آزادی ٔ صحافت اور آزادی ٔ ضمیر کے نام پر بعض مغربی ممالک کے دوہرے اخلاقی معیاروں کا تذکرہ

خطبہ جمعہ 24؍ فروری 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی:

{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (الاحزاب:57)

گزشتہ جو مضمون چل رہے ہیں یعنی گزشتہ کئی ہفتے سے جو واقعات ہو رہے ہیں، آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے پر مغرب کے بعض اخباروں اور ملکوں نے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، آج بھی مختصراً اس کے بارے میں کچھ کہوں گا۔ اور اس کے ردّ عمل میں بعض اخباروں اور ملکوں کے خلاف مسلمان ممالک میں جو ہوا چل رہی ہے اس بارے میں مَیں کہنا چاہتا ہوں۔ یہ انفرادی طور پر بھی ہیں، اجتماعی طور پر بھی ہیں، حکومتی سطح پر بھی احتجاج ہو رہے ہیں بلکہ اسلامی ممالک کی آرگنائزیشن (او آئی سی) نے بھی کہا ہے کہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گاکہ معذرت بھی کریں اور ایسا قانون بھی پاس کریں کہ آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچیں، کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو پھر دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں۔ ان ملکوں کا یا آرگنائزیشن کا یہ بڑا اچھا ردّ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک میں اتنی مضبوطی پیدا کر دے اور ان کو توفیق دے کہ یہ حقیقت میں دلی درد کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایسے فیصلے کروانے کے قابل ہو سکیں۔ گزشتہ دنوں ایران کے ایک اخبار نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس حرکت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے اخبار میں مقابلے کروائے گا جس میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اس سلوک کے حوالے سے، ان کے کارٹون بنانے کا مقابلہ ہو گا۔ گو یہ اسلامی ردّعمل نہیں ہے، یہ طریق اسلامی نہیں ہے لیکن مغربی ممالک جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہر قسم کی بیہودگی کو اخبار میں چھاپنے کو آزادی صحافت کا نام دیتے ہیں ان کو اس پر برا نہیں منانا چاہئے، جو منایا گیا۔ یا تو برا نہ مناتے یا پھر یہ جواب دیتے کہ جس غلطی سے دنیا میں فساد پیدا ہو گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اب کسی مذہب یا اس کے بانی اور نبی یا کسی قوم کے بارے میں ایسی سوچ کو ختم کرکے پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں۔ لیکن اس طرح کے جواب کی بجائے ڈنمارک کے اس اخبار کے ایڈیٹرنے جس میں یہ کارٹون شائع ہونے پر دنیا میں سارا فساد شروع ہوا ہے، اس نے ایران کے اس اعلان پر یہ کہا ہے کہ وہاں جو اخبار میں کارٹون بنانے کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا گیا ہے یعنی جنگ عظیم دوم میں یہودیوں سے متعلقہ جو بھی کارٹون بننے تھے وہ ایک قوم پر ظلم ہونے یانہ ہونے کے بارے میں کارٹون بننے تھے۔ کسی نبی کی ہتک یا توہین کے بارے میں نہیں بننے تھے۔ تو بہرحال ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم اس میں قطعاًحصہ نہیں لیں گے۔ اور اپنے قارئین کی تسلی کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے قاری تسلی رکھیں کہ ہمارے اخلاقی معیار ابھی تک قائم ہیں۔ ہم ایسے نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے یاہالو کاسٹ کے کارٹون شائع کریں۔ اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی بھی حالت میں ایرانی اخبار اور میڈیا کے اس بدذوق قسم کے مقابلے میں حصہ لیں۔ تو یہ ہیں ان کے معیار، جو اپنے لئے اور ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اور ہیں۔ بہرحال یہ اُن کے کام ہیں، کئے جائیں۔ اب دیکھیں کہ معیاروں کا یہ حال۔ پچھلے دنوں یہاں کے ایک مصنف نے 17سال پہلے ایک واقعہ لکھا تھا بات لکھی تھی، آسٹریا میں گیا اور وہاں جاکر اس پر مقدمہ ہو گیا تین سال کی قید ہو گئی۔ تو بہرحال یہ تو ان کے طریقے ہیں۔ اپنے لئے برداشت نہیں کرتے لیکن ہمیں بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری اپنی حالت کیا ہے؟ یہ جرأتیں جو انہیں یعنی مغربی دنیا میں پیدا ہو رہی ہیں ہماری اپنی حالت کی وجہ سے تو نہیں ہو رہیں۔ جو صورت ہمیں نظر آتی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مغربی دنیا کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کے زیرنگیں ہیں ان کے پاس ہی آخر انہوں نے آنا ہے۔ آپس میں لڑتے ہیں تو ان لوگوں سے مدد لیتے ہیں۔ یہ جو پابندیاں یورپ کے بعض ملکوں کے سامان پر لگائی گئی ہیں اس کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ بھی ان لوگوں کو پتہ ہے کہ چند دن تک معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہی چیزیں جو بازار سے اٹھا لی گئی ہیں، اس وقت مارکیٹ سے غائب ہیں وہی ان ملکوں میں دوبارہ مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ اب ان ملکوں میں جو مسلمان رہتے ہیں وہ بھی یہ چیزیں کھارہے ہیں، استعمال کر رہے ہیں۔ ڈنمارک میں ہی (ڈنمارک کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہے) تقریباً دو لاکھ مسلمان ہیں اور کافی بڑی اکثریت پاکستانی مسلمانوں کی ہے وہ بھی تو آخر وہ چیزیں استعمال کر رہے ہیں۔ تو بہرحال یہ عارضی رد عمل ہیں اور ختم ہو جائیں گے۔

اب دیکھیں ہماری حالت۔ یہ جو عراق میں تازہ واقعہ ہوا ہے کہ امام بارگاہ کا گنبد بم دھماکے سے اڑایا گیا ہے۔ تو نتیجتاً سُنّیوں کی مسجدوں پہ بھی حملے ہوئے اور وہ بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ یہ کسی نے دیکھنے اور سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ تحقیق کر لیں کہ کہیں ہمیں لڑانے کے لئے دشمن کی شرارت ہی نہ ہو۔ کیونکہ یہ بم یہ اسلحہ جو سب کچھ لیا جا رہا ہے، یہ بھی تو انہیں ملکوں سے لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایک تو عقل کے اندھے ہو جاتے ہیں، ان کو غصے اور فرقہ واریت میں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے۔ دوسرے بدقسمتی سے جو منافقت کرنے والے ہیں وہ بھی دشمن سے مل جاتے ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور ان کو سوچنے کی طرف آنے ہی نہیں دیتا۔ بہرحال یہ جو نئی صورتحال عراق میں پیدا ہوئی ہے یہ ملک کو سول وار (Civil War) کی طرف لے جا رہی ہے۔ آج کل تو تقریباً شروع ہے۔ اور اب وہاں پہ لیڈروں کو بڑی مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ صورتحال اب سنبھالی نہیں جائے گی۔ مسلمان سے مسلمان کے لڑنے کی یہ صورتحال افغانستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی ہے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کے بارے میں پُرتشدد فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ{وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا} (النساء:94) یعنی جوشخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی اور وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ اس سے ناراض ہو گا اور اس کو اپنی جناب سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا۔

تو دیکھیں، اب یہ ایک د وسرے کو مار رہے ہیں۔ ، فتنہ پیدا کرنے والے، بھڑکانے والے ان لیڈروں کے کہنے پر جن میں اکثریت مذہبی لیڈروں کی ہے، یہ سب فتنے اُن میں پیدا ہو رہے ہیں۔ مار دھاڑ ہو رہی ہے، قتل و غارت ہو رہی ہے کہ قتل کرو تو ثواب کماؤ اور جنت کے وارث بنو گے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال رہا ہے اور لعنت بھیج رہا ہے۔

پاکستان میں، بنگلہ دیش میں یا دوسرے ملکوں میں جہاں احمدیوں کو بھی شہید کیا جاتا ہے یہی ہیں جو جنت کا لالچ دے کر، جہنم میں لے جانے والے کام کروائے جاتے ہیں۔ بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ جو مسلمانوں کی حرکتیں ہیں ان سے مسلمانوں کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان کی طاقت کم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان مسلمانوں کو عقل نہیں آ رہی۔ بہرحال یہ تو ظاہر و باہر ہے کہ یہ عقل ماری جانا اور یہ پھٹکار اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور نہ ہی مان رہے ہیں نہ اس طرف آتے ہیں اور آپؐ کے مسیح و مہدی کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے اور وہ ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ اس طرف پہلے بھی مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ خدا ان کو عقل اور سمجھ دے اور یہ منافقین اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اسلام کوبدنام کرنے والے اور ایک د وسرے کا گلا کاٹنے والے نہ بنیں۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے جب اسلام کے دشمن ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی ذریعے سے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو احمدی بہرحال درد محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں یا منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان لیڈروں اور علماء کی باتوں میں آ کر ایسی نامناسب حرکتیں اور کارروائیاں کر جاتی ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتے ہوئے ان لوگوں کو، ان نام نہاد علماء کے چنگل سے چھڑائے اور یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انجانے میں یا بیوقوفی میں اور اسلام کی محبت کے جوش میں آکر جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہ نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی راہ بھی دکھائے، کیونکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو اسلام پر گند اچھالنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی توہین آمیز حملے کرنے کا موقع ملتا ہے۔

پس ہر احمدی کو آجکل دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دوچار ہے۔ اگر ہمارے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق اور محبت ہے تو ہمیں امت کے لئے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جو ہم پہلے بھی کررہے ہیں۔ لیکن آج مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعائیں ہمیں کس طرح کرنی چاہئیں۔ یہ دعا کرنے کے طریقے اور اسلوب بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سکھائے ہیں جن سے ہماری بھی اصلاح ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمرؓ بن خطاب فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تُو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی(خداتعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے) اوپر نہیں جاتا۔ (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث نمبر486)

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ہمیں واضح فرمایاہے۔ جوآیت مَیں نے ابھی پڑھی ہے کہ{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (الاحزاب:57)

کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے بھی نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔

قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے اور ان پر عمل کرنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ٹھہرو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جاؤ گے، جہنم سے بچائے جاؤ گے، جنت میں داخل ہو گے۔ یہاں یہ حکم ہے کہ یہ اتنا بڑا اور عظیم کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ اس لئے یہ ایسا عمل ہے جس کو کرکے تم اُس عمل کی پیروی کر رہے ہو یا اس کام کی پیروی کر رہے ہو جو خداتعالیٰ کا فعل ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حکموں پر عمل کرنے سے اتنے بڑے اجروں سے نوازتا ہے تو اس کام کے کرنے سے جو خود خداتعالیٰ کرتا ہے کس قدر نوازے گا۔ اور یہ یقینا خالص ہو کر بھیجا گیا درود اُمّت کی اصلاح کا باعث بھی بنے گا۔ اُمّت کو رسوائی سے بچانے کا باعث بھی بنے گا۔ ہماری اصلاح کا باعث بھی بنے گا۔ اور ہماری دعاؤں کی قبولیت کا بھی ذریعہ بنے گا۔ ہمیں دجال کے فتنوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔

احادیث میں درُود کے فوائد مختلف روایات میں ملتے ہیں۔ ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درُود بھیجنے والا ہو گا۔ (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث نمبر484)

پھر فرمایا: جو شخص دلی خلوص سے ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا اور اسے دس درجات کی رفعت بخشے گا اور اس کی دس نیکیاں لکھے گا اور دس گناہ معاف کرے گا۔ (کنزالعمال کتاب الا ذکار باب السادس فی الصلاۃ علیہ وعلی آلہ علیہ الصلوۃ و السلام، حدیث نمبر2220)

اب دیکھیں دلی خلوص شرط ہے۔ بہت سے لوگ دعائیں کرنے یا کروانے والے یہ لکھتے ہیں کہ ہم دعائیں بھی بہت کر رہے ہیں آپ بھی دعا کریں اور دردو بھی پڑھتے ہیں لیکن لمبا عرصہ ہو گیا ہے ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ درُود کس طرح بھیجو۔ فرمایا کہ صَادِقٌ مِّنْ نَّفْسِہٖ (جلاء الافہام صفحہ 73بحوالہ عبدالباقی بن قانع)

اس طرح بھیجوکہ خالص ہو جاؤ۔ درود بھیجتے ہوئے ہر کوئی اپنے نفس کو ٹٹولے، اپنے دل کو ٹٹولے کہ اس میں دُنیا کی کتنی ملونیاں ہیں اور کتنا خالص ہو کر درود بھیجنے کی طرف توجہ ہے۔ کتنا خالص ہو کر درُود بھیجا جا رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو مگر نہ رسم اور عادت کے طورپر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپؐ کے مداراج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ38جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہیں درود بھیجنے کے طریقے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ:

’’(اے لوگو!) اس محسن نبی پر درود بھیجو جو خداوند رحمن و منان کی صفات کا مظہر ہے۔ کیونکہ احسان کابدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپ کے احسانات کا احساس نہیں اُس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اے اللہ! اس اُمّی رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی پانی سے سیر کیا ہے۔ جس طرح اس نے اولین کو سیرکیا اور انہیں اپنے رنگ میں رنگین کیا تھا اور انہیں پاک لوگوں میں داخل کیا تھا‘‘۔ (اعجازالمسیح۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ6-5)

اس طرح خالص ہو کر درود بھجیں گے جس سے ایک جماعتی رنگ بھی پیدا ہو جائے تو وہ ایسا درُود ہے جو پھر اپنے اثرات بھی دکھاتا ہے۔ ایسے لوگ جو کہتے ہیں درود کا اثر نہیں ہوتا ان پر اس حدیث سے بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس کلام سے بھی بات واضح ہو جانی چاہئے اور کبھی بھی درود بھیجنے سے تنگ نہیں آنا چاہئے بلکہ اپنے نفس کو ٹٹولنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو مجھ پر درود نہ بھیجے وہ بڑا بخیل ہے، کنجوس ہے۔ (ترمذی کتاب الدعوت باب قول رسول اللہ رغم انف رجل حدیث نمبر3546)

اور اس بخل کی وجہ سے جہاں وہ بخل کرنے کا گناہ اپنے اوپر سہیڑ رہا ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک بار درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنا تو ایسا سودا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ ؓ بھی سب دعائیں چھوڑ کر صرف درود بھیجا کرتے تھے۔

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک کج خلقی اور بداعتباری کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ (کنز العمال جلد 1کتاب الاذکار قسم الاقوال الباب السادس فی الصلوٰۃ علیہ و علی اٰلہ2153)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور آپ کی صحبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے۔ (تفسیر درمنثورجلد5 تفسیر سورۃ الاحزاب آیت57صفحہ411)

یہ جو آجکل کے نام نہاد جہاد ہو رہے ہیں غیروں سے بھی جنگیں ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ اب ان علماء سے کوئی پوچھے کہ تم جو بے علم اور اَن پڑھ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر(جو مذہبی جوش میں آ کر اپنی طرف سے غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط حرکتیں کرتے ہیں )، ان کی جو تم غلط رہنمائی کرتے ہوتو یہ کون سا اسلام ہے؟ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ جب تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات سنو، باتیں سنو تو آپؐ کے محاسن بیان کرو۔ آپؐ پر درود بھیجو۔ یہ تمہارے جہاد سے زیادہ افضل ہے۔ جان دینے سے زیادہ بہتر ہے کہ دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دو۔

اور اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ بجائے تشدد کے دعاؤں اور درود پر زوردو اور اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرو۔ اپنے نفسوں کو ٹٹولو کہ کس حدتک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں۔ یہ وقتی جوش تو نہیں ہے جو بعض طبقوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے ہمیں بھی اس آگ کی لپیٹ میں لے رہا ہے؟۔

پس ہمیں چاہئے کہ جہاں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے ماحول میں اگر مسلمانوں کو سمجھا سکتے ہوں تو ضرور سمجھائیں کہ غلط طریقے اختیار نہ کرو بلکہ وہ راہ اختیار کروجس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پسند کیا ہے۔ اور وہ راہ ہمیں بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے میری رضا حاصل کرنی ہے، جنت میں جانا ہے تو مجھ پر درود بھیجو۔

ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا اس کا کوئی دین ہی نہیں۔ پھر ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا۔ کثرت سے اللہ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔

اب یہ جو رزق کی تنگی ہے۔ حالات کی تنگی ہے۔ آجکل مسلمانوں پر بھی جو تنگیاں وارد ہو رہی ہیں۔ مغرب نے اپنے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں اور ان مسلمان ممالک کے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا جائے اور ان برکات سے فیضیاب ہوا جائے جو درود پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں۔ ایک روایت ہے۔ (تھوڑا سا حصہ پہلے بھی بیان کیا ہے) اس کی تفصیل ایک اور جگہ بھی آتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت کے روز اس دن کے ہر ایک ہولناک مقام میں تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا ہو گا۔ (تفسیر درمنثورجلد5 تفسیر سورۃ الاحزاب آیت57صفحہ411) (الشفاء للقاضی الباب الرابع فی حکم الصلٰوۃ علیہ والتسلیم فصل فی فضیلۃ الصلٰوۃ علی النبی۔ ۔ ۔ ۔ جلد2صفحہ50)

دیکھیں اب کون نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ پائے۔ اور ہر خطرناک جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ کر نکلتا چلا جائے۔ یقینا ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنا چاہتا ہے تو پھر یہ اس سے بچنے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں رہنے کا طریق ہے جو آپؐ نے ہمیں بتایاہے۔ اس لئے ہر وقت مومن کو درود بھیجنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درود بھیجنا چاہئے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص ایک دن میں ہزار بار مجھ پر درود بھیجے گا وہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری کتاب الذکر و الدعاء باب الترغیب فی اکثار الصلاۃ علی النبی جلد2 حدیث2515)

تو درُود کی برکت سے جو تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہ اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت بنانے والی ہوں گی۔ اور یہی عمل اور نیکیاں اور پاک تبدیلیاں ہیں جو جہاں اس دنیا میں جنت بنا رہی ہوں گی، اگلے جہان میں بھی جنت کی وارث بنا رہی ہوں گی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

’’جب تم مؤذن کواذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو۔ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ وہ مَیں ہی ہوں گا۔ جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی‘‘۔ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب استحباب القول مثل قول المؤذّن لمن سمعہ ثم یصلی علی النبیﷺ حدیث 384)

پس یہ جو اذان کے بعد کی دعا ہے اس کو ہر احمدی کو یاد کرنا چاہئے اور پڑھنا چاہئے۔

درُود بھیجنے کی اہمیت اور درُود کے فوائدتوواضح ہو گئے لیکن بعض لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کس طرح درود بھیجیں۔ مختلف لوگوں نے مختلف درود بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن اس بارے میں ایک حدیث ہے۔

حضرت کعب عجرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں علم ہے مگر آپ پر درُود کیسے بھیجیں۔ فرمایا کہ یہ کہو کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی صفۃ الصلوٰۃ علی النبیﷺ 483)

تو یہ ہے۔ جو نماز کا درود ہے وہ ذرا اور تفصیل میں ہے۔ پھر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی کو خط میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’نماز تہجد اور اور ادِ معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔ وقال اللّٰہ تعالٰی{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا} (العنکبوت:70) درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

فرمایا کہ:

’’ جو الفاظ ایک پرہیزگار کے منہ سے نکلتے ہیں اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کرلینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالا رہے اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے‘‘۔

مختلف قسمیں ہیں درود شریف کی ان میں سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ ’’یہی اس عاجز کا وِرد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رِقّت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جائے‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ18-17)

تو یہ وہی درود ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا، اور زیادہ تر اسی کا ورد کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تعداد نہیں دیکھنی چاہئے۔

حدیث میں آیا ہے کہ جو ایک ہزار مرتبہ کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بعض لوگوں کو تعداد بتائی۔ کسی کو سات سو دفعہ روزانہ پڑھنا یا گیارہ سو دفعہ پڑھنا بتایا۔ تو یہ حکم ہرشخص کے اپنے حالات اور معیارکے مطابق ہے، بدلتا رہتا ہے۔ بہرحال یہ درود شریف ہمیں پڑھنا چاہئے اس لئے مَیں نے جوبلی کی دعاؤں میں بھی ایک تو وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی الہامی دعاہے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اس کے علاوہ مَیں نے کہا تھاکہ درود شریف بھی پورا پڑھا جائے تو اس لئے کہا تھا کہ اصل درود شریف جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اس کو ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور شامل رکھنا چاہئے۔ لیکن وہی بات جس طرح حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اتنا ڈوب کر پڑھیں کہ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے اور جب اس طرح ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے۔

یہ زمانہ جو آخرین کا زمانہ ہے جس زمانے سے اسلام کی فتوحات وابستہ ہیں اور یہ فتوحات ہم سب جانتے ہیں کہ تلواروں یا بندوقوں یا توپوں اور گولوں سے نہیں ہوئیں اس میں سب سے بڑا ہتھیار دعا کاہے پھر دلائل و براہین کا ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا گیا ہے۔ اور اسی کے ذریعے سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے غالب آنا ہے۔ اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور برکات حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے ہم آیت میں دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجو اور مختلف احادیث سے بھی ہم نے دیکھ لیا کہ یہ سب کچھ بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے ممکن نہیں ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی یہی بتایا ہے کہ مجھے جو مقام ملا ہے اسی درود بھیجنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اور اسلام کی آئندہ فتوحات کے ساتھ بھی اس کا خاص تعلق ہے۔ اپنے اس مقام کے بارے میں جو

اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنا کر دنیا میں بھیجنے کی صورت میں دیا۔ ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’ بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے کہ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن۔ اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔

فرمایا:’’یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا مُحب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کامخدوم بنایا جاتا ہے‘‘۔ یعنی دنیا اس کی خادم ہو جاتی ہے۔ ’’اس مقام پر مجھ کو یا دآ یا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زُلال کی شکل پر نُور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں (فرشتے)لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء ِدین کے لئے جوش میں ہے‘‘۔ دین کو نئے سر ے سے زندہ کرنے کے لئے ہے۔ ’’لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیی کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی‘‘ جس نے زندہ کرنا ہے پتہ نہیں لگ رہا وہ کون ہے۔ ‘‘اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھاکہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا۔ ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ یعنی اس میں موجود ہے۔

’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبتِ اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد1صفحہ597.598حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

پس آج احیاء دین کے لئے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دئیے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا۔ انشاء اللہ۔ اور لہراتا چلاجائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اور لوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام پر کیسے سخت دن ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا جو کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا۔ اس لئے مسلمانوں کو فرمایا کہ اب اپنی ضدیں چھوڑو اور غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں ان کی عزت قائم کرنے کے لئے جوش میں نہیں آیا؟ جبکہ وہ درود بھیجتا ہے۔

اقتباس پورا اس طرح ہے۔ فرمایا کہ:

’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ان پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک د رد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گئی ہو۔ اورقرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ ہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کرکے آپؐ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا۔ جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس توہین کے وقت میں اس صلوٰۃ کا اظہارکس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ9-8 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

یہ فقرہ دیکھیں کہ اس طرح جماعت احمدیہ پر بہت بڑی ذمہ واری پڑتی ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درُود بھیجتے ہوں گے، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں۔ یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ ؐ کی آل سے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کوپہچانیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیداکر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کے باوجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگر سبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آئیں اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانے کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درُود پڑھیں، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچا لے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کوبہت جگہ دیں۔ غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلاؤں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتارہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑنا ہے۔ اور کیا کیا منصوبے ان کے خلاف ہو رہے ہیں۔ اللہ ہی رحم کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلا تا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہم شکرگزار بندے ہوں۔ اور اس کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی ہے۔ اور اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلانے والا بنائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 24؍ فروری 2006ء شہ سرخیاں

    آزادی ٔ صحافت اور آزادی ٔ ضمیر کے نام پر بعض مغربی ممالک اور اخبارات کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویّہ اختیار کرنے اور ان کے دوہرے اخلاقی معیاروں کا تذکرہ۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پردرودکثرت پڑھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑے جری اللہ، مسیح اور مہدی پرایمان لانے کی نصیحت۔

    فرمودہ مورخہ 24؍فروری 2006ء (24؍تبلیغ 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور