رمضان تقویٰ کے حصول کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ

خطبہ جمعہ 14؍ ستمبر 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ و سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ: 184)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے اسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تاکہ تم تقوٰی اختیارکرو۔

یہ ہے روزوں کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور حکم۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سال پھر ہمیں موقع دیا کہ اس نے ہماری روحانی ترقی کے لئے جو بہترین انتظام فرمایا ہوا ہے اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ گنتی کے یہ چند دن، جو کل سے شروع ہوئے، ان میں سے گزر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اگر ہم نے تقوٰی میں ترقی کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، اپنی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ دلوانا ہے، اپنی دینی، اخلاقی اور روحانی حالت بہتر کرنی ہے تو ان دنوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ روزے جو تم پر فرض کئے گئے ہیں یہ روحانیت میں ترقی اور تقویٰ میں بڑھنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور دنیامیں پہلے بھی انبیاء کے ماننے والوں کی روحانی ترقی کے لئے، ان کے تزکیۂ نفس کے لئے، ان کو خداتعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے یہ فرض کئے گئے تھے۔ پس یہ ایک اہم حکم ہے۔ اس کی پابندی ہی ہے جو ہمیں تقوٰی کے معیاروں کو اونچا کرنے والی بنائے گی۔ پہلے انبیاء کے ماننے والوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پایا اور اس کے فضلوں کے وارث ہوئے، جنہوں نے بے چون و چراں خداتعالیٰ کے حکموں کی پابندی کی۔ جب بھی خداتعالیٰ نے اپنے احکامات کسی نبی پر اتارے جب دنیاکی اصلاح کے لئے خداتعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے، وہی لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے اور اس کے احکامات سے حصہ لینے والے بنے جنہوں نے اُن بھیجے ہوؤں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اس تعلیم پر عمل کیا اور اُن احکامات پر چلتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن پر اتارے تھے اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو بڑھاتے رہے۔ جب انکاری ہوئے تو جہاں روحانی معیار گرے وہاں دنیاوی طور پر بھی شان و شوکت کھو بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جب انبیاء کے ماننے والوں کو تقویٰ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے تو یہ بھی فرماتا ہے کہ تم تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرکے دنیاو آخرت کے انعامات سے حصہ لینے والے بنو گے، اُس کی جنتوں کے وارث بنو گے جیسا کہ فرماتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن : 47) یعنی جو بھی اپنے ربّ کی شان سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کے مقام کو پہچانو کہ تمام قدرتوں کا وہی مالک ہے۔ اسی کا خوف سب سے زیادہ تمہارے دلوں پر ہونا چاہئے۔ پھر اس دنیا میں بھی اس کی جنتوں سے حصہ لو گے اور اُخروی زندگی میں بھی اُس کے انعامات اور جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔

پس ہر احمدی مسلمان کو تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث ہونے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے مقام کی پہچان ضروری ہے۔ اور یہ پہچان اس وقت ہو گی جب خالص اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اللہ تعالیٰ نے اُن احکامات میں سے ایک حکم رمضان میں روزوں کی پابندی کا ہمیں دیا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جو کامل اور مکمل کتاب ہے۔ اُس کتاب کے ماننے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو کمال تک پہنچانے کا اعلان فرمایا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس شریعت کے ماننے والے ہیں جس کو تاقیامت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس آخری شرعی نبیﷺ کو ماننے والے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کہہ کرتمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بنا دیا ہے۔ پہلے رسول اپنی قوم کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن قوموں کی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے احکامات لاتے رہے۔ لیکن قرآن کریم تمام دنیا کی تمام قوموں اور تمام زمانوں کی اصلاح کے لئے احکامات لے کر آنحضرتﷺ پہ نازل ہوا۔ تقوٰی پر قائم رکھنے کے لئے وہ احکامات لے کر آیا جو آج بھی تمام قوموں اور اِس زمانے کے لئے تازہ ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ چیزیں ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں یہ احکامات جو اُترے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر انعام اور احسان کیا، یہ ہم سے کیا تقاضا کرتے ہیں ؟یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اِس آخری شرعی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کے کمال کا ذکر فرمایا ہے ان کے حصول کی کوشش کریں۔ یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کارلائیں۔ وہ مجاہدہ کریں جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں راستہ دکھایا ہے، ہمیں حکم دیاہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔ پس اللہ سے ملنے کے لئے مجاہدہ کرنا اور کوشش کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہی اپنے راستوں کی طرف آنے کی رہنمائی فرماتا ہے جو خالص ہو کر اس کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہی کو تقویٰ پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے جو خود بھی تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُنہی کی طرف دوڑ کر آتا ہے جو کم از کم خود چل کر اس کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقویٰ کے حصول کے لئے ان کوششوں میں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوششوں میں، ایک بہت بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کو بنایا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے انعاموں کے حصول کے لئے جو حقیقی کوشش کرتا ہے وہ گناہوں سے پاک کر دیا جاتا ہے۔ اسے نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بن جاتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے مابین ستّرخریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب فضل الصوم فی سبیل اللہ حدیث نمبر 2840)

یعنی موسم سرما اور گرما کے درمیان جتنا فرق ہے، اس سے ستّرگنا زیادہ فرق کر دیتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس سے آگ اتنی دور کر دیتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھنا ضروری ہے جیسا کہ اس نے حکم دیا۔ کسی قسم کا دنیاوی مقصد نہ ہو۔ خالص اُس کی رضا کا حصول مقصدہو تو اللہ تعالیٰ مجاہدہ کرنے والے کو نہ صرف آگ سے بچاتا ہے بلکہ اپنی رضا کی جنتوں میں بھی داخل فرماتا ہے۔ اس کو دین بھی ملتا ہے اور دنیا بھی ملتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ اس کا سچا وعدہ ہے اَ لَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جُویا ہوا‘‘ جس نے کوشش کی ’’وہ آخر منزل مقصودپر پہنچا۔ دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کررحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے اَنت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ162-161)

پس اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں ہمیں موقع دیا ہے، اس مہینے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے داخل کیا ہے جس میں روزہ رکھنے والوں کے لئے، ان روزہ رکھنے والوں کے لئے جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے روزہ رکھتے ہیں، آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق روزے کی جزا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے پر لے لی ہے۔

ایک اور جگہ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ ڈھال بن جاتا ہے۔ بندے اور آگ کے درمیان روزہ ایک ڈھال بن جاتا ہے۔ روزہ اللہ کے بندے اور آگ کے درمیان ایک مضبوط قلعہ اور حصار بن جاتا ہے جس کی دیواروں سے پار ہو کر آگ کبھی اللہ تعالیٰ کے بندے کو جَلا نہیں سکتی۔ یہ ایک حدیث قدسی ہے۔ یعنی آنحضرتﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے، اس حدیث کی تفصیل ایک اور جگہ بخاری میں اس طرح آئی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابنِ آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور مَیں ہی اس کی جزا دوں گا اور روزے ڈھال ہیں۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے اور اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اسے جواب میں صرف یہ کہنا چاہئے کہ مَیں تو روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے، ﷺ، روزے دار کی منہ کی بوُ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ طیّب ہے۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جو اسے خوش کرتی ہیں۔ ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے ربّ سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا۔ (بخاری کتاب الصوم۔ باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)

ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ روزہ ایک ایسا عمل ہے جو اللہ عزّوجل کی خاطر رکھا جاتا ہے او ر روزہ رکھنے والے کا اجر صرف اللہ عزّوجل کو ہی معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ جو نیکیاں کرنے والے ہیں اور جو اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں ان کو مَیں سات سو گنا تک اجر دیتا ہوں اور اس سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہوں۔ تو روزوں کا اجراس بیان کردہ حد سے بڑھ جانے والا ہے۔ کتنا بڑھاتا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو پتہ ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات، اُس کی صفات لامحدود ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جزا بھی لامحدود ہے۔ پس یہ انسانی تصور سے ہی باہر ہے کہ کتنا اجر ہو گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو ہی پتہ ہے۔ لیکن بعض حدود اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ساتھ لگا دی ہیں کہ اس لامحدود اجرپانے کے لئے تمہیں اپنی حدوں میں بھی قائم رہنا ہو گا، ان احکامات کی تعمیل کرنی ہو گی۔ صرف فاقہ نہیں کرنا بلکہ کچھ مجاہدے کرنے ہوں گے، بُرائیوں کو چھوڑنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں آیا۔ ہر قسم کے نفسانی اور شہوانی جذبات سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہو گی بلکہ جیسا کہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض جائز باتوں کو بھی خداتعالیٰ کی خاطر چھوڑنا ہو گا۔ جب یہ حالت ہو گی تو وہ روزہ خداتعالیٰ کی خاطر ہو گا۔ یہ بُرائیاں چھوڑنا ہی ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہوگا۔ لیکن یہ وقتی چھوڑنا نہیں ہے، ان بُرائیوں سے وقتی طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی بلکہ مستقلاً یہ عادت ڈالنی ہو گی۔ جب یہ حالت ہو گی تو وہ روزہ پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو انسان کی پاتال تک کی خبر ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بندے کے کسی بھی فعل کے پیچھے اس کی کیا نیت ہے۔ وہ ذات جو حاضر اور غائب کا علم رکھتی ہے اگر اس کی صفات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر روزہ دار روزہ رکھتا ہے اور مجاہدہ کرتا ہے تو پھر وہ روزہ اس کے لئے جزا بن جائے گا۔ جو روزہ اس نیت سے رکھا جائے گا کہ آج مَیں ان نفسانی اور شہوانی باتوں سے دور جا رہاہوں، ان کو ترک کر رہاہوں تو صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے، تب ہی وہ روزہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو گا، خدا کی خاطر رکھا جانے والا کہلا سکے گا۔ کسی گالی کے جواب میں جب وہ یہ کہتا ہے کہ مَیں روزہ دار ہوں، تمہاری لغویات کا جواب نہیں دے سکتا تو یہ مطلب نہیں کہ روزہ کھول لوں پھر جواب دے دوں گا، پھر تمہیں دیکھ لوں گا کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ پھر میں تمہیں دیکھ لوں گا کہ تم میرے سے زیادہ طاقتو ر ہو یا نہیں، ابھی فی الحال مَیں جھگڑا نہیں کر سکتا، مَیں روزہ دار ہوں۔ نہیں بلکہ روزہ ایک ٹریننگ کیمپ (Training Camp)ہے جس میں ان بُرائیوں کے چھوڑنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے اور یہی ایک مجاہدہ ہے جو روزہ دار نے کرنا ہے۔ خدا کی طرف بڑھنے کے صحیح قدم اسی وقت اٹھا سکیں گے جب ایک انسان مستقل مزاجی سے اپنے اوپر اِن بُرائیوں کو چھوڑنے کا عمل جاری رکھے گا۔ تبھی وہ آخری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ اپنے ربّ سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا۔ کیا صرف 30دن کی جو نیکیاں ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے وہ مقام عطا فرمائے گا جو اس کی رضا کا مقام ہے اور بندہ خوش ہو گا؟ نہیں، بلکہ اس لئے خوش ہوگا کہ ایک رمضان کے روزوں نے میرے اندر بُرائیاں ختم کیں۔ میری نفسانی اور شہوانی حالتوں کو دُور کرنے کی کوشش کی وجہ سے، میری استغفار کی وجہ سے، میری اس کوشش کی وجہ سے کہ مَیں اللہ کی خاطر بُرائیوں کو ترک کرنے والا بنوں اللہ تعالیٰ نے مجھے بُرائیوں سے دور کیا۔ اور زندگی کا ہر رمضان جو اس کوشش کی نیت سے آئے گا اور سال کا ہر مہینہ جو اس رمضان میں حاصل کردہ نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے گزرے گا، سال کا ہر دن اِن تیس دنوں کی ٹریننگ کی وجہ سے بُرائیوں سے دور کرتے ہوئے گزرے گاتو آخر کو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا اور وہ مقام ہو گا جہاں بندہ خوش ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بُرائیوں کو رمضان کی برکتوں کی وجہ سے مجھ سے دُور کیا اور مجھے رمضان کی وجہ سے میری نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کا موقع عطا فرمایا۔ مَیں نے خالص ہو کر اس کی خاطر روزے رکھے اور ان روزوں کے مجاہدے سے اپنے اعمال کی اصلاح کی کوشش کی، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کئے اور آج مَیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن رہا ہوں۔ پس رمضان آیا ہے تو اپنی عبادتوں کے معیار بھی ہمیں بلند کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے اعمال پر نظر رکھتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ایک طالب علم کی طرح جو امتحان کی تیاری کے لئے محنت کرتے ہوئے راتوں کو دن کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہم بھی اپنی راتوں کو ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی خاطر گزارنے کی کوشش کریں گے تو وہ رحیم و کریم خدا، وہ مستجاب الدعوات خدا اپنے وعدے کے مطابق ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر ڈالے گا۔ ہمیں ان راستوں کی طرف لائے گا جو اس کی رضاکے راستے ہیں۔ ہمیں ان انعامات سے نوازے گا جن سے وہ اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے۔ ہمارے تقویٰ کے معیاروں کو وہاں تک لے جائے گا جہاں اس کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

پس اگر اللہ تعالیٰ نے روزہ کو ڈھال بنایا ہے تو اس ڈھال کا استعمال بھی آنا چاہئے۔ اگر ڈھال صحیح طرح اپنے سامنے نہ رکھی جائے، اگر اُس کو مضبوطی سے نہ پکڑا جائے تو حملہ آور کا ایک ہی وار اس کو ہوا میں اڑا دیتا ہے اور ڈھال، ڈھال کا کام نہیں دے سکتی۔ پس شیطان جو سب حملہ آوروں سے زیادہ خطرناک حملہ آور ہے اس کے وار سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ترقی کرنے، اپنی راتوں کو زندہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مضبوط پکڑنے سے ہی روزے کی اس ڈھال سے ایک مومن صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ ٹریننگ کے دن اللہ تعالیٰ نے ہمیں میسر فرمائے۔ جہنم کی آگ سے بچنے کے لئے روزہ تبھی قلعہ کا کردارادا کرے گا جب قلعہ کے ہر دروازے پر اپنی عبادتوں اور اعمال کے پہرے بٹھائے جائیں گے۔ پھر یہ پہرے اور مضبوط قلعہ کی دیواریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھڑی کی ہیں، جہنم کی آگ سے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہر ایک مومن بندے کو بچائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور تقویٰ پر قدم مارنا ہی ایک مومن بندے کی زندگی میں انقلاب لاتے ہوئے، ایک مومن بندے کواس دنیا کی نعماء سے بھی بہرہ ور کرے گا اور آخرت میں بھی۔ پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اس مہیا کردہ انتظام سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق یہ دن گزارتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کریں۔ آنحضرتﷺ سے پہلے جونبی آئے، پہلوں کی جو تعلیم تھی وہ تو عارضی زمانے کے لئے تھی، ختم ہو گئی۔ وہ تعلیم تو عارضی تقویٰ عطا کرنے کے لئے تھی اور تعلیم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس میں وہ تازگی نہیں رہی، تقویٰ نہیں رہا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اسلام کی تعلیم تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔ قرآن کریم کے احکامات تو ہمیشہ کے لئے قائم ہیں۔ دوسرے مذاہب کے روزوں میں تو نفسانی خواہشات داخل ہو گئی ہیں۔ ہماری تو تعلیم بھی زندہ ہے اور احکامات بھی اصل حالت میں قائم ہیں۔ پس ہمیں اپنے تقویٰ کے معیاروں کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تقویٰ کی سیڑھیوں پر قد م رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے جو بلند سے بلند مقام حاصل کرنے کے لئے راستے دکھائے ہوئے ہیں، انہیں حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ سیڑھیاں بھی مہیافرمائی ہوئی ہیں جن پر ہم نے چڑھنا ہے جس کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی استعدادوں کے مطابق اُن بلندیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک کے بعد دوسرا قدم بڑھاتے ہوئے اوپر چلتے چلے جانا چاہئے۔ اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر اُمّت بنا کر عبادتوں کی بلندیوں کے راستے بھی دکھا دئیے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی بلندیوں کے راستے بھی دکھادئیے ہیں۔ پس ہم خیرِ اُمّت تبھی کہلا سکیں گے جب یہ معیار حاصل کرنے والے ہوں گے۔ ایک کے بعد دوسرا معیار حاصل کرنے کی سعی کرتے چلے جائیں گے، کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ پس اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کئے گئے یہ اعمال ہی ہیں جو تقویٰ کہلاتے ہیں، جس کے حصول کے لئے رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں تقویٰ کے حصول کے لئے مجاہدہ کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ … روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قد ر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدِّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتناہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلّی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے‘‘۔ (الحکم جلد11نمبر2مورخہ17؍جنوری 1907ء صفحہ9)

پس یہ ہے روزہ دار کا مقصد جس سے اللہ کا قرب اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے اور ایسے بندے کو اللہ تعالیٰ پھر بڑھ کر اپنی آغوش میں لے لیتا ہے، اسے اپنی معرفت عطا فرماتا ہے، اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’خداتعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدِق دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت اور معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ‘‘۔ فرمایاکہ:’’ ہم میں سے ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جُوئی اپنا مقصد رکھ کر‘‘۔ (الحکم جلد 8نمبر18مورخہ 31؍مئی1904ء صفحہ2)

یعنی ان کا مقصد خداتعالیٰ کی تلاش ہوتا ہے وہ لوگ ہیں جو صحیح کوشش کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ خدا کی رضا کا حصول اپنا مقصد بناتے ہوئے اِس رمضان میں سے گزریں اور ہمارے روزے خالصتہً اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں۔ خدا کی معرفت بھی ہمیں حاصل ہو جو مستقل ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے اور ہمیں ہرآن تقویٰ میں بڑھانے والی رہے۔

حضور انور نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:

اس وقت مَیں چند مرحومین جن کی گزشتہ دنوں میں وفات ہوئی، گو ان کے جنازے ہو گئے ہیں لیکن ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بھی ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، ان کا بزرگوں سے تعلق ہے۔ ایک تو ہیں محترمہ سعیدہ بیگم صا حبہ۔ یہ حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ 94 سال کی عمر میں 5ستمبر 2007ء کو ان کی وفات امریکہ میں ہوئی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی خواجہ عبیداللہ صاحب کی بیٹی تھیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ہی ان کا رشتہ حضرت شمس صاحب سے کروایا تھا۔ 1932ء میں ان کا نکاح ہوا تھا۔ ان کی قربانیوں کی مثال دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1956ء کے لجنہ کے اجتماع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔ وہ شادی کے تھوڑے عرصے بعد یورپ گئے، یورپ میں تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے۔ ان کے واقعات سن کر بھی انسان کو رقّت آتی ہے۔ ایک دن ان کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ اماں، ابّا کسے کہتے ہیں۔ سکول میں سارے بچے ابّا ابّا کہتے ہیں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا ابّا کہاں گیا ہے۔ کیونکہ وہ بچے ابھی تک تین تین، چار چار سال کے تھے کہ شمس صاحب تبلیغ کے لئے لندن چلے گئے۔ یہاں لندن میں تبلیغ کے لئے رہے ہیں اور جب واپس آئے تو بچے 18-17سال کے ہو چکے تھے۔ تو انہوں نے بڑی قربانی سے بچوں کو پالا اور بغیر شکوہ لائے پیچھے علیحدہ رہیں۔ اس وقت حالات ایسے تھے مبلغین کی فیملیاں ساتھ نہیں ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں مبلغین اور ان کی بیویوں نے بھی بڑی قربانی دی ہوئی ہے۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ بڑی نیک خاتون تھیں۔ منیرالدین صاحب شمس کی والدہ تھیں جو ہمارے وکیل التصنیف ہیں اور ان کے علاوہ بھی چار بیٹے ہیں۔ دوسری خاتون سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری ہیں۔ ان کی بھی عمر تقریباً 95 سال تھی۔ 6ستمبر 2007ء کو وفات ہوئی۔ جنازہ ان کا ہو گیاہے۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کا رشتہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر مولانا ابوالعطاء صاحب سے تجویز کیا تھا اور خود ہی نکاح پڑھایا تھا۔ آپ بھی بڑی نیک عبادت گزار تھیں۔ مولانا عطاء المجیب صاحب راشد جو ہمارے امام مسجد ہیں ان کی والدہ تھیں۔ ان دونوں بزرگوں کا خلافت سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا۔ یہ یہاں لندن میں رہتی تھیں اور مجھے ملتی بھی رہتی تھیں۔ ایک عجیب پیار، وفا اور اخلاص کا تعلق ان کی آنکھوں سے جھلکتا تھا۔ آپ 1/8کی موصیہ تھیں۔ تیسری خاتون ناصرہ بیگم صا حبہ ہیں جو چوہدری سید محمد صاحب کی اہلیہ تھیں، ان کی 84سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ یہ بھی ایک صحابی کی بیٹی تھیں جو موضع ونجواں ضلع گورداسپور میں رہتے تھے۔ ان کا نام چوہدری فقیر محمد صاحب تھا۔ ان کے والد1947ء میں تقسیم ہند کے وقت شہیدہو گئے تھے اور جب لوائے احمدیت کے لئے کپڑا تیار کیا جا رہا تھا تو ان کے والد نے خود اپنے ہاتھ سے کپڑا تیار کیا تھا اور بڑے نڈر داعی الی اللہ تھے۔ یہ خود بھی بڑی نڈر داعی الی اللہ تھیں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے جا کر تبلیغ کرتی رہتی تھیں۔ ان کے چاربیٹے ہیں، جن میں سے ایک تو ہمارے مبلغ امریکہ ہیں داؤد حنیف صاحب۔ دوسرے ان کے بیٹے یہاں ہیں منور صاحب جو جماعت کے سیکرٹری امور عامہ ہیں۔ یہ سب خواتین بڑی نیک، خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والی، دعا گو بزرگ تھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے اور قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 5تا11اکتوبر2007ء ص5تا7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ ستمبر 2007ء شہ سرخیاں

    تین بزرگ خواتین محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس، محترمہ سعیدہ بیگم صاحب اہلیہ محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری سید محمد صاحب کی وفات کا اعلان اور ان کا ذکر خیر۔

    فرمودہ مورخہ 14؍ستمبر 2007ء بمطابق14؍ تبوک 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور