نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کے تقاضے

خطبہ جمعہ یکم جولائی 2005ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

الحمدللہ کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ اتوار کو بخیروخوبی اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ ان جلسوں کی بھی اپنی ایک فضا ہوتی ہے جس میں مختلف ماحول اور طبقات کے لوگ ایک مقصد کی خاطر جمع ہوتے ہیں۔ جماعت سے کمزور تعلق والے بھی جب ایک دفعہ جلسے پر آ جائیں تو اپنے اندر جماعت اور خلافت سے اخلاص، تعلق اور وفا میں اضافہ اور بہتری دیکھتے ہیں۔ پھر مختلف شعبہ جات کی ڈیوٹیاں ہیں جن میں سے بعض شعبے میرے یہاں قیام کی و جہ سے ابھی تک جاری ہیں، کام کر رہے ہیں۔ ان میں بھی مختلف طبیعتوں کے مالک افراد جن کا عام زندگی میں جلسے کے دنوں میں سپرد کردہ ڈیوٹیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ ایسی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہوتے ہیں جو عام زندگی میں اس سے بالکل مختلف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے، کھاتے پیتے لوگ، جلسے کے مہمانوں کی خدمت کرکے ایک فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ (حضور انور نے اس جگہ سب احباب تک آواز پہنچنے کے بارے میں استفسار فرمایا)

مَیں ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ خیر سے گزر گیا اور اس جلسے میں جو کمزور تعلق والے احمدی ہیں وہ بھی جب آ جاتے ہیں تو ان کو بھی ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر ڈیوٹیوں کا ذکر تھا کہ مختلف قسم کے لوگ، مختلف طبقات کے لوگ ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب لوگ ایک جذبے کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں اور اس لئے کہ آنے والے مہمان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مہمان ہیں، خدا کی باتیں سننے کے لئے آنے والے مہمان ہیں۔ پھر بہت سے احمدی جو کہ پیس ویلج (Peace Village) میں رہنے والے ہیں بلکہ مَیں کہوں گا کہ تقریباً ہر گھر انے نے اپنے گھر مہمانوں کے لئے پیش کئے ہوئے تھے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ بھی اور جگہوں پر بھی احمدی گھروں میں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے اور سب خوشی سے مہمانوں کی خدمت کر رہے تھے۔ پیس ولیج میں شائد اس لئے بھی زیادہ مہمان آئے ہوں کہ میرا قیام اس جگہ تھا۔

تو بہرحال یہ نظارے جماعت میں محبت اور اخلاص اور ایک دوسرے کی خدمت اور مہمان نوازی کے اس لئے نظر آتے ہیں کہ جماعت ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔ اور نظام ِخلافت سے ان کو محبت اور تعلق ہے۔ اور خلیفۂ وقت کے اشارے پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ یہ نظارے ہمیں جماعت احمدیہ سے باہر کہیں نظر نہیں آ سکتے۔ افراد جماعت کا خلافت سے تعلق اور خلیفۂ وقت کا احباب سے تعلق ایک ایسا تعلق ہے جو دنیاداروں کے تصور سے بھی باہر ہے۔ اس کا احاطہ وہ کر ہی نہیں سکتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا سچ فرمایا تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ بہرحال یہ تعلق جو جماعت اور خلافت کا ہے ان جلسوں پر اور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ الحمدللّٰہ، مجھے اس بات کی خوشی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کینیڈا بھی اس اخلاص و وفا کے تعلق میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا یہ تعلق مزید بڑھاتا چلا جائے اور یہ وقتی جوش اور جذبے کا تعلق نہ ہو۔ آپ لوگوں نے ہمیشہ محبت اور وفاکا اظہار کیا ہے۔ 27مئی کو جب مَیں نے خلافت کے حوالے سے خطبہ دیا تھا تو جماعتی طور پر بھی اور مختلف جگہوں سے ذاتی طور پر بھی، سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خطوط وفا اور تعلق کے مجھے کینیڈا سے ملے تھے۔ اللہ کرے یہ محبت اور وفا کے اظہار اور دعوے کسی وقتی جوش کی و جہ سے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ رہنے والے اور دائمی ہوں اور آپ کی نسلوں میں بھی چلنے والے اور قائم رہنے والے ہوں۔ یاد رکھیں جہاں محبت کرنے والے دل ہوتے ہیں وہاں فتنہ پیدا کرنے والے شیطان بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو توڑنے یا اس تعلق میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں سے بھی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے۔ کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہدیداران کو بتائیں، امیر صاحب کو بتائیں، مجھے بتائیں۔ کیونکہ بعض دفعہ بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اندر ہی اندر پکتی رہتی ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ عہدیداران بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کریں کہ جب ایسی باتیں سنیں توسن کر سرسری طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی تحقیق کر لیا کریں، یا کم از کم نظر رکھا کریں۔ ایک دفعہ اگر سنی ہے تو ذہن میں رکھیں اور اگر دوبارہ سنیں تو بہرحال اس پر توجہ دینی چاہئے۔ امیر صاحب کو بتائیں پھر مجھے بھی بتائیں اسی واسطے سے، بعض دفعہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ چھوٹی سی بات لگ رہی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک کو اس کے پس منظر کا، بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس کی جڑیں کسی اور جگہ ہوتی ہیں۔ اس لئے کسی فتنے کو کبھی چھوٹا نہ سمجھیں، اگر کوئی ایسی بات ہے جو وقتی ہے، آپ کے نزدیک سطحی سی بات ہے، اور غصے میں کسی نے کہہ دی ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اور اِن وقتی شکایتوں اور شکووں کو دُور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اور عہدیداروں کی طرف سے بھی کی جانی چاہئے۔

