عالَمِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعائیں اور نظام خلافت

خطبہ جمعہ 25؍ فروری 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج مَیں ایک دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا تعلق تمام عالَمِ اسلام سے ہے۔ اِس وقت مسلمانوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے اور ایک احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت ہے اور ہونی چاہئے، اُس کا تقاضا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کلمہ پڑھتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، جو بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے نقصان کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی طرح کی بے چینی اور لاقانونیت ہے اُس کے لئے ایک احمدی جو حقیقی مسلمان ہے، اُسے دعا کرنی چاہئے۔ ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ہمارا سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی میں بڑھ کر اظہار کرنے والے ہوں۔ جب ہم عہدِ بیعت میں عام خلق اللہ کے لئے ہمدردی رکھنے کا عہد کرتے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تو سب سے بڑھ کر اس جذبے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس دنیاوی حکومت اور وسائل تو نہیں جس سے ہم مسلمانوں کی عملی مدد بھی کر سکیں یا کسی بھی ملک میں اگر ضرورت ہو تو کر سکیں، خاص طور پر بعض ممالک کی موجودہ سیاسی اور مُلکی صورتِ حال کے تناظر میں ہمارے پاس یہ وسائل نہیں ہیں کہ ہم جا کر مدد کر سکیں۔ ہاں ہم دعا کر سکتے ہیں اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے۔ یا جو احمدی ان ممالک میں بس رہے ہیں یا اُن ممالک کے باشندے ہیں جن میں آج کل بعض مسائل کھڑے ہوئے ہیں، اُن کو دعا کے علاوہ اگر کسی احمدی کے اربابِ حکومت یا سیاستدانوں سے تعلق ہیں تو انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اُن کو قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے۔ لیکن اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہ عموماً مسلمان اربابِ اختیار اور حکومت جب اقتدار میں آتے ہیں، سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتے ہیں یا کسی بھی طرح اقتدار میں آتے ہیں تو حقوق العباد اور اپنے فرائض بھول جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ تو ظاہر ہے تقویٰ کی کمی ہے۔ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں، جس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لانے اور پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُس کے بنیادی حکم کو بھول جاتے ہیں کہ تمہارے میں اور دوسرے میں مابہ الامتیاز تقویٰ ہے۔ اور جب یہ امتیاز باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ پھر دنیا پرستی اور دنیاوی ہوس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گو مسلمان کہلاتے ہیں، اسلام کا نام استعمال ہو رہا ہوتا ہے لیکن اسلام کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کی جا رہی ہوتی ہے۔ دولت کو، اقتدار کی ہوس کو، طاقت کے نشہ کو خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دی جا رہی ہوتی ہے یا دولت کو سنبھالنے کے لئے، اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ غیر طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اپنے ہم وطنوں اور مسلم اُمّہ کے مفادات کی حفاظت سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنی رعایا پر ظلم سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا۔

پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دولت کی لالچ نے سربراہانِ حکومت کو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ اپنے ذاتی خزانے بھرنے اور حقوق العباد کی ادنیٰ سی ادائیگی میں بھی کوئی نسبت نہیں رہنے دی۔ اگر سَو (100) اپنے لئے ہے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہے۔ جو خبریں باہر نکل رہی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی سربراہ نے سینکڑوں کلو گرام سونا باہر نکال دیا تو کسی نے اپنے تہ خانے خزانے سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے سوئس بینکوں میں مُلک کی دولت کو ذاتی حساب میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے غیر ممالک میں بے شمار، لا تعداد جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور مُلک کے عوام روٹی کے لئے ترستے ہیں۔ یہ صرف عرب مُلکوں کی بات نہیں ہے۔ مثلاً پاکستان ہے وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ بہت سارے عام لوگ ایسے ہوں گے جن کو ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے۔ لیکن سربراہ جو ہیں، لیڈر جو ہیں وہ اپنے محلوں کی سجاوٹوں اور ذاتی استعمال کے لئے قوم کے پیسے سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کر لیتے ہیں۔ پس چاہے پاکستان ہے یا مشرقِ وسطیٰ کے ملک ہیں یا افریقہ کے بعض ملک ہیں جہاں مسلمان سربراہوں نے جن کو ایک رہنما کتاب، شریعت اور سنت ملی جو اپنی اصلی حالت میں آج تک زندہ و جاوید ہے۔ باوجود اس قدر رہنمائی کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دھجیاں اڑا ئی ہیں۔ پس امتِ مسلمہ تو ایک طرف رہی یعنی دوسرے ملک جن کے حقوق ادا کرنے ہیں یہاں تو اپنے ہم وطنوں کے بھی مال غصب کئے جا رہے ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں فساد اور افراتفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں۔ طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ پس ایسے حالات میں پھر ایک ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے جو گو اچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اَب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے۔ اور پھر کیونکہ ایسے ردّ عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک ردّعمل ہوتا ہے۔ اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں۔ اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتر آتا ہے۔ اس لئے مَیں کہہ رہا ہوں کہ احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ہر ملک اس لپیٹ میں آ جائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہو جائے۔ خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگر مسلمان لیڈرشپ میں تقویٰ ہوتا، حقیقی ایمان ہوتا تو جہاں سربراہانِ حکومت جو بادشاہت کی صورت میں حکومت کر رہے ہیں یا سیاستدان جو جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوتے۔ پھر اسلامی ممالک کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم صرف نام کی تنظیم نہ ہوتی بلکہ مسلمان ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے نہ کہ اپنے مفادات کے لئے اندر خانے ایسے گروپوں کی مدد کرنے والے جو دنیا میں فساد پیدا کرنے والے ہیں۔ اگر حقیقی تقویٰ ہوتا تو عالمِ اسلام کی ایک حیثیت ہوتی۔ عالمِ اسلام اپنی حیثیت دنیا سے منواتا۔ برّاعظم ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اور دوسرے برّاعظموں کے بھی کچھ حصوں میں اسلامی ممالک ہیں، اسلامی حکومتیں ہیں۔ لیکن دنیا میں عموماً ان سب ممالک کو غریب قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا غیر ترقی یافتہ قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا کچھ ترقی پذیر کہلاتی ہیں۔ بعض جن کے پاس تیل کی دولت ہے، وہ بھی بڑی حکومتوں کے زیرِ نگیں ہیں۔ ان کے بجٹ، ان کے قرضے جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں، اُن کی مدد جو وہ غریب ملکوں کو دیتے ہیں، یا مدد کے بجٹ جو غریب ملکوں کے لئے مختص کئے ہوتے ہیں اُس کی ڈور بھی غیر کے ہاتھ میں ہے۔ خوفِ خدا نہ ہونے کی وجہ سے، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ (Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے۔ حالانکہ مسلمان ممالک کی دولتِ مشترکہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے۔ یہ مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں مسلمان ملکوں کے سائنسدان اور موجد اپنے زرخیز ذہن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر کرواتے ہیں۔ اس لئے کہ اِن کی قدر اپنے ملکوں میں اُس حد تک نہیں ہے۔ اُن کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ اُن کو سہولتیں نہیں دی جاتیں۔ جب اُن کے قدم آگے بڑھنے لگتے ہیں تو سربراہوں یا افسر شاہی کے ذاتی مفادات اُن کے قدم روک دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں ملائشیا مثلاً بڑا ترقی یافتہ یا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے آگے بڑھا ہوا سمجھا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اُسے بھی ترقی پذیر ممالک میں ہی شمار کرتے ہیں۔ بہر حال یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے۔ اور اس کے باوجود کہ تقویٰ کوئی نہیں ہے ہر بات کی تان اسلام کے نام پر ہی ٹوٹتی ہے۔ قدریں بدل گئی ہیں۔

اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی صحیح قدروں کی پہچان کرنی ہو گی۔ اب آج کل کی صورتِ حال کس قدر فکر انگیز ہے۔ کہاں تومومن کو یہ حکم ہے کہ مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم بھی یہ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ  (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ لیکن بعض ملکوں میں مثلاً مصر سے بھی اور دوسرے ملکوں سے بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ حکومت نے قانونی اختیار کے تحت عوام کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ تو کی ہے لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ عوام کو بھی آپس میں لڑایا گیا ہے۔ جو حکومت کے حق میں تھے اُنہیں اسلحہ دیا گیا۔ گویا رعایا، رعایا سے لڑی اور اُس میں حکومت نے کردار ادا کیا۔ مسلمان ملک اگر جمہوری طرزِ حکومت اپنانے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر جب تک عوام کسی قسم کے پُرتشدد احتجاج کا اظہار نہیں کرتے، اُس وقت تک حکومت کو بھی برداشت کرنا چاہئے۔ لیکن خبروں کے مطابق تو ایسا ردّعمل احتجاج پر بھی حکومتوں کی طرف سے ظاہر ہوا ہے جس نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں۔ تو ایک طرف تو مغرب کی نقل میں جمہوریت کا نعرہ ہے اور دوسری طرف برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر مُستزاد یہ کہ مسلمان مسلمان پر ظلم کر رہا ہے۔ اگر جمہوریت کی نقل کرنی ہے توپھر برداشت بھی پیدا کرنی چاہئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ بھی انہوں نے نہیں کیا۔ کوئی اصلاح کی کوشش نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں مصر، تیونس یا لیبیا وغیرہ دوسرے ملکوں میں ہوا یا ہو رہا ہے۔ یا جو کچھ ایک لمبے عرصے سے شدت پسندوں کے ہاتھوں افغانستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ سب عالمِ اسلام کی بدنامی کا باعث ہے۔ یہ سب اُس بھائی چارے کی نفی ہو رہی ہے جس کا مسلمانوں کو حکم ہے کہ بھائی چارہ پیدا کرو۔ یہ سب اس لئے ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیا ہے‘‘۔ (ملفوظات روحانی خزائن جلد 3صفحہ 22مطبوعہ ربوہ)

پس اس وقت اسلام کی ساکھ قائم کرنے کے لئے، ملکوں میں امن پیدا کرنے کے لئے، عوام الناس اور اربابِ حکومت و اقتدار میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے جس کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ توجہ کی صرف ایک صورت ہے کہ توبہ اور استغفار کرتے ہوئے ہر فریق خدا تعالیٰ کے آگے جھکے۔ تقویٰ کے راستے کی تلاش کرے۔ یہ دیکھے کہ جب ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) یعنی خشکی اور تری میں فساد کی سی صورت حال پیدا ہو جائے تو کس چیز کی تلاش کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں بھی اُ س کا حل لکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اس فساد کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ہے اس زمانے میں آپؐ کے مسیح و مہدی کو قبول کر کے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانا۔ جب تک اس طرف توجہ نہیں کریں گے، دنیاوی لالچ بڑھتے جائیں گے۔ اصلاح کے لئے راستے بجائے روشن ہونے کے اندھیرے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اب اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تقویٰ کا حصول خدا تعالیٰ سے تعلق کے ذریعے سے ہی ملنا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے تعلق اُس اصول کے تحت ملے گا جس کی رہنمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی، اللہ تعالیٰ نے فرما دی۔

گزشتہ دنوں کسی نے مجھے ایک websiteسے ایک پرنٹ نکال کر بھیجا جو انگلش میں تھا، جس میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئی مسلمان تنظیم ہے، اُن کی طرف سے یہ توجہ دلائی گئی تھی کہ اس صورتِ حال کا جو آج اسلامی ملکوں میں پیدا ہو رہی ہے، مستقل حل کیا ہے؟

وہ لکھتا ہے، (مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔ مصر اور تیونس کی انہوں نے مثال لی ہے) کہتے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان مصر اور تیونس کے بھائی بہنوں کی اپنے ممالک کے ظالم حکمرانوں کے خلاف جدّوجہدِ آزادی دیکھ کر بہت خوش ہیں (یہ ترجمہ مَیں نے کیا ہے اُس کا)۔ ہم اِن واقعات پر چند خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ تو پہلی بات اُس نے یہ لکھی کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے اور ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ اس وقت اسلام کو ضرورت ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ مصر اور تیونس کے واقعات نے دنیا کو بتا دیا کہ بد عنوان حکمرانوں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

پھر آگے مغربی میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلام کے خلاف ایسی اصطلاحات استعمال کرتا ہے جس سے اسلام ایک خوفناک مذہب کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ لکھتا ہے کہ حالانکہ یہ لوگ نظامِ خلافت کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس سے قرآن و حدیث کے تحت نظامِ زندگی کا تصور دیا جاتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اسلامی طرزِ زندگی سے بددل کرنے کا یہ پروپیگنڈہ ہم گزشتہ دس سال سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ حملہ پردہ، قرآنِ مجید (یعنی بُرقعہ اور قرآنِ مجید) اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت کی عزت و حُرمت پر کیا جاتا ہے جو روز مرّہ کی زندگی سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اثر انداز ہوتا ہے۔

پھر کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں مقامِ خلافت یا اسلامی طرزِ حکومت چونکہ مرکزی کردار کا حامل ہے، اس لئے ہمارے دین کی جان ہے۔ اس سے اسلام میں اتحاد کی امید وابستہ ہے جو مصر، غزہ اور سوڈان جیسے ممالک میں اتحاد پیدا کر سکتی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ اسلامی طرزِ حکومت میں صرف خلافت ہی ہے جو حکمرانوں پر کڑی نظر رکھ سکتی ہے۔ جہاں وہ حکمران منتخب کئے جاتے ہیں جو ریاست کو جواب دِہ ہوتے ہیں۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کا نظام ہوتا ہے۔ جہاں عورت کو ماں، بیوی اور بہن کا مقامِ بلند دلایا جاتا ہے۔ جہاں کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ہوتی۔ جہاں بِلا امتیاز مذہب و ملّت امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہوتا ہے۔ جہاں ریاست عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرتی ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر اُمّت ایک بار پھر اسلام کی اخلاقی اور روحانی قدروں کا نور دنیا میں پھیلا سکتی ہے۔

پھر اُس نے مسلمانوں کو اس بات پر اُبھارنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نظام کے حق میں پروپیگنڈہ کریں اور اس کے برخلاف جو دنیاوی نظام ہے، اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ خلافت کے قیام کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر مسلم اُمّہ میں اور دنیا میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

تو یہ اُس کی باتوں کا خلاصہ ہے۔ مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے لئے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقینا نظامِ خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی طرف توجہ یقینا خلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جا سکتی ہے۔ یہ لکھنے والے نے بالکل صحیح لکھا ہے لیکن جو سوچ اس کے پیچھے ہے وہ غلط ہے۔ جو طریق انہوں نے بتایا ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہو جائیں اور نظامِ خلافت کا قیام کر دیں، یہ بالکل غلط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظامِ خلافت سے وابستگی سے ہی اب مسلم اُمّہ کی بقا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا اس تنظیم نے مسلمانوں کی حیثیت منوانے اور اُن کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بہت صحیح حل بتایا ہے لیکن اس کا حصول عوام اور انسانوں کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا۔ کیا خلافتِ راشدہ انسانی کوششوں سے قائم ہوئی تھی۔ باوجود انتہائی خوف اور بے بسی کے حالات کے

اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دل پر تصرف کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے کھڑا کر دیا تھا۔ پس خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے۔ مومنین کے لئے ایک انعام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کچھ عرصہ تک خلافتِ راشدہ کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور اس کے بعد ہر آنے والا اگلا دور ظلم کا دور ہی بیان فرمایا تھا۔ پھر ایک امید کی کرن دکھائی جو قرآنی پیشگوئی وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) میں نظر آتی ہے اور اس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے ظہور سے فرمائی جو غیر عرب اور فارسی الاصل ہو گا۔ جس کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور مُہر کے تحت غیر تشریعی نبوت کا مقام ہو گا۔ پس اگر مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کوشش کرنی ہے تو اِس رہنما اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کریں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر اُس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اُس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6صفحہ 285مسند النعمان بن بشیر حدیث 18596عالم الکتب بیروت 1998)

پس خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم نے جوش مارنا تھا نہ کہ حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کے پُر جوش احتجاج سے خلافت قائم ہونی تھی۔ کیا ہر ملک میں خلافت قائم کریں گے؟ اگر کریں گے تو کس ایک فرقے کے ہاتھ پر تمام مسلمان اکٹھے ہوں گے۔ نماز میں امامت تو ہر ایک فرقہ دوسرے کی قبول نہیں کرتا۔

پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ پہلے مسیح موعودؑ کو مانیں اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپؑ کی جاری خلافت کو مانیں۔ یہ وہ خلافت ہے جو شدت پسندوں کا جواب شدّت پسندی کے رویّے دکھا کر قائم نہیں ہوئی۔ مسلم اُمّہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہے۔ اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت سے ملے گی تو وہ نہ صرف مسلم اُمّہ کے لئے محبت پیار کی ضمانت ہو گی بلکہ کُل دنیا کے لئے امن کی ضمانت ہو گی۔ حکومتوں کو اُن کے انصاف اور ایمانداری کی طرف توجہ دلائے گی۔ عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی۔

پس جماعتِ احمدیہ تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اس تمام فساد کا جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے ایک ہی حل پیش کرتی ہے کہ خیرِ اُمّت بننے کے لئے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر، دنیا کے دل سے خوف دور کر کے اُس کے لئے امن، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاؤ۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جاؤ۔ اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب بھی جسے چاہے کلیم بنا سکتا ہے تا کہ خیرِ اُمّت کا مقام ہمیشہ اپنی شان دکھاتا رہے۔ یہ سب کچھ زمانے کے امام سے جُڑنے سے ہو گا۔ اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں کی حالت بھی سنورے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآنِ شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے …‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ103)

پھر فرمایا:

پھر فرمایا: ’’…مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جومَیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آبِ حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُس کے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بندنہیں کر سکتا۔ سو تم مقابلہ کے لئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتاہے لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 37)‘‘ (یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں ہے اُس کے پیچھے نہ چل۔ یقینا کان، آنکھ اور دل سب سے پوچھا جائے گا) فرمایا کہ’’بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسانہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ…‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ104۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

پھر فرماتے ہیں۔ ’’…اے مسلمانوں ! اگرتم سچے دل سے حضرتِ خدا وند تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرت الٰہی کے منتظر ہو تو یقینا سمجھو کہ نصرت کا وقت آگیا اور یہ کا روبارانسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بناڈالی بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا۔ قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا۔ سو شکر کرو اور خوشی سے اُچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا۔ خدائے تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی، کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو۔ وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ104,105۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)

پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جوش نے جس خلیفۃ اللہ کو بھیجا وہ تو ہمارے ایمان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے ثریا سے زمین پر ایمان لے آئے اور اسلام کے حقیقی نور کو ہم پر آشکار کر دیا۔ آپ کے بعد آپ کی خلافت کا سلسلہ بھی آپ کی پیشگوئی کے مطابق جاری ہو گیا۔ اور اس نظامِ خلافت کے متعلق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ہم نے حدیث پڑھی ہے، آپؑ نے یہ پیشگوئی بھی فرما دی ہے کہ ’’جب مَیں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ305)

اور یہ بات جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے۔ پس احمدی جہاں تک اس پیغام کو پہنچا سکتے ہیں ضرور پہنچائیں کہ اگر تمہیں اپنی بقا خلافت کی ڈھال میں نظر آ رہی ہے تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جاری ہے۔ اس کے لئے کسی پُرجوش احتجاج کی ضرورت نہیں، کسی قسم کی گولیاں چلانے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ انعام اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ہی جاری ہو سکتا ہے اور جاری ہوا ہے، نہ کہ عوامی کوششوں اور تحریکوں سے۔ پس آؤ اور اس الٰہی نظام کا حصہ بن کر مسلم اُمّہ کی مضبوطی کا باعث بن جاؤ۔ یہی طریق ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی طریق ہے جس سے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی اظہار ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمانوں کو اس بنیادی نقطہ کی سمجھ آ جائے اور اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلیں۔ بہر حال یہ تو وہ ایک طریق ہے جو انہوں نے خود کہا کہ اس کا حل یہی ہے اور روحانی طریقہ ہے جو مسلم اُمّہ کے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے۔ جس کی طرف ہمیں جب بھی موقع ملے احمدی توجہ دلاتے رہتے ہیں اور توجہ دلاتے رہیں گے کہ مسیح و مہدی کو مان کر اپنی بقا کے سامان پیدا کرو۔

لیکن بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا احمدی دُعا کی طرف بھی خاص طور پر متوجہ رہیں اور دنیاوی طور پر بھی سمجھاتے رہیں۔ یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہر مسلمان ملک کو ہوشمند، انصاف پسند اور خدا کا خوف رکھنے والی لیڈرشپ عطا فرمائے۔ ابھی تک تو جہاں بھی کسی قسم کی بے چینی ہے یا فی الحال بظاہر سکون ہے، جو بھی حکمران ہیں ہمیں اُن کے اپنے ہی مفادات نظر آتے ہیں اور جو حکمران بننے والے نظر آ رہے ہیں وہ بھی ویسے ہی نظر آ رہے ہیں جو اپنے مفادات رکھنے والے ہیں۔ چہرے بدل جاتے ہیں لیکن طور طریق وہی رہتے ہیں۔ اب جب بعض ملکوں کے عوام کا ردّعمل ظاہر ہوا ہے اور پانی سر سے اونچا ہورہا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہو گیا ہے تو جابر بادشاہ بھی عوام کے حقوق کا نعرہ لگانے لگ گئے ہیں۔ اگر پہلے ہی یہ خیال آ جاتا تو نہ املاک کو اتنا نقصان پہنچتا، نہ ہی جانوں کا اتنا نقصان ہوتا۔ اب لگتا ہے کہ ہر ملک ہی اس لحاظ سے غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ کونسی طاقتیں پیچھے کام کر رہی ہیں؟۔ یہ حقیقت میں مُلک میں امن لانے والی ہیں یا صرف کرسی پر قبضہ کرنے والی ہیں یا فساد پیدا کرنے والی ہیں؟ سعودی عرب بھی جہاں مضبوط بادشاہت قائم ہے اُنہوں نے بھی اِرد گرد کے ہمسایہ ملکوں کے عوام کا رویّہ دیکھ کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہم بھی اپنے عوام کو مزید سہولتیں دیں گے۔ بہر حال اس صورتِ حال میں بعض قوتیں اُبھر رہی ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوتیں نئے سازو سامان کے ساتھ میدان میں اُترنے کی منصوبہ بندیاں کر رہی ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو بڑی طاقتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تم نے اپنے سابقہ غلاموں کو دیکھ لیا ہے اب ہمیں بھی آزما لو۔ یا سابقہ حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے سامنے کچھ لوگ رکھ دئیے ہیں جو اس وعدے کے ساتھ آ رہے ہیں یا آئیں گے کہ حکومتی پالیسی وہی رہے گی اور تمہارے مفادات کی حفاظت بھی ہوتی رہے گی۔ چہرے بدلنے سے عوام خوش ہو جائیں گے یا کچھ دیر کے لئے اُن کی تسلی ہو جائے گی اور بے چینی ختم ہو جائے گی۔ لیکن اب جو سوچ لوگوں میں اُبھر رہی ہے اور اب جو احساس لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے، تجزیہ نگاروں کے جو تجزیے پیش ہو رہے ہیں، وہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں میں اتنا شعور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اس طریق کو اب زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ہو سکتا ہے بے چینی کا یہ سلسلہ لمبا چلتا چلا جائے۔

دوسری جو خطر ناک بات ہے وہ یہ کہ اِن حالات سے مذہبی شدت پسند گروپ جو ہے وہ بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے بلکہ کر رہے ہیں۔ ابتدا میں عین ممکن ہے کہ انتہائی معتدل رویہ دکھائیں یایہ اظہار کریں کہ ہم معتدل ہیں لیکن آہستہ آہستہ کُھل کھیلیں گے۔ جس سے مسلمانوں کے لئے دنیا میں مزید مشکلات کا دور شروع ہونے کا خطرہ ہے۔ ظاہر ہے بڑی طاقتیں اس کے مقابل پر جو ظاہری اور چُھپی چھپی ہوئی حکمتِ عملی وضع کریں گی وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو گی۔ بڑی طاقتیں یہ کبھی برداشت نہیں کریں گی کہ بعض مخصوص علاقوں میں اُن کے مفادات متاثر ہوں۔ بڑی طاقتوں کی آپس کی بھی خاموش یا سرد جنگ ہے جو آہستہ آہستہ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں بے چینی اور فساد مختلف قسم کے گروپوں کی پُشت پناہی سے پھیلتا چلا جائے گا۔ آج کل بھی تیسری دنیا کے بعض غریب ملک ہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ مسلمان ملک ہیں جن کے اندرونی فساد بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمان ممالک کا المیہ یہ ہے کہ عموماً جو رہنما ہیں وہ قومی اور ملکی مفادات کی حفاظت کا حق ادا نہیں کرتے۔ اَنا اور تکبر اور ذاتی مفادات کی وجہ سے غیر کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور پھر مُلّاں چونکہ تقویٰ سے عاری ہے اس لئے یہ مفاد پرست سیاستدانوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ملکی امن اور دنیا کے امن کے لئے بہت زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اور یہ صورتِ حال ایسی بھیانک بن رہی ہے جس کے لئے بہت فکر اور دعا کی ضرورت ہے۔ اقتدار پر قبضے کے لئے، وسائل پر قبضے کے لئے، علاقے کی اہمیت کے پیشِ نظر ہر قوت جو ہے وہ وہاں پاؤں جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلمان دنیا میں اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون ان چیزوں پر پہلے قبضہ کرتا ہے جس کی وجہ سے عوام پِس رہے ہیں۔ ملک چند قدم ترقی کر لیتا ہے تو پھر مفاد پرست قومیں یا قوتیں اُسے کئی قدم پیچھے لے جاتی ہیں۔ ایک زمانے میں عراق کے متعلق کہتے تھے کہ اس طرح ترقی کر رہا ہے کہ وہاں جا کر لگتا ہے جیسے یورپ کے کسی ترقی یافتہ مُلک میں آ گئے ہیں، لیکن پھر گزشتہ بیس سال کی بے چینی اور فساد اور جنگ نے اسے کھنڈر بنا دیا۔ اور پھر اگر دیکھیں تو عراق کے ان حالات کے ساتھ عرب دنیا میں خاص طور پر اور بعض افریقن ممالک میں جو عربوں کے ساتھ لگتے ہیں عموماً بدامنی اور بے چینی زیادہ ہو گئی ہے۔ بڑی طاقتیں وسائل اور علاقے کی اہمیت کے پیشِ نظر اپنے قدم جمانا چاہتی ہیں تو نام نہاد اسلامی تنظیمیں اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہیں۔ ملک کے عوام کو دونوں طرف سے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ اگر سیاستدان ایماندار ہوں، سربراہانِ مملکت اپنے عوام کی خیر خواہی نیک نیتی سے چاہتے ہوں، اُن کے حقوق کا تحفظ کریں تو نہ کبھی بے چینی پھیلے، نہ ہی شدت پسند تنظیموں کواُبھرنے کا موقع ملے، نہ بیرونی طاقتیں غلط رنگ میں اپنے مفاد حاصل کر سکیں۔ بہر حال مختصر یہ کہ جو کچھ ہو رہاہے، یہ جو ظلم ہر جگہ نظر آرہے ہیں دنیا کو تباہی کی طرف لے جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر حقیقی تقویٰ پیدا نہ ہوا، انصاف قائم نہ ہوا تو آج نہیں تو کل یہ تباہی اور جنگ دنیا کو لپیٹ میں لے لے گی۔ اور بعیدنہیں کہ اس کے ذمہ دار یا وجہ بعض مسلمان ممالک ہی بن جائیں۔ پس بہت فکر کا مقام ہے۔

اللہ تعالیٰ اسلامی دنیا کو انصاف پسند اور تقویٰ پر چلنے والے رہنما عطا فرمائے۔ جوقرآنی حکم تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) پر عمل کرنے والے ہوں۔ جو نیکی کے نام پر تعاون کرنے والے ہوں اور تعاون چاہنے والے ہوں۔ جب وہ عوام سے تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے نیکی کے نام پر تعاون چاہیں گے، جب وہ ہمسایوں سے نیکی کے نام پر تعلقات رکھیں گے، جب وہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے حقوق العباد ادا کر رہے ہوں گے تو امن بھی قائم ہو گا اور مُلک بھی ترقی کریں گے۔ بظاہر حالات ایسے ہیں کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کی صورت نظر نہیں آتی بلکہ ہر طرف ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) کا نظارہ ہی نظر آ رہا ہے۔ اِن حالات میں جیسا کہ مَیں نے کہا ہم دعائیں ہی کر سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک محدود طبقے تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ آج احمدی ہی اس دنیا کے امن کی ضمانت ہیں۔ آج دنیا دنیاوی داؤ پیچ کو سب کچھ سمجھتی ہے لیکن احمدی جو زندہ خدا کے نشانوں کو دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کی ذات پر انحصار کرتا ہے، خدا تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھتا ہے، خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لئے خدا کے آگے جھکنا ہی سب کچھ ہے۔

ایک بنگالی پروفیسر صاحب چند دن ہوئے مجھے ملنے آئے۔ کہنے لگے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر جماعت احمدیہ اکثریت میں ہوگی، ہوتی ہے یا ہو جائے تو دوسرے فرقوں یا مذہبوں پر زیادتی نہیں ہو گی اور لوگوں کے حقوق نہیں دبائے جائیں گے؟ تو مَیں نے اُن کو کہا کہ جو اکثریت دلوں کو جیت کر بنی ہو، جو جبر کے بجائے محبت کا پیغام لے کر چلنے والی ہو، وہ ظلم نہیں کرتی بلکہ محبتیں پھیلاتی ہے۔ اس کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہوتا ہے۔ اُس کے پیشِ نظر خدا تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔ وہ نیکیوں پر تعاون کرتی ہے اور تعاون لیتی ہے، اور پھر جو خلافتِ راشدہ کا نظام ہے یہ انصاف قائم کرنے کے لئے ہے، حقوق دلوانے کے لئے ہے، حقوق غصب کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اور جو حکومت خلافت کی بیعت میں ہو گی وہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو توجہ دے گی، حقوق غصب کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ بشری تقاضے کے تحت بعض غلط فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن اگر تقویٰ ہو تو اُن کی بھی اصلاح ہو جاتی ہے۔

بہر حال گو مولویوں کے کہنے میں آ کر یا دنیاوی خوف سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، احمدی جو حقیقی مسلمان ہیں اُن کے خلاف ہو کر اُن پر ظلم و تعدی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، اُن سے ظلم کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ تو اُن کا رویہ ہے وہ بے شک ظلم کریں لیکن احمدی اس وقت بے چین ہے، مجھ سے بعض لوگ خطوط میں بھی اظہار کرتے ہیں کہ عالمِ اسلام کی حالت دیکھ کر ہماری عجیب حالت ہو جاتی ہے۔ پس ہمارا کام ہر حالت میں مسلمانوں کی فکر کرنا ہے، اُن سے ہمدردی کے جذبات رکھنا ہے اور اُن کے لئے دعائیں کرنا ہے اور یہ ہم انشاء اللہ کرتے چلے جائیں گے۔

آخر میں مَیں پھرکہتا ہوں کہ ہمارے احمدی جو عرب ملکوں میں بھی رہتے ہیں یا اُن کا اسلامی حکومتوں کے سیاستدانوں اور لیڈروں سے بھی کوئی تعلق ہے یا رسوخ ہے تو اُن کو بتائیں کہ اگر تم نے ہوش نہ کی، انصاف اور تقویٰ کو قائم کرنے کے لئے بھر پور کوشش نہ کی، مُلّاں کے چُنگل سے اپنے آپ کو نہ نکالا، شدت پسند گروہوں پر کڑی نظر نہ رکھی تو کوئی بعیدنہیں کہ مُلّاں مذہب کے نام پر بعض ملکوں میں حکومت پر مکمل قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ اور پھر مذہب کے نام پر ایسے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے جو عوام کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔ مذہب کے نام پر ایک فرقہ دوسرے فرقے پر ظلم کرتا چلا جائے گا۔ اور اس فساد کی صورت میں پھر بڑی طاقتوں کو متعلقہ ملکوں میں اپنی مرضی سے دَرآنے کا پروانہ مل جائے گا۔ امن کے نام پر وہاں آ کر بیٹھ جانے کا اُن کو آپ لائسنس دے دیں گے، جس سے پھر فساد ہو گا، جانوں کو نقصان ہو گا، املاک کا نقصان ہو گا اور بالواسطہ یا بلا واسطہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا انتظام بھی ہو سکتا ہے بلکہ یقینی طور پر ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ایک وسیع جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، لے لے گی۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور مسلم اُمّہ کو اور ان کے رہنماؤں کو عقل دے، سمجھ دے کہ خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 25؍ فروری 2011ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور مسلمانوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ احمدی ان دنوں میں خاص طورپر عالَمِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے توجہ سے دعائیں کریں۔ مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے لئے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے نظام خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتاہے۔ نظام خلافت سے وابستگی سے ہی مسلم اُمّہ کی بقا ہے۔ لیکن یہ خلافت مسلمانوں کے پُرجوش احتجاج سے یا عوامی کوششوں اور تحریکوں سے قائم نہیں ہونی تھی۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو چکی ہے۔ آؤ اور اس الٰہی نظام کا حصّہ بن کر مسلم اُمّہ کی مضبوطی کا باعث بن جاؤ۔

    عالَمِ اسلام کے موجودہ پریشان کن اور دردناک حالات کا بصیرت افروز تجزیہ اور مسلمان حکمرانوں اور عوام کو تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اور ہر قسم کے ظلم وتعدّی سے باز رہتے ہوئے عقل و دانش کے ساتھ معاملات کو نپٹانے کی نہایت اہم نصائح۔

    فرمودہ مورخہ 25؍فروری 2011ء بمطابق 25 ؍تبلیغ 1390 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور