رسالہ الوصیت

روحانی خزائن جلد 20

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

یہ دسمبر ۱۹۰۵ء کی تصنیف ہے۔ اس رسالہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ تمام الہامات درج فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؑ کی وفات قریب ہے۔ نبی کی وفات سے اس کی قوم میں جو زلزلہ پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق حضور نے جماعت کو تسلّی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کی قدیم سے یہ سنّت ہے کہ وہ دو قدرت دکھلاتا ہے۔

(۱) پہلی قدرت نبی کا وجود ہوتا ہے (۲) اور نبی کی وفات کے بعد قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا جنہوں نے اسلام کو نابود ہوتے ہوئے تھام لیا۔ گویا حضور علیہ السلام نے جہاں اپنی وفات کی خبر دی وہاں ساتھ ہی خلافت کے ایک دائمی سلسلہ کی اپنی جماعت میں جاری ہونے کی بشارت بھی دی۔

اس رسالہ میں حضور علیہ السلام نے الہی منشاء کے ماتحت اشاعتِ اسلام اور تبلیغ احکام قرآن کے مقاصد کے لیے ایک دائمی اور مستقل اور روز افزوں نظام کے قیام کا اعلان فرمایا ہے جو نظام الوصیت کے نام سے مشہور ہے۔ اور یہی آئندہ دنیا کے مختلف اقتصادی نظاموں میں “نظامِ نو” ثابت ہوگا۔ جس کی رُو سے اشاعتِ اسلام کی خاطر ہر وصیت کرنے والے کو اپنی آمد اور جائیداد کا کم از کم دسواں حصہ سلسلہ کو دینا ہوگا۔ وصیت کنندہ کا ذاتی طور پر متقی، محرمات سے پرہیز کرنا اور شرک و بدعت سے مجتنب اور سچا اور صاف ہونا بھی شرط ہے۔ حضور علیہ السلام نے الہی منشاء کے تحت ایسے وصیت کرنے والوں کے لیے ایک مقبرہ تجویز فرمایا۔

الوصیت کے رسالہ کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی شامل ہے جس میں وصیت اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے تفصیلی قواعد خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے درج ہیں۔اور آخر میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کے اجلاس اوّل منعقدہ ۲۹؍جنوری ۱۹۰۶ء کی روئیداد بھی درج ہے جو نظام الوصیت کے متعلق ہی ہے۔



Apple Books

Google Play