عہدیداروں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسی باتیں سننی چاہئیں تاکہ توجہ نہ دینا فرد جماعت اور عہدیداروں میں دوری پیدا کرنے کا باعث نہ بن جائے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا جب بھی کسی بات کا مجلسوں میں ذکر ہو رہا ہے اور پھر شرارت پھیلانے کی غرض سے ذکر ہو رہا ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ بہرحال ہر صورت میں جب بھی آپ کوئی ایسی بات سنیں جس میں ذرا سی بھی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی بو آتی ہو تو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اس لئے یہاں سمیت تمام دنیا کے عہدیداران بھی اور امراء بھی جہاں جہاں بھی ہیں، ان سے مَیں کہوں گا کہ اپنے آپ کو ایک حصار میں، ایک شیل (Shell) میں بند کرکے یا محصور کرکے نہ رکھیں، جہاں صرف ایسے لوگ آپ کے ارد گرد ہوں جو ’’ سب ٹھیک ہے‘‘ کی رپورٹ دینے والے ہوں۔ بلکہ ہر ایک احمدی کی ہر متعلقہ امیر اور عہدیدار تک پہنچ ہونی چاہئے تاکہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں سے آپ کا براہ راست تعلق ہو۔ بعض دفعہ، بعض نوجوان بھی ایسی معلومات دیتے ہیں اور ایسی عقل کی بات کہہ دیتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ یا تجربہ کار لوگوں کے ذہن میں نہیں آتی۔ اس لئے کبھی بھی، کسی بھی نوجوان کی یا کم پڑھے لکھے کی بات کو تخفیف یا کم نظر سے نہ دیکھیں۔ وقعت نہ دیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر بات کو توجہ دینی چاہئے۔ پھربعض دفعہ نوجوانوں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھتے ہیں اور اس معاشر ے میں اور آج کل کے نواجونوں کے ذہن میں بھی باتیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟اور ایسا کیوں نہیں ہے؟۔ اس لئے خدام الاحمدیہ کو بھی، لجنہ اماء اللہ کو بھی اور جماعتی عہدیداران کو بھی ایسے نوجوانوں کی تسلی کرانی چاہئے، ان کو تسلی بخش جواب دینے چاہئیں تاکہ کسی فتنہ پر داز کو ان کو استعمال کرنے کاموقع نہ ملے۔

پھر عہدیداران جو جماعتی نظام میں عہدیداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہدیدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ وہ نظام جماعت، جو نظام خلافت کا ایک حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں۔ ہر عہدیدار اپنے دائرے میں خلیفہ وقت کی طرف سے، نظام جماعت کی طرف سے تفویض کئے گئے، ان کے سپرد کئے گئے اس حصہ فرض کو صحیح طور پر سر انجام دینے کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے ایک عہدیدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کوسر انجام دینا چاہئے۔ اور اُن عہدیداروں میں اپنے آپ کو شمار کرنا چاہئے جن سے لوگ محبت رکھتے ہوں۔ جس کا ایک حدیث میں یوں ذ کرآتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں۔ (مسلم ـکتاب الامارۃ۔ باب خیارالائمۃ وشرارھم)

تو اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام عہدیدار اپنے فرائض نبھائیں اور جب فیصلے کرنے ہوں تو خالی الذہن ہو کر کیاکریں، کسی طرف جھکاؤ کے بغیرکیا کریں۔ جیساکہ پہلے بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تقویٰ یہی ہے کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے عزیز کے خلاف بھی گواہی دینی ہو تو دے دیں۔ لیکن انصاف کے تقاضے پورے کریں تو پھر ایسے عہدیدار اللہ کے محبوب بن رہے ہوں گے جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے۔

حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور ان سے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہو گا اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہو گا۔ (ترمذی ـ ابواب الاحکام ـ باب ماجاء فی الامام العادل)

یہاں حاکم تو نہیں ہیں لیکن عہدے بہرحال آپ کے سپرد کئے گئے ہیں، ایک ذمہ واری آپ کے سپرد کئی گئی ہے۔ ایک دائرے میں آپ نگران بنائے گئے ہیں۔ پس یہ جو خدمت کے مواقع دئیے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دئیے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں۔ خلیفہ وقت کے فرائض کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ{فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَـتَّبِـعِ الْھَوٰی فَـیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ}(صٓ:27) یعنی پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کر اور اپنی خواہش کی پیروی مت کر۔ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔

پس جب عہدیداران پر خلیفۂ وقت نے اعتماد کیا ہے اور اُن سے انصاف کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی امید رکھی ہے۔ کیونکہ ہر جگہ تو خلیفۂ وقت کا ہر فیصلہ کے لئے پہنچنا مشکل ہے، ممکن ہی نہیں ہے۔ تو اگر عہدیداران، جن میں قاضی صاحبان بھی ہیں، دوسرے عہدیداران بھی ہیں اپنے فرائض انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی گرفت کے نیچے آتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ دوہرے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوہرے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایک اپنے فرائض صحیح طرح انجام نہ دے کر، دوسرے خلیفۂ وقت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاکر، خلیفۂ وقت کے علم میں صحیح صورت حال نہ لا کر۔ نمائندے کی حیثیت سے جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، عہدیداران کا یہ فرض بنتا ہے کہ خلیفۂ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں۔ بعض دفعہ بیوقوفی میں بعض لوگ یہ کہہ جاتے ہیں، ان میں عہدیداربھی شامل ہیں، کہ ہر بات خلیفہ وقت تک پہنچا کر اسے تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ عام لوگ بھی جس طرح مَیں نے کہا کہہ دیتے ہیں کہ اپنی تکلیفیں زیادہ نہ لکھوجو مسائل ہیں وہ نہ لکھو۔ وہ کہتے یہ ہیں کہ پہلے تھوڑے معاملات ہیں ؟ پہلے تھوڑی پریشانیاں ہیں ؟ جماعتی مسائل ہیں جو ان کو اور پریشان کیا جائے۔ تو یاد رکھیں، میرے نزدیک یہ سب شیطانی خیال ہیں، غلط خیال ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم خلیفہ کے لئے ہے اور کیونکہ کام کے پھیل جانے کی و جہ سے، کام بہت وسیع ہو گئے ہیں، پھیل گئے ہیں، خلیفہ وقت نے اپنے نمائندے مقرر کر دئیے ہیں تاکہ کام میں سہولت رہے۔ لیکن بنیادی طور پر ذمّہ داری بہرحال خلیفۂ وقت کی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ وقت کو ذمّہ دار ٹھہرایا ہے تو پھر اس کی مدد کے لئے وہ تیار رہتا ہے۔ کیونکہ خلیفہ بنایا بھی اُس نے ہے تو یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ بنائے بھی خود، ذمّہ داری بھی اس پر ڈالے اور پھر اپنی مدد اور نصرت کا ہاتھ بھی اس پر نہ رکھے۔ اس لئے یہ تصور ہی غلط ہے کہ خلیفۂ وقت کو تکلیف نہ دو۔ خلیفہ کی جو برداشت ہے اور تکلیف دہ باتیں سننے کا جس قدر حوصلہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہوتا ہے یا خلافت کے انعام کے بعد جس طرح اس کو بڑھاتا جاتا ہے کسی اور کو نہیں دیتا۔ اس لئے یہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سے ادا کروانی ہوتی ہے۔ بہرحال وہ حوصلہ بڑھا دیتا ہے۔ اس لئے یہ تصور غلط ہے کہ تکلیف نہ دو۔ کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور تکلیف پہنچانا اس حد تک جائز ہے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے۔

پس اس تصور کو عہدیداران جن کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف کیا دینی ہے، وہ ذہن سے یہ بات نکال دیں اور مجھے بھی گناہگار ہونے سے بچائیں اور خود بھی گناہگار ہونے سے بچیں۔ اگر اصلاح کی خاطر کسی بڑے آدمی کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے تو کریں اور اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کریں کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اگر فیصلے تقویٰ پر مبنی اور نیک نیتی سے کئے گئے ہیں تو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے گی۔ ورنہ یاد رکھیں اگر جماعت احمدیہ الٰہی جماعت ہے اور یقینا الٰہی جماعت ہے تو پھر اس کی رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، فرماتا رہے گا۔ ایک حد تک تو بعض عہدیداران سے صرف نظر ہو گی لیکن پھر یا تو خلیفۂ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ ڈال دے گا یا کسی اور ذریعہ سے اس عہدیدار سے خدمت کا موقع چھین لے گا، اس کو خدمت سے محروم کر دے گا۔ پس تمام عہدیداران تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنے فرائض منصبی اداکریں۔ اور آپ کا کبھی کوئی فیصلہ، کبھی کوئی کام نفسانی خواہشات کے زیر اثر نہ ہو۔ اللہ سب کو اس کی توفیق دے۔

دوسری بات مَیں احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں، جیسے کہ پہلے بھی مَیں کہہ آیا ہوں کہ ایک بہت بڑی تعداداللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے، تب سچے ثابت ہوں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ نہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے، جب وقت کی قربانی دینی پڑے، جب نفس کی قربانی دینی پڑے تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔ پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کوخداتعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے اور یقینا یہ خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہی ہے، اس پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی جس آیت میں خلافت کا انعام دئیے جانے کا وعدہ فرمایاہے اس سے پہلی آیتوں میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے۔ ہم آگے بھی لڑیں گے، ہم پیچھے بھی لڑیں گے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

{وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ۔ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ۔ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ}(النور:54-53)

یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر توُ انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ توُ کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

پس اگر حقیقت میں یہ سچا دعویٰ ہے توپھر تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں، اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں، جلسے کے دنوں میں جونصائح کی گئی تھیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں۔ اپنے اس عہد پر عمل کرکے دکھائیں کہ ہر معروف فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ورنہ یہ عہد یہ دعوے کھوکھلے ہیں۔ تم اپنی باتوں سے تو زبانی جمع خرچ میں یہ کہہ سکتے ہو کہ ہاں ہم یوں کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ان دعووں کی کنہ تک سے واقف ہے۔ اس کو گہرائی تک علم ہے۔ دلوں کا حال جانتا ہے۔ باتوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے۔ اس لئے اس کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ پس اللہ کا یہ خوف دل میں رکھتے ہوئے ہر احمدی کو اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس طرح زندگی گزارو گے تو تمہارا خلافت کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہو گا اور کیونکہ یہ تعلق خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو گا اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل فرماتا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجا لانے والے ہوں۔ پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ۔ خلافت احمدیہ نے تو انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہو گا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ہوں گے۔ اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے۔ اور جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگیاں ہیں، جن گھروں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے میں وہ شدت نہیں ہے احمدی ہونے کے باوجود نظام جماعت کا احترام نہیں ہے، لوگوں کے حقوق صحیح طورپر ادا نہیں کرتے وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں بیٹھ کرخلیفۂ وقت کے بارہ میں بعض منفی تبصرے بھی ہورہے ہوتے ہیں۔ تو اپنے آپ کو نظام جماعت اور جماعتی عہدیداران سے بالا بھی وہاں سمجھا جا رہا ہوتاہے۔ ایسے لوگ تبصرے شروع کرتے ہیں عہدیداروں سے اور بات پہنچتی ہے خلیفہ ٔ وقت تک۔ جب نظام جماعت کی طرف سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتاہے تواس پر بجائے استغفار کرنے کے اعتراض ہورہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ نظام جماعت میں تو خلافت کی و جہ سے یہ سہولت میسّر ہے کہ اگر کسی کو یہ خیال ہوکہ کوئی فیصلہ کسی فریق کی طرفداری میں کیاگیاہے تو خلیفۂ وقت کے پاس معاملہ لایا جاسکتاہے۔ اگر پھربھی بعض شواہد یا کسی کی چرب زبانی کی و جہ سے فیصلہ کسی کے خلاف ہوتاہے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہئے اور بلاو جہ نظام پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ اعتراض تو بڑھتے بڑھتے بہت اوپر تک چلے جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر اس حدیث کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے، پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی اپنی چرب زبانی کی و جہ سے میرے سے فیصلہ اپنے حق میں کروا لیتا ہے حالانکہ وہ حق پہ نہیں ہوتا تو وہ آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس وجہ سے وہ اپنے پر جہنم واجب کر رہا ہوتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس فعل کی و جہ سے اس دنیامیں بھی اذیت میں مبتلا رکھے۔ اس کو کئی قسم کے صدمات پہنچ رہے ہوں مختلف طریقوں سے۔ مختلف وجوہات سے وہ مشکلات میں گرفتار ہو جائے۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں پہلے عہدیداران سے بھی کہہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فریقین سے بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہوجاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں۔ اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے۔

لیکن یہاں مَیں عہدیداران خاص طورپر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ مَیں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی و جہ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی و جہ سے بعض حق دے دیتا ہے۔ اس لئے ایسے مرد جو ظلم کرکے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے۔ پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے۔ تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے۔ پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے۔ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کر لیں گے اور باہر نہ نکلیں۔ بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جا سکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابتدائی طور پر ضرور رپورٹ ہونی چاہئے۔ اور پھر جو لاوارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آکر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے، مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندو بست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے۔ (اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے)۔ ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے۔ تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں۔ اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آ رہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تقویٰ پر چلتے ہوئے جماعت کا فعّال حصہ بننے کی توفیق دے۔ ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ وہ پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کریں جس کی آپؑ نے ہم سے توقع کی ہے۔ اپنے نیک نمونے قائم کرنے والے ہوں تاکہ ان نیک نمونوں کی وجہ سے غیربھی ہماری طرف توجہ کریں۔ اور اس ذریعہ سے ہمیں تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کی توفیق ملے۔ پس اس کے لئے ہمیں اپنے ایمانوں کو بھی کامل کرنا ہو گا اگر کہیں سوچوں میں ٹیٹرھ ہے تو اس کو بھی دورکرنا ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب انسان مومن کامل بنتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے غیر میں فرق رکھ دیتا ہے۔ اس لئے پہلے مومن بنو۔ اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ بیعت کی خالص اغراض کے ساتھ جو خدا ترسی اور تقویٰ پر مبنی ہیں دنیا کے اغراض کو ہرگز نہ ملاؤ۔ نمازوں کی پابندی کرو اور توبہ و استغفار میں مصروف رہو۔ نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کرو اور کسی کو دکھ نہ دو۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ ہر قسم کا فضل کر دے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 434 جدید ایڈیشن ـ الحکم مورخہ 17؍ اکتوبر 1903صفحہ 2)

تو یہ توقعات ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم سے۔ دنیا کی خاطر جو ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے ہیں ان سے بچیں۔ راستبازی اور پاکیزگی میں ترقی اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سمیٹنے والے ہوں گے تو اس کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل اور انعام جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر خلافت کی صورت میں جاری فرمایا ہے اس سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے۔ اور اگر دعوے تو خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے ہوں اور عمل یہ کہ کسی طرح خلیفہ وقت کو باتوں ہی باتوں میں دھوکا دیا جائے۔ تو پھراللہ تعالیٰ بھی اپنا قانون استعمال کرتا ہے۔ اور ظالم اپنے ظلموں کی وجہ سے دنیا داروں سے تو بچ سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مخلوق جس کا علم محدود ہے اس سے تو بچ سکتا ہے، لیکن خداتعالیٰ سے نہیں۔ پس ہر ایک کو اپنا اس لحاظ سے بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔

نیکیاں اپنے اندر کس طرح پیدا کرنی چاہئیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ نوافل ہمیشہ نیک اعمال کے مُتَمَّم اور مکمل ہوتے ہیں اور یہی ترقیات کا موجب ہوتے ہیں۔ مومن کی تعریف یہ ہے کہ خیرات و صدقہ وغیرہ جو خدا نے اس پر فرض ٹھہرایا ہے بجا لاوے اور ہر ایک کار خیر کے کرنے میں اس کو ذاتی محبت ہو اور کسی تصنع و نمائش و ریاء کو اس میں دخل نہ ہو۔ یہ حالت مومن کی اس کے سچے اخلاص اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے اور ایک سچا اور مضبوط رشتہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیدا کر دیتی ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ اس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ کام کرتا ہے۔ الغرض ہر ایک فعل اس کا اور ہر ایک حرکت سکون اس کا اللہ ہی کا ہوتا ہے۔ اُس وقت جو اس سے دشمنی کرتا ہے وہ خدا سے دشمنی کرتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ343جدید ایڈیشن ـ الحکم 30جون 1903ء صفحہ 11`10)

تو فرمایا کہ ہر نیک کام میں، ہر کار خیر میں ذاتی محبت ہو۔ ایک جوش سے نیکی کا کام ہو رہا ہو، مجبوری سے نہ ہو رہا ہو اور کوئی تصنع اور بناوٹ بھی نہ ہو۔ نیکی دنیا کو دھوکا دینے کے لئے بھی نہ ہو رہی ہو۔ دکھانے کے لئے بھی نہ ہو رہی ہو۔ تو یہ ہے تعریف نیک اعمال بجا لانے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی۔ اور پھر جب اس طرح پر اعمال بجا لا رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے انعاموں سے بھی حصہ پانے والے ہوں گے۔ پس ان انعاموں سے حصہ پانے کے لئے ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے جس پر ایک مومن کو چلنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ گزشتہ دنوں کی برکتوں سے جو آپ نے حصہ پایا ہے اس کو ہمیشہ اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بعض جگہ جو نفرتیں پل رہی ہیں ان کو دُور کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ بڑے درد سے آپؑ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ میرے مرید ہو کر مجھے بدنام نہ کریں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ ہماری جماعت کو چاہئے کہ کوئی امتیازی بات بھی دکھائے۔ اگرکوئی شخص بیعت کرکے جاتا ہے اور کوئی امتیازی بات نہیں دکھاتا۔ اپنی بیوی کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہے جیسا پہلے تھا اور اپنے عیال و اطفال سے پہلے کی طرح ہی پیش آتا ہے تو یہ اچھی بات نہیں۔ اگر بیعت کے بعد بھی وہی بدخلقی اور بدسلوکی رہی اور وہی حال رہا جو پہلے تھا تو پھر بیعت کرنے کا کیا فائدہ ؟ چاہئے کہ بیعت کے بعد غیروں کو بھی اور اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ایسا نمونہ بن کر دکھاوے کہ وہ بول اٹھیں کہ اب یہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ خوب یاد رکھو کہ صاف ہو کر عمل کرو گے تو دوسروں پر تمہارا ضرور رعب پڑے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 283-282جدید ایڈیشن ـ الحکم مورخہ 24؍ستمبر 1907ء صفحہ 4`3)

اللہ تعالیٰ سب کو بیعت کے حق کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ نیکیوں میں بڑھنے والے، نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رہے۔

میرا یہاں کینیڈا میں اِس دورہ کا یہ آخری جمعہ ہے۔ مختصراً یہاں ذکر کر دوں کہ جو وفا اور پیار اور اخلاص مَیں نے آپ میں دیکھا اور محسوس کیا ہے خدا کرے یہ ہمیشہ قائم رہے۔ اور آپ میں سے اکثریت جو اخلاص اور وفا میں بڑھی ہوئی ہے اپنے نمونوں اور اثر کی وجہ سے اپنے کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے والی ہو، ہر فتنے سے محفوظ رہنے والی ہو۔ اللہ آپ کو ہر فتنے سے محفوظ رکھے اور آپ لوگوں کو یہ بھی توفیق دے کہ احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام اس خطّہ کے لوگوں تک بھی پہنچانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ کی طرف لے جانے والا راستہ دکھانے والے ہوں۔ اللہ آپ کی طرف سے ہمیشہ مجھے خوشی کی خبریں پہنچاتا رہے۔ خدا حافظ، السلام علیکم۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • یکم جولائی 2005ء شہ سرخیاں

    جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں

    خطبہ جمعہ فرمودہ یکم؍جولائی2005 ء بمقا م انٹرنیشنل سنٹر۔ ٹورانٹو(کینیڈا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور