صفت جبارکی پرمعارف تفسیر

خطبہ جمعہ 16؍ مئی 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


 

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

ھُوَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّاھُوَ۔ اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(الحشر:24)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والاہے اور کبریائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت جَبَّار ہے جیسا کہ مَیں نے جو آیت تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ پڑھا ہے، اس میں اس کا ذکر ہے۔ خداتعالیٰ کی ذات کے بارے میں جب جَبَّار کا لفظ آتا ہے تو اس کے معنی اس سے مختلف ہوتے ہیں جب یہ لفظ بندے کے لئے استعمال ہو جیسا کہ اس کے ترجمے سے بھی ظاہر ہے۔ اہل لغت نے اس لفظ کے جو معنی کئے ہیں، پہلے مَیں وہ بیان کرتا ہوں۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں جو اَلْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ کہا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا نام اَلْجَبَّارُ اہل عرب کے قول جَبَرْتُ الْفَقِیْرَ یعنی میں نے فقیر کو نوازا کے مطابق ہے اور یہ نام اَلْجَبَّار اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ذات ہے جو لوگوں پر اپنی متعدد نعماء سے نعماء نازل کرتا ہے، اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔

یہ آگے لکھتے ہیں کہ اَلْجَبَّارُ انسان کی صفت کے طور پر اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو ایسے متکبرانہ دعاوی کرتا ہے جن کا وہ مستحق نہیں ہوتا اور انسان کے بارہ میں جَبَّار کا لفظ صرف مذمت کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔

پھر لغت کی ایک کتاب لسان العرب ہے اس میں لکھا ہے، اَلْجَبَّارُ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے یعنی اپنی مخلوق کو اپنے منشاء کے مطابق اوامر وانواہی پر چلانے والا۔ یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس میں زبردستی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے بُرا اور بھلا بندے کے سامنے رکھ دیا ہے کہ نیکیوں پر چلو گے تو نیک جزا پاؤ گے اور اگر برائیاں کرو گے تو برائیوں کی سزا قانون قدرت کے مطابق ملے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رحمت کی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت تمام پر حاوی ہے، ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس کے تحت وہ مالک ہے۔ جو چاہے سلوک کرتا ہے، رحمت سے بخش بھی دیتا ہے۔ بہرحال اس لغت میں آگے اَلْجَبَّارُ کے ایک معنی یہ لکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس تک رسائی ممکن نہیں، جس تک انسان پہنچ نہیں سکتا۔ پھر لکھا ہے اَلْجَبَّارُ مخلوق سے بلند مقام پر فائز ہستی کو جَبَّار کہتے ہیں۔ انسانوں کے معاملے میں لکھا ہے کہ وہ متکبر شخص جو اپنے ذمہ کسی شخص کا حق تسلیم نہ کرے، اسے بھی جَبَّار کہتے ہیں۔ لِحْیَانی کہتے ہیں کہ جَبَّار وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تکبر کی راہ سے اعراض کرے۔ عبادت نہ کرے اور اس میں تکبر پایا جاتا ہو۔ قَلْبٌ جَبَّار کا مطلب ہے ایسا دل جس میں رحم نہ ہو۔ وہ دل جو تکبر کی وجہ سے نصیحت قبول نہ کرے۔ رَجُلٌ جَبَّارٌ، ہر ایسے شخص کو جَبَّارکہیں گے جو زبردستی اپنی بات منوائے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِجَبَّارٍ (سورۃ قٓ:46) یعنی تو ان پر مسلط نہیں ہے، تا انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرے۔ پھر ہر اس جھگڑالو شخص کو جو ناحق لڑتا جھگڑتا ہے جَبَّارکہتے ہیں۔ اَلْجَبَّار عظیم، قوی اور طویل کو بھی کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اَلْجَبَّار اُسے کہتے ہیں جو بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے اور اس کی عزت وشرف میں کمی نہ ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف لغات سے جو معنی اخذ کئے ہیں، آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’الْجَبَّار اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اس کے معنی لوگوں کی حاجات پوری کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ لیکن جب کسی غیراللہ کے متعلق جَبَّار کا لفظ استعمال ہو تو اس کے معنی سرکش اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے ہوتے ہیں‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد 7تفسیر سورۃ القصص آیت 20صفحہ485)

پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ جَبَّار کے معنی ہوتے ہیں دوسروں کو نیچا کرکے اپنے آپ کو اونچا کرنے والا۔

پھر ایک جگہ آپؓ نے لکھا ہے:’’جَبَّار کا لفظ خداتعالیٰ کی صفات میں ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا…… اور ہر سرکشی کرنے والے اور بات نہ ماننے والے کو بھی(جَبَّار) کہتے ہیں‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد 3 تفسیر سورۃ ھود زیر آیت 60صفحہ210)

پھر ایک جگہ آپؓ لکھتے ہیں کہ:’’جہاں اس کے معنی اصلاح کرنے کے ہیں وہاں کسی کی مرضی کے خلاف اس پر ظلم کرکے جبراً اس سے کام لینے کے بھی ہیں۔ گویا ایک معنی ایسے ہیں جن میں نیکی اور اصلاح پائی جاتی ہے اور ایک معنی ایسے ہیں جن میں سختی اور ظلم پایا جاتا ہے‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد 5 تفسیر سورۂ مریم زیر آیت 15صفحہ148)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس کے جو معنی کئے ہیں وہ ہیں کہ’’بگڑے ہوئے کو بنانے والا‘‘۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جلسہ سالانہ کی ایک تقریر جس کا عنوان تقدیر الٰہی ہے اس میں خداتعالیٰ کی ذات سے جَبَر کے بارے میں بعض لوگوں کے غلط نظریات بیان کرتے ہوئے جو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بیان کرتے ہیں، اس صفت جَبَّار کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن کریم سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ جَبَّار ہے۔ مگر اس کے معنی ’’اصلاح کرنے والا‘‘ ہیں اور یہ کہتے ہیں جَبَر یَہ ہے۔ زبردستی کام کراتا ہے۔ حالانکہ یہ کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے۔ عربی میں جَبَرکے معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے ہیں اور جب یہ لفظ خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ بندوں کے خراب شدہ کاموں کو درست کرنے والا اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے حق کو دبا کر اپنی عزت قائم کرنے والا۔ لیکن یہ دوسرے معنی تب کئے جاتے ہیں جب بندوں کی نسبت استعمال ہو۔ خداتعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں کئے جاتے اور نہ کئے جا سکتے ہیں کیونکہ سب کچھ خداتعالیٰ کا ہی ہے۔ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ دوسروں کے حقوق کو تلف کرکے اپنی عزت قائم کرتا ہے‘‘۔ (تقدیر الٰہی۔ انوارالعلوم جلد 4صفحہ459)

یہ تقدیر الٰہی کا مسئلہ ہے، حقیقی عرفان تو یہ کتاب پڑھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ بہرحال اس لفظ کے تحت انہوں نے یہ وضاحت کی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے، بیان کردہ صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغِ عیب نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں۔ اگر مثلاً تمام رعیت جلاو طن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی۔ یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراجِ شاہی کہاں سے آئے۔ اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کون سی لیاقت اپنی ثابت کرے۔ پس خداتعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے۔ وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کرکے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجز ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا۔ کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا؟ اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا؟ تواس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیاکے قانون بناتے ہیں۔ بات بات پر بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کوشِیرِ مادر سمجھ لیتے ہیں۔ مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے۔ پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو وہ یا تو کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہتا۔ بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ سچے انصاف پر چل رہا ہے۔

پھر فرمایا اَلسَّلَامُ یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے۔ اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا۔ لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو اس بدنمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلّی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرورمصیبتوں سے چھڑا دے گا……۔ پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا ہے اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے۔ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں۔ لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے۔ وہ بجائے دلائل پیش کرنے کے ہر ایک بے ہودہ بات کوراز میں داخل کرتا ہے تاہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔ اورپھر فرمایاکہ اَلْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُیعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ375-373)

تو یہ ہے وہ خدا جس کا اس آیت سے پتہ لگتا ہے جو مَیں نے تلاوت کی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی وہ تمام صفات بیان ہوئی ہیں جو بندے کو اس کے قریب تر لانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کا وارث بناتی ہیں۔ وہ بادشاہ ہے۔ ہر غلطی سے پاک ہے۔ ہر کمزوری سے پاک ہے۔ ہر برائی سے پاک ہے۔ جو اس کی طاقت ہے وہ منبع ہے ہر قسم کے اور مکمل امن کا۔ بندے کو ہر قسم کے خطرات سے بچانے والا اور حفاظت میں رکھنے والا ہے اور سب پر نگران ہے۔ تمام طاقتوں والا اور غالب ہے۔ ہر ٹوٹے کام کو بنانے والا ہے اور ہر نقصان کو پورا کرنے والا ہے۔ وہ ہر ضرورت سے بالا ہے اور ہر ایک کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہے۔

پس ان طاقتوں کے خدا پر جبر کے وہ معنی نہیں کئے جا سکتے جو عموماً کئے جاتے ہیں یا بندے کے بارے میں کئے جاتے ہیں۔ یہ اس پر چسپاں ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ عارضی طاقتوں، وقتی حکومتوں کی تو ان لوگوں کو ضرورت ہے جو عارضی لوگ ہیں۔ خدا تو ہمیشہ کے لئے ہے، ہمیشہ سے طاقتور ہے اور طاقت کا منبع ہے اور اس کے مقابلے میں جیسا کہ مَیں نے کہا جب بندے کی طرف یہ صفت منسوب ہوتی ہے تو اس کے معنی جیسا کہ ہم نے دیکھا بے رحم، تکبر کی وجہ سے نصیحت قبول نہ کرنے والا، زبردستی اپنی بات منوانے والا اور جھگڑا کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی جَبَّار کا لفظ بندوں کے لئے استعمال فرمایا ہے تو اس رنگ میں ہی استعمال فرمایا ہے جسے منفی رنگ کہہ سکتے ہیں۔ اب چند وہ آیات میں سامنے رکھتا ہوں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک مفسر نے اس حوالے سے جَبَر کی یا انسان کے بارے میں جَبَّار کی درج ذیل اقسام بیان فرمائی ہیں۔ نمبر ایک کہ مسلّط ہونے والا۔ اس کی دلیل میں وہ کہتے ہیں وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِجَبَّارٍ(قٓ:46) یعنی تو ان پر زبردستی کرنے والا نگران نہیں ہے۔

دوسرے عظیم جسامت والا۔ اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِ یْنَ(المائدہ:23) یقینا ان میں ایک سخت گیر قوم ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے سرکشی اختیار کرنے والا۔ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا(مریم:33) اور مجھے سخت گیر نہیں بنایا گیا۔ بہت زیادہ لڑنے والا جیسا کہ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ(الشعراء:131) ہے۔ یعنی زبردست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہوئے اور اِنْ تُرِیْدُ اِلَّا ٓ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْا َرْضِ(القصص:20) یعنی تو یہ چاہتا ہے کہ ملک میں دھونس جماتا پھرے۔ سو مسلّط ہونے والے کے ضمن میں جس آیت کا حوالہ مَیں نے دیا ہے، یہ سورۃ کہف کی آیت نمبر46 ہے۔ مکمل آیت یوں ہے۔ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِجَبَّارٍ۔ فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ(قٓ:46) یعنی ہم اسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور تُوان پر زبردستی اصلاح کرنے والا نگران نہیں ہے۔ پس قرآن کے ذریعہ اسے نصیحت کرتا چلا جا جو میری تنبیہ سے ڈرتا ہے۔

پس یہ حکم ہے آنحضرتﷺ کے ماننے والوں کو بھی کہ تمہارا کام پیغام پہنچا دینا ہے۔ زبردستی سے کسی کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے پیاروں کے حق میں نشان دکھاتا ہے تو پھر انکار کرنے والوں کو خیال آتا ہے کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے بعض سزائیں مل رہی ہیں لیکن بعض بدقسمت پھر بھی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔

پاکستان میں بھی مختلف آفات کے بعد لکھنے والوں نے اخباروں میں کالم کے کالم لکھے ہیں کہ لگتا ہے ہماری غلطیوں کی پاداش میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن اللہ کی آواز پر کان نہیں دھرتے، اپنی آنکھیں نہیں کھولتے۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے کہ تمہارا کام تنبیہ کرنا اور پیغام پہنچانا ہے۔ پس انسانی ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت دنیا کو راستی کی طرف بلاتے رہنا ہمارا کام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور اس کو ہم ہر روز پورا ہوتے دیکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ تمہارے جو ماننے والے ہیں ان کا کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچاتے رہو۔ اس کے نتائج پیدا کرنا میرے ذمہ ہے۔ اس کے لئے ذریعہ نکالنا میرے ذمہ ہے۔ ان کو استعمال کرنا تمہارا کام ہے۔ اس کے نتیجے نکالنے، دلوں کو فتح کرنا، خداتعالیٰ کا کام ہے۔ پس جو کام ہمارے سپرد ہے وہ ہمیں کرتے چلے جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ ھود میں نافرمانوں اور سر کشوں کو اس زمرہ میں بیان فرمایا ہے۔ وہ جبار بنتے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا وَتِلْکَ عَادٌ۔ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْآ اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍعَنِیْدٍ(ھود:60) اور یہ ہیں عاد جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کا انکار کر دیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سخت جابر اور سرکش کے حکم کی پیروی کرتے رہے۔

یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے ذکر فرمایا ہے جس سے عاد کا نیکیوں سے انکار ثابت ہوتا ہے۔ رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اور دنیاوی جاہ وحشمت والوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سرکش لوگ ہیں۔ اور پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بے وقوفوں کو اس ناشکری کی وجہ سے سزا ملی جن کی یہ پیروی کرتے رہے۔ اور جن کو وہ جابر اور اونچا مقام دلانے والا اور حفاظت کرنے والا سمجھتے رہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کے کچھ کام نہ آسکے۔ تو یہ سبق ہے جو پچھلی قوموں کو دے کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آئندہ بھی یہ قوموں کو یاد رکھنا چاہئے۔

پھر سورۃ شعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ(الشعراء:131) اور جب تم گرفت کرتے ہو تو زبردست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہو۔ یہاں پھر عاد کا ذکر ہے کہ کس طرح غلبہ کی صورت میں تم لوگ اس تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ جس قوم پر قبضہ کر لو اسے انتہائی ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہو اور اپنی بڑائی اور طاقت کا اظہار کرتے ہو۔ اپنی جنگی طاقت اور قوت کی وجہ سے چاہتے ہو کہ ہر قوم تمہارے زیر نگیں ہوجائے۔ لیکن اللہ کے رسول نے انہیں ڈرایا کہ اللہ کو یہ حرکتیں پسند نہیں ہیں۔ خدا سے ڈرو اور اصلاح کرو۔

آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بڑی طاقتیں اسی اصول پر چل رہی ہیں۔ گو سیاست کی وجہ سے بعض دفعہ مدد کے نام پر قبضے جمائے جاتے ہیں لیکن بڑائی اور تکبر صاف بتا رہا ہوتا ہے کہ دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کیا جا رہا ہے اور اصل مقصد قبضہ اور تسلّط ہے۔ اصل مقصد اپنی حکومت قائم کرنا ہے۔ اصل مقصد اپنے زیر نگیں کرنا ہے اور پھر ظالمانہ طور پر ان پر گرفت کرکے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پھر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ پہلے تو کچھ کہا جاتا ہے اور پھر اسی گرفت کی وجہ سے سزاؤں میں پھنسایا جاتا ہے۔

پھر آج کل بعض حکومتیں اور بدقسمتی سے اسلامی مملکتیں کہلانے والی جن کو قرآن کریم کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن اس کے بجائے سرکشی اور ظلم میں بڑھ رہی ہیں۔ پہلے تو پاکستان میں ظلم ہوتاتھا۔ پھر حکومتیں جو بھی وقت کی مختلف حکومتیں رہیں، معصوم احمدیوں پر ظلم کرتی رہیں۔ اب انڈونیشیا میں بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ ظلم ہو رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم طاقت والے ہیں کہ جس طرح چاہے احمدیوں کے ساتھ سلوک کریں۔ اُن کو سزائیں دیں، اُن کی عورتوں بچوں پر ظلم کریں، اُن کی جائیدادوں کو جلا دیں اور یہ صرف اس لئے ہے کہ وہاں کی حکومت میں اِس وقت مُلّاں شامل ہے جس نے ہمیشہ دین کے نام پر فساد پھیلایا ہے اور حکومتی یا جو حکومت چلانے والے ممبران ہیں یا حکومت ہے و ہ سیاست چمکانے کے لئے مجبورہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس وجہ سے کہ اس مُلّاں کی بات نہ ماننے پر کہیں ہماری حکومت نہ ٹوٹ جائے۔ اپنے آپ کو جابر سمجھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ ان کا یہ فعل انہیں ان متکبروں میں شامل کر رہا ہے جو بندوں کا بھی حق تسلیم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بھی توڑ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جب ایسے ظالموں اور سرکشوں کا ذکرکرتا ہے جو اللہ کے رسول کی دشمنی کی وجہ سے اسے یا اس کی قوم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس قسم کے لوگوں کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَالْعَزِیْز ُالرَّحِیْمُ(الشعراء:10) کہ تیرا رب یقینا غالب اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس ہمیں تو پتہ ہے کہ آخری غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمارا ہے۔ کیونکہ ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے وہ خدا ہمارے ساتھ ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ مَیں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ وہ خدا ہمارے ساتھ ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس یہ تو ہمیں یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آخری غلبہ ہمارا ہے اور یہ لوگ جو اپنے زُعم میں جابر بننے والے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ یہ بھی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یوں احمدیوں کی مخالفت سے یہ اپنے مقام اونچے کر رہے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ ان کے پاؤں سے زمین جلد نکلنے والی ہے اور وہ بلندیوں کی بجائے گہرے زمینی اندھیروں میں دھنسنے والے ہیں اور اس طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پس احمدی جہاں کہیں بھی بسنے والے ہوں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو یا پاکستان ہو یا اور کوئی ملک ہو جہاں جہاں بھی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، ہمیشہ یاد رکھیں کہ ان کا مددگار غالب اور رحیم خداہے۔ پس اس کے آگے جھکیں، اس سے رحم مانگیں۔ وہ خدا جو عالم الغیب بھی ہے اس کی نظر میں اگر یہ لوگ اصلاح کے قابل نہیں ہیں تو ہمیں بھی ان سے نجات دلوائے او ر ان بے وقوفوں کو بھی یا ان کمزوروں کو بھی جو ان کی باتوں میں آ کر اپنی دنیا بھی برباد کر رہے ہیں اور اپنی آخرت بھی برباد کر رہے ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر رحم کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے رحیم خدا سے دعا مانگیں کہ ظالموں سے اس دنیا کو محفوظ رکھے۔ اگر خداتعالیٰ ان ظالموں کو اس زمرہ میں شمار کر چکا ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِرٍ جَبَّارٍ(المومن:36) کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے، توپھر باقی دنیا کی بقا کے لئے بھی احمدیوں کو بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے اور پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

انڈونیشیا کے احمدیوں کو بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے تو قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس کے مصداق صرف پاکستان کے احمدی بن رہے تھے کہ آگیں لگائی جاتی تھیں اور پولیس اور انتظامیہ بیٹھ کر تماشے دیکھا کرتی تھی۔ اب انڈونیشیا میں بھی پَے درپَے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو ہمارے سامنے یہ نظارے رکھتے ہیں۔ پس یہ اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آگیں لگائیں گے اور دیکھیں گے۔ پس اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کریں۔ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں کے یہ ظلم انہی پر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دعاؤں کی بھی توفیق دے اور صبر اور ثبات قدم بھی عطا فرمائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:

ایک افسوسناک اطلاع ہے کہ ہمارے جامعہ احمدیہ گھانا میں زیر تعلیم ایک طالب علم، احمد Apisai، جو کریباتی (Kiribati) جزیرہ سے وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے تھے۔ جن کی عمر 20سال تھی۔ وقف نو کے مجاہد تھے۔ بڑے سعادت مند اور تعاون کرنے والے نوجوان تھے۔ جب مَیں جلسہ سالانہ گھانا میں گیاہوں تو اس موقع پرانہوں نے بڑی محنت کے ساتھ دن رات ڈیوٹیاں بھی دیں۔ جامعہ میں بھی تیاری وغیرہ کرتے رہے، کچھ دیر بیمار رہ کر 4مئی کو رات کو ان کی وفات ہو گئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہر طرح کے علاج کی کوشش کی گئی تھی لیکن بہرحال اللہ کی مرضی تھی، اسی پر ہم راضی ہیں۔ ان کے والدین نے 1988ء میں عیسائیت سے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ احمدیت کو قبول کیا تھا۔ اور اس جزیرہ میں یہ پہلا احمدی خاندان ہے۔ نہایت مخلص خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی والدہ ایک سکول ٹیچر ہیں اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتی ہیں۔ والد بھی سلسلہ کا دَرد رکھنے والے نیک انسان تھے۔ وفات پا چکے ہیں۔ وہ بھی خلافت رابعہ میں یہاں لندن جلسہ پرآئے تھے اس کے بعد واپس گئے اور بیمار رہے اور تھوڑی دیر بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرتا رہے اور اس مجاہد بیٹے سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ ان کے ہاں پہلے اولاد تو تھی لیکن لڑکا کوئی نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی دعا سے یہ بچہ پیدا ہوا تھا جس کو انہوں نے وقف کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس والدہ کو بھی صبر دے اور اپنی رضا پر راضی رکھے، ایمان میں بڑھائے۔ اس خاندان کے لئے بہت زیادہ دعا کریں۔ خاص طور پر ان کی والدہ کے لئے۔ ابھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ میں اس بچے کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 23 مورخہ 6 جون تا 12 جون 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ مئی 2008ء شہ سرخیاں

    ملّاں نے ہمیشہ دین کے نام پر فساد پھیلایاہے ،حکومتیں اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں،آخری غلبہ انشاء اللہ ہماراہے ،مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں ،ان کے پاؤں سے زمین جلد نکلنے والی ہے اور وہ بلندیوں کی بجائے گہرے زمینی اندھیروں میں دھنسنے والے ہیں اور اس طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ،احمدی ہمیشہ یادرکھیں کہ ان کا مددگار غالب اوررحیم خداہے ۔ان ظالموں کے ظلم انہیں پر پڑیں گے ۔انشاء اللہ

    فرمودہ مورخہ 16؍مئی 2008ء بمطابق 16؍ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور