جلسہ سالانہ سپین کا آغاز، جلسوں کا مقصد

خطبہ جمعہ 2؍ اپریل 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سپین کا جلسہ سالانہ اس خطبہ کے ساتھ شروع ہورہا ہے۔ یہ جلسہ سالانہ آج دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں جماعت احمدیہ کا قیام مضبوط بنیادوں پر ہوچکا ہے، ایک خاص امتیازی شان کا حامل بن چکا ہے۔ اور بڑے شوق سے مختلف ممالک کی جماعتیں اس کے انعقاد کی تیاری اور اہتمام کرتی ہیں۔ یہ اہتمام کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا اس لئے کہ دنیاوی میلوں کی طرح ہر سال لوگ جمع ہو کر اپنی دلچسپی کے اور تفریح کے سامان کرلیں۔ یقیناً نہیں۔ کیونکہ گزشتہ تقریباً 120 سال کے تسلسل سے ان جلسوں کے انعقادنے احمدیوں کی اکثریت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمارا دو یا تین دن کے لئے جمع ہونا زمانے کے امام کی اس خواہش کے احترام میں ہے کہ میرے ماننے والے ان دنوں میں ایک جگہ جمع ہو کر اللہ اور رسول کی باتیں سنیں۔ اور نہ صرف باتیں سنیں بلکہ انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہیں۔ اور پھر اس لئے بھی احمدی اپنے دنیاوی کاموں کا حرج کرکے اس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا یہ ارشاد بھی ہوتا ہے کہ ’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281جدید ایڈیشن)

یعنی یہ جلسہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے دل کی حالت کے اظہار کے لئے نہیں ہے۔ آپؑ کی اس شدید تڑپ کے لئے نہیں ہے کہ لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو کے اللہ اور رسول کی باتیں سنیں۔ یہ جلسہ صرف اس لئے نہیں منعقد کیا جارہا یا کیا جاتا کہ آپ کے دل میں یہ تڑپ ہے کہ کاش لوگ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں۔ بلکہ فرمایا کہ اس کی بنیاد خالص تائید حق پر ہے۔ ویسے تو نبی کی ہر بات ہی اللہ تعالیٰ کی تائید لئے ہوئے ہوتی ہے اور اس پر عمل خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بناتا ہے۔ ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بناتا ہے۔ لیکن جس بات کا خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو اس پر عمل اور اس کے لئے کوشش انسان کو عموم سے بہت بڑھ کر خداتعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور انعاموں کو بطورخاص سمیٹنے والا بنا دیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی تائیدات ساتھ ہوتی ہیں تو ایک معمولی کوشش کئی سو گنا انعاموں کا وارث بنا دیتی ہے۔ بلکہ لا انتہا انعاموں کا وارث بنا دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ تائید افراد کے ساتھ بھی ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو خالص ہو کر امام زمان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس جلسہ میں اس لئے شامل ہوئے ہیں تا کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں بھی پیدا کریں اور اسلام کے غلبہ کے اس تقدیر کا حصہ بھی بن جائیں جس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور آپؑ کی جماعت کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور ان دنوں میں اس روحانی ماحول اور روحانی مائدہ جو مختلف تقاریر کی صورت میں پیش کیا جائے گا جس کی بنیاد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے علم کلام پر ہی ہے اور جو خداتعالیٰ کی خاص تائیدات لئے ہوئے ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جائیں۔ اللہ کرے کہ یہ مقصد ہمیشہ ہر جلسہ میں شامل ہونے والے کے پیش نظر رہے۔ کیونکہ یہی مقصد ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ میں شامل ہونے کا فائدہ ہے۔ ورنہ آپ کا یہاں آنا، تقریریں سننا اور وقتی جوش دکھاتے ہوئے نعرے لگانا بے فائدہ ہے۔

پس ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہیں، استغفار کرتے رہیں، درُود پڑھتے رہیں تاکہ اپنے اندر انقلاب پیدا کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم پھیلانے اور غالب کرنے میں حصہ دار بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا بہت سے جو اپنے دنیاوی کاموں کا حرج کرکے آتے ہیں ان کو کیا فائدہ کہ اپنا حرج بھی کیا اور دین بھی نہ ملا۔ پس ان دنوں میں اپنے وقت کا صحیح مصرف کریں، جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور جلسے کی برکات اور فیوض سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں۔ اگر اس بات کو ہر شامل ہونے والا جوان، بوڑھا، مرد، عورت سمجھ لے تواس سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوگا بلکہ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح آہستہ آہستہ نیک فطرت لوگ اپنی دینی و دنیاوی بقا کے لئے اسلام کی آغوش میں آنا شروع ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ جس انقلاب نے آنا ہے وہ کسی تلوار یا سیاسی داوٴ پیچ سے نہیں آنا بلکہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پید اکرنے اور دعاوٴں سے آنا ہے اور یہی انقلاب ہے جو دائمی انقلاب ہے۔ یہی انقلاب ہے جو کسی ایسی سازش کا شکار نہیں ہوگا کہ کسی طرح اور کب موقع ملے کہ اسلام کو اس ملک سے نکالا جائے۔ بلکہ لوگوں کی کوشش ہوگی تو یہ کہ کس طرح اسلامی تعلیم کو ہم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنی دنیا و عاقبت سنواریں۔ پس آپ لوگ جو چند سو کی تعداد میں اس وقت یہاں ہیں اور اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ کا نمونہ نیک ہو۔ آج ہر احمدی کے نمونے نے ہی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ہمارے وقت میں، اس زمانے میں، ترقی کی رفتار متعین کرنی ہے۔ جس قدر ہم اپنے عملی نمونے دکھانے والے ہوں گے اور دعائیں کرنے والے ہوں گے، اس قدر جلد ہم احمدیت کی ترقی دیکھیں گے۔ انشاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اس ملک میں آنے کے راستے بھی ہمارے لئے کھولے۔ کہاں وہ زمانہ تھا کہ ایک شخص خلیفہ ٴوقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں آیا جب حالات مکمل طور پر مخالف تھے۔ اسلام کا نام بھی چھُپ کر لیا جاتا تھا کجا یہ کہ تبلیغ کی جائے۔ اس مجاہد احمدیت کو مالی لحاظ سے بھی جماعت کی کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔ خود عطر بیچ بیچ کر اپنا گھر بھی چلایا اور مشن کے اخراجات بھی پورے کئے اور انتظام بھی چلایا۔ ایک شوق تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت ہمارے پہلے مبلغ مکرم کرم الٰہی صاحب ظفرؓ نے کام کیا۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے، آخر کار اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق وہ زمانہ بھی آیا جب ان پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔ افراد جماعت کو بھی یہاں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور مبلغین کے آنے میں بھی آسانیاں پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک خوبصورت مسجد بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ یہاں آنے والے اگر اپنے جائزے لیں تو ان کے دل گواہی دیں گے کہ باوجود یورپ کے باقی ملکوں کی نسبت معاشی لحاظ سے کم ترقی یافتہ ہونے کے، سپین میں آکر آباد ہونے والوں کی اکثریت کے مالی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ پاکستان کی نسبت ذہنی سکون یہاں میسر ہے۔ گو یورپ کے یہ ملک بعض اخلاقی برائیوں میں بڑھے ہوئے ہیں۔ بعض والدین کو اپنے بچوں کی دینی حالت کے بگڑنے کی یقیناً فکر ہے اور یہ جائز فکر ہے۔ لیکن اس لحاظ سے مَیں بات نہیں کررہا۔ مَیں یہاں مذہبی آزادی کے لحاظ سے ذہنی سکون کی بات کررہا ہوں۔ گوکہ اب یہاں یورپ کے بعض ملکوں میں بھی اس کے برعکس رجحان شروع ہوچکا ہے۔ اکثر ملکوں میں تو ابھی تک ایک لحاظ سے یہ مذہبی آزادی قائم ہے لیکن مذہبی پابندیوں کی ابتداء ہوچکی ہے۔ کہیں میناروں پر پابندی لگانے کی وجہ سے، کہیں حجاب پر پابندی لگانے کی وجہ سے۔ بہرحال فی الحال عمومی طور پریہاں آزادی ہے۔ کسی حکومت یا قانون کی تلوار یہ کہہ کر نہیں لٹک رہی کہ تم اذان دو گے تو قید کر دئے جاوٴ گے یا کلمہ پڑھ کر توحید کا اعلان کرو گے تو جیل بھیج دئے جاوٴ گے۔ پس اس آزادی، سکون اور معاشی بہتری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور شکرگزاری کرتے ہوئے جلدازجلد اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں۔ یہ دنیاوی ترقیات دین کو بھلانے والی نہ بن جائیں۔ دین سے دور لے جانے والی نہ بن جائیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہم پر ہماری کسی خوبی اور صلاحیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصل میں تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ جن لوگوں کو دنیا والے کشکول پکڑانے کی سوچتے ہیں اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے ان کے لئے اور ان میں سے اکثر غریبوں کے لئے بھی اور کم کشائش والے لوگوں کے لئے بھی وسعتیں عطا فرماتا ہے۔ پس ہر وقت یہ خیال دل میں رہنا چاہئے کہ جو خدا ہمیں اس طرح نوازنے پر قدرت رکھتا ہے وہ ہم سے ہمارے کسی ایسے عمل سے جو اسے پسندنہ ہو ہمارے لئے ناراضگی کا اظہار بھی کرسکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی ایسی ہے جس کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کرسکتا۔ پس ہمیشہ جائزے لیتے رہیں۔ یہ دنیا وی سہولتیں اور آسائشیں اور کشائش جو ہمیں میسر ہیں وہ کہیں دین سے اور خدا سے دُور لے جانے کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں؟ اگر بن رہی ہیں تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بہت خوف کا مقام ہے۔ پس دنیاوی لحاظ سے بھی ترقی کی طرف اٹھنے والا ہر قدم ہمیں دین میں ترقی کی طرف لے جانے والا ہونا چاہئے۔ جب یہ سوچ ہوگی اور اس کے مطابق ہمارے عمل ہوں گے تو ہمارا اٹھنے والا ہر قدم ہمارے اپنے اندر بھی ایک انقلاب پیدا کررہا ہوگا اور ہمارے ماحول میں بھی انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ وہ انقلاب پید اکرنے کا ذریعہ بنے گا جس کا گزشتہ تقریباً آٹھ سو سال سے اس ملک کے لئے خاص طور پر ہم انتظار کررہے ہیں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ایک حدیث کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی ایک فکر کے بارہ میں بتایا تھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ مجھے تمہارے لئے یہ فکر نہیں کہ تمہارا غربت و افلاس کس طرح دور ہوگا۔ مجھے یہ فکر نہیں کہ میری اُمّت کو کشائش ملے گی بھی کہ نہیں۔ یہ چیزیں تو تمہیں ایک وقت میں مل ہی جائیں گی۔ لیکن اس دنیاوی دولت کے ملنے کی وجہ سے جو اصل فکر مجھے لاحق ہے وہ یہ ہے کہ تم اس دولت میں ڈوب کر، کشائش میں ڈوب کر، دنیا کی آسانیوں میں پڑ کر دوسری قوموں کی طرح ہلاک نہ ہوجانا۔ (صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب الدنیا سجن الموٴمن و جنۃ الکافر حدیث نمبر 7319)

اب دیکھیں بعض عرب ملکوں کی تیل کی دولت نے انہیں دین سے دور کردیا ہے۔ کہنے کو تو اسلام کے علمبردار ہیں لیکن ان کے عمل انہیں اس سے دُور لے گئے ہیں۔ اور اسلام سے اس دوری کا اثر ان لوگوں پر بھی پڑتا ہے جویہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عرب سے اور خاص طور پر سعودی عرب کے لوگوں سے جو کچھ اسلام سیکھنا ہے وہی اصل اسلام ہے۔

نائیجیریا میں ایک صاحب نائیجیرین مسلمان جو احمدی نہیں تھے، حج کرکے آئے لیکن پھر بھی شراب نہ چھوڑی۔ اس پر ایک احمدی نے انہیں کہاکہ اب آپ حاجی ہو گئے ہیں اب تو خدا کا خوف کریں اور شراب چھوڑ دیں۔ کہنے لگے تم کونسا اسلام مجھے سکھا رہے ہو۔ مَیں نے تو سعودی عرب میں بھی شراب دیکھی ہے اور لوگوں کو مسلمانوں کوپیتے بھی دیکھا ہے۔ بلکہ مکّہ کے ماحول میں بھی مَیں نے بعض عرب مسلمانوں کو شراب پیتے دیکھا ہے۔

پس یہ آنحضرتﷺ کی اس فکر کی تصدیق ہے جو ایک لحاظ سے پیشگوئی تھی کہ دولت آنے سے میری اُمّت ہلاک نہ ہو جائے۔ یہ شراب جسے اُمّ الخبائث بھی کہتے ہیں، یعنی برائیوں کی ماں، جسے آنحضرتﷺ نے اللہ کے حکم سے جب منع فرمایا تو مدینے کی گلیوں میں یہ پانی کی طرح بہنے لگی کیونکہ صحابہؓ نے ایک ہی وقت میں، بغیر کسی چوں چرا کے اپنے تمام شراب کے مٹکے توڑ دئے۔ (مسلم کتاب الاشربہ باب تحریم الخمر وبیان انھا تکون من عصیر العنب…حدیث نمبر5024-5025)

لیکن آج ایک افریقن حج پر اپنے گناہوں سے پاک ہونے کے لئے جاتا ہے تو ایک گناہ کو کرتے چلے جانے کا اجازت نامہ لے کر آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہلاکت ہوگی۔ دولت کی وجہ سے مسلمانوں کی جو ان برائیوں میں مبتلا ہیں انتہائی مکروہ حالت ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو اِثْمٌ کَبِیْرٌ کہا ہے۔ یعنی ایسا بڑا گناہ جو بار بار گناہ کرنے پر ابھارتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے اس میں مبتلاہونا ان کی ہلاکت کا باعث ہے۔ پس شراب اور جُوا وغیرہ جو ہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے جوئے کو بھی شراب کے ساتھ بیان فرما کر اِثْمٌ کَبِیْرٌ فرمایا ہے۔ یہ برائیاں مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہیں۔ بلکہ ہر ایک کی تباہی کی بنیاد ہیں۔ کیونکہ یہ دین سے دُور لے جانے والی ہیں۔ خداتعالیٰ سے دُور لے جانے والی ہیں اور جب انسان خداتعالیٰ سے دُور چلا گیا تو پھر اپنے اوپر ہلاکت سہیڑلی۔ پس ان ملکوں میں جہاں شراب پانی کی طرح پی جاتی ہے۔ جہاں ہر دکان پر، ہر ریسٹورنٹ پر، ہر پٹرول سٹیشن پر شراب ملتی ہے اور جوئے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں اور یہ چیزیں پھر ترقی کی نشانی سمجھی جاتی ہیں احمدیوں کو بڑا پھونک پھونک کر چلنے کی ضرورت ہے اور نہ صرف اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچانا ہے بلکہ اپنی نسلوں کی، اپنے بچوں کی خاص طور پر ان کی جو نوجوان ہیں، نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، حفاظت کرنی ہے۔ ان چیزوں کی، ان برائیوں کی اہمیت ان پر واضح کرنی ہے۔ جوئے کی عادت کھیل کھیل میں پڑ جاتی ہے اور پھر یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جواس میں مزید مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ پھر انسان اس برائی میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اِکّا دکّا احمدیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں۔ لیکن غیراحمدیوں میں تو بہت سے ایسے ہیں جو ان برائیوں میں ایسے پڑے ہیں کہ اس کو اب برائی سمجھتے ہی نہیں۔ اور یورپ کے ماحول میں ڈھل کر اپنے گھروں میں بھی شرابوں کی علیحدہ الماریاں بنائی ہوئی ہیں۔ شرابیں ان میں سجا کر رکھتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے تو ایسے تمام لوگوں پر لعنت ڈالی ہے جو شراب بناتے ہیں، شراب رکھتے ہیں، شراب پلاتے ہیں یا پیتے ہیں۔ (سنن ابی داوٴد کتاب الاشربہ باب العنب یعصر للخمر حدیث نمبر 3674)

کس قدر خوف کا مقام ہے۔ پس جب مَیں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم نے کسی ایسی جگہ پر نوکری نہیں کرنی، کام نہیں کرنا جہاں شراب پلانے کا کاروبار بھی ہوتا ہو تو یہ اس لئے ہے کہ یہ چیز ہلاک کرنے والی ہے۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ غیرمسلموں کے ریسٹورنٹ یا کاروبار اس لئے چل رہے ہیں کہ انہوں نے شراب بھی وہاں رکھی ہوئی ہے یا بعض مسلمان جن کو کسی چیز کی پرواہ نہیں وہ اس لئے اپنے ریسٹورنٹ چلا کر دولت کما رہے ہیں کہ وہاں شرابیں بھی بکتی ہیں اور سوٴر بھی بکتا ہے تو ایسی دولت جو ہلاکت کی طرف لے جانے والی ہو ان کومبارک ہو۔ ہمیں تو ایسا طیّب اور پاک رزق چاہئے جو خداتعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو۔ اِن لوگوں کی تو دین کی آنکھ اندھی ہے اور پیشگوئی کے مطابق ان کو دنیاوی آسائشوں کی فراوانی ہونی تھی اور ہونی ہے۔ لیکن ایک حقیقی مسلمان کا تو مطمح نظر دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اسلام کے علاوہ ہر دین روحانی طور پر مردہ ہوچکا ہے۔ وہ اگر کوئی ایسا کام کرتے ہیں تو ان کی آج کل کی مروّجہ دینی تعلیم کے مطابق کوئی برائی نہیں ہے یا اگر برائی ہے بھی تو ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ اگر کسی کے اپنے اعمال نجات کا ذریعہ نہیں بننے تو نیکی اور برائی کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ آج اسلام ہی ہے جو زندہ خدا کا تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام ہی ہے جو قیامت تک دائمی نجات کا راستہ دکھانے والا مذہب ہے۔ اسلام کا خدا ہی ہے جو اسلام کی زوال کی حالت میں بھی تجدید دین کے لئے اپنے فرستادے بھیجنے کا وعدہ فرماتا ہے، تسلی دلاتا ہے اور بھیجتا ہے۔

آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے ایمان کوثریا سے زمین پر لانے کے لئے مسیح موعود اور مہدی ٴموعود کو بھیجا ہے اور آج اسلام کا خدا ہی ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد آپؑ کی خلافت کے نظام کو جاری فرمایا۔ وہ نظام جو دائمی نظام ہے اور جو مومنین کی جماعت کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ ہر فرد کی روحانی خوبصورتی نظر آئے۔ تاکہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے ہر وقت راہنمائی کی کوشش ہوتی رہے۔ پس مسلمانوں کا دین تو زندہ دین ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والا دین ہے اور اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ بھی فرمایا ہے۔ یہ وہ زندہ دین ہے جس کے غلبہ کا خداتعالیٰ کا وعدہ ہے۔ پس اگر کوئی مسلمان دین سے دُور جاتا ہے تو وہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کرتا ہے۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے ترقی کرنی ہے انشاء اللہ اور کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔ پس ہم جو احمدی کہلاتے ہیں، ہم جو آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور امام الزمان کے ساتھ کئے گئے عہد بیعت کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا مقصود دنیا نہیں بلکہ دین ہے اور ہونا چاہئے ورنہ تو اس بیعت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس دین نے، اسلام نے تو ترقی کرنی ہے۔ احمدیت نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ کے دن دیکھنے ہیں۔ اسلام تو زندہ دین ہے۔ اس نے تو کبھی نہیں مرنا۔ لیکن جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو اس دین کی تعلیم کو بھولے گا وہ ہلاک ہوگا۔ وہ اپنی بربادی کی طرف جائے گا۔ آنحضرتﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ مجھے اسلام کی فکر ہے۔ بلکہ آپ کواس آخری دین کی یہ فکر تھی کہ یہ تمہارے عملوں کی وجہ سے دنیا سے نابودنہ ہو جائے۔ یہ تو الٰہی وعدہ ہے اور اس پر آپﷺ کو کامل یقین تھا کہ جو بھی حالات ہوں آخری فتح انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کی ہی ہے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو، اُمّت کے افراد کو یہ تنبیہ فرمائی کہ تم کہیں آسائش اور آرام اور دولت دیکھ کر دین سے دُور ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال دینا۔

آنحضرتﷺ کے صحابہ تو دولتمند ہوتے ہوئے بھی دین کو مقدم رکھتے تھے۔ دنیا کمانے کے باوجود بھی دین مقدم ہوتا تھا۔ اپنی دولت دین کی راہ میں بے انتہاء خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے انتہائی تنگی اور کسمپرسی کی حالت بھی دیکھی اور ایسی کشائش بھی دیکھی کہ جب فوت ہوتے تھے تو کروڑوں کی جائیدادیں ان کی ہوتی تھیں اور ان کے پاس اتنا مال ہوتا تھا کہ وہ ان کے ورثاء میں بھی کروڑوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ انہوں نے اسلام کی ترقی کے لئے اپنے مالوں کو بے دریغ خرچ کیا۔ انہوں نے بخل اور کنجوسی کے ساتھ اور پیسے جوڑ کریہ جائیدادیں نہیں بنائی تھیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے تھے۔ ان کی تجارتوں میں برکتیں پڑیں۔ انہوں نے دین کا خوب خوب حق ادا کیا پس ہمیں یہ نمونے اپنے سامنے رکھنے چاہئیں۔ ہمیں بھی یہ نمونے دکھانے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ تبھی ہم اوّلین سے ملنے کے انعام کے تسلسل کو قائم رکھ سکتے ہیں، تبھی ہم خداتعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔ سپین میں رہنے والے احمدی یاد رکھیں کہ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک زمانے میں مسلمان حکومت بھی تھی اور مسلمانوں کی اکثریت بھی تھی۔ جہاں آج بھی سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی عظیم الشان عمارات محلات اور مساجد میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے الفاظ کندہ نظر آتے ہیں۔ لیکن یہی وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کے دنیا میں پڑنے اور دین کی اصل بھلا دینے اور اس سے غافل ہو جانے کی وجہ سے قدم قدم پر ان کی داستان عبرت بکھری پڑی ہے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائی بادشاہ اور شہزادے اپنی حکومتوں کے استحکام کے لئے مسلمانوں سے مدد کے خواہاں ہوتے تھے۔ باوجود مسلمانوں کے لئے دلوں میں بغض اور کینے اور دشمنیاں رکھنے کے اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی تمام تر عزتوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمان بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہو جاتے تھے۔ عیسائی موٴرخین بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں۔ دنیاوی لحاظ سے بھی مسلمان بادشاہ اس کرّوفر سے رہتے تھے کہ عیسائی بادشاہ، شہزادے ان کے تخت و تاج اور جاہ و حشمت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ لیکن جب یہ سب کچھ آپس کی لڑائیوں میں بدل گیا جب مقصود صرف اور صرف دولت بن گیا اور اقتدار اور لہو ولعب ہو گیا تو یہ سب کچھ الٹ ہو گیا۔ اور مسلمان بادشاہ عیسائی بادشاہوں کی پناہ گاہیں تلاش کرنے لگ گئے اور پھر دنیا نے یورپ کے اس مسلمان ملک سے مسلمانوں کا خاتمہ اور ان کی ذلت اور رسوائی بھی دیکھی۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہے اور اس کام کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی کام آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں کے سپرد ہے۔ یہ احیائے دین کا کام ہی ہے جس نے ہمیں بھی ہمیشہ کی زندگی بخشنی ہے۔ اگر ہم دنیا کی ہوا و ہوس میں پڑ گئے اور ان ملکوں میں آکر ہمارا کام صرف دنیا ہی رہ گیا تو یہ اس عہدِ بیعت کے بھی خلاف ہے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو عہد کیا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں ہم سے پوچھے گا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل:35) اور اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ ہر عہد کے متعلق یقیناً جواب طلبی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بیشک وسیع تر ہے اور اس کے تحت وہ جس سے چاہے رحم کا سلوک فرماتا ہے، فرماسکتا ہے۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ خداتعالیٰ کو کبھی دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ اگر وہ چاہے تو ہر ہر عہد کے بارہ میں سوال کرے گا کہ کیوں اسے پورا نہیں کیا گیا۔ اگر ہم اپنے جائزے لیں تو انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے جوعہد بیعت باندھا ہے اس کو پورا کرنے والے بھی ہیں؟ اگر شرائط بیعت کو دیکھیں تو ان کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق کی ادائیگی کرنی ہے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرنی ہے۔ ہمیشہ یہ باتیں ہمارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ پر درُود بھیجنا ہے اور آپ کے غلام صادق کے ساتھ کامل اطاعت کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ رکھنی ہے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ پس اس عہدِ بیعت کو جس کی دس شرائط ہیں ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ تبھی ہم اپنی روحانی زندگی کے سامان کرسکتے ہیں اور تبھی ہم احیاء دین کے کام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ممد و معاون بن سکتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان اپنی ذاتی مصروفیات میں پڑ کر اپنی ترجیحات اور ضروریات کی وجہ سے مستقل مزاجی سے دین کے معاملات کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے سکتا جس طرح اس کا حق ہے۔ اور یہ انسانی فطرت بھی ہے۔ اس لئے وقتاً فوقتاً اس عہد کی جگالی کرتے رہنا چاہئے۔

سپین میں رہنے والے احمدیوں کو تو جیسا کہ مَیں نے کہا قدم قدم پر ایسے نشانات ملتے ہیں جو انہیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اور توجہ دلاتے ہوئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہر بڑی سڑک پر شہروں کے نام اور یہ شہر اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جگہیں بھی کبھی اسلامی شان و شوکت کے گہوارے ہوا کرتی تھیں۔ لیکن مسلمانوں کو دولت کی ہوس، آپس کی سیاست اور دھوکے بازیوں، لہو و لعب اور عیاشیوں میں پڑنے کی وجہ سے قصہٴ پارینہ بننا پڑا اور وہ پرانے قصے بن گئے۔ اور ایک مسلمان ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ آج اس کھوئی ہوئی عزت و عظمت کو جماعت احمدیہ نے قائم کرنا ہے انشاء اللہ۔ اس کے لئے آنحضرتﷺ کے حقیقی غلام بن کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے جو محبت، پیار اور بھائی چارے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں گے۔ ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) کہ یعنی مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور جب اس مقصد کے حصول کے لئے عبادت کے معیار طے ہونے شروع ہو جائیں گے تو پاک تبدیلیاں بھی پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی۔ اپنی روحانی زندگی کے بھی سامان ہوں گے اور دوسرے کی روحانی زندگی کے لئے بھی کوشش ہورہی ہوگی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:

چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ واری ان کے لئے نہیں رہتی۔

فرمایا: وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔ کیا خوبصورت الفاظ میں نصیحت فرمائی ہے کہ اس بات کو سمجھ کر کہ زندگی کا مقصد کیا ہے عبادات میں جو سستیاں ہیں ان کو ترک کردو اور عبادات کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ موت کا اعتبار نہیں ہے۔ ……تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاوٴ۔ دنیا تمہارا مقصود بالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ پوری کوشش سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردّدنہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا۔ اگر اپنے کاروبار میں اپنے کام میں پوری طرح توجہ نہیں دے رہے تو تب بھی تم پوچھے جاوٴ گے۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو، اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔

کیا اللہ تعالیٰ کی رضا اس میں ہوسکتی ہے کہ کوئی غیرشرعی کام کیا جائے؟ سوٴر اور شراب کے کام میں ملوث ہوا جائے؟ ہرگز نہیں۔ پس یورپ میں رہنے والے ہر احمدی کو اس بنیادی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا: اور اس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا۔ ہر بات میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کو دیکھنا ضروری ہے۔ (ماخوذ از الحکم جلد 5نمبر29 مورخہ10اگست 1901ء صفحہ 2)

پس آپ سب اس مقصد کے حصول کی ٹریننگ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اس لئے ان دنوں میں خاص طور پر اپنی عبادات کی طرف توجہ دیں اور دعاوٴں کی طرف توجہ دیں۔ جو نصائح اور علمی تقاریر کی جائیں ان سے صرف وقتی طور پر فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہوئے اپنی حالتوں میں انقلاب لانے کی طرف قدم بڑھائیں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں جو زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں اور جب یہاں سے واپس لوٹیں تو گھروں میں جا کر بھی یہ احساس قائم رہے کہ ہم اپنے اندر ایک خاص تبدیلی پید اکرکے لوٹے ہیں۔ یہ بھی دعا کریں کہ ان ممالک کے جو حالات ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا ہے ان کی وجہ سے ہمیں کہیں اور ہجرت نہ کرنی پڑے۔ ہجرت کی ضرورت بھی ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ اپنے وطن میں ہی ہو جہاں آزادی سے ہم اپنے دین پر عمل بھی کرسکیں اور اس کو پھیلا بھی سکیں۔ اس جلسہ میں شامل ہو نے والوں کو ہر وقت اپنے مقام کو سامنے رکھنا چاہئے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا دعاوٴں اور درُود کی طرف توجہ دیتے رہیں۔ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے مراکو سے بھی ایک وفد یہاں آیا ہوا ہے۔ انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے ہم وطنوں کا حق اس صورت میں ادا ہوسکتا ہے جب ہم ان کے سامنے اپنے ایسے نمونے پیش کریں گے جو ان کے لئے کشش کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

پاکستان میں ایک ظلم کا واقعہ ہوا ہے۔ اس وقت اس کے بارہ میں بھی مَیں کچھ بیان کروں گا۔ ایک انتہائی افسوسناک خبر ہے۔ انتہائی ظالمانہ کام ہوا ہے جس کی ابھی کل رات کو اطلاع آئی ہے کہ کل جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق رات تقریباً دس بجے فیصل آباد کے شیخ اشرف پرویز صاحب اور شیخ مسعود جاوید صاحب جو شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم کے بیٹے تھے اور آصف مسعود صاحب کو جو شیخ مسعود جاوید صاحب کے بیٹے تھے ان تین احمدی احباب کو شہید کر دیاگیاہے۔ ان کی دکان مراد کلاتھ ہاوٴس اور مراد جیولرز کے نام سے تھی ریل بازارفیصل آباد میں۔ یہ رات کو دکان بند کرکے گاڑی میں جارہے تھے کہ فیصل ہسپتال کے قریب جب ایک جگہ پہنچے تو وہاں موجود چار پانچ افرادنے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں تینوں افراد شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال جاتے جاتے شہید ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اشرف پرویز صاحب کی عمر 60 سال تھی اور ان کے چھوٹے بھائی مسعود جاوید صاحب کی عمر 57 سال تھی۔ جبکہ شیخ مسعود جاوید صاحب کے بیٹے آصف مسعود کی عمر 24 سال تھی اور آصف مسعود بھی شادی شدہ تھے ان کی بالکل ایک سال کی عمر کی ایک بیٹی ہے۔ اشرف پرویز صاحب کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں۔ بیٹوں میں سے ایک بیٹا 27 سال کا وہ بھی شادی شدہ ہے اور دوسرا چھوٹا بیٹا 22 سال کا ہے جو غیرشادی شدہ ہے۔

اسی طرح شیخ مسعود جاوید صاحب کے پسماندگان میں ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور بیٹے بھی شادی شدہ ہیں۔ ایک بیٹا تو شہید ہوگیا، دوسرے ان سے بڑے بیٹے ہیں وہ بھی شادی شدہ ہیں۔ شیخ بشیراحمد صاحب جن کے شہداء میں سے دوبیٹے تھے اور ان کے آگے ان کا پوتا، یہ بہت مخلص احمدی تھے۔ ان کی والدہ زینب بی بی صاحبہ شیخ مراد بخش صاحب کی اہلیہ تھیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ قادیان سے ان کا تعلق تھا اور آپ کے کہنے پر ہی وہ گھر میں خواتین کے لئے کپڑے لے کر آیا کرتی تھیں تاکہ ان کو بازار نہ جانا پڑے اور خاندان میں بیعت بھی سب سے پہلے زینب بی بی صاحبہ نے کی تھی۔ ان کے خاوند مراد بخش صاحب بعد میں احمدی ہوئے تھے اور تقسیم ہند کے بعد(پاکستان بننے کے بعد) انہوں نے ریل بازار فیصل آباد میں دکان کھولی۔ 1974ء میں ان کو بڑا شدیدنقصان ہوا۔ ان کی دکان جلا دی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر فضل فرمایا اور کپڑے کی دکان کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں نے جیولری کی دکان بھی کھول لی۔ ان کا، خاص طور پر شیخ اشرف پرویز صاحب کا بڑا اخلاص کا تعلق تھا اور اپنے والد کی نیکیوں کو جاری رکھنے والے تھے۔ پاکستان میں تو پتہ نہیں ان کا جنازہ کس وقت ہوگا لیکن بہرحال مَیں ان کی نماز جنازہ غائب ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ پڑھاوٴں گا۔

فیصل آباد میں خاص طور پر گزشتہ کچھ عرصے سے احمدیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یا اغوا کرکے تاوان لیا جاتا ہے یا شہید کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ پاکستان میں درجنوں لوگ تو بلامقصد مررہے ہیں اور ان لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو اُن کی موتیں ہورہی ہیں یہ کس ظلم کی پاداش میں ہیں۔ اسی ظلم کی پاداش میں ہیں جو احمدیوں سے روا رکھا جارہا ہے۔ ان ظالموں کو پتہ ہونا چاہئے کہ احمدی اگر شہید ہورہے ہیں تو وہ کسی مقصد کی خاطر شہید ہورہے ہیں اور ہر شہادت، شہید کے خاندان کا مقام بڑھانے والی بھی ہے اور جماعت کی ترقی کا باعث بننے والی بھی ہوتی ہے۔ یہ شہداء ہمیشہ زندگی پانے والے ہیں۔ دشمن سمجھتا ہے کہ ان کو مار دیا حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ ان لوگوں کو تو مقام حاصل ہو گیا اور خداتعالیٰ کی نظر میں بھی یہ زندگی پانے والے ہوگئے۔ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہوگئے۔

اس خاندان کی شہادتیں بھی انشاء اللہ رائیگاں نہیں جائیں گی اور ہر شہادت رنگ لائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ میں پاکستان کے احمدیوں کو بھی کہتا ہوں خاص طور پر جو معروف احمدی ہیں کہ بعض حساس علاقوں میں جہاں دشمنی زیادہ ہے اپنے علاقے میں اپنے آنے جانے کے اوقات میں بھی احتیاط کریں۔ اللہ تعالیٰ ان شہداء کے درجات بلند فرماتا رہے اور ان سے بے انتہا رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے جو پسماندگان ہیں ان کو بھی صبر جمیل دے اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہمیشہ ان کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ تعالیٰ پاکستان میں ہر احمدی کو ہر جگہ اپنی حفاظت میں رکھے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17 شمارہ 17 مورخہ 23اپریل تا 29 اپریل 2010 صفحہ 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 2؍ اپریل 2010ء شہ سرخیاں

     جلسوں کا مقصد وقتی جوش دکھانا نہیں بلکہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے، سپین میں رہنے والوں کی ذمہ داری، انشاء اللہ احمدیت کی جلد ترقی دیکھیں گے، پہلے مبلغ سپین مکرم کرم الہی ظفر صاحب اور ان کی قربانیوں کا ذکر، دولت ہمیں مذہب سے دور نہ لے جانے والی ہو، شراب پینے پلانے والوں پر لعنت ام الخبائث شراب ہے، آج ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا گیا ان کی خلافت کو جاری فرمایا اب امام الزمان کے ساتھ کئے گئے عہد کے مطابق زندگیاں گزاریں، سپین میں رہنے والوں کو یادہانی کہ ایک زمانے تک مسلمان یہاں رہے ہیں مسلمانوں کا خدا اور دین کی اصل غرض کو بھلا دینے کی وجہ سے جگہ جگہ عبرتیں بکھری پڑی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آخری فتح اسلام کی ہوگی اور اس کام کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث کیا ہے اپنے عہد بیعت کو پورا کریں، شیخ اشرف پرویز صاحب اور شیخ مسعود جاوید صاحب اور شیخ آصف مسعودصاحب کی شہادت، یہ شہادتیں رائیگاں نہیں جائیں گی، پاکستان کے تمام احمدی احتیاط کریں۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 02اپریل 2010ء بمطابق 02شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بشارت۔ پیدروآباد۔ سپین

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور