حضرت محمد رسول اللہﷺ: اُسوۂ حسنہ

خطبہ جمعہ 20؍ جون 2025ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

غزوۂ مکہ

کا ذکر ہو رہاتھا۔ اس کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ایک واقعہ کا بھی ذکرملتا ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک صحابی نے اپنی ناسمجھی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی اطلاع مکہ والوں کو دینے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس کی اطلاع دے دی اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منصوبے کی کافروں کو خبر نہ پہنچ سکی۔

اس کی تفصیل میں لکھا ہے: مدینہ میں جب مکہ جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں تو ایک بدری صحابی جو کہ مدینہ میں موجود تھے۔ حضرت حاطِب بن ابی بَلْتَعہؓ ان کا نام تھا۔ انہوں نے قریش کی طرف ایک خط لکھا جس میں انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری طرف روانگی کا پروگرام بنایا ہے۔ انہوں نے وہ خط ایک عورت کے سپرد کیا جس کا تعلق مُزَیْنَہ سے تھا۔ اس عورت کا نام کَنُود یا سارہ تھا۔ یہ بنو عبدالمُطَّلِب میں سے ایک شخص کی لونڈی تھی۔ انہوں نے اس کے لیے اجرت مقرر کی کہ وہ یہ خط اہل مکہ تک پہنچا دے اور کہا کہ جہاں تک ممکن ہو اس خط کو مخفی رکھے اور عام راستےپر جانے سے منع کیا کیونکہ وہاں پہرہ تھا۔ اس عورت نے خط کو سر کی چوٹی میں رکھا اور مینڈھیاں بنا دیں۔ پھر خط کو لے کر نکلی۔ اس خط میں یہ درج تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرف ایک ایسا لشکر لے کر آرہے ہیں جو رات کی مانند ہے۔ یعنی بہت بڑا لشکر ہے اور تند سیلاب کی طرح تیزی سے چلا آ رہا ہے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اکیلے بھی تمہاری طرف نکل پڑے تو تمہارے خلاف اللہ ان کی ضرور مدد کرے گا اور وہ خدا اپنا وعدہ پورا کر کے چھوڑے گا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا ہے اس لیے تم اپنا انتظام کر لو۔

ایک دوسری روایت میں یہ بھی لکھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر نکلنے والے ہیں تمہاری طرف یا تم لوگوں کے علاوہ کسی اور طرف۔ یہ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال تم لوگ اپنی پوری احتیاط کر لو اور میں نے چاہا کہ اس خبر کی وجہ سے میرا تم پر ایک احسان رہے۔(السیرۃ النبویۃ بروایۃ الامام البخاری، الدکتور ریاض ہاشم ہادی، صفحہ 136 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح الباری جلد7 صفحہ 663کتاب المغازی،باب غزوۃ الفتح زیرحدیث 4274 قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ109، از شاملہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)(الروض الانف، ذکر الاسباب الموجبۃ المسیر … جلد 4صفحہ 150-151 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(غزوات النبیؐ از علی بن برہان الدین حلبی صفحہ 549 دار الاشاعت کراچی)

ایک روایت کے مطابق انہوں نے یہ خط صَفْوَان بن اُمَیَّہ، سُہَیل بن عمرو اور عِکْرِمہ بن ابوجہل کی طرف لکھا تھا۔(امتاع الاسماع،غزوۃ الفتح، خبرحاطب، جلداول صفحہ352 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

دوسری طرف

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اس خط کی بابت آپؐ کو اطلاع دے دی

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بلایا۔ حضرت علیؓ خود یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور ابو مَرْثَد غَنَوِی اور زبیر کو بھیجا اور ہم سب گھڑ سوار تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم روانہ ہو جاؤ یہاں تک کہ تم روضۂ خَاخ، ایک جگہ ہے وہاں پہنچو۔ یہ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ وہاں مشرکوں میں سے ایک عورت ہو گی۔ اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکوں کے نام ایک خط ہے۔ چنانچہ ہم نے اس کو اسی مقام پر پا لیا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی۔ ہم نے کہا خط نکال۔ کہنے لگی میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا دیا اور تلاشی لی مگر ہمیں کوئی خط نظر نہ آیا۔ ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط نہیں فرمایا۔ تمہیں وہ خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہیں ننگا کریں گے۔ تمہاری جامہ تلاشی لیں گے۔ جب اس نے سختی دیکھی تو اپنی کمر کی طرف جھکی۔ وہ اپنی کمر کے گرد ایک چادر باندھے ہوئے تھی اس میں سے اس نے اس کو نکال کردے دیا۔ بخاری کی ہی ایک دوسری روایت کے مطابق اس نے اپنے سر کے بالوں کے اندر سے اس کو نکالا۔ (دو روایتیں ہیں۔) ہم اس عورت کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس یعنی حاطب جو صحابی تھے جنہوں نے خط لکھا تھا انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت فرمائیں میں اس کی گردن ماروں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب سے پوچھا کس بات نے تم کو اس پر آمادہ کیا ہے جو تم نے کی ہے۔ یہ خط کیوں لکھا ہے؟ حاطب نے عرض کیا اللہ کی قَسم! مجھے کیا تھا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا نہ ہوتا یعنی میں تو ایمان لانے والوں میں سے ہوں اور یہ کوئی بغاوت نہیں ہے۔ کہنے لگے وجہ یہ تھی کہ میں نے چاہا کہ ان یعنی قریش کے لوگوں پر میرا احسان ہو جس کے ذریعہ اللہ میرے بال بچوں اور جائیداد کی حفاظت کرتا اور آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کنبے کا وہاں کوئی ایسا شخص نہ ہو کہ جس کے ذریعہ سے اللہ اس کے بال بچوں اور اس کی جائیداد کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے اور تم بھی اس کی نسبت بھلی بات کے سوا کچھ نہ کہو۔ ٹھیک کہا ہے اس نے۔ سچا ہے معصومیت میں بات کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ کیا جنگِ بدر میں یہ شریک نہیں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ بیشک اللہ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا تم جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی۔ یا فرمایا میں نے تم کو معاف کر دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کہنے لگے اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب المغازی حدیث3983، روایت نمبر3007)( عمدۃ القاری جلد7 صفحہ137 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگ سیرت صفحہ 136 زوار اکیڈمی کراچی)

اس واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی تاریخوں کی مختلف کتابوں کے حوالوں سے کیا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صحابی نے اپنے رشتہ داروں کو مکہ پر مسلمانوں کے حملہ کرنے کی خبر پوشیدہ طور پر پہنچانی چاہی تاکہ اس ہمدردی کے اظہار کی وجہ سے وہ اس کے رشتہ داروں سے نیک سلوک کریں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام کے ذریعہ یہ بات بتا دی گئی۔ آپ نے حضرت علیؓ اور چند ایک اور صحابہ کو بھیجا کہ فلاں جگہ ایک عورت ہے اس سے جا کر کاغذ لے آؤ۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر اس عورت سے کاغذ مانگا تو اس نے انکار کر دیا۔ بعض صحابہ نے کہا کہ شاید رسول کریمؐ کو غلطی لگی ہے۔ حضرت علیؓ نے کہا نہیں آپ ؐ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔‘‘ یہ ایمان تھا۔ ’’جب تک اس سے وہ کاغذ نہ ملے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا۔ انہوں نے اس عورت کو ڈانٹا تو اس نے وہ کاغذ نکال کر دے دیا۔‘‘(خطبات محمود جلد 4صفحہ 182۔183)

ایک اَور جگہ آپؓ نے مزید تفصیل سے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک کمزور صحابیؓ نے مکہ والوں کو خط لکھ دیاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں آپؐ کہاں جارہے ہیں؟ لیکن میں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ مکہ کی طرف آرہے ہیں۔ میرے مکہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے۔ یہ خط ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علیؓ کو بلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا جووہ مکہ والوں کی طرف لے جا رہی ہے تم وہ خط اس عورت سے لے لینا اور فوراً میرے پاس آجانا۔ جب وہ جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ دیکھنا وہ عورت ہے اس پر سختی نہ کرنا۔‘‘ ابتدائی طور پر سختی نہیں کرنی۔’’اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سماجتیں بھی کام نہ آئیں‘‘ تو پھر یہ ایسا معاملہ ہے کہ’’تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جا نے دینا۔‘‘ خط بہت ضروری ہے اس کو روکا جائے۔ ’’چنانچہ حضرت علیؓ وہا ں پہنچ گئے۔ عورت موجود تھی۔ وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھا نے لگ گئی کہ کیا میں غدار ہوں؟ دھو کے باز ہوں؟ آخر کیا ہے تم تلاشی لے لو۔ چنا نچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اس کی جیبیں ٹٹولیں، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا۔ صحابہؓ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اِس کے پاس نہیں۔ حضرت علیؓ کو جوش آگیا۔ آپؓ نے ’’حضرت علیؓ نے ‘‘کہا تم چپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قَسم! رسول کبھی جھو ٹ نہیں بول سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس عورت سے کہا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! میں جھو ٹ نہیں بول رہا۔ پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا۔ یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دے دے ورنہ یاد رکھ اگر تجھے ننگا کر کے بھی تلا شی لینی پڑی تو میں تجھے ننگا کرونگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اور تو جھوٹ بول رہی ہے۔ چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو ا س نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھولیں ان مینڈھیوں میں اس نے خط رکھا ہوا تھا جو اس نے نکال کر دے دیا۔‘‘(سیر روحانی(7) انوار العلوم جلد 24صفحہ 262-263)سر کے بالوں میں چھپایا ہوا تھا۔

بہرحال اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے روانگی

کے بارے میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو رُھْم بن حُصَین غِفَارِی کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا۔ ابن اسحاق کے مطابق آپ مہاجرین، انصار اور عرب کے گروہوں کے ساتھ روانہ ہوئے جبکہ رمضان کے دس روز گزر چکے تھے لیکن مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق آپؐ 2 رمضان کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ شارح بخاری علامہ ابن حجر نے 2 رمضان والی روایت کو ترجیح دی ہے۔ بہرحال اس سفر میں کچھ لوگ گھوڑوں پہ اور کچھ اونٹوں پر سوار تھے۔(فتح الباری جلد 8 صفحہ 4 قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)(سبل الھدیٰ جلد 5صفحہ 212دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت ابن اسحاق صفحہ 670 المکتبۃ العصریہ بیروت)

جب مدینہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکردگی میں فوج روانہ ہوئی تو اس میں تقریباً سات ہزار چار سو جانباز شامل تھے۔ اس تعداد میں مختلف قبائل بنو اسد اور سُلَیم وغیرہ کے شامل ہونے سے اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مکہ کے راستے پر چلتے چلتے اس کی تعداد دس ہزار تک ہو گئی۔ آپؐ صُلْصُل مقام پر پہنچے جو ذوالحلیفہ سے آگے چڑھائی پر مقام بَیْدَاءکے پاس ایک پہاڑ تھا تو آپؐ نے حضرت زبیر بن عَوَّام ؓکو دو سو سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔

بعض کتب میں اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار بھی بیان ہوئی ہے لیکن زیادہ تر روایت دس ہزار کی بیان ہوئی ہے اور وہی زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 110 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ از باشمیل صفحہ145-146 نفیس اکیڈمی کراچی)(طبقات الکبریٰ جلد دوم صفحہ 102 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فرہنگِ سیرت صفحہ 174 زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی دوران میں چاروں طرف مسلمان قبائل کی طرف پیغامبر بجھوا دئیے اور جب یہ اطلاعیں آچکیں کہ مسلمان قبائل تیار ہو چکے ہیں اور مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے راستہ میں ملتے جائیں گے تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو مسلح ہونے کا حکم دیا۔ جنوری 630ء کی پہلی تاریخ’’یعنی دس رمضان آٹھ ہجری‘‘ کو یہ لشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور راستہ میں چاروں طرف مسلمان قبائل آآ کر لشکر میں شامل ہوتے گئے۔’’ حضرت مصلح موعودؓ نے دس رمضان ہی لکھا ہے۔ ‘‘چند ہی منزلیں طے کرنے کے بعد

جب یہ لشکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا تو

اِس کی تعداد سلیمان نبی کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن۔انوارالعلوم جلد20 صفحہ 337)(کتاب التوفیقات الالہامیہ صفحہ 40 المؤسسۃ العربیۃ الدراسات )

اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ازواج مطہرات میں سے حضرت ام سلمہؓ تھیں۔ بعض روایات کے مطابق ام المومنین حضرت میمونہ ؓبھی ساتھ تھیں۔(مقالاتِ سیرت ڈاکٹرمحمدیسین مظہرصدیقی جلد3صفحہ259 )(کتاب المغازی ازواقدی جلد 2 صفحہ 289 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

بخاری کی ایک روایت میں آپﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کا بھی ذکر ملتا ہے کہ وہ بھی ساتھ تھیں۔(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ فی الثوب الواحد ملتحفابہ حدیث 357)

یہ سفر رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر کے ابتدائی چند دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا لیکن پھر آپ نے روزہ نہیں رکھا بلکہ دوسرے صحابہ کو بھی روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں غزوہ فتح کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے یہاں تک کہ جب آپ کَدِید چشمہ پر پہنچے جو قُدَید اور عُسْفَان کے درمیان ہے اور مکہ سے بیالیس میل کے فاصلے پر ہے تو آپؐ نے روزہ افطار کر لیا پھر آپ نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ وہ مہینہ گزر گیا۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح فی رمضان حدیث: 4275)

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 3 صفحہ 332 دار الکتب العلمیۃ بیروت

بخاری میں یہ روایت ہے۔

بخاری ہی کی ایک اور روایت حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں مدینہ سے نکلے اور آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا اور یہ مدینہ میں آپ کی آمد سے ساڑھے آٹھ سال کے سر پر ہوا اور آپؐ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ اور مسلمانوں میں سے جو آپؐ کے ساتھ تھے آپ روزہ رکھتے اور وہ بھی روزہ رکھتے۔ یہاں تک کہ آپؐ کَدِید میں پہنچے اور وہ ایک چشمہ ہے عُسفان اور قُدَید کے درمیان۔ وہاں آپؐ نے روزہ افطار کیا اور لوگوں نے بھی روزہ افطار کیا۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح فی رمضان حدیث: 4276)

اس بارے میں شارح بخاری علامہ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مدینہ سے روانہ ہوئے اسی دن آپ نے روزہ افطار کیا تھا یہ درست نہیں ہے کیونکہ مدینہ اور کَدِید کے درمیان کئی دن کی مسافت تھی۔(فتح الباری جلد 4 صفحہ 227کتاب الصوم باب اذا صام ایاما من رمضان ثم سافر، قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ مل کر روزہ کس مقام پر افطار کیا؟

اس بارے میں روایات میں متعدد مقامات کا تذکرہ ملتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قُدَیْد میں افطار کیا۔ اس کی مزید تفصیل کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر کے دوران روزہ کہاں افطار کیا تھا؟ اس کے بارے میں روایات میں اختلاف ہے۔ علامہ عینی کے نزدیک بعض نے کَدِیدکی جگہ عُسْفَان لکھا ہے۔ بعض نے کُراع الغَمِیم کا ذکر کیا ہے۔ بعض نے قُدَیْد لکھا ہے۔ قاضی عیاض اس حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ روایات میں اس جگہ کے بارے میں اختلاف ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کیا تھا تاہم ان تمام روایات میں ایک ہی واقعہ بیان ہوا ہے اور وہ تمام جگہیں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور یہ سب جگہیں عُسفان کے علاقے میں ہیں۔(عمدۃ القاری جلد 11 صفحہ 68 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم عَرج سے روانہ ہوئے تو راستے میں آپؐ نے ایک کتیا دیکھی۔ اس کے بچے اس کا دودھ پی رہے تھے۔

جانوروں سے ہمدردی کا واقعہ بھی

اس میں آ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جُعَیْل بن سُرَاقَہ ؓکو حکم دیا کہ وہ اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ جہاں یہ بیٹھی ہے وہاں کھڑے ہو جائیں تا کہ لشکر میں سے کوئی اس کے ساتھ یا اس کے بچوں کے ساتھ کوئی تعرض نہ کرے۔ ان کو ڈسٹرب نہ کرے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسوں کو پکڑنے کے لیے گھڑ سواروں کا دستہ مسلمانوں کے آگے آگے روانہ کیا ہوا تھا

اور بنو خُزَاعَہ بھی راستے پر کسی راہ گیر کو جانے نہیں دیتے تھے۔ دوسرا قبیلہ جو تھا انہوں نے بھی روکا ہوا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا دستہ ہَوَازِن کا ایک جاسوس گرفتار کر کے لایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہَوَازِن آپ کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

آپؐ نے فرمایا: اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ اس جاسوس کو روکے رکھیں تا کہ وہ آگے جا کر لوگوں کو خبردار نہ کر دے۔ جب آپؐ قُدَیْد پہنچے تو وہاں بنو سُلَیم جو ایک ہزار کی تعداد میں تھے آپ کے ساتھ شامل ہوئے۔ یہاں آپؐ نے جھنڈے اور پرچم باندھے اور انہیں قبائل میں تقسیم کیا۔ قُدَیْد کے میدان میں لشکر نبوی کی تیاری قبائلی بنیاد پر ہوئی۔ ہر قبیلہ کی فوج پر اسی قبیلے کا آدمی افسر مقرر کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خاندانی بنیاد پر بارہ دستوں میں تقسیم کیا۔ چھ دستے اوس کے اور چھ خزرج کے۔ مہاجرین کے تین جھنڈے حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس تھے۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 212 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ از باشمیل صفحہ 167 تا 175نفیس اکیڈمی کراچی)(دائرہ معارف محمد رسول اللہ ﷺ جلد9 صفحہ79 بزم اقبال لاہور)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد9 صفحہ133 دار السلام)(فتح الباری جلد 8 صفحہ 8، قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

اس مہم کے دوران ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے جو کہ

ابوسفیان بن حارث (یہ ابوسفیان اَور ہیں۔ یہ ابوسفیان بن حرب نہیں ہیں)

اور عبداللہ بن ابی اُمَیَّہکے اسلام قبول کرنے کا ذکر

ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور رضاعی بھائی ابوسُفیان بن حارِث یہ چچا زاد بھائی بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے اپنے بیٹے جعفر اور عبداللہ بن ابی اُمَیَّہ بن مُغِیرہ کے ساتھ مکہ سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ اور مدینہ کے درمیان ثَنِیَّۃُ الْعِقَاب نامی مقام پر ملے۔ یہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن تھے۔ اس لیے انہیں ہمت نہیں ہوئی کہ براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ جو کہ حضرت عبداللہ بن ابی امیہؓ کی بہن تھیں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے چچا زاد یعنی ابوسفیان بن حارث اور پھوپھی زاد اور صِھْرِی رشتہ دار یعنی عبداللہ آپ سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نہیں ملنا چاہتا ۔ آپؐ نے فرمایا میرے چچا زاد نے تو میری ہتک کی ہے۔ یہ شاعر تھے اور آپ کی ہجو کیا کرتے تھے اور عبداللہ نے مجھے مکہ میں کیا کیا نہیں کہا۔ دشمنی کی انتہا کی تھی۔ میں کس طرح ان سے ملوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات جب ابو سفیان بن حارث کو پہنچی تو اس نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی نہیں ہوتے اور ملنے کی اجازت نہیں دیتے تو میں اپنے اس بیٹے کو جس کو ساتھ لے کر آئے تھے ساتھ لے کر صحراؤں کی طرف نکل جاؤں گا یہاں تک کہ بھوک اور پیاس سے مر جاؤں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلایا اور شرف ملاقات بخشا۔ فوراً آپؐ کا دل نرم ہو گیا۔ دونوں نے اسلام قبول کیا اور پھران کا اسلام بہت ہی اچھا رہا۔

ابوسُفیان بن حارث کا تعارف

یہ ہے جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا کہ یہ ابوسفیان اَور ہیں۔ تاریخ اسلام میں ابوسفیان نام کے دو افراد زیادہ معروف ہیں۔ ایک ابوسفیان جو قریش مکہ کا سردار تھا اور ہند جس نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اس کا خاوند تھا۔ یہ ابوسفیان بن حرب کے نام سے معروف ہے اور دوسرے یہ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ہیں۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔

مؤرخین بعض اوقات ناموں کی مشابہت کی وجہ سے غلطی کھا جاتے ہیں اور ابوسفیان بن حارث کی بجائے ابوسفیان بن حرب بیان کر دیتے ہیں۔

جیسے جنگ حنین میں جب مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی تو لکھا ہے کہ ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی لگام یا رکاب تھامے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا تھا۔ بعض مؤرخین نے ابوسفیان بن حرب مراد لیا ہے جبکہ تاریخ دان یہی کہتے ہیں کہ وہ ابوسفیان بن حرب نہیں تھا بلکہ ابوسفیان بن حارث تھے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ حلیمہ سعدیہ نے ان کو بھی دودھ پلایا تھا۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ سخت معاند اور مخالف ہو گئے۔ یہ مکہ کے بڑے شعراء میں شمار ہوتے تھے اور اس مخالفت کی وجہ سے انہوں نے حضور کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے بہت ہجویہ کلام بھی کہا ہے۔ حضرت حَسَّان بن ثابت ان کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے اور ان کے کلام میںجہاں یہ آتا کہ ابوسفیان کو یہ بات پہنچا دو تو اس سے مراد بھی عموماً ابوسفیان بن حارث ہوتا تھا۔ تاریخ الخمیس میں ہے کہ ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کرکہا تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَاِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ۔ یہ سورت یوسف کی آیت نمبر 92ہے کہ تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَاِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں اللہ کی قسم ہے اللہ نے آپ کو ہم پر یقیناً فضیلت دی ہے اور ہم بلاشبہ خطاکار تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان سے فرمایا۔لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔ يَغْفِرُ اللّٰہُ لَكُمْ۔وَہُوَاَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ(یوسف :93) اب تم پر کسی قسم کی ملامت نہیں ہو گی اور اللہ بھی تمہیں بخش دے گا اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ روایت کے مطابق حضرت علی نے ابوسفیان کو کہا تھا کہ تم اس طرح یہ فقرہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لو۔ روایت میں آتا ہے کہ اس وقت شرم و حیا کی وجہ سے ابوسفیان اپنا سر اوپر نہیں اٹھا رہا تھا جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا۔ بہرحال ابوسفیان بن حارث جو کہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں شعر کہتے تھے اب اسلام لانے کے بعد ان کی شاعری ساری کی ساری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت سے بھرپور تھی اور

انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت جن چند لوگوں سے ملتی تھی ان میں حضرت ابوسفیان بن حارث بھی تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی۔ ان کا شمار افضل صحابہؓ میں ہوتا تھا۔ ان کا اسلام بہت اچھا رہا۔ وفات سے تین دن پہلے خود انہوں نے اپنی قبر کھودی اور جب وفات کا وقت آیا تو کہنے لگے مجھ پر رونا مت کیونکہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے میں نے اپنے دامن کو کسی گناہ سے آلودہ نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر انہوں نے ایک دردناک مرثیہ کہہ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ میں بہت بے چین ہوں اس وجہ سے کہ میری رات ختم نہیں ہو رہی اور مصیبت زدہ آدمی کی رات تو لمبی ہوتی ہے اور رونے نے مجھے راحت دی ہے اور یہ رونا اس تکلیف کے مقابلے میں جو مسلمانوں کو پہنچی ہے کچھ بھی نہیں۔ جس شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس شام ہماری مصیبت اور بھی بڑی اور زیادہ ہو گئی۔ قریب ہے کہ ہماری سرزمین اس مصیبت کی وجہ سے جو اس پر آئی ہے ہمارے سمیت الٹ جائے۔ پھر لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے وحی ختم ہو گئی اور قرآن جسے جبرئیل صبح شام لایا کرتے تھے اترنا بند ہو گیا۔ حضرت فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے ایک شعر میں کہا کہ اے فاطمہ! اگر تُو اس موقع پر روئے تو تیرا رونا درست ہے اور اگر نہ روئے تو یہی اصل طریق ہے۔ پس تُو صبر میں پناہ لے کیونکہ اس میں خدا کی طرف سے ثواب ہے جو بہت بڑا فضل ہے اور تُو اپنے والد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں بیان کر اور تعریف کرنے سے نہ تھک کیونکہ آپ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو بیان نہیں کر سکتی۔

اس قصیدے میں وہ کہتے ہیں عربی شعر ہے:

