بعض دعاؤں کا تذکرہ

خطبہ جمعہ 10؍ ستمبر 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج رمضان کا آخری جمعہ ہے اور یہ آخری روزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس رمضان کو ذاتی زندگی میں بھی اپنے فضلوں کی بہار لانے والا بنا دے اور جماعتی ترقیات کے لئے بھی ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دعاؤں کو قبول فرما کر ان کے بہترین نتائج پیدا فرمائے جو ہم نے اپنی ذات، اپنے بیوی بچوں، اپنے خاندان کے لئے کی ہیں۔ اور ان دعاؤں کو بھی قبول فرمائے جو ہم نے جماعت کی ترقی کے لئے کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کی جماعت کی ترقی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہوا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ترقیات مقدر ہیں۔ ہماری دعائیں تو ان ترقیات کے لئے حقیر کوشش کر کے ان کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لئے ہیں اور اس ثواب میں حصہ دار بننے کے لئے جو ثواب اللہ تعالیٰ نے اس کی کامیابی اور ترقی کے لئے کوشش کرنے والوں کے لئے رکھا ہوا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فیصلے کا اعلان کیا ہوا ہے کہ میں اور میرا رسول ہی غالب آئیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں ہمیں یہ کامیابیاں دکھا کر حصہ دار بنا لے گا تو یہ اس کا احسان ہے ورنہ اسے ہماری دعاؤں کی کیا ضرورت ہے؟ نہ اسے ہماری کوششوں کی ضرورت ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی نظر ڈالے رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں، اس کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں۔

مختلف دعاؤں کا انتخاب

آج کے خطبہ میں مَیں نے مختلف دعائیں قرآنِ کریم میں سے، احادیثِ نبویہ میں سے، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور ارشادات میں سے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے لی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بعض قرآنی دعاؤں کی جہاں کہیں وضاحت بیان فرمائی ہے، اس وضاحت کو آپؑ کے الفاظ میں بیان کروں گا ورنہ عمومی طور پر یہ دعائیں ہی پڑھوں گا۔ آپ میرے ساتھ دہراتے بھی جائیں اور آمین بھی کہتے جائیں۔ جمعہ کے بعد بھی اس آخری روزے اور اس آخری برکت کے دن بقایا چند گھنٹوں کو دعاؤں سے بھرنے کی کوشش کریں۔ ان دعاؤں میں جو مَیں نے لی ہیں ذاتی اصلاح اور (اللہ تعالیٰ کے) فضلوں کے حصول کی بھی دعائیں ہیں اور زیادہ تر جماعتی ترقی اور کامیابی اور دشمن کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔ اِنِّی تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف: 16)

اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی، اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے۔ یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یہ دعا ایک دوسری سورت، سورۃ نمل میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں یا متبادل ہیں کہ:

وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْن اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا تیس مہینے میں جا کر تمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکریہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تُو راضی ہو جائے اور میرے پر یہ بھی احسان کر کہ میری اولادنیک بخت ہو اور میرے لئے خوشی کا موجب ہو اور میں اولاد پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہریک حاجت کے وقت تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں ان میں سے ہوں جو تیرے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں نہ کسی اور کے آگے‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ نمبر 209حاشیہ)

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ:

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (سورۃ الفرقان آیت 75: )

کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ترجمہ اپنے الفاظ میں اس طرح فرمایا ہے کہ :

’’مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزندنیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رَو ہوں‘‘۔ (یعنی نمونہ قائم کرنے والے ہوں )۔ (آریہ دھرم روحانی خزائن جلدنمبر 10صفحہ نمبر23)

پس یہ چیز ہے جس سے گھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے ہیں اور افراد بھی جماعت کا فعال حصہ بن کر نسلاً بعدنسلٍ جماعتی ترقی میں حصہ دار بنتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی کہ:

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: 202)

اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتبِ عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کے نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر‘‘۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً۔ اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے، لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کوجو آخرت میں حسنات کی موجب ہو جاوے‘‘۔ ایسی دنیا کو مقدم کیا ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے۔ ’’اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْآخِرَۃ کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَاکے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصولِ دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو کہ ایک مومن مسلمان کو حصولِ دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئیں۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق (جو) کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو نہ ہم جنسوں میں کسی عارو شرم کا باعث ہو‘‘۔ (الحکم جلد 4نمبر 29مورخہ 16؍اگست1900ء۔ صفحہ 4-3) (ملفوظات جلد اول صفحہ 364,365جدید ایڈیشن ربوہ)

پس آخرت کی بھی ہمیشہ ایسی حسنات تلاش کریں۔ دنیا کی حسنات وہ ہوں جو آخرت کی حسنات کا وارث بنائیں جس میں حقوق اللہ بھی ادا ہوتے ہوں اور حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہوں۔ پھر اگلی دعا ہمیں یہ سکھائی:

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ۔ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ  (الاعراف: 152)

اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُو رحمت کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

فرمایا:

رَبَّنَااغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِِرِیْنَ(آل عمران: 148)

اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی، اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔

پھر یہ دعا ہمیں سکھائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ(الاعراف: 156)

تُو ہی ہمارا ولی ہے۔ پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ(الاعراف: 157)

اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنۃ لکھ دے اور آخرت میں بھی، یقینا ہم تیری طرف(توبہ کرتے ہوئے) آ گئے ہیں۔ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ (ابراھیم: 41)

اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی اے ہمارے رب!۔ اور میری دعا قبول کر

رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ(ابراھیم: 41)

اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی، جس دن حساب برپا ہو گا۔

رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ۔ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا(الفرقان: 66)

اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے۔ یقینا اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔

اِنَّھَا سَآءَ تْ مُسْتَقَرَّا وَّمُقَامًا (الفرقان: 67)

یقینا وہ عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی بہت بُری ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر بھی۔

پھر یہ دعا ہے رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُالرَّاحِمِیْنَ(المومنون: 119)

اے میرے رب! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

رَبَّنَا اٰمَنَّافَاغْفِرْلَنَاوَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُالرَّاحِمِیْنَ(المومنون: 110)

اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے۔ پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔ اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَھْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(الشعراء: 170)

اے میرے رب! مجھے اور میرے اہل کو اس سے نجات بخش جو وہ کرتے ہیں۔ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ التحریم: 12)

اے میرے رب! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنا دے، اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ:

’’قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے‘‘۔ (یعنی فرعون سے)۔ ’’یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گِرگِر جاتے ہیں‘‘۔ (ان کے جو نفسانی جذبات ہیں وہ فرعون کی طرح نیکیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں )۔ اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، توبہ کرتے ہیں، خدا سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے۔ وہ لوگ نفسِ لوّامہ رکھتے ہیں۔ بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں۔ ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑ نے دی ہے۔ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُوْحِنَا (التحریم: 13)۔ ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریمؑ ہوتا ہے۔ اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابنِ مریم ؑ بن جاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر522,523جدید ایڈیشن ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں وہ مومن بنائے جو نیکیوں کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں جو نیکیاں ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان میں دوام حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں اور تقویٰ اور طہارت میں ہمارے قدم ہر آن آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ نیز اللہ تعالیٰ ظالم گروہوں اور ظالم حکمرانوں سے بھی ہمیں نجات بخشے۔ ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے جو طاقت کے نشے میں آج احمدیوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں اور ان کی خود پکڑ فرمائے۔

پھر سورۃ قمر کی ایک آیت میں یہ دعا ہے۔

اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ(سورۃ القمر: 11) کہ مَیں یقینا مغلوب ہوں۔ پس میری مدد کر۔

رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (القصص: 22)

اے میرے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات بخش۔

رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ (الشعراء: 118) اے میرے ربّ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَھُمْ فَتْحًا وَ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (سورۃ الشعراء: 119)

پس میرے درمیان اور ان کے درمیان واضح فیصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور ان کو بھی جو مومنوں میں سے میرے ساتھ ہیں۔ انبیاء اور ان کی جماعتوں کا اصل ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس زمانے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرما دیا ہے کہ ہماری کامیابی، ہماری فتوحات دعا کے ذریعے سے ہونی ہیں۔ نہ کہ کسی ہتھیار سے، نہ کسی احتجاج سے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر36جدید ایڈیشن ربوہ)

نہ کسی اور ذریعے سے۔ پس دعاؤں کو مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانا یہی ہمارا فرض ہے اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

پھر یہ دعا سکھائی۔ فرمایا کہ رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ (سورۃ المومنون: 98)۔ اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ وَ اَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ (سورۃ المومنون: 99)۔ اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب! کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ (سورۃالاعراف: 127)۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اے خدا ! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو۔ جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوتِ ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں‘‘۔ (تقریر جلسہ مذاہب۔ صفحہ 188) (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلدنمبر10صفحہ نمبر420,421)

پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف: 24)

اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’ہمارا اعتقاد ہے کہ جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا۔ اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے‘‘۔ (پس ہمارا ہتھیار تلوار نہیں بلکہ دعا ہے)۔ (ا لحکم جلد 7نمبر 12 مورخہ 31؍ مارچ 1903ء صفحہ 8)

’’آدمِ اول کو شیطان پر فتح دعا ہی سے ہوئی تھی۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا۔ اور آدمِ ثانی (یعنی حضرتمسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعے فتح ہو گی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر190,191جدید ایڈیشن ربوہ)

پھر ایک دعا سکھائی۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (آل عمران: 9)

اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے، بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقینا تُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔

پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا۔ رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا۔ رَبَّنَا وَلَا تَُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ۔ وَاعْفُ عَنَّا۔ وَاغْفِرْلَنَا۔ وَارْحَمْنَا۔ اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن (البقرہ: 287)

اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ان گناہوں کے نتیجہ میں ہم سے پہلے لوگوں پر تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم کر۔ توُہی ہمارا والی ہے، پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا اس طرح ترجمہ فرمایا ہے کہ:

’’یعنی اے ہمارے خدا! نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں مت پکڑ جن کو ہم بھول گئے اور بوجہ نسیان ادا نہ کر سکے‘‘۔ (ایسی باتیں جن کو ہم بھول کر ادا نہ کر سکے ان کی وجہ سے پکڑ نہ کر)۔ ’’اور نہ ان بد کاموں پر ہم سے مؤاخذہ کرجن کا ارتکاب ہم نے عمداً نہیں کیا‘‘۔ (ایسے ادھورے کام جن کا ارتکاب ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیا، ان پر ہمیں نہ پکڑ) بلکہ سمجھ کی غلطی واقع ہو گئی۔ اور ہم سے وہ بوجھ مت اٹھوا جس کو ہم اٹھا نہیں سکتے۔ اور ہمیں معاف کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہم پر رحم فرما‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ نمبر25)

پھر ایک دعا ہے رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ251)

اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہمارا خدا گناہ بخشنے والا نہ ہوتا (کہ ہمیں معاف فرما سکیٗ تو پھر وہ ایسی دعا بھی ہرگز نہ سکھلاتا۔ (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 25)

پھر ایک دعا ہے۔ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(الاعراف: 48) اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں میں سے نہ بنا۔

رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ(المائدہ آیت 84)۔

اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے۔ پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کر لے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں احادیث سے ملتی ہیں جو مَیں نے لی ہیں۔ فرمایا کہ

اے اللہ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، گناہوں، چٹی اور فتنہ قبر اور عذابِ قبر، آگ کے فتنہ اور آگ کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔ تُو مجھے دولت کے فتنے کے شر سے اپنی پناہ میں لے لے۔ مَیں تجھ سے غربت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ اور مسیح دجال کے فتنہ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ تو میری خطائیں برف اور اولوں کے پانی سے دھو دے۔ اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑے کو تو میل سے صاف کر دیتا ہے۔ اور تو میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری فرما دے جس طرح تو نے مشرق و مغرب میں دوری پیدا فرمائی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من المأثم و المغرم حدیث نمبر6368)

پھر ایک دعا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہ مجھے بخش دے اور میرے گھر کو میرے لئے وسیع کر دے اور میرے لئے میرے رزق میں برکت ڈال دے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی۔ الجز الاول صفحہ 218مطبوعہ دارالفکر بیروت) (السنن الکبری لنسائی کتاب عمل الیوم والیلۃ باب ما یقول اذا توضأ حدیث نمبر9908)

پھر ہے: ’’اے اللہ! مَیں بے بسی، سستی، بزدلی اور تھکا دینے والے بڑھاپے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے خدا! میں تجھ سے زندگی اور موت کے فتنے سے بچنے کے لئے پناہ مانگتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من فتنۃ المحیاوالممات۔ حدیث نمبر6367)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعْ۔ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یُسْمَعُ۔ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ۔ وَمِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰؤُلَاءِ الْاَرْبَعِ۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں عاجزی اور انکساری نہیں، اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو مقبول نہ ہو۔ اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے۔ میں ان چاروں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (الجامع الصغیر للسیوطی۔ الجز الاول صفحہ 217مطبوعہ دارالفکر بیروت) (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68/68 حدیث نمبر3482)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغُفُوْرُ الرَّحِیْم۔ اے اللہ! میں نے اپنی جان پربہت ظلم کئے ہیں۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ تُو اپنی جناب سے مجھے مغفرت عطا فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ اور اے خدا یقینا تو ہی بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء فی الصلاۃ حدیث نمبر6326)

اے اللہ! مجھے میری خطائیں معاف فرما دے اور میرے سب معاملات میں میری لا علمی (جہالت) اور میری زیادتی کے شر سے مجھے بچا لے۔ اور ہر اس (نقصان اور شر) سے بچا لے جسے تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! میری خطائیں بخش دے، میری دانستہ، نا دانستہ اور ازراہِ مذاق کی ہوئی ساری خطائیں مجھے بخش دے کہ یہ سب میرے اندر موجود ہیں۔ جو خطائیں مجھ سے سرزد ہو چکیں اور جو ابھی نہیں ہوئیں اور جو مخفی طور پر مجھ سے سرزد ہوئیں اور جو کھلم کھلا میں نے کیں وہ سب مجھے بخش دے۔ تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے ہٹا دینے والا ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول البنیﷺ اللھم اغفرلی …حدیث نمبر6398)

اے اللہ! میں اپنا آپ تیرے سپرد کرتا ہوں، تجھ پر توکل کرتا ہوں اور تجھ پر ایمان لاتا ہوں۔ تیری طرف جھکتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ مدّمقابل سے بحث کرتا ہوں اور تیرے ہی حضور اپنا مقدمہ پیش کرتا ہوں۔ تو مجھے میرے اگلے پچھلے، اعلانیہ، پوشیدہ سب گناہ بخش دے۔ تو ہی مقدم اور مؤخر ہے اور تیرے سوا کوئی معبودنہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبہ من الیل حدیث نمبر6317)

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًا وَ تَحْتِیْ نُوْرًا وَامَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا۔

اے اللہ! تو میرے دل میں نور پیدا فرما دے، میری آنکھوں میں نور پیدا فرما دے، میرے کانوں میں نور پیدا فرما دے، میرے دائیں میرے بائیں، اوپر اور نیچے اور آگے اور پیچھے نور پیدا فرما دے۔ اور مجھے نورِ مجسم بنا دے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبہ من الیل حدیث نمبر6316)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّک وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآئِ الْبَارِدِ۔

اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ میرے دل میں اپنی اتنی محبت ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 73/000حدیث نمبر3490)

یَا مُصْرِّفَ القُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی طَاعَتِکَ۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنی اطاعت پر قائم رکھ۔ (مسند احمد بن حنبل جلدنمبر3صفحہ نمبر499مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر9410عالم الکتب بیروت طبع اول 1998)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں سے جو مَیں نے کی ہیں استفادہ کرنے کی ہمیشہ توفیق دیتا چلا جائے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ دعائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ بعض الہاماً دعائیں ہیں۔ پہلی دعا ہے رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔

اے میرے رب ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے رب پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلدنمبر22صفحہ نمبر224)

پھر آپ نے ایک دعا لکھی ہے کہ اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے رہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہلِ صدق و صفا۔ اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ، یا بغض، یا دنیا کی حرص و ہوا۔ (پیغام صلح روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ نمبر439)

مَیں گناہگار ہوں اور کمزور ہوں۔ تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر۔ کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا اور کوئی نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔ (بدر جلدنمبر 3صفحہ نمبر 41)

یَااَحَبَّ مِنْ کُلِّ مَحْبُوْبٍ اِغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَ اَدْْخِلْنِیْ فِیْ عِبَادِکَ الْمُخْلَصِیْنَ۔

اے محبوبوں سے محبوب ذات!میرے گناہ مجھے بخش دے اور مجھے اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما۔ (مکتوبات احمد جلد دوم مکتوب بنام منشی رستم علی صاحب صفحہ 539ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

کسی سوال کرنے والے نے آپؑ سے یہ سوال کیا کہ نماز میں حصولِ حضور کا کیا طریقہ ہے؟ کس طرح توجہ پوری طرح پیدا کی جا سکتی ہے؟ تو آپ نے یہ دعا اسے لکھ کر بھجوائی کہ:

اے خدا تعالیٰ قادرو ذوالجلال مَیں گناہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضورِ نماز حاصل نہیں۔ تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش۔ اور میری تقصیرات معاف کر۔ اور میرے دل کو نرم کر دے۔ اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے۔ تا کہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضورِ نماز میسر آوے۔ (فتاوی حضرت مسیح موعودؑ صفحہ نمبر37)

رَبِّ ارْحَمْنِیْ اِنَّ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ یُنْجِی مِنَ الْعَذَابِ۔ اے میرے رب! مجھ پر رحم فرما۔ یقینا تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں۔ (تذکرہ صفحہ نمبر621ایڈیشن چہارم ربوہ)

رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآءِ۔ اے میرے رب! تُو مجھے دکھا کہ تو مردہ کیونکر زندہ کرتا ہے اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ نمبر266)

رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّکَاذِبٍ۔ اے میرے خدا! صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا۔ تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے؟ (تذکرہ صفحہ نمبر532ایڈیشن چہارم ربوہ)

رَبِّ اَرِنِیْ اَنْوَارَکَ الَکُلِّیَّۃَ۔ اے میرے رب! مجھے اپنے تمام انوار دکھلا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر534ایڈیشن چہارم ربوہ)

رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی باشندہ نہ چھوڑ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر576ایڈیشن چہارم ربوہ)

رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَتَّخِذُوْنَنِیْ سُخْرَۃً۔ اے میرے رب! میری حفاظت کر۔ کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے ہنسی کی جگہ ٹھہرا لیا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر578جدید ایڈیشن ربوہ)

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔ اے میرے رب! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ۔ اور تو خیر الوارثین ہے۔ اے میرے رب! امتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے۔ اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ 266)

وَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً کَثِیْرَۃ مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیَّ۔ یعنی انسانوں کے بہت سے دلوں کو میری طرف جھکا دے۔

یہ ایک الہام تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک بشارت ہے سلسلہ کی ترقی کے متعلق۔ (تذکرہ صفحہ نمبر660ایڈیشن چہارم ربوہ)

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وََصَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدؐ ٍ وَّاٰلِہٖ وَسَلِّمْ وَتَوَفَّنَا فِی اُمَّتِہ وَا بْعَثْنَا فِی اُمَّتِہٖ وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّ لِا ُمَّتِہٖ رَبَّنَا اِنَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا فِیْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔

اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان مومن بھائیوں کو بخش دے جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے، اور اپنے نبی اور حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر رحمتیں بھیج اور ہمیں آپؐ کے امّتی ہونے کی حالت میں موت دے اور ہمیں آپ کی اُمّت میں ہی اٹھانا اور تُو نے ان اُمّت سے جووعدہ کیاہے وہ ہمیں عطا فرما۔ اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے۔ پس ہمیں اپنے مومن بندوں میں لکھ لے۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ نمبر108مکتوب بنام میر عباس علی شاہ لودہانوی صاحب)

رَبِّ سَلِّطْنِیْ عَلَی النَّار۔ اے میرے خدا! مجھے آگ پر مسلط کر دے۔ (تذکرہ صفحہ نمبر518ایڈیشن چہارم ربوہ)

ہم تیرے گناہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہے، تو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔

اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وَجہِ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین، ثم آمین (الحکم۔ 21؍فروری 1898ء جلدنمبر 2نمبر 1۔ ملفوظات جلد اول صفحہ 103)

پھر آپ کا ایک الہام ہے:۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش، ہم خطا پر تھے۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلدنمبر22صفحہ نمبر104)

ایک جگہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

اے ہمارے رب العزت! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری بلاؤں کو دور فرما اور تکالیف کو بھی دور فرما، اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غموں سے نجات بخش اور کفیل ہو ہماری مصیبتوں کا۔ اور ہمارے ساتھ ہو جہاں پر بھی ہم ہوں۔ اے ہمارے محبوب اور ڈھانپ دے ہمارے ننگ کو اور امن میں رکھ ہمارے خطرات کو۔ اور ہم نے توکل کیا تجھ پر اور ہم نے تیرے سپرد کیا اپنا معاملہ، تو ہی ہمارا آقا ہے۔ دنیا میں اور آخرت میں اور تُو ارحم الراحمین ہے قبول فرما۔ اے رب العالمین۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلدنمبر17صفحہ نمبر182)

پھر ایک جگہ فرمایا:

’’اے خداوندقادر و مطلق اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور امیوں کو سمجھ عطاکرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتا ہے مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عرض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرماتاوہ دیکھیں اور سنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو توُنے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہوجائیں۔ اگر تو چاہے تو تُوایسا کرسکتا ہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے انہونی نہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ نمبر120)

آئینہ کمالات اسلام میں یہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:

’’اے میرے ربّ! اپنے بندہ کی نصرت فرما۔ اور اپنے دشمنوں کو ذلیل اور رسواکر۔ اے میرے ربّ! میری دعا سن۔ اور اسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جاتا رہے گا۔ اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بدکلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی خدا !میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5صفحہ نمبر569)

فرمایا کہ: آج مَیں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو یہ الہام ہوا کہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ فَسَھِّقْھُم تَسْحِیْقًا۔ پس پیس ڈال ان کو خوب پیس ڈالنا۔ فرمایا کہ: میرے دل میں خیال آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی جو ایک سال ہوا بیت الدعا پر لکھی ہوئی ہے۔ اور وہ دعا یہ ہے۔

یَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَائِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَائَکَ وَاَعْدَائِیْ وَاَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَا اَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَاحُسَامَکَ وَلَا تَذَرْمِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔

اے میرے رب تو میری دعاسن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو پیس ڈال۔ ٹکڑے ٹکڑے کردے اور اپنے وعدہ کو پورا فرما اور اپنے بندے کی مد دفرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے۔ اس دعا کو دیکھنا اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔ (تذکرہ صفحہ نمبر426,427ایڈیشن چہارم ربوہ)

اللہ تعالیٰ آج بھی ہمیں خارق عادت نشان دکھائے۔

یہ بھی الہامی دعا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ۔ پاک ہے اللہ جو بہت عظیم ہے۔ اے اللہ رحمتیں بھیج، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی آل پر۔ (تذکرہ صفحہ نمبر25ایڈیشن چہارم ربوہ)

حضرت مصلح موعودؓ کی ایک دعا تھی اس سے استفادہ کرتے ہوئے مَیں یہ دعا آخر میں پیش کرتا ہوں کہ:

’’اے میرے مالک میرے قادر میرے پیارے میرے مولیٰ میرے رہنما اے زمین و آسمان کے خالق اور اس میں موجود ہر چیز پر تصرف رکھنے والے۔ اے خدا جس نے لاکھوں انبیاء اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ اے وہ عَلِیٌّّ وَ کَبِیْرٌ خدا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی دنیا میں مبعوث فرمایا، اے وہ رحمان خدا جس نے مسیح جیسا رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کی امت میں امت کی رہنمائی کے لئے پیدا فرمایا۔ اے نور کے پیدا کرنے والے اور ظلمت کے مٹانے والے! ہم تیرے عاجز بندے تجھ سے تیرے وعدوں کا واسطہ دے کر جو تو نے اپنے محبوب اور سب سے پیارے رسول اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ہیں۔ نیز ان وعدوں کا واسطہ دے کر جو تُو نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق سے کئے ہیں۔ تیرے حضور عاجزی سے جھکتے ہوئے یہ فریاد کرتے ہیں کہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے عظیم الشان نشان ہمیں دکھا۔ ہم اس بات پر علیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتے ہیں کہ تو سچے وعدوں والا ہے۔ تو یقینا اپنے وعدے پورے کرے گا۔ لیکن ہمیں یہ خوف بھی دامنگیر ہے کہ ہماری نالائقیوں اور ناسپاسیوں کی وجہ سے یہ وعدے پورے ہونے کا وقت آگے نہ چلا جائے۔ تیری رحمانیت اور تیری رحیمیت کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ عرض کرتے ہیں۔ ہمارے عملوں سے چشم پوشی فرماتے ہوئے ہمارے گناہوں اور ظلموں کے باوجود ہمیں اپنے انعاموں اور احسانوں سے اس طرح نوازتا چلاجا جس طرح تو نے ہمیشہ سے ہم سے سلوک رکھا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم نے اپنا حق اس طرح ادا نہ کیا جو حق ادا کرنے کا حق ہے۔ مگر تو ہمیشہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہم پر برساتا رہا۔ اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط تر کرتا رہا۔ میں آج پھر عاجزانہ طور پر تیرے سامنے پھر یہ عرض کرتا ہوں کہ اے رحمان خدا! اے وہاب خدا! اے ستار العیوب خدا! اے غفور الرحیم خدا! اپنی رحمانیت اور وہابیت کے دروازے کبھی ہم پر بندنہ کرنا۔ ہمارے عیبوں اور ہماری کمزوریوں سے ہمیشہ پردہ پوشی فرمانا۔ ہم پر بخشش اور رحم کی نظر رکھنا۔ اور جس سلوک سے ہمیں اب تک نوازتا رہا ہے اس کو کبھی بندنہ کرنا۔ ہم تجھ سے ہر اس خیر کے طالب ہیں جو تو نے کسی کے لئے بھی مقدر کی ہے۔ بلکہ ہر وہ خیر جس کا تو مالک ہے محض اور محض اپنے فضل سے عطا فرما۔ اے میرے خدا! میں تیری تمام صفات کا واسطہ دے کر تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کی خیر سے ہمیں متمتع فرما۔

اے ہمارے پیارے خدا! ہم نہایت دردِ دل کے ساتھ اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور جھکتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کو رحم فرماتے ہوئے اپنے وعدے کے مطابق کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ ہماری دعاؤں کو سن۔ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو تیری عبادت سے بیزار ہیں، بُعد المشرقین پیدا کر دے۔ ہمیں اپنے خالص عبدِ رحمان بنا دے۔ ہمارے سینے اپنی محبت میں سرشار کر دے۔ ہمارے اعمال و اقوال عمدہ اور صاف کر دے۔ جو تیرے چہرے اور تیرے حکم پر قربان ہونے والے ہوں۔ ہم تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے والے بن جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرے حکم کے مطابق درود بھیجنے والے بن جائیں۔ میرے مسیح موعود کو جن کو تُو نے اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق بھیجا ہے، آپ کے ساتھ کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے بن جائیں۔ آپ کو حکم اور عدل مانتے ہوئے آپ کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں۔ اے خدا! ہم پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے سینے اپنی محبت اور اپنے پیاروں کی محبت سے بھر دے۔ ہماری کمزوریوں کو دور فرما۔ شیطان کے تسلط سے ہمیں ہمیشہ بچا۔ ہم وہ قوم بن جائیں جو تیرے پیار کو ہمیشہ جذب کرنے والے ہیں۔ ہمیں تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا۔ اور تمام مصیبتوں سے ہمیں محفوظ رکھ۔ اے ہمارے خدا! یہ ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ دنیا کے سینے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے قبول کرنے کے لئے کھول دے۔ اور تمام مسلمانوں کو امتِ واحدبنا دے۔ تمام فتنے اور فساد جنہوں نے مسلمانوں کو گھیرا ہوا ہے ان سے مسلمانوں کو نکال۔ ان کی آنکھیں کھول تا وہ تیرے مسیح موعود اور مہدی موعود کو پہچان لیں۔ اے اللہ! دنیا کو عقل دے کہ وہ زمانے کے امام کو پہچان کر آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچ جائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

آج پھر ایک افسوسناک خبر ہے۔ مکرم نصیر احمد بٹ صاحب جو مکرم اللہ رکھا بٹ صاحب کے بیٹے تھے اور فیصل آباد میں رہتے تھے، ان کوپرسوں 8؍ستمبر کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ نصیر احمد بٹ صاحب کے دادا غلام محمد صاحب قادیان کے قریب موضع ڈلہ کے رہنے والے تھے اور آپ کے خاندان میں آپ کے دادا کے ذریعے سے احمدیت آئی تھی۔ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دور میں بیعت کی سعادت ملی تھی۔ نصیر صاحب کی تعلیم تھوڑی تھی۔ ان کی اپنی دکان تھی۔ یہ پھل بیچنے کا کام کیا کرتے تھے۔ 8؍ ستمبر کو ساڑھے گیارہ بجے دن کے قریب یہ اپنی دکان پر بیٹھے تھے اور ایک موٹر سائیکل سوار آیا جس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور اس نے پستول نکال کر دو تین فٹ کے فاصلے سے فائر کئے۔ پانچ گولیاں شہید کے سینے میں لگیں اور ایک گولی چہرے پر لگی جس سے موقع پر شہید ہوگئے۔ اس وقت دکان پر ملازم بھی موجود تھا اور بہت سارے گاہک بھی موجود تھے۔ بڑی دکان تھی اور وہ جگہ بھی ایسی ہے کہ جہاں بازار میں کافی رَش ہوتا ہے۔ لیکن ملزم بڑی آسانی سے وہاں سے فائر کرنے کے بعد چلا گیا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر51 سال تھی۔ نہایت مخلص اور ایماندار، نظامِ خلافت سے عشق رکھنے والے تھے۔ مربیان سے بھی غیر معمولی تعلق کا اظہار کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ اگرکبھی خطبہ براہِ راست نہ سن سکتے اور miss ہو جاتا تو آ کے پھر پوچھتے تھے کہ کیا خطبہ آیا تھا اور اس کے پھر خاص خاص پوائنٹ یاد رکھا کرتے تھے۔ اپنے کاروباری حلقے میں بھی اور محلے میں بھی بڑے مشہور تھے اور بڑے پسند کئے جاتے تھے۔ ہر دلعزیز تھے۔ بڑے صلح جُو تھے۔ اپنوں غیروں سبھی کا خیال رکھتے تھے اور صابر شاکر انسان تھے۔ ان کے جنازے پر وہاں غیر از جماعت کاروباری حضرات جو ہیں ان کی بھی کثیر تعداد شامل ہوئی۔ اسی طرح ان کے جو بہت سارے مستقل گاہک تھے گاہک وہ بھی ان کے جنازے میں شامل ہوئے۔ خاص صفت ان کی مہمان نوازی کی تھی۔ بڑے شوق سے مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ بھی لجنہ کی صدر رہی ہیں۔ مرحوم کے بوڑھے والدین زندہ ہیں اور پانچ بھائی اور چار بہنوں کے علاوہ اہلیہ ہے، اور ایک بیٹا ہے جس کی تیئس سال عمر ہے۔ عائشہ نصیر اٹھارہ سال کی بیٹی ہیں اور ایک گیارہ سالہ بچی شجیلہ نصیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لواحقین کو، عزیزوں کو، پیاروں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اور شہید مرحوم کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔ ابھی نمازِ جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کی نمازِ جنازہ غائب ادا کروں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17 شمارہ 40 مورخہ یکم اکتوبر تا 07 اکتوبر 2010 صفحہ5 تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ ستمبر 2010ء شہ سرخیاں

    قرآن کریم، ا حادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات وارشادات میں سے بعض دعاؤں کا تذکرہ جن میں ذاتی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی دعاؤں کے ذکر کے ساتھ زیادہ تر جماعتی ترقی اور کامیابی اور دشمن کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ظالم گروہوں اور ظالم حکمرانوں سے بھی ہمیں نجات بخشے۔ ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے  جو طاقت کے نشے میں آج احمدیوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں اور ان کی خود پکڑ فرمائے۔

    مکرم نصیر احمد بٹ صاحب ولد مکرم اللہ رکھا بٹ صاحب آف فیصل آباد کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 10؍ستمبر 2010ء بمطابق 10؍تبوک 1389 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور