امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ

فہرست مضامین

امامِ اعظم حضرت ابو حنیفہؒ

مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ “آپ جیساآدمی مر نہیں سکتا”

پیارے بچو! اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔

بچو! سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام ہمارے بزرگوں نے کیے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم کوشش کریں۔ جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا چاہو گے۔

آؤ! آج مَیں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالمِ دین “امام اعظم ابو حنیفہؒ “ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں:

بچو!کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے۔ پتہ ہے!جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی کرگئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کسریٰ کی زبردست حکومت کو بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ 17ھ میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات بنائے گئے۔ عرب کے مختلف قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس شہر نے بہت مقبولیت حاصل کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔ اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ بھی تھے۔

بچو! ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی طرح “دار العلم” یعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی۔

اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ 80ھ عبدالملک بن مروان کا عہدِ حکومت تھا۔ یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی زمانہ) کہلاتاہے۔

بچو! یہ تو تم جانتے ہوکہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا زمانہ تھا۔ ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس مبارک زمانہ کو پایا جس میں کچھ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔

بچو! حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا۔ آپ کے دادا کا نام زوطی اور والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کا خاندان ایران کا ایک مشہور اور باعزّت خاندان تھا۔ جب ایران میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا زوطی نے اسلام قبول کرلیا۔ گھر اور خاندان والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عرب تشریف لے آئے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ آپ کے دادا کوفہ میں ٹھہر گئے۔ یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہؒ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعابھی کی۔ آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر چالیس سال تھی۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجّاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجّاج بن یوسف بہت ظالم گورنر تھا۔ عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت میں 95ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہوگیا۔

ہمارے پیارے بزرگ امام ابو حنیفہؒ کاتمام بچپن ایسی حالت میں گذراکہ ملک کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ امن وامان نہیں تھا۔ قرآن کریم حفظ کرلینے کے بعد ابھی دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ حجّاج بن یوسف کا زمانہ تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ اب بچو! آپ نے دینی علوم تو حاصل کیے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے۔ وہ شخص کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر ایک دینی فریضہ تک کا آپ کو پتہ نہیں۔ امام صاحبؒ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر لیا کہ اب مَیں دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبدالملک کے حصّے میں آئی جو ولید کا سگا بھائی تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو اپنا مشیر خاص بنایا۔ پھر باوجود اس کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود تھے اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو ولی عہد منتخب کیا۔ سلیمان بن عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی جانب ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ بحث ومباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہوچکی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر17سال تھی۔ آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے۔ اپنی دیانتداری کی وجہ سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حاصل کی۔

بچو! ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ راستہ میں امام شعبیؒ کامکان تھا۔ آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے۔ امام شعبیؒ نے ابو حنیفہؒ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟

آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں۔ امام شعبیؒ نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا۔ کسی سے بھی نہیں پڑھتا۔ اس پر امام شعبیؒ نے فرمایا “تمہیں چاہیے کہ عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو اور علم حاصل کیاکرو۔”

بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ تھے۔ آپ فضول گفتگو بالکل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اسے جواب دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم سمجھتا تھا۔ امام شعبیؒ کی بات نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکّا فیصلہ کرلیا کہ اب مَیں عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! تم نے یہ پیاری حدیث بھی سُنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص بھی علم حاصل کرناچاہتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتاہے۔ حضرت امام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اس زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جوبات سمجھ نہ آتی وہ ان سے پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے۔

کوفہ میں امام حمادؒ کی درس گاہ بہت بڑی اور مشہور تھی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی درس گاہ کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تم میں سے اکثربچوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں؟ آؤ مَیں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کا علم کیاہوتاہے؟

دیکھو بچو! ہمارے پیارے اللہ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری اور مکمل کتاب نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیاہے کہ مَیں یہ خط پڑھ کر تمہیں سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں۔ اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی مَیں کروں تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل مَیں نے خدا کے حکم کے مطابق کیاہے۔ دینی یا دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور میری بات اور عمل کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کرلینا۔

بچو! جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ لوگوں کو زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کرکے رہنمائی فرما دیتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو صحابہ غور کرتے کہ اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے اورآپؐ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد تھا۔ اس طرح قرآن، سنّت اور حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل کیاکرتے تھے۔

بچو! اب تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ “فقہ اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مختلف قسم کے مسائل کے متعلق حل بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وضو اس طرح کرنا چاہیے، نماز اس طرح پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح زکوٰۃ، روزہ، حج، نکاح کے علاوہ لین دین اور ورثہ اور روزمرہ کے مسائل۔ بچے کی ولادت سے لے کراس کی وفات تک کے مسائل کو علم فقہ کے ذریعہ بتایا گیاہے۔”

فقہ کا علم جاننے والا فقیہ کہلاتاہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ کے علم کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث اور قرآن کریم کا علم اچھی طرح آتا ہو۔ اس لیے آپ نے قرآن کریم اور حدیث کا علم بھی حاصل کیا۔ آپ نے کوفہ میں کوئی ایسا محدث یعنی حدیث بیان کرنے والا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے حدیث کا علم حاصل نہ کیاہو۔ حدیث کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے آپ بصرہ اور شام بھی تشریف لے گئے۔ امام حمادؒ کے علاوہ آپ نے فقہ کا علم حضرت امام جعفرصادقؒ سے بھی سیکھا حضرت امام اعظم نے امام حمادؒ سے فقہ کا علم اتنا سیکھ لیا تھا کہ ایک بار امام حمادؒ نے فرمایا کہ:۔

“اے ابو حنیفہ! تو نے مجھ کو خالی کردیا۔”

یعنی جتنا علم میرے پاس تھا تو نے وہ سب حاصل کرلیا۔ آپ کے استاد امام حمادؒ آپ سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام حمادؒ سفر پر گئے۔ کچھ دن بعد واپس آئے تو آپ کے صاحبزادے اسمٰعیل نے آپ سے پوچھا: ابّاجان! آپ کو سب سے زیادہ کس کو دیکھنے کا شوق تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابو حنیفہ کو دیکھنے کا۔ اگر یہ ہوسکتا کہ مَیں کبھی نگاہ ان کے چہرے سے نہ ہٹاؤں تو یہی کرتا۔ امام ابو حنیفہ سے محبت اور ان کے علم و ذہانت کی وجہ سے ایک بار جب امام حمادؒ سفر پر روانہ ہوئے تو اپنی جگہ امام ابو حنیفہ کو بٹھا گئے۔

کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہؒ نے امام حمادؒ سے فقہ اور حدیث کا علم سیکھا۔ لیکن ان کاخیال تھا کہ اب مجھے مکّہ معظمہ جانا چاہیے اس لیے کہ وہ تمام مذہبی علوم کا اصل مرکز ہے۔ چنانچہ آپ مکّہ معظمہ پہنچے اور مزید علم حاصل کرنے کے لیے عطاء بن ابی رباحؒ کی درس گاہ کا انتخاب کیا۔ عطاء بن ابی رباحؒ مشہور تابعین میں سے تھے۔ تابعین سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ہو اور ان سے ملاقات کی ہو۔ یہاں پر بھی آپ نے اپنے علم اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی استاد محترم کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کرلی۔

یہ تو امام صاحبؒ کے بچپن اور ان کی تعلیمی زندگی کا مختصر حال تھا۔ چلو اب دیکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے علم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کس طرح بسر کی۔

امام صاحبؒ کو اپنے استاد امام حمادؒ سے بہت محبت تھی اس لیے ان کی زندگی میں آپ نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اپنا الگ سکول قائم کریں۔ امام صاحبؒ کی اپنے استاد محترم کے ساتھ محبت کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ جب تک امام حمادؒ زندہ رہے حضرت ابو حنیفہؒ نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ 120ھ میں امام حمادؒ کا انتقال ہوگیا امام حمادؒ کے انتقال کے بعد لوگوں نے امام صاحبؒ سے درخواست کی کہ اب آپ درس دیا کریں۔ آپ نے شروع میں تو انکار کیا مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو آپ اپنے استاد محترم امام حمادؒ کے سکول میں ہی درس دینے لگے۔

جب امام اعظمؒ نے درس دینا شروع کیا توایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھود رہے ہیں اور آپؐ کی مبارک اور پاک ہڈیوں کو جمع کررہے ہیں۔ امام اعظمؒ اس خواب کو دیکھ کر ڈر گئے اورسمجھنے لگے کہ شایدمَیں درس دینے کے قابل نہیں ہوں۔ آپؒنے امام ابنِ سیرینؒ جو کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے اور اس علم میں امام اور استاد تھے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایاکہ “اس خواب کو دیکھنے والا شخص مردہ علم کو زندہ کرے گا۔”

جب آپ کو خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی توآپ اطمینان کے ساتھ درس دینے میں مشغول ہوگئے۔ شروع شروع میں توصرف امام حمادؒ کے شاگرد درس میں شامل ہوتے تھے۔ لیکن چند دنوں میں ہی آپ کی شہرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ کوفہ میں موجود اکثر دوسری درس گاہں بھی ٹوٹ کر آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئیں۔ دُور دراز کے مقامات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ میں آنے لگے۔ ان مقامات میں مکّہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، رملہ، یمن، مصر، بحرین، بغداد، ہمدان، بخارا، سمرقند وغیرہ کے طالبعلم شامل تھے۔

امام ابو حنیفہؒ کے زمانہ میں بنواُمیّہ کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عباسی حکومت قائم ہوگئی۔ عباسی خاندان کا پہلا حاکم ابوالعباس عبداللہ تھا۔ وہ اس قدرظالم تھا کہ لوگ اسے سفّاح یعنی خونی کہنے لگے۔ اُس نے کُل چار سال حکومت کی۔ 132ھ میں اس کا بھائی ابوجعفر المنصور تختِ حکومت پر بیٹھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی تعلیم عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی تھی مگر جو لوگ اسلام کے دشمن تھے وہ تو اسلام کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے نا! اس لیے انہوں نے نئے نئے عقیدے بنانا شروع کردیے اور تو اور وہ حدیثیں بھی اپنی طرف سے ہی بنا لیتے تھے۔ حاکم منصور چاہتا تھا کہ جتنے بھی عالم لوگ ہیں وہ میرے دربار میں آئیں۔ انہیں سرکاری عہدے بھی دیے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ علمائے کرام کو قاضی کا عہدہ دیاجائے گا مگر فیصلہ وہی ہوگا جو وہ خودچاہے گا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہورہا تھا کہ مُلک میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے مطابق حکومت کے فیصلے کیے جاتے۔ امام اعظمؒ نے جب یہ تمام حالات دیکھے تو اس موقع پر اپنی سمجھ اور ذہانت سے کام لیا اور انسانی ضروریات کے متعلق ایک اسلامی قانون قرآن اور سنّت کی روشنی میں قائم کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم تھا کہ اس نے امام اعظمؒ کوا س عظیم دینی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔

ابوجعفر منصور کے دَورِ حکومت میں اس کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف مدینہ میں محمد بن عبداللہ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا۔ محمدبن عبداللہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہادر اور دلیر تھے۔ جب آپ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا تو امام اعظمؒ نے ان کی حمایت کی۔ کوفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ ابتداء میں محمدبن عبداللہ نے نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آخر کار شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے ان کی جگہ لی۔ ابراہیمؒ بھی بہت بڑے عالم تھے۔ کوفہ کے تقریباً ایک لاکھ آدمی ان کے ساتھ جان دینے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے ڈٹ کر نہایت بہادری کے ساتھ منصور کا مقابلہ کیا۔ مگر حلق میں تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔

امام ابو حنیفہؒ نے منصور کے خلاف محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ آپ نے سفّاح کی حکومت کا زمانہ دیکھا پھر ابوجعفر منصور کے ظلم اور اس کی زیادتیوں کو دیکھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ جب منصور نے محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کو شکست دے دی تو پھر ان لوگوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ منصور کو علم تھا کہ امام صاحبؒ نے نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کی بلکہ پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہے۔ منصور کوفہ آیا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوفہ میں امام صاحبؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہزاروں کی تعدادمیں موجود ہیں۔ اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ امام صاحبؒ کو کوفہ سے بغداد بلایا جائے۔ پھر آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا جائے۔ جسے وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے پھر حاکم کے حکم کا انکار کرنے کی صورت میں انہیں آسانی کے ساتھ قید وبند میں ڈالا جاسکے گا۔

جب منصور نے اپنے منصوبہ کے تحت امام صاحبؒ کو بغداد بلوایا تو آپ ساری بات سمجھ گئے۔ آپ سمجھ گئے تھے کہ اب آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ آپ نے لوگوں کی امانںید ان کے حوالے کیں اور بغداد تشریف لے گئے۔ منصور نے انہیں قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ آپ نے انکار کردیااور اس کی یہ وجوہات بیان کیں۔

1۔ مَیں عربی النسل نہیں ہوں۔ اس لیے اہلِ عرب کو میری حکومت پسند نہیں آئے گی۔

2۔ درباریوں کی تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ مجھ سے نہ ہوسکے گا۔

جب آپ کسی بھی صورت میں نہیں مانے تو منصور نے آپ کو جیل میں ڈلوا کر کوڑوں کی سزا کا حکم دیا۔

دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کے ہر فعل میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ منصور یہ چاہتا تھا کہ مَیں امام صاحب کو قید میں ڈال کر اتنی تکالیف دوں کہ وہ حق وصداقت کا راستہ چھوڑ کر میری مرضی پر چلنے لگیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ امام صاحب کو قید و بند میں ڈالنے سے ان کی شہرت میں اَور اضافہ ہوجائے گا اورلوگ پہلے سے بھی زیادہ ان کی عزت کرنے لگیں گے۔ امام صاحب کی شہرت صرف کوفہ میں ہی نہیں تھی بلکہ بغداد میں بھی ایک علمی جماعت ایسی تھی جو آپ سے عقیدت رکھتی تھی۔ قیدوبند کی حالت نے آپ کے اثر کو کم کرنے کی بجائے اور زیادہ کردیا۔ لوگ قید خانہ میں امام صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔

بچو! اب تو منصور بہت پریشان ہوا کہ یہ تو سب کام غلط ہوتاجارہا ہے۔ مَیں تو انہیں اپنے راستے سے ہٹا رہا تھا اور یہ لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے راستہ بناتے جارہے ہیں۔ چنانچہ آخری تدبیر اس نے یہ کی کہ امام صاحبؒ کو شربت میں زہر ملا کر دے دیا۔ آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ اس میں زہر ہے۔ آپ نے پینے سے انکار کردیا توزبردستی وہ زہر کا پیالہ آپ کو پلایا گیا۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ زہر نے اپنا اثر کرنا شروع کردیا ہے تو آپ سجدہ میں گِر گئے اور اسی حالت میں اپنی جان اپنے پیارے مولیٰ کے سپرد کردی۔

اِنَّاللہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

پیارے بچو! ہمارے حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہٗ نے فرمایا ہے کہ “جسم مرسکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی۔”

تم نے دیکھا کہ منصور نے اپنے ناپاک منصوبہ سے امام اعظمؒ کو زہر کا پیالہ پلوا دیا مگر بعد میں اس نے خود دیکھا کہ امام اعظمؒ زہر کا پیالہ پی کر اگرچہ جسمانی طور پر وفات پاگئے تھے مگر اپنے عمل، نیک مقاصد اور حق وصداقت کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آج بھی لوگ ان کانام بہت عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔ قرآن وسنّت کی روشنی میں آپ نے جواسلامی فقہی قانون ترتیب دیا وہ آج بھی “حنفی فقہ” کے نام سے موجود ہے۔ تم مسلمان حاکم ہارون الرشید کے نام سے تو ضرور واقف ہوگے۔ اس کی سلطنت جو سندھ سے لے کر ایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی، حنفی فقہ کے اصولوں پر ہی قائم تھی۔ اس کے زمانے کے تمام مقدمات اور فیصلے اسی قانون کی بنیاد پر ہی کیے جاتے تھے۔

بچو! تم سوچتے ہوگے کہ حضرت ابو حنیفہؒ اتنے بڑے آدمی کیسے بن گئے؟

دیکھو بچو! یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بہت بڑے بڑے کام کیے جائیں۔ مگر ایسا بھی تو ہوتاہے ناکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتیں جن کا ہم اپنی عام زندگی میں بالکل خیال نہیں کرتے وہی چھوٹی چھوٹی اور پیاری پیاری باتیں انسان کو بڑا آدمی بنا دیتی ہیں۔ مثلاً والدین کی خدمت، ہمیشہ سچ بولنا، دشمن کو معاف کر دینا، راستہ میں سے کانٹا ہٹا دینا، غریبوں کی مدد کرنا، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا وغیرہ۔ تو جناب ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ اتنے اچھے، اتنے پیارے انسان تھے کہ باوجود اس کے کہ آپ علم بھی حاصل کرتے تھے، تجارت بھی کرتے تھے مگر بچپن ہی سے یہ ساری پیاری پیاری عادتیں آپ میں موجود تھیں۔ آپ کو اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت تھی۔ آپ نے تمام زندگی ان کی بہت زیادہ خدمت کی۔ امام صاحبؒ کی والدہ مزاج کی بہت شکّی تھیں۔ اس زمانے میں کوفہ۔ میں ایک عالم عمرو بن ذرؒ تھے۔ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کی والدہ ان سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ انہیں جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو وہ امام صاحبؒ سے کہیتں جاؤ اُن سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر آؤ۔ اکثر ایساہوتاتھا کہ عمرو بن ذرؒ امام صاحبؒ سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر بتایا کرتے تھے۔ اب دیکھو کہ امام صاحبؒ اتنے بڑے عالمِ دین تھے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے عقیدت مند تھے لیکن جب ان کی والدہ ان سے کہتیں کہ مجھے عمروبن ذرؒ کے پاس لے جاؤ مَیں خود ان سے اس مسئلہ کا حل پوچھوں گی۔ تو آپ انہیں خچّر پر سوار کرا کے ساتھ لے جاتے۔ خود پیدل چلتے تھے۔

یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ امام صاحبؒ نے کبھی بھی حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو میرمنشی مقرر کرنا چاہا۔ آپ نے انکار کردیا تو اُس نے سزا کے طور پر آپ کو کوڑے لگوائے۔

بچو! اس وقت آپ کی والدہ زندہ تھیں۔ امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ مگر اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ میری وجہ سے میری والدہ کے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔

امام صاحبؒ کی اپنی والدہ سے محبت اور ان کی خدمت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی آپ کو عزت بخشی اور آخرت میں بھی آپ سے راضی ہوا۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت پیار اور توجہ کے ساتھ کرتے تھے۔ یزید بن لمیت، امام صاحبؒ کے ایک ساتھی تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے اورامام صاحبؒ نے عشاء کی نماز مسجد میں ایک ساتھ پڑھی۔ اس دن نماز میں یہ سورۃ پڑھی گئی تھی۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔

بچو! تم اس سورۃکا ترجمہ تو جانتے ہی ہوگے ناکہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوہوشیار کیاہے کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں اور جو بُرے کام کیے ہیں ان کا بدلہ ضرور ملے گا۔ نماز پڑھنے کے بعد سب لوگ واپس چلے گئے۔ لیکن امام صاحبؒ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں یہاں بیٹھا رہا تو آپ کی توجہ بٹ جائے گی۔ اس لیے مَیں چراغ وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ صبح ہوئی مَیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد گیا تو دیکھا کہ امام صاحب اسی حالت میں بیٹھے ہیں۔ آپ نے اپنی ریشِ مبارک پکڑی ہوئی ہے اور کہتے جاتے ہیں کہ:۔

“اے وہ ذات! جو لوگوں کو ذرّہ ذرّہ نیکیوں کا بدلہ دے گا اپنے نعمان کو آگ سے محفوظ رکھ اور اپنی رحمت میں چُھپا لے۔”

بچو! امام ابو حنیفہؒ کو قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ اللہ میاں نے آپ کو آواز بھی بہت اچھی دی تھی۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو آپ کی آواز لوگوں کے دل میں اُتر جاتی تھی۔ ہماری جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمدعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت امام ابو حنیفہؒ کا قرآن کریم سے عشق کرنا بہت اچھالگتا تھا۔ قرآن کریم سے بے پناہ محبت اور اس کی ایک ایک آیت پر غور و فکر کی وجہ سے حضرت اقدس علیہ السلام امام اعظمؒ کے بارے میں فرماتے ہیں “وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں۔” (الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ101)

ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں “امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہٰی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں اُن کے لیے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔” (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ نمبر385)

بچو! امام صاحبؒ کے خوفِ خدا اور اس کے ادب اور احترام کے بارے میں ان کی زندگی کی ایک بہت ہی دلچسپ بات مَیں تمہیں بتاتی ہوں۔

پتہ ہے! امام صاحبؒ نے کبھی اپنے سر کو ننگا نہیں رکھا اور کبھی آپ نے سوتے وقت پاؤں نہیں پھیلائے۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ادب اور اس کا خوف ہر حالت میں کرنا چاہیے۔

اب دیکھو نا! سر کے اندر کا جو حصّہ ہے وہاں تو خدا تعالیٰ کی پیاری کتاب قرآن کریم کا علم ہے۔ اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جس سر کے اندرونی حصّے میں اتنا بڑا خزانہ ہے اس کے باہر کے حصّے کی بھی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیشہ اپنا سرڈھانپ کر رکھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ آپ کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں سوئے۔ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ اور ہر سمت موجود ہے۔ اس لیے اس کے ادب اور احترام کے طور پر مَیں پاؤں نہیں پھیلاتا۔

بچو! یہ ساری باتیں اصل میں محبت کی ہوتی ہیں۔ ہم جس سے محبت کرتے ہیں اس کا ادب اور احترام بھی کرتے ہیں۔ ہے نا! اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت میں آپؒ اتنے زیادہ مگن ہوگئے تھے کہ دنیا میں آپ کادل بالکل نہیں لگتا تھا۔ آپ نے سوچا کہ مَیں یہ دنیا بالکل ہی چھوڑ دیتا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ وہ اس طرح کہ آپ نے خواب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں کہ “تجھے اس لیے پیدا کیا گیا کہ میری سنّت کو زندہ کرے۔”

یہ خواب دیکھنے کے بعد آپ نے دنیا چھوڑنے کا ارادہ ترک کردیا اور اسلام اور انسانوں کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کا وجود نافع الناس تھا۔ آپ ایک عالی مقام رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے ایک بچّے کو جب کیچڑ میں کھیلتا ہوا دیکھا تو اسے منع کیا کہ کہیں پھسل کر گر جاؤ گے۔ اس پر بچے نے بڑی حاضر جوابی سے کہا:

فَاِنَّ فِیْ سُقُوْطِ الْعَالِمِ سُقُوْطُ الْعَالَمِ۔

مطلب یہ تھا کہ اگر میں گِرا تو اکیلا ہی گروں گا مگر اگر آپ گرے تو ایک جہان گر جائے گاکیونکہ عالم کے گرنے سے ایک عالَم کی موت برپا ہو جاتی ہے۔ (الدّرالمختار از محمدبن علی الحصکفی طبع اولیٰ2002ء بیروت)

اس بچے کے ان پُرحکمت الفاظ سے ظاہرہوتا ہے کہ حضرت امام صاحب کے مقام اور علمی شخصیت سے نہ صرف بڑے بلکہ بچے بھی متاثر تھے اور جانتے تھے کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے ساتھ ایک جہان کی ہدایت وابستہ ہے۔

پیارے بچو! حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تقویٰ کا انتہائی اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہوتے کہ کہیں اس سے طبیعت میں لاپرواہی پیدا نہ ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں “امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت تھوڑی سی نجاست جو ان کے کپڑے پر تھی دھو رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے تو فتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آں فتویٰ است وایں تقویٰ۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ نمبر442)

مطلب یہ ہے کہ جہاں تک فتویٰ کی بات ہے تو یہ درست ہے کہ اس قدر معمولی گندگی پر فتویٰ تو نہیں لگتا مگر اگرتقویٰ کو دیکھا جائے تو میرا ضمیر یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس قدر معمولی سی گندگی بھی کپڑے پر لگی ہو۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی ڈھیر ساری خوبیاں عطا کی تھیں ان میں ایک خوبی “ذہانت” بھی تھی۔ امام اعظمؒ بہت ہی ذہین تھے۔ آؤ! تھوڑی دیر کے لیے بغداد چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے اپنی ذہانت سے کس طرح تین مشکل سوالوں کے جوابات دیے۔

ایک رومی بغداد آیا۔ اس نے وہاں کے حاکم سے کہا کہ میرے تین سوال ہیں۔ اگرآپ کی سلطنت میں کوئی ایسا آدمی ہو جو میرے ان سوالوں کے جواب دے سکے تو اسے بلائیں۔ حاکم نے اعلان کردیا۔ سارے علماء جمع ہوئے۔ امام صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ رومی ایک اونچی سی جگہ پر جسے منبر کہتے ہیں چڑھ گیا اور اس نے تین سوال کیے۔ سوال یہ تھے کہ:۔

  1.  بتاؤ خدا سے پہلے کون تھا؟
  2.  بتاؤ خدا کارُخ کدھر ہے؟
  3.  بتاؤ خدا اس وقت کیا کررہا ہے؟

اس کے سوال سن کر سب خاموش ہوگئے۔ امام صاحبؒ آگے بڑھے اور فرمایا: ان سوالوں کے جواب مَیں دوں گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ منبر سے نیچے اُتر آئیں۔ وہ آدمی نیچے اُتر آیا اور امام صاحبؒ اس کی جگہ پر جا کر کھڑے ہو گئے۔ رومی نے پہلا سوال کیا۔ بتاؤ خدا سے پہلے کون تھا؟ امام صاحبؒ نے اس سے کہا۔ گنتی گِنو۔ رومی نے گننا شروع کیا۔ امام صاحبؒ نے اسے روک دیا اور کہا ایک سے پہلے گِنو۔ رومی بہت پریشان ہوا کہنے لگا ایک سے پہلے تو کوئی گنتی نہیں ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا: بس خدا سے پہلے بھی کوئی نہیں ہے۔ پھر رومی نے دوسرا سوال کیا۔ بتاؤ خدا کا رُخ کدھر ہے؟ امام صاحب نے ایک موم بتی جلائی اور رومی سے پوچھا: بتاؤ اس کی روشنی کا رُخ کدھر ہے؟ رومی کہنے لگا: سب طرف ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا: اسی طرح خدا کا رُخ بھی سب طرف ہے۔ اس کے بعد فرمایا: تمہارے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس وقت یہ کررہا ہے کہ اس نے تمہیں منبر سے نیچے اُتار دیا اور مجھے اوپر چڑھا دیا ہے۔

بچو! رومی یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور واپس چلا گیا۔

بچو! اپنی ذہانت اور علم کی وجہ سے امام صاحبؒ نے کبھی بھی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بڑا نہیں سمجھا۔ بلکہ ہمیشہ یہ سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ہمیشہ لوگوں کے ساتھ مل جل کررہتے۔ غریبوں کی مدد کرتے۔ ان لوگوں کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے جنہیں علم حاصل کرنے کا شوق ہو۔ آپ کو اپنی تجارت سے جو بھی نفع حاصل ہوتا اس سے اللہ کے بندوں اور اہلِ علم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ جو لوگ علم کی خدمت کرتے ہیں اور دین کو پھیلانا چاہتے ہیں انہیں کسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہ ہو تاکہ وہ اپنی ساری توجہ علم کی خدمت اور اشاعتِ دین پر صرف کرسکیں۔ نہ صرف عالم لوگوں بلکہ عام لوگوں کی بھی بہت مدد کیا کرتے تھے۔

بچو! ایک آدمی بیچارہ بہت غریب تھا۔ اس کی بیوی اس سے بہت لڑتی کہ ہماری لڑکی بھی اب بڑی ہوگئی ہے اس کی شادی بھی کرنی ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تم امام صاحب کے پاس جاؤ۔ وہ ضرور ہماری مدد کریں گے۔ اب وہ آدمی امام صاحبؒ کی مجلس میں آتو گیا مگر شرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکا۔ امام صاحبؒ اس کی حالت دیکھ کر اس کی پریشانی سمجھ گئے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا۔ رات کے وقت دروازہ میں سے پانچ ہزار درہم کی ایک تھیلی اس کے گھر میں ڈال آئے اور تھیلی میں ایک پرچہ لکھ کر رکھ دیا کہ جب یہ پیسے ختم ہوجائیں تو بتا دینا۔

آپ کی تجارت بہت پھیلی ہوئی تھی مگر آپ اپنی تجارت اور لین دین میں ہمیشہ دیانتداری کا خیال رکھتے تھے۔ اکثر اپنی دیانت داری کی وجہ سے آپ کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا تھا مگر آپ کو اس کی ذرّہ بھی پرواہ نہیں تھی۔

ایک دفعہ آپؒ نے حفص بن عبدالرحمن کے پاس ریشم کے تھان بھیجے اور یہ بھی بتا دیا کہ فلاں تھان میں عیب ہے اس لیے جو کوئی بھی اسے خریدے اسے بتادینا۔ حفص کو اس بات کا دھیان نہ رہا۔ جب امام صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کو بہت افسوس ہوا اور تھانوں کی قیمت جو 30 ہزار درہم تھی، آج کل کے حساب سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتے ہیں، سب خیرات کردی۔

آپ اپنے پڑوسیوں کا بھی بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ آپ کی گلی میں ایک موچی رہتا تھا۔ یہ موچی سارا دن تو اپنا کام کرتا اوررات کے وقت اپنے سارے دوستوں کو اپنے گھر جمع کرلیتا۔ سب مل کر شراب پیتے اور اُلٹے سیدھے گانے گاتے شور مچامچا کر۔ اب دیکھو۔ امام صاحبؒ جو کہ ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے انہیں کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی مگر آپ نے کبھی بھی موچی کو بُرا بھلا نہ کہا۔

بچو! ایک دن کوتوالِ شہر گشت پر نکلا۔ اس نے جب شوروغل کی آواز سُنی تو وہ موچی کو پکڑ کر لے گیا اور سزا کے طور پر اسے قیدخانہ میں ڈال دیا۔ دوسرے دن جب موچی کی آواز نہیں آئی تو آپ پریشان ہوگئے کہ کہیں موچی بیمار تو نہیں ہوگیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے لوگوں سے موچی کے بارے میں پو چھا۔ لوگوں نے بتایا کہ کوتوالِ شہر اسے پکڑ کر لے گیا تھا۔ امام صاحب کو بہت افسوس ہوا۔ یہ عباسی دَورِ حکومت تھا۔ عیسیٰ بن موسیٰ کوفہ کا گورنر تھا۔ آپ گورنر کے پاس تشریف لے گئے گورنر نے آپ کی بہت عزت کی اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی کام تھا تو آپ مجھے بلوا لیتے۔ آپ نے فرمایا: میرے محلے میں ایک موچی رہتا تھا کوتوالِ شہر نے رات اُسے گرفتار کرلیاہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رہاکر دیں۔ گورنر نے موچی کی رہائی کا حکم بھیج دیا۔ جب موچی کو پتہ چلا کہ امام صاحبؒ نے مجھے رہا کروایا ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اور آپ سے معافی مانگی اس کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس نے امام صاحبؒ سے علم بھی حاصل کیا۔

دیکھو بچو! اگر تم چاہتے ہو نا کہ بُرے لوگ اچھے بن جائیں تو کبھی بھی ان کو بُرا نہ کہو۔ بلکہ انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بہت سی خوبیاں بھی پیدا کی ہیں۔ ان کی خوبیاں بیان کرکے انہیں اور زیادہ بُرا بننے سے بچالیا کرو۔

ایک بات یاد رکھو۔ دشمن پر تلوار یا بندوق کے ذریعہ سے ہی فتح نہیں پائی جاتی۔ بلکہ دشمن پر فتح پانے کا سب سے بہترین گُر اسے معاف کردیناہے۔ ایک دن امام اعظمؒ مسجد میں درس دے رہے تھے۔ ایک شخص آپ کا دشمن تھا۔ اس نے سب لوگوں کے سامنے آپ کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ امام صاحبؒ نے کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے شاگردوں کو بھی منع کیاکہ اسے کچھ نہ کہیں۔ آپ درس دے کر واپس گھر آنے کے لیے روانہ ہوئے تو وہ شخص بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا اور مسلسل جو منہ میں آیا کہتا رہا۔ امام صاحب جب اپنے گھر کے قریب پہنچے تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا:۔

بھائی! یہ میرا گھر ہے تم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کہہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مَیں گھر میں داخل ہوجاؤں اور پھر تمہیں موقع نہ ملے۔

امام صاحبؒ کبھی ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ان کے لیے دعا کرتے۔ آپ جانتے تھے کہ باوجود اس کے کہ آدمی مقابلہ کی طاقت رکھتا ہو اور دشمن کو معاف کردے تو یہ فعل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آتاہے۔

بچو! یہ جو تم دیکھتے ہو کہ لوگ بگڑتے جارہے ہیں توا س کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو بالکل چھوڑ دیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بزرگوں کا ادب اوراحترام بھی نہیں کرتے۔

اب جو آخری بات مَیں تمہیں امام اعظمؒ کے بارے میں بتاؤں گی وہ تو بہت ہی پیاری ہے۔ آپ کبھی بھی “غیبت” نہیں کرتے تھے۔ بہت سے بچے غیبت کرتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم غیبت کررہے ہیں۔ جب تم اپنے کسی دوست یا سہیلی یا کسی ملنے والے کی غیرموجودگی میں اس کی بُرائی بیان کرتے ہو تو وہ غیبت ہوتی ہے۔

اب تم کہو گے کہ کیا اگر اس میں وہ بُرائی موجود بھی ہو جس کا ذکر ہم کر رہے ہوں تو وہ بھی غیبت ہوتی ہے؟ یہی تو بات ہے۔ دیکھو اس شخص میں بُرائی موجود ہے اور تم اس کی غیرموجودگی میں اس کا ذکر کر رہے ہو تو یہ غیبت ہوگی۔ اگر اس شخص میں وہ بُرائی موجود نہیں ہے اور وہ جھوٹ بات تم اس کے سرتھوپ رہے ہو تو یہ تم نے اس پر بہتان لگایا نا! اس لیے تمہیں چاہیے کہ لوگوں کا ذکر ان کی غیرموجودگی میں ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کیا کرو۔ ورنہ خاموش رہا کرو۔

مَیں تمہیں بتا رہی تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کبھی بھی غیبت نںیے کرتے تھے۔ آپ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اس نے آپ کی زبان کو اس گناہ سے پاک رکھا۔

ایک دن ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ حضرت! لوگ آپ کو اتنا بُرا بھلا کہتے ہیں مگر ہم نے کبھی آپ کی زبان سے کسی کی بُرائی نہیں سُنی۔

آپ نے فرمایا: یہ بھی خدا کی مہربانی ہے۔

درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی تھی ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ پر کہ اس نے آپ کو اتنا علم دیا۔ ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمارے امام ابو حنیفہؒ کو توفیق دی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے گئے علم کے اس تحفہ سے نہ صرف ان لوگوں کی خدمت کی جو اُن کے دَور میں موجود تھے بلکہ آنے والے ہر دَور کے انسانوں میں بھی انہوں نے اپنے علم کے اس خزانے کو بانٹ دیا۔ اللہ میاں ہمیں اپنے بزرگوں جیسا بننے اور ان کی تعلیمات سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

خداکرے ایسا ہی ہو۔ (آمین)

٭٭٭٭٭ ختم شد ٭٭٭٭٭