آئر لینڈ کی پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد

خطبہ جمعہ 17؍ ستمبر 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّک۔ َ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّک اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرۃ: 129-128)

اور جب ابرہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے کہ) اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔ اور اے ہمارے رب! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے۔ اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار اُمّت پیدا کر دے۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا۔ اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یہ آئر لینڈ کا میرا پہلا سفر ہے اور اس سفر کا مقصد اس ملک میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنا ہے۔ بڑے عرصہ سے آپ لوگ جو یہاں کی جماعت کے رہنے والے ہیں، اس مخمصہ میں پڑے ہوئے تھے کہ مسجد Dublin میں بنائیں یا Galway میں بنائیں؟ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے کہنے پر جس کی بعض وجوہات بھی تھیں تقریبا ًتمام احباب نے اس بات کو خوشی سے مان لیا کہ ٹھیک ہے پہلی مسجد Galway میں تعمیر کی جائے۔

اگر دیکھا جائے تو Galway بھی ایک لحاظ سے دنیا کا کنارہ بنتا ہے۔ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ Atlantic Ocean (یا بحیرہ اوقیانوس) یہاں سے شروع ہو جاتاہے۔ اس کے بعد سیدھی لائن میں تو یورپ کے اور کوئی جزیرے نہیں ہیں۔ یہاں سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر لائن کھینچیں تو سمندر کے بعدکینیڈا، امریکہ وغیرہ کے علاقے پھر شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بھی ایک کنارہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کو ایک مسجد بنانے کی انشاء اللہ تعالیٰ توفیق مل رہی ہے تا کہ وحدانیت کا اعلان اس علاقہ سے بھی دنیا کو پہنچے۔ اور مساجد بنانے کا ہمارا یہی مقصد ہے کہ جہاں ہم اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے، اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بناتے ہوئے مساجد میں پانچ وقت جمع ہو کر اس کے آگے جھکیں اور اس کی عبادت کریں وہاں توحید کا پیغام بھی اس ذریعہ سے دنیا کو پہنچائیں۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے یہ پیغام دنیا کوپہنچائیں۔ اور دنیا کے ہر کونے سے جب یہ صدا بلند ہو کر عرش پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں میں ہمارا بھی شمار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ پہلے انبیاء نے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعدایک عاشقِ صادق کے آنے کی جو خبر دی تھی اس کا یہی کام اور مقصد تھا کہ وہ اَللّٰہُ اَکْبَر کا نعرہ دنیا میں لگائے اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا پیغام دنیا کو دے کر انہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنا دے۔ اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لا ڈالے۔ اس کے علاوہ تو اور کوئی پیغام نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو الہاماً یہ خوشخبری دے کر وعدہ فرمایا تھا کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اس سے مراد اسی پیغام کی تبلیغ تھی جو اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری رسول خاتم الانبیاء فخر الرسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ جس نے شریعت کو کامل کیا تھا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انتہا سے اس دنیا کو جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تلاش میں تھی فیضیاب کیا تھا۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘ تو اس سے مراد یہ پیغام ہے جس کے دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ کو اس قدر فکر اور تردد تھا کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آقا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان ہلکان کی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دین نے دنیا میں غالب آنا ہے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین ہے۔ اور اے مسیح محمدی! تجھے مَیں نے اس دین کے غلبہ کے لئے ایک ذریعہ بنا کر کھڑا کیا ہے۔ پس اب یہ میرا وعدہ ہے اور یہی تقدیر ہے کہ اسلام نے ہی دنیا میں آخری فتح دیکھنی ہے تو پھرتُو اپنی کمزوری، اپنے وسائل کی کمی اور راستے کی بے شمار روکوں کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ ، اے مسیح محمدی! مَیں نے جوکام تیر ے سپرد کیا ہے یہ صرف تیرا کام ہی نہیں ہے بلکہ یہ تقدیرِ الٰہی ہے اور جب یہ تقدیرِ الٰہی ہے تو پھر میری تائید و نصرت بھی تیرے ساتھ ہے۔ پس ان تمام وسائل کی کمیوں، بشری کمزوریوں اور راستے کی بے شمار روکوں کے باوجود مَیں تیرے مشن کو جو دراصل دنیا کومیرے اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے کا مشن ہے، مَیں اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ پورا کروں گا۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم دیکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہے ہیں۔ ایم ٹی اے کا ہی ذریعہ لے لیں کس طرح اس ذریعہ سے دنیا میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ اور خلیفہ ٔوقت جہاں دورہ پر جائے پھر وہاں سے ہی دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ کی آواز اس ذریعہ سے پہنچ رہی ہے۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا، پہلے بھی مَیں فجی میں اور بعض اور جگہوں پراس کا ذکر کر چکا ہوں کہ ان کناروں سے مسیح محمدی کا پیغام آپ کے خلیفہ کے ذریعے دنیا کے کناروں تک پہنچ رہا ہے۔ گویا دنیا کے کناروں سے دنیا کے مرکز اور خشکی اور تری اور پھر تمام کناروں تک یہ پیغام پہنچ رہا ہے۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ اور آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وعدے پورے ہونے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی دیکھنے والی نظرہو تو دیکھے۔ آج یہاں سے نشر ہونے والا خطبہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے کیونکہ میرے نزدیک جیسا کہ مَیں نے کہا یہ بھی دنیا کا ایک کنارہ ہے۔

پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کے سپرد کیا ہے وہی کام آپ کے ماننے والوں کے سپردبھی ہے۔ اور ہمیں ہمیشہ اور ہر وقت اس بات کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فکر تھی۔ بار بار تسلی بھرے الفاظ سے تسلی دلانے کے باوجودنہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کوشش میں کمی کی، نہ ہی آپ نے اپنی دعاؤں میں کمی کی، نہ ہی آپ کی فکر میں کمی ہوئی کہ کہیں ان تمام چیزوں میں کمی کی وجہ سے خدائی وعدے ٹل نہ جائیں۔ کہیں کوئی کمزوری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہ بن جائے۔ اور یہ سب کچھ آپؑ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں اور کئی بارپڑھ چکے ہیں اور سن چکے ہیں کہ جنگِ بدر میں خدا تعالیٰ کے تمام تر وعدوں کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہو ہو جاتے تھے۔ دعاؤں اور رقّت کی حالت میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اس قدر جھٹکے لیتا تھا کہ آپ کے کندھے پر پڑی چادر گر گر جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار تسلی دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم مٹھی بھر ہیں اور کمزور ہیں تو کیا ہوا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی ہے، آج بھی کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون اس بات کو جان سکتا تھا کہ یقینا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور یقینا فتح ہماری ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری جاری رکھی۔ اسی میں مگن رہے اور دعاؤں میں شدت پیدا کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ سے آپ یہ دعا مانگ رہے تھے کہ کہیں ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ٹل نہ جائیں۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ کے پیارے اس یقین پر قائم ہوتے ہیں اور اس سے پُر ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ضرور بالضرور پورے ہوں گے وہاں ان کو یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے۔ ہماری طرف سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ٹالنے کا باعث بن جائے۔ پس یہی رہنما ہے اور یہی اصل ہے جس کو حقیقی متبعین پکڑتے ہیں اور پکڑنا چاہئے۔ وہ نہ ہی اپنی کوششوں میں کمی کرتے ہیں، نہ ہی اپنی دعاؤں میں کمی کرتے ہیں، نہ ہی اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں پر انحصار کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور کبھی یہ خیال دل میں نہیں لاتے کہ جو کچھ انعامات ہمیں مل رہے ہیں یہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ یہی سبق ہمیں ان آیات میں ملتا ہے جن کی مَیں نے تلاوت کی ہے۔

ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی مثال دے کر، ان کا واقعہ بیان کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان پر غور کریں تو یہی سبق ہے۔ جب یہ دونوں باپ بیٹا خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے گھر کی دیواریں اور بنیادیں نئے سرے سے کھڑی کر رہے تھے تو کمال عاجزی اور انکسار سے یہی دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! ہماری اس قربانی کو قبول فرما جو ہم تیرے حکم کے مطابق کر رہے ہیں۔ یہ بھی کمال عاجزی ہے کہ ایک کام جس کے بارہ میں توان کو خودنہیں پتہ تھا۔ خانہ کعبہ کی بنیادوں کا علم تو اللہ تعالیٰ کی نشاندہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا تھا کہ یہ سب سے قدیم گھر ہے۔ اور یہ وہ گھر ہے جس نے اب رہتی دنیا تک وحدانیت کا نشان اور symbol بن کر قائم رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمارت کو اپنی توحید کا نشان بنانا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ دعا ہے کہ اے اللہ! ہم جو تیرے حکم سے اس کی تعمیر کر رہے ہیں تو اس تعمیر کے ساتھ ہماری قربانیوں کو بھی وابستہ کر دے۔ ہمیں یہ خوف نہیں ہے کہ اس تعمیر کے بعد اگر ہم اپنی قربانیوں کو اس سے وابستہ کر کے قبولیت کی دعا کریں گے تو ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس ویران جگہ کی آبادی بھی کرنی پڑے گی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول کر کے جن فضلوں کا تو وارث بنائے گاان کے مقابلے پر یہ قربانی بالکل حقیر قربانی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ قربانی کا قبول کرنا بھی تیرے فضل پر ہی منحصر ہے۔ ہم اگر سمجھ بھی رہے ہیں کہ ہم قربانی کر رہے ہیں تو ہمیں کیا پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ یہ قربانی ہے بھی کہ نہیں۔ پس تُو جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تیرے سے ہم عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتے ہیں کہ تیرا گھر جو تیرے حکم سے تعمیر ہو رہا ہے اس کی تعمیر میں جو کچھ بھی ہم نے پیش کیا ہے تُو محض اور محض اپنے فضل سے قبول فرما لے۔ اور قبول فرمانے کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو کہ ہمارا نام بھی اس سے وابستہ ہو جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ سمیع کا حوالہ دے کر دعا کی قبولیت کی بھیک مانگ رہے تھے وہاں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علیم کا حوالہ دے کر یہ بھی دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! تو علیم ہے۔ جانتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟ ہمارے دل کی حالت تیرے سے تو مخفی نہیں ہے۔ تُو یقینا جانتا ہے کہ ہم خالص ہو کر تیرے سامنے جھکے ہیں اور جھکنا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں قبول فرما اور اس عمارت سے وابستہ انعامات کا ہمیشہ ہمیں وارث بنا دے۔ اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اور جب تک تیری توحید کا نام یہاں سے بلند ہونا ہے، ہمارا نام بھی اس سے منسلک رکھ۔ ہم یہ دعا کرتے تھے کہ اس گھر میں آکر دعائیں کرنے والے بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اور جوجو بھی ان سے وابستہ ہیں وہ بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان باپ بیٹے نے وہ قربانیاں دی تھیں کہ آج تک ہم یاد رکھتے ہیں۔ مسلمان جب ہر نماز میں درود پڑھتے ہیں اور ہر نفل کی آخری رکعت میں جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی اور آپؑ کی آل پر بھی اس حوالہ سے درود بھیجتے ہیں۔ یہ اعزاز حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفا اور کامل طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہونے کی وجہ سے ملا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38) اور ابراہیم جس نے وفا کی اور عہد پورا کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ یوں فرماتے ہیں کہ:

’’جب تک انسان صدق و صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کا بندہ نہ ہو گا تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے۔ جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی کہ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38) کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبتِ الٰہی سے بھرنا، خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظلّ اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو۔ کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں‘‘۔ (البدر جلد2 نمبر 43مورخہ 16نومبر 1903ء صفحہ 334)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’نا مرد، بزدل، بے وفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے۔ اس کی کچھ قدرو قیمت نہیں ہے۔ ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بنا ء پر ملا؟ قرآنِ شریف نے فیصلہ کر دیا ہے اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38) ابراہیم وہ ہے جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی۔ آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کافروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں‘‘۔ (الحکم جلد8نمبر4مورخہ 31جنوری 1904ء صفحہ ,2 1) یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ کسی اور کی عبادت سے انکار کر دیا۔ یہ کامل وفا تھی۔

پس ہم عموماً اپنی مساجد کی بنیادوں اور افتتاحوں کی تقریبوں میں جو ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں تو یہ روح ہے جو ہمیں اپنے سامنے رکھنی چاہئے. ہم یہ تعمیر اور اس تعمیر کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی اگر کر بھی رہے ہیں تو ہمیں نہیں پتہ کہ وہ دکھاوا ہے یا حقیقی قربانی ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ ان قربانی کرنے والوں میں شامل کر جو حقیقی قربانی کرنے والے ہیں۔ آپ یہ مسجد بنائیں گے اور ظاہر ہے ہماری مساجد افرادِ جماعت کی مالی قربانیوں کے ذریعہ ہی تعمیر ہوتی ہیں تو ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور اس دعا کے ساتھ یہ قربانیاں دینی ہوں گی کہ اے خدا! ہماری اس قربانی کو اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ بنا دے۔ کبھی ہمارے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ یہ کوئی بہت بڑی قربانی ہے جو ہم نے دی ہے یا ہم دے رہے ہیں۔ یہاں تو آپ میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اچھا کمانے والے ہیں۔ پاکستان میں اور افریقہ وغیرہ کے ممالک میں اور دوسرے غریب ممالک میں تو احمدی اللہ تعالیٰ کے گھروں کی تعمیر کے لئے اپنے پیٹ کاٹ کر قربانیاں کر کے دے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کی پھر بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اور توفیق دے تو اور دیں۔ افریقہ میں ایسے بہت سے افریقن احمدیوں کو میں جانتا ہوں جن کے حالات پہلے تو اچھے نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ قربانیاں دیتے رہے۔ توپھر خدا تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دن پھیرے۔ آمدنیوں کے ذریعے بڑھ گئے۔ کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو انہوں نے اپنی قربانیوں کے معیار اور بڑھا دئیے۔ زائد آمد سے اپنے آرام و سکون کا خیال نہیں رکھا بلکہ مساجد کی تعمیر کے لئے بے انتہا دیا۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اکیلے ہی ایک ایک مسجد خود تعمیر کی اور بڑی بڑی اچھی خوبصورت مساجد تعمیر کی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے عجیب عجیب قربانیاں کرنے والے دل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں۔ اور جنہیں پھر کبھی یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم نے کوئی قربانی کی ہے۔ مَیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ اکثریت نے خوشدلی سے اس فیصلہ کو قبول کر لیا لیکن شاید چند ایک ایسے بھی ہوں جو Dublin میں مسجد کی تعمیر پہلے چاہتے ہوں۔ ایک دو نے تو مجھے خط بھی لکھے تھے۔ جماعت کی تعداد وہاں زیادہ ہے اس لئے ان کی خواہش بھی جائز ہے۔ لیکن بعض اَوروجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے یہاں تعمیر کا پہلے فیصلہ کیا گیا۔ اس لئے اب وہ لوگ بھی جن کی مرضی کے خلاف یہ تعمیر ہو رہی ہے ان کواس کی تعمیر میں کھلے دل سے حصہ لینا چاہئے اور یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ ہم Dublin میں رہتے ہیں اس لئے وہاں کی مسجد کی پہلے تعمیر ہو یا جب بھی وہاں مسجد تعمیر ہو گی تو ہم اس میں حصہ لیں گے۔ یہ ایک مرکزی پراجیکٹ ہے، منصوبہ ہے، اس لئے یہاں بھی سب کو حصہ لینا چاہئے اور جب Dublin میں انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنے گی تو وہاں بھی سب حصہ لیں گے۔ یہ تو ایک راستہ ہے جو کھولا جا رہا ہے۔ یہ مسجد بننے کے بعد مساجد کی تعمیر بند تو نہیں ہو جائے گی۔ یہی چیز ہے جو حقیقی وفا کی نشاندہی کرتی ہے۔ وفا دکھانے کا یہ مطلب بھی ہے کہ عہد کو پورا کرنا۔ پس ہر احمدی نے یہ عہد کیا ہو اہے کہ مَیں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔ تو وفا اور عہد کو پورا کرنے کا معیار تبھی قائم ہو گا جب بے نفس ہو کر حتی الوسع اس مسجد کی تعمیر کے لئے ہر احمدی حصہ لے گا۔ آج جو مطالبہ آپ سے ہو رہا ہے وہ یہ ہو رہا ہے۔ مختلف وقتوں میں مختلف مطالبے ہوتے ہیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب وفاؤں کے معیار قائم کرنے اور عہدوں کو پورا کرنے سے ملتا ہے۔ اور جو عمارت بن ہی خدا کے گھر کے طور پر خدا والوں کی عبادت کے لئے رہی ہو اس سے زیادہ اور کون سی چیز اس بات کی حق دار ہے کہ اس کی خاطر اپنے مال میں سے کچھ قربان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدوں کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے پیش کر دیا۔ اور خدا تعالیٰ نے ان کی اس قربانی کو قبول فرما کر ان کی نسل میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا سب سے پیارا نبی پیدا فرمایا وہاں ان دونوں کے نام بھی تا قیامت اپنے اس پیارے کے ساتھ جوڑ دئیے۔

پس یہ ایسی قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی مقبول ہوئی۔ اور آج ہمیں بھی حکم ہے کہ تم اس قربانی کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کرو۔ اور ان کا رخ بھی اللہ تعالیٰ کے اس قدیم گھر کی طرف رکھو تا کہ جہاں تمہاری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف رہے وہاں ان فرستادوں کی قربانیاں بھی یاد رہیں۔ ان کی وفاؤں کے نمونے سامنے رکھ کر ہمیں بھی اپنی وفاؤں کے پرکھنے کی طرف توجہ رہے۔ ہمیشہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور سنی جاتی رہیں۔ پس یہ روح ہے جو مسجدیں تعمیر کرنے والوں کو ہر وقت قائم رکھنی چاہئے۔ اور اس روح کو قائم رکھنے کے لئے اگلی آیت میں مزید کھول کر بتایا ہے۔ (یہ دو آیات تھیں ) کہ اس وفا کو قائم رکھنے اور قربانیوں کی روح کو دوام بخشنے کے لئے بعض اعمال بھی ہیں جو ہمیشہ ہمیں پیشِ نظر رکھنے چاہئیں۔ بعض دعائیں بھی ہیں جو ہمیں کرتے رہنا چاہئیں۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے پیارے اسی طرح دعا کرتے تھے کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ یعنی ہمیں بھی اپنے دو فرمانبردار بندے بنا دے۔ پس عبادت گاہ بنانے والوں کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کامل فرمانبردار ہوں۔ یہاں پھر وفا کی طرف مضمون پھیرا گیا ہے کہ کامل وفا کے ساتھ ہی کامل فرمانبرداری ہوتی ہے۔ یا کامل فرمانبرداری کا اظہار وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کہ وفاؤں کے معیار قائم کرنے والے ہوں۔ جب انسان کامل فرمانبردار ہو تو تبھی یہ معیار بھی قائم ہوتے ہیں۔ ایک بندہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل فرمانبرداری کا عہد کرے یا دعا مانگے تو اس کا مطلب ہے کہ اس بات کی حتی المقدور کوشش کرے گا کہ اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے دکھانے کی طرف توجہ رہے۔ اور اطاعت کا اعلیٰ ترین نمونہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ عمل کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرناہے۔ اور ان حکموں میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے وہاں بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ جہاں عبادت کے معیار بلند کرنے کی کوشش ہے وہاں نظامِ جماعت کی کامل اطاعت کے لئے پوری کوشش کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی پوری کوشش کی ضرورت ہے۔ اور جب یہ نمونے انسان خود قائم کرتا ہے اور اس کے لئے دعا بھی کرتا ہے تو پھر یہ خیال آتا ہے کہ میری نیکیاں کہیں میرے تک ہی نہ ختم ہو جائیں اور میرے بعد یہ نیکیاں آگے نہ چلیں۔ اس لئے خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ یہ دعا بھی سکھا دی کہ ہماری اولاد میں سے بھی ایک پاک اور فرمانبردار جماعت پیدا کر جو تیری عبادت کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ نظامِ جماعت سے بھی جڑے رہنے والے ہوں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ بہت سے لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ کی بیعت کی(سرحد کے علاقے میں تو ابھی بھی بہت ہیں ) لیکن اپنی بیویوں کی اور اپنی اولادوں کی اس نہج پر تربیت نہیں کر سکے اور ان کو جماعت سے جوڑ نہیں سکے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اگلی نسلیں علیحدہ ہو گئیں، ان کا پتہ ہی نہیں لگا۔ تو جہاں یہ دعا انسان کرتا ہے کہ مَیں بھی کامل فرمانبردار رہوں، مَیں بھی خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا رہوں اور جس کا ہاتھ پکڑا ہے اس کا ہاتھ پکڑے رکھوں، وہاں اپنی نسل کے لئے بھی دعا کرتا ہے اور اس کے لئے کوشش بھی کرتا ہے تو تبھی کامیابیاں ملتی ہیں۔ پس یہ ایک ایسا سلسلہ دعا ہے جس کو ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر کی تعمیرکے مقصد کے حصول کی کوشش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، اور جو اگر حاصل ہو جائے تو انسان کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔

حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو تو خدا تعالیٰ نے ایساقبول فرمایا کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ وہ جگہ تمام دنیا کی مساجد کا محور بن گئی اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بنانا تھا۔ اور ان دونوں کی ذریت سے وہ عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جنہوں نے فرمانبرداری اور اطاعت اور عبادت کے بھی نئے اور عظیم معیار قائم کر دئیے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں دعاؤں اور عبادتوں کے معیار قائم کروا دئیے اور پھر ہمیں حکم دیا کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 22) یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں اُسوہ حسنہ ہے۔ اور اُس اُسوہ حسنہ میں ہم نے کیا دیکھا؟ آج مسجد کے حوالے سے مَیں بات کرتا ہوں تو عبادتوں کے جو نئے سے نئے معیار قائم ہو رہے ہیں۔ یہ نہ صرف خود قائم کئے بلکہ صحابہ میں وہ روح پھونک دی کہ جنہوں نے عبادتوں کے نئے سے نئے معیار قائم کئے۔ ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھنے کے لئے مدینہ میں پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد کی بنیاد رکھی تاکہ اُمّت کے افراد خدائے واحد کی عبادت کرنے کی طرف متوجہ رہیں۔ ایک جگہ جمع ہو کر سب عبادت کر سکیں۔ پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مسجدِ نبوی دن رات خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی آماجگاہ بن گئی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پس اللہ کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اور دعا بھی ہونی چاہئے۔ تبھی مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ اینٹ، سیمنٹ، لکڑی کے جو ڈھانچے ہیں یہ کھڑے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم کچھ مالی قربانی کر کے مسجد کی تعمیر کر دیں گے تو ہماری ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ مسجد کی تعمیر کی جو بنیادی اینٹ ہے اس سے لے کر چھت تک پہنچنے والی ہر اینٹ جب رکھی جا رہی ہو تو اسے پہنچانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ اس کی آبادی کے لئے بھی دعا کرتے رہیں تا کہ ہمارے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر مائل رہیں اور ہماری اولاد کے دل بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف مائل رہیں، ان کو توجہ پیدا ہوتی رہے۔ ایسی مسجدیں بھی ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مثال دی کہ ان کی بنیاد ہی فساد پر تھی۔ لیکن ہم نے تو وہ مسجد اٹھانی ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر اٹھائی گئی تھی۔ پس مسجد کی بنیاد کی اصل خوشی یہ ہے کہ یہ ہمیں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بنا دے۔ اور جب اس کی تعمیر مکمل ہو تو عبادت کے لئے بے چین دلوں سے یہ بھر جائے۔

پھر اس آیت میں یہ بھی دعا ہے کہ ہمیں اپنی ایسی عبادتوں کے طریق سکھا، ہمیں ایسی قربانیوں کے طریق سکھا جو تیرے حضور مقبول ہونے والی ہیں۔ ہماری عبادتوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں۔ اور ہماری قربانیوں کے معیار بھی پہلے سے بڑھتے چلے جائیں۔ پس یہ مسجد، یہاں رہنے والوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالنے جا رہی ہے، اگر اس اصل کو پکڑ لیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے فضل سے مقبول ہو جائیں گے۔

آخر میں پھر اس آیت میں یہ دعا کی گئی ہے کہ تُبْ عَلَیْنَا۔ ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یعنی چاہے جتنی بھی ہم کوشش کریں، اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیں، حقوق العباد کی طرف توجہ دیں، اپنی اولاد کی اصلاح کی طرف توجہ دیں، تیرے پیغام کو پہنچانے کی طرف توجہ دیں تو پھر بھی ہمارے کاموں میں خامیاں رہ جائیں گی۔ یہ بشری تقاضے ہیں۔ کمیاں بھی رہ جائیں گی۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری سستیوں کی وجہ سے یہ کام جو ہمارے سپرد ہیں یہ آگے ٹل جائیں۔ پس ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اپنے فضل سے ہماری طرف توجہ رکھنا اور ہمیں معاف کر دیا کرنا۔ اگر یہ سستیاں اور خامیاں رہ جائیں توہم سے درگزر کرنا۔ توُبہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس توبہ اس کی قبول ہوتی ہے جو جان بوجھ کر غلطیوں میں نہ پڑے اور بار بار رحم بھی اس پر ہوتا ہے جو بار بار رحم مانگتا ہے۔ پس دعاؤں کا اور نیک اعمال بجا لانے کا، اور برائیوں سے بچتے رہنے کا اور اس کے لئے کوشش کرتے چلے جانے کایہ تسلسل ہے۔ اگر یہ ایک تسلسل قائم رہے تو خدا تعالیٰ بھی فضل اور رحم فرما دیتا ہے۔ اور مسجد کی تعمیر اور خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اس کو جوڑ کر جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ہمیں اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

آج اس مسجد کی بنیاد رکھنے کی تقریب کے ساتھ پریس اور میڈیا کے لوگوں کو بھی توجہ پیدا ہو گی۔ بہت سے احمدی جن کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا یا جماعت کا تعارف اس طرح نہیں تھا، شاید اس تقریب کے بعد لوگوں کی توجہ پیدا ہو۔ بلکہ مختلف ممالک کے تجربے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ جوں جوں عمارت بلند ہوتی جائے گی یہ عمارت مزید توجہ کھینچے گی اور جب توجہ کھینچے گی تو ہر وہ احمدی جو یہاں رہتا ہے اس کی اہمیت بھی بڑھے گی تو اس کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ میری اہمیت بڑھ رہی ہے۔ آپ لوگ یہاں مقامی لوگوں کی نظر میں آئیں گے تو اس سے مجھے امید ہے کہ جہاں تبلیغ کے راستے کھلیں گے اور تبلیغ میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی وہاں آپ کو مختلف طریقوں سے لوگوں تک پیغامِ حق پہنچانے کی بھی پہلے سے بڑھ کرکوشش کرنی ہو گی۔ جیسا کہ مَیں اکثر بیان کیا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر اسلام کا تعارف کروانا ہے اور پیغامِ حق پہنچانا ہے تو جس علاقے میں یہ مقصد حاصل کرنا ہے وہاں مسجد بنا دو۔ تو مجھے امید ہے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ بھی مجبور کئے جائیں گے کہ تبلیغ میں وسعت پیدا کریں۔ اگر اپنے عہدوں کو پورا کرنا ہے، اگر اپنی وفا کا ثبوت دینا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کو جو یہاں رہتا ہے، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار بھی کرتے رہنے کی ضرورت ہو گی تا کہ اللہ تعالیٰ طاقت بخشے کہ نیک اعمال بجالانے کی توفیق ملتی رہے۔

دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تو خانہ کعبہ کی بنیادیں کھڑی کرتے وقت صرف دو افراد تھے، لیکن جب تعمیر شروع کی تو اس یقین پر قائم تھے کہ اللہ تعالیٰ جو اتنا اہم کام کروا رہا ہے تو آئندہ ہماری نسل میں بھی وسعت پیدا کرے گا۔ اس لئے ان کے لئے بھی ساتھ ہی دعا کی کہ جو بھی ذریت آنے والی ہے وہ بھی اس اہم مقصد کو پیشِ نظر رکھے۔ لیکن ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہیں۔ اور پھر آپ

صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ وابستہ ہیں ہم تو اس بڑھتی ہوئی ذریت اور اُمّت کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ابراہیم کے الہامی نام سے پکارا ہے۔ پس اس ابراہیم کی دعائیں بھی قبول ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کی ہیں اور کرتے ہیں، کر رہے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک عربی الہام میں اس طرح فرمایا تھا کہ’’اُرِیْحُکَ وَلَا اجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا کہ مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’اس کے ساتھ ہی دل میں یہ تفہیم ہوئی جس کا مطلب یہ تھا جیساکہ مَیں نے ابراہیم کو قوم بنایا‘‘۔ (الہام 27مئی 1906 ء تذکرہ ایڈیشن چہارم2004ء صفحہ 530)

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ غلامِ صادق کے ذریعے جو قوم بن رہی ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت کے ذریعہ بن رہی ہے۔ اور اس قوم کی عبادت کے سامان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مساجد بھی بنانے کی توفیق عطا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن اس تعمیر کی برکات سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق میں ہر دم بڑھتے چلے جانے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی اس کے پھل ہمیشہ کھاتی چلی جائیں۔ ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائیں۔ ہماری عبادتوں کے معیار بلند ہوتے رہیں اور ہم اپنی نسلوں میں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ساتھ مضبوط تعلق کی روح قائم کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 41 مورخہ8 اکتوبرتا 14 اکتوبر2010 صفحہ5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 17؍ ستمبر 2010ء شہ سرخیاں

    یہ آئر لینڈ کا میرا پہلا سفر ہے اور اس سفر کا مقصد اس ملک میں جماعتِ احمدیہ کی پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنا ہے۔

    یہ مسجد گالوے (Galway)میں تعمیر ہوگی۔ گالوے بھی ایک لحاظ سے دنیا کا کنارہ بنتاہے۔

    مساجد بنانے کا ہمارا یہی مقصد ہے کہ جہاں ہم اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے، اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بناتے ہوئے مساجد میں پانچ وقت جمع ہوکر اس کے آگے جھکیں اور اس کی عبادت کریں وہاں توحید کا پیغام بھی اس ذریعہ سے دنیا کو پہنچائیں۔ اللہ کے گھر کی تعمیر کے ساتھ اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اور دعا بھی ہونی چاہئے۔ تبھی مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کیا جاسکتاہے۔

    مجھے امید ہے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ بھی مجبور کئے جائیں گے کہ تبلیغ میں وسعت پیدا کریں لیکن اس کے ساتھ ہی ہر احمدی کو جو یہاں رہتاہے اپنے نمونے بھی قائم کرنے ہوں گے۔ 

    فرمودہ مورخہ 17؍ستمبر 2010ء بمطابق 17؍تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام گالوے (Galway) آئر لینڈ

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور