آریہ دھرم

روحانی خزائن جلد 10

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

‘آریہ درھم’ کی تالیف کی وجہ یہ ہوئی کہ قادیان کے آریہ سماجیوں نے پادریوں کی نقل کرتے ہوئے سیّد المعصومین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر نہایت گندے اور ناپاک الزامات لگائے اور بذریعہ اشتہار ان کی اشاعت کی۔ دوسری وجہ یہ ہوئی کہ آپ کو جب یہ معلوم ہوا کہ پنڈت دیانند صاحب آ ریوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ نیوگ کو اپنی بیویوں اور بہو بیٹیوں میں وید کی شرائط کے موافق رائج کریں تو مسئلہ نیوگ کے متعلق آپؑ نے پوری تحقیق کی۔ اور اپنی تحقیقات کا نتیجہ اس کتاب میں ذکر کیا۔ اور نیوگ کی برائیاں اور مفاسد الم نشرح کیں اور تعجب کا اظہار فرمایا کہ نایوگ پر جو صریح زنا کاری ہے عمل کرنے والے بھی سیّد المعصومین والمطہرینؐ پر ناپاک الزام لگاتے ہیں۔ اور اسلام کی اخلاقی تعلیم پر معترض ہیں۔ الغرض آپؑ نے اس کتاب میں نیوگ پر تفصیلی بحث کی ہے اور اسلام کے مسئلہ طلاق اور متعہ وغیرہ پر آریوں کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں۔ اور فلسفہ اطلاق بیان فرمایا ہے۔

اور آخر کتاب میں مذہبی مباحثات سے متعلق تمام مذاہب سے خطاب کرتے ہوئے گورنمنٹ کی خدمت میں ایک قانون پاس کرنے یا سرکلر جاری کرنے کے لیے ایک نوٹس اور ایک درخواست کا مضمون بھی لکھا ہے جس پر متعدد صوبہ جات اور مقامات کے مسلمانوں نے دستخط اور مواہیر بھی ثبت کیں اور گورنمنٹ سے یہ التماس کی ہے کہ وہ مذہبی مباحثات کے لیے یہ قانون پاس کرے یا سر کلر جاری کرے کہ اہل مذاہب معترضین دو امر کے ضرور پابند رہیں گے۔ اول۔ کوئی معترض ایسا اعتراض دوسرے فرقہ پر نہ کرے جو خود معترض کی ان کتابوں پر پڑتا ہو جن پر اس کا ایمان ہے۔ دوم۔ اگر کوئی فریق اپنی مسلمہ کُتب کے نام بذریعہ چھپے ہوئے اشتہار کے شائع کر دے تو کوئی معترض ان کتابوں سے باہر نہ جائے۔ اور اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو دفع ۲۹۸ تعزیرات ہند میں مندرجہ سزا کا مستوجب ہو۔ مگر قارئین کرام یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جس قانون کے نافذ ہونے سے عیسائیوں اور آریوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر اعتراض کرنے سے زبان بند ہو سکتی تھی اس درخواست کی مخالفت مسلمان کہلانے والے مولویوں خصوصا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی۔