کر دیا ہے جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ دنیا کے ہر ملک میں، ہر علاقے میں، ہر شہر میں، ہر گاؤں میں سنا اور دیکھا جاتا ہے اور

صرف یہی نہیں کہ جو باتیں خلیفۂ وقت کر رہا ہے وہ صرف سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے ہوتی ہیں بلکہ بہت سے خطوط مجھے افریقہ سے، ترکی سے، روس کے ممالک سے آتے ہیں کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ یوں لگتا ہے کہ ہمارے حالات کے مطابق ہیں اور ہمیں یہ سن کر اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ واقعی خلافت کا نظام ایک ایسا نظام ہے جس نے ہمیں ایک اکائی میں پرویا ہے۔

پس یہ خیال کہ جو باتیں ہو رہی ہیں صرف پاکستانی ذہن رکھنے والوں کے لیے ہو رہی ہیں یا یورپ میں بعض لوگوں کے لیے ہو رہی ہیں یہ نہیں ہے بلکہ مجھے خطوط سے یہ پتہ لگتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں جو روایات ہیں ان میں کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو قدرِ مشترک ہیں اور اس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے۔ آجکل مَیں اسلامی تاریخ پر باتیں کر رہا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق باتیں کر رہا ہوں تو اس میں بھی

کئی باتیں ایسی آ جاتی ہیں جو ہمارے لیے نصائح ہیں اور لوگ اس سے بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

علاوہ اس کے ان کو تاریخ اسلام کا بھی پتہ لگ رہا ہے۔ اسلام کی بنیادی باتوں کا پتہ لگ رہا ہے اور اسی ضمن میں صحابہؓ کی سیرت کا بھی ان کو علم ہوا ہے۔ اور اسی ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف مواقع پر جو اسوۂ حسنہ ہے اس کا بھی پتہ لگ رہا ہے۔ اور اس میں بھی بعض باتیں ایسی ہیں جو ان کی ذاتی اصلاح کے لیے بھی ان کو فائدہ مند ہیں اور اس سے وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کا اظہار بھی لوگ کرتے ہیں۔

پس یہ خلافت ہی وہ ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم میں پیدا کیا ہوا ہے جس کے ذریعہ سے ایک اکائی جماعت احمدیہ میں پیدا ہو گئی ہے اور دنیا کے دو سو پندرہ ممالک میں رہنے والا ہر احمدی ایک اکائی بن کر اس نظام سے جڑا ہوا ہے اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ بھی تزکیہ اموال کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مالوں کو پاک کرو۔ اس میں باقی مالی قربانیاں بھی شامل ہیں۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ صرف جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی یہ مالی نظام جاری ہے اور خلیفۂ وقت کی اطاعت میں دنیا میں چندہ دینے کے ذریعہ سے افراد جماعت اور جماعتوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔

ایک ملک میں اگر کمی ہے تو دوسرے ملک کے ذریعہ سے وہ کمی پوری ہو رہی ہے۔ افریقہ میں گو لوگ بڑی قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان کے حالات ایسے ہیں کہ ان کے اخراجات ان کی آمد سے بہت زیادہ ہیں اس لیے باہر کے ملکوں سے وہاں رقم بھیجنی پڑتی ہے اور وہاں اس کے ذریعہ سے سکولوں اور ہسپتالوں اور مشن ہاؤسز اور مساجد کا نظام چل رہا ہے اور وہاں کے لوگ بھی اس کے بہت شکرگزار ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نظام میں رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ مخالفین ان ملکوں میں پہنچتے ہیں اور بعض جگہ ایسی ہیں جہاں جاکے وہ کہتے ہیں کہ تم قادیانیت کو چھوڑ دو۔ مرزائیت یا احمدیت کو چھوڑ دو۔ یہ احمدی لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے نہیں لیکن لوگ ان غیر احمدیوں کو جو ان کے پاس آتے ہیں یہی جواب دیتے ہیں کہ اب تک تو تم نے ہمیں کچھ سکھایا نہیں۔ آج جماعت احمدیہ آئی ہے اور انہوں نے ہمارے گاؤں میں، ہمارے قصبوں میں ہمارے شہروں میں مساجد بھی بنائی ہیں۔ ہماری تعلیم کی طرف بھی توجہ دی ہے۔ ہمیں سکولوں کی سہولتیں بھی مہیا کی ہیں۔ ہمیں ہسپتال بھی بنا کر دیے ہیں اور ہمیں دین بھی سکھا رہے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں پڑھا رہے ہیں۔ قرآن کریم کا ترجمہ ہمیں پڑھا رہے ہیں۔ تم نے تو اب تک کچھ کیا نہیں اور آج تم ان کی مخالفت میں آ گئے ہو اور یہ کہنے کے لیے کہ یہ مسلمان نہیں ہیں ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ اگر یہ مسلمان نہیں ہیں تو پھر کوئی بھی دنیا میں مسلمان نہیں ہے۔ یہ جواب ہوتا ہے ان نومبائعین کا۔ پس یہ بھی خلافت کا جاری نظام ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں مالی قربانی کی روح پیدا کی اور چندہ جات اور زکوٰة کے ذریعہ سے، پھر نظام خلافت کے ذریعہ سے اس کا جو جائز مصرف ہے اور جو حقیقی مصرف ہے وہ ہور ہا ہے اور غریبوں کی پرورش بھی ہو رہی ہے۔ ضرورتمندوں کی ضرورتیں بھی پوری ہو رہی ہیں اور اسلام کی اشاعت کا کام بھی ہو رہا ہے۔

بہرحال جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا تھا بعض ایسے حالات ہیں جس کی وجہ سے بعض جگہوں پر بعض سختیاں بھی آ رہی ہیں۔ بنگلہ دیش ہے، بعض عرب ممالک ہیں، افریقہ میں ملک ہیں، پاکستان ہے اور بعض اَور جگہیں بھی ہیں، فلسطین میں بھی آجکل جہاں کوئی تھوڑے بہت احمدی ہیں بڑی مشکل میں ہیں۔

عمومی طور پر تو وہاں فلسطینیوں کی پوری قوم ہی مشکل میں گرفتار ہے اور ان پر انتہائی ظالمانہ طور پر، بہیمانہ طور پر ظلم کیے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ظلم سے نجات دے جو فلسطینیوں پر روا رکھا جا رہا ہے اور ان ظالموں کی کوشش تو یہ ہے کہ ان کی مکمل طور پر نسل کشی کر دی جائے اور یہ ایسا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔

لیکن بہرحال

جو احمدی ہیں وہ ان تمام مصائب کو دیکھنے کے باوجود اس بات پر اللہ کا شکر کرتے ہیں کہ ہمارے اندر نظام خلافت قائم ہے جو ہمیں تسلی بھی دیتا ہے اور ہماری ضروریات کو بھی پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

دنیا میں ہم دیکھتے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے۔ بعض تو قدرتی آفات کے حادثے ہیں۔ کچھ انسانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اور اپنی اناؤں کی وجہ سے ایک فتنہ اور فساد میں دنیا پڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جنگیں ہو رہی ہیں اور فساد پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔

اگر ان لوگوں نے اب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کی تو پھر ایک تباہی دنیا پر آنے والی ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے کئی مرتبہ پیشگوئی فرمائی ہے۔

پس

نظامِ خلافت سے جڑنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں کہ ہم نے دنیا کو بھی تباہی سے بچانا ہے اور جب دنیا کو تبا ہی سے بچانے کا عہد کریں گے تو پھر اس کے لیے کوشش بھی کریں گے اور کوشش یہ ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے کی پوری کوشش کریں اور پیغام کو پہنچانے کے لیے اپنے حتی الوسع وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور اس کے لیے جان، مال، وقت قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں

اور اسی طرح خود بھی اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے اس طرح بڑھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل ہر احمدی پر ہوں اور وہ ان فضلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہو اور جب قرب پانے والا ہو گا تو پھر جہاں دنیا کو بچانے والا ہو گا وہاں وہ اپنی نسلوں کو بچانے والا بھی ہو گا اور اپنے آپ کو بھی آفات سے بچانے والا ہو گا کیونکہ یہ آفات اور تباہیاں جو ہیں یہ اس قدر گھمبیر شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہیں اور آئندہ پتہ نہیں کیا شکل اختیار کریں جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

پس

ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ جڑنے سے ہی اب دنیا کی بقاہے اور خلافت احمدیہ اس نظام کا تسلسل ہے، اس وعدے کا تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا

اور جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور جو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری ہونا تھا۔ پس

خلافت احمدیہ کی یہ جو کڑی ہے اللہ تعالیٰ تک لے کر جاتی ہے

اور یہ اس کے نظام کو قائم کرنے کے لیے ایک کڑی ہے۔ اس کے لیے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے اور جب ہم یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضلوں کا بھی وارث بنائے گااور وہ فضل ایسے ہوں گے کہ دنیا میں کسی اور پر ایسے فضل نازل نہیں ہو سکتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک اقتباس میں اب آخر میں پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے۔‘‘مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے ’’اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لیے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے۔

خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان جو نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)

پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو، خلافت احمدیہ کو ایسے لوگ مہیا فرما دیے ہیں جو اپنی قربانیوں کے معیاروں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدے فرمائے ہیں ان کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ یہ دنیا کا خاتمہ نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ میرے سب وعدے پورے نہ کر دے کچھ میری زندگی میں اور کچھ میرے بعد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اور کچھ بعد میں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ آج تک پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور نظامِ خلافت کے ساتھ جڑے رہنے والے اس کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے چلے جائیں گے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر خوشخبریاں ہمیں دی ہیں ان سے حصہ پانے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے فیض کے وعدے سے فیض اٹھانے کے لیے خدا کی عظمت دلوں میں، اپنے دلوں میں بھی اور دنیا کے دلوں میں بھی اور اپنی نسلوں کے دلوں میں بھی بٹھانے والے بنیں اور عملی طور پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اظہار کرنے والے ہوں۔ بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کرنےو الے ہوں دلوں کو بغض اور کینوں سے پاک کرنے والے ہوں۔ ہر ایک نیکی کی راہ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے ہوں اور ایمان میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے قدم صدق کے قدم شمار ہوں اور ہم اس کے وعدوں سے فیض پانے والے بنیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر فرد خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہے اور ہم مختلف وقتوں میں جو عہد کرتے ہیں، ذیلی تنظیموں میں بھی ہے، ان کے ممبران بھی عہد کرتے ہیں وہ اسے پورا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں ایسا زمانہ لے کر آئے کہ جب ہم دیکھیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈا ہر جگہ لہرا رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لوگ جوق در جوق آ رہے ہیں ا ور اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبرداروں میں سے بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جب یہ ہوگا تو تب ہی وہ دن ہو گا جو ہمارے لیے خوشی کا دن ہو گا۔ وہی دن ہے جو ہمارے لیے ایسا بابرکت دن ہو گا جب ہم کہیں گے کہ خلافت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا تھا اس کی برکات سے آج ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور یہی دن ہیں جو دنیا کو تباہی سے بچانے والے دن ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔آمین

نماز کے بعد میں

دو جنازے

بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر

مکرم کرنل ڈاکٹر پیر محمد منیر صاحب

کا ہے۔ یہ فضل عمر ہسپتال ربوہ کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں پچاسی سال کی عمر میں یہ وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ 1963ء میں ڈاکٹر صاحب نے خود بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کے بعد 1967ء میں آپ نے وصیت کی اور وصیت کے نظام میں شامل ہوئے۔ 1991ء میں آپ کے عمل کو دیکھ کر آپ کے والدین نے بھی بیعت کی سعادت پائی۔ کرنل پیر محمد منیر صاحب نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بطور نائب امیر ضلع ملتان بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 2004ء میں ربوہ شفٹ ہو گئے اور پھر وقف بعد از ریٹائرمنٹ کیا۔ فضل عمر ہسپتال میں ان کو لگایا گیا۔ جنرل فزیشن کے طور پر خدمات کیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد ان کو فضل عمر ہسپتال کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا۔ اس عہدے پر بھی آپ نے بارہ سال تک بڑے اخلاص، محنت اور ہمدردی سے خدمت کی، اپنے فرائض سرانجام دیے اور 2017ء میں صحت کی کمزوری کی وجہ سےایڈمنسٹریٹر سے ان کو سبکدوش کیا گیا لیکن بطور ڈاکٹر یہ پھر بھی ہسپتال میں خدمت کرتے رہے اور ای این ٹی کے شعبہ میں انہوں نے کام کیا۔ جماعت کے لیے آپ کی بطور واقف زندگی خدمات بھی انیس سال کی ہیں۔ آپ کی اہلیہ امة المالک صاحبہ جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی نواسی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ نہایت شفیق باپ، مہربان شوہر اور پورے خاندان سے صلہ رحمی کرنے والے تھے۔ جماعت اور خلافت سے بہت تعلق تھا۔ اپنے وقف کو نہایت دیانتداری سے پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ کہتی ہیں ساٹھ سال کا میرا ان کا ساتھ تھا۔ بہت ہی نرم مزاج اور سب کا بہت خیال رکھنے والے تھے۔ میرے والدین کا اور میرے بہن بھائیوں کا اور اپنے والدین کا خیال برابر رکھا۔ انسانیت کو سب چیزوں پر مقدم رکھا ہوا تھا۔ ڈیوٹی سے دیر سے گھر آتے تھے تو جب کبھی بھی ان سے پوچھو تو کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے کام فائلوں کے ساتھ ہیں جب مرضی فائلیں بند کر دیں لیکن میرا کام انسانوں کے ساتھ ہے۔ میں ان سے ڈیل کرتا ہوں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا میرا فرض ہے۔ ایک دن کہتی ہیں کہ گھر بہت لیٹ آئے پوچھا کہ آج لیٹ کیوں آئے ہیں تو انہوں نے کہا کسی ہسپتال کا ایک صفائی کرنے والا خاکروب تھا۔ اپنے ہسپتال کا بھی نہیں۔ اس کی سرجری تھی اور اس کا دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا تو میں اس کے پاس بیٹھا رہا تا کہ اس کی دیکھ بھال کروں۔ تہجد گزار ،صوم و صلوٰة اور نوافل کے پابند تھے۔ باقاعدگی سے روزے رکھتے تھے۔ ہر جمعرات کو روزہ رکھنے والے تھے۔ اور جیساکہ پہلے بھی میں نے کہا ان کے عمل کو دیکھ کر ہی ان کے والدین نے 1991ء میں بیعت کی۔

ان کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ احمدی نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے اور صرف مرزا صاحب کو ہی مانتے ہیں۔ مجھے یہ بات پسند نہیں تھی لیکن جب میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا تہجد گزار بھی ہے اور نمازوں کا پابند بھی ہے تو میں نے سوچا کہ احمدی غلط نہیں ہو سکتے۔ اس طرح ان کا اپنا عمل ان کے والدین کی جماعت میں شمولیت کا باعث بنا۔ بیعت کیونکہ انہوں نے خود تحقیق کرکے کی تھی اس لیے بڑے باعمل احمدی تھے۔ خلافت سے محبت اور عقیدت کا تعلق تھا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے باندھ کر رکھا اور ہمیشہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے رہتے تھے کہ کسی بھی مشکل وقت میں خلیفہ وقت کو لکھو۔ اور خدمت کے لیے ان کو عہدے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ مجھے انہوں نے یہی لکھا تھا کہ جہاں بھی آپ لگائیں، جس خدمت پر بھی لگائیں میں تیار ہوں۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے شامل ہیں۔ پوتے پوتیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا ذکر مکرمہ سلیمہ زاہد صاحبہ کا ہے

جو سمیع اللہ زاہد صاحب مربی سلسلہ حال کینیڈا کی اہلیہ تھیں۔ یہ گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے عطاء المومن زاہد صاحب مربی سلسلہ ہیں اور استاد جامعہ احمدیہ یوکے ہیں۔

مومن زاہد صاحب کے والد نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ بلامبالغہ ساٹھ ستر بچوں کو قرآن شریف پڑھاتی تھیں اور ان کی وفات کے بعد مرحومہ نے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں انہوں نے بھی اس کام کو جاری رکھا اور قرآن کریم پڑھاتی رہیں بلکہ بہت سارے اہل حدیث اور اہل سنت لوگ برملا اس کا اقرار کرتے تھے کہ ہمارے بچوں کو انہوں نے ہی قرآن کریم پڑھایا۔ لکھتے ہیں کہ سعادت مند ،سادہ مزاج ،وفا شعار اور خدمت گزار خاتون تھیں۔ ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرتیں۔ ضرورت مندوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتی تھیں۔

ان کے بیٹے عطاء المومن زاہد کہتے ہیں کہ تنگی کے حالات میں بھی اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ مئی 2025ء شہ سرخیاں

    تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔
    پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذارساں بادشاہت قائم ہو گی۔
    جب یہ دور ختم ہو گا تو اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا۔
    اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔ (الحدیث)

    جب تک ہم خلافت سے جڑے رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے

    ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے
    ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان جو نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور
    وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ
    وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

    پس ہمیں چاہیے کہ خلافت کے ساتھ جڑے رہیں اور خلافت کے نظام کے قائم کرنے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہیں۔ اگر ہم ایسا کرتے رہیں گے تو تا قیامت ہم خلافت سے وابستہ رہیں گے نسلیں ہماری وابستہ رہیں گی اور اس کے فیض سے فیض پاتے رہیں گے

    خلیفۂ وقت تو راتوں کو اٹھ کر اپنی نمازوں میں افراد جماعت کے لیے دعا کرتا ہے۔ کیا کوئی بادشاہ ایسا ہے جو یہ عمل کرتا ہو؟

    اللہ تعالیٰ نے خلافت کو جاری رکھنے کے لیے اور اس سے فیض پانے کے لیے ہم لوگوں کو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو اس خلافت سے منسلک ہوں گے وہ اللہ اوررسول کی اطاعت کریں اور اس کے حکموں پر عمل کریں

    اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کیونکہ اللہ کی کامل اطاعت کرنےوالے وہی ہیں جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ جڑنے سے ہی اب دنیا کی بقاہے اور خلافت احمدیہ اس نظام کا تسلسل ہے، اس وعدے کا تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا

    خلافت احمدیہ کی یہ کڑی ہے جو اللہ تعالیٰ تک لے کر جاتی ہے

    نظامِ خلافت کی اہمیت و برکات نیز اس سے وابستہ تائیداتِ الٰہیہ کا پُرمعارف بیان

    ڈاکٹر کرنل پیر محمد منیر صاحب سابق ایڈمنسٹریٹر فضل عمر ہسپتال ربوہ اور مکرمہ سلیمہ زاہد صاحبہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

    فرمودہ30؍ مئی 2025ء بمطابق30؍ ہجرت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور