خلافت اور مجددیت

خطبہ جمعہ 10؍ جون 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

27مئی کے خطبے میں مَیں نے قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے جماعت میں خلافت کے جاری نظام کی بات کی تھی۔ اس سلسلے میں اُس وقت میں مجددین کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چونکہ مضمون تھوڑی سی تفصیل چاہتا تھا اس لئے بھی اور کچھ مَیں مزید حوالے دیکھنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے اُس دن بیان نہیں کیا، اِس بارے میں آج کچھ بیان کروں گا۔

کچھ عرصہ ہوا وقفِ نو کلاس میں ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا آئندہ مجدد آ سکتے ہیں؟ اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ سوال یا تو بعض گھروں میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ بچوں کے ذہنوں میں اس طرح سوال نہیں اُٹھ سکتے۔ یا بعض وہ لوگ جو جماعت کے بچوں اور نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں سوال پیدا کرواتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپؐ نے ہر صدی کے سر پر مجدد آنے کا فرمایا، اور جماعت میں مختلف وقتوں میں یہ سوال اُٹھتے رہے ہیں، جماعت کے مخلصین میں نہیں، بلکہ ایسے لوگ جو جماعت میں رخنہ ڈالنے والے ہوں اُن لوگوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھائے جاتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں مختلف موقعوں پر وضاحت فرمائی ہے۔ پھر خلافتِ ثالثہ میں یہ سوال بڑے زور و شور سے اُٹھایا گیا، اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مختلف موقعوں پر اور خطبات میں اس پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے۔ پھر خلافتِ رابعہ میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے بھی یہ سوال کیا گیا۔ بہر حال یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو وقتاً فوقتاً اُٹھایا جاتا ہے یا ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، یا پیدا ہوتا رہا ہے۔ اور منافق طبع لوگ جو ہیں اُن کی یہ نیت رہی ہے کہ کسی طرح جماعت میں بے چینی پیدا کی جائے کہ خلافت اور مجددیت میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں عموماً بڑی ہوشیاری سے علم حاصل کرنے کے بہانے سے بات کی جاتی ہے یا اُس حوالے سے بات کی جاتی ہے۔ لیکن بعد میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیت کچھ اور تھی۔ خاص طور پر خلافتِ ثالثہ میں یہ ثابت ہوا کہ اس کے پیچھے ایک فتنہ تھا۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی جاری خلافت کے لئے بھی وہ زبردست قدرت کا ہاتھ دکھائے گا۔ (ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304)

اس لئے ایسے فتنے جب بھی اُٹھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ختم کر دئیے کیونکہ جماعت کی اکثریت اُن کا ساتھ دینے والی نہیں تھی۔ گو آج یہ فتنہ اُس طرح تو نہیں ہے جو تکلیف دِہ صورتحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے لئے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن بہر حال کیونکہ سوال اِکّا دُکّا اُٹھتے رہتے ہیں اس لئے اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ہر صدی میں تجدیدِ دین کے لئے مجدد کھڑے ہوں گے۔ (سنن أبی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المئۃ حدیث 4291) اور وہاں جو الفاظ ہیں اُس میں صرف واحد کا صیغہ نہیں ہے بلکہ اُس کے معنی جمع کے بھی ہو سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اپنے دعوے کی صداقت کے طور پر بھی پیش فرمایا ہے۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس بارہ میں آپ کے ارشادات اور تحریرات تو بے شمار ہیں جن کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے، تا ہم چند حوالے جیسا کہ میں نے کہا کہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ اگر اِن کو غور سے دیکھا جائے تو آئندہ آنے والے مجددین کے بارہ میں بھی بات واضح ہو جاتی ہے۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا۔ اگرچہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہٴ  خدا اصلاح کیلئے قائم ہوا جاہل لوگ اُس کا مقابلہ کرتے رہے اور اُن کو سخت ناگوار گزرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو اُن کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے‘‘۔ یہ شور مچانے والے پہلے شور بھی مچاتے ہیں پھر مخالفت بھی کرتے ہیں تو بہر حال فرماتے ہیں ’’لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں صدی اور اَلْفِ آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پاکر پھر اپنے عہد کو یاد کیا۔ اور دین اسلام کی تجدید فرمائی۔ مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ سب مذہب مرگئے۔ ان میں روحانیت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑہ پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے۔ اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفسِ امارّہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بے جا دخل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 203-204)

تو آپ واضح یہ فرما رہے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اُس روشنی کو قائم کرنے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے مختلف موقعوں پر مختلف اولیاء اور مجددین پیدا کئے جو اپنے اپنے دائرے میں دین کی روشنی کو پھیلاتے رہے، کیونکہ اس دین کو اللہ تعالیٰ قائم رکھنا چاہتا تھا جبکہ باقی دینوں کے ساتھ ایسی کوئی ضمانت نہیں تھی اور اسی لئے اُن میں ایسی آلائشیں شامل ہو گئیں جن سے وہ دین بگڑ گئے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’تمام زمانے کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہو رہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانے کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اُس کے وقت کو پائیں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 82۔ ایڈیشن 2003ء)

اب یہاں جو مجدد جس کے لئے آپؑ فرما رہے ہیں وہ وہ مجدد ہے جو مسیح موعود ہے جس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ کوئی ایسا مجددنہیں جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہو کہ اُس کا انتظار ہے سوائے مسیح موعود کے۔ جس کی پرانے نبیوں نے بھی خبر دی اور پیش خبری فرمائی، کیونکہ اس کا زمانہ وہ آخری زمانہ ہے جس میں دین کی اشاعت ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام دنیامیں پھیلنا ہے، پیغام دنیا میں پھیلنا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:

’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغِ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا‘‘۔ اب یہاں الفاظ پر غور کریں کہ تبلیغِ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا۔ ’’اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ … اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدیدِ دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20صفحہ3)

یہ مجدد کا کام ہے، تبلیغِ حق اور اصلاح اِس کاپہلے ذکر فرمایا۔ ایمان جو اُٹھ گیا تھا اُس کو دوبارہ قائم کرنا۔ اور اس ایمان اُٹھنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ایک رجلِ فارس پیدا ہو گا جو اُس کو زمین پر لے کر آئے گا۔ پھر آپ فرماتے ہیں:

’’اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کی اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں‘‘، دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں ’’اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولاگیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانے میں براہِ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیرِ الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ مَیں ہی ہوں‘‘۔ (تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4)

پس آپ کا یہ جو مقام ہے صرف مجددیت کا نہیں ہے بلکہ مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے اور اس کی وجہ سے نبوت کا مقام بھی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ مہدی کا زمانہ تجدید کا زمانہ ہے اور خسوف کسوف اُس کی تائید کے لئے ایک نشان ہے۔ سو وہ نشان اب ظاہر ہو گیا جس کو قبول کرنا ہو قبول کرے‘‘۔ (حجۃاللہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 160)

اور یہ خسوف و کسوف کا نشان، چاند گرہن اور سورج گرہن کا نشان جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشان کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوا۔ (سنن الدارقطنی جزو دوم صفحہ 51 کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف والکسوف وھیئتھما حدیث نمبر 1778 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

یہ صرف ہمارے مہدی کا نشان ہے اُس مہدی کا جس کا مقام بہت بلند ہے، صرف مجددیت کا مقام نہیں ہے بلکہ بہت بلند مقام ہے۔ اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف چودھویں صدی کے مجددنہیں بلکہ مسیح و مہدی بھی ہیں۔ باوجود اس کے کہ آپ کو تجدیدِ دین کے کام کے لئے بھیجا گیا ہے اور ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن مقام آپ کا بہت بلند ہے اور مجددیت سے بہت بالا مقام ہے۔ گو آپ نے یہ فرمایا کہ چودھویں صدی کا مجدد مَیں ہوں لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس مقام کی وجہ سے آپ کو نبوت کا درجہ بھی ملا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’جاننا چاہئے کہ اگرچہ عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ حدیث صحیح ثابت ہو چکی ہے کہ خدائے تعالیٰ اس امت کی اصلاح کے لئے ہر ایک صدی پر ایسا مجدد مبعوث کرتا رہے گا جو اُس کے دین کو نیا کرے گا۔ لیکن چودھویں (صدی) کے لئے یعنی اس بشارت کے بارہ میں جو ایک عظیم الشان مہدی چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو گا، اس قدر اشاراتِ نبویہ پائے جاتے ہیں جو اِن سے کوئی طالب منکر نہیں ہو سکتا‘‘۔ (نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 378)

پھر فرمایا:

’’خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانے میں یہ ثابت کر کے دکھلادے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 266)

پس ایک تو آپ کا یہ مقام ہے کہ آپ عظیم الشان مجدد ہیں اور کامل مجدد ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ کی خلافت یا مجددیت تو حضرت عیسیٰ پر آ کر ختم ہو گئی تھی لیکن اسلام کی تعلیم کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہر صدی میں مجددین کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تاکہ بدعات جو سو سال کے عرصے میں دین میں داخل ہوئی ہوں یا برائیاں جو شامل ہوئی ہوں، دین کی اصلاح کی ضرورت ہو، اُن کی اصلاح کر سکے۔ جو کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں وہ دور ہوتی رہیں۔ اور اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس خوبصورت تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے اس کو اصلی حالت میں رکھنے کے لئے مجددین آتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعویٰ پیش فرمایا کہ جب پہلے مجددین آتے رہے تو اس صدی میں کیوں نہیں؟ اس صدی میں بھی مجدد آنا چاہئے۔ اور فرمایا کہ میرے علاوہ کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں اس زمانے کا مجدد ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود بھی ہوں اور مسیح موعود کو کیونکہ نبی کا درجہ ملا ہے اس لئے کامل مجدد ہوں۔ اور چودھویں صدی کا مجدد ہونے کی حیثیت سے، مسیح و مہدی ہونے کی حیثیت سے عظیم الشان مجدد تھے جس کی پیشگوئیاں پہلے نبیوں نے بھی کی ہیں۔ یہ بات اپنی صداقت کے طور پر آپ اُن مخالفین کو فرمارہے ہیں جو کہتے تھے کہ آپ کا دعویٰ غلط ہے۔ پس یہ آپ کی شان ہے اور اس حوالے سے ہمیں ان سارے حوالوں کو پڑھنا چاہئے۔ اب آپ کی اس شان کو اگر سامنے رکھا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خلافت کے قیام کے بارے میں حدیث پیش کی جاتی ہے اُس کو سامنے رکھا جائے تو آئندہ آنے والے مجددین کا معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور واضح ارشاد ہے۔ آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں ایک جگہ فرمایا کہ’’یہ امام جو خدا کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجددِ صدی بھی ہے اور مجدد اَلْفِ آخِر بھی۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20صفحہ208)

اَلْفِ آخِرکا مطلب ہے کہ آخری ہزار سال۔ اس کی وضاحت آپ نے یہ فرمائی کہ ہمارے آدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے اور ہم اس وقت آخری ہزار سال سے گزر رہے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے کے ایک ہزار سال کو اندھیرا سال فرمایا تھا، اندھیرا زمانہ ہو گا اور پھر مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا چودھویں صدی میں، اور پھر مسیح و مہدی کے ظہور کے ساتھ اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہو گی۔ اُس اندھیرے ایک ہزار سال میں کئی مجددین پیدا ہوتے رہے۔ مختلف علاقوں میں مجددین پیدا ہوتے رہے۔ لیکن اُن کی حیثیت چھوٹے چھوٹے لیمپوں کی تھی جو اپنے علاقے کو روشن کرتے رہے، اپنے وقت اور صدی تک محدود رہے، بلکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی آتے رہے۔ لیکن یہ اعزاز اس عظیم الشان مجدد کو ہی حاصل ہوا کہ اُس کو آخری ہزار سال کا مجدد کہا گیا۔ آپ کا اعزاز صرف ایک صدی کا مجدد ہونے کا نہیں بلکہ آخری ہزار سال کا مجدد ہونے کا ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی کا یہ آخری ہزار سال تھا۔ تو آپ نے ایک جگہ پر فرمایا کہ’’چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے یہ ضرور تھا کہ امامِ آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اُس کے لئے بطور ظل کے ہو۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20صفحہ208)

اُس کے زیرِ نگین ہو گا، اُس کے تابع ہو گا۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صدی میں مجدد آ سکتے ہیں آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آ سکتے ہیں لیکن آپ کے ظل کے طور پر۔ اور جس ظل کی آپ نے بڑے واضح طور پر نشاندہی فرمائی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہے اور وہ حدیث یہ ہے:

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا نبوت قائم رہے گی، پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا اور پھر جب تک اللہ چاہے گا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم رہے گی۔ پھر وہ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر ایذا رساں بادشاہت جب تک اللہ چاہے گا قائم ہو گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی، جب تک اللہ چاہے وہ رہے گی۔ پھر جب وہ چاہے گا اُس کو اُٹھا لے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی، پھر آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6مسند النعمان بن بشیرصفحہ285حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت1998)

پس خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو جائے گی تو یہی حقیقت میں تجدیدِ دین کا کام کرنے والی ہو گی۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ ہیں کہ ’’مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں، اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘ (الوصیت روحانی خزائن جلد 20صفحہ306)

اور دوسری قدرت کی مثال آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُنہیں کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے دوسری قدرت کا نمونہ دکھایا۔ پس آپ جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں آپ کے ذریعہ سے حدیث کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ تو خلافت ہی اُس کام کو آگے چلائے گی جو تجدیدِ دین کا کام ہے، جو مجدد کا کام ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تربیت، اصلاح، تبلیغ کے کام جو ہیں خلافت کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں اور گزشتہ ایک سو تین سال سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ پس عین ممکن ہے کہ آئندہ صدیوں میں بھی اس حدیث کے مطابق بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو فرمایا ہے کوئی مجدد ہونے کا اعلان کرے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تابع ہو۔ اور اُس دوسری قدرت کا مظہر ہو جس کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ پس اگر کبھی دو صدیوں کے سنگم پر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسے مجدد کا مقام کسی بھی خلیفہ کو دے سکتا ہے۔ جو اُس وقت کا خلیفہ ہو گا، وہ اُس سے اعلان کروا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے مجددین بھی اُمت میں پیدا ہوتے رہے ہیں جن کی وفات کے بعد پھر لوگوں نے کہا کہ مجدد تھے۔ سو ضروری نہیں کہ مجدد کا اعلان بھی ہو۔ لیکن اگر اللہ چاہے تو مجدد کا اعلان اُس خلیفہ سے کروا سکتا ہے کہ مَیں مجدد ہوں۔ لیکن یہ بھی واضح ہو کہ ہر خلیفہ اپنے وقت میں مجدد ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اُسی کام کو آگے بڑھا رہا ہے جو نبی کا کام ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے۔ چاہے وہ مجدد ہونے کا اعلان کرے یا نہ کرے کیونکہ مجدد ہونے کے اعلان سے یا مجدد ہونے سے خلافت کا مقام نہیں بٹتا۔ بلکہ خلافت کا مقام پہلے ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہر خلیفہ مجدد ہوتا ہے۔ مجدد کا مطلب ہے کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے بدعات کا خاتمہ کرنے والا، اصل تعلیم کو جاری رکھنے والا، اصلاح کی کوشش کرنے والا، تبلیغِ اسلام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہوئے اُس کو آگے پھیلانے والا۔ پس یہ کام تو خلافتِ احمدیہ کے تحت ہو ہی رہا ہے۔ بلکہ یہ کام تو خلافت کے نظام کے تحت مستقل مبلغین کے علاوہ بہت سے احمدی بھی اپنے دائرے میں کر رہے ہیں۔ گویا تجدیدِ دین کے یہ چھوٹے چھوٹے دیے یا lampتو ہر جگہ جل رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل میں تو تجدیدِ دین کے لئے ایک ایک وقت میں سینکڑوں نبی اور مجدد گزرے ہیں، وہی نبی جو تھے وہ خلیفہ بھی کہلاتے تھے اور مجدد بھی کہلاتے تھے۔ (ماخوذا زتحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17صفحہ123)

اسلام میں ہزاروں کیوں نہیں ہو سکتے؟ الفاظ میرے ہیں، مفہوم کم و بیش یہی ہے۔ اور یہ جو سوال اُٹھتا ہے کہ ہر صدی کے مجدد تھے، اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے بارہ صدیوں کے بارہ مجدد گزرے ہیں اور چودھویں صدی کے تیرھویں مجدد آپ ہیں۔ تو تاریخِ اسلام سے تو یہ ثابت ہے کہ ہر علاقے میں مجددین پیدا ہوئے ہیں یہ صرف بارہ کا سوال نہیں ہے بلکہ ایک ایک وقت میں کئی کئی مجددین پیدا ہوئے ہیں۔ دین کی اصلاح کے لئے جہاں جہاں ضرورت پڑتی رہی اللہ تعالیٰ لوگوں کو کھڑا کرتا رہا۔ لیکن پھر سوال یہاں یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ کے لٹریچر میں بھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ ہم بارہ مجددین کیوں گنتے ہیں؟ عربوں میں تو اکثریت ایسی ہے جو اس بات کو نہیں مانتی کہ یہ بارہ مجدد تھے، خاص طور پر اس ترتیب سے جس سے ہم ہندوستانی مجددین گنتے ہیں۔ اکثریت مسلمانوں کی یہ تو مانتے ہی نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ایک بہت اچھا جواب دیا ہے۔ آپ ایک جگہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ ہندوستانی بارہ مجددین کے نام پیش کرتے ہیں کہ شاید یہ تمام دنیا کے لئے تھے حالانکہ یہ غلط ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’مجددین کے متعلق لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک ہی مجدد ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقے میں اللہ تعالیٰ مجدد پیدا کیا کرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدد کو ہی ساری دنیا کا مجدد سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں مختلف مجددین کھڑے ہوں۔ حضرت سید احمدصاحب بریلویؒ بھی بے شک مجدد تھے مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے بلکہ صرف ہندوستان کے مجدد تھے۔ اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی۔ انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی۔ انہوں نے ایران کو کیا ہدایت دی۔ انہوں نے افغانستان کو کیا ہدایت دی۔ ان ملکوں کی ہدایت کے لئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو اِن میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحبِ وحی اور صاحبِ الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی رہنمائی کا فرض سرانجام دیا۔ پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدد تھے۔‘‘ وہ لوگ چاہے انہوں نے اعلان کیا یا نہیں، کسی نے اُن کے بارے میں کہایا نہیں، جنہوں نے بھی دین کی رہنمائی کا فرض ادا کیا، اصلاح کا فرض ادا کیا وہ اپنی اپنی جگہ مجدد تھے۔ ’’اور یہ بھی اپنی جگہ مجدد تھے‘‘ یعنی ہندوستان والے۔ ’’فرق صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ ہندوستان میں آنے والے مجددین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اُس ملک میں آئے جہاں مسیح موعودنے آنا تھا اور اس طرح اُن کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بطورِ ارہاص تھا‘‘۔ آپ سے پہلے آنے والے تھے، بتانے والے تھے کہ مسیح موعود آنے والا ہے۔ چودھویں صدی کا مجدد آنے والا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ورنہ ہمارا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجددین سے خالی رہی ہے۔ ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدیدِ دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدد ہے۔ ہر شخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدد ہے چاہے وہ روحانی مجددنہ ہو۔ جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اور نگزیب‘‘ (جو بادشاہ تھا وہ) ’’بھی مجدد تھا۔ حالانکہ اور نگزیب کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 199)

پس یہ حقیقت ہے مجددین کی کہ ایک ایک وقت میں کئی کئی ہو گئے، بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ جبکہ خلیفہ ایک وقت میں ایک ہی ہو گا۔ اب حیثیت اُس کی بڑی ہے جو ایک وقت میں ایک ہو یا وہ جو ایک وقت میں کئی کئی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خلافت کو مقام دیا ہے کہ وہ علیٰ منہاجِ نبوت ہو گی۔ مجددیت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اور جو حدیث ہے مجدد کے بھیجے جانے کے متعلق اُس کے الفاظ یہ ہیں۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایسا مجدد بھیجے گا جو اُس اُمت کے دین کی تجدید کرے گا۔ (سنن أبی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المئۃ حدیث 4291)

اب یہاں ترجمے میں تو انہوں نے واحد کا صیغہ استعمال کیاہے لیکن یہاں کئی لوگ بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ عربی دان کہتے ہیں مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا میں مَنْ جو ہے اس میں جمع کا صیغہ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ تو جو اُمت کے دین کی تجدید کرے گا یعنی اُمت میں جو بگاڑ پیدا ہو گیا ہو گا اُس کی اصلاح کرے گا اور دین کی رغبت اور اُس کے لئے قربانی کو بڑھائے گا۔ اب ہر صدی کے سر پر مجدد کہا ہے، یا ہر صدی میں مجدد کہا ہے، یا مجددین کا کہا ہے تو اس کو اگر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت والی حدیث سے ملا کر پڑھیں تو اُس میں پہلے نبوت، پھر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا بیان فرمایا۔ پھر اس نعمت کے اُٹھ جانے کے بعد بادشاہت کا، ایذا رسان بادشاہت ہے۔ اب جب تک خلافت علیٰ منہاجِ نبوت تھی پھر اُس کے بعد صحابہ بھی زندہ رہے، بلکہ تابعین بھی رہے، تبع تابعین بھی زندہ رہے، ایک صدی گزر گئی، دین میں اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت تک مجدد کے لئے نہیں کہا۔ صدی گزرنے کے بعد فرمایا کہ مجدد پیدا ہو گا۔ کیونکہ مجددین کی پہلی صدی میں ضرورت نہیں تھی۔ مجدد آنے کی پیشگوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سال گزرنے کے بعد کی فرمائی ہے۔ گویا یہ ایک لحاظ سے خلافت کے ختم ہونے کی پیشگوئی بھی تھی اور بدعات کے اسلام میں داخل ہونے کی پیشگوئی بھی تھی کہ زیادہ کثرت سے بدعات داخل ہو جائیں گی۔ مختلف فرقے بن جائیں گے۔ گو یہ بدعت ایسی چیز تھی جس کی اصلاح کے لئے مجددین نے پیدا ہونا تھا اور پھر یہ مجددین کا سلسلہ اس اصلاح کے لئے شروع ہوا۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے تاریخ بھی ثابت کرتی ہے کہ ایک ایک وقت میں کئی کئی مجددین ہوئے۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مسیح موعود اور عظیم الشان مجدد اور آخری ہزار سال کے مجدد کے آنے کی خوشخبری دی تو پھر دوبارہ خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کی خوشخبری دی۔ پھر آپ نے خاموشی فرمائی۔ پس مجددیت کی ضرورت جس نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر اپنے محدود دائرے میں تجدیدِ دین کرنی ہے یا کرنی تھی تو وہ اُس وقت تک تھی جب تک کہ مسیح موعود کا ظہور نہ ہوتا۔ جب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہو گیا جو چودھویں صدی کے مجدد بھی ہیں اور آخری ہزار سال کے مجدد بھی ہیں تو پھر اُس نظام نے چلنا تھا جو خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا نظام ہے۔ اور جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ زبردست قدرت ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی طرف مختلف روحوں کی رہنمائی بھی فرماتا رہتا ہے۔ اُن لوگوں کو جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مختلف مذہبوں سے تعلق رکھنے والے ہیں، رؤیا میں اُن کو خلفاء کو دکھا کر اس بات کی تائید فرماتا ہے کہ اب نظامِ خلافت ہی اصل نظام ہے اور اس کے ساتھ جُڑ کر ہی تجدیدِ دین کا کام سرانجام پانا ہے۔ کیونکہ نہ ہی قرآنِ کریم میں اور نہ ہی حدیث میں کہیں مجددوں کا ذکر ملتا ہے ہاں خلافت کا ذکر ضرور ملتا ہے جس کا گزشتہ جمعہ سے پہلے 27مئی کے خطبہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں نے آیتِ استخلاف کے حوالے سے ذکر بھی کیا تھا۔

پس مجددیت اب اُس خاتم الخلفاء اور آخری ہزار سال کے مجدد کے ظہور کے بعد اُس کے ظلّ کے طور پر ہو گی اور حقیقی ظلّ جو ہے وہ نظامِ خلافت ہے۔ اور وہی تجدیدِ دین کا کام کر رہی ہے اور کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔

پس اس بحث میں پڑنے کی بجائے کہ اگلی صدی کا مجدد کب آئے گا اور آئے گا کہ نہیں آئے گایا آسکتا ہے یا نہیں آ سکتا ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی پر پختہ یقین پیدا کرتے ہوئے آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اپنی اصلاح کی طرف نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی نسلوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو بھی بدعات سے بچانے کی ضرورت ہے اور اپنی نسلوں کو بھی بدعات سے بچانے کی ضرورت ہے۔ حقیقی اسلامی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور اُسے پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں اشاعت کا کام مختلف ذریعوں سے بھی ہو رہا ہے۔ کتابوں کی رسالوں کی صورت میں بھی اور ٹی وی چینل کے ذریعے سے بھی، اور اسی وجہ سے ہمارے اوپر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اس کام کو آگے بڑھائیں۔ اس کام کو بجا لانے کی طرف ہمیں بھر پور توجہ دینی چاہئے۔ اسلام میں جو بدعات اور غلط تعلیمات داخل ہو گئی ہیں اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دُور فرمایا ہے اور خلافتِ احمدیہ اسی کام کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ پس اس طرف ہر احمدی کو بھی پوری طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ابھی کل یا پرسوں کی ڈاک میں مَیں دیکھ رہا تھا کہ ایک عرب نے لکھا کہ مُلّاؤں کے عمل اور مختلف قسم کی بدعات اور غلط تعلیمات اور نظریات سے میرا دل بے چین تھا، اتفاق سے مجھے ایم۔ ٹی۔ اے کا چینل مل گیا اُس پر اسلام کی حقیقی تعلیمات دیکھیں، حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ وفات یافتہ ہیں نہ کہ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پھر یہ باتیں سُن کر دل کو تسلی ہوئی۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ کیونکہ میرا دل پہلے ہی اس بات کو نہیں مانتا تھا کہ کوئی شخص دو ہزار سال سے زندہ آسمان پر موجود ہو۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ پس مَیں جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔ تو یہ چیزیں ہیں جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے دنیا کو پتہ لگ رہی ہیں۔ سو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد کوئی نئے مجدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اب پورا ایک ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مجدد ہیں جس کا آپ نے خود ذکر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں آپ کا بھر پور دست و بازو بننے کی ضرورت ہے تاکہ اصل تعلیم کو دنیا کے سامنے نکھار کر پیش کریں۔ اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی اور مجدد الف آخر کو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان مہیا فرما دئیے ہیں۔ ہم نے صرف دنیا کی تربیت کے لئے اُن کو آگے پہنچانا ہے۔ اس لئے ہر وہ شخص جو اس خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے میں کوشاں ہو گا اور پھیلانے کی طرف توجہ دے رہا ہے آپ کا اور آپ کی خلافت کا سلطانِ نصیر بن رہا ہے اور وہ تجدید کا ہی کام کر رہا ہے۔ پس ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اس کام کو ہم آگے بڑھانے والے ہوں اور اسلام کی فتح کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس وقت ایک افسوسناک اطلاع ہے۔ ابھی جمعہ کے بعد ایک جنازہ ہے جو مَیں پڑھاؤں گا۔ یہ مکرم خیرالدین باروس صاحب آف انڈونیشیا کا ہے۔ یہ 1947ء میں Medan انڈونیشیا میں پیدا ہوئے اور 1971ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ 1973ء میں انہوں نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ لیا۔ اور فصلِ خاص میں داخل ہوئے۔ پھر اردو زبان سیکھی۔ پھر مسلسل محنت کے ساتھ پڑھائی کرتے ہوئے آپ 1982ء میں جامعہ سے شاہد ڈگری حاصل کر کے کامیاب ہوئے۔ آپ کی پہلی تقرری انڈونیشا میں بطور مبلغِ سلسلہ جون 1982ء میں اپنے آبائی شہر Medan میں ہوئی۔ پھر 83ء میں چار ماہ کے لئے ملائشیا بھجوایا گیا، جہاں انہوں نے کوالا لمپور میں مسجد کی تعمیر کا کام کروایا۔ ملائشیا سے واپسی پر 1993ء میں آپ کو انڈونیشیا کی مختلف جماعتوں میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق ملی۔ 1993ء سے 1998ء تک آپ بطور مشنری انچارج فلپائن کام کرتے رہے۔ 98ء سے آپ کی تقرری پاپوانیو گنی میں بطور مبلغ انچارج ہوئی اور اپنی وفات تک آپ وہیں خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ 6؍جون 2011ء کو مختصر علالت کے بعد بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

خیر الدین باروس صاحب ایک مخلص، اطاعت شعار اور کامل وفا اور وقف کی روح کے ساتھ خدمتِ دین بجا لانے والے مبلغِ سلسلہ تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اِن کے ذریعے سے بہت سی جماعتیں قائم ہوئیں۔ مساجد تعمیر ہوئیں۔ جماعت نے جو بھی کام اِن کے سپرد کیا بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے انہوں نے ادا کیا۔ موصی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کافی شادیاں تھیں اور اس وقت آپ کی تین بیویاں ہیں اور کُل بچوں کی تعداد چودہ ہے جن میں آٹھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور باروس صاحب کے درجات بلند کرے۔ اور نیک اور صالح اور خادمِ دین ان کی نسل میں سے بھی پیدا ہوتے رہیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ جون 2011ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف چودھویں صدی کے مجددنہیں بلکہ مسیح و مہدی بھی ہیں۔ آپ کا اعزاز صرف ایک صدی کا مجدد ہونے کا نہیں بلکہ آخری ہزار سال کا مجدد ہونے کا ہے۔

    آپ کے ذریعہ سے حدیث کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی۔ تو خلافت ہی اُس کام کو آگے چلائے گی جو تجدیدِ دین کا کام ہے۔

    ہر خلیفہ اپنے وقت میں مجدد ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ اُسی کام کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے جو نبی کا کام ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے۔ چاہے وہ مجدد ہونے کا اعلان کرے یا نہ کرے۔

    اگر کبھی دو صدیوں کے سنگم پر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسے مجدد کا مقام کسی بھی خلیفہ کو دے سکتا ہے جو اُس وقت کا خلیفہ ہو گا، وہ اُس سے اعلان کروا سکتا ہے۔

    مجددین ایک وقت میں کئی کئی ہو گئے، بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ جبکہ خلیفہ ایک وقت میں ایک ہی ہوگا۔

    جب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہو گیا جو چودھویں صدی کے مجدد بھی ہیں اور آخری ہزار سال کے مجدد بھی ہیں تو پھر اُس نظام نے چلنا تھا جو خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کا نظام ہے اور جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ زبردست قدرت ہے۔

    پس مجددیت اب اُس خاتم الخلفاء اور آخری ہزار سال کے مجدد کے ظہور کے بعد اُس کے ظلّ کے طور پر ہو گی اور حقیقی ظلّ جو ہے وہ نظامِ خلافت ہے اور وہی تجدیدِ دین کا کام کر رہی ہے اور کرے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔

    فرمودہ مورخہ 10؍جون 2011ء بمطابق 10؍ احسان 1390 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور