مشرقی افریقہ اور کینیڈا کے دوروں کا ایمان افروز تذکرہ

خطبہ جمعہ 8؍ جولائی 2005ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

گزشتہ تقریباً دو ماہ سے مَیں دورہ پہ رہا ہوں۔ چند دن یہاں گزارے پھر چلا گیا۔ تو ان دوروں کا جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں، عموماً جماعت میں دوروں کی و جہ سے ترقی کی طرف قدم بڑھانے کا رجحان بڑھتا ہے۔ یہ ترقی خواہ تربیتی لحاظ سے ہو، مالی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لحاظ سے ہو یا تبلیغی میدان میں ہو۔ جب ایک جگہ پر ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو پھر اس تعلق کی و جہ سے جو جماعت کو خلافت سے ہے براہ راست رابطے کی و جہ سے، اس ترقی میں قدم جو بڑھ رہے ہوتے ہیں ان میں تیزی پیدا کرنے کی کوشش اور زیادہ شروع ہو جاتی ہے۔ اکثر خطوں میں متعلقہ ملکوں کے احمدی جہاں جہاں بھی دورے ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ چاہے وہ افریقن احمدی ہوں یا دوسرے ملکوں کے جہاں بھی گیا۔ تو یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد آپؑ کو ماننے والی اس پیاری جماعت کے لوگوں میں اس تعلیم کی و جہ سے جس کو لوگ پہلے بھول چکے تھے اور جس کو آپؑ نے دوبارہ ہمارے سامنے رکھا جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی روح افراد میں پیدا ہوئی۔ یہ نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ افریقہ میں بھی اور کینیڈامیں بھی۔ اکثر ملنے والوں نے زبانی اور بہت سے لوگوں نے خطوط کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے بلکہ دنیا میں ہر جگہ، ہر احمدی کو توفیق دے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرکے، خدا سے زندہ تعلق جوڑ کر، اُس مقصد کو حاصل کرنے والے ہو جائیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ کیونکہ اب دنیا میں خدا کی طرف لانے کے لئے، دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں دی ہے اور وہ خوبصورت تصویر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دکھائی ہے، اس کو نہ صرف اپنے پر لاگو کریں، اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں، بلکہ دنیا کو بھی اس سے روشناس کرائیں۔ ان کو بھی بتائیں کہ دیکھو چند ایک سر پھرے، اللہ تعالیٰ کے خوف سے بے بہرہ لوگ جو بظاہر اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اسلام کی اس صحیح اور خوبصورت تعلیم سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جو بظاہر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن اس محسن انسانیت اور رحمۃ للعالمینؐ سے اُن کا دور کابھی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تو حسن و احسان کا پیکر تھا، وہ تو مظلوموں اور معصوموں بلکہ دشمنوں تک، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق کے لئے رحمت تھا۔ اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ان چیزوں سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا جو آج کے سر پھرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو کر کرتے ہیں۔ اب یہاں کل ہی لندن میں جو مختلف ٹرینوں میں اور بسوں میں واقعہ ہوا ہے، جو ظلم اور بربریت کی ایک مثال قائم کی گئی ہے، کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے؟ مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والا شخص ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ بہرحال یہ جس تنظیم یا جس گروہ نے بھی کیا اگر یہ مسلمان کہلانے والا گروہ ہے تو اس نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر، ان بیہودہ اور ظالمانہ فعلوں سے اپنے آپ کو بچا لیا ہے۔ اور جب بھی کہیں ظلم کا کھیل کھیلا گیا ہے، جماعت احمدیہ نے ہمیشہ اس سے بیزاری، نفرت اور کراہت کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ اسلام تو انسانیت کی اقدار قائم کرنے کے لئے آیا تھا، نہ کہ معصوموں کی جانیں لینے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور دنیا کو اس ظلم سے بچائے۔ بہرحال ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے اندر تبدیلیوں کے ساتھ اسلام کی خوبصورت تعلیم سے دنیا کو بھی آگاہ کرے، دنیا کو بھی بتائے۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ، ہر ملک میں، جس کی طرف سے بھی ایسے ظالمانہ فعل ہو رہے ہوں ان کی خود پکڑ فرمائے اور ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلائے رکھے۔

تو ذکر مَیں کر رہا تھا دوروں کے بارے میں۔ ساتھ ہی یہ بات آ گئی کہ اس تعلیم کو دنیا میں پھیلا ناچاہئے، یہ تعلیم ہے۔ تو اس ضمن میں جو مختلف جگہوں پر دوروں کے دوران بعض جماعت نے نئے کام شروع کئے اور جو قربانیاں، خاص طور پر مالی قربانیاں دیں، ان کے بارے میں اب اس وقت مَیں ذکر کروں گا۔ اپنے دوروں کے دوران احمدیوں میں تبدیلیوں کی اور ان قربانیوں کی جو جماعت کے افراد نے اپنے وسائل کے لحاظ سے کیں اور کر رہے ہیں۔ مَیں مساجد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ چند سالوں میں، دنیا کی مختلف جماعتوں میں مساجد کی تعمیر کی طرف یا بڑی عمارت خرید کر ان کو مسجدوں میں تبدیل کرنے یا نماز سینٹر قائم کرنے اور خرید کر قائم کرنے کی طرف رجحان کافی بڑھا ہے۔

چنانچہ اُس دورے کے دوران بھی پہلے جو افریقہ کا دورہ ہوا مختلف افریقہ کے ممالک میں چار مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور چھ نئی مساجد کا افتتاح ہوا۔ افریقہ میں تو بہت غربت ہے، تھوڑا بہت اپنے وسائل سے لوگ اپنی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں۔ بہرحال اپنے لحاظ سے جس قدر قربانی اور اخلاص کا وہ اظہار کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔ اُن ملکوں میں زیادہ تر مرکزی طورپر یا یہ بھی ہوا ہے کہ بعض دوسرے ملکوں کے مخیر حضرات نے مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیا ہے، اور لے رہے ہیں۔ U.K. کے بھی بعض افراد ان میں شامل ہیں۔ مشرقی افریقہ میں عموماً احمدی اتنے خوشحال نہیں ہیں جیسے مغربی افریقہ میں ہیں۔ وہاں تو ایک ایک احمدی خود بھی بڑی بڑی مساجد تعمیر کروا دیتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا مشرقی افریقہ کے رہنے والے احمدیوں کے وسائل عموماً اتنے نہیں ہیں۔ لیکن کینیا میں مثلا ًایشین احمدی یا پاکستانی، ہندوستانی Origin کے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے رہا ہے اور وہ مساجد کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ بلکہ بعض مساجد جن کی مَیں نے بنیادیں رکھی ہیں ان کی تعمیر کا مکمل خرچ ان میں سے ایک ایک آدمی نے یا ان کی ایک فیملی نے برداشت کیا ہے۔ اسی طرح یوگنڈا میں بعض احمدیوں کے حالات کچھ نسبتاً بہتر ہیں تو وہاں بھی افریقن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بڑھ کے حصہ لے رہے ہیں۔ ایک افریقن احمدی نے ایک بڑی اچھی مسجد بنوانے کا وعدہ کیا ہے بلکہ شروع بھی کروا دی ہے۔ اس کی بنیاد مَیں نے رکھی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کو جزا دے، ان کی توفیقوں کو بڑھائے اور ان کے ایمان اور اخلاص میں ان کو ترقی دیتا چلا جائے۔

پھر اس کے بعد مَیں نے کینیڈا کا دورہ کیا ہے، کل ہی وہاں سے واپس آ یا ہوں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایمان اور اخلاص میں بڑھ رہی ہے۔ مالی قربانیوں کے لئے بھی ایک جوش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مالی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے اخلاص کو بھی بڑھاتا چلا جائے اور ہر فرد ِجماعت کو تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے سنگ بنیاد رکھے گئے۔ پہلا سنگ بنیادوینکوور (Vancouver) میں رکھا گیا۔ یہ سمندر کے کنارے، پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کے کنارے جماعت نے چند سال قبل ایک رقبہ خریدا تھا جس میں ایک عمارت بنی ہوئی تھی اور اس میں ایک چھوٹا سا ہال بھی تھا جس میں آجکل نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ یہاں باقاعدہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کانام بیت الرحمن رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ بھی ایک مخلص احمدی دوست نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے۔ اس مسجد کا خرچ تقریباً ساڑھے تین چار ملین ہے، یعنی پینتیس، چالیس لاکھ ڈالرز۔ اور وہ اکیلے آدمی نے برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جلد سے جلد تکمیل کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر کیلگری کینیڈا کا ایک بڑا شہر ہے۔ یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنگ بنیاد کے وقت ایک بڑی اچھی تقریب ہوئی اور ان کے ممبر آف پارلیمینٹ اور شہر کے معززین دوست آئے، بلکہ صوبے کے گورنر بھی آئے ہوئے تھے۔ اسی طرح وینکوور میں بھی دوست، معززین اور پارلیمینٹ ممبران آئے ہوئے تھے۔ کینیڈا میں عموماً جماعت کا ایک اچھا اثر قائم ہے۔ اور ان دونوں شہروں میں بھی باقی کینیڈا کی طرح جماعت کا بڑا اچھا اثر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نیک اثر ہمیشہ قائم رکھے اور جماعت کو توفیق دے کہ اس میں مزید ترقی ہو اور اس نیک تاثر کے نیک اثرات بھی ظاہر ہوں اور وہاں کے احمدی ان لوگوں کو بھی اسلام کی روشنی سے منور کرنے کے قابل ہو سکیں۔ تو کیلگری میں مسجد کے سنگ بنیاد کا ذکر ہو رہا تھا۔ یہ منصوبہ بھی بڑا ہے۔ میرا خیال ہے کینیڈا کی یہ سب سے بڑی مسجد ہو گی۔ تقریباً چھ سات ملین ڈالرز کا خرچ ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدی احباب کو توفیق دے، ان کی توفیقوں کو بڑھائے اور جلد انہیں یہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے۔ بنیاد رکھی ہے انشاء اللہ کام شروع ہو جائے گا۔ جس جوش اور درد کے ساتھ وہاں کے لوگوں نے اپنے وعدے پورے کرنے اور بڑھا کر پورے کرنے کا اظہار کیا اور دعا کے لئے کہا مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہوجائے گی، اور کوئی مالی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس مسجد کانام ’’بیت النور ‘‘رکھا گیاہے۔

پھر ٹورانٹو کے پاس ایک جگہ ہے۔ بریمپٹن (Brampton)، یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ یہاں کچھ روکیں ابھی حائل ہیں، جیسا ان ملکوں میں ہوتا ہے، بعض اجازتیں لینی ہوتی ہیں۔ بعض ہمسایوں کی طرف سے روکیں ہیں۔ بہرحال بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ روکوں کو دور فرمائے اور یہاں بھی مسجد کی تعمیر جلد شروع ہو جائے۔ پھر کینیڈا کی جماعت نے ایڈمنٹن، لائیڈ منسٹرز اور سسکاٹون وغیرہ میں مساجد کے لئے پلاٹ خریدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑے بڑے پلاٹ ہیں۔ دس، بیس اور تیس ایکڑ کے۔ یہاں بھی جلداللہ کرے ان کو مساجد کی تعمیر کی توفیق ملے۔ تو جو پہلی جگہیں ہیں وینکوور اور کیلگری کیونکہ یہ شہر کے اندر ہیں۔ یہ پلاٹ میرا خیال ہے چار پانچ ایکڑ کے ہیں۔ باقی جگہ کھلی جگہوں کے پلاٹ ہیں۔ ان بڑے پلاٹوں کا یہ فائدہ ہے کہ بہت ساری چیزوں کے لئے ہمیں جو ضرورت پڑتی ہے، جماعت کے فنکشنز کے لئے وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔

پھر کینیڈاکی جماعت نے دو سنٹرز خریدے ہیں جہاں بڑی اچھی مضبوط عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ بلکہ ایک جگہ Darham میں تو ایک چھوٹا سا قلعہ نما گھر بنا ہوا ہے۔ کسی ہالینڈ کے باشندے نے بنایا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے دے دیا۔ بڑا مضبوط بنا ہوا ہے اور اس کے ساتھ رقبہ بھی تقریباً سترہ، اٹھارہ ایکڑ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اچھی مضبوط عمارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جماعت کے پیسے کو، قربانی کرنے والوں کے پیسے کو، اس طرح برکت دی ہے اور ان سے اس طرح استعمال کرواتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ قلعہ نما گھر جو ہے، 18ایکڑ زمین کے ساتھ یہ تقریباً ایک ملین ڈالر کا خریدا گیاہے اور اس کا خرچ بھی صرف ایک آدمی نے دیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے مخلص دوست دئیے ہیں جو خرچ برداشت کرتے ہیں۔ اور جماعت کو بڑے سستے داموں یہ زمین مل گئی ہے جبکہ اس کی اب قیمت تقریباً اس سے ڈیوڑھی ہو چکی ہے۔ تو ان سب خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا دے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ عمارت بھی جو خریدی گئی ہے یہ اتفاق سے قبلہ رخ بنی ہوئی عمارت ہے۔ اس لئے مسجد کے طور پر بھی فوراً اس کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔ اور مزید تھوڑی سی تبدیلیاں ہونی ہیں۔ اس میں علاوہ کمروں کے دو بڑے بڑے ہال ہیں اور ایک ہال تو خیر سوئمنگ پول کا ہے، اس میں کچھ تبدیلی کرکے اس کو نماز کے ہال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں تقریباً چار پانچ سو نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ پھر کارنوال میں ایک عمارت جس کو مسجد کی شکل دے دی جائے گی خریدی گئی ہے۔ یہ بھی ماریشس کے احمدی ڈاکٹر ہیں انہوں نے خرید کے دی ہے۔ تقریباً 3لاکھ ڈالرزمیں۔ تو یہ کارنوال کا قصبہ ایک چھوٹا ساقصبہ ہے اس لئے یہاں اس ضرورت کے تحت تھوڑی زمین اور عمارت خریدی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں جماعت کو بھی توفیق دے کہ جو اپنے نیک نمونے قائم کرنے کا اصل مقصد ہے اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے کا، وہ قائم کریں اور قصبے میں مقامی لوگوں کی بھی ایک مضبوط جماعت قائم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ تو بہرحال یہ عجیب نظارے جماعت کی قربانیوں کے دنیا میں نظر آتے ہیں۔ جہاں دنیا اپنے پیسے کھیل کود میں ضائع کر رہی ہوتی ہے، وہاں احمدی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے، اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنے پیسے کا استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ آج اس کو یہ فہم اور ادراک ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں ہی اس کی بہتری اور بھلائی ہے۔ کیونکہ کھیل کود میں خرچ کیا ہوا پیسہ تو ضائع ہوجاتا ہے، لہوو لعب میں خرچ کیا ہوا پیسہ تو ضائع ہو جاتا ہے، لیکن خدا کی راہ میں خرچ کئے ہوئے پیسے کے ضائع ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ لوٹاتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جا رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ادھار نہیں رکھتا۔ اور نہ صرف ادھار نہیں رکھتا بلکہ کئی گنا بڑھا کر احسان کرکے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

{لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰٮہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ}(البقرۃ:273)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے یہ فرمایا کہ ہدایت دینا تجھ پر فرض نہیں ہے۔ یہ ہدایت اللہ نے لوگوں کو دینی ہے۔ لیکن فرمایا اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور پھر جب ہدایت دیتا ہے۔ اور آگے فرمایا کہ جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہارے اپنے ہی فائدے میں ہے۔ جبکہ تم تو اللہ کی رضا جوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گا اور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا اور ہدایت پہ قائم رکھنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ دوسری جگہ ذکر آیا کہ {اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ} (البقرۃ:4) کہ غیب پر ایمان بھی لاتے ہیں، نمازیں قائم کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پس اگر ان چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، عمل کرتے ہوئے، سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ بھی سیدھے راستے پر چلائے گا۔ اس آیت میں جو مَیں نے پہلے پڑھی ہے اس میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ اگر اللہ پر ایمان لانے والے اس بات کو سمجھ لیں اور اس کے لئے کوشش کریں کہ ہدایت پانے کے کیا طریق اختیارکرنے ہیں جن میں سے ایک طریق تو بتایا گیا کہ مال خرچ کرنا بھی ہے تو ہدایت پر قائم رہو گے اور دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملتی رہے گی۔

اور اس زمانے میں جب مال بے انتہا عزیز ہو چکا ہے یا اس کو جمع کرنے کا شوق ہے یا نفسانی لذات کی خاطر خرچ کرنے کا شوق ہے۔ تو اس زمانے میں جو مال تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے، آج جو مال تم خدا کی راہ میں خرچ کرو گے، وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے والا ہو گا۔ اور اللہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں۔ ہدایت پر قائم رکھتا ہے۔ اس کا اس مال کے خرچ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ خرچ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنے فضلوں سے حصہ دیتے ہوئے ہدایت پر قائم رکھتا ہے۔ اور پھر یہ بھی ہمارے لئے خوشخبری ہے کہ جس طرح اولین کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرما دیا کہ اب میری ہدایات پر چلنے کے بعد تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہو گا جو میری مرضی کے خلاف ہو، جیسا کہ اس آیت میں فرمایا، میری رضا کی خاطر خرچ کرتے ہیں، اس کے علاوہ خرچ ہی نہیں کرتے اس لئے تمہارے خرچ صرف میری مرضی حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ تو اسی طرح ہمیں آخرین کو پہلوں سے ملنے کی خوشخبری دے کر یہ بتا دیا کہ آج تم بھی اگر اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس طرح خرچ کرو جس طرح اولین نے کئے تھے اور وہ یہ کہ تمہارے خرچ اس کی رضاحاصل کرنے کے علاوہ اور کسی مقصد کے لئے نہ ہوں۔ اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کی سوچ ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا ہے۔ اور پھر جب اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اس پیسے کو اپنے پاس نہیں رکھ لیتا بلکہ جیسا کہ آیت میں ذکر آیا، ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ہدایت تمہارے لئے مستقل حصہ بن جائے گی، تم مستقل ہدایت پہ قائم رہو گے۔ ایک دفعہ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ انعام دیا ہے کہ احمدیت کو قبول کر لیا تو اس پر قائم رہنے کے لئے یہ خرچ تمہیں ایک سہارے کا کام دیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اب اس ذریعہ سے تمہیں خود ہدایت دے گا۔ اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہ کئی گنا ہو کر واپس مل جائے گا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تو کسی سے کوئی زیادتی نہیں کرتا بلکہ زیادتی کا کیا سوال ہے اللہ تعالیٰ تو احسان کرنے والوں میں سے ہے۔ جیسا کہ کہتا ہے کہ مَیں بڑھا کے دیتا ہوں اور سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کے دیتا ہوں۔ تو جو احمدی اس جذبے سے چندے دیتے ہیں، اُس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں۔ اور جنہوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا وہ یہ پرواہ نہیں کرتے کہ کتنے ملین ڈالرز یا کتنے ملین پونڈ خرچ ہو رہا ہو گا، وہ بے دھڑک خرچ کرنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ تو مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں اور یہ فضل اس بات کی فعلی شہادت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو قبول کرلیا ہے، اور کئی گنا بڑھا کر دیا۔ اور یہ ہر اس احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود کو مانا، آپؑ کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ایک عملی دلیل ہے جس کو احمدی اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور یہ بات ایمان میں مزید پختگی پیدا کرتی ہے کہ یقینا ہم ہی وہ آخرین ہیں جن کے پہلوں کے ساتھ ملنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ غرض اگر غور کریں تو ہر سچے احمدی کا اپنا وجود ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ اور اس بات پر گواہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے لوگ ہیں۔ مالی قربانیوں کے ضمن میں U.K. جماعت کا بھی ذکر کر دوں۔ دنیا یہ نہ سمجھے کہ دوروں سے بس باہر کی جماعتیں ہی فائدہ اٹھا رہی ہیں اور یو کے میں گزشتہ بیس بائیس سال سے یہاں خلافت کا مرکز ہے اس قرب کی و جہ سے شاید یہ لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے یا بھول گئے ہیں، یا اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ اگر یہ غلط فہمی ہے کسی کی تو دور کر لینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سےU.K. کی جماعت بھی قربانیوں میں بہت بڑھی ہوئی ہے اور ہر آواز پر، ہر تحریک پر، صف اول میں شمار ہونے والوں میں ہے۔ یہاں بھی اخلاص اور نیکیوں میں بڑھنے کے نمونے اللہ تعالیٰ کے فضل سے موجود ہیں جو ہمیں دوسری احمدی دنیا میں نظر آتے ہیں۔ خلافت سے محبت و عشق ان میں بھی کم نہیں، جس کے نظارے ہمیں مختلف اوقات میں، مختلف جگہوں پر نظر آتے ہیں۔ جس طرح ان لوگوں نے گزشتہ بیس بائیس سال میں، بلکہ تئیس سال میں، خلیفہ وقت کی یہاں موجودگی کی و جہ سے مستقل بعض کام کئے ہیں اور کر رہے ہیں اور والنٹیئرز یا عارضی کارکنان کے ذریعہ سے یہ سب کام سنبھالے ہوئے ہیں یہ انتہائی قابل قدر چیز ہے۔ پس آپ U.K. والے بھی، جو یہاں میرے سامنے بیٹھ ہوئے ہیں، جوباتیں مَیں دوسری دنیا کی اپنے دوروں کی بیان کر رہا ہوتا ہوں، سن کر مایوس نہ ہو جایا کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ آپ بھی ماشاء اللہ قربانیوں میں بڑھنے والوں میں شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب اس مسجد کوبنانے کی تحریک کی تھی توU.K. کی جماعت نے بھی ماشاء اللہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور پھربعض وجوہ کی و جہ سے جب خرچ تقریباً دو گنے کے قریب ہو گیا، زیادہ ہو گیا، دوبارہ تحریک کرنی پڑی تو آپ لوگ تھک کر بیٹھ نہیں گئے تھے۔ حضورؒ کی تحریک پر دوبارہ اسی طرح بڑھ چڑھ کر آپ نے حصہ لیا اور یہ خوبصورت اور ایک شاندار مسجد یورپ کے دل میں بنا دی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس میں باہر کی جماعتوں نے بھی حصہ لیا، ان کی بھی قربانیاں شامل ہیں لیکن U.K. کی جماعت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، بلکہ بہت بڑا حصہ ان کا ہے۔ اور ابھی تک بعض چھوٹے کام ہو رہے ہیں اور مستقل خرچ ہو رہے ہیں تو دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ ابھی تک اس مسجد پر خرچ کر رہے ہیں۔ پھر برمنگھم میں گزشتہ سال ایک خوبصورت مسجد بنی۔ وہاں کی جماعت نے بھی اپنے شہر میں مسجد بنا کر ایک خوبصورت اضافہ کیا۔ پھر جب مَیں نے ہارٹلے پول اور بریڈفورڈ کی مسجد کے لئے تحریک کی تو پھرU.K. کی جماعت نے غیرمعمولی قربانیاں دیں۔ انصارا للہ نے بھی، لجنہ نے بھی اور دوسری جماعت کے افراد نے بھی۔ تو یہ جو ہر جگہ غیر معمولی قربانی کے نظارے ہمیں یہاں بھی نظر آتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ سے پیار اور اس کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم ہی ہیں نا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو اپنی پسندیدہ چیزیں، اپنی محبوب چیزیں خرچ کرو۔ تبھی پتہ چلے گا کہ واقعی تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کر رہے ہو کہ نہیں۔ ورنہ تو یہ تمہارے دعوے ہوں گے کہ ہم نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے {لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} (آل عمران:93) یعنی تم کامل نیکی کو ہرگزنہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو۔ تو یہاں اس حکم میں بھی جماعت نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اس حکم کے مطابق خرچ کرنے کے نمونے جہاں ہمیں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور دوسرے ملکوں میں ملتے ہیں وہاں یو۔ کے بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر یہ نمونے قائم کئے ہیں۔ خاص طورپر مَیں عورتوں کا ذکر کروں گا۔ ان کی پسندیدہ چیز زیور ہوتی ہے جس کو وہ بڑے شوق سے بناتی ہیں اور ان کے لئے سب سے پسندیدہ مال یہی ہے۔ لیکن احمدی عورت جس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی مقصود ہے اس نے ہمیشہ اپنی اس پسندیدہ چیز کو جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کیا۔ اور احمدیت کی تاریخ میں ابتداء سے لے کے آج تک کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اور U.K.کی عورتوں نے بھی یہ نظارے ہمیں دکھائے ہیں۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے ہر تحریک پر اپنا کوئی نہ کوئی زیور نکال کر پیش کر دیا۔ یہاں تک کہ اپنے آخری زیور چوڑیاں یا بالیاں جو بھی تھیں وہ بھی دے دیں، خالی ہاتھ ہو گئیں۔ بعض ان کے پاس بزرگوں کی نشانیاں تھیں وہ بھی پیش کر دیں۔ پھر اگر خاوند نے یا ان کے ماں باپ نے اور زیور بنا کر دئیے تو وہ بھی لا کر پیش کر دئیے۔ کئی ایسی آئی ہیں میرے پاس کہ یہ بھی آپ کسی تحریک میں شامل کر لیں۔ تو یہ مثالیں احمدی عورت میں ہی ہمیں نظر آتی ہیں۔ کینیڈا میں لجنہ کی سیکرٹری مال بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگیں کہ یہاں کی عورتوں کے لئے دعا کریں کہ اس طرح مختلف تحریکات میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے زیور پیش کئے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح قرآن کے حکم کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز کو پیش کر رہی ہیں۔ تو مَیں نے ان کو یہی کہا تھا کہ یہی تو ایک احمدی عورت کی خوبصورتی ہے، یہی تو اس کا حسن ہے کہ اپنے ظاہری دنیاوی زینت کے سامان کو، اس کو جس سے وہ محبت کرتی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی زینت بنانے کے لئے اور خداکے گھر کی تعمیر اور زینت کے لئے قربان کر دیتی ہیں۔ اور یہ نظارے ہمیں احمدی دنیا میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ یہ پسندیدہ مال خرچ کرنے والی جہاں ہمیں کینیڈا میں نظر آتی ہیں وہاں U.K. میں بھی، جرمنی میں بھی ہیں، پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ہیں، جہاں غریب کی کل جمع پونجی ایک آدھ زیور ہوتا ہے۔ اور یہ بھی پھر کوئی امید نہیں ہوتی کہ شاید کبھی اور بھی زیور بنانے کا موقع مل جائے۔ لیکن وہ بڑے شوق سے آکرپیش کر تی ہیں۔ غرض دنیا کے ہر ملک میں یہی نمونے نظر آتے ہیں۔ اور یہی نشانی ہے زندہ قوموں کی کہ ان کی مائیں، بیٹیاں قربانی کے میدان میں اپنے باپوں، بیٹوں سے پیچھے نہیں رہتیں۔ کسی صورت میں بھی پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتیں۔ پس جب تک یہ نمونے قائم رہیں گے، خداتعالیٰ کی رضا کی اس کی عبادت کرنے کی کوشش اور خواہش رہے گی اور اس پر عمل کرتے رہیں گے۔ ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اپنی عبادتوں کے ساتھ، اپنی مالی قربانیوں کو بھی زندہ رکھے گا، تو انشاء اللہ تعالیٰ، خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا ہو گا، اس کی رضا حاصل کرنے والا ہو گا اور کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھے گا۔ اس کے مال میں بھی برکت پڑے گی انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کی اولاد میں بھی برکت پڑے گی۔

ایک بات اور مَیں یہاں کہنا چاہتاہوں کہ یہاں اس ملک میں جب تک حالات کی و جہ سے جلسہU.K. کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ کیونکہ یہ تو یقین ہے کہ یہاں رہائش کی و جہ سے خلیفہ وقت نے شامل ہونا ہے۔ باقی ملکوں میں تو ضروری نہیں کہ ہر جلسے میں شامل ہوا جائے تو اس و جہ سے یہاں دنیا کے مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور آتے ہیں۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا جب تک اس کی مرکزی حیثیت ہے یا حاصل رہے گی U.K. جماعت کو زیادہ قربانی دینی پڑتی ہے۔ جس میں مالی قربانی کے علاوہ وقت کی قربانی بھی ہے اور ابھی تک ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذمہ داری کو U.K. کی جماعت نے خوب نبھایا ہے۔ اب پھر جلسہ قریب آ رہا ہے، بیس دن رہ گئے ہیں۔ اس سال جماعت نے یہ فیصلہ کیا ہے، اسلام آباد میں جگہ کی تنگی کی و جہ سے جلسہ کے لئے متبادل جگہ کرائے پرلی گئی ہے۔ تو اس سال انشاء اللہ وہاں جلسہ ہو گا۔ اور اس کی و جہ سے انتظامات بھی دو جگہ بٹ جائیں گے۔ کچھ انتظامات اسلام آباد میں رہیں گے، کچھ دوسری جگہ پہ چلے جائیں گے۔ شاید بعض انتظامی دقتیں بھی پیداہوں۔ دو جگہ کام کی و جہ سے والنٹیئرز کو شاید بعض شعبہ جات میں زیادہ دقت اور زیادہ تو جہ سے کام کرنا پڑے۔ تو اُن کو اپنے آپ کو بھی ذہنی طور پر تیار کر لینا چاہئے کہ اس دفعہ ایک نیا تجربہ ہے اس لحاظ سے کچھ مختلف کام کی نوعیت ہو سکتی ہے۔ بعض انتظام نئی جگہ پر عارضی ہوں گے، کیونکہ بعض مستقل انتظامات اسلام آباد میں تھے جو وہاں نہیں ہو سکتے، بہت سے کام شاید اس عارضی انتظام کی و جہ سے معیاری نہ ہو سکیں۔ کیونکہ کرائے کی جگہ ہے اس لئے مستقل انتظام بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تو کارکنان کو بھی جہاں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ عارضی انتظام سے کس طرح بھرپور فائدہ اٹھانا ہے وہاں مہمانوں سے بھی مَیں کہوں گا، مہمان آنے بھی شروع ہو گئے ہیں کچھ جلد آنے والے ہیں کہ بعض کمیوں اور خامیوں کو اس سال برداشت کریں جو ہو سکتاہے کہ پیدا ہوجائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی U.K. جماعت کو مَیں اس امر کی طرف بھی تو جہ دلانی چاہتا ہوں کہ جماعتU.K. کو جلسے کے لئے اب کوئی وسیع جگہ مستقل تلاش کرنی ہو گی۔ ملکی جماعت کی انتظامیہ، امیر صاحب وغیرہ اس کے لئے کوشش کر بھی رہے ہیں۔ لیکن کتنی جلدی یہ جگہ ملتی ہے پتہ نہیں۔ اور اگر جگہ مل گئی تو پھر جب اس کو خریدنے کا بھی وقت آ ئے گا تو جماعت یو۔ کے نے اس کو اپنے وسائل سے ہی خریدنا ہے۔ اس لئے ابھی سے مَیں احباب کو تو جہ دلا دوں، ذہنی طور پر تیار ہو جائیں کہ آپ کو ایک اور مزید قربانی کرنے پڑے گی۔ جب تحریک کا وقت آئے گا تو انشاء اللہ تحریک بھی کر دوں گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ جلد ہی کوئی صورت پیدا ہوجائے اور جلد ہی اس طرف تو جہ کرنی پڑے۔ اس لئے آپ لوگ ہمیشہ کی طرح کمر ہمت کس لیں، اپنی ہمتوں کو بڑھائیں، خداتعالیٰ انشاء اللہ آپ کی توفیقوں کو بڑھائے گا۔

اب تو یہاں نئے آنے والے بہت سے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ نئے آنے والوں سے میری مراد جو یورپ کے مختلف ممالک سے آئے ہیں، یہاں آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ اب تعداد میں بھی کافی اضافہ ہو چکا ہے یہاں کی جماعت میں۔ تو اس نسبت سے بلکہ اس سے بڑھ کر قربانیوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جلسے میں صرف بیس دن رہ گئے ہیں۔ جلسے کی ایک بہت اہم چیز اس کے کامیاب انعقاد کے لئے اور انتظامات کے لئے دعائیں ہر ایک کو کرنی چاہئیں۔ وہ ابھی سے شروع کر دیں، کہ اللہ تعالیٰ ہر کمی، خامی اور کمزوری کو دور فرمائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے فضل سے ان کمیوں کو دور کر سکتا ہے۔ نئی جگہ ہے بہت ساری کمیاں نظر آ رہی ہیں اور جب موقع آئے گا تو مزید ابھریں گی۔ اس لئے پردہ پوشی بھی فرمائے اور جس حد تک جو سہولت میسر ہو سکتی ہے اس میں مدد فرمائے۔ اس دفعہ یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ عارضی انتظام کے تحت ہم یہ جلسے کے انتظامات کر سکتے ہیں کہ نہیں۔ گو جرمنی میں، کینیڈا وغیرہ میں بھی جلسہ کرائے کی جگہ پر ہوتا ہے۔ لیکن وہاں بعض انتظامات کی سہولتیں بھی ہیں جو ان کو میسر ہیں۔ ہال ہیں اور انفراسٹر کچر سارا موجود ہے جو یہاں اس جگہ پر اس گراؤنڈ میں نہیں ہے۔ اس لئے دقتیں بہرحال پیدا ہوں گی اور اس لئے میں کہہ رہا ہوں خاص طور پر دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے دور فرمائے۔ اس جلسے سے یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ آئندہ آپ کے لئے مستقل انتظام کتنا ضروری ہے۔ اور اگر یہ عارضی انتظام ہی چلنا ہے تو کتنا عرصہ اسے چلنے دیا جائے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنی مستقل جگہ کا انتظام کرنا ہی پڑے گا۔ یہ عارضی انتظام بہت مشکل ہوں گے۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور اس کے لئے اگر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ مالی قربانی کی ضرورت پڑی تو آپ کی توفیقوں کو بھی بڑھائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ ہر احمدی کو بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا بنائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی ہدایت کے راستوں پر ہمیں چلاتا رہے۔ آمین۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ جولائی 2005ء شہ سرخیاں

    لندن بم دھماکے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے

    خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جولائی 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ برطانیہ

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور