اٹلی میں جماعت احمدیہ

خطبہ جمعہ 16؍ اپریل 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اٹلی کے اس شہر میں جس کا نام ’’سان پیٹرو‘‘ ہے جو ’’بولون‘‘ Bolognaکے علاقے کا ایک شہر یا قصبہ ہے، سے خطبہ دینے کی توفیق مل رہی ہے اور دنیا میں اس ملک سے پہلی دفعہ لائیو خطبہ بھی نشر ہو رہا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک جماعت کے افراد، کچھ حد تک افراد جماعت کی تعداد ہونے کے باوجود یا جماعت کے قیام کے باوجود یہاں کی جماعت کے پاس کوئی جماعتی جگہ یا سینٹر نہیں تھا۔ تقریباً دو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ جگہ جماعت کو خریدنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور راستے میں جو بعض روکیں ہیں، وہ دور فرمائے۔ علاقے کے لوگوں کی طرف سے اسلام مخالف مہم کی وجہ سے یا بعض مسلمانوں (مسلمان گروپوں) کی ایسی حرکات کی وجہ سے جنہوں نے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے، جن لوگوں کے دل اسلام کی مخالفت سے بھرے ہوئے ہیں، جو اس تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی موقعہ ملے تو اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے انہیں اس قسم کے مسلمان گروپوں کی وجہ سے اسلام کے خلاف باتیں کرنے اور ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا کر اسے ہوا دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ بہر حال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اب یہ روکیں دور فرمائے اور نہ صرف یہاں بلکہ روم میں بھی ہمیں مسجد اور مشن ہاوٴس بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ باوجود اسلام مخالف مہمات کے یورپ کے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ مسلمہ کو مساجد بنانے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے کہ وہ راستے کھول دیتا ہے۔ بعض مشکلات بھی آتی ہیں، بعض جگہ پر جگہ دینے سے انکار بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر کوئی اور ایسی سبیل نکال دیتا ہے جو ہماری سوچ سے بھی بہتر ہوتی ہے۔ پس یہ ہوا اللہ تعالیٰ نے چلائی ہے کہ جماعت احمدیہ کے پھیلنے اور حقیقی اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے سامان بہم پہنچا رہا ہے۔ ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ نہ ہی ہماری کوئی محنت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہمارے یہاں اس سینٹر میں ہی آنے کی مخالفت بھی کی گئی۔ پھر جب کونسلرز کو، علاقے کے لوگوں کو جماعت اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کی توفیق ملی تو بہت سے ہمسایوں بلکہ میئر سمیت کئی کونسلروں نے بھی ہمارے حق میں آواز اٹھائی۔ پرسوں بھی جو علاقے کے میئر یہاں ریسیپشن میں تشریف لائے ہوئے تھے باتوں میں کہہ رہے تھے کہ یہاں جماعت کا مرکز بننے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے انشاء اللہ۔ کیونکہ اس جگہ کے اردگردہماری جماعت کے اکثر ہمسایوں کوکوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ ہمیں امن پسند سمجھتے ہیں۔ بہر حال یہ سب باتیں یہاں رہنے والے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتی ہیں۔ یہاں سے میری مراد اس ملک میں رہنے والے ہر احمدی سے ہے۔ چاہے وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ مسیح محمدی کو ماننے والا اور اس کے غلاموں میں شامل ہے۔ آپ اُس ملک میں رہ رہے ہیں جس کے ایک حصہ میں عیسائیت کی خلافت کا مرکز ہے۔ چاہے دنیا داری کی طرز ہی باقی رہ گئی ہے لیکن بہر حال انہوں نے ابھی تک پاپائیت کے نظام اور استحکام کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہوئی ہے اور پوپ کا احترام بھی ہے۔ یورپ میں بہت بڑی اکثریت پوپ کو ماننے والے کیتھولک عیسائیوں کی ہے۔

بہر حال اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مسیح محمدی نے تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے اور سعید روحوں کو آنحضرتﷺ کے قدموں میں لا کر ڈالنے کا کام کرنا ہے اور یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے۔ فی الحال تو یہاں ہمارے کوئی باقاعدہ مبلغ بھی نہیں ہیں۔ سوئٹزر لینڈ سے ہمارے مبلغ یہاں آتے ہیں۔ کوشش ہو رہی ہے، خدا تعالیٰ کرے کہ یہاں مستقل مبلغ کے آنے کا انتظام بھی جلدی ہو جائے۔ اس لئے بھی ہر احمدی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی کوششوں اور اپنی حالتوں میں ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ انتظامیہ کو خود بخود ہی یہ احساس ہو کہ جس جماعت کے عام افراد بھی اس طرح اعلیٰ اخلاق اور روحانی معیار کے ہیں اور قانون کے پابند ہیں اس کے مشنری کا بھی یقیناً اعلیٰ معیار ہو گا۔ اس لئے اجازت ملنے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہئے۔ پس ہر احمدی کو احمدیت کا سفیر بننے کی ضرورت ہے تا کہ جماعت کا یہاں مضبوط بنیادوں پر قیام اور استحکام ہو جائے۔ لیکن یہ بھی واضح ہو کہ مبلغ کے آنے کے بعد آپ کی ذمہ داریاں کم نہیں ہو جائیں گی بلکہ پہلے سے بڑھ کر اپنے روحانی اور اخلاقی معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہو گی تا کہ صرف ایک دو نہیں بلکہ پورے ملک میں ہمارے مبلغین اور مساجد کا جال بچھ جائے۔ جو ملک آج مسیح موسوی کی خلافت کا مرکز ہے اس میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی کثرت ہو جائے۔ اور یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کا پاس کرنے والے رہیں گے اور خلافتِ احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھیں گے تو آج نہیں تو کل، اور کل نہیں تو پرسوں اس مقصد کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ آپ نہیں تو آپ کی نسلیں ضرور یہ نظارے دیکھیں گی۔ انشاء اللہ۔ عیسائیت تو کئی صدیوں کی سختیوں کے بعد جو موحّد عیسائیوں کو برداشت کرنی پڑیں، یہاں پھیلی اور وہ توحید کی بجائے تثلیث کے نظریے کو لے کر پھیلی۔ لیکن انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے تثلیث کو پھر توحید میں بدل کر توحید کے قیام کے لئے کوشش کرنی ہے اور پھر توحید کے قیام اور آنحضرتﷺ کے جھنڈے کو اس ملک میں لہراتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جانا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ پیغام پہنچانے کے لئے مسیح محمدی کے غلام قربانیاں دیتے چلے جائیں گے اور یہ قربانیاں اسی صورت میں ہو سکتی ہیں جب ہم تقویٰ پر قدم مارنے والے بنیں گے۔ جب اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھنے والے بنیں گے۔ جب اپنی حالتوں پر نظر رکھنے والے بنیں گے۔ جب دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔ جب آپس کے تعلقات محبت، پیار اور بھائی چارے کی مثال بن جائیں گے۔ جب نظامِ جماعت سے پختہ تعلق جوڑیں گے۔ جب خلافتِ احمدیہ سے وفا اور اطاعت کا تعلق رکھیں گے۔ جب مسیح موعود سے کئے گئے عہدِ بیعت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں گے۔ جب اللہ اور رسول کی حکومت اپنے اوپر قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پس جو پاکستانی قومیت رکھنے والے ہیں اور اپنے ملک کے حالات کی وجہ سے اس ملک میں آئے ہیں۔ یہاں آپ کو مذہبی لحاظ سے ذہنی سکون بھی ہے اور اکثریت کے مالی حالات بھی اللہ تعالیٰ نے بہتر کئے ہیں تو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا ہے تو اپنے خدا کا شکر گزار بندہ بنیں۔ اور اس شکر گزاری کا اظہار اس صورت میں ہو گا، جب ان باتوں پر جو ابھی میں نے بیان کی ہیں، نظر رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں پاکستانی احمدیوں کے بعد دوسری بڑی تعداد افریقن احمدیوں کی ہے، اور ان میں بھی گھانین احمدیوں کی۔ اور پھر مراکش اور الجزائر کے رہنے والے احمدی ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے بہتر حالت میں کیا ہے۔ آپ کا بھی فرض ہے کہ اپنے عہدِ بیعت کو ہمیشہ سامنے رکھیں۔ افریقن نژاد احمدیوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں خود یا ان کے بڑوں کو تثلیث کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔ اب آپ کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس دین میں شامل ہونے کے بعد یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ عیسائیوں کو بہتر رنگ میں توحید کا پیغام پہنچائیں۔ اور پھر یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مالی لحاظ سے اس ملک میں آپ کو کشائش عطا فرمائی ہے۔ اور اس طرح سے یہ ذمہ داری ان عرب ممالک کے جزائر اور مراکش کے رہنے والے احمدیوں کی بھی ہے کہ جس انعام کو خدا تعالیٰ نے آپ کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو روحانی مائدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے آپ کو ملا ہے اس سے دوسروں کو بھی فیضیاب کرنے کے سامان کریں۔ ایک حقیقی مسلمان کا آنحضرتﷺ کے فرمان کے تحت یہ کام ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث نمبر 13)

پس اپنے ہم وطنوں، عزیزوں اور رشتے داروں کو آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق کا پیغام پہنچائیں۔ تبھی آپ حقیقی احمدی ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ مراکش اور الجزائر کے احمدی ہونے والے بعض افرادنے دورانِ ملاقات مجھے بتایا ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شبیہ مبارک دکھا کر یا کسی اور طرح سے خواب میں احمدیت کی صداقت کے بارے میں بتا کر احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فعل یقیناً آپ کی کسی نیکی کی وجہ سے آپ کے حق میں صادر ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جس کا بدلہ آپ تمام زندگی بھی کوشش کریں تو نہیں اتار سکتے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ  ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ (الرحمن: 61) کہ احسان کی جزا احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے؟ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن کی پرورش کی وجہ سے ہمیں یہ حکم ہے کہ یہ احسان جو تمہارے والدین نے تم پر کیا ہے، ہمیشہ ان کے احسان کو یاد رکھتے ہوئے ان سے حسنِ سلوک رکھو۔ بلکہ حدیث میں ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ تم تمام عمراتار ہی نہیں سکتے۔ تو خدا تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر اپنے نیک بندوں پر احسان کرنے والا ہے، بلکہ اپنے تمام بندوں پر احسان کر نے والا ہے وہ کس قدر حق رکھتا ہے کہ اس کے احسان کا بدلہ اتارا جائے یا اتارنے کی کوشش کی جائے؟ ایک تو اس کی رحمانیت کی وجہ سے اس کا احسانِ عام ہے جو ہر مخلوق پر ہو رہا ہے۔ اور یہ احسانِ عام ایک نیک فطرت کے لئے اس کی ربوبیت کی شکر گزاری کرتے ہوئے اسے سر اٹھانے کی مہلت نہیں دیتا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ روحانی طور پر خود رہنمائی فرما رہا ہو اور آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے اپنے خاص فضل سے رہنمائی کر رہا ہو تو یہ خدا تعالیٰ کا کس قدر بڑا احسان ہے، جس کو انسان چاہے بھی تو نہیں اتار سکتا۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ کا معاملہ آئے گا تو یہ یکطرفہ معاملہ ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کے احسان کو اتارنا ممکن ہی نہیں۔ اور ایک عبدِ رحمان کے لئے صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ تاحیات اس کی نعمتوں کا اظہار کرتا رہے اور اس کا شکر گذار بندہ بنا رہے۔ اور ایک احمدی کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ماحول میں پھیلانے کی ہر وقت کوشش کرتا رہے۔

پس یہاں رہنے والے عرب احمدیوں سے یعنی مراکش اور الجزائر وغیرہ کے احمدی جو ہیں ان سے بھی میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا بدلہ تو نہیں اتارا جا سکتا۔ لیکن شکر گزاری کا اظہار خاص طور پر اپنے ہم قوموں اور ہم وطنوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے کرتے چلے جائیں۔ یہ پیغام اور جو باتیں مَیں کر رہا ہوں صرف عربی بولنے والوں کے لئے نہیں ہیں یا جو میں نے پاکستانی اور افریقن یا عربوں کا ذکر کیا ہے صرف ان کے لئے نہیں ہیں۔ یہاں ہمارے بنگالی احمدی بھی ہیں ان کا بھی یہ کام ہے کہ اسی نہج پر کام کرتے چلے جائیں۔ بلکہ یہ پیغام ہر قوم کے فرد کے لئے ہے۔ ہماری زندگیاں بھی اس کام میں ختم ہو جائیں تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ اتار دیا ہے۔ خالق و مالک اور ربّ کے احسانوں کا بدلہ کس طرح اتر سکتا ہے؟ ہاں ہم اس کے احکامات پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں بشرطیکہ ہمارا ہر قول و فعل خالصتاً اس کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔

پس یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق مسیح موعود و مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ توفیق عطا فرماتے ہوئے ہمیں اس گروہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی جو آنحضرتﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے آپ کے حکم کو پورا کرنے والا بنا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلوں پر احسان کیا تو اب اسی طرح آخرین پر بھی احسان کیا۔ خدا تعالیٰ ہمیں اپنے اس احسان کو یاد دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰٮکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ  (الحجرات: 18)۔ اللہ تمہیں ایمان کی طرف ہدایت دینے کا تم پر احسان رکھتا ہے۔ پس ایمان کی قبولیت اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ہے۔ اور اس احسان کی شکر گزاری ایمان میں ترقی کی طرف بڑھنے کی کوشش ہے۔ اور اس کوشش میں ایک حقیقی مسلمان یا حقیقی مومن اس وقت قدم مارنے والا کہلا سکتا ہے جب دل میں تقویٰ پیدا ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مدِ نظر ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا مقصدِ پیدائش سامنے ہو، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ  (الذاریات: 57) اور میں نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کا اگر کوئی مقصد ہے تو یہی مقصد ہے۔

ایک عبادت کرنے والا انسان ہی حقیقی عبدِ رحمان کہلا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر گزار ہو سکتا ہے۔ پانچ وقت باقاعدہ نمازوں کے علاوہ ذکرِ الٰہی بھی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی بھی کام کو کرنا عبادت بن جاتا ہے۔ لیکن نماز تمام عبادات کا مغز ہے۔ پس سب سے پہلے تو ایک مومن بننے کے لئے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ انہیں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ جو آپ سینٹر بنا رہے ہیں یہاں اور پھر مسجد بنانے کی بھی کوشش ہو گی انشاء اللہ۔ اسی طرح روم سے آئے ہوئے بھی بعض احمدیوں نے بھی مجھے دعا کے لئے کہا کہ ہم لوگ بھی مسجد بنانے کے قابل ہو جائیں۔ تو یہ خواہشات اور دعائیں قبول کروانے کا یا پوری کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ نیک مقصد کے حصول کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ، کسی بھی نیک مقصد کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے آگے، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا ہے اور بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کے آگے جھکیں رہیں گے تواللہ تعالیٰ ان کے لئے نیک مقاصد کے حصول کے راستے بھی کھولتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔ اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ عبادت جو تمام عبادات کا مغز ہے، اس کی طرف ہی توجہ نہیں، اگر پانچ نمازیں ہی ادا کرنے کی طرف پوری طرح توجہ نہیں، تو اس سینٹر کی عمارت یا مسجد ایمانوں میں جِلا پیدا کرنے کا باعث تو نہیں بن سکتی۔

میں نے تبلیغ کرنے اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کی بات کی ہے۔ تو اس کا ذریعہ بھی دعائیں ہی بنتی ہیں اور تبلیغ کے نتائج بھی دعاوٴں ہی سے نکلنے ہیں۔ انشاء اللہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری فتح دعاوٴں ہی سے ہونی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 57) پس فتح کے حصول کے لئے دعاوٴں کے اس ذریعے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے اور وہ نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی ابتداء میں ہی سورة بقرة کی چوتھی آیت میں ایمان بالغیب کے بعدنماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ تقویٰ کے مدارج طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نمازوں کے قیام کی کوشش کی جائے۔ مجھے ملاقات کے دوران بھی بعض احباب ملے۔ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے خاندانوں کے افراد ہیں لیکن نمازوں میں سست ہیں۔ خود احساس ہے کہ ہم نمازوں میں سست ہیں۔ اس کے لئے دعا کے لئے بھی کہتے ہیں۔ لیکن دعائیں بھی اس وقت کام کرتی ہیں، جب آپ خود بھی کوئی عملی قدم اٹھائیں گے۔ ایک طرف تو آذان کی آواز آ رہی ہو اور نماز کی طرف بلایا جا رہا ہو اور بجائے اس کے کہ آذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسجد کی طرف جائیں، خود اپنے کاروبار کے پیچھے چل پڑیں، تو پھر یہ دعاوٴں کی درخواست نفس کا دھوکہ ہے۔ یہ اس شخص کے لئے بھی دھوکہ ہے جسے آپ نیکیوں پر قائم ہونے کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں یا دعا کے لئے کہتے ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی دھوکہ ہے۔ پس اس دھوکے سے باہر نکلیں۔ اگر نیت نیک ہے تو عملی قدم اٹھانے کے لئے اپنے نفس کے شیطان کے خلاف بھی جہاد کریں۔ جب یہ کوشش ہو گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ نماز آپ کی اولین ترجیح بن جائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دئیے گئے ہیں یا جو کچھ قوتیں عنایت ہوئیں ہیں، اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے۔ اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا۔ بڑا دولتمند ہو کر، بڑا عہدہ پا کر، بڑا تاجر بن کر، بڑی بادشاہی تک پہنچ کر، بڑا فلاسفر کہلا کر آخر ان دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے۔ اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتا رہتا ہے۔ اور اس کے مکروں اور فریبوں اور ناجائز کاموں میں کبھی اس کا کا نشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 415)

پس اگر ہر ایک اپنے اندرکے جائزے لے تو خود ضمیر کی آواز اسے بے چین کر دیتی ہے اور ایک احمدی کو جسے خدا تعالیٰ نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اس کی کسی نیکی کی وجہ سے جماعت کے ساتھ جڑے رہنے پر قائم رکھا ہوا ہے، اس کا ضمیر تو بار بار اسے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو یاد رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ احمدی بڑی بے چینی سے، بعض لوگ بڑی سنجیدگی سے اور نیک نیتی سے اور بے چینی سے اپنے خطوں میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ملاقاتوں کے دوران زبانی بھی کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم نمازوں کے قائم کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنے مقصدِ پیدائش کی حصول کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

عبادات میں ترقی اللہ تعالیٰ کے باقی حقوق اور بندوں کے حقوق اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ بھی دلاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کی شکر گزاری کی طرف بھی توجہ رہے گی۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد بھی ہمیں اپنی روحانی حالتوں کی بہتری کی طرف توجہ نہ رہی تو جہاں ہم اپنے عہد سے دور جا رہے ہوں گے وہاں ہم اللہ تعالیٰ کے احسانوں کی بھی نفی کر رہے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا (آل عمران: 104) اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِس زمانے میں اُس جماعت کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جو آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کی جماعت ہے۔ آج آپ دیکھیں تو دنیائے اسلام میں یہ بات بڑے شدّ و مد سے کہی جا رہی ہے کہ امتِ مسلمہ کو اگر سنبھالنا ہے تو نظامِ خلافت ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جس نظامِ خلافت کو چلایا ہے اسے مسلمانوں کی اکثریت ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد جو لمبا عرصہ مسلمانوں کی خلافت سے محرومی رہی ہے یہ ان وجوہات اور اعمال کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں کے تقویٰ سے دور ہٹنے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے نافرمانی ہے کہ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (آل عمران: 104) اور تم سب اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔ پس جب تفرقہ پڑا تو اس کا لازمی نتیجہ نکلنا تھا کہ تقویٰ سے بھی عمومی طور پر دوری پیدا ہو۔ لیکن خدا تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اس نے اسلام کی آخری فتح کے لئے آخرین کو پہلوں کے ساتھ جوڑ کر اس فتح کے سامان پیدا فرما دئیے ہیں۔ پس اس مسیح و مہدی کو مانے بغیر جس کی اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضرتﷺ نے آخری زمانے میں آنے کی خبر دی تھی، اس مسیح موعود سے جڑے بغیر خلافت کی برکات حاصل نہیں ہو سکتی۔

پس اس حوالے سے آج میں آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان کرتے ہوئے مسیح موعود کو ماننے اور نظامِ خلافت کے سائے میں لا کر آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا یا ہے تو تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اس رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ اور اپنے زورِ بازو سے اس رسی کو کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ یا کسی کی اپنے زعم میں نیکیاں صرف اس رسی کو پکڑنے کے کام میں نہیں آ سکتیں۔ اس کے لئے پھر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کو حاصل کرنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ جماعت کی لڑی میں پروئے رہنے اور اس سے فیض پانے، اسی طرح نظامِ خلافت کی برکات سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اُس نظام سے فائدہ اٹھانے کے لئے جس کے دائمی رہنے کی آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی تقویٰ پر چلنا بھی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے کے لئے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی شرط کو رکھا ہے۔ ایمان کی مضبوطی تبھی ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں ہو۔ اعمالِ صالحہ کی بجا آوری کی طرف توجہ تبھی ہو گی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن میں ڈالنے کی ہماری کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ (آل عمران: 103) اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کے ساتھ اختیار کرو۔ اور تم پر ایسی حالت میں موت آئے کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔

پس یہ وہ انتہا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کی ضرورت ہے۔ ایک حقیقی مسلمان کی توجہ خاص طور پر اس امر کی طرف کروائی گئی ہے کہ زندگی کے مقصد کا حصول بغیر تقویٰ کے نہیں ہو سکتا۔ تمہاری عبادتیں کرنے کی تمام کوششیں، تمہارے حقوق العباد ادا کرنے کی تمام کوششیں، تمہارے زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کے دعوے، تمہارے خلافت سے وفا کے تعلق کا اعلان اور تمہارا  اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ (النساء: 60) کا دعویٰ اس وقت حقیقی کہلائے گا جب تمہارے دل میں تقویٰ ہو گا۔ پس ایک حقیقی مومن جہاں اپنے غیر صالح اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی پکڑ اور گرفت سے خوفزدہ رہتا ہے، وہاں اسے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے اس کے آگے میں جھکوں گا، اس سے دعا کروں گا اس کے فضل کو مانگوں گا تو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت میری اس عاجزی کو جذب کرنے والی بن جائے گی اور یہ دونوں صورتیں جو ہیں یہ اُس وقت ایک مومن کے سامنے رہتی ہیں جب اسے یہ یقین ہو کہ خدا سب طاقتوں کا مالک ہے۔ جب خدا تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک سمجھا جائے گا تو پھر ہمارے قدم بھی اس کی طرف بڑھیں گے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش ہو گی۔ تقویٰ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہو گی۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار رہو۔ کبھی اس کی نافرمانی نہ کرو۔ ہمیشہ اس کے شکر گزار رہو، کبھی اس کی ناشکرگزاری نہ کرو۔ ہمیشہ اسے یاد رکھو اور اسے کبھی نہ بھولو۔ (الدر المنثور فی التفسیر الماثور۔ جلد 2صفحہ 267تفسیر سورة آل عمران زیر آیت)

پس اگر اس نصیحت پر ہم عمل کریں گے تو ہماری نمازیں بھی قائم رہیں گی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بھی بنے رہیں گے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ بھی رہے گی۔ نظامِ خلافت سے جڑے رہنے کی برکات کا جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اس سے بھی فیض پاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ یہ حق ادا کرنے اور یہ فرض ادا کرنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ(آل عمران: 103) اور اس وقت تک موت نہ آئے جب تک فرمانبردار نہ ہو جاوٴ۔ زندگی موت تو کسی کے اختیارمیں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مارتا ہے۔ اس حصہ کا پھر یہی مطلب بنتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا چاہئے تا کہ جب ہمیں موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنے والے ہوں۔ پس ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بنے رہیں۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ انسان پر کسی وقت کمزوری کی حالت بھی آ سکتی ہے اس لئے جب ہم اللہ تعالیٰ سے ہر وقت مدد مانگتے رہیں گے کہ ہمیں کبھی اطاعت سے باہر ہونے کی حالت میں موت نہ آئے۔ ہمیں کبھی تقویٰ سے دور ہونے کی حالت میں موت نہ آئے تو خدا تعالیٰ پھر ایسے حالات پیدا فرما دیتا ہے کہ جب بھی موت آئے تو ہمیشہ ایمان اور تقویٰ کی حالت میں موت آئے۔ اس لئے انجام بخیر ہونے کی دعا بھی بڑی اہم اور ضروری دعا ہے جو حقیقی مومن کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی بات ہے کہ وہ یقینی ہے، ٹلنے والی نہیں۔ تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لئے تیار ہے۔ اسی لئے قرآنِ شریف میں فرمایا گیا ہے فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ(البقرة: 133)۔ ہر وقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان ہر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے، بات نہیں بنتی‘‘۔ فرمایا کہ:’’جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ اور حقوقِ عباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ، یا بیٹا۔ مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے۔ اور ایک‘‘ (یعنی دوسری قسم وہ ہے جو) ’’عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی‘‘ ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اسی کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرضِ ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 68)

پس یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقی تقویٰ پرچلانے والی ہے اور اس پر عمل کرنا تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے ضروری ہے تا کہ حقوق اللہ کی بجا آوری کی بھی پوری کوشش کی جائے اور حقوق العباد کی بجا آوری کی بھی کوشش کی جائے۔ اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماننے والوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کا سینہ دشمن کے لئے بھی صاف ہو اور اس کے لئے دعا کی جائے تو ہمیں آپس کے تعلقات میں کس قدر کوشش کر کے یکجان ہونے کی ضرورت ہے۔ جب کہ خاص طور پر وَلَا تَفَرَّقُوْا کا حکم کہ آپس میں تفرقہ مت ڈالو، مومنوں کو دیا گیا ہے۔

تقویٰ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر فردِ جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو۔ اور ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدے دار کا احترام، تعاون اور اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو۔ ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں۔ لیکن جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فردِ جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے لئے اطاعت لازمی ہے۔ پس اس طرف بھی خاص توجہ دیں۔ اگر جماعتی ترقی دیکھنی ہے، اگر اپنی تبلیغی کوششوں کے پھل دیکھنے ہیں؟ اگر اپنے تربیتی معیاروں کو بلند کرنا ہے؟ تو ہر جگہ یکجان ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پس تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ اختلافات کی صورت میں بھی دعا سے کام لیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اگر کسی سے بہت بڑا اختلاف کوئی ایسا ہوا ہے جس سے کسی کی نظر میں جماعت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے یا جماعت کے لئے کسی طرح بھی وہ نقصان کا باعث ہے تو میرے علم میں وہ بات لے آئیں لیکن اطاعت میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ ہر لیول پر اطاعت ہو گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر شکر گزاری کا ذریعہ بنے گی۔

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اور خاص طور پر عہدیداران کو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ نئے آنے والوں کے لئے وہ مثال ہوں نہ کہ کسی قسم کا ٹھوکر کا باعث بنیں۔ مردوں اور عورتوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے بچوں کی بھی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بڑے ہو کر اسلامی تعلیم کے صحیح نمونے بنیں بلکہ بچپن سے ہی ان سے اسلامی تعلیمات کا اظہار ہوتا ہو۔ ایک احمدی بچے اور ایک غیر مسلم یا غیر احمدی بچے میں فرق ظاہر ہوتا ہو۔ اور پھر یہ بچے، نئی نسل احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے میں بھر پور کوشش کرنے والے بنیں تا کہ اس ملک میں بھی احمدیت کا پیغام ہمیشہ پھیلتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ19 مورخہ7مئی تا13مئی2010 صفحہ5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ اپریل 2010ء شہ سرخیاں

    اٹلی کے شہر سان پیٹرو سے پہلی مرتبہ لائیو خطبہ، اس جگہ مسجدکی تعمیرکے لئے دعاکی تحریک، اس ملک کا ایک حصہ مسیحؑ کی خلافت کا مرکز ہے اب بہرحال مسیح محمدی نے تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا ہے اور یہ ذمہ داری ہر احمدی کی ہے، خدا تعالیٰ کا یہ احسان کہ ہمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں اتار سکتے، یہاں کے رہنے والے خاص طور پر اپنےہم وطنوں کو احمدیت کا پیغام پہنچائیں، ایک عبادت کرنے والا ہی عبد رحمان کہلا سکتا ہے نمازوں کے ساتھ ذکر الہی بھی عبادت ہے، تبلیغ کے ساتھ دعا بھی بہت ضروری ہے حضرت مسیح موعودؑ کا فرمانا کہ ہماری فتح دعاؤں ہی سے ہونی ہے، خلافت اور نظام جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ، عہدیداران سے مکمل تعاون کرو۔ 

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 16اپریل 2010ء بمطابق 16شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام بیت التوحید۔ سا ن پیٹرو۔ اٹلی(Italy)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور