حجة اللہ

روحانی خزائن جلد 12

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

اس کتاب کے لکھنے سے پہلے مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا۔ اور آپ کی عربی دانی پر معترض ہوا۔ اور اپنی قابلیت جتانے کے لیے عربی زبان میں مباحثہ کرنے کی آپؑ کو دعوت دی۔ اس دعوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرماتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ چونکہ آپ کے نزدیک میں عربی نہیں جانتا اور محض جاہل ہوں۔ اس لیے اگر آپ مقابلہ کے وقت مجھ سے شکست کھا گئے تو آپ کو خدا تعالی کی طرف سے اسے ایک معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہونا ہوگا لیکن جب مولوی غزنوی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اس کا ساتھی شیخ نجفی کچھ بولا۔ تو آپ نے مولوی غزنوی اور شیخ نجفی کو مخاطب کر کے یہ رسالہ فصیح وبلیغ عربی میں ۱۷؍مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھنا شروع کیا اور ۲۶؍مئی۱۸۹۷ء کو مکمل کر دیا۔ اس رسالہ میں جو اسرار ربانیہ اور محاسن ادبیہ پر مشتمل ہے آپؑ نے مکفّرین علماء پر حجت قائم کرنے کے لئے نجفی اور غزنوی کے علاوہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی ان الفاظ میں دعوت مقابلہ دی کہ اگر وہ تین چار ماہ تک ایسی کتاب پیش کر دیں تو اس سے میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا بے شک وہ جن ادباء سے مدد لینا چاہیں لے لیں اگر وہ اس رسالہ کی نظیر حجم و وضخامت اور نظم و نثر کے موافق شائع کردیں اور پروفیسر مولوی عبداللہ یا کوئی اور پروفیسر حلف مؤکد بعذاب اٹھا کر ان کے تحریر کردہ رسالہ کو میرے رسالہ کے برابر یا اعلٰی قرار دیں اور پھر قسم کھانے والا میری دعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الہی میں ماخود نہ ہو تو میں اپنی کتابیں جو اس وقت میرے قبضہ میں ہوں گی جلا کر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اس طریق سے روز روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابلہ پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہیے کہ وہ جھوٹا ہے۔ آپؑ نے اس کتاب کے آخر میں تحریر فرمایا کہ یہ کتاب تکذیب و استہزاء کرنے والے علماء کے لیے آخری وصیت کی طرح ہے۔ اور اس اتمام حجت کے بعد ہم ان سے خطاب نہیں کریں گے۔ لیکن نہ تو بٹالوی صاحب مقابلہ کے لیے سامنے آئے اور نہ غزنوی اور شیخ نجفی اور نامخالف علماء میں سے کسی اور کو اس رسالہ کے مقابلہ میں فصیح و بلیغ عربی رسالہ لکھنے کی جرات ہوئی۔