مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات اور وقف جدید ۲۰۱۲ء

خطبہ جمعہ 6؍ جنوری 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ (آل عمران: 93)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے(خدا تعالیٰ کی راہ میں) خرچ نہ کرو۔ اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرو اللہ اُسے یقینا خوب جانتا ہے۔

بِرّ اعلیٰ قسم کی نیکی کو بھی کہتے ہیں اور بِرّ کامل نیکی کو بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ ترجمہ میں بتایا ہے۔ پس ایک حقیقی مومن جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہتا ہے نیکیوں کے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی چاہئے جو اُس کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والے ہوں۔ قرآنِ کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے مختلف رنگ میں، مختلف نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اُن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال کے خرچ کو بھی اور اپنی مختلف صلاحیتوں کے خرچ کو بھی نیکی قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت میں بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے۔ اور فرمایا کہ جس مال یا چیز سے تمہیں محبت ہے اگر وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے تو تب یہ بڑی نیکی ہوگی۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہراُس نیکی کا بدلہ دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی جاتی ہے لیکن بہترین جزا اُس وقت ملتی ہے جب بہترین چیز اُس کی راہ میں قربان کی جائے۔ یا خدا تعالیٰ کو وہ بندہ سب سے زیادہ پسند ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اُس کے حصول کے لئے وہ اپنی پسندیدہ ترین اور محبوب ترین چیز بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے سے گریز نہیں کرتا۔

پس سچے ایمان، سچی نیکی اور قربانی کے اعلیٰ معیار کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس چیز کو قربان کیا جائے جو اُسے سب سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ ایمان کی مضبوطی اور سلامتی کے لئے بھی ہر قسم کی قربانی کے لئے مومن تیار رہتا ہے اور ایک حقیقی مومن کو (تیار) رہنا چاہئے۔ نیکیوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے بھی ہر وقت ایک حقیقی مومن بے چین رہتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک صحابی ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں اپنا سب سے پسندیدہ مال جو بئرِ روحا کے نام سے جانا جاتا تھا، وہ اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ پھر اُس کو فرمایا کہ اس کو تم نے کس طرح خرچ کرنا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر باب لن تنالوا البر حتی …حدیث نمبر4554)

بہر حال صحابہ ہر وقت اس تڑپ میں رہتے تھے کہ کب کوئی نیکی کا حکم ملے اور ہم اسے بجا لانے کے لئے ایمان، اخلاص، وفا اور قربانی کا اظہار کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو انتہائی قابلِ رشک فرمایا ہے۔ اور یہ معیار حاصل کرنے والے ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں بے شمار نظر آتے ہیں جو سرًّا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور اعلانیہ بھی۔ چھپ کر بھی کرتے تھے اور ظاہری طور پر بھی کرتے تھے تا کہ وہ معیار حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ ایک مومن سے چاہتا ہے۔ اُن کی قربانیوں کی نیت بھی خدا تعالیٰ جانتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے انتہا نوازا۔ معمولی کام کرنے والوں کو ایک وقت آیا کہ کروڑوں کا مالک بنا دیا۔ اور یہ مالی فراوانی اُن کے ایمان اور یقین کو مزید جِلا بخشتی گئی۔ وہ آنے والے مال کو اور جائیداد کو بے دریغ، بغیر کسی خوف و خطر کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے گئے۔ اُن کو اس بات کا عرفان اور ادراک حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ بے انتہا نوازتا ہے۔ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اُدھار نہیں رکھتا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی نے اُن میں جو روحانی انقلاب برپا کیا تھا اُس وجہ سے وہ اس فکر میں ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ یہی اُن کا مقصود تھا جس کے لئے وہ سر توڑ کوشش کرتے تھے۔ صحابہ کی زندگیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ انہوں نے اس مقصود کو پا بھی لیا جس کے لئے وہ کوشش کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خوشنودی کی سند حاصل کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’کیا صحابہ کرامؓ مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہو سکتی، ملتا ہے۔ پھر خیال کرو کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ کا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے، کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟‘‘ فرمایا ’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جاسکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اُس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر47۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اس زمانے میں دنیا کی اصلاح کے لئے، دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ آپ علیہ السلام صحابہ کی مثال دے کر جب ہمیں کچھ بیان فرماتے ہیں تو اس لئے کہ یہ پاک نمونے ہمارے لئے اسوہ ہیں۔ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرو۔ اور اگر کوشش کرو گے تو حقیقی نیکیاں سرانجام دینے والے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکو گے۔ اور پھر جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی براہِ راست تربیت سے ایسے ہزاروں وجود دنیا کو دکھائے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اس ایمان کی حرارت اور قربانیوں کی وجہ سے جماعت ہر دن ایک نئی شان سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی اُن لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت پائی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو خوب سمجھا کہ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ: ’’نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نصّ صریح ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: 93) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے، اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر47۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

صحابہ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ تھے وہ اس بات کا ادراک حاصل کرنے کے بعد قربانیوں کے لئے بے چین رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اعلیٰ معیار کی نیکیاں حاصل کرنے کے لئے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے۔ کوشش بھی کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ کے نظارے بھی دیکھتے تھے۔ یہاں میں آپ کو ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ مہاجر قادیان بیان کرتے ہیں کہ: ’’ایک دفعہ میں سالانہ جلسہ پر حاضر ہوا تو مَیں نے عرض کی کہ میں نے خلوت میں‘‘ (علیحدگی میں) ’’کچھ عرض کرنا ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) ’’فرمایا اندر آ جاؤ۔ اتفاق سے وہ کھڑکی کھلی رہی اور میرے ساتھ اور کئی احباب اندر آ گئے۔ مَیں نے عرض کی کہ والد صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے لڑکے کو اچھی تعلیم دی۔ جب سے ملازم ہوا ہماری کوئی خدمت نہیں کی‘‘۔ (مَیں نے یہ عرض کیا حضور کی خدمت میں کہ والد تو یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے بیٹے کو تعلیم دلوائی، ملازمت دلوائی، ہماری خدمت نہیں کر رہا۔) ’’اور بیوی کہتی ہے کہ تو اچھا احمدی ہوا ہے کہ جو کچھ میرے پاس زیور تھا وہ بھی بِک گیاہے‘‘۔ (باپ کو بھی شکوہ ہے، بیوی کو بھی شکوہ ہے)۔ پھر آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ’’اور یہاں مَیں دیکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کی خدمت کے لئے آپ کے مرید ہزاروں روپیہ قربان کرتے ہیں۔ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دگنی تگنی تنخواہ دے تو میں آپ کی خدمت کرسکوں‘‘۔

ایک طرف باپ کی طرف سے شکوہ ہے کہ میری خدمت نہیں کر رہے، اتنا لکھایا پڑھایا۔ بیوی کی طرف سے شکوہ ہے کچھ نہیں لے کے آتے مجھے اپنا زیور بیچنا پڑتا ہے اور ادھر جب میں نیکیاں دیکھتا ہوں جو یہاں ہو رہی ہیں، قربانیاں دیکھتا ہوں جو آپ کے پاس ہو رہی ہیں کہ لوگ آتے ہیں اور ہزاروں روپیہ دے جاتے ہیں، اس لئے میرے لئے بھی دعا کریں کہ مجھے بھی اللہ توفیق دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ باتیں سن کے فرمایا کہ ’’بہت اچھا ہم دعا کرتے ہیں۔ آپ یاد دلاتے رہیں‘‘۔ (تو یہ کہتے ہیں کہ) ’’اُس وقت میری تنخواہ 55روپے تھی۔ پھر لاہور پہنچ کر ایک کارڈ یاد دہانی کے لئے لکھا‘‘ یعنی دعا کے لئے خط لکھا ’’تو اسی اثناء میں مجھے یوگنڈا ریلوے کی طرف سے120 روپے تنخواہ اور 45 روپیہ بطور الاؤنس کی ملازمت مل گئی۔ جب مجھے پہلی تنخواہ ملی تو مَیں فوراً حضور کے آگے نذرانہ رکھ دیا جو کہ میرے دل میں تھا‘‘۔ (جماعت کے چندے کے لئے، خرچ کے لئے) ’’اور اس کے بعد پھر میں افریقہ چلا گیا۔ میں جب تک وہاں رہاتین گنا تنخواہ ملتی رہی یہ آپؑ کی قبولیتِ دعا کا معجزہ ہے‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر15صفحہ نمبر105روایت حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ)

پھر ایک صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب بذریعہ میاں محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ اُن کو ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت کے قابلِ ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے گھر کے خرچ کے لئے اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج دیتے تھے اور ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر13صفحہ نمبر360روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ)

پھر دیکھیں دین کی خدمت کے لئے اور قربانی دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غریبوں کے دلوں میں بھی شوق پیدا کیا تھا۔ اُن کوبھی تڑپ رہتی تھی جن کی کوئی آمدنہیں تھی۔ غربت تھی، بڑا خاندان تھا، بچے زیادہ تھے، خرچ پورے نہیں ہوتے تھے وہ کس طرح قربانی دیا کرتے تھے۔

حضرت قاضی قمر الدین صاحب رضی اللہ عنہ سائیں دیوان شاہ صاحب کے بارے میں واقعات بیان کررہے ہیں اُس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’مَیں بھی سائیں صاحب سے کبھی دریافت کیا کرتا کہ آپ کو قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے؟‘‘ کیونکہ جہاں ان کا گاؤں تھا، سائیں صاحب وہاں سے گزر کر جایا کرتے تھے اور رات بسرکیا کرتے تھے۔ سائیں دیوان شاہ نارووال کے رہنے والے تھے اور وہاں سے گزرتے ہوئے جاتے تھے۔ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ یہ، نارووال سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے جو کئی میل کا فاصلہ ہے۔ اگر بیچ میں سے بھی جائیں تو شاید کم از کم سو میل ہو۔ تو کہتے ہیں کہ ’’قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے یا شوقِ ملاقات سے جا رہے ہیں؟‘‘ تو کہتے ہیں سائیں دیوان شاہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’مَیں چونکہ غریب ہوں، چندہ تو دے نہیں سکتا اس لئے جا رہا ہوں کہ مہمان خانے کی چارپائیاں بُن آؤں تا کہ میرے سر سے چندہ اتر جائے‘‘۔ تو اس کی جگہ مَیں لنگر خانے کی جو چارپائیاں ہیں اُن کی بنائی کر کے مزدوری کا یہ کام کر آؤں۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر2صفحہ نمبر96روایت حضرت قاضی قمرالدین صاحبؓ)

یہ دو تین مثالیں مَیں نے دی ہیں۔ پس یہ تھے ان لوگوں کی قربانیوں کے، اُن لوگوں کے معیار جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فیض پایا اور روایات میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ لیکن مَیں وقت کی وجہ سے یہی چند ایک بیان کر رہا ہوں۔ اور اس بات کو پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس بات پر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہونے چاہئیں اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں جھکتے چلے جانا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس جماعت کا قیام فرمایا ہے اُس میں قربانی کے اعلیٰ معیار، اپنی محبوب چیزوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے معیار، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگیوں کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گئے۔ یا زیادہ سے زیادہ صرف ایک دونسلوں تک نہیں چلتے رہے بلکہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی قربانی کے یہ ذوق و شوق اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر نئے آنے والے مختلف ممالک کے احمدیوں میں اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی لگتا ہے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ آج جب دنیا مادی عیش و آرام اور سہولتوں کے لئے اپنے مال خرچ کرتی ہے یا خواہش رکھتی ہے تو احمدی اُن کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں احمدیوں کی یہ قربانیاں ہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے ثبوت کے لئے کافی ہیں۔ ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ ہر جگہ یہ قربانی کے نظارے نظر آتے ہیں۔ جو قربانیاں دینے والے لوگ ہیں۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر پوری طرح عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ پس جب تک ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے یہ کوشش جاری رکھیں گے، کوئی دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ۔

ازدیادِ ایمان کے لئے آجکل کی قربانیوں کے بھی چند واقعات مَیں پیش کرتا ہوں۔ یہ پہلا واقعہ مَیں نے انڈیا کے ناظم مال صاحب کی وقفِ جدید کی رپورٹ سے لیا ہے۔ کہتے ہیں خاکسار اور انسپکٹر وقفِ جدید بجٹ بنانے کے سلسلے میں جماعت کیرولائی، کیرالہ میں دورے پر گئے۔ جب پہنچے تو ایک مخلص دوست سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا مَیں نے ابھی ابھی فرنیچر کا نیا کاروبار شروع کیا ہے۔ میرا نئے سال کا وعدہ وقفِ جدید چار لاکھ روپے لکھ لیں۔ اس کے علاوہ اس بزنس سے جو بھی مجھے منافع ہو گا، علاوہ اور چندوں کے اس کا بھی دس فیصد مَیں چندہ وقفِ جدید مزید ادا کروں گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، اُن کا نیا بزنس چل پڑا۔ انہوں نے اپنی بیوی کو ہدایت کی تھی کہ روز کی کمائی سے چندہ جات کا، جتنے بھی چندے ہیں اُن کا الگ حساب نکال کر رکھ لیں۔ اور سال بھر کا جب حساب کیا گیا تو ساڑھے پانچ لاکھ روپیہ وقفِ جدید کا نکلا جو انہوں نے ادا کر دیا اور آئندہ سال کے لئے کہا کہ آئندہ سال میں دس فیصد کی بجائے منافع کا جو پچیس فیصد ہے وہ چندوں میں ادا کروں گا۔

پھر انڈیا سے ہی وقفِ جدید کے انسپکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مارچ 2011ء میں خاکسار جماعت احمدیہ بتھاری تشخیص بجٹ وقفِ جدید کے لئے پہنچا جہاں ایک خاتون کو جب تحریک کی اور احمدی اور مسلمان مستورات کی جانی اور مالی قربانیوں کے بارے میں واقعات سنائے تو انہوں نے اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر وعدہ لکھوا دیا۔ اور وہ معمولی ٹیچر تھی، کوئی ایسی خاص آمدنی نہیں تھی کہ گزارہ بہت اچھا ہوتا ہو۔ پانچ ہزار روپیہ اُن کی تنخواہ تھی جو انہوں نے لکھوائی۔ کہتے ہیں مَیں پھر دوسری جگہ پہنچا جہاں اُس خاتون کے والد رہتے تھے۔ وہ صدر جماعت بھی تھے تو اُن کو بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی نے بڑی قربانی کی ہے۔ اس پر وہ خوشی سے رو پڑے اور اپنی بڑی بیٹی کو بلایا اور اُس کو کہا کہ تمہاری بہن نے یہ قربانی دی ہے۔ تم اُس سے بڑی ہو تم کیا کہتی ہو۔ تو اُس نے فوراً اُس وعدے پر ایک ہزار روپیہ بڑھا کے اپنا وعدہ لکھوا دیا کہ میں بڑی ہوں اس لئے زیادہ دوں گی۔

پھر یہ دیکھیں کہ چند سال پہلے جو لوگ احمدیت میں شامل ہوئے ہیں، اُن کے اخلاص کا اور قربانی کے جذبے کا کیا حال ہے؟

امیر صاحب مالی بیان کرتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک دوست ترابرے صاحب یونین کونسل میں کام کرتے ہیں۔ موصوف چندوں میں باقاعدہ ہیں اور مالی قربانی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مردم شماری کے کام کے لئے بتیس افراد پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی اور کہا گیا کہ ایک مہینہ مسلسل کام کرنا ہے اور ایک دن بھی چھٹی نہیں کرنی۔ اس کے عوض ہر ایک کو ایک لاکھ فرانک سیفا بطور اجرت کے ملے گا۔ جو بھی ٹیم تھی ہر ایک کو اُس میں سے ایک لاکھ فرانک سیفہ ملے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں ہم نے معاہدہ کر لیا۔ ابھی کام کے دن ختم ہونے میں چھ دن باقی تھے کہ اُن کی ریجن، ’’فانا ریجن‘‘ کا جلسہ آ گیا۔ کہتے ہیں انہوں نے پہلے سوچا کہ جماعت سے معذرت کر لیتا ہوں اور جلسے میں شامل نہیں ہوتا لیکن پھر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ مَیں نے بہر حال جماعتی کام کو فوقیت دینی ہے۔ مَیں نے یہ عہد کیا ہوا ہے۔ خدا کا کام اوّل ہے۔ اگر ایک لاکھ نہیں ملتا تو نہ ملے۔ چنانچہ کہتے ہیں مَیں نے کام چھوڑ کے جلسے پر جانے کا پروگرام بنا لیا۔ باقی ساتھی مجھے بڑی ملامت کرنے لگے کہ کیوں پیسے ضائع کر کے جانے لگے ہو۔ کہتے ہیں جب میں جلسے سے فارغ ہو کر ایک ہفتے بعد واپس آیا تو علاقے کی میئر نے کہا کہ تم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چلے گئے تھے لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ تم خدا کی خاطر گئے ہو لہذا تمہارے لئے مَیں نے علیحدہ سے ایک لاکھ سیفا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے لے لو۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ نائب میئر نے بلایا جو کام کا نگران تھا۔ اُس نے بھی یہی کہا کہ گو تم چلے گئے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دل میں خیال آیا کہ تمہیں رقم ملنی چاہئے۔ اُس نے بھی ایک لاکھ سیفادے دیا کہ یہ مَیں نے رکھا ہوا تھا۔ پھر اکاؤنٹس کے انچارج نے بھی دفتر بلایا اور اُس نے بھی اُن کو ایک لاکھ سیفا دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ تم موجودنہ تھے اس لئے مَیں نے تمہارے لئے ایک لاکھ سیفا علیحدہ رکھ لیا تھا تو یہ لے لو لیکن کسی کو بتانا نہیں۔ تینوں نے یہی کہا کہ بتانا نہیں۔ کہتے ہیں کہ جب دیگر ساتھیوں سے پوچھا تو ہر ایک کے پیسوں میں کسی نہ کسی وجہ سے کچھ نہ کچھ کٹوتی ہوئی ہوئی تھی اور کسی ایک کو بھی پورا ایک لاکھ فرانک سیفا نہیں ملا تھا جبکہ مجھے تین لاکھ فرانک سیفہ مل گیا اور یہ محض دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے نتیجے میں تھا۔ انہوں نے اُسی وقت اُس میں سے بیس ہزار فرانک چندہ بھی نکال کر دے دیا۔

پھر گیمبیا کی ایک اور مثال ہے۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک دوست کوتو تراولے صاحب (Kuto Trawally) میرے دفتر آئے اور کہا کہ وہ ایک ہزار ڈلاسی چندہ ادا کرناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں لوگوں پر ادھار رکھ سکتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پر ادھار نہیں رکھ سکتا۔ یہ دوست اپنی ذات میں غریب اور محتاج ہیں اور اپنے خاندان کو بہت مشکل سے سنبھالتے ہیں لیکن مالی قربانی کرنے میں ہمیشہ نظام کی اطاعت کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصے بعد بتایا کہ جب انہوں نے ایک ہزار ڈلاسی چندہ اد اکیا تو اُس کے کچھ عرصے کے بعد ہی اُن کو اس سے زیادہ رقم کہیں سے مل گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ایمان ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی جائے خدا تعالیٰ اس کے مطابق بلکہ اس سے بڑھ کر فضل فرماتا ہے۔

پس یہ ہے ذاتی محبت پر، ذاتی خواہشات پر اللہ تعالیٰ کو ترجیح دینا۔

یہ چند ذکر مَیں نے مختلف ملکوں سے لئے ہیں۔ رپورٹوں میں بے شمار ذکر آتے ہیں۔ سیرالیون کا ایک ذکر ہے۔ مکینی کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کمارا صاحب مخلص احمدی ہیں، مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ جب تحریکِ جدید کے چندے کی وصولی کے لئے ان کے گاؤں گیا تو پتہ چلا کہ ان کا کچھ بقایا تھا اور سال بھی ختم ہونے کو تھا۔ جب ان کے گھر گیا تو (گھر کی حالت کا اندازہ لگائیں، ویسے یہاں بیٹھ کر ہم اندازہ نہیں کر سکتے)۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس اس وقت صرف بیس کپ چاول خریدنے کے لئے رقم ہے تاکہ کل شام تک گھر میں کھانے کا انتظام کیا جا سکے۔ جتنی رقم ہے وہ صرف اتنی ہے کہ کل شام تک میرے پاس گھر والوں کے لئے ایک دن کے کھانے کا خرچہ ہے اُس کے علاوہ رقم آنے کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ لیکن مَیں یہ رقم اپنا بقایا ادا کرنے کے لئے پیش کرتا ہوں۔ کوئی پرواہ نہیں کی۔ اور مَیں نے بیوی بچوں کو بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی کھانے کا انتظام کرے گا۔ کہتے ہیں کہ اسی رات اُن کی ایک بہن نے دوسرے گاؤں سے ایک بوری چاولوں کی بطور تحفہ بھجوا دی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام فرمایا۔

آئیوری کوسٹ کے مبلغ بیان کرتے ہیں کہ ایک نو مبائع خادم ہارون صاحب جو کہ ساندرا شہر میں انڈوں کی تجارت کرتے ہیں، اُن کو جب مقامی معلم نے تربیتی سنٹر میں جا کر تربیت حاصل کرنے کی ترغیب دی تو یہ فوراً تیار ہو گئے اور اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ ابنگرو میں واقعہ تربیتی سنٹر میں پہنچ گئے اور تین ماہ کا کورس کیا اور احمدیت سے متعلق اپنی معلومات کو وسیع کیا اور یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ کے کام جا رہا ہوں، اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے تجارت کو اپنے ایک چھوٹے بھائی کے سپرد کر گئے اور یہ امید تھی اور توکل تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کو خراب نہیں ہونے دے گا۔ تین ماہ کا کورس مکمل کرنے کے بعد جب واپس لوٹے ہیں تو کہتے ہیں میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ایک غیر معمولی منافع تھا جو اُن کو اس عرصے میں ہوا، جو اُن کے ہوتے ہوئے بھی کبھی ان کو نہیں ہوا تھا۔ اور پھر انہوں نے اپنا چندہ پانچ سو سے بڑھا کر ایک ہزار فرانک کر دیا اور پھر اُس میں اللہ تعالیٰ نے مزید برکت ڈالی تو چندہ اور بڑھا دیا اور اب یہ اللہ کے فضل سے چار ہزار فرانک ہر ماہ چندہ ادا کرتے ہیں۔ تحریکِ جدید، وقفِ جدید کے چندوں میں نہ صرف خود شامل ہوتے ہیں بلکہ اپنے مرحوم والدین جو شاید احمدی بھی نہیں تھے، اُن کو بھی شامل کرتے ہیں۔ نومبائع ہیں والدین تو بہر حال احمدی نہیں ہوں گے، اُن کی طرف سے بھی دے دیتے ہیں۔ امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں بوبو شہر کے ایک نو مبائع دوست تراورے (Traore) سلیمان صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خطبہ جمعہ میں وقفِ جدید کی اہمیت کے بارے میں سنا تو میں ساری رات سو نہ سکا کہ جماعت اتنے بڑے بڑے کام کر رہی ہے اور ہم اس میں بھر پور حصہ نہیں لے رہے۔ چنانچہ اگلے دن ساڑھے چار ہزار فرانک سیفا چندہ وقفِ جدید ادا کر کے گئے مگر اگلی رات پھر بڑی بے چینی میں کاٹی تو اگلی صبح پھر مشن ہاؤس میں آئے اور پھر ساڑھے چار ہزار فرانک ادا کیا اور کہنے لگے اب میں کچھ پُر سکون ہوں۔ سوئٹزرلینڈ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک افریقن احمدی دوست ادریس صاحب جن کا تعلق نائیجیریا سے ہے، ایک انٹر نیشنل ادارے میں ملازم ہیں۔ جب یہ سوئٹزرلینڈ آئے تو انہوں نے یک مشت نو ہزار فرانک مسجد کے اکاؤنٹ میں بھجوائے اور ساتھ ہی نام کے ساتھ اپنا ٹیلی فون نمبر بھی لکھ دیا۔ کہتے ہیں مجھے لگا کہ یہ کوئی نیا نام ہے، بڑی حیرانی تھی کہ یہ کون ہے، فون پر جب رابطہ کیا تو پوچھا کہ آپ نے اتنی بڑی رقم اکاؤنٹ میں جمع کرائی ہے یہ کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے یہاں سوئٹزرلینڈ میں آئے تین مہینے ہو گئے ہیں تو اپنا چندہ بھجوایا ہے۔ مبلغ نے کہا کہ تین مہینے کا چندہ بھی اتنا نہیں بنتا تو انہوں نے کہا چھ مہینے پہلے مَیں ایک ایسے ملک میں رہا ہوں جہاں جماعت نہیں تھی اور وہ چندہ بھی میرے ذمے بقایا تھا اس لئے مَیں نے یہ اتنی رقم کُل نو ہزار سوئس فرانک بھجوائی ہے۔

تو یہ ان لوگوں میں ایمان کا معیار ہے کہ بندوں کو تو علم بھی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے حساب ہر وقت صاف رکھ رہے ہیں۔ پھر ایک پاکستانی احمدی دوست ہیں، جو سوئٹزرلینڈ میں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے چندے کی ادائیگی کے لئے پانچ ہزار سوئس فرانک کا وعدہ لکھوایا۔ کمپنی کی طرف سے پانچ ہزار کا بونس ملنے کی امید تھی۔ لیکن ساتھ اُن کو یہ بھی (خیال) تھا کہ بونس ملے گا تو کچھ ذاتی ضروریات جو ہیں اُن پر خرچ کرنا ہے۔ پھر جب یہ پتہ لگا کہ چندہ ہے، وعدہ بھی اتنا لکھوایا ہوا ہے اور اُس کی ادائیگی کا وقت بھی قریب ہے تو انہوں نے اس کو چندے میں ادا کرنے کے لئے بتا دیا کہ انشاء اللہ یہ چندہ ادا کر دوں گا۔ اور کر بھی دیا۔ اور اپنی جو ضرورت ہے وہ پیچھے پھینک دی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اُس پر ایسا فضل فرمایا کہ فرم نے اُن کو پانچ ہزار کے بجائے دس ہزار یورو، دوگنا کر کے بونس ادا کیا۔ اس طرح اُن کی ذاتی ضرورت بھی پوری ہو گئی اور وقفِ جدید کا وعدہ بھی پورا ہو گیا۔

پھر اسی طرح ہمارے بینن کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کے ہمارے معلم ایک جگہ تحریکِ جدید کا چندہ لینے گئے تو عبداللطیف صاحب نے اکتیس سو فرانک سیفا چندہ دیا اور کہا کہ دعا کریں اگر اللہ تعالیٰ مزید آمدن بھیج دے تو مزید چندہ بھجوا دوں گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی ہفتے لطیف صاحب نے معلم کو بلوایا اور مزید سات ہزار فرانک سیفا چندہ دے دیا اور کہاکہ جس دن مَیں نے تمہیں اکتیس ہزار فرانک سیفا چندہ دیا تھا اُسی دن ایک مریض آ گیا تھا جس کے علاج پر اُس نے پہلے مجھے چونتیس ہزار کی رقم دی لیکن پھر یہ کہتے ہوئے کہ میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے، تین ہزار فرانک واپس لے لیا کہ اس کی مجھے ضرورت ہے اور اکتیس ہزار فرانک مجھے دے دیا۔ کہتے ہیں اس پر فوراً میرے دل نے یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واقعی دس گنا بڑھا کر یہ رقم دی ہے، اکتیس سو کی جگہ اکتیس ہزار۔ اس لئے مَیں اپنا یہ چندہ بڑھا کر سات ہزار تمہیں بھجوا رہا ہوں۔ اسی طرح لائبیریا کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک جگہ دورے پر گئے تو آٹھ سالہ طفل نے گھر کے جو چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں پانی لانا، بیگ رکھنا وغیرہ اُن کے چھوٹے چھوٹے کام کئے۔ بچے بھی وہاں بڑے جوش اور جذبے سے مبلغین کی خدمت کرتے ہیں۔ تو مربی صاحب نے خوش ہو کر اُسے پانچ لائبیرین ڈالر انعام دیا اور لائبیرین ڈالر کی بڑی معمولی ویلیو (Value) ہے۔ نماز کے بعد جب مربی صاحب نے احبابِ جماعت کو تحریکِ جدید کے چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی اور خاص طور پر زور دیا کہ بچوں کو بھی ضرور شامل کیا کریں تو وہی بچہ اُٹھا اور اپنے والد کے کان میں جا کے بتایا کہ مَیں نے بھی چندہ دینا ہے اور میرے پاس پیسے ہیں۔ باپ نے کہا کہ اگر تمہارے پاس ہیں تو دے دو۔ چنانچہ بچے نے وہی پانچ ڈالر جو اس کو ملے تھے چندے کے طور پر ادا کر دئیے۔ اس بچے کے اس جذبے کا باقی بچوں پر بھی اثر ہوا تو انہوں نے بھی اپنے والدین سے پیسے لے کے اس تحریک میں شامل ہونا شروع کیا۔

کرغزستان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع دوست ضمیر صاحب (Zameer) نے تقریباً تین سال قبل بیعت کی تھی۔ اور 2008ء میں جب صد سالہ خلافت جوبلی کا جشن منایا گیا تو مرکزی ہدایات کی روشنی میں کچھ رقم مقامی سطح پر بھی اکٹھی کی گئی تھی۔ ان کی تنخواہ اُس وقت چھیاسٹھ ڈالر تھی، غریب ملک ہے۔ کہتے ہیں جب ہمارے مبلغ بشارت احمد صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ بھی جوبلی کے جلسے کے لئے وعدہ لکھوائیں تو انہوں نے چوالیس ڈالر وعدہ لکھوایا اور جب اُنہیں تنخواہ ملی تو سیدھے مشن ہاؤس آئے اور یہ کہہ کر اپنا وعدہ ادا کر دیا کہ گھر جاؤں گا تو خرچ ہو جائیں گے۔ اس طرح وہ گھر صرف بائیس ڈالر لے کر گئے۔ چوالیس ڈالر وہیں دے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اخلاص کی بھی بہت قدر کی۔ تھوڑے عرصے میں اُن کو ایک اور اضافی کام مل گیا جہاں انہیں تقریباً ایک سو پچاس ڈالر اضافی ملنے شروع ہو گئے اور اب تقریباً تین ماہ سے ایک غیر ملکی کمپنی میں کام کر رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے اب اُن کی تنخواہ سات سو ستر ڈالر ہے۔ اور انہوں نے اب وصیت بھی کر دی ہے۔ جب اُن کو مربی نے کہا کہ وصیت کے بعد اب آپ کو ایک بٹا سولہ (1/16) کے بجائے ایک بٹا دس(1/10) چندہ دینا پڑے گا تو انہوں نے کہا میں نے جس دن سے بیعت کی ہے میں تو اُس دن سے ہی ایک بٹا دس(1/10) دے رہا ہوں۔ اسی طرح کرغزستان کی ایک نومبائع خاتون جلدز صاحبہ (Jildiz) ہیں۔ بہت مخلص ہیں۔ اُن کو بیعت کئے ہوئے ایک سال ہوا ہے لیکن اس عرصے میں انہوں نے چندہ نہیں دیا تھا۔ جب اُن کو چندے کے بارے میں بتایا گیا، اُس کی اہمیت واضح کی گئی اور بتایا کہ کون کونسے چندے لازمی ہیں۔ کون کونسے اپنی مرضی سے آپ نے دینے ہیں۔ جب اُن کو مسجد میں تحریک کی جا رہی تھی تو فوراً وہاں سے اُٹھ کے گئیں اور اگلے دن صدر صاحب کو کہا کہ مَیں ابھی ملنا چاہتی ہوں۔ تو صدر صاحب نے کہا کہ مَیں تو ابھی کہیں کام جا رہا ہوں لیکن انہوں نے کہا نہیں مجھے فوراً ملنا ہے۔ چنانچہ وہ آئیں اور پندرہ ہزار کرغز سُم اُن کو چندہ دے دیا۔ صدر صاحب نے پوچھا کہ اتنی بڑی رقم۔ انہوں نے کہا مَیں نے پورا حساب کیا ہے اور میری سال کی آمد پر یہ چندہ بنتا ہے اور اس میں مختلف تحریکات کا چندہ بھی ہے۔ اس لئے مَیں دے رہی ہوں اور پورا ایک سال کا چندہ ادا کر رہی ہوں۔ تو یہ ہیں ان لوگوں کے بھی اخلاص و وفا کے قصے جو نئے احمدی ہو رہے ہیں۔ قربانیاں کرنے کے لئے کس طرح ان میں جوش اور جذبہ پیدا ہو رہا ہے۔ ان چند واقعات کے بعد اب میں وقفِ جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور کچھ کوائف پیش کرتا ہوں۔ یکم جنوری سے وقفِ جدید کا سال بھی شروع ہوتا ہے۔ چوّنواں (54واں ) ختم ہوا ہے۔ یہ پچپنواں (55واں ) شروع ہو رہا ہے اور دنیا کی جو رپورٹس موصول ہوئی ہیں، اُس کے مطابق(افریقن ملکوں کی بعض جگہوں سے بہت ساری رپورٹس نہیں بھی آتیں یا لیٹ آتی ہیں تو شامل نہیں کی جاتیں )۔ چھیالیس لاکھ ترانوے ہزار پاؤنڈ سے اوپر کی وصولی ہے۔ اور گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ کے فضل سے پانچ لاکھ دس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ الحمد للہ

پاکستان حسبِ سابق پہلی پوزیشن میں ہی ہے اور باوجود اس کے کہ وہاں معاشی حالات بہت خراب ہیں، قربانیوں میں انہوں نے کمی نہیں آنے دی۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر شر سے اُن کو پناہ میں رکھے۔ اُس کے بعد امریکہ ہے۔ امریکہ کے بعد پھر برطانیہ ہے۔ وکالتِ مال کا پہلے خیال تھاکہ برطانیہ دوسرے نمبر پر آ رہا ہے۔ لیکن امریکہ والوں نے اپنی آخری رپورٹ جو مجھے بھجوائی اُس کے بعد برطانیہ کو انہوں نے تھوڑا سا پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور یہ تقریباً گیارہ ہزار پاؤنڈ کا بڑا معمولی فرق ہے۔ جو پہلی لسٹ بنی تھی اُس میں برطانیہ نمبر دو ہی تھا لیکن اس کے بعد جو رپورٹ میرے پاس آئی اُس کے مطابق پھر ان کو نمبر تین کرنا پڑا۔ لیکن برطانیہ کا جو اضافہ ہے یہ بھی غیر معمولی اضافہ ہے، بڑا حیرت انگیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب چندہ دینے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ حالانکہ یہاں بھی معاشی حالات خراب ہیں۔ پھر یہ کہ دوسرے اخراجات بھی ہیں، چندے بھی ہیں، مسجدیں بھی تعمیر کرنے کی طرف توجہ ہورہی ہے۔ اُس کے باوجود تحریکِ جدید میں بھی اور وقفِ جدید میں بھی یوکے جماعت نے غیر معمولی اضافہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا ہے اور یہی چیز ہے جس سے لگتا ہے کہ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کی روح کی ان کو سمجھ آ رہی ہے۔ اللہ کرے یہاں کی جماعت باقی ہر قسم کی نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے والی ہو اور اسی طرح دنیا کی ساری جماعتیں بھی۔ لجنہ یوکے نے بھی اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بڑی اونچی چھلانگ لگائی تھی تحریکِ جدید میں بھی اور وقفِ جدید میں بھی۔ اللہ تعالیٰ سب بہنوں اور بچیوں کو بھی جزا دے۔

برطانیہ نمبر تین ہے۔ اُس کے بعد جرمنی نمبر چار پر ہے۔ پھر کینیڈا ہے۔ پھر انڈیا ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ پھربیلجیئم ہے اور سوئٹزر لینڈ ہے۔ اور مقامی کرنسی میں جو اضافہ ہے اُس کے لحاظ سے نمبر ایک پر انڈیا ہے جنہوں نے کافی غیر معمولی اضافہ کیا ہے تقریباً چھتیس فیصد۔ پھربیلجیئم ہے باوجود چھوٹا سا ملک ہونے کے، چھوٹی سی جماعت ہونے کے انہوں نے بہت بڑا جمپ(Jump) لیا ہے۔ تقریباً تیس فیصد کا اضافہ ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔ پھر انڈونیشیا۔

اور چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے فی کس امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ۔ پھر برطانیہ۔ پھر بیلجیئم۔ پھر آئر لینڈ۔ لگتا ہے امریکہ تو اپنے ایک ایسے پوائنٹ پر پہنچا ہوا ہے جہاں شاید مزید جب تک تعداد میں اضافہ نہ کریں اضافہ ممکن نہیں لیکن برطانیہ میں گنجائش موجود ہے اور پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔

افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں میں نمبر ایک گھانا ہے۔ پھر نائیجیریا ہے۔ پھر ماریشس ہے۔ پھر برکینا فاسو ہے۔ پھر یوگنڈا ہے۔

وقفِ جدید کا چندہ ادا کرنے والوں میں بھی اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوّے ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے اور چھ لاکھ نوّے ہزار تک تعداد پہنچ گئی ہے۔ ابھی اس میں بہت گنجائش ہے۔ افریقہ والوں کو مَیں نے کہا تھا کہ اس میں مزید اضافہ کریں۔ نئے آنے والوں کو شامل کرنا چاہئے۔ اب وکالتِ مال انشاء اللہ اُن کو اس تعداد میں اضافے کا بھی ٹارگٹ دے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی سختی سے فرمایا ہے کہ قربانی کی عادت شروع دن سے ڈالنی چاہئے اور افریقہ کی جماعتیں اگر اس طرف کوشش کریں تو یہاں بڑی گنجائش موجود ہے اور انشاء اللہ اس میں بہت خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اب وکالتِ مال کی طرف سے تعداد میں اضافے کے جو بھی ٹارگٹ اُن کو جائیں وہ اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ چاہے معمولی رقم دیں۔ اور تعداد میں بھی اس سال نائیجیریا، نائیجر اور سیرالیون اور برکینا فاسو اور سینیگال اور بینن اور یوگنڈا وغیرہ نے زیادہ کوشش کی۔ گھانا کو میں نے کہا تھا انہوں نے بہت کم کوشش کی ہے۔ گھانا کو اپنی کوشش تیز کرنی چاہئے۔

بالغان کا جو چندہ ہے اُس میں پاکستان کی پہلی تین جماعتیں اول لاہور ہے۔ دوم ربوہ ہے اور پھر کراچی ہے۔

اضلاع میں پہلی دس پوزیشنوں میں پہلے سیالکوٹ ہے۔ پھر راولپنڈی ہے۔ پھر اسلام آباد ہے۔ پھر فیصل آباد ہے۔ پھر شیخو پورہ ہے۔ پھر سرگودھا ہے۔ پھر گوجرانوالہ ہے۔ پھر عمر کوٹ ہے اور گجرات ہے اور بہاول نگر۔ اطفال کی تین بڑی جماعتوں میں لاہور نمبر ایک پر ہے۔ کراچی نمبر دوپر۔ ربوہ نمبر تین پر۔

اطفال میں اضلاع کی پوزیشن۔ سیالکوٹ نمبر ایک پر ہے۔ راولپنڈی نمبر دو۔ اسلام آبادنمبر تین۔ فیصل آباد نمبر چار۔ شیخو پورہ نمبرپانچ۔ گوجرانوالہ چھ۔ عمر کوٹ سات۔ سرگودھاآٹھ۔ نارووال نو اور گجرات دس۔

امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں وصولی کے لحاظ سے۔ لاس اینجلس اِن لینڈ امپائر نمبر ایک پر۔ سلیکون ویلی نمبر دو پر۔ ڈیٹرائٹ تین پر۔ شکاگوچار اور سی ایٹل (Seatle) پانچ۔

اور برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں ہیں۔ رینیز پارک ایک نمبر پر۔ دو پر نیومالڈن۔ تین ووسٹر پارک۔ نمبر چار پر فضل مسجد۔ پانچ پر ویسٹ کرائیڈن۔ چھ برمنگھم ویسٹ۔ سات لیمنگٹن سپا۔ آٹھ مانچسٹر ساؤتھ۔ نو جلنگھم اور دس ساؤتھ ہال۔

اور برطانیہ کے ریجنز کے لحاظ سے پانچ ریجنز ہیں۔ ساؤتھ ریجن نمبر ایک پر۔ پھر مڈلینڈ۔ لنڈن۔ اسلام آباد اور مڈل سیکس۔

جرمنی کی پہلی پانچ ریجنز ہیں۔ ہیمبرگ نمبر ایک پر۔ فرینکفرٹ نمبر دو۔ گروس گیراؤ نمبر تین۔ ڈارمسٹڈ نمبر چار اور ویز بادن نمبر پانچ۔

جرمنی میں دس جو جماعتیں ہیں ان میں نمبر ایک پر رؤڈر مارک۔ کولون۔ فلوئرز ہائم۔ نوئیس۔ نیڈا۔ فلڈا،  فرید برگ۔ روڈ باگو۔ مہدی آبادنمبر نو اور ہناؤ نمبر دس۔

کینیڈا کی پہلی جماعتیں۔ پیس ویلیج نمبر ایک۔ ریکس ڈیل۔ ویسٹن ساؤتھ۔ ووڈ برج، ایڈ منٹن۔

دفتر اطفال میں کینیڈا کی پہلی پانچ جماعتیں۔ ویسٹن ساؤتھ۔ پیس ویلیج ساؤتھ۔ ویسٹن نارتھ ویسٹ۔ ڈرہم اور ہملٹن نارتھ۔

بھارت کی جماعتیں۔ نمبر ایک پر کیرالہ ہے۔ پھر تامل ناڈو، جموں کشمیر، آندھرا پردیش، ویسٹ بنگال، کرناٹک، پنجاب، اڑیسہ، اتر پردیش، مہاراشٹر اور دہلی ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی جماعتیں۔ کالی کٹ، کیرولائی، کنانور ٹاؤن، قادیان، حیدرآباد، کوئمتبور، کولکتہ، چنائی، بینگلور، رِشی نگر اور کارُونا گاپلی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کے، جنہوں نے وقفِ جدید کے چندے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور اس کے ساتھ ہی جیسا کہ مَیں نے کہا آئندہ سال کا بھی آج ہی اعلان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو پہلے سے بڑھ کر قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان قربانیوں میں برکت بھی ڈالے۔ اور جماعت کا جو مال ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالے۔ دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں اُس میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو جماعت کو اپنے منصوبے جاری رکھنے اور اُن کو مکمل کرنے اور اُن میں مزید خوبصورتی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے اس کے بغیر تو کوئی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دعاؤں میں، مال میں برکت کے لئے بھی بہت دعا کیا کریں۔

آخر میں آج نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ یہ جنازہ ہمارے معروف شاعر اور بزرگ شاعر محترم عبدالمنان ناہید صاحب ابن حضرت خواجہ محمد دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے، اُن کا جنازہ ہے۔ یکم جنوری 2012ء کو ترانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

منّان صاحب ایک معزز کشمیری خاندان میں 1919ء میں پیدا ہوئے تھے۔ والد صاحب کا نام خواجہ محمد دین تھا جیسا کہ بتایا ہے۔ اور حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹیؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے، ان کے نانا تھے۔ (ماخوذ ازسیل غم۔ پبلشر: ایم۔ ٹی۔ اے انٹرنیشنل۔ صفحہ ٹائٹل پیج نمبر 4)

حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناہید صاحب کی والدہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ کے پھوپھا تھے اور اُنہی کے گھر میں اِن کی والدہ کی پرورش ہوئی ہے اور چونکہ قادیان میں قیام تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں بھی بہت زیادہ آنا جانا تھا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اماں جان کے پیار اور شفقت سے بھی ان کی والدہ نے خوب حصہ لیا۔ (ماخوذازروزنامہ الفضل جلد 97-62 نمبر 3 مورخہ 4 جنوری 2012 صفحہ 8)

مکرم ناہید صاحب جیسا کہ جماعت کے بہت سارے صاحبِ ذوق لوگ جانتے ہیں (ویسے بھی لوگ جانتے ہیں ) بڑے معروف شاعر تھے اور ان کی نظمیں اور غزلیں بڑی گہری ہوا کرتی تھیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے سیالکوٹ میں حاصل کی۔ 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور 41ء میں ایم اے میں داخلہ تو لیا لیکن اس سے پہلے ہی ان کو ملازمت مل گئی۔ تو انہوں نے پڑھائی کو چھوڑ دیا۔ (ماخوذ ازشعرائے احمدیت از سلیم شاہجہانپوری صاحب صفحہ 644۔ ناشر: ابو العارف۔ مطبع: شریف سنز کراچی۔ طبع اول)

اور 1942ء میں ملٹری اکاؤنٹس میں بھرتی ہوئے اور اسی محکمے سے 1978ء میں ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مختلف جگہوں پر خدمت کی، کام کرنے کی توفیق ملی۔ (ماخوذ ازضلع راولپنڈی تاریخ احمدیت صفحہ 535۔ مرتبہ: خواجہ منظور صادق صاحب۔ مطبع بلیک ایرو پرنٹرز لاہور 2004ء)

اور جہاں جہاں بھی رہے وہاں جماعت کے کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ بڑے دھیمے مزاج اور عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ بڑے اچھے شاعر تھے لیکن جو اپنے جونیئر شعراء تھے، نوجوان شعراء تھے اُن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ادب اور احترام اور بڑے سلیقے کے ساتھ بات کرتے تھے۔ جماعتی مشاعروں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔ بڑے نیک انسان تھے۔ یہاں بھی دو دفعہ آئے ہیں۔ مشاعروں میں حصہ لیا۔ خلافت رابعہ میں بھی اور میرے وقت میں بھی۔

شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی ان کی کوشش ہوتی تھی۔ امانت داری اور دیانت داری کی بڑی عمدہ مثال تھے۔ نماز، روزے کے پابند اور باقاعدگی سے تہجد پڑھنے والے تھے۔ غرباء کے ساتھ ہمدردی اور عفو و درگزر کا سلوک بہت زیادہ تھا۔ خلفاء اور بزرگانِ سلسلہ کا بیحد احترام تھا۔ خلافتِ احمدیہ کے تو بہت زیادہ اطاعت گزار تھے۔ ان کوصفِ اول کے وفا داروں میں کہنا چاہئے۔ جماعتی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ غرض کہ بے نفس انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اہلیہ کی وفات تو ان سے پہلے ہو گئی تھی اور اولاد ان کی کوئی نہیں تھی۔ ایک بیٹا انہوں نے پالا تھا۔ اور جس بیٹے کو انہوں نے پالا تھا اللہ تعالیٰ اُس کو بھی ان کے زیرِ سایہ پلنے بڑھنے کا جو اثر ہے اُس پر ہمیشہ قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس کو بھی جماعت کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اخلاص و وفا کے ساتھ ان کے اس لے پالک کو بھی، اُن کے بچوں کو بھی توفیق دیتا رہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ جنوری 2012ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے صحابہ میں جو روحانی انقلاب برپا کیا تھا اس وجہ سے وہ اس فکر میں ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ کے مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات کا بیان۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس جماعت کا قیام فرمایا ہے اُس میں قربانی کے اعلیٰ معیار، اپنی محبوب چیزوں کو خدا تعالیٰ کی  راہ میں خرچ کرنے کے معیار، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگیوں کے ساتھ ہی ختم نہیں ہو گئے۔ یا زیادہ سے زیادہ صرف ایک دونسلوں تک نہیں چلتے رہے بلکہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی  قربانی کے یہ ذوق و شوق اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہیں۔ آج جب دنیا مادی عیش و آرام اور سہولتوں کے لئے اپنے مال خرچ کرتی ہے یا خواہش رکھتی ہے تو احمدی اُن کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔ جماعت احمدیہ عالمگیر کی مالی قربانی کے دلچسپ اور روح پرور واقعات کا بیان۔

    وقف جدید کے 55 ویں مالی سال کا اعلان۔

    گزشتہ سال وقف جدید میں جماعت نے 46 لاکھ 93 ہزارپونڈز کی قربانی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

    پاکستان اول، امریکہ دوم اور برطانیہ تیسرے نمبر پر رہے۔ مختلف ممالک اور جماعتوں کی مالی قربانی کے جائزے۔

    فرمودہ مورخہ 6؍جنوری 2012ء بمطابق 6؍صلح 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور