پیشگوئی مصلح موعود

خطبہ جمعہ 18؍ فروری 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

دو تین دن ہوئے مجھے ہمارے یہاں کے مشنری انچارج عطاء المجیب راشد صاحب نے لکھا کہ اس سال پیشگوئی مصلح موعود کے ایک سو پچیس سال پورے ہو رہے ہیں۔ مجھے اُن کے خط کی طرز سے یہ لگا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس موضوع پر ایک خطبہ دوں، گو کہ انہوں نے واضح طور پر تو نہیں لکھا تھا۔ اس موضوع پر ہر سال جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں۔ دو سال پہلے میں ایک خطبہ بھی دے چکا ہوں۔ گو کہ ایک خطبہ میں اس موضوع کا پوری طرح احاطہ نہیں ہو سکتا۔ پہلے تو مَیں اس طرف مائل نہیں تھا لیکن پھر طبیعت اس طرف مائل ہوئی کہ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے۔ اس لئے اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ اور پھر اس لئے بھی کہ گو جماعتی طور پر جہاں آزادی ہے وہاں تو جلسے بھی ہو جاتے ہیں۔ مختلف موضوع ہیں۔ پیشگوئی کے مختلف پہلو ہیں۔ اُن کو مختلف مقررین بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان میں تو ویسے ہی جلسوں پر پابندی ہے۔ اُن کے لئے بھی یہ موضوع ایسا ہے کہ نئی نسل کے لئے بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو بھی اس بارے میں علم ہونا چاہئے۔ نئے آنے والوں کو بھی علم ہونا چاہئے۔ پھر صرف نئے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ انسان کی طبیعت میں جو اتار چڑھاؤ رہتا ہے اُس کی وجہ سے بعید نہیں کہ بعض بڑی عمر کے لوگ بھی اتنا زیادہ اس موضوع کو نہ جانتے ہوں۔ اس پر غور نہ کیا ہو اور آج اُن کی طبیعت اس طرف مائل ہوئی ہو۔ بہر حال اس وجہ سے یہ موضوع چاہے کچھ حد تک ہی ہو، بیان کرنا ضروری ہے۔ باتوں کو بار بار دہرائے جانے سے نئے ہوں یا پرانے ہوں، اُن کے علم اور ایمان اور عرفان میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جماعت جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی سے نئے ملکوں میں، نئی جگہوں پر پھیل رہی ہے۔ وہاں جو مقررین ہیں یا جومعلمین مقرر ہیں، اُن کو ہر بات کااتنا علم نہیں ہوتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئیاں ہیں ان کا نہ صحیح طرح سے علم ہے ، نہ اتنی گہرائی میں جا کر بیان کر سکتے ہیں۔ تو اس پہلو سے بھی

مَیں نے اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا، گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک بیٹا عطا فرمائے گا جو مصلح موعود ہو گا اور اس کی تفصیل میں آپ نے اس کی بہت ساری خصوصیات بیان فرمائی تھیں۔ لیکن یہ پیشگوئی تو آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ بیان فرما کر چودہ سو سال پہلے بیان فرما دی تھی کہ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْض فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ کہ عیسیٰ ابن مریم جب زمین پر نزول فرما ہوں گے تو شادی کریں گے اور اُن کی اولاد ہو گی۔ (مشکاۃ المصابیح کتاب الرقاق باب نزول عیسیٰ الفصل الثالث حدیث نمبر 5508دارالکتب العلمیۃ ایڈیشن2003ء) (الوفاء باحوال المصطفیٰؐ لابن جوزی مترجم محمد اشرف سیالوی صفحہ 843ناشر فرید بک سٹال لاہور)

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، عیسیٰ ابن مریم کی وضاحت آنحضرت ﷺ نے دوسری احادیث میں فرمائی ہے کہ وہ کون ہیں؟ بخاری کی حدیث ہے۔مسلم نے بھی اور حدیثوں کی کتب نے بھی اس کو درج کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ، اور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ ۔کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری کیا حالت ہو گی جب ابن مریم مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہوگا۔ اور پھر یہ بھی روایت میں ہے کہ یہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض بھی سرانجام دے گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا۔ ۔ ۔ حدیث 392، 394)

پھر ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسیٰ ابن مریم کا زمانہ پائے گا اور وہی امام مہدی اور حَکم و عدل ہو گا جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا۔ یہ مسند احمد کی حدیث ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد نمبر3صفحہ نمبر479مسند أبی ھریرۃ حدیث نمبر9312عالم الکتب بیروت1998ء)

پس یہ پیشگوئی جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے گو تفصیل کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے عاشقِ صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اب دوبارہ کی لیکن اس کی بنیاد تو آج سے چودہ سو سال بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ پہلے سے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی پر ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں اور اللہ تعالیٰ کے آپ پر انعامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑائی کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ تو آپ کے آقا و مطاع، سید و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں۔ آپ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہیں۔ یہ تائیدی نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے یہ درحقیقت آنحضرت ﷺ کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں۔ اسلام کا زندہ خدا اور زندہ رسول ہونے کی دلیل کے طور پر یہ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے کروائی ہیں۔ پس احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھ کر دنیا میں آنحضرتؐ کا عاشق کوئی نہیں ہے۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔

’’اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر النّاس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اِسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقّانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔   (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ558, 557 حاشیہ درحاشیہ نمبر3)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی بات لے لیں۔ آپ کی زندگی کے کسی عمل کی طرف نظر کر لیں، آپ کی کسی تحریر کو لے لیں، ان سب کا رُخ اللہ تعالیٰ، قرآنِ مجید اور آنحضرت ﷺ کی طرف ہی نظر آئے گا۔ آپ علیہ السلام نے دنیا کو بتا دیا اور ببانگ دُہل یہ اعلان کیا کہ آج اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو وہ اسلام ہے۔ آج اگر کوئی زندہ رسول ہے جو خدا سے ملاتا ہے تو حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن کی پیروی سے خدا ملتا ہے۔ اور آج اگر کوئی کامل کتاب ہے جو تمام قسم کی تحریفوں اور آلائشوں سے پاک ہے اور اپنی اصل حالت میں ہے، جس کے پڑھنے سے حقّانی علوم و معارف حاصل ہوتے ہیں، جس کے پڑھنے سے انسان کا دل پاک ہوتا ہے۔ یعنی خالص ہو کر پڑھنے سے، ورنہ تو جو پاک نہیں ہے، خالص نہیں ہے اُس کو تو قرآن پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی فرمایا ہے۔ پس آپ علیہ السلام نے ہمیں اس سوچ سے پُر کیا۔ ہمارے دل و دماغ کو یہ عرفان عطا فرمایا کہ آج اگر کوئی زندہ نبی ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہے جنہوں نے ہمیں خدا سے ملایا۔ ایک براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی تا کہ دلوں کے اندھیرے دور ہوں اور بندے اور خدا میں ایک تعلق پیدا ہو۔ آپ کی کتاب ہی وہ زندہ کتاب ہے جس میں قیامت تک کے لئے وہ تمام احکام ،اوامر و نواہی اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے طریقے بیان ہو گئے ہیں جن سے باہر سوچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں، نہ انسان میں طاقت ہے کہ سوچ سکے۔

اس عظیم اور ہمیشہ زندہ رہنے والے نبی نے اپنی پیروی کرنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جس طرح آج سے چودہ سو سال سے زائد عرصہ پہلے سے جوڑا تھا، ویسا تعلق آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اُسی تروتازگی کے ساتھ جوڑا ہے۔ بلکہ جب  وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعۃ:4) کی قرآنی پیشگوئی کے پورا ہونے کا زمانہ آیا تو اس عشق و محبت کی وجہ سے جو غلام کو اپنے آقا سے تھا مسیح موعود کی بعثت ایمان کو ثریا سے زمین پر لانے کا باعث بن گئی۔ اور ایک نئی شان سے دینِ محمدیؐ دنیا میں دوبارہ مسیح موعود کے ذریعے سے قائم ہو گیا۔ آخرین جو ہیں وہ اوّلین سے جوڑ دئیے گئے۔ حدیث میں ایمان کو ثریا سے لانے کا یوں ذکر ملتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپؐ پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپؐ نے اُس کی آیت وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعۃ:4) پڑھی، جس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنے والے لوگ بھی اُن صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے۔ تو ایک آدمی نے پوچھا۔ یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ جو درجہ تو صحابہؓ  کا رکھتے ہیں لیکن ابھی اُن میں شامل نہیں ہوئے۔ حضور ﷺ نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اُس شخص نے تین دفعہ یہ سوال دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَاءِ کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی پہنچ گیا(یعنی زمین سے اُٹھ گیا) تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اُس کو واپس لائیں گے۔ رَجُلٌ اور رِجَالٌ دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃالجمعۃ باب قولہ و آخرین منھم۔ ۔ ۔ حدیث نمبر4897)

بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ تو بعد کا ہے لیکن اس سے پہلے بھی آپ اسلام کی خدمت پر کمر بستہ تھے۔ اور جب آپ کو الہامِ الٰہی کے تحت صدی کا مجدد ہونے کا علم ہوا تو آپ نے ایک اشتہار انگریزی اور اردو میں شائع فرمایا اور اعلان فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس صدی کا مجدد مقرر فرمایا ہے اور مَیں اس کام پر مامور کیا گیا ہوں کہ مَیں اسلام کی صداقت تمام دوسرے دینوں پر ثابت کروں اور دنیا کو دکھاؤں کہ زندہ مذہب، زندہ کتاب اور زندہ رسول اب اسلام اور قرآن اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے اندر روحانی طور پر مسیح ابن مریم کے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں۔ اور آپ نے تمام دنیا کے مذاہب کو دعوت دی اور چیلنج کیا کہ وہ آپ کے سامنے آ کر اسلام کی صداقت کا بیشک امتحان لے لیں۔ اور اب اسلام ہی ہے جو روحانی امراض سے شفا کا ذریعہ بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی اور دین۔

اس اعلان نے ہندوستان کے مختلف مذاہب میں ایک زلزلہ سا پیدا کر دیا مگر کسی میں جرأت نہیں ہوئی کہ آپ کے اعلان کے مطابق اسلام کی صداقت کا تجربہ کرے۔ بڑے بڑے پادری جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔جیسے عماد الدین وغیرہ ، انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ کسی قسم کے مقابلے کی یا نشان مانگنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک پادری سوِفٹ(Swift) اور لیکھرام وغیرہ جنہوں نے گو بظاہر آمادگی ظاہر کی لیکن بعد کے واقعات نے ان کی آمادگی کو بھی واضح کر دیا کہ یہ صرف دکھاوا تھا۔ اس سب کی تفصیل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب میں موجود ہے۔ تاریخِ احمدیت میں موجود ہے۔ اس وقت بیان تو نہیں ہو سکتی۔ بہر حال اس دعوت نے جو اسلام کی صداقت کے لئے آپ نے دی تھی اور جو اشتہار آپ نے شائع فرمایا تھا، اس کا ازالہ اوہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی یوں ذکر فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :

’’یہ عاجز اسی قوتِ ایمانی کے جوش سے عام طور پر دعوتِ اسلام کے لئے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوتِ اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کئے۔ یہاں تک کہ ایک خط اور ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیا اور وزیراعظم تخت انگلستان گلیڈ سٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیاگیا۔ ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہار ات وخطوط روانہ کئے گئے جن سے ایک صندوق پُر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجُز قوتِ ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات خود ستائی کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت نمائی کے طور پر ہے تاحق کے طالبوں پر کوئی بات مشتبہ نہ رہے‘‘۔ (ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 156۔حاشیہ)

بہرحال اسلام کی تمام ادیان پر برتری کا کام تو آپ کرتے چلے گئے۔ اور خاص طور پر عیسائیت کے اُمڈتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے اس کے آگے ایک بند باندھ دیا۔ اس دوران آپ کے دل میں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کے لئے خاص طور پر چِلّہ کاٹنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ تو اس کے لئے آپ نے قادیان سے باہر جا کر چلّہ کاٹنے کا ارادہ کیا۔ تو اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا کہ آپ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہو گی۔

چنانچہ آپ نے 22جنوری1886ء کو ہوشیار پور کا سفر اختیار کیا اور چلّہ کشی کی جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی اور بہت سی بشارات آپ کو دیں۔ چنانچہ جب چلّہ ختم ہوا ٭[1] تو حضور علیہ السلام نے اپنے قلم سے 20فروری1886ء کو ایک اشتہار ’’رسالہ سراجِ منیر برنشانہائے ربّ قدیر‘‘کے نام سے تحریر فرمایا، جو اخبار ریاضِ ہند امرتسر یکم مارچ 1886ء میں بطورِ ضمیمہ شائع ہوا۔ اس میں آپ نے لکھا کہ:

’’ان ہر سہ قسم کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالے میں بہ بسط تمام درج ہوں گی‘‘ (یعنی تفصیل سے بعد میں رسالہ میں درج ہوں گی)  ’’پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے۔ آج 20 فروری1886ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاوّل ہے برعایت ایجاز و اختصارِ کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے‘‘ ( کہ مختصر طور پر میں نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں) ’’اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ ‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزّوجلّ خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے( جلّشانہٗ و عزّاسمہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو(جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اورتاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ( ﷺ) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘۔ آپؑ نے لکھا کہ ’’( اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند، گرامی ارجمند، مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِر، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاء کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء ۔جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ۔ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیًّا۔‘‘ (اشتہار 20فروری 1886ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ95 ،96مطبوعہ ربوہ)

فرماتے ہیں:’’پھر خدائے کریم جَلَّ شانُہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جَدِّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی‘‘ (یا دوسری جو شاخ تھی) ’’اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا۔ اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبزرہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے، عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا۔ پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پرتا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیائے بنی اسرائیل (یعنی ظلّی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) ۔تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تُو مجھ سے اور مَیں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہواوراگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔‘‘ (اشتہار 20فروری 1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 96-97 مطبوعہ ربوہ)

آپؑ نے ضمیمہ اخبار ریاضِ ہند میں یہ اشتہار دیا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس چلّہ کشی کے نتیجہ میں آپ کو جو بشارتیں دی گئی تھیں یہ اُن کا کچھ ذکر ہے۔ اور اس میں ایک بیٹے کی بشارت بھی دی گئی جس کی مختلف خصوصیات ہیں، جس کا تفصیلی جائزہ لیں تو یہ باون خصوصیات بنتی ہیں۔بلکہ ایک جگہ حضرت مصلح موعود ؓنے اٹھاون بھی بیان فرمائی ہیں۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح آئے گا تو اُس کی اولاد ہو گی جیسا کہ میں نے ابھی پڑھ کے سنایا۔ اب اولاد تو اکثر لوگوں کی ہوتی ہے۔اس میں کیا خاص بات ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اگر پیشگوئی فرمائی تھی تو یقینا کسی اہم بات کی اور وہ یہی بات تھی کہ اُس کی اولاد ہو گی اور وہ ایسی خصوصیات کی حامل ہو گی جو دین کے پھیلانے کا باعث بنے گی، جو توحید کے پھیلانے کا باعث بنے گی، جو آنحضرت ﷺ کے مقام کو دنیا پر ظاہر کرنے کا باعث بنے گی۔

اب اس پیشگوئی کے مطابق جس سال میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ پیدا ہوئے ہیں یعنی 1889ء میں، اسی سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت بھی لی۔ اُسی سال اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ بیعت بھی لے لو۔ اور یوں اس سال میں باقاعدہ طور پر اُس جماعت کی بنیاد ڈالی گئی جس نے اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرنا تھا، اپنی حالتوں کو بھی سنوارنا تھا اور مسیح و مہدی کی بیعت میں آ کر آنحضرتؐ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والا بننا تھا اورآپ کے جماعت قائم کرنے کا یہی مقصد تھا۔

بہر حال اب میں دوبارہ اُن نشانوں کی طرف آتا ہوں جو مصلح موعود کے نشان کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ یا وہ خصوصیات یا علامات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اس موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں ۔ وہ بیٹا جس کے ذریعے دنیا میں دین کی تبلیغ ہو گی اور دنیا میں اصلاح کا کام ہو گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس سال خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا ہے، اُسی سال کے جلسہ سالانہ میں تقریر فرماتے ہوئے یہ باون علامات بیان فرمائی تھیں جن کامَیں مختصر آپ کے الفاظ میں ہی ذکر کر دیتا  ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’چنانچہ اگر اس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی یہ یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہوگا۔ دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہوگا۔ تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہوگا۔ چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہوگا۔ پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہو گا۔ چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ شکوہ ہوگا۔ ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ عظمت ہوگا۔ آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ صاحبِ دولت ہوگا۔ نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہو گا۔ دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ اللہ ہوگا۔ بارہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہوگا۔ تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہوگا۔ چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہوگا۔ پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا۔ سولہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔ سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علومِ باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ اٹھارویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ انیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دوشنبہ کا اس کے ساتھ خاص تعلق ہوگا۔ بیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزندِ دلبند ہوگا۔ اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہوگا۔ بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الاول ہوگا۔ تیئسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ مَظْہَرُ الْآخِر ہوگا۔ چوبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مَظْہَرُ الْحَق ہوگا۔ پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مَظْہَرُ الْعَلَاء ہو گا۔ چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآء کا مصداق ہوگا۔ ستائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول بہت مبارک ہو گا۔اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کا نزول جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ انتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہو گا۔اور تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضا مندی کے عطر سے ممسوح ہو گا۔ اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اس میں اپنی روح ڈالے گا۔ بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ اڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہو گا۔ انتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دور سے آنے والا ہوگا۔ چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخرِ رسل ہو گا۔ اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسف کی طرح اس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے۔ چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر الدولہ ہوگا۔ پینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہوگا۔ چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالمِ کباب ہوگا۔ سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا۔ اڑتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ العزیز ہوگا۔ انچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے وہ کلمۃ اللہ خان ہوگا۔ پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہو گا۔ اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہوگا اور باونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیرِ ثانی ہوگا۔‘‘ ( الموعود۔ انوار العلوم جلد نمبر17صفحہ نمبر562 تا565مطبوعہ ربوہ)

تو یہ علامتیں ہیں جن میں سے ہر ایک علامت جو ہے وہ ایک علیحدہ تقریر کاموضوع بن سکتا ہے، جس کا اس وقت وقت نہیں۔ بہر حال یہ علامتیں تھیں۔ اگر ہم حضرت مصلح موعود کی زندگی کا جائزہ لیں اور اُس کا مطالعہ کریں، آپ کے باون سالہ دورِ خلافت کو دیکھیں تو ہر علامت جو ہے آپ میں نظر آتی ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا جیسا کہ میں نے کہا وقت نہیں ہے۔ بعض باتوں کا تذکرہ میں آگے کروں گا اور یہ تفصیل جو ہے جماعتی لٹریچر میں موجود بھی ہے۔

یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگوئی شائع فرمائی تو اُس وقت پنڈت لیکھرام نے نہایت گھٹیا زبان استعمال کرتے ہوئے ہر پیشگوئی کے مقابلے پر اپنی دریدہ دہنی اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا۔ پنڈت لیکھرام کی اخلاقی حالت اور پیشگوئی پر اس کی جو غیظ و غضب کی حالت تھی اُس کے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔ اس کوسارا بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ ایک دو مثالیں دے دیتا ہوں۔

پنڈت لیکھرام نے 18مارچ 1886ء کو نہایت گستاخانہ لب و لہجے میں ایک مفتریانہ اشتہار شائع کیا جس میں حرف بحرف خدا تعالیٰ کے حکم سے لکھنے کا ادّعا کر کے جواب دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا نا کہ مَیں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا تو وہ لکھتا ہے کہ ’’آپ کی ذرّیت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی‘‘ ( زیادہ سے زیادہ تین سال تک شہرت رہے گی)۔ ’’نیز کہا کہ اگر کوئی لڑکا پیدا بھی ہوا تو وہ آپ کی پیشگوئی میں بیان شدہ صفات سے برعکس رحمت کا نشان نہیں، زحمت کا نشان ثابت ہو گا۔ وہ مصلح موعود نہیں ہو گامفسد موعود ہو گا۔ ‘‘ (نعوذ باللہ)

چنانچہ اس بد زبان نے پسرِ موعود سے متعلق پیشگوئی کی ایک ایک صفت کو اپنے تجویز کردہ الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر پوری بے حجابی سے لکھا (اور یہاں تک لکھ دیا کہ) ’’خدا کہتا ہے کہ جھوٹوں کا جھوٹا ہے۔ مَیں نے کبھی اس کی دعا نہیں سنی اور نہ قبول کی‘‘۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ 280مطبوعہ ربوہ) اور پھر جب اس کا انجام ہوا وہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے۔

اس قسم کی دریدہ دہنی اور مفتریانہ باتوں سے اس کا اشتہار بھرا پڑا ہے۔ یہ تو ہندو تھا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چیلنج دیا تھا۔ اسی طرح کچھ عیسائی پادریوں نے بھی جو اسلام کے مخالف تھے ، اس قسم کی باتیں کیں۔ لیکن بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا۔ ان لوگوں کی باتوں کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع فرمایا۔ اُس میں آپ نے اس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی عظمت کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے۔ اور درحقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ّہے کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جنابِ الٰہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے……… اس جگہ بفضلہٖ تعالیٰ و احسانہٖ و ببرکتِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیاءِ موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔مُردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت ﷺ کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ‘‘۔ (اشتہار واجب الاظہار 22 مارچ 1886ء مجموعہ اشتہارات ۔جلد اول صفحہ 99 تا 100مطبوعہ ربوہ۔ صفحہ114- 115مطبوعہ لندن)

بہر حال یہ پُر شوکت پیشگوئی تھی جس نے حضرت مصلح موعود کی خلافت کے باون سالہ دور میں ثابت کر دیا کہ کس طرح وہ شخص جلد جلد بڑھا؟ کس طرح اُس نے دنیا میں اسلام کے کام کو تیزی سے پھیلایا؟ مشن قائم کئے، مساجد بنائیں۔ آپ کے وقت میں باوجود اس کے کہ وسائل بہت کم تھے، مالی کشائش جماعت کو نہیں تھی، دنیا کے چونتیس پینتیس ممالک میں جماعت کا قیام ہو چکا تھا۔ کئی زبانوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا تھا` مشن کھولے جا چکے تھے۔ اسی طرح جماعتی نظام کا یہ ڈھانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی بنایا تھا جو آج تک چل رہا ہے اور اس سے بہتر کوئی ڈھانچہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح ذیلی تنظیمیں ہیں اُس وقت کی بنائی ہوئی ہیں وہ بھی آج تک چل رہی ہیں۔ ہر کام آپ کی ذہانت اور فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآنِ کریم کی تفسیر ہے اور دوسرے علمی کارنامے ہیں جو آپ کے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا ثبوت ہیں۔

یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اپنے اس بیٹے کو جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد تھا، مصلح موعود ہی سمجھا۔ چنانچہ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہوا ہے ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ بار بار سُنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں۔ اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ مَیں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں‘‘۔   (الحکم جوبلی نمبر28دسمبر 1939ء جلد 42شمارہ 31تا40صفحہ 80کالم نمبر3)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو اس وقت تک اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا جب تک خدا تعالیٰ نے آپ کوبتا نہیں دیا۔ یہ ایک لمبی رؤیا ہے جس کے بارہ میں آپ نے فرمایا کہ اس میں کشف اور الہام کا بھی حصہ ہے( جو آپ نے دیکھی تھی) اُس کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ: ’’مَیں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔‘‘  (دعویٰ مصلح  موعود کے متعلق پر شوکت اعلان ۔انوار العلوم جلد 17صفحہ 161مطبوعہ ربوہ)

اور آپ نے یہ رؤیا دیکھ کے 1944ء میں بیان کیا۔

اب میں بعض غیر از جماعت احباب جو ہیں اُن کی آپ کے بارے میں کچھ شہادتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

’’ایک معزز غیر احمدی عالم مولوی سمیع اللہ خان صاحب فاروقی نے قیامِ پاکستان سے قبل ’’اظہارِ حق‘‘ کے عنوان سے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ آپ کو (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو۔ناقل)اطلاع ملتی ہے کہ ’’مَیں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذرّیت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا۔ اور اس کے ذریعے سے حق ترقی کرے گا۔ اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے۔‘‘ اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو (وہ آگے لکھتے ہیں) کہ اس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی؟ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اُس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچے ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے(یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے ) انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیت بھی نہ کی گئی تھی۔ بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ چنانچہ اُس وقت اکثریت نے حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر لیا جس پر مخالفین نے محولہ صدرپیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا۔ لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے‘‘۔ (یہ غیر از جماعت لکھ رہے ہیں) ۔

پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’خود مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود ؑ)کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔خلیفہ نور الدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریباً دنیا کے ہر خطے تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد 1931ء کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ الغرض آپ کی ذریت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی من و عن پوری ہوئی‘‘( یہ انہوں نے بیان دیا)۔  (’’اظہار الحق‘‘ صفحہ 16،17مطبوعہ نذیر پرنٹنگ پریس امرتسر باہتمام سید مسلم حسن صاحب زیدی۔بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 286 ، 287مطبوعہ ربوہ)

پھر ہندوستان کے غیر مسلم سکھ صحافی ارجن سنگھ ایڈیٹر ’’رنگین‘‘ امرتسر نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب نے 1901ء میں جبکہ میرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب موجودہ خلیفہ ابھی بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی۔ (اُس نے شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لکھے ہیں ) کہ

بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا

جو ہو گا ایک دن محبوب میرا

کروں گا دُور اس مَہ سے اندھیرا

دکھاؤں گا کہ اک عالَم کو پھیرا

بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی

فَسُبحٰنَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(یہ شعر) لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’یہ پیشگوئی بیشک حیرت پیدا کرنے والی ہے۔ 1901ء میں نہ میرزا بشیرالدین محمود کوئی بڑے عالم و فاضل تھے اور نہ آپ کی سیاسی قابلیت کے جوہر کھلے تھے۔ اُس وقت یہ کہنا کہ تیرا ایک بیٹا ایسا اور ایسا ہو گا، ضرور کسی روحانی قوت کی دلیل ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ میرزا صاحب نے ایک دعویٰ کر کے گدی کی بنیاد رکھ دی تھی اس لئے آپ کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کا سہرا میرے لڑکے کے سر پر رہے گا، لیکن یہ خیال باطل ہے۔ اس لئے کہ میرزا صاحب نے خلافت کی یہ شرط نہیں رکھی کہ وہ ضرور مرزا صاحب کے خاندان سے اور آپ کی اولاد سے ہی ہو۔ چنانچہ خلیفہ اوّل ایک ایسے صاحب ہوئے جن کا میرزا صاحب کے خاندان سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ پھر بہت ممکن تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اول کے بعد بھی کوئی اور صاحب خلیفہ ہو جاتے‘‘۔

پھر یہ لکھتے ہیں کہ ’’چنانچہ اس موقعہ پر بھی مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور خلافت کے لئے امیدوار تھے لیکن اکثریت نے میرزا بشیر الدین صاحب کا ساتھ دیا اور اس طرح آپ خلیفہ مقرر ہو گئے‘‘۔
لکھتے ہیں ’’اب سوال یہ ہے کہ اگر بڑے میرزا صاحب کے اندر کوئی روحانی قوت کام نہ کر رہی تھی تو پھر آخر آپ یہ کس طرح جان گئے کہ میرا ایک بیٹا ایسا ہو گا ۔جس وقت مرزا صاحب نے مندرجہ بالا اعلان کیا ہے، اُس وقت آپ کے تین بیٹے تھے۔ آپ تینوں کے لئے دعائیں بھی کرتے تھے لیکن پیشگوئی صرف ایک کے متعلق ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک فی الواقع ایسا ثابت ہوا ہے کہ اُس نے ایک عالم میں تغیر پیدا کر دیا ہے‘‘۔ (رسالہ ’’خلیفہ قادیان‘‘  طبع ا ول صفحہ 8-7۔ از ارجن سنگھ ایڈیٹر ’’رنگین‘‘ امرتسر۔بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ288-287 مطبوعہ ربوہ)

پسرِ موعود سے متعلق وعدہ الٰہی تھا کہ ’’وہ اولوالعزم ہو گا‘‘ اور یہ کہ ’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔ چنانچہ ہندوستان کے نامور صحافی خواجہ حسن نظامی دہلوی (1878-1955) اپنی قلمی تصویر کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

’’اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں اُن کی عملی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں۔ انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جواں مردی کو ثابت کر دیا۔ اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے۔ سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں، یعنی دماغی اور قلمی جنگ کے ماہر ہیں‘‘۔ (اخبار ’’عادل‘‘ دہلی۔ 24ا پریل 1933ء بحوالہ خالد نومبر 1955 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ا ول صفحہ 288 مطبوعہ ربوہ)

پھر پسرِ موعود کے متعلق ایک اہم خبر یہ دی گئی تھی کہ ’’وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا‘‘۔ یہ پیشگوئی جس حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی اُس نے انسانی عقل کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تحریکِ آزادی کشمیر اس پر شاہدِ ناطق ہے کیونکہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کا سہرا آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سر ہے۔ یہ مشہور کمیٹی حضور کی تحریک اور ہندو پاکستان کے بڑے بڑے مسلم زعماء مثلاً سر ذوالفقار علی خان ، علامہ سرڈاکٹر محمد اقبال، خواجہ حسن نظامی دہلوی، سید حبیب مدیر اخبار سیاست وغیرہ کے مشوروں سے 25جولائی1931ء کو شملہ میں قائم ہوئی۔ اور اس کی صدارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ  کو سونپی گئی تھی اور آپ کی کامیاب قیادت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانانِ کشمیر جو مدتوں سے انسانیت کے ادنیٰ حقوق سے بھی محروم ہو کر غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے، ایک نہایت قلیل عرصے میں آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے۔ اُن کے سیاسی اور معاشی حقوق تسلیم کئے گئے۔ ریاست میں پہلی دفعہ اسمبلی قائم ہوئی اور تقریر و تحریر کی آزادی کے ساتھ انہیں اس میں مناسب نمائندگی ملی، جس پر مسلم پریس نے حضرت مصلح موعود کے شاندار کارناموں کا اقرار کرتے اور آپ کو خراجِ تحسین ادا کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ:

’’جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اور اُس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا، انہوں نے کام کی کامیابی کو زیرِ نگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اُس وقت اگر اختلاف عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور اُمّتِ مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا‘‘۔ (سر گزشت صفحہ 293از عبدالمجیدسالک ۔اخبار ’’سیاست‘‘ 18مئی1933ء۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ)

عبدالمجید سالک صاحب تحریکِ آزادی کشمیر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’شیخ محمد عبداللہ( شیرِ کشمیر) اور دوسرے کارکنانِ کشمیر مرزا محموداحمد صاحب اور اُن کے بعض کارپردازوں کے ساتھ…… اعلانیہ روابط رکھتے تھے۔ اور ان روابط …… کی بنا محض یہ تھی کہ مرزا صاحب کثیر الوسائل ہونے کی وجہ سے تحریکِ کشمیر کی امداد کئی پہلوؤں سے کر رہے تھے اور کارکنانِ کشمیر طبعاً اُن کے ممنون تھے‘‘۔ (’’ذکر اقبال‘‘ از عبدالمجید سالک صفحہ 188۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 289 مطبوعہ ربوہ)

علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی مشہور تفسیرِ کبیر کا جب مطالعہ کیا تو آپ کی خدمت میں خط لکھا کہ:

’’ تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور مَیں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ ا س میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک نیا  زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حُسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحرِ علمی، آپ کی وسعتِ نظر،آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسنِ استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش کہ مَیں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط علیہ السلام پر آپ کے خیالات معلوم کر کے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہو گیا آپ نے هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِيْ کی تفسیر کرتے ہوئے عام مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے، اُس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے‘‘۔ (یہ 1963ء میں لکھا ہے)  (الفضل 17نومبر 1963ء۔ صفحہ 3۔ بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون ، جولائی 2008ء صفحہ325-324 )

مولانا عبدالماجد دریا آبادی جو خود بھی مفسرِ قرآن تھے اور ‘‘صدقِ جدید‘‘ کے مدیر تھے۔ حضور کی وفات پر انہوں نے لکھا کہ:

’’ قرآن اور علومِ قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی، اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں، اُن کا اللہ انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح و تبیین اور ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے‘‘۔ (بحوالہ سوانح فضل عمر جلد سوئم صفحہ 168بحوالہ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر جون ، جولائی 2008ء صفحہ325)

پس یہ مَیں نے پیشگوئی کے پس منظر کا، پیشگوئی کا اور اس کا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بارے میں پورا ہونے کا مختصر بیان کیا ہے۔

آپ کے علمی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا کو نیا انداز دینے والے ہیں جس کا دنیا نے اقرار کیا، جس کے چند نمونے میں نے پیش کئے ہیں۔معاشی، اقتصادی، سیاسی، دینی، روحانی سب پہلؤوں پر آپ نے جب بھی قلم اٹھایاہے یا تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، یا مشوروں سے امتِ مسلمہ یا دنیا کی رہنمائی فرمائی تو کوئی بھی آپ کے تبحرِ علمی اور فراست اور ذہانت اور روحانیت سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ مصلح موعودؓ تھے، دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا، جس میں روحانی، اخلاقی اور ہر طرح کی اصلاح شامل تھی۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کا باون سالہ دورِ خلافت تھا اور آپ نے خطباتِ جمعہ کے علاوہ بے شمار کتب بھی تحریر فرمائی ہیں۔تقاریر بھی فرمائیں، جن کو جب تحریر میں لایا گیایا لایا جا رہا ہے تو ایک عظیم علمی اور روحانی خزانہ بن گیا ہے اور بن رہا ہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن جو آپ کی وفات کے بعد قائم کی گئی تھی ، خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے قائم فرمائی تھی۔وہ آپ کاسب مواد جو ہے کتب کی صورت میں شائع کر رہی ہے اور آج تک اس پر کام ہو رہا ہے۔ اب تک خطبات کے علاوہ اکیس جلدیں آچکی ہیں جو انوار العلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ اوریہ ہر جلد جو ہے کم از کم چھ سو ،سات سوصفحات پر مشتمل ہے۔

فضلِ عمر فاؤنڈیشن کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مَیں کہتا ہوں کہ اپنے کام میں تیزی پیدا کریں۔ان کو اشاعت کے اس کام کو جو وہ اردو میں اکٹھا جمع کر رہے ہیں ، جلد از جلد ختم کرنا چاہئےٗ پھر اس کا ترجمہ بھی مختلف زبانوں میں شائع کرنا ہے۔

حضرت مصلح موعود نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام زبانوں کو چند زبانوں میں جمع کر کے ہمارے لئے کام آسان کر دیا ہے۔ بے شمار زبانیں ہیں لیکن چند مشہور زبانوں نے تقریباً دنیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ آپ کی مراد تھی کہ اردو عربی کے علاوہ انگلش، جرمن اور فرنچ زبانیں جو ہیں وہ مختلف علاقوں میں تقریباً دنیا میں اکثربولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ تو اگر ان میں ترجمہ ہو جائے تو نوّے فیصد آبادی تک ہمارا پیغام پہنچ سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی بعض کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی بہت سی کتب ایسی ہیں جن کا دنیا کی علمی، روحانی پیاس بجھانے کے لئے دنیا تک پہنچنا ضروری ہے۔ ابھی تک تو یہ ترجمہ جو ہے وہ دوسرے ادارے کر رہے ہیں، فضلِ عمر فاؤنڈیشن نہیں کر رہی۔ لیکن اصل کام تو یہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا ہے۔ اگر پہلے نہیں بھی تھا تومَیں اب ان کو اس طرف توجہ کرواتا ہوں ۔ کیونکہ جماعت کے دوسرے ادارے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف پہلے توجہ کریں گے اور کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ جس حد تک ممکن ہوتا ہے حضرت مصلح موعود کی کتب بھی ترجمہ ہو رہی ہی ںاور جماعتی لٹریچر بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔ بہر حال فضلِ عمر فاؤنڈیشن کو بھی اپنے کام میں وسعت پیدا کرنی چاہئے۔ حضرت مصلح موعود کی ان کتابوں کے ترجمے نہ ہونے کی وجہ سے، بعض لوگوں نے سرقہ بھی کر لیا۔ آپ کی کتب لے کے نقل کر لیں۔ اپنے نام سے ترجمہ کر کے شائع کر دیں۔ چنانچہ ابھی مجھے عربی ڈیسک کے ہمارے ایک مربی صاحب نے بتایا کہ منہاج الطالبین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ایسی کتاب ہے جو اخلاقیات اور تربیت پر ایک معرکۃ الآراء کتاب ہے، اس سے مواد لے کر ایک صاحب نے اس کو عربی میں اپنی کاوش کے نام سے شائع کر دیا جن کو اردو بھی آتی تھی۔ جبکہ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’مَیں نے اس مضمون پر غور کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جدید مضمون میری سمجھ میں آیا ہے جس نے اخلاق کے مسئلے کی کایا پلٹ دی ہے‘‘۔ (منہاج الطالبین انوار العلوم جلد 9صفحہ 179مطبوعہ ربوہ)

پس آپ کے کام کو دیکھ کرحضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اَور روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہااصل میں تو یہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اصلاح کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں۔

پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

جمعہ کے بعد مَیں ایک حاضر جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ قانتہ آرچرڈ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا بشیر احمد صاحب آرچرڈ مرحوم کا ہے جو 16فروری 2011ء کو اکاسی سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوتی، حضرت خلیفہ علیم الدین صاحب کی بیٹی اور حضرت امّ ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بھتیجی تھیں جو حضرت امّ ناصر خلیفۃ المسیح الثانی کی پہلی حرم تھیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، بہت سادہ مزاج اور صابر شاکر خاتون تھیں ۔یہ غریب پرور تھیں۔ مہمان نواز تھیں۔خلافت سے انتہا محبت رکھنے والی تھیں۔ مخلص خاتون تھیں۔ تعلق باللہ اور توکل الی اللہ آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ آپ نے اپنے واقفِ زندگی شوہر کے شانہ بشانہ بھر پور خدمت کی توفیق پائی۔ ٹرینیڈاڈ اور گیانا میں لجنہ کی سرگرم رُکن اور لجنہ اماء اللہ سکاٹ لینڈ کی دس سال سے زائد صدر لجنہ رہیں۔ لجنہ اور ناصرات کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ چار بچے تو مَیں جانتا ہوں جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں۔ اور کافی حد تک جماعتی خدمت کرنے والے ہیں۔

بشیر آرچرڈ صاحب نے انڈیا میں ملٹری ڈیوٹی کے دوران اسلام قبول کیا تھا اور پھر 1945ء میں قادیان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور جماعت میں شامل ہوئے۔ 1946ء میں زندگی وقف کر کے پہلے انگریز مبلغ بننے کا شرف حاصل کیا تھا۔ ان کی اہلیہ کا انتخاب بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بذاتِ خود فرمایا تھا۔ ویسٹ انڈیز اور سکاٹ لینڈ ،آکسفورڈ میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں۔ جب آپ احمدی ہوئے ہیں تو اس وقت حضرت مصلح موعود نے فرمایا تھا کہ پہلے تو میرا خیال نہیں تھا کہ انگریزوں میں اسلام کی طرف رجحان ہو گا لیکن ان کو دیکھ کر مجھے خیال پیدا ہوا ہے اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ انگریزوں میں بھی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور وہ اسلام قبول کریں گے، انشاء اللہ۔ بہر حال اپنے میاں کے ساتھ انہوں نے بڑی وفا کے ساتھ ہر جگہ جماعتی خدمات ادا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں بلند مقام عطا فرمائے۔ ان کے سب بچوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا :

یہ جنازہ کیونکہ حاضر ہے اس لئے نماز کے بعد مَیں جنازہ پڑھانے کے لئے باہر جاؤں گا۔ احباب یہیں صفحوں میں کھڑے رہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 11 مارچ تا17 مارچ 2011 ء جلد 18 شمارہ 10 صفحہ 5تا9)

٭[1] ۔ اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ کے بعد حسب ذیل وضاحت فرمائی جو آپ کی ہدایت پر یہاں درج کی جارہی ہے آپ نے فرمایا کہ :

’’گویا چالیس دن پورے نہیں اغلباً اس دوران یہ اشتہار دیا ہے بہرحال یہ حوالہ تاریخ احمدیت کے مطابق دیا گیا ہے۔‘‘


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ فروری 2011ء شہ سرخیاں

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18فروری 2011ء بمطابق 18 تبلیغ 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور