حضرت وَاقِد بن عبداللہؓ

خطبہ جمعہ 19؍ جولائی 2019ء

حضرت واقدؓ کے والد کا نام عبداللہ بن عَبْدِ مَنَاف تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو تمیم سے تھا۔ حضرت واقدؓ خَطَّاب بن نُفَیل کے حلیف تھے۔ اور ایک قول کے مطابق وہ قریش کے قبیلہ بنو عدی بن کعب کے حلیف تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء) (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ403 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں جن افراد کے اسلام قبول کرنے کا ذکر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے ان میں حضرت واقدؓ بھی شامل ہیں۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 1 صفحہ170، ذکر من اسلم من الصحابۃ بدعوۃ ابی بکر ؓ دار الکتاب العربی بیروت 2008 ء)

حضرت واقدؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)

دار ارقم کے بارے میں کچھ عرصہ ہوا مَیں بیان کر چکا ہوں کہ یہ کیا تھا۔ مختصر طور پر بیان کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خیال پیدا ہوا کہ مکّے میں ایک تبلیغی مرکز قائم کیا جائے جہاں مسلمان جمع ہوں، نماز وغیرہ کے لیے آئیں اور بے روک ٹوک اور اطمینان سے اپنے تربیتی امور کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ اسی طرح اسلام کی تبلیغ بھی وہاں کی جا سکے تو اس غرض کے لیے ایک مکان کی ضرورت تھی جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نومسلم ارقم بن ابی ارقمؓ کا مکان پسند فرمایا جو کوہِ صفا کے دامن میں تھا۔ اس کے بعد مسلمان یہیں جمع ہوتے تھے، یہیں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ لوگ جنہیں حق کی تلاش تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب آتے تھے تو آپ ان کو یہیں اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ مکان تاریخ میں خاص شہرت حاصل کر گیا اور دارالاسلام کے نام سے بھی مشہور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریباً تین سال تک دارِ ارقم میں کام کیا۔ یعنی بعثت کے چوتھے سال آپ نے اسے اپنا مرکز بنایا اور چھٹے سال کے آخر تک آپ نے اس میں یہ تبلیغی سرگرمیاں اور تربیتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ دارِ ارقم میں اسلام لانے والوں میں آخری شخص حضرت عمرؓ تھے جن کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور وہ دارِ ارقم سے نکل کر کھلے طور پر تبلیغ کرنے لگ گئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 129)

حضرت عمرؓ نے جب مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو اس وقت حضرت عمرؓ کے خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت واقِدؓ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت واقدؓ نے مکّے سے مدینہ ہجرت کے وقت حضرت رِفاعہ بن عبدالمنذِرؓ کے ہاں قیام کیا پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت واقدؓ اور حضرت بِشْر بن بَرَاءؓ کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 298 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)

حضرت واقدؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 299 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عبداللہ بن جَحشؓ کی قیادت میں ایک سَریہ بھجوایا تو اس میں حضرت واقدؓ بھی شامل تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ403 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)

اس سریے میں کفار کے ایک شخص عَمرو بن حَضْرَمِی قتل ہوا اسے حضرت واقدؓ نے قتل کیا تھا۔ اسلام میں یہ پہلا مشرک تھا جو قتل ہوا اور حضرت واقدؓ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کسی مشرک کو کسی جنگ میں قتل کیا ہو۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃجلد5 صفحہ404 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)

اس سریہ کی تفصیل حضرت عبداللہ بن جَحشؓ کے ضمن میں مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ حضرت واقدؓ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کے آغاز میں وفات پائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3 صفحہ 299 واقد بن عبداللہ دارالکتب العلمیۃبیروت1990ء)