فَقَبْرُ أَبِيْكِ سَيِّدُ كُلِّ قَبْرٍ

وَفِيْهِ سَيِّدُ النَّاسِ الرَّسُوْلُ

اے فاطمہ! تیرے باپ کی قبر تمام قبروں کی سردار ہے کیونکہ اس میں رسول کریمؐ دفن ہیں جو تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ حضرت ابوسفیان کی وفات پندرہ ہجری یا بیس ہجری میں ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔

عبداللہ بن ابو امیہ جو دوسرے تھے ان کا مختصر تعارف یہ ہے۔ ان کا نام حذیفہ آتا ہے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ کے بیٹے تھے۔ اس نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھی تھے اور ام المومنین حضرت ام سَلَمَہؓ کے بھائی تھے۔ جب آپؐ نے دعویٔ نبوت کیا تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید مخالف ہو گئے اور مخالفت کرنے والوں میں بہت بڑھ گئے تھے۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا (بنی اسرائیل :91) اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ہرگز تیری کوئی بات نہیں مانیں گے جب تک ایسا نہ ہو کہ تو ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کہنے والے یہی عبداللہ بن ابو امیہ تھے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے بڑی جانفشانی سے جنگِ حنین میں حصہ لیا اور غزوۂ طائف میں ایک تیر لگنے سے شہادت پائی۔(ماخوذ ازاسدالغابہ جلد6 صفحہ141 تا 143، جلد3صفحہ176 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(تاریخ الخمیس،جلد2 صفحہ 474 دار صادر بیروت)(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 868 دار الجیل بیروت)(شرح علامہ زرقانی جلد 3 صفحہ 399 تا 401 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین … حدیث 4317)

اس مہم میں

حضرت عباسؓ کی لشکر اسلام میں شمولیت

کے بارے میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طر ف سفر شروع کیا تو حضرت عباسؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے مکہ سے رختِ سفر باندھا۔ حضرت عباس جُحْفَہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے۔ جُحْفَہمکہ سے چھہتر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت عباس نے اپنے سامان کو مدینہ بھیج دیا اور خود واپس مکہ کی طرف آپ کے ساتھ سفر شروع کر دیا۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 213-214 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(الروض المعطار في خبر الأقطارصفحہ 156 مکتبہ لبنان 1984ء)

حضرت عباس بن عبدالمطَّلِبؓ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو یا تین سال بڑے تھے۔ اپنے بیٹے فضل بن عباس کی وجہ سے ابوالفضل کی کنیت سے مشہور تھے۔ حضرت ابوطالب کے بعد ’سِقَایَا‘ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا ان کے ذمہ تھا۔ عَقَبَہ کے مقام پر جب انصار کی بیعت ہوئی تو حضرت عباسؓ آپؐ کے ہمراہ تھے اور جنگِ حنین میں آپؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ بتیس یا تینتیس ہجری کو ان کی وفات ہوئی۔

حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کے متعلق مختلف روایات

ہیں۔ بعض کے نزدیک انہوں نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا۔ بعض کے نزدیک جنگِ بدر سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور بعض کے نزدیک جنگِ خیبر کے قریب اسلام قبول کیا اور بعض کہتے ہیں کہ فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحقیق کے مطابق بیعتِ عَقَبَہ ثانیہ تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ چنانچہ آپؓ بیعتِ عَقَبَہ ثانیہ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس کو ساتھ لیا جو ابھی تک مشرک تھے مگر آپ سے محبت رکھتے تھے۔ زیادہ غالب امکان ہے کہ حضرت عباسؓ نے جنگِ بدر سے پہلے تک اسلام قبول کر لیا ہو گا۔ البتہ اس بات پر تمام مؤرخین اور سیرت نگار متفق ہیں کہ مکہ میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا تا کہ مکہ اور اہل مکہ کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی رہیں اور یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے فرمایا تھا کہ آپؓ کا مکہ میں ٹھہرے رہنا زیادہ مفید ہے۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 2صفحہ 810 تا 812، 817)(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ163، 164 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(صحابہ کرام و تابعین کی زندگیوں کا تعارف تالیف محمد ناصر الدین صفحہ 588)(منتخب سیرت مصطفیٰ ﷺ، ازپروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیزبن ابراہیم العمری صفحہ 393)(سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ228)

فتح مکہ کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک خواب

بھی تھا جس کا ذکر یوں ملتا ہے کہ حضرت ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے خواب دکھایا گیا ہے اور میں نے خواب میں آپ کو دیکھا کہ ہم مکہ کے قریب ہو گئے ہیں۔ ایک کتیا بھونکتے ہوئے ہماری طرف آئی۔ پھر جب ہم اس کے قریب ہوئے تو وہ پشت کے بل لیٹ گئی اور اس سے دودھ بہنے لگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان مکہ والوں کا شر دُور ہو گیا اور نفع قریب ہو گیا۔ آپؐ نے یہ تعبیر فرمائی۔ وہ تمہاری قرابت داری کا واسطہ دے کر تمہاری پناہ میں آئیں گے اور تم ان میں سے بعض سے ملنے والے ہو۔ پھر آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓکو فرمایا کہ تم ابوسفیان کو پاؤ تو اسے قتل نہ کرنا۔ یہ دوسرے ابوسفیان ہیں۔(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 5 صفحہ 48 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

بہرحال آپؐ کے لشکر کا سفر جاری رہا اور مَرُّ الظَّہْرَان میں آپؐ نے پڑاؤ فرمایا۔ لکھا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین فوجی حکمت ِعملی اور دعاؤں کے سبب اتنا بڑا معجزہ رونما ہوتا ہے کہ مدینہ سے چلنے والا دس ہزار کا لشکر تقریباً چار سو کلو میٹر کا سفر کرتا ہوا مکہ کے عین پانچ میل کے فاصلے پر ڈیرے لگا چکا ہے لیکن ابھی تک مکہ والوں کو کانوں کان خبر بھی نہیں پہنچی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کے وقت مَرُّ الظَّہْرَان میں پڑاؤ کیا جو مکہ اور عُسفان کے درمیان مکہ سے پانچ میل کے فاصلے پہ ایک مقام ہے۔ آپؓ نے اپنے صحابہ ؓکو حکم دیا تو انہوں نے دس ہزار آگیں روشن کیں۔ آپ نے حضرت عمرؓ کو لشکر کی نگہداشت کے لیے مقرر کیا۔(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 213-214 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ماخوذازانسائیکلوپیڈیا سیرت النبیؐ صفحہ188 دار السلام)(معجم البلدان جلد 5صفحہ 123 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ

اسلامی لشکر کے بارے میں

لکھتے ہیں کہ کس طرح اسلامی لشکر کے بغیر کسی کو خبر ہوئے مکہ پہنچنے کے سامان ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ’’احزاب کی تاریخ کے سوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیار نہیں ہوا۔ احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی۔‘‘ جو مسلمانوں کا تھا ’’لیکن مدینہ سے اتنا بڑا لشکر نکلتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر یہ دکھاتا ہے کہ میں اس نوبت خانہ کو بجاتا ہوں جو میرا ہے اور اس نوبت خانہ کو توڑ رہا ہوں جو ان کا ہے۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپؐ نے فرمایا اے میرے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مکہ والوں کے کانوں کو بہرہ کر دے اور ان کے جاسوسوں کو اندھا کر دے۔ نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ ان کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے۔ چنانچہ آپؐ نکلے۔ مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھا لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتا ہے اور کوئی اطلاع مکہ میں نہیں پہنچتی۔‘‘(سیر روحانی(7)انوارالعلوم جلد 24 صفحہ262)

وہاں گو سات ہزار ہی تھے لیکن پھر بھی بہت بڑی تعداد تھی اور رستے میں شامل ہوتے گئے لیکن مدینہ والوں کو، منافقوں کو پھر بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ خبر پہنچا سکیں۔ جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ ابھی تک قریش یا اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی بلکہ مکہ کے قریب تک آ جانے کی کوئی خبر نہیں پہنچی۔ وہ اس بات سے فکرمند ضرور تھے کہ آپ ان پر حملہ آور ہوں گے لیکن انہیں امید نہیں تھی کہ مسلمان ان پر حملہ کر سکتے ہیں البتہ اہل مکہ کسی قدر چوکنے ضرور ہو گئے تھے اور وہ رات کے وقت بھی ارد گرد کا احوال دیکھنے کے لیے گشت کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح ایک رات ابوسفیان مکہ کے دو سرداروں حکیم بن حِزَام اور بُدَیل بن وَرْقَاء کے ساتھ گشت کر رہے تھے۔ انہوں نے لشکر، خیمے اور آگ دیکھی گویا کہ وہ عرفات کی آگ ہو۔ اب وہ آپس میں اندازے لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ بنو کعب یعنی خُزَاعَہ ہوں گے۔ انہیں ابھی تازہ ہونے والی جنگ نے مشتعل کر دیا ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگے۔ اندازے لگا رہے تھے ناں۔ کہ ان کی تعداد اس قدر نہیں ہے۔ وہ نہیں ہو سکتے۔ پھر کہنے لگے کہ بنو ہَوَازِن ہوں گے۔ پھر خود ہی نفی کر دی کہ وہ بھی نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اندازے لگا رہے تھے کہ انہوں نے گھوڑوں کے ہنہنانے اور اونٹوں کی آوازیں سنیں۔ اس سب نے انہیں شدید خوفزدہ کر دیا۔(ماخوذاز سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 213-214 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(فتح مکہ از باشمیل صفحہ199 نفیس اکیڈمی کراچی)

ابھی یہ باتیں کر رہے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جاسوس جو ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پہرہ دے رہے تھے انہوں نے ان کو پکڑ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لے گئے۔ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر ابوسفیان کے قریب آنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تھی۔ چنانچہ حضرت ابولَیْلیٰ ؓسے روایت ہے کہ ہم مَرُّ الظَّہْرَان کے مقام پر آپؐ کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوسفیان اَرَاک میں ہے جو مکہ کے قریب ایک وادی ہے اسے پکڑ لاؤ۔ ہم وہاں گئے اور اسے پکڑ لیا۔ ابن عُقْبَہ نے لکھا ہے کہ ابوسفیان، حکیم بن حِزَام اور بُدَیل بن وَرْقَاء کو علم تک نہ ہوا یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ کے اس گروہ نے انہیں جا پکڑا جن کو آپؐ نے جاسوس کے طور پر بھیجا تھا۔ انہوں نے ان کےاونٹوں کی نکیلیں پکڑ لیں۔ ابوسفیان وغیرہ نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اتنا بڑا لشکر کسی قوم کے درمیان اترا ہو لیکن وہ اسے جانتے نہ ہوں۔ بغیر اطلاع کے اتنا بڑا لشکر کس طرح آ گیا۔

دوسری روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرالظہران پہنچے تو حضرت عباسؓ کا دل اہلِ مکہ کے لیے نرم ہوا۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید شَہْبَاء نامی خچر پر سوار ہو کر مقام اَراک تک آئے اور دل میں سوچا کہ شاید کوئی آدمی مل جائے جو مکہ والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دے دے اور ان سے کہے کہ وہ آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کی درخواست کریں قبل اس کے کہ آپ بزور طاقت مکہ میں داخل ہوں۔ وہ ابھی یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ انہوں نے ابوسفیان، حکیم بن حِزَام اور بُدَیل بن وَرْقَاء کی آواز سنی۔ ابوسفیان کہہ رہا تھا میں نے آج تک نہ کبھی ایسی آگ دیکھی ہے نہ فوج اور بُدَیل کہہ رہا تھا اللہ کی قسم! یہ خُزَاعَہ والوں کی آگ ہے۔ جنگ کی خواہش نے ان کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا اللہ کی قسم! خُزَاعَہ والے کمزور اور تعداد میں کم ہیں۔ یہ ان کی آگ اور فوج نہیں ہو سکتی۔ حضرت عباس نے ان کی آوازیں سن لیں اور ان کو پہچان لیا اور ابوسفیان نے بھی انہیں پہچان لیا۔ حضرت عباس ابوسفیان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور ان کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے۔ اکیلے ابوسفیان کو لے گئے دوسرے ساتھیوں کو چھوڑ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس انہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔(ماخوذاز سبل الہدیٰ جلد 5صفحہ 214تا216دار الکتب العلمیۃ بیروت)(معجم البلدان مترجم ڈاکٹر غلام جیلانی برق صفحہ37 الفیصل ناشران لاہور)

حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ ’’اِدھر تو‘‘مسلمانوں کا ’’یہ لشکر مکہ کی طرف مارچ کرتا چلا جا رہا تھا اور ادھر مکہ والے اِس خاموشی کی وجہ سے جو فضا پر طاری تھی زیادہ سے زیادہ خوف زدہ ہوتے جاتے تھے۔ آخر انہوں نے مشورہ کر کے ابوسفیان کو پھر اِس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مکہ سے باہر نکل کر پتہ تو لے کہ مسلمان کیا کرنا چاہتے ہیں۔ مکہ سے ایک منزل باہر نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تمام خیموں کے آگے آگ جلائی جائے۔ جنگل میں دس ہزار اشخاص کے لیے خیموں کے آگے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک نظارہ پیش کررہی تھی۔ ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا آسمان سے کوئی لشکر اترا ہے؟ کیونکہ عرب کی کسی قوم کا لشکر اتنا بڑا نہیں ہے۔ اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لیے لیکن اس نے کہا نہیں نہیں۔ عرب کے قبائل میں سے کسی قوم کا لشکر بھی اتنا بڑا کہاں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بات کرہی رہا تھا کہ اندھیرے میں سے آواز آئی۔ ابوحَنْظَلَہ! (یہ ابوسفیان کی کنیت تھی) ابوسفیان نے کہا عباس! تم یہاں کہاں؟ انہوں نے جواب دیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر سامنے ہے اور اگر تم لوگوں نے جلد جلد کوئی تدبیر نہ کرلی تو شکست اور ذلت تمہارے لیے بالکل تیار ہے۔ ‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ 337-338)

یعنی یہی ہے کہ اب صلح کی طرف آ جاؤ۔

بہرحال اس کے آگے تفصیل میں مزید بھی ہے۔ کافی لمبی اس کی تفصیلیں ہیں ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا اور جیسا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں

دعاؤں کی طرف توجہ دیتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو فسادوں سے بچائے اور ابھی اوپر نیچے جو صورتحال ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ بہتر کرے کہ یہ بہتری کی طرف چلی جائے۔ مزید تباہی کی طرف نہ جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ جون 2025ء شہ سرخیاں

    جب نبی اکرمﷺ کا لشکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا تو اِس کی تعداد سلیمان نبی کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار تک پہنچ چکی تھی

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اس خط کی بابت آپؐ کو اطلاع دے دی جو قریش مکہ کوآپؐ کے پروگرام سے مطلع کرنے کے لیے پوشیدہ طور پر بھجوایا جارہا تھا

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت جن چند لوگوں سے ملتی تھی ان میں حضرت ابوسفیان بن حارث ؓبھی تھے

    غزوۂ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا پُر اثر بیان

    فرمودہ 20؍ جون 2025ء بمطابق 20؍ احسان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور