حضرت نُعمان بن عبد عَمروؓ

خطبہ جمعہ 19؍ جولائی 2019ء

حضرت نُعمان بن عبد عَمروؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خَزرج کی شاخ بنو دِینَار بِن نَجَّارسے تھا۔ ان کے والد کا نام عبدِ عَمرو بن مسعود تھا اور والدہ کا نام سُمَیراء بنتِ قَیْس تھا۔ حضرت نُعمان بن عبد عمروؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ جنگ بدر میں ان کے بھائی ضَحَّاک بن عبد عمرو بھی ان کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت نُعمان بن عبد عمروؓ کو غزوۂ احد میں شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ حضرت نعمانؓ اور حضرت ضحاکؓ کا ایک تیسرا بھائی بھی تھا جن کا نام قُطْبَہؓ تھا، انہیں بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ واقعہ بئر معونہ میں حضرت قطبہؓ کی شہادت ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ394 ’’النعمان بن عبد عمرو‘‘، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان 2012ء) (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 5 صفحہ 316 ’’النعمان بن عبد عمرو‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو دینار کی ایک عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند، بھائی اور باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور وہ سب شہید ہو گئے تھے۔ جب ان کی تعزیت اس عورت سے کی گئی تو اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ اے اُمِّ فلاں ! آپؐ ٹھیک ہیں اور الحمد للہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ تو پسند کرتی ہے، تو اس عورت نے جواب دیا کہ مجھے دکھاؤ میں آپؐ کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ تو پھر اس عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے دکھایا گیا۔ جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگی کہ ہر مصیبت آپؐ کے بعد معمولی ہے۔ (السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 545، باب غزوة اُحد، شَأْنُ الْمَرْأَةِ الدِّينَارِيَّةِ، دار الکتب العلمیة بیروت 2001)

ایک اور روایت میں اس عورت کے بیٹے کے شہید ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ احد کے موقعے پر جب اہلِ مدینہ بہت گھبراہٹ کا شکار ہو گئے تھے کیونکہ یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے حتی کہ مدینے کے گلی کوچوں میں چیخ پکار مچ گئی تھی تو ایک انصاری خاتون پریشان ہو کر گھر سے نکلی تو اس نے آگے اپنے بھائی، بیٹے اور شوہر کی لاش دیکھی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ پہلے اس نے کسے دیکھا تھا مگر جب وہ آخری کے پاس سے گزری تو اس نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ تیرا بھائی، تیرا شوہر، تیرا بیٹا ہے۔ اس نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا وہ آ گے ہیں۔ وہ عورت چلتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور پھر کہا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ! جب آپؐ سلامت ہیں تو مجھے کسی نقصان کی کوئی پروا نہیں۔ (المعجم الاوسط للطبرانی حدیث7499جلد 05 صفحہ 329-330 من اسمہ محمد، دار الفکر بیروت 1999)

ایک قول کے مطابق اس عورت کا نام سُمَیراء بنتِ قَیسؓ تھا جو نُعمان بن عبدِ عَمروؓ کی والدہ تھیں۔ (کتاب المغازی لمحمد بن الواقدی جلد 1 صفحہ 251-252، باب غزوة احد۔ دار الکتب العلمیة بیروت2001)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعے پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں اس بہادری کی مثالیں بہت کثرت سے ملتی ہیں۔ دنیوی لوگوں میں تو کروڑوں لوگوں اور سینکڑوں ملکوں میں سے ایک آدھ مثال ایسی مل سکے گی مگر صحابہؓ میں، چند ہزار صحابہؓ میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ مثال ہے جو ایک عورت سے تعلق رکھتی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کئی دفعہ اسے بیان کر چکا ہوں۔ (یہ مثال میں بھی یہاں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں) اور جو اس قابل ہے کہ ہر مجلس میں سنائی جائے اور اس کی یاد کو تازہ رکھا جائے۔ بعض واقعات ایسے شاندار ہوتے ہیں کہ بار بار سنائے جانے کے باوجود پرانے نہیں ہوتے۔ ایسا ہی واقعہ اس عورت کا ہے جس نے جنگ احد کے موقعے پر مدینے میں یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ وہ مدینے کی دوسری عورتوں کے ساتھ گھبرا کر باہر نکلی اور جب پہلا سوار احد سے واپس آتے ہوئے اسے نظر آیا تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ تمہارا خاوند مارا گیا ہے۔ اس نے کہا میں نے تم سے رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا ہے اور تم میرے خاوند کی خبر سنا رہے ہو۔ اس نے پھر کہا کہ تمہارا باپ بھی مارا گیا ہے۔ مگر اس عورت نے کہا میں تمہیں رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں اور تم باپ کا حال بتا رہے ہو۔ اس سوار نے کہا کہ تمہارے دونوں بھائی بھی مارے گئے۔ مگر اس عورت نے پھر یہی کہا کہ تم میرے سوال کا جواب جلد دو۔ میں رشتے داروں کے متعلق نہیں پوچھتی۔ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں۔ اس صحابی کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ آپؐ بخیریت ہیں۔ اس لیے اس کے نزدیک اس عورت کے لیے سب سے اہم سوال یہی تھا کہ اس کے متعلقین کی موت سے اسے آگاہ کیا جائے مگر اس عورت کے نزدیک سب سے پیاری چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔ اس لیے اس نے جھڑک کر کہا کہ تم میرے سوال کا جواب دو۔ اس پر اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا کہ جب آپؐ زندہ ہیں تو پھر مجھے کوئی غم نہیں خواہ کوئی مارا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اور ظاہر ہے کہ اس مثال کے سامنے اس بڑھیا کی مثال کی کوئی حقیقت نہیں جس کے متعلق خودنامہ نگار کو اعتراف ہے، (کسی واقعہ کے بارے میں ذکر کر رہے ہیں کہ اس کا دل مغموم)غم کے بوجھ سے دبا ہوا معلوم ہوتا تھا اور آپؓ بیان کرتے ہیں وہ دل میں رو رہی تھی۔ کسی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ دل مغموم تھا اور دل میں رو رہی تھی لیکن اظہار نہیں کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مگر صحابیہ کا واقعہ یہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اس نے ضبط کیا ہوا تھا اور دل میں رو رہی تھی اور ظاہر نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ صحابیہ تو دل میں بھی خوش تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ اس عورت کے دل پر صدمہ ضرور تھا گو وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جس عورت کا بھی اپنے اس بیان میں ذکر فرما رہے ہیں یا اخباروں نے اس زمانے میں اس کو لکھا تھا جب آپؓ نے یہ بیان فرمایا مگر اس صحابیہ کے دل پر تو کوئی صدمہ بھی نہیں تھا اور یہ ایسی شاندار مثال ہے کہ دنیا کی تاریخ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی اور بتاؤ اگر ایسے لوگوں کے متعلق یہ نہ فرمایا جاتا کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ تو دنیا میں اَور کون سی قوم تھی جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جاتے؟ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں میں جب اس عورت کا واقعہ پڑھتا ہوں تو میرا دل اس کے متعلق ادب اور احترام سے بھر جاتا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس مقدس عورت کے دامن کو چھوؤں اور پھر اپنے ہاتھ آنکھوں سے لگاؤں کہ اس نے میرے محبوب کے لیے اپنی محبت کی ایک بے مثل یادگار چھوڑی۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 20 صفحہ542-543 خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1939)

پھر اسی عشق و محبت کا ذکر بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپؓ نے اس طرح بیان فرمایا کہ ’’دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔‘‘ (قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ۔ انوار العلوم جلدنمبر 25 صفحہ 439-440)

پھر ایک دوسری جگہ آپؓ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ ذرا اس حالت کا نقشہ اپنے ذہنوں میں اب کھینچو۔ تم میں سے ہر ایک نے مرنے والے کو دیکھا ہو گا۔ کوئی نہ کوئی قریبی مرتا ہے۔ کسی نے اپنی ماں کو، کسی نے باپ کو، کسی نے بھائی کو، بہن کو مرتے دیکھا ہو گا۔ ذرا وہ نظارہ تو یاد کرو کہ کس طرح اپنے عزیزوں کے ہاتھوں میں اور گھروں میں اچھے سے اچھے کھانے پکوا کر اور کھا کر، علاج کروا کر اور خدمت کرا کر مرنے والوں کی حالت کیا ہوتی ہے اور کس طرح گھر میں قیامت برپا ہوتی ہے اور مرنے والوں کو سوائے اپنی موت کے کسی دوسری چیز کا خیال تک بھی نہیں ہوتا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے دلوں میں ایسا عشق پیدا کر دیا تھا کہ انہیں آپؐ کے مقابلے میں کسی اَور چیز کی پروا ہی نہ تھی مگر یہ عشق صرف اس وجہ سے تھا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر عشق تھا تو اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ آپؐ کے محمدؐ ہونے کی وجہ سے عشق نہیں تھا بلکہ آپؐ کے رسولؐ اللہ ہونے کی وجہ سے یہ تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ دراصل خدا تعالیٰ کے عاشق تھے اور چونکہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا تھا اس لیے آپؐ کے صحابہ آپؐ سے پیار کرتے تھے اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی دیکھ لو ان کے دلوں میں بھی آپؐ کی ذات کے ساتھ کیا محبت اور کیا عشق تھا۔ پھر آپؓ نے اس عورت کا یہ واقعہ بھی بیان فرمایا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ محبت تھی جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی تھی مگر باوجود اس کے وہ خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور یہی توحید تھی جس نے ان کو دنیا میں ہر جگہ غالب کر دیا تھا۔ خدا تعالیٰ کے مقابلے میں وہ نہ ماں باپ کی پروا کرتے تھے اور نہ بہن بھائیوں کی اور نہ بیویوں کی اور خاوندوں کی۔ ان کے سامنے ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان کا خدا ان سے راضی ہو جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رضی اللہ عنہم فرما دیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مقدم کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدم کیا مگر آپؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ رہی اور اب اگر ان کو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو محض دماغی ہے۔ دماغ میں ضرور ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں۔ توحید کے قائل ہیں۔ دل میں یہ نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اگر ان کے سامنے کیا جائے تو ان کے دلوں میں محبت کی تاریں ہلنے لگتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کے ذکر پہ بھی تاریں ہلتی ہیں۔ (ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 23 صفحہ 46-47، خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1942)