آنحضرتؐ کی توہین پرمبنی حرکات پر اصرار اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا موجب ہے

خطبہ جمعہ 17؍ فروری 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں، اس سے پہلے جو دو خطبے دئیے تھے انہی کے مضمون کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر جو نازیبا اور بیہودہ حرکت مغرب کے بعض اخباروں نے کی اور جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں غم و غصّہ کی ایک لہر دوڑی اور اس پر جو ردّعمل ظاہر ہوا اس بارے میں مَیں نے کچھ کہنا ضروری سمجھا تاکہ احمدیوں کو بھی پتہ لگے کہ ایسے حالات میں ہمارے رویے کیسے ہونے چاہئیں۔ ویسے تو اللہ کے فضل سے پتہ ہے لیکن یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور دنیا کو بھی پتہ چلے کہ ایک مسلمان کا صحیح ردّعمل ایسے حالات میں کیا ہوتا ہے۔

جہاں ہم دنیا کو سمجھاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی بھی قسم کا نازیبا اظہار خیال، کسی بھی طرح کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا۔ تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپیٔن بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو یہ نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادیٔ ضمیر ہے۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور کچھ ضابطۂ اخلاق ہوتے ہیں۔ جس طرح ہر پیشے میں ضابطہ اخلاق ہیں، اسی طرح صحافت کے لئے بھی ضابطہ اخلاق ہے اور اسی طرح کوئی بھی طرز حکومت ہو اس کے بھی قانون قاعدے ہیں۔ آزادی رائے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے کے جذبات سے کھیلا جائے، اس کو تکلیف پہنچائی جائے۔ اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب کو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ یہ تنزل کی طرف لے جانے والی آزادی ہے۔ مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی قدریں پامال کر رہا ہے اس کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنی ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں۔ ابھی اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ بیہودہ اور غلیظ کارٹون ٹی شرٹس پر چھاپ کر پہننے شروع کر دئیے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہاہے میرے سے لو۔ سنا ہے وہاں بیچے بھی جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا علاج یہی ہے۔ تو ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا یہ علاج ہے یا نہیں لیکن ان حرکتوں سے وہ خدا کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ ضروربن رہے ہیں۔ جو کچھ بیوقوفی میں ہو گیا، وہ تو ہو گیا لیکن اس کو تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جانا اور اس پر پھر مصر ہونا کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے غضب کو ضرور بھڑکاتی ہے۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا تھا باقی مسلمانوں کا ردّ عمل تو وہ جانیں، لیکن ایک احمدی مسلمان کا ردّ عمل یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سمجھائیں، خدا کے غضب سے ڈرائیں۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے قادر و مقتدر خدا کے آگے جھکیں اور اس سے مدد مانگیں۔ اگر یہ لوگ عذاب کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں تو وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے، اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔ وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کا پابند نہیں ہے، ہر چیز پر قادر ہے، اس کی چکّی جب چلتی ہے تو پھر انسان کی سوچ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی، پھر اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔

پس احمدیوں کو مغرب کے بعض لوگوں کے یا بعض ملکوں کے یہ رویے دیکھ کر خداتعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے۔ خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے۔ یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جو دنیا میں آ رہی ہیں یہ صرف ایشیا کے لئے مخصوص نہیں ہیں۔ امریکہ نے تو اس کی ایک جھلک دیکھ لی ہے۔ پس اے یورپ! تو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للکارو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ممالک یا مسلمان کہلانے والے بھی اپنے رویے درست کریں۔ ایسے رویے اور ایسے ردّعمل ظاہر کریں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن کو دنیا کے سامنے رکھیں، ان کو دکھائیں۔ تو یہ وہ صحیح ردّعمل ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہئے۔

اب آجکل جو بعض حرکتیں ہو رہی ہیں یہ کون سا اسلامی ردّعمل ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیا، اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگا دی۔ اسلام تو غیر قوموں کی دشمنی میں بھی عدل کو، انصاف کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، عقل سے چلنے کا حکم دیتا ہے، کجا یہ کہ پچھلے دنوں میں جو پاکستان میں ہوا یا دوسرے اسلامی ملکوں میں ہو رہا ہے۔ بہرحال ان اسلامی ممالک میں چاہے وہ غیرملکیوں کے کاروبار کو یا سفارتخانوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یا اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یہ سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں۔ پس مسلمانوں کو چاہئے، مسلمان عوام کو چاہئے کہ ان غلط قسم کے علماء اور لیڈروں کے پیچھے چلنے کی بجائے، ان کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کی بجائے، عقل سے کام لیں۔ آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے۔ اس کو پہچانیں، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں کہ اب کوئی دوسرا طریق، کوئی دوسرا رہبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے اور چلانے والا نہیں بنا سکتا۔ اسلام کی شان و شوکت کو بحال کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے اور کروانا ہے انشاء اللہ۔

پس اس پر ہر ایک کو، مسلمان کہلانے والوں کو بھی غورکرنا چاہئے۔ اور ہمیں بھی ان کو سمجھانا چاہئے اور نام نہاد علماء کی ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جو آنے والا مسیح تھا ابھی نہیں آیا، یا اس نے تو فلاں جگہ اترنا ہے یعنی مہدی نے فلاں جگہ آنا ہے۔ دراصل جس طرح یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے یہ ایک حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اس روایت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح پیش فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلارہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اترے گا اور دمشق کے منارئہ شرقی کے پاس اس کا اترنا ہو گا اور دو فرشتوں کے کندھوں پر اس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مُصَرَّح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟‘‘۔ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو صاف صاف اور کھلا کھلا بیان ہے اس سے کس طرح انکارکیا جا سکتا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں۔ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ:

’’اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے۔ اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے۔ جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈیرا اترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اتراہے۔ ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے توقران شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اترے ہیں۔ بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اترنا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں ‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ133-132)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حدیثیں اس کی وضاحت سے بھری پڑی ہیں۔ تولوگ خود تو اتنا علم نہیں رکھتے اور علماء غلط رہنمائی کرتے ہیں۔ آپؑ نے اس سے آگے فرمایااس لئے یہودیوں نے بھی غلطی کھائی تھی اور حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا تھا۔ تو بہرحال یہ ساری لمبی باتیں اور تفصیلیں ہیں، خطبے میں تو بیان نہیں ہو سکتیں۔ اب جس طرح حالات بدل رہے ہیں، احمدیوں کو بھی چاہئے کہ ان باتوں کو کھول کر اپنے ماحول میں بیان کریں تاکہ جس حد تک اور جتنی سعید روحیں بچ سکتی ہیں بچ جائیں، جو شرفاء بچ سکتے ہیں بچ جائیں۔ احمدی اپنے اپنے حلقے میں کھل کر ہر مذہب والے کو سمجھائیں کہ ہر مذہب کی تعلیم کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’اب مَیں وہ حدیث جو ابو داؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کرکے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں۔ سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابو داؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حرّاث ماوراء النہر سے یعنی سمرقند سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا۔ جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہو گی، الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہو گا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔ مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ درحقیقت دو ہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہو گی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا‘‘۔

اس بارے میں شروع کے خطبوں میں بھی ذکر ہو چکا ہے۔ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بگڑی ہوئی ہے۔ اور کسی مصلح کو چاہتی ہے۔

تو فرمایا کہ: ’’اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کرجو اہرات علوم و حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا‘‘۔ یعنی یہ خزانے ہیں اور وہ ان کے سامنے روحانی علم کی وضاحت کرے گا۔

پھر فرمایا : ’’یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا‘‘۔ یعنی یہ پاکیزہ غذا جو سچائی کی ہے وہ ان کو ملے گی، صحیح اسلام کی تعلیم ان کو ملے گی، مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی اور یہ جو معرفت کا میٹھا شربت ہے یہ ان کو پلایا جائے گا۔ اگر یہ معرفت کا شربت پینے والے ہوتے تو غیر تعمیری قسم کا بلکہ تباہی پھیرنے والاردّعمل جو ان سے ظاہر ہوا ہے اس کی بجائے یہ ایک تعمیری ردّعمل دکھاتے اور خدا کے آگے جھکنے والے ہوتے۔

فرمایا:’’اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی‘‘۔ اسلام کا جو صحیح علم ہے وہ تو ایک بڑا قیمتی خزانہ ہے، موتیوں کی طرح ہے، اس سے ان کی جھولیاں پُر کرے گا۔ ’’اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دئیے جائیں گے‘‘۔ یہ جو قرآن کریم کی خوشبو ہے یہ ان کوملے گی۔

پھر فرمایا کہ’’دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئے گا تو صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا اور دجال یک چشم کو قتل کر ڈالے گااور جس کافر تک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا۔ سواس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر مراد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آ کر صلیبی زمین کی شان و شوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا۔ اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے حیائی، خوکوں کی بے شرمی‘‘ یعنی سؤروں کی بے شرمی وہ بھی ایک جانور ہی ہے’’اور نجاست خوری ہے ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا۔ اور وہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگر دین کی آنکھ بکلی ندارد۔ بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے‘‘ (یعنی آنکھ پر پھوڑا سا بنا ہوا ہے) ان کو بیّن حجتوں کی سیف قاطعہ سے، ایسی دلیلیوں کی تلوار سے جو کاٹنے والی ہے ’’ملزم کرکے ان کی منکرانہ ہستی کا خاتمہ کر دے گا‘‘۔ تو یہ دلائل ہیں جن سے کاٹنا ہے تاکہ ان کے جو جھوٹے دعوے اور وجود ہیں ان کو ختم کر سکے۔ ’’اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہر ایک کافر جو دین محمدی کو بنظر استحقار دیکھتا ہے‘‘۔ جو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ’’مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر مارا جائے گا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آ کر دلیلوں سے اس کو ماریں گے۔ ’’غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقع ہیں جو اس عاجز پر بخوبی کھولی گئی ہیں۔ اب چاہے کوئی اس کوسمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدت اور انتظار کرکے اور اپنی بے بنیاد امیدوں سے یاس کلی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کریں گے۔ (ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3صفحہ143-141حاشیہ)

پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کیا ہے۔ عیسائیت جس تیزی سے پھیل رہی تھی یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اس کو روکا ہے۔ ہندوستان میں اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے اس حملے کو نہ صرف روکا بلکہ اسلام کی ساکھ دوبارہ قائم کی۔ پھر افریقہ میں جماعت احمدیہ نے عیسائیت کی یلغار کو روکا۔ اسلام کی خوبصورت تصویر دکھائی، ہزاروں لاکھوں عیسائیوں کو احمدی مسلمان بنایا۔ تو یہ تھے مسیح کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک آپؑ کی دی ہوئی تعلیم اور دلائل کے ساتھ جماعت احمدیہ دلوں کو جیتتے ہوئے منزلیں طے کرر ہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ایک دن یہ لوگ مایوس ہو کررجوع کریں گے۔

تو یہ ہے وضاحت اس بات کی کہ کس طرح ان لوگوں کے دجل اور فریب کو ختم کر نا ہے۔ یہ ہے خنزیر کو قتل کرنے اور صلیبوں کو توڑنے کا مطلب اور دجال سے مقابلے کا مطلب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ آج بھی جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت احمدیہ ہی ہے جو ہر جگہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام آ رہا تھا شاید جیو یا ARY پر، یا اسی قسم کے کسی ٹی وی پر جوایشیا سے آتے ہیں تو اس میں ایک علامہ ڈاکٹر اسرارصاحب یہ فرما رہے تھے کہ کیونکہ مسلمان علماء جاہل تھے اور دینی علم بالکل نہیں تھا۔ نہ قرآن کا علم تھا، نہ بائبل کا علم تھا اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک علمی آدمی تھے، بائبل کا علم بھی رکھتے تھے، دوسرے مذاہب کا علم بھی رکھتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس وقت عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ بند کر دیا۔ ان کے الفاظ کامفہوم کچھ اس قسم کا تھا۔ تو بہرحال یہ تو انہوں نے تسلیم کر لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی (جیسا کہ خود آپؑ نے فرمایا) دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے، مضبوط دلائل کے ذریعہ سے ان کو رد ّکیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں جنہوں نے اس وقت عیسائیت کے حملے روکے اور مسلمانوں کو عیسائی ہونے سے بچایا۔ آگے وہ اپنی اوٹ پٹانگ مختلف وضاحتیں کر رہے ہیں، مختلف وضاحتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھی کچھ بولے کہ مسیح نہیں ہو سکتے۔ بہرحال یہ تو آج تک مانا جاتا ہے کہ اگر عیسائیت کے مقابلے پر کوئی کھڑا ہوا اور اس کی تعلیم کو دلائل سے ردّ کیا تو وہ ایک ہی پہلوان تھا جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔

پس چاہے یہ لوگ آج تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ایک دن ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ مسیحی دلائل ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دئیے اور جنہوں نے دجّال کا خاتمہ کیا اور آپؑ ہی مسیح موعود ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا غلط اور ظاہری مطلب لینے کی وجہ سے مسلمان ابھی تک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اترے گا، اس کو مزید کھولتے ہوئے کہ ان کا یہ مطلب غلط ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حدیث ہی سے وضاحت فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والے مسیح جس کا اس امت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی امت میں سے ایک شخص ہو گا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ اور اَمَّکُمْ مِّنْکُمْ لکھا ہے جس کے یہ معنی ہیں وہ تمہارا امام ہو گا اور تم ہی میں سے ہو گا۔ چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اس حدیث میں حَکَم اور عَدَل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ اسی کے حق میں ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنْکُم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اور وہ وہی مخاطب تھے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے مِنْکُم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خداتعالیٰ کے علم میں قائمقام صحابہ ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صحابہ کا قائمقام ہے۔ ان کی جگہ پر ہے۔ ’’اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصّلہ ذیل میں قائمقام صحابہ کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ{وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ } (سورۃ الجمعہ 4)۔ کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریمؐ کی روحانیت سے تربیت یافتہ ہے۔ اور اسی معنے کی رو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں حدیث ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس۔ اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جومسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پر کرنا لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں ‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17صفحہ114.115)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید وضاحت فرمائی۔ فرمایا کہ:

’’حدیث لَامَہْدِیَّ اِلَّاعِیْسٰی جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمدبن خالد الجہنی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حضرت حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اور اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسیٰ کی خُو اور طبیعت اور طریق پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا۔ یعنی وہی مسیح موعود ہو گا اور وہی مہدی ہو گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خو اور طبیعت پر طریق تعلیم پر آئے گا۔ یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا۔ اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا۔ اور اسی حدیث کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہیَضَعُ الْحَرْبَ۔ یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعاً موقوف کر دے گا۔ اور اس کی یہ ہدایت ہو گی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں سے پھیلاؤ۔ سو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے‘‘۔ یعنی اگر مسلمان دین کے نام پر لڑائی کریں تو ’’ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے‘‘۔ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد14صفحہ 432-429)

اب دیکھ لیں آجکل مسلمانوں کے حالات اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اگر یہ جنگیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتیں تو اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ {وَکَانَ حَقًا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْن} (الروم:48) اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ٹھہرتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں مل رہی تو سوچنا چاہئے۔ اگر جنگیں لڑنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو پھر اسلام کے نام پر تو نہ لڑی جائیں۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا دوسری قوموں سے شکست کھانا یہ بھی اس بات کی خداتعالیٰ کی طرف سے فعلی شہادت ہے کہ جو مسیح آنے کو تھا وہ آ گیا ہے۔ اور یَضَعُ الْحَرْب کے تحت دینی جنگوں کا جو حکم ہے یہ موقوف ہو چکا ہے۔ ہاں اگر جہاد کرنا ہے تودلائل سے کرو، براہین سے کرو۔ اب مسلمانوں کی اسلام کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج تو جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ہر آنکھ رکھنے والے کو نظر آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ ہے کہ میں مومن کی مدد کرتا ہوں اگر مومن ہو تو۔ تو دو ہی باتیں ہیں یا یہ کہ یہ مسلمان مومن نہیں ہیں۔ یا یہ جنگوں کا وقت غلط ہے اور زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن یاد رکھیں ان لوگوں میں یہ دونوں باتیں ہی ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مان کر پھر مومن تو نہیں رہ رسکتے۔ اور مسیح اور مہدی کے دعوے کے بعد، اس کی بات نہ مان کراللہ تعالیٰ کی مدد کے حقدار نہیں ٹھہرسکتے۔ پس اس زمانے میں مسیح و مہدی کا جودعویٰ کرنے والا ہے وہ یقینا سچا ہے۔

پھر آپ نے اپنی اس سچائی کے لئے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے، ایسا دعویٰ کیا ہے جو کوئی جھوٹا نہیں کر سکتا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’مَیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اسی نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں جن میں سے بطور نمونہ کسی قدر اس کتاب میں بھی لکھے گئے ہیں ‘‘۔ (تتمہ حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ503)

فرمایا کہ:’’اگر اس کے معجزانہ افعال اور کھلے کھلے نشان جو ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں میرے صدق پر گواہی نہ دیتے تو مَیں اس کے مکالمہ کو کسی پر ظاہر نہ کرتا اور نہ یقینا کہہ سکتا کہ یہ اس کا کلام ہے۔ پر اس نے اپنے اقوال کی تائید میں وہ افعال دکھائے جنہوں نے اس کا چہرہ دکھانے کے لئے ایک صاف اور روشن آئینہ کا کام کر دیا‘‘۔ (تتمہ حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ503)

جواللہ تعالیٰ کے نام کا دعویٰ کرتا ہے اگر اس کا دعویٰ سچا نہ ہو تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرتا ہے۔ خود ہی دیکھ لیں اللہ جھوٹے نبی کے متعلق فرماتا ہے {وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْا َقَاوِیْلِ۔ لَاَ َخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ} (الحاقۃ:46-45) اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کو ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر فرمایا {ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ} (الحاقۃ:47) پھر ہم یقینا اس کی رگ جان کاٹ دیتے۔

اب کوئی بتائے کہ کیا اس دعوے کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا کہ مَیں نبی ہوں اور مجھے تمام تائیدات حاصل ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رگ جان کاٹی ہے یا اس وعدے کے مطابق کہ{وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ} (الروم:48) اور ہم نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے پر فرض ٹھہرا لیا ہے، مدد کی ہے اور جماعت کی مدد کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی آج پوری شان کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے۔ آج181ممالک میں جماعت احمد یہ قائم ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے یورپ میں بھی، امریکہ میں بھی اور افریقہ کے دور دراز جنگلوں میں بھی اور تپتے ہوئے صحراؤں میں بھی اور جزائر میں بھی موجود ہیں۔ تو کیا یہ تمام تائیدات الٰہی آپ ؑ کی صداقت پر یقین کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ اگر یہ شخص جھوٹا ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق اس کی پکڑ کیوں نہیں کی۔ کیوں اپنی طرف الہامات منسوب کرنے کی وجہ سے اسے تباہ و برباد نہ کر دیا۔ پس سوچنے کا مقام ہے۔ سوچواور عقل سے کام لو۔ مسلمانوں کو مَیں یہ کہتا ہوں، کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کر رہے ہو۔ ایک جھوٹے کا حال تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں پاکستان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو تھوڑی سی آپس میں فائرنگ کے بعد انہوں نے اس کو گرفتار کر لیا اور اب جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ تو یہ انجام تو فوراً ان کے سامنے آ گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی ہو چکے ہیں۔ بہرحال، پھر آپؑ کی صداقت کی ایک آسمانی شہادت بھی ہے جس کا پہلے بھی مَیں نے ذکر کیا تھا۔ یعنی چاند اور سورج کا گرہن لگنا۔ یہ ایک ایسا نشان ہے جس میں کسی انسانی کوشش کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400سال پہلے جس طرح معین رنگ میں پیشگوئی کی تھی اور ہمیں بتایا تھااس طرح معین طور پر اس زمانے میں بھی جبکہ سائنس نے ترقی کر لی ہے اتنے رستے بلکہ قریب کے رستے کی بھی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی کہ رمضان کا مہینہ ہو گا فلاں تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا اور فلاں تاریخ کو چاند کو گرہن لگے گا۔ حدیث میں آتا ہے۔ ’’اِنَّ لِمَھْدِینَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْناَ مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِا َوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ‘‘ (سنن دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف وھیئتھما صفحہ51جلد1جزء ثانی حدیث :1777)

یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے لئے دو ہی نشان ہیں اور یہ صداقت کے دونوں نشان کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے کبھی ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات چاند کو اور سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن سورج کو گرہن لگے گا۔

چنانچہ یہ گرہن 1894ء میں لگا اور 15-14-13 تاریخوں میں سے 13تاریخ کو رمضان کے مہینے میں چاند کو گرہن لگا۔ 29-28-27 تاریخوں میں سے 28تاریخ کو رمضان میں سورج کو گرہن لگا۔ یہ آپ کی صداقت کی بڑی واضح دلیل ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے علاوہ اس وقت دعویٰ بھی کسی کا نہیں تھا۔ بعض مولوی، قمر وغیرہ کی بحث میں پڑتے ہیں تو قمر تو بعض کے نزدیک دوسری رات کے بعد کا چاند اور بعض کے نزدیک تیسری رات کے بعد کا چاند کہلاتا ہے۔ اب کوئی دکھائے کہ کیا تائید کے اس نشان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کوئی دعویٰ موجود تھا۔ اگر دعویٰ ہے تو صرف ایک شخص کا ہے جو حضرت مرزا غلام احمدصاحب قادیانی علیہ السلام ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ بے شمار علامتیں پوری ہو رہی ہیں۔ اگر مَیں نہیں تو کوئی دوسراآیا ہوا ہے تو دکھاؤ۔ کیونکہ وقت بہرحال تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ دکھا تو نہیں سکتے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی سچے دعوے دار ہیں کیونکہ زمینی اور آسمانی تائیدات آپ ؑ کے حق میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا معیار نبوت آپ کی تائید کررہا ہے۔ خودکچھ لوگ ماضی میں بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ پاک صاف شخصیت کے مالک تھے۔ آپؑ کا ماضی بھی پاک تھا، آپؑ کی جوانی بھی پاک تھی۔ علمی بھی تھے اور اسلام کی خدمت بھی آپ سے زیادہ کسی نے نہیں کی۔ یہ غیروں نے بھی تسلیم کیا۔ پھر سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اگر عقل پہ پردے پڑے ہوئے ہیں تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیونکہ کسی کو ماننے کی توفیق بھی اللہ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اب بتلاویں اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھر کون آیا جس نے اس چودھویں صدی کے سر پر مجدد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے۔ کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا۔ تَفَکَّرُوْا وَتَنَدَّمُوْا وَاتَّقُوْااللّٰہَ وَلَا تَغْلُوْا‘‘ یعنی غور کرو، کچھ شرم کرو، اللہ سے ڈرو کیوں بے حیائیوں میں آگے بڑھ رہے ہو۔ ’’اور اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوی میں غلطی پر ہے تو آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جوآپ کے خیال میں ہے انہیں دنوں میں آسمان سے اتر آئے کیونکہ مَیں تو اس وقت موجود ہوں، مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعویٰ کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا مَیں ملزم ٹھہر سکوں ‘‘۔ یہ اس وقت آپؑ نے ساروں کو چیلنج دیا تھا۔ ’’آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اترتے دکھائی دیں۔ اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ اہل حق کی دعامبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے‘‘۔ یعنی جو سچے ہوں اس کی دعا جھوٹے کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے۔ ’’لیکن آپ یقینا سمجھیں کہ یہ دعا ہرگز قبول نہیں ہو گی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں۔ مسیح تو آچکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا۔ اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہو گی۔ یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اترتے نہیں دیکھے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ179)

پھر آپ نے فرمایا:’’اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں۔ اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کرکے میرے پاس آوے تو مَیں اب بھی اس بات کے لئے حاضر ہوں کہ ان کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوج کثیر کی طرح میری شہادت میں پیشگوئیاں مہیا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے ان کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیساکہ دن چڑھ جاتا ہے‘‘۔

اب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا اگر کوئی آنا چاہے تو سو سال کے بعد آج بھی دلوں کو درست کرکے آنے والی شرط قائم ہے۔ اور جو آتے ہیں وہ حق کو پا بھی لیتے ہیں۔ فرمایا کہ:’’یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں۔ سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ مَیں حملہ پرحملہ کروں گا یہاں تک کہ مَیں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا‘‘۔

فرمایا کہ:’’پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو۔ مجھ سے پہلے غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی۔ مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف ایک مکّار اور کذّاب خیال کیا جاتا تھا۔ اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کرکے مانتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے‘‘۔ یعنی یہ اللہ کی طرف سے یہودیوں کو جواب دیا گیا ہے کہ’’جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔ سو مَیں نے اگرچہ یہ د عا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔ اور اللہ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ سچائی ظاہر ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ’’اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا۔ اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔

فرمایا:’’سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پور اہو گا۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ410-408)

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہے یا پیشگوئی ہے اور ہم ہر روز اس کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہر مذہب و قوم کے لئے بھی یہ غور کا مقام ہے۔ مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کے ان سے کئے گئے وعدہ کے مطابق ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر روز ہم ترقی کو دیکھتے ہیں۔ پس مسلمان بھی غور کریں (جو احمدیوں کے علاوہ مسلمان ہیں ) کہ مسیح ومہدی جو آنے کو تھا وہ آ چکا ہے۔ اور اس کی صداقت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی مل جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک دو کا مَیں نے ذکر بھی کیا ہے۔ زمانے کی حالت بھی اس کو پکار رہی ہے۔ اب کس انتظار میں بیٹھے ہو۔ کچھ تواے لوگ سوچو۔ عیسائیوں کے لئے بھی جس مسیح نے دوبارہ آنا تھا آ گیا ہے۔ اور باقی مذاہب والوں کو بھی ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے جس نے آنا تھا وہ آگیا ہے۔ اب اگر ایک دوسرے کے جذبات کا احترام سکھانا ہے تو اسی مسیح و مہدی نے سکھانا ہے۔ اب اگر تمام مذاہب کے انبیاء کااحترام سکھانا ہے تو اُسی مسیح موعود نے سکھانا ہے۔ اب اگر دنیا میں امن اور پیار اور محبت پھیلانی ہے تو اسی مسیح موعودنے پھیلانی ہے۔ اب اگر انسانیت کو دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلانی ہے تو اسی مسیح موعود و مہدی موعود نے دلانی ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھانے ہیں اور بندے کو خداتعالیٰ کے حضور جھکنے کے طریق بتانے ہیں تو اسی مسیح و مہدی نے بتانے ہیں۔ پس اگر دنیا ان تمام باتوں کا حصول چاہتی ہے۔ تو تمام نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ ورنہ ہمیں تو اللہ تعالی کی قہری تجلی کے سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا سے خبر پا کرہمیں بتا چکے ہیں۔ پس آپ جو احمدی ہیں ان سے بھی مَیں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرے۔ اور اپنی اصلاح کے ساتھ دنیا کو بھی اس انذار سے آگاہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان دنیاداروں پر رحم کرے اور ان کو حقیقت سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ فروری 2006ء شہ سرخیاں

    آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے۔ اس کو پہچانیں، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں۔

    فرمودہ مورخہ 17؍ فروری 2006ء (17؍تبلیغ 